کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

تین باتوں میں ہمارے واعظ کامل ہونے چاہئیں

اس اقتباس کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

یہ امر بہت ضروری ہے کہ ہماری جماعت کے واعظ تیار ہوں لیکن اگر دوسرے واعظوں اور ان میں کوئی امتیاز نہ ہو تو فضول ہے۔ یہ واعظ اس قسم کے ہونے چاہئیں جو پہلے اپنی اصلاح کریں اور اپنے چلن میں ایک پاک تبدیلی کر کے دکھائیں۔ تاکہ ان کے نیک نمونوں کا اثر دوسروں پر پڑے عملی حالت کا عمدہ ہونا یہ سب سے بہترین وعظ ہے۔ جو لوگ صرف وعظ کرتے ہیں مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے وہ دوسروں پر کوئی اچھا اثر نہیں ڈال سکتے۔ بلکہ اُن کا وعظ بعض اوقات اباحت پھیلانے والا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ سننے والے جب دیکھتے ہیں کہ وعظ کہنے والا خود عمل نہیں کرتا تو وہ ان باتوں کو بالکل خیالی سمجھتے ہیں۔اس لیے سب سے اوّل جس چیز کی ضرورت واعظ کو ہے وہ اُس کی عملی حالت ہے۔ دوسری بات جو اُن واعظوں کے لیے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ان کو صحیح علم اور واقفیت ہمارے عقائد اور مسائل کی ہو۔ جو کچھ ہم دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اس کو انہوں نے پہلے خود اچھی طرح پر سمجھ لیا ہو اور ناقص اور ادھورا علم نہ رکھتے ہوں کہ مخالفوں کے سامنے شرمندہ ہوں۔ اور جب کسی نے کوئی اعتراض کیا تو گھبرا گئے کہ اب اس کا کیا جواب دیں۔ غرض علم صحیح ہونا ضروری ہے اور تیسری بات یہ ہے کہ ایسی قوت اور شجاعت پیدا ہو کہ حق کے طالبوں کے واسطے ان میں زبان اور دل ہو۔ یعنی پوری دلیری اور شجاعت کے ساتھ بغیر کسی قسم کے خوف و ہراس کے اظہار حق کے لیے بول سکیں اور حق گوئی کے لیے ان کے دل پر کسی دولتمند کا تمول یا بہادر کی شجاعت یا حاکم کی حکومت کوئی اثر پیدا نہ کر سکے۔ یہ تین چیزیں جب حاصل ہوجائیں تب ہماری جماعت کے واعظ مفید ہو سکتے ہیں۔

یہ شجاعت اور ہمت ایک کشش پیدا کرے گی کہ جس سے دل اس سلسلہ کی طرف کھچے چلے آئیں گے۔ مگر یہ کشش اور جذب دو چیزوں کو چاہتی ہے جن کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔ اوّل پورا علم ہو۔ دوم تقویٰ ہو۔ کوئی علم بدُوں تقویٰ کے کام نہیں دیتا ہے۔ اور تقویٰ بدوں علم کے نہیں ہو سکتا۔ سنّت اللہ یہی ہے جب انسان پورا علم حاصل کرتا ہے تو اسے حیا اور شرم بھی دامنگیر ہو جاتی ہے۔ پس ان تینوں باتوں میں ہمارے واعظ کامل ہونے چاہئیں۔ اور یہ میں اس لیے چاہتا ہوں کہ اکثر ہمارے نام خطوط آتے ہیں۔ فلاں سوال کا جواب کیا ہے؟ فلاں اعتراض کرتے ہیں اس کا کیا جواب دیں؟ اب ان خطوط کے کس قدر جواب لکھے جاویں۔ اگر خود یہ لوگ علم صحیح اور پوری واقفیت حاصل کریں اور ہماری کتابوں کو غور سے پڑھیں تو وہ ان مشکلات میں نہ رہیں۔

میرے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہو تو

میری اغراض و مقاصد کو پورا کرو

یاد رکھو ہماری جماعت اس بات کے لیے نہیں ہے جیسے عام دنیا دار زندگی بسر کرتے ہیں۔ نرا زبان سے کہہ دیا کہ ہم اس سلسلہ میں داخل ہیں اور عمل کی ضرورت نہ سمجھی جیسے بدقسمتی سے مسلمانوں کا حال ہے ۔کہ پوچھو تم مسلمان ہو؟ تو کہتے ہیں شکر الحمد للہ۔ مگر نماز نہیں پڑھتے اور شعائر اللہ کی حرمت نہیں کرتے۔ پس میں تم سے یہ نہیں چاہتا کہ صرف زبان سے ہی اقرار کرو اور عمل سے کچھ نہ دکھاؤ۔ یہ نکمّی حالت ہے۔ خدا تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا۔ اور دنیا کی اس حالت نے ہی تقاضا کیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اصلاح کے لیے کھڑا کیا ہے۔پس اب اگر کوئی میرے ساتھ تعلق رکھ کر بھی اپنی حالت کی اصلاح نہیں کرتا اور عملی قوتوں کو ترقی نہیں دیتا بلکہ زبانی اقرار ہی کو کافی سمجھتا ہے۔ وہ گویا اپنے عمل سے میری عدم ضرورت پر زور دیتا ہے۔ پھر تم اگر اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہتے ہو کہ میرا آنا بے سود ہے تو پھر میرے ساتھ تعلق کرنے کے کیا معنے ہیں؟ میرے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہو تو میری اغراض و مقاصد کو پورا کرو۔اور وہ یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے حضور اپنا اخلاص اور وفاداری دکھاؤ اور قرآن شریف کی تعلیم پر اسی طرح عمل کرو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کر کے دکھایا اور صحابہ نے کیا۔ قرآن شریف کے صحیح منشا کو معلوم کرو۔ اور اس پر عمل کرو۔ خدا تعالیٰ کے حضور اتنی ہی بات کافی نہیں ہو سکتی کہ زبان سے اقرار کر لیا اور عمل میں کوئی روشنی اور سرگرمی نہ پائی جاوے۔ یاد رکھو کہ وہ جماعت جو خدا تعالیٰ قائم کرنی چاہتا ہے وہ عمل کے بدوں زندہ نہیں رہ سکتی۔یہ وہ عظیم الشّان جماعت ہے جس کی تیاری حضرت آدم کے وقت سے شروع ہوئی۔ کوئی نبی دنیا میں نہیں آیا جس نے اس دعوت کی خبرنہ دی ہو۔ پس اس کی قدر کرو اور اس کی قدر یہی ہے کہ اپنے عمل سے ثابت کر کے دکھاؤ کہ اہلِ حق کا گروہ تم ہی ہو۔’’

(ملفوظات جلد3 صفحہ371-369۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button