عیسائیت کے گڑھ میں مسجد کا قیام
اس رپورٹ کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دستِ مبارک سے مسجدبیت الحمید فُلڈا (جرمنی) کابابرکت افتتاح
تقریبِ نقاب کشائی، نمازِ ظہر و عصر کی ادائیگی اور تقریبِ افتتاح کا انعقاد
حضورِ انور کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں معاشرے میں امن اور باہمی ہم آہنگی کے قیام کے لیے زرّیں اصول کے بیان پر مشتمل بصیرت افروز خطاب
متعدّد مہمانوں سمیت لوتھر چرچ اور راؤنڈ ٹیبل آف ریلیجنز کے صدور کی شرکت
(فُلڈا، 20؍ اکتوبر 2019، نمائندہ الفضل انٹرنیشنل) آج عیسائی چرچ کی تاریخ میں ایک خاص نام کے حامل شہر فُلڈا(Fulda) میں سو مساجد کی تعمیر کی سکیم کی برکت سے تعمیر ہونے والی مسجد بیت الحمید کا افتتاح تھا۔ حضورِ انور کا قافلہ شام چار بجے بیت السبوح سے روانہ ہوکر پانچ بجے بیت الحمید فلڈا پہنچا تو مقامی جماعت کے افراد نے اسلامی نعرے لگا کر حضورِ انور کو خوش آمدید کہا۔ حضور کے موٹر سے باہر تشریف لانے پر جماعت فلڈا کے صدر صاحب جماعت نے آگے بڑھ کر حضورِ انور سے مصافحہ کرنے کی سعادت حاصل کی۔ عزیزم فاران احمد نے حضور پُر نور کو پھولوں کا گلدستہ پیش کیا۔ حضرت بیگم صاحبہ مدّ ظلہا العالی کے استقبال کے لیے نیشنل اور مقامی صدر لجنہ موجود تھیں۔ عزیزہ شافیہ ملاحت نے حضرت بیگم صاحبہ کی خدمت میں گلدستہ پیش کیا۔
اس موقع پر چھوٹے بچوں اور بچیوں کا گروپ علیحدہ علیحدہ حضور کی کار کے دائیں اور بائیں طرف دینی نغمے پیش کر رہا تھا۔ حضورِ انور نے ہاتھ ہلا کر بچوں کو ’السلام علیکم‘ کی دعا دی اور پھر مسجد بیت الحمید کی یادگاری افتتاحی تختی کی نقاب کشائی کے لیے آگے بڑھ گئے۔ مسجد بیت الحمید کی نقاب کشائی فرمانے کے بعد حضور مسجد کی پہلی منزل پر تشریف لے گئے جو مردوں کے نماز پڑھنے کے لیے مخصوص ہے۔ مقامی جماعت کے افراد پہلے سے مسجد میں موجود تھے۔ یہاں حضور نے محراب کے پاس کھڑے ہو کر مقامی صدر صاحب سے تعمیر کے امور سے متعلق چند منٹ گفتگو کی اور پھر پانچ بجکر دس منٹ پر نمازِ ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں۔ نمازوں کے بعد حضورِ انور نیچے تشریف لائے اور عمارت کا معائنہ فرمایا۔ حضورِ انور دورانِ معائنہ خواتین کی طرف بھی تشریف لے گئے اور بچیوں میں چاکلیٹ تقسیم فرمائیں۔ یہاں سے فارغ ہوکر حضورِ انور نے مشن ہاؤس میں پودا لگایا اور دعا کروائی۔ حضور اس بلڈنگ میں بھی معائنہ کی غرض سے تشریف لے گئے جو پہلے سے تعمیر شدہ ہے اور جماعت کے دفاتر اور اور مربّی سلسلہ کی رہائش کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ اس بلڈنگ کے بارے میں بھی حضور نے کچھ ہدایات دیں۔
بعد ازاں حضور پُر نور مسجد کے پلاٹ کے اس حصہ کی طرف تشریف لائے جہاں دو بھائیوں مرزاداؤد احمد اور مرزا مسعود احمد مل کر اپنا مکان تعمیرکروانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس جگہ پران کی پوری فیملی جمع تھی جن کی موجودگی میں حضورِ انور نے ایک اینٹ نصب فرمائی اور ساتھ دعا پڑھتے رہے۔ ان کی خواہش پر حضورِ انور نے ان کے صحن میں پودا بھی لگایا اور ہاتھ اٹھا کر دعا کروائی جس میں تمام لوگ شامل ہوئے۔
یہاں سے دوبارہ مسجد کی طرف جاتے ہوئے حضورِ انور نے وہاں موجود تمام بچوں میں چاکلیٹ تقسیم کیں۔عہدیداران کے ساتھ گروپ فوٹوز ہوئے اور پانچ بج کر پچاس منٹ پر حضور پُر نور مع قافلہ تقریبِ افتتاح کو سرفراز فرمانے کے لئے ہوٹل میری ٹیم روانہ ہوئے۔ میریٹیم ہوٹل جرمنی کے تاریخی شہر فلڈا(Fulda) کے وسط میں schlossgarten کے درمیان میں واقع ہے۔
ٹھیک چھے بجے حضور پُر نور مسجد بیت الحمید کی افتتاحی ریسپشن میں رونق افروز ہو گئے۔ حضورِ انور کے ہال میں جلوہ افروز ہونے کے بعد مکرم ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ صاحب (سیکرٹری امورِ خارجہ جماعت احمدیہ جرمنی) نے تمام مہمانوں کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کیا اور تقریب کے باقاعدہ آغاز کے لیے مکرم حافظ ذاکرمسلم طاہر بٹ کو تلاوتِ قرآنِ کریم کے لیے دعوت دی۔ مکرم ڈاکٹر رانا مکرّم احمد نے تلاوت کی جانے والی آیاتِ کریمہ کا جرمن زبان میں ترجمہ پیش کیا۔
بعد ازاں مکرم عبداللہ واگس ہاؤزرصاحب(امیرجماعت احمدیہ جرمنی) تشریف لائے اور مختصر خطاب کیا۔ آپ نے کہا کہ آج ہماری یہ خوش نصیبی ہے کہ ہمارے امام حضرت مرزا مسرور احمد ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہمارے درمیان رونق افروز ہیں۔ اپنے خطاب میں آپ نے فلڈا کا تعارف پیش کیا اور کہا کہ 744ء میں اس شہر کا آغاز ہوا۔ یہاں کا کیتھیڈرل ایک خاص اہمیت کا حامل چرچ تھا۔ فلڈا میں بہت سے قابلِ دید مقامات ہیں جو لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اس شہر میں جماعت احمدیہ کا آغاز 1984ء میں ہوا جب پاکستان میں ظلم و ستم سے تنگ آ کر احمدیوں نے ہجرت کی اور یہاں آباد ہوئے۔ 1990ء میں ایک فلیٹ کرائے پر لے کر ایک سنٹر قائم کیا گیا۔ اس کے بعد مختلف جگہوں پر سنٹر بنائے گئے۔ پھر 2013ء میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ پلاٹ خریدنے کی توفیق عطا فرمائی۔ 26؍ جون 2013ء کو حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دستِ مبارک سے مسجد بیت الحمید کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔
محترم امیر صاحب جرمنی کے بعد محترمہ Sara Kautsch، صدر لوتھر چرچ تشریف لائیں اور خطاب فرمایا۔ آپ نے کہا کہ یہ شہر مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا شہر ہے۔ ہم سب کو مل کر کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے گھروں اور معاشرے میں امن قائم رہے۔
اس کے بعد Round Table of Religions کے صدر محترم Kurt Albrecht نے اظہارِ خیال کیا۔ آپ نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ میں آج کی اس تقریب میں شامل ہوں۔ ہم مختلف مذاہب کے لوگ مل جل کر رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں فلڈا کی جماعت کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمیشہ ہمارے ساتھ تعاون کیا اور آپ سب کو اس مسجد کے افتتاح کے موقع پر مبارک باد دیتا ہوں۔
مہمانوں کی تقاریر کے بعد امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ساڑھے چھے بجے کے قریب منبر پر تشریف لائے اور تشہد و تعوّذ کے بعد سب معزّز مہمانوں کو ’السلام علیکم‘ کا تحفہ عنایت فرمایا اوراس خوشی کے موقعے پر جماعتِ احمدیہ کی دعوت پر یہاں آنے پر تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عبادت کرنے کے لیے ایک جگہ مہیا کی ہے لیکن اس مسجد کی تعمیر کو ممکن بنانے کے لیے یہاں کے لوگوں کا بھی بہت کردار ہے۔ لہٰذا میں اس شہر کے لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ حضورِ انور نے فلڈا شہر کی کونسل اور میئر کا بھی شکریہ ادا کیا۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ آپ لوگوں کا یہاں آنا آپ کے دلوں کی کشادگی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس شہر کی تاریخ بتاتی ہےکہ یہاں عیسائیت بہت پرانی ہے۔ ایسی جگہ مسجد بنانے دینا مسیحی لوگوں کی طرف سے ایسا اظہار ہے جو ان کی روشن خیالی اور کشادہ دلی کو ظاہر کرتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ آپ لوگ سب مذاہب کے ساتھ مل کر رہنا چاہتے ہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اس زمانے میں دنیا باہمی رابطوں، رسل و رسائل کی ترقی، ٹی وی، انٹرنیٹ اور ٹرانسپورٹ میں ترقی کے توسّط سے ایک ہو چکی ہے۔ سفر کرنے میں بہت تیزی آچکی ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ دنیا کی ترقی ہمیں ایک کر رہی ہے اور ہمیں اس ترقی کا فائدہ اٹھانا چاہیے اور بجائے ایک دوسرے سے تحفّظات رکھنے کے ایک دوسرے کے لیے نیک جذبات پیدا کرنے چاہئیں تاکہ ہم مل کر اس ترقی سے فائدہ اٹھا سکیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ امیر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ یہاں میوزیم بھی ہیں۔ پرانی تاریخ کو سنبھالنا بہت اچھی چیز ہے۔ ہمیں تاریخ کے نیک نتائج سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ جہاں میوزیم ہمیں پرانی تاریخ سے آگاہ کرتے ہیں وہاں آئندہ کے لیے بھی راہ بتاتے ہیں۔
حضورِ انو رنے فرمایا کہ یہاں تعلیم حاصل کرنے کی طرف بھی کافی رجحان ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کا تب ہی فائدہ ہوتا ہے جب علم انسان میں روشن خیالی اور وسعتِ نظر پیدا کرے اور دوسروں کے لیے احساس بھی پیدا کرے۔ لیکن اگر اس طرف توجہ نہیں اور ایک دوسرے کی تقریبات میں شمولیت کا حوصلہ نہیں تو تعلیم بے فائدہ ہے۔ اور آپ میں سے اکثر ایسے ہی ہیں جن کو ان کا علم، ان کی تعلیم یہاں لانے کا باعث بنی ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ جس روشن خیالی کا اظہار آپ کی طرف سے ہو رہا ہے ہماری طرف سے بھی ویسا ہی ہو۔
حضورِ انور نےفرمایا کہ سارہ صاحبہ نے کہا کہ ہمیں خدا کی عبادت کی طرف توجہ دینی چاہیے اور یہی امن کا باعث ہے۔ اصل یہی چیز ہے کیوںکہ خدا کی عبادت کرنے والے حقیقی امن پیدا کرنے والے ہیں۔ بانی اسلام رسول اللہ ﷺ کے پاس مدینہ میں نجران سے ایک عیسائی وفد آیا۔ ملاقات کے دوران ان کی عبادت کا وقت ہو گیا تو نبی اکرمﷺ نے اس بات کو محسوس کر لیا۔ حضورﷺ نے ان کو مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت دے دی۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ یہی وہ چیز ہے جس سے امن قائم ہو سکتا ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ آج اسلام کے حوالے سے غلط باتیں منسوب کی جا رہی ہیں حالانکہ اسلام نام ہی امن کا ہے۔ بانی اسلامﷺ نے فرمایا تھا کہ حقیقی مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ ہیں۔ اور اگر ایسی کوئی بات ہو بھی جائے تو اسلام کسی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا۔
پھر اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کو بچانا سارے انسانوں کو بچانا ہے۔ اور یہی حقیقی اسلامی تعلیم ہے اور اسی تعلیم کو جماعت احمدیہ دنیا میں پھیلا رہی ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ راؤنڈ ٹیبل فلڈا کے صدر نے بتایا کہ مخلتف مذاہب کے لوگ یہاں جمع ہوتے ہیں اور ہر سال ایک میٹنگ بھی ہوتی ہے اور مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ جماعت بھی اس میں شامل ہوتی ہے۔ انہوں نے ایک بہت اچھا فقرہ بولا تھا کہ اصل چیز انسانی قدریں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو دماغ ہمیں دیا ہے اگر ہم نے اس کا استعمال نہیں کرنا تو ہم اشرف المخلوقات نہیں بن سکتے۔ اگر انسانی قدریں ہم میں پیدا نہیں ہوتیں تو پھر تو کوئی فائدہ نہیں۔ چنانچہ اصل چیزیں انسانی قدریں ہی ہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ بانی احمدیت علیہ السلام کے زمانے میں ایک ایسا جلسہ ہوا تھا جس میں تمام مذاہب کے نمائندگان کو مدعو کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ہر مذہب والا اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے۔ دوسروں پر اعتراض نہ کرے۔ اسی لیے ہر مذہب کی بات کو سمجھنا اور ہر مذہب کی اچھائی اور برائی پرکھنا روشن خیالی کا ثبوت ہے اور یہی اصل چیز ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ ہمیں چاہیے کہ ہم انسانی قدروں کو قائم کریں اور یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب ہم ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ قرآنِ کریم میں لکھا ہے کہ بعض نمازی ایسے ہیں جن کی نمازیں ان کے لیے ہلاکت کا موجب بن جائیں گی کیونکہ وہ مسکینوں اور غریبوں کا خیال نہیں رکھتے۔ لہٰذا عبادت کرو مگر انسانی قدروں کا بھی خیال رکھو۔ یہی وہ چیز ہے جو جماعت احمدیہ دنیا میں پھیلانے کا عزم رکھتی ہے اور مجھے امید ہے کہ یہاں کے احمدی پہلے سے بڑھ کر اچھے کاموں میں حصہ لیں گے اورعبادت کے ساتھ ساتھ ان کی قدروں کی قدر کریں گے اور اپنے اردگرد رہنے والوں سے حسنِ سلوک کریں گے اور ان میں برداشت کا مادہ بھی ہو گا اور وہ انسانیت کی خدمت بھی کریں گے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ یہاں کے احمدی ایسا ہی کریں۔
حضورِ انور کے خطاب کے بعد پونے سات بجے کے قریب اجتماعی دعا ہوئی۔ تقریب میں شامل تمام ہی لوگوں نے اپنے اپنے انداز سے دعا میں شمولیت اختیار کی۔
بعد ازاں معزز مہمانوں کی خدمت میں عشائیہ پیش کیا گیا۔ حضورِ انور ساڑھے سات بجے کے بعد ہوٹل سے روانہ ہو گئے۔
[مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیے الفضل انٹرنیشنل کے آئندہ شمارے](رپورٹ: عرفان احمد خان، نمائندہ الفضل انٹرنیشنل برائے دورۂ یورپ ستمبر، اکتوبر 2019ء)
پیارے حضور کی خدمت میں محبت بھرا سلام عرض ہے اللّٰہ تعالیٰ آ پ کا بابرکت سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے آمین یارب العالمین۔