انبیاء کا ساتھ دینے والے ہمیشہ کمزور اور ضعیف لوگ ہوتے ہیں
مسٹر محمد علی جعفری ایم -اے وائس پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور کو جو حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ و السلام کی خدمت میں ملاقات کے واسطے حاضر ہوئے۔ حضرت اقدسؑ نے مخاطب کر کے فرمایا:
میں جب مامور ہوا تھا اور خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو بہت صاف طور سے قائم کیا۔ کوئی شک و شبہ نہیں تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشگوئیوں اور قرآن شریف کے عین منشاء کے مطابق اور ٹھیک وقت پر ظہور ہوا تھا اور پھر صداقتِ دعویٰ کے ساتھ خدائی نشان بھی تھے تو میں نے سب سے اوّل اس امر کو گروہِ علماء کے سامنے پیش کیا۔ کیونکہ میں جانتا تھا کہ علماء اس امر کو سب سے پہلے قبول کریں گے۔ میرا خیال تھا کہ یہ لوگ بوجہ علوم دین سے واقفیت رکھنے کے بلا عذر مجھے قبول کر لیں گے۔ کیونکہ میرا دعویٰ عین قرآن و حدیث کے مطابق اور ضرورتِ حَقّہ کے واسطے تھا اور یہ لوگ خود انتظار میں تھے اور تحریراً تقریراً اپنے وعظوں اور لیکچروں میں کہا کرتے تھے کہ چودھویں صدی میں مسیح موعود کا آ جانا یقینی اور قطعی ہے اور علاوہ ازیں کُل علامات جو یہ بیان کرتے تھے میری صداقت کے لیے ظاہر ہو چکی تھیں۔ مگر ہماری وہ امید بالکل غلط نکلی۔ علماء کی طرف سے ہمیں اس دعوت کا جو جواب ملا وہ ایک فتویٰ تھا جس میں ہمیں کافر، اکفر، ضال، مضلّ، دائرۂ اسلام سے خارج، یہود اور نصاریٰ سے بد تر قرار دیا۔ اور لکھا گیا کہ ان لوگوں کو اپنی قبروں میں داخل نہ کیا جائے۔ ان کے جنازے نہ پڑھے جاویں۔ ان کے ساتھ ملاقات نہ کی جاوے۔ ان سے مصافحہ نہ کیا جائے حتٰی کہ یہاں تک تشدد کیا کہ جو ان سے میل جول رکھے گا وہ بھی انہی میں سے ہوگا۔
پھر ان لوگوں سے یہ جواب پا کر ہمیں خیال آیا کہ تعلیم یافتہ لوگ عموماً بے تعصب اور عناد سے پاک ہوتے ہیں۔ لہٰذا اسی خیال سے ہم نے پھر اپنی دعوت نئے تعلیم یافتہ گروہ کے سامنے پیش کی مگر ان میں سے اکثر کو بے قید پایا اور اکثر کو دیکھا کہ وہ خود اسلام میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں اور ان کا یہ خیال ہے کہ اسلام کی تعلیم ایک جاہلانہ اور وحشیانہ زمانہ کی تعلیم تھی۔ اب اس کی ضرورت نہیں۔ اب اس سے فراغت حاصل کرنی چاہیے اور زمانہ کی رفتار کے مناسبِ حال ترمیم کر لینی چاہیے۔ غرض اس طرح سے اس قوم کے لوگوں سے بھی محرومی ہی ہوئی۔ الّا ما شاء اللہ۔
پھر رؤساء کے گروہ کی طرف اپنی دعوت بھیجی کہ ان کو دنیا کا حصّہ دیا جاتا ہے اور یہ سیدھے سادے مسلمان ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان میں سے ایک شخص صدیق حسن خاں نے ہماری کتاب کو چاک کر کے واپس بھیج دیا اور اس طرح سے اپنی قساوت قلبی کا اظہار کیا۔ ان کے بعد ہم نے سمجھا کہ یہ سعادت ہمیشہ ضعفاء ہی کا حصہ ہوتی ہے۔ چنانچہ ہمارا یہ خیال بالکل صحیح نِکلا اور سنّت قدیمہ کے بموجب ضعفاء ہی اکثر ہمارے ساتھ ہوئے جن کو نہ مولویت کا گھمنڈ اور نہ دولت کا تکبر بلکہ سادہ لوح اور پاک نفس ہوتے ہیں۔ اور وہی خدا تعالیٰ کے بھی مقرب ہوتے ہیں۔ چنانچہ اسی گروہ میں سے کئی لاکھ انسان اب ہمارے ساتھ ہیں۔
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی جب نبوت کا خلعت خدا تعالیٰ سے پاکر دعوت اسلام کے خط بادشاہوں کو لکھے تھے تو ان میں سے ہرقل قیصر روم کے نام بھی ایک خط لکھا تھا۔ اس نے پڑھ کر کسی عرب کی جو آپ کی قوم کا ہو تلاش کرائی۔ چنانچہ چند قریشی جن میں ابو سفیان بھی تھا پیش خدمت کیے گئے۔ ان سے بادشاہ نے چند سوال کیے جن میں یہ بھی تھا کہ اس شخص کے آباء و اجداد میں سے کبھی کسی نے نبوت کا دعویٰ تو نہیں کیا؟ جس کا جواب نفی میں دیا گیا۔ پھر پوچھا گیا کہ کوئی بادشاہ تو نہیں گزرا اس کے بزرگوں میں؟ اس کا جواب بھی نفی میں دیا گیا۔ پھر یہ سوال کیا کہ اس شخص کے پیرو کون لوگ ہیں؟ اس کے جواب میں کہا گیا کہ ان کی پیروی کرنے والے غریب اور کمزور لوگ ہیں۔ پھر اس نے دریافت کیا کہ لڑائیوں میں کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ جواب دیا گیا کہ کبھی وہ فتح پاتا ہے اور کبھی ہم کامیاب ہوتے ہیں۔ ان سوالات کے جوابات سُن کر قیصر نے اقرار کیا کہ انبیاء ہمیشہ دنیا میں اسی شان میں آیا کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ اول میں ہمیشہ کمزور اور ضعیف لوگ ہی شامل ہوا کرتے ہیں۔ اس شخص نے اپنی فراست صحیحہ سے معلوم کر لیا کہ واقعی یہ شخص سچا نبی ہے اور یہ وہی نبی ہے جس کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ چنانچہ اس نے یہ بھی کہا وہ وقت قریب ہے کہ وہ میرے تخت کا بھی مالک ہو جاوے گا۔
غرض یہ سنت قدیمہ ہے کہ انبیاء کا ساتھ دینے والے ہمیشہ کمزور اور ضعیف لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ بڑے بڑے لوگ اس سعادت سے محروم ہی رہ جاتے ہیں۔ ان کے دلوں میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو ان باتوں سے پہلے ہی فارغ التحصیل سمجھے بیٹھے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی بڑائی اور پوشیدہ کبر اور مشیخت کی وجہ سے ایسے حلقہ میں بیٹھنا بھی ہتک اور باعث ننگ و عار جانتے ہیں جس میں غریب لوگ مخلص کمزور مگر خدا تعالیٰ کے پیارے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ صدہا لوگ ایسے بھی ہماری جماعت میں داخل ہیں جن کے بدن پر مشکل سے لباس بھی ہوتا ہے۔ مشکل سے چادر یا پاجامہ بھی ان کو میسر آتا ہے۔ ان کی کوئی جائیداد نہیں مگر ان کے لا انتہاء اخلاص اور ارادت سے محبت اور وفا سے طبیعت میں ایک حیرانی اور تعجب پیدا ہوتا ہے جو اُن سے وقتاً فوقتاً صادر ہوتی رہتی ہے یا جس کے آثار اُن کے چہروں سے عیاں ہوتے ہیں وہ اپنے ایمان کے ایسے پکے اور یقین کے ایسے سچّے اور صدق و ثبات کے ایسے مخلص اور باوفا ہوتے ہیں کہ اگر ان مال و دولت کے بندوں، ان دنیوی لذّات کے دلدادوں کو اس لذّت کا علم ہو جائے تو اس کے بدلے میں یہ سب کچھ دینے کو تیار ہو جاویں۔
(ملفوظات جلد 10 صفحہ 304تا307۔ ایڈیشن 1984ء)