باجماعت نماز ادا کرنے کی فرضیت، اہمیت اور فوائد
اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قیام نماز کی طرف متعدد مرتبہ توجہ دلائی ہے۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ نے بھی نماز کےحوالے سے نصائح فرمائیں۔
نماز کی فرضیت ، اہمیت اور برکات کااکثر ذکرکیا جاتا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنےخطبات و خطابات میںافراد جماعت کو بارہا نمازاور نماز باجماعت کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں۔اپنےحالیہ دورہ یورپ میں بھی حضور انور نے افرادجماعت کو اس حوالے سے کئی مواقع پر نصائح فرمائیں۔
اللہ تعالیٰ نےاس زمانے میںحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلامکے ذمہ اسلام کی احیاء نو کاکام سپرد فرمایا۔ اس مقصد کوپوراکرنےکےلیے قیام نمازایک بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی جماعت میں شامل ہونےوالے افراد کےلیے جوشرائط مقررکیں ان میں سے تیسری شرط میں پنجوقتہ نماز کا ذکر ہے۔اس لحاظ سےکسی بھی احمدی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ نماز جیسے عظیم الشان اور اہم ترین فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی یا سستی کرے۔
قرآن کریم میں نمازکا ذکر
قرآن مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے نماز کی اہمیت کو واضح کیا ہےاورپابندی کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ان بے شمارمقامات میںسے چند ایک ہدیۂ قارئین ہیں:
٭…نمازوں کی حفاظت کے لیےاللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
حٰفِظُوْا عَلٰی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِالْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ
‘‘نمازوں کی حفاظت کرو،بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے لیے فرمانبردار بن کرکھڑ ے رہا کرو۔’’
(سورۃالبقرۃ:239)
٭…نماز با جماعت ادا کرنے کی فرضیت کےحوالے سے قرآن کریم میں ذکر ہے:
وَأَقِیْمُوْا الصَّلَوٰۃَ وَآتُوْا الزَّکوٰۃَوَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ
اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوۃ دواور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
(سورۃالبقرۃ:42)
یہ آیات نماز باجماعت ادا کرنے کی فرضیت پر واضح اور صریح دلائل ہیں ۔اگر مقصود صرف نماز قائم کرناہی ہوتا تو آیت کے آخر میں وَارْکَعُوْا مَعَ الرّاکِعِیْنَ ‘‘اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو’’کے الفاظ نہ ہوتے ،جو نماز باجماعت ادا کرنے کی فرضیت پر واضح نص ہیں۔جبکہ نماز قائم کرنے کا حکم تو آیت کے پہلے حصہ وَأَقِیْمُوْا الصَّلَوٰۃ‘‘اور نماز کو قائم کرو’’ میں ہی موجود ہے۔
٭…نماز میں کوتاہی اور سستی کرنے والوں کو منافقین کی صف میں شمار کیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِيْنَةٌ ۔ اِلَّآ اَصْحَابَ الْيَمِيْنِ۔ فِىْ جَنَّاتٍۖ يَّتَسَآءَلُوْنَ ۔ عَنِ الْمُجْرِمِيْنَ ۔ مَا سَلَكَكُمْ فِىْ سَقَرَ ۔ قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ ۔وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِيْنَ ۔ وَكُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآئِضِيْنَ ۔ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّيْنِ ۔ حَتّٰى اَتٰنَا الْيَقِيْنُ ۔ فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِيْنَ ۔
ہر شخص اپنے اعمال کے سبب گروی ہے۔مگر داہنے والے۔باغوں میں ہوں گے، ایک دوسرے سے پوچھیں گے۔ گناہگاروں کی نسبت۔کس چیز نے تمہیں دوزخ میں ڈالا۔وہ کہیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے۔اور نہ ہم مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔اور ہم فضول باتیں کرنے والوں کے ساتھ باتیں کیا کرتے تھے۔اور ہم انصاف کے دن کو جھٹلایا کرتے تھے۔یہاں تک کہ ہمیں موت آپہنچی۔پس ان کو سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی۔
(سورۃالمدثرآیات39تا49)
پھر اللہ تعالیٰ نے یوں تنبیہ فرمائی:
يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّيُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ۔خَاشِعَةً اَبْصَارُهُمْ تَرْ هَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۖ وَقَدْ كَانُوْا يُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ وَهُمْ سَالِمُوْنَ ۔ فَذَرْنِىْ وَمَنْ يُّكَذِّبُ بِهٰذَا الْحَدِيْثِۖ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ ۔
جس دن پنڈلی کھولی جائے گی اور وہ سجدہ کرنے کو بلائے جائیں گے تو وہ سجدہ نہ کر سکیں گے۔ان کی آنکھیں جھکی ہوں گی ان پر ذلت چھا رہی ہوگی، اور وہ پہلے (دنیا میں)سجدہ کے لیے بلائے جاتے تھے حالانکہ وہ صحیح سالم ہوتے تھے۔پس مجھے اور اس کلام کے جھٹلانے والوں کو چھوڑ دو، ہم انہیں بتدریج (جہنم کی طرف)لے جائیں گے اس طور پر کہ انہیں خبر بھی نہیں ہوگی۔
(سورۃالقلم آیات 43تا45)
حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میدانِ قیامت میں اپنی ساق (پنڈلی)ظاہر فرمائے گا جس کو دیکھ کر مومنین سجدہ میں گر پڑیں گے مگر کچھ لوگ سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی کمر نہ مڑے گی بلکہ تختہ (کی طرح سخت)ہوکر رہ جائےگی۔ یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ قسم کھاکر کہتے ہیں کہ یہ آیت صرف ان لوگوں کے لیے نازل ہوئی ہے جو جماعت کے ساتھ نماز ادا نہیں کرتے ۔اسی طرح حضرت سعید بن مسیبؒ (تابعی)فرماتے ہیں: حی علی الصلاۃ ، حی علی الفلاح کو سنتے تھے مگر صحیح سالم، تندرست ہونے کے باوجود مسجد میں جاکر نماز ادا نہیں کرتے تھے۔
قارئین غور فرمائیں کہ نماز نہ پڑھنے والوں یا باجماعت ادا نہ کرنے والوں کو قیامت کے دن کتنی سخت رسوائی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا کہ ساری انسانیت اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ میں ہوگی مگر بے نمازیوں کی کمریں تختے کے مانند کردی جائیں گی اور وہ سجدہ نہیں کرسکیں گے۔
٭…اگرچہ نبی اکرمؐ کی موجودگی سے مشروط ہی سہی لیکن میدان جنگ میں بھی نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَاِذَا کُنْتَ فِیْھِمْ فَأَقَمْتَ لَھُمُ الصَّلٰوۃَفَلْتَقُمْ طَآئِفَۃٌ مِّنْھُمْ مَّعَکَ وَلْیَأْخُذُوْا أَسْلِحَتَھُمْ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَّرَائِکُمْ وَلْتَأْتِ طَآئِفَۃٌ أُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ وَلْیَأْخُذُوْا حِذْرَھُمْ وَأَسْلِحَتَھُمْ…
‘‘جب تم ان میں ہو اور ان کے لیے نماز کھڑی کرو تو چاہیے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لیے کھڑی ہو ،پھر جب یہ سجدہ کر چکیں تو یہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آجائیں اور وہ دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی وہ آجائے اور تمہارے ساتھ نماز ادا کرے اور اپنا بچاؤ اور اپنے ہتھیار لیے رہیں…۔’’
(سورۃ النساء:103)
٭…منافقین کی صفت کہ وہ نمازوں میں سستی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ وَاِذَا قَامُوْا اِلیٰ الصَّلٰوٰۃقَامُوْا کُسَالٰی یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَلَا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیْلًا۔مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ لاَ اِلٰی ھٰٓؤُلَآءِوَلاَ اِلٰی ھٰٓؤُلَآءِ وَمَنْ یُضْلِلِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ سَبِیْلًا
بے شک منافق اللہ سے دھوکا دہی کر رہے ہیں اور وہ انہیں اس دھوکا دہی کی سزا دے گا،اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یاد الٰہی تو یونہی سی برائے نام کرتے ہیں۔وہ درمیان میں ہی معلق ڈگمگا رہے ہیں،نہ پورے ان کی طرف نہ صحیح ان کی طرف،اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہی میں ڈال دے توتو اس کے لیے کوئی راہ نہ پائے گا۔
(سورۃالنساء آیات 143تا144)
احادیث میں نماز کی اہمیت کا بیان
نماز باجماعت کی فرضیت ،اور مساجد میں قیام ِنماز کے وجوب پر دلالت کرنے والی احادیث کثرت کے ساتھ موجود ہیں۔
٭…حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا
لقد ھممت أن آمر بالصلاۃ فتقام ، ثم آمر رجلا أن یصلی بالناس،ثم أنطلق برجال معھم حزم من حطب الی قوم لا یشھدون الصلاۃ ،فأحرق علیھم بیوتھم۔(بخاری، مسلم)
‘‘میرا ارادہ ہے کہ نماز کھڑی کر دی جائے ،پھر میں کسی شخص کو نماز پڑھانے کا حکم دوں ،اور اپنے ساتھ چند لوگوں کو لے جاؤں جن کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوں،اور نماز میں حاضر نہ ہونے والے لوگوں کے گھروں کو آگ لگا دوں۔’’
٭…حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں:
لقد رأیتنا وما یتخلف عن الصلاۃ الا منافق علم نفاقہ ،أو مریض،وان کان المریض لیمشی بین الرجلین حتی یأتی الصلاۃ ،(مسلم)
‘‘ہم اپنے آپ کو دیکھتے تھے ،اور نمازسے وہی شخص پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق واضح ہوتا ،یا پھر مریض،اور اگر مریض بھی پیدل چلنے کی طاقت رکھتا ہوتا تو ضرور نماز کے لیے آجاتا۔’’
٭…حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں:
ان رسول اللّٰہﷺ علمنا سنن الھدیٰ، وان من سنن الھدی الصلاۃ فی المسجد الذی یؤذن فیہ
‘‘نبی کریمﷺ نے ہمیں ہدایت کے طریقے سکھلائے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس مسجد میں اذان ہو اس میں جا کر نمازباجماعت ادا کرنا۔’’
آپ ؓمزید فرماتے ہیں:
‘‘جس شخص کو یہ بات اچھی لگتی ہے کہ وہ کل قیامت والے دن مسلمان ہو کر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے تو اسے چاہیے کہ وہ نمازوں کی حفاظت کرے۔بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کے لیے ہدایت کے طریقے مشروع کیے ہیں ،جن میں سے نمازوں کی حفاظت بھی ہے ۔اور اگر تم نے گھروں میں ہی نمازیں ادا کرنا شروع کر دیں تو تم نے اپنے نبی ﷺ کی سنت کو چھوڑ دیا اور جب تم نے نبی کریم ﷺ کی سنت کو چھوڑ دیا تو تم گمراہ ہو جاؤ گے۔جو شخص بھی گھر سے بہترین وضو کر کے مسجد کا رخ کرتا ہے ،تو اس کے ہر قدم کے بدلے میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے،ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے اور اس کا ایک درجہ بلند کر دیا جاتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو دیکھتے تھے، اور نمازسے وہی شخص پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق واضح ہوتا ،یا پھر مریض،اور اگر مریض بھی پیدل چلنے کی طاقت رکھتا ہوتا تو ضرور نماز کے لیے آجاتا۔
٭…نابینا پر بھی نماز باجماعت فرض ہے
حضرت ابو ہریرہ ؓروایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم ؓنابینا صحابی نبی کریم ﷺ کے پاس تشریف لائے اور کہا!یا رسول اللہؐ !میرے پاس کوئی گائیڈ نہیں ہے جو مجھے مسجد تک لے آیا کرے،کیا مجھے گھر میں نماز ادا کرنے کی اجازت ہے؟نبی کریمﷺ نے پوچھا!ھل تسمع النداء بالصلاۃ؟کیا تو اذان کی آواز سنتا ہے؟اس صحابی نے کہا !ہاں یا رسول اللہﷺ!تو اللہ کے نبیؐ نے فرمایا:فأجب۔اگر تو اذان کی آواز سنتا ہے تو پھر اس ندا پر لبیک کہہ (یعنی مسجد میں ہی آکر نماز ادا کر)۔
٭…جان بوجھ کربلا عذر نماز چھوڑنے والے کے لیے مقام خوف ہے۔نبی کریمﷺ نے فرمایا:
بین الرجل وبین الکفر والشرک ترک الصّلاۃ (مسلم)
مومن اور کافر ومشرک کے درمیان حدّ فاصل نماز ہے۔
دوسری جگہ فرمایا:
العھدالذی بیننا وبینھم الصّلاۃ فمن ترکھا فقد کفر (احمد)
‘‘ہمارے اورکافروں کے درمیان نماز کا عہد ہے،جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا۔’’
تیسری جگہ فرمایا:
رأس الأمر الاسلام وعمودہ الصّلاۃ (احمد)
‘‘معاملے کی چوٹی اسلام ہے اور اس کاستون نماز ہے۔’’
٭…باجماعت نماز کی فضیلت
نماز باجماعت کی فضیلت بہت زیادہ ہے حتٰی کہ اگر دو آدمی بھی ہوں تو جماعت قائم کی جائے۔ ان میں ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی جیسا کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
إِثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ.
(ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب الاثنان جماعة)
دو یا دو کے اوپر جماعت ہے۔
باجماعت نماز کی فضیلت کے حوالے سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مزید احادیث درج ہیں
٭…حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِيْنَ دَرَجَةً.
(بخاری، الصحيح، کتاب الأذان، باب فضل صلاة الجماعة، 1 : 231، رقم : 619)
‘‘باجماعت نماز ادا کرنا تنہا نماز ادا کرنے پر ستائیس درجے فضیلت رکھتا ہے۔’’
٭…حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
‘‘جب آدمی اچھی طرح وضو کر کے مسجد کی طرف جاتا ہے اور اس طرح جاتا ہے کہ نماز کے سوا کوئی دوسری چیز اسے نہیں لے جاتی تو وہ جو قدم بھی اٹھاتا ہے اس کے ذریعے اس کا ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور ایک گناہ (کا بوجھ) ہلکا کیا جاتا ہے پھر جب وہ نماز پڑھتا ہے تو فرشتے اس پر اس وقت تک سلامتی بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ باوضو رہتا ہے اور اس کے لیے یہ دعا کرتے ہیں : اے اﷲ! اس پر سلامتی بھیج، اے اﷲ! اس پر رحم فرما۔ تم میں سے ہر ایک جب تک نماز کا انتظار کرتا ہے وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔’’
(بخاری، الصحيح، کتاب الجماعة والإمامة، باب فضل صلاة الجماعة، 1 : 232، رقم : 620)
٭…‘‘ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے کوئی مختصر اور جامع نصیحت فرمائیں تو آپؐ نے فرمایا کہ جب تم اپنی نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو تو اس شخص کی طرح نماز پڑھو جو دنیا کو چھوڑ کر جانے والا ہو۔ اور اپنی زبان سے ایسی بات نہ نکالو کہ اگر قیامت میں اس کا حساب ہو تو تمہارے پاس کچھ کہنے کے لیے نہ رہ جائے۔ اور لوگوں کے پاس جو کچھ مال و اسباب ہے اس سے تم بالکل بے نیاز ہو جاؤ۔’’
(مشکوٰۃکتاب الرقاق الفصل الثالث)
٭…حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
‘‘جو اﷲ کے لیے چالیس دن نماز باجماعت ادا کرے اور تکبیر اولیٰ پائے اس کے لیے دو آزادیاں لکھ دی جائیں گی ایک دوزخ سے دوسری نفاق سے۔’’
(ترمذی، الجامع الصحيح، ابواب الصلاة، باب في فضل التکبيرة الاولٰی، 1 : 281، رقم : 241)
٭…حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں :
‘‘جس کو یہ پسند ہو کہ وہ حالت اسلام میں کل (قیامت کے دن)اﷲ تعالیٰ سے کامل مومن کی حیثیت سے ملاقات کرے، اسے چاہیے کہ جس جگہ اذان دی جاتی ہے وہاں ان نمازوں کی حفاظت کرے (یعنی وہ نمازِ پنجگانہ باجماعت ادا کرے)۔’’
٭…صحيحين ميں حضرت ابو ہريرہ رضى اللہ تعالىٰ عنہ سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
‘‘اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے، ميں نے ارادہ كيا كہ ايندھن جمع كرنے كا حكم دوں اور وہ جمع ہو جائے تو پھر ميں نماز كے ليے اذان كا حكم دوں اور پھر كسى شخص كو لوگوں كى امامت كرانے كا حكم دوں اور پھر ميں ان مردوں كے پيچھے جاؤں اور انہيں گھروں سميت جلا ڈالوں، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے، اگر كسى كو معلوم ہو جائے كہ اسے موٹى سی گوشت والى ہڈى حاصل ہو گى، يا پھر اسے اچھے سے دو پائے كے كھر حاصل ہونگے تو وہ عشاء كى نماز ميں حاضر ہو ’’
(صحيح بخارى حديث نمبر 7224 ۔ صحيح مسلم حديث نمبر 651)
٭…‘‘جس گاؤں یا جنگل میںتین آدمی ہوں اور وہاں باجماعت نماز نہ ہوتی ہو تو ان پر شیطان مسلّط ہوجاتا ہے اس لیے جماعت کو ضروری سمجھو۔ بھیڑیا اکیلی بکری کو کھا جاتا ہے، اور آدمیوں کا بھیڑیا شیطان ہے۔ ’’
(ابوداؤد، نسائی، مسند احمد، حاکم)
ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ لسلام
٭…نماز اور اخلاق ذریعہ شناخت
‘‘تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کیے جاؤ گے، اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ اس نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا۔’’ (ملفوظات جلد2صفحہ 221)
٭…حضرت مسیح موعود ؑکی درد مندانہ نصیحت
‘‘نماز خدا کا حق ہے اسے خوب ادا کرو اور خدا کے دشمن سے مداہنہ کی زندگی نہ برتو۔ وفا اور صدق کا خیال رکھو۔اگرسارا گھر غارت ہوتا ہوتو ہونے دو مگر نماز کو ترک مت کرو۔ وہ کافر اور منافق ہیں جو کہ نماز کو منحوس کہتے ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ نماز کے شروع کرنے سے ہمارا فلاں فلاں نقصان ہوا ہے۔ نماز ہرگز خدا کے غضب کا ذریعہ نہیں ہے۔ جو اسے منحوس کہتے ہیں ان کے اندر خود زہر ہے۔ جیسے بیمار کو شرینی کڑوی لگتی ہے ویسے ہی ان کو نماز کا مزا نہیں آتا۔ یہ دین کو درست کرتی ہے۔ اخلاق کو درست کرتی ہے۔ دنیا کو درست کرتی ہے۔ نماز کا مزا دنیا کے ہر ایک مزے پر غالب ہے اور لذات جسمانی کے لیے ہزاروں خرچ ہوتے ہیں اور پھر ان کا نتیجہ بیماریاں ہوتی ہیں اور یہ مفت کا بہشت ہے جو اسے ملتا ہے۔ قرآن شریف میں دو جنتوں کا ذکر ہے۔ ایک ان میں سے دنیا کی جنت ہے اور وہ نماز کی لذت ہے۔
(ملفوظات جلد3صفحہ592-591جدید ایڈیشن)
٭…نماز باجماعت کی ضرورت
‘‘نماز میں جو جماعت کا زیادہ ثواب ہے اس میں یہی غرض ہے کہ وحدت پیدا ہوتی ہے اور پھر اس حدیث کو عملی رنگ میں لانے کی یہاں تک ہدایت ہے کہ باہم پاؤں بھی مساوی ہوں اور صف سیدھی ہو اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں۔ اس سے مطلب یہ ہے کہ گویا ایک ہی انسان کا حکم رکھیں اور ایک کےانوار دوسرے میں سرایت کر سکیں’’
(لیکچر لدھیانہ،روحانی خزائن جلد20صفحہ281تا282)
‘‘خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ متقی وہ ہیں جو نماز کو کھڑی کرتے ہیں اور کھڑی وہی چیز کی جاتی ہے جو گرنے کے لیے مستعد ہے۔ پس آیت یُقیمونَ الصّلٰوۃ کے یہ معنی ہیں کہ جہاں تک اُن سے ہو سکتا ہے نماز کو قائم کرنے کے لیے کوشش کرتے ہیں اور تکلف اور مجاہدات سے کام لیتے ہیں مگر انسانی کوششیں بغیر خدا تعالیٰ کے فضل کے بیکار ہیں۔ اس لیے اُس کریم و رحیم نے فرمایا ھُدًی لّلمتّقِیْن یعنی جہاں تک ممکن ہو وہ تقویٰ کی راہ سے نماز کی اقامت میں کوشش کریں۔ پھر اگر وہ میرے کلام پر ایمان لاتے ہیں تو میں ان کو فقط انہی کی کوشش اور سعی پر نہیں چھوڑوں گا بلکہ میں آپ ان کی دستگیری کروں گا۔ تب اُن کی نماز ایک اَور رنگ پکڑ جائے گی اور ایک اَور کیفیت اُن میں پیدا ہو جائے گی جو اُن کے خیال و گمان میں بھی نہیں تھی۔ یہ فضل محض اس لیے ہوگا کہ وہ خدا تعالیٰ کے کلام قرآن شریف پر ایمان لائے اور جہاں تک اُن سے ہو سکا اُس کے احکام کے مطابق عمل میں مشغول رہے۔ غرض نماز کے متعلق جس زائد ہدایت کا وعدہ ہے وہ یہی ہے کہ اس قدر طبعی جوش اور ذاتی محبت اور خشوع اور کامل حضور میسر آجائے کہ انسان کی آنکھ اپنے محبوب حقیقی کے دیکھنے کے لیے کھل جائے اور ایک خارق عادت کیفیت مشاہدہ جمالِ باری کی میسر آجائے جو لذّات روحانیہ سے سراسر معمور ہو اور دُنیوی رذائل اور انواع و اقسام کے معاصی قولی اور فعلی اور بصری اور سماعی سے دل کو متنفر کر دے۔
(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد 22صفحہ 139)
٭…حضرت مسیح موعود ؑ اپنے ایک مخلص صحابی حضرت شیخ حامد علی صاحبؓ کی پابندیٔ نماز کاذکر کرتے ہوئےفرماتے ہیں:
‘‘حبّی فی اللّٰہ شیخ حامد علی۔ یہ جوان صالح اور ایک صالح خاندان کا ہے…میں نے اس کو دیکھا ہے کہ ایسی بیماری میں جو نہایت شدید اور مرض الموت معلوم ہوتی تھی اور ضعف اور لاغری سے میّت کی طرح ہو گیا تھا۔ التزام ادائے نماز پنجگانہ میں ایسا سرگرم تھا کہ اس بے ہوشی اور نازک حالت میں جس طرح بن پڑے نماز پڑھ لیتاؔ تھا۔ میں جانتا ہوں کہ انسان کی خداترسی کا اندازہ کرنے کے لیے اس کے التزام نماز کو دیکھنا کافی ہے کہ کس قدر ہے اور مجھے یقین ہے کہ جو شخص پورے پورے اہتمام سے نماز ادا کرتاہے اور خوف اور بیماری اور فتنہ کی حالتیں اس کو نماز سے روک نہیں سکتیں وہ بے شک خدائے تعالیٰ پر ایک سچا ایمان رکھتا ہے مگریہ ایمان غریبوں کو دیا گیا دولت مند اس نعمت کو پانے والے بہت ہی تھوڑے ہیں۔’’
(ازالہ اوہام حصہ دوم ،روحانی خزائن جلد 3صفحہ540)
حضرت مسیح موعودؑ کابیان فرمودہ واقعہ حضرت مصلح موعود ؓکی زبانی
٭…حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ حضرت معاویہ کی صبح کے وقت آنکھ نہ کھلی اور کھلی تو دیکھا کہ نماز کا وقت گزر گیا ہے۔ اس پر وہ سارا دن روتے رہے۔ دوسرے دن انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی آیا اور نماز کے لیے اٹھاتا ہے۔ انہوں نے پوچھا تُو کون ہے؟ اس نے کہا شیطان ہوں جو تمہیں نماز کے لیے اٹھانے آیا ہوں۔ انہوں نے کہا تجھے نماز کے لیے اٹھانے سے کیا تعلق؟ یہ بات کیا ہے؟ اس نے کہا کہ کل جو میں نے تمہیں سوتے رہنے کی تحریک کی اور تم سوتے رہے اور نماز نہ پڑھ سکے اس پر تم سارا دن روتے رہے، فکر کرتے رہے۔ خدا نے کہا کہ اسے نماز باجماعت پڑھنے سے کئی گنا بڑھ کر ثواب دے دو۔ (یعنی اس رونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو کئی گنا ثواب دینے کا حکم دیا) تو مجھے اس بات کا بڑا صدمہ ہوا۔ (شیطان کہتا ہے کہ مجھے اس بات کا بڑا صدمہ ہوا)کہ نماز سے محروم رکھنے پر تمہیں اور زیادہ ثواب مل گیا۔ آج میں اس لیے جگانے آیا ہوں کہ آج بھی کہیں تم زیادہ ثواب نہ حاصل کر لو۔ تو آپ فرماتے ہیں کہ شیطان تب پیچھا چھوڑتا ہے جب کہ انسان اس کی بات کا توڑ کرتا ہے، اس سے وہ مایوس ہو جاتا ہے اور چلا جاتا ہے۔
(ماخوذ از ملائکۃاللہ۔ انوارالعلوم۔ جلد 5صفحہ 552)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات بابت قیام نماز
٭…نمازیں نیکی کا بیج ہیں
‘‘نمازیں نیکی کا بیج ہیں پس نیکی کے اس بیج کو ہمیں اپنے دلوں میں اس حفاظت سے لگانا ہو گا اور اس کی پرورش کرنی ہو گی کہ کوئی موسمی اثر اس کو ضائع نہ کر سکے۔ اگر ان نمازوں کی حفاظت نہ کی تو جس طرح کھیت کی جڑی بوٹیاں فصل کو دبا دیتی ہیں یہ بدیاں بھی پھر نیکیوں کو دبا دیں گی۔ پس ہمارا کام یہ ہے کہ اپنی نمازوں کی اس طرح حفاظت کریں اور انہیں مضبوط جڑوں پر قائم کر دیں کہ پھر یہ شجر سایہ دار بن کر، ایسا درخت بن کر جو سایہ دار بھی ہو اور پھل پھول بھی دیتا ہو، ہر برائی سے ہماری حفاظت کر ے ۔ پس پہلے نمازوں کے قیام کی کوشش ہو گی۔ پھر نمازیں ہمیں نیکیوں پر قائم کرنے کا ذریعہ بنیں گی۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک احمدی کی شناخت یہی بتائی ہے۔’’
(خطبات مسرور جلد6صفحہ66-65)
‘‘پانچ نمازیں ہر بالغ عاقل مسلمان پر فرض ہیں اور مَردوں پر یہ مسجدوں میں باجماعت فرض ہیں اور اس کے لیے انتظام ہونا چاہیے۔ یا تو یہ کہہ دیں کہ ہم بالغ نہیں۔ یا یہ کہہ دیں کہ بے عقل ہیں، تو ٹھیک ہے۔ اور جب یہ دونوں چیزیں نہیں تو پھر باجماعت نماز کی ہر جگہ کوشش ہونی چاہیے۔’’
(خطبہ جمعہ فرمود 12؍فروری 2016ء۔مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 4؍مارچ2016ء)
‘‘اگر تم اس فکر سے نمازوں کی طرف توجہ دو گے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے اور دنیاوی معاملات ایک طرف رکھ کر اس کے حضور حاضر ہو جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری اس نیک نیت اور اس کی عبادت کرنے کی وجہ سے تمہارے دنیوی معاملات میں بھی برکت ڈالے گا۔’’
(خطبات مسرور جلد 3ص25)
باجماعت نماز کا جہاں انسان کو ذاتی فائدہ ہوتا ہے، وہاں جماعتی فائدہ بھی ہے اور جو نمازوں پر مسجد میں نہیں آتے یا بعض ایسے بھی ہیں کہ آکر آپس میں رنجشوں کو دُور کر کے اُنس اور تعلق پیدا نہیں کرتے انہیں نمازیں پھر کوئی فائدہ نہیں دیتیں۔ کیونکہ ایک نماز کا عبادت کے علاوہ جو مقصد ہے ایک وحدت پیدا ہونا آپس میں اُنس اور محبت پیدا ہونا وہ حاصل نہیں ہوتا۔ اس سوچ کے ساتھ ہمیں اپنی نمازوں کی حفاظت بھی کرنی چاہیے اور اس سوچ کے ساتھ مسجد میں آنا چاہیے تا کہ ہم ایک ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول نمازیں ادا کرنے والے بنیں اور اس کی رضا حاصل کرنے والے بنیں۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ15؍جنوری2016ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 5فروری 2016ء)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نمازوں کو جو اس کا حق ہے اس طرح ادا کرو۔ مردوں کے لیے نمازوں کا یہ حق ہے کہ پانچ وقت مسجد میں جا کے باجماعت ادا کی جائیں۔ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اس زمانے میں یہ ادا کرنی مشکل ہیں، ہر جگہ مسجد نہیں ہوتی۔ مسجد نہیں ہوتی تو کوئی نہ کوئی جگہ تو ہوتی ہے۔ مسلمان کے لیےتو ساری زمین ہی مسجد بنائی گئی ہے۔
(خطبات مسرور جلد2ص647)
نماز میں حصول حضور کی دعا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دوستوں کو نماز میں حصول حضور کی دعا سکھائی۔ آپ فرمایاکرتے تھے کہ نماز میں حصول حضور کا ذریعہ خود نماز ہے۔ اسے ذوق و شوق سے پڑھا جائے تو خدا کے فضل سے نماز میں لذت آنی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ دعا ہمیں بکثرت پڑھنی چاہیے۔
‘‘اے خدا تعالیٰ قادر و ذوالجلال ! میں گناہ گار ہوں اور اس قدر گناہ کے زہر نے میرے دل اور رگ وریشہ میں اثر کیا ہے کہ مجھے رقت اور حضور نماز حاصل نہیں تُو اپنے فضل و کرم سے میرے گناہ بخش اور میر ی تقصیرات معاف کر اور میرے دل کو نرم کر دے اور میرے دل میں اپنی عظمت اور اپنا خوف اور اپنی محبت بٹھا دے تاکہ اس کے ذریعہ سے میری سخت دلی دور ہو کرحضور نمازمیں میسر آوے۔’’
(الحکم4؍مئی1904ءصفحہ2)
اللہ تعالیٰ ہمیںنمازبا جماعت کی اہمیت کو سمجھنےاورقیام نماز کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری نمازیں خالصۃً اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنےوالی ہوں جن کےذریعہ توحید کا قیام عمل میں آئے۔ آمین
٭…٭…٭