اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابہ ؓکی سیرتِ مبارکہ کا دلنشیں تذکرہ
خطبہ جمعہ کے خلاصہ کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
مکرم خواجہ رشیدالدین قمر صاحب کی وفات پر ان کاذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 18؍اکتوبر2019ءبمقام گیزن، جرمنی
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ18؍اکتوبر2019ء کوگیزن کے ایگزیبیشن سینٹرمیں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایاجو مسلم ٹیلیوژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشر کیا گیا۔ اس خطبے کے متعدد زبانوں میں تراجم بھی براہِ راست نشر کیے گئے۔ جمعے کی اذان دینے کی سعادت مکرم حافظ اویس احمد قمرصاحب کے حصے میں آئی۔
تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آنحضرت ﷺ کےبدری صحابہ کا ذکر جو مَیں نے شروع کیا ہوا ہے آج بھی وہی ذکر کروں گا۔ گذشتہ دورے کی وجہ سے یہ سلسلہ ٹوٹ گیا تھا۔ آخری خطبہ 20؍ستمبر کا تھا جس میں حضرت خبیب بن عدیؓ کا ذکر کیا گیاتھا،اس کا کچھ حصّہ بیان سے رہ گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت خبیبؓ کی آرزو کے مطابق رسول اللہﷺ کو آپؓ کا سلام پہنچادیا تھا۔
آنحضورﷺنےخبیبؓ اور اُن کے ساتھیوں کی شہادت کےبعداس ظلم کے کرتے دھرتے ابوسفیان کو قتل کرنے کےلیے حضرت عمرو بن امیہ اور حضرت جبار بن صخر انصاری کو مکہ روانہ کیا۔ ان دونوں نے مکّے پہنچ کر خانہ کعبہ کا طواف کیا،دو رکعت نماز پڑھی۔قریشِ مکّہ کو ان پر شک ہوگیا جس کے باعث انہوں نے چھپ کررات بسر کی۔ اگلی رات ان دونوں اصحاب نے حضرت خبیبؓ کی نعش والی لکڑی کو اتارااوراس لکڑی کو سیلابی نالے میں پھینک دیا۔
حضورِ انور نے حجیر بن ابواھاب کی لونڈی ماویہ سے مروی حضرت خبیبؓ کے قید کے حالات کا ذکر فرمایا۔ جہاں آپؓ کو خداتعالیٰ کی طرف سے ناموافق حالات میں انگوروں کاگچھا عطا ہوا تھا۔ اسی طرح حضرت خبیبؓ نے ایک مرتبہ استرا طلب کیا تو ایک بچے کے ہاتھ وہ استرا بھجوایا گیا۔ جس سے ماویہ کو یہ خوف پیدا ہوا کہ کہیں خبیب انتقاماً اس بچےکو قتل نہ کردیں۔ خبیبؓ نے ماویہ کو کہا کہ مَیں ایسا نہیں ہوں کہ اس کو قتل کردوں، ہم اپنے دین میں غداری جائز نہیں سمجھتے۔
حضرت خبیبؓ پہلے صحابی تھے جو خدا کی راہ میں صلیب دیے گئے۔حضورِ انور نے فرمایا کہ آنحضرتﷺ سے عشق کا یہ حال تھا کہ اپنی جان کی کوئی پروانہیں تھی۔ تب ہی تو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے تھے۔
دوسرے صحابی حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن ابی بن سلول کا حضورِ انور نے ذکر فرمایا۔ آپؓ انصار کے قبیلے خزرج کی شاخ بنو عوف سے تعلق رکھتے تھے۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کے بیٹے تھے۔ آپؓ نہایت ہی مخلص، جاں نثار اور فدائی صحابی تھے۔ عبداللہ رسول اللہﷺ کے ہم راہ غزوۂ بدر،احد اور دیگر تمام غزوات میں شامل ہوئے۔ آپؓ خواندہ تھے اور انہیں کاتبِ وحی ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ غزوۂ احد میں آپؓ کے دانت ٹوٹ گئے تھےتو رسول اللہ ﷺ نے انہیں سونے کے دانت لگوانے کا ارشاد فرمایا تھا۔
غزوۂ احد کے بعد ابو سفیان نے مسلمانوں کو آئندہ سال بدر کے مقام پر دوبارہ جنگ کا چیلنج دیا تھا جسے آنحضرتﷺ نے قبول کرنے کااعلان فرمایا تھا۔ 4 ہجری شوال کے مہینے میں آنحضرتﷺ ڈیڑھ ہزار صحابہ کی جمعیت کے ساتھ مدینے سے نکلے اور آپؐ نے اپنے پیچھے عبداللہ بن عبداللہ کو امیر مقرر فرمایا۔ دوسری طرف ابو سفیان بن حرب بھی دوہزار کے لشکر کے ساتھ مکّے سے نکلا۔ اتنی بڑی جمعیت کے باوجود ابوسفیان کا دل خائف تھا چنانچہ اس نےنعیم نامی ایک غیر جانب دار قبیلے کے شخص کو مدینہ روانہ کیا۔ نعیم نے مسلمانوں کو قریش کی طاقت اور جوش وخروش کے جھوٹے قصّے سناکر مدینے میں ایک بےچینی پیداکردی۔ بعض کم زور طبع لوگ اس غزوے میں شامل ہونے سے خائف ہونے لگے۔ ایسے میں آنحضورﷺ نے مسلمانوں کو تحریک کی اور فرمایا کہ ہم نے کفار کا چیلنج قبول کرکے اس موقعے پر نکلنے کا وعدہ کیا ہے اس لیے ہم اس سے تخلف نہیں کرسکتے۔ اگر مجھے اکیلا بھی جانا پڑے تو مَیں جاؤں گااور دشمن کے مقابل پر اکیلا سینہ سپر ہوں گا۔ لوگ یہ باتیں سن کر بڑے جوش اور اخلاص کے ساتھ آپؐ کے ساتھ نکلنے کو تیار ہوگئے۔
خدائی تصرف کچھ ایسا ہوا کہ مسلمان تو بدر میں اپنے وعدے کے مطابق پہنچ گئے مگر قریش کا لشکر اُس سال قحط اور تنگی کا بہانہ بنا کر مکّے سے کچھ دُور نکلنے کےبعد واپس چلا گیا۔ اسلامی لشکر آٹھ دن بدر میں مقیم رہا۔ اِس میدان میں اُن دنوں سالانہ میلہ لگا ہوا تھا جس میں صحابہ نےتجارت کے ذریعے کافی نفع کمایا۔
حضرت عبداللہ12ہجری میں جنگِ یمامہ میں شہید ہوئے۔ حضورِ انور نے عبداللہؓ کے والد عبداللہ بن ابی بن سلول کے متعلق روایت پیش فرمائی کہ غزوۂ بدر سے قبل ایک مرتبہ آپؐ گدھے پر سوار حضرت سعد بن عبادہؓ کی عیادت کےلیے جارہے تھے۔ راستے میں آپؐ کا گزر ایک ایسی مجلس کے پاس سے ہوا جس میں عبداللہ بن ابی بھی موجودتھا۔ آپؐ نے انہیں اسلام کی دعوت دی جسے عبداللہ بن ابی نے بہت ناپسند کیا ۔ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ بھی وہاں موجود تھے آپؓ نےآنحضورﷺ کی طرف داری کی۔ جس پر مسلمان، مشرک اور یہودی ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے اور قریب تھا کہ ایک دوسرےپر حملہ کردیتے۔ رسول اللہﷺ ان کو سمجھاتے اور جوش دباتے رہے۔
پھر جب آپؐ عیادت کے لیے سعد بن عبادہؓ کے پاس آئے تو انہیں ساری بات بتائی۔ اس پر سعدنے آپؐ سے عرض کی کہ عبداللہ بن ابی سے درگزر کیجیے۔ اس بستی کے لوگوں نے تو یہ فیصلہ کیا تھاکہ عبداللہ بن ابی کو سردار بنا لیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اُس حق کی وجہ سے جو اس نے آپؐ کو عطا کیا ہے یہ منظور نہ کیا تو وہ حسد کی آگ میں جل گیا۔ اس تفصیل سے آگہی کے بعد آپؐ نے عبداللہ بن ابی سے درگزر فرمایا۔
جب بدر میں مسلمانوں نے کفار کو شکست دےدی اورقریش کے بڑے بڑے سردار مار ڈالے تو عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک اور بت پرست ساتھیوں نے یہ دیکھ کر کہ اب یہ سلسلہ شان دار ہوگیا ہے اسلام پر قائم رہنے کی بیعت کرلی۔
حضورِ انور نے عبداللہ بن ابی کے کردار کےمتعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ کی بیان کردہ بعض باتیں پیش فرمائیں۔ جنگِ احد سے قبل قریش کے حملے کے پیشِ نظر آپؐ نے مشورے کے لیے لوگوں کو طلب کیا تو ان میں عبداللہ بن ابی بھی شامل تھا۔ مشورے سے پیشتر آپؐ نے قریش کے خونی عزائم اور تیاریوں کے ساتھ ساتھ اپنی خواب سنائی اور صحابہ کے استفسار پر اس خواب کی تعبیر بھی بتائی۔ آنحضرتﷺ نےفرمایا کہ آج رات میں نے خواب میں ایک گائے دیکھی جسے ذبح کیا جارہا ہے اور اس کی تعبیر یہ فرمائی کہ اس جنگ میں میرے صحابہ میں سےبعض شہید ہوں گے۔ پھر آپؐ نے دیکھا کہ آپؐ کی تلوار کا سراٹوٹ گیاہے جس کی تعبیر یہ تھی کہ رسول اللہﷺ کے عزیزوں میں سے کوئی شہید ہوگا یا آپؐ کو خود اس مہم میں تکلیف پہنچے گی۔ اسی طرح ایک نظارہ یہ دیکھا کہ آپؐ نے زرہ کے اندر ہاتھ ڈالا ہے جس کی تعیر یہ کی گئی کہ اس حملے کے مقابلے کےلیے مدینےکےاندر ٹھہرنا زیادہ مناسب ہے۔ آخری منظر میں آپؐ نے خود کو ایک مینڈھے پر سوار دیکھا اوراس کی تعبیر یہ فرمائی کہ کفار کے لشکر کا سردار یعنی عَلم بردار مارا جائے گا۔
اکابر صحابہ اور عبداللہ بن اُبی سب نے یہی رائے دی کہ مدینے میں رہ کر مقابلہ کیاجائے۔ خود آپؐ نے بھی اسی رائے کو پسند فرمایا۔نوجوان صحابہ بالخصوص وہ کہ جو بدر میں شریک نہیں ہوسکےتھےبضد رہے کہ باہر نکل کر مقابلہ کیا جائے۔ آنحضرتﷺ اندرونِ خانہ تشریف لے گئے جہاں آپؐ نے عمامہ باندھا اور ہتھیار لگائے۔ دریں اثنا اکابر صحابہ کے سمجھانے پر نوجوان لوگوں کو اپنی غلطی محسوس ہوگئی کہ انہیں اپنی رائے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جب آپؐ باہر تشریف لائے تو ان لوگوں نے ندامت اور پشیمانی کا اظہار کیا۔ آپؐ اب ارادہ فرما چکے تھے چنانچہ بڑے جوش سے فرمایا کہ خدا کے نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ ہتھیار لگاکر پھر اسے اتار دے قبل اس کے کہ خدا کوئی فیصلہ کرے۔
اس جنگ کے دوسرے دن یعنی 15 شوال 3ہجری کو عبداللہ بن اُبی بن سلول نے غداری کی اور اپنے تین سو ساتھیوں کے ہم راہ مسلمانوں کے لشکر سے الگ ہوکر مدینہ لوٹ گیا۔اس کے بعد مسلمانوں کی تعداد سات سو رہ گئی ۔کفار کے تین ہزار سپاہیوں کے مقابلے میں یہ طاقت چوتھائی حصّے سے بھی کم تھی۔
خطبےکے آخر میں حضورِ انور نے مکرم خواجہ رشیدالدین قمر صاحب کاذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ پڑھانے کا اعلان فرمایا۔آپ 10؍اکتوبر کو مختصر علالت کے بعد 86 برس کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پاگئے تھے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ 1933ء میں آپ قادیان میں پیدا ہوئے۔ مرحوم خدام الاحمدیہ کے پہلے صدر مولوی قمرالدین صاحب کے بیٹے، حضرت میاں خیرالدین صاحبؓ کے پوتے اور محترم امیر صاحب یوکے، کےماموں تھے۔ مرحوم پاکستان ائیر فورس سے منسلک رہے اور پھر 1958ء میں یوکے آگئے اور یہاں 33سال تک برٹش ائیر ویز میں ملازم رہے۔ ساری عمر سلسلے کی خدمت میں گذاری۔ پہلے قائد مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کے طور پر کام کرنے کی توفیق ملی۔ مرحوم خلافت کےعاشق، نیک، تہجد گذار، نہایت ملنسار اور غریب پرور شخصیت کے مالک تھے۔
حضورِ انور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے اور ان کی اولاد اور ان کی نسل کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭