متفرق مضامین

جرمنی کا دار الحکومت برلن (Berlin)

(عرفان احمد خان۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل جرمنی)

اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

سیاسی اعتبار سے برلن شہر کی اہمیت اپنی جگہ لیکن روحانی اعتبار سے بھی 1922ء میں جماعت احمدیہ کے پہلے مبلغ نے برلن کی سر زمین پر قدم رکھا ۔ گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ایک جرمن خاتون نے خط کے ذریعہ حضور سے رابطہ قائم کر لیا تھا۔ کیرولائن نامی خاتون کا یہ خط 14مارچ 1907ء کو بدر قادیان میں شائع ہوا ۔ 1906ءکے موسم سرما میں Jenaیونیورسٹی کے پروفیسر Karl Vollerنے یونیورسٹی کی ایک تقریب میں جو مقالہ پڑھا اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا ذکر موجود ہے ۔ یہ مقالہ کتابی شکل میں شائع ہوا۔ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن جو 1921ء میں شائع ہواجماعت جرمنی کے پاس موجود ہے۔ احمدیت اور جرمنی کے درمیان اس ابتدائی رابطہ کے بعد پہلا عملی رابطہ ستمبر 1922ء میں قائم ہوا جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے ارشاد پر مکرم مبارک علی خان صاحب بنگالی لندن سے برلن تشریف لائے ۔ پھر 18دسمبر 1923ء کو مکرم ملک غلام فرید صاحب کی اپنی اہلیہ اور ایک بیٹے کے ساتھ برلن میں آمد ہوئی ۔ مکرم مبارک علی خان صاحب نے 200 پاؤنڈز میں دو ایکڑ زمین مسجد بنانے کی غرض سے برلن میں خریدی ۔ 20نومبر 1922ء کے الفضل میں ناظر بیت المال کی طرف سے برلن مسجد کی تعمیر پر اٹھنے والے 20ہزار روپے کے اخراجات کے لیے چندہ کی اپیل شائع کی اور اس مسجد کا نقشہ حضرت مولوی یعقوب علی عرفانی صاحب ؓنے تادیب النساء میں شائع کیا۔ لیکن مخدوش حالات کے پیش نظر 1924ءمیں برلن مشن کو بند کرنا پڑا۔

مسجد بیت الملک۔ برلن

برلن سے تعلق کا دوسرا دور 1975ءمیں شروع ہوا جب چند احمدی حضرات جرمنی میں آکر آباد ہوئے۔ صدر اور سیکرٹری کا تقرر کر کے جماعتی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ برلن کی جماعت میں افراد کی تعداد بڑھتی چلی گئی ۔ ایئر پورٹ کے قریب ایک مکان خرید کرمشن ہاؤس قائم کیا گیا ۔ جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے بھی قیام فرمایا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے بابرکت دور میں آپ کی خصوصی توجہ اور دعا کے نتیجہ میں جماعت نے برلن کے علاقےHeinrsdorfضلع Pankowمیں 4780مربع میٹر کا قطعہ زمین خریدا ۔ جس میں مسجد خدیجہ تعمیر کی گئی۔ حضور انور نے 2؍جنوری 2007ء کو مسجد کا سنگ ِ بنیاد رکھا ۔ اس وقت مسجد کے اطراف میں مسجد کے مخالفین مظاہرے کر رہے تھے ۔ مسجد کے سنگِ بنیاد کی تقریب میں علاقے کے میئر، سابق میئر اور ممبر پارلیمنٹ نے بھی شرکت کی ۔ تقریب سے خطاب کر تے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ

‘‘جب مسجد بن جائے گی تو اس علاقہ کے لوگ خود دیکھیں گے کہ کس طرح پیار ومحبت پھیلانے والے ، کس طرح اللہ تعالیٰ کی مزید محبت میں فنا ہونے والے اس مسجد کے ذریعہ سے پیدا ہوں گے۔’’

شہرBerlinکا جھنڈا

یہ مسجد دو سال سے کم عرصہ میں مکمل کی گئی اور 17؍ اکتوبر 2008ءکو حضور انور ہی نے مسجد خدیجہ کا افتتاح فرمایا۔ جس میں عمائدین اورسیاسی شخصیات جس میں قومی اسمبلی کے سپیکر بھی شامل تھےتقریب میں تشریف لائے۔

مظاہرین کا شور و غل بھی کچھ فاصلہ پر جاری تھا لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد خدیجہ کے افتتاح کی تقریب ایک یادگار تقریب تھی ۔ جس میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی بھر پور نمائندگی تھی اور پریس ایجنسیوں کی وجہ سے دنیا بھر کے ٹی وی چینل نے اس خبر کو نشر کیا۔

حضور نے 17؍اکتوبرکو مسجد خدیجہ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایاجس میں 1922ء سے لے کر اب تک جماعت کی طرف سے کی جانے والی قربانیوں کا تذکرہ فرمایا ۔مہمانان کے ساتھ ہونے والی تقریب میں حضور نے حاضرین کو بتایا کہ ‘‘یہ مسجد جو ہم نے تعمیر کی ہے یہ کسی جہادی تنظیم کے لیے تعمیر نہیں کی اور نہ ہی دہشت گردی کی کارروائی کے لیے کی ہے ۔ یہ صرف ایک خدا کی عبادت کے لیے بنائی گئی ہے ۔ ہماری اس مسجد سے انسانیت سے محبت ، انصاف اور امن کے سِوا کوئی اَورآواز بلند نہیں ہو گی اور آپ لوگ دیکھیں گے اور جان لیں گے کہ جو کچھ میں نے کہا ہے وہ صرف الفاظ ہی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہیں اور خدا کے فضل سے آنے والا وقت اس کو ثابت کر دے گا۔ ’’

(الفضل انٹر نیشنل 5دسمبر2008ء)

حضورِ انور اس دورے کے دوران مسجد خدیجہ سے ملحق مشن ہاؤس میں قیام پذیر رہے ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button