مسجد برلن 1923ء کامنصوبہ اور جرمنی میں احمدیت کاآغاز
اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
“جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی ۔اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنا دینی چاہیے۔پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا۔’’
(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ 119)
مذکورہ بالااقتباس میں حضرت مسیح موعودؑ نےاشاعت اسلام کا بنیادی اصول بیان فرمایا ہے ۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلافت کے عظیم منصب پر متمکن ہوئے تو اشاعت اسلام کے حوالے سے یہی بنیادی اصول آپؓ کے سامنے تھا ۔چنانچہ یہ 1922ء کا سال تھا کہ جب دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہو چکا تھا اور جنگ عظیم اوّل نے دنیا کے کینوس پر تباہی اور بد امنی کےخونی رنگ بھر دیے تھے۔جرمنی کا ملک خاص طور پر جنگ عظیم اول سے متاثر ہوا تھا۔
جرمنی میں اشاعت اسلام کا عظیم الشان منصوبہ
ان حالات میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جرمنی کی سرزمین میں اشاعت اسلام کے لیے ایک عظیم الشان منصوبے کا آغاز فرمایا ۔اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“ان (جرمن)کی لڑائی ہر ایک یورپ کے ملک سے ہو گئی تھی ۔اس لیے معلوم ہو کہ اب ہم نے اس ملک جرمن میں تبلیغ شروع کی ہے …اپنی عقل اور دانشمندی کی وجہ سے یہ لوگ بہت تیز اور ہوشیار ہیں ۔فرانس ،امریکہ ،انگلستان وغیرہ ان سب سے جرمنی کا مقابلہ اور لڑائی تھی۔ روپیہ بہت خرچ ہو گیا ،اس واسطے اب اس ملک کی یہ حالت ہے کہ ایک روٹی تین سو روپے کو آتی ہے اور اس ملک کے پندرہ ہزار روپے ہمارے ملک ہندوستان کے ایک روپے میں مل جاتا ہے ۔اور روٹی اس قدر مہنگی ہے کہ مثلاً وہاں کے ایک شخص نے اعلان کیا کہ ہمیں برتن مانجھنے کے لیے ایک ملازمہ چاہیے تو دو ہزار عورتوں نے درخواستیں دیں جن میں ایک شہزادی بھی تھی اور وہ ایسی ذلیل ترین ملازمت پر راضی تھی تو اس ملک کی بہت تنگ حالت ہے ایسی حالت میں ہم کو وہاں تبلیغ کی ضرورت پیش آئی اس لیے کہ قاعدہ ہے کہ جو شخص بہت آرام و راحت کی زندگی بسر کرے اور عیش و عشرت میں سے مصیبت میں آجائے اس کی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف ہو جاتی ہے۔ وہ لوگ ضرور عیاش تھے مگر ان کی خراب حالت کے ساتھ ہی ان کی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف ہو سکتی ہے کیونکہ انسان کا قاعدہ ہے کہ اگر اسے روحانی تکلیف ہے تو وہ عموماً اللہ تعالیٰ کی جانب جھکتا ہے …گویہ حالت ان لوگوں کی عارضی ہے کیونکہ وہ بہت ہوشیار ہیں اور اپنی حالت کو جلد تر اپنی دانشمندی اور سمجھداری سے سدھار لیں گے وہ انگریزوں سے بھی زیادہ علم والے ہیں۔ اگر اسلام جیسے سچے مذہب کی طرف ان کی توجہ ہو گئی تو اسلام کو بہت مدد ملے گی اور اگر وہ لوگ اسلام کا بازو بن گئے تو بہت ہی مفید ثابت ہو گا۔اول تو یہ ضرورت پیدا ہو ئی کہ جرمن کے ملک میں اسلام پھیلایا جاوے ۔
دوسرے ضرورت یہ بھی ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا الہام اور پیشگوئی بھی ہے کہ روس مسلمان ہو گا ۔اب دیکھو نقشہ دنیا میں سے معلوم ہوتا ہے کہ روس کاملک بھی اس ملک کے ساتھ لگا ہوا ہے چونکہ روس بھی یورپ کا ایک بڑا حصہ ہے ۔انگلستان اور جرمنی دونوں سے وہ بڑا ملک ہے اور جنگ میں اس پر بھی تباہی آئی تھی یہاں بھی تبلیغ اسلام کا موقع ہے۔”
(الفضل قادیان جلد 10 نمبر 61 مورخہ8؍فروری 1923ء صفحہ 8)
نیز فرمایا:
“حضرت مسیح موعودؑ کی پیش گوئی ہے کہ زار روس کا عصا چھینا گیا ہے اور وہ آپؑ کے ہاتھ میں دیا گیا ہے اور روس کا دروازہ برلن ہے اور اسی دروازہ کے ذریعہ سے روس فتح ہو سکتا ہے۔یوں تو روس میں تبلیغ کرنا تو الگ رہا اس میں ہمارا موجودہ حالات کی وجہ سے گھسنا ہی مشکل ہے اس میں تبلیغ کا ذریعہ جرمن ہی ہے ۔جرمن کے ذریعہ ہم بڑی آسانی سے روس میں تبلیغ کر سکتے ہیں’’
(خطبات محمود جلد 8صفحہ 20۔خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 2؍ فروری 1923ء)
جرمنی میں اولین مبلغ احمدیت
جرمنی میں اشاعت اسلام کے فریضہ کو سرانجام دینے کے حوالے سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی مردم شناس نظر نے مولوی مبارک علی بنگالی بی۔ اے بی ٹی صاحب کا انتخاب کیا اور ستمبر 1922ءمیں آپ کو لندن مشن سے برلن روانہ کر دیا گیا ۔
مولوی مبارک علی صاحب نے 1909ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ آپ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے تھے اور 1917ء میں جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وقف زندگی کی تحریک فرمائی تو جن 63؍نوجوانوں نے اپنے نام پیش کیے اُن میں مولوی مبارک علی صاحب بھی تھے۔ آپ 1920ءسے لندن مشن میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔مولوی صاحب نے جرمنی پہنچتے ہی مختلف ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی تبلیغی مساعی کا آغاز کر دیا ۔
آپ کی مساعی کی بدولت پروفیسر فرنیزی ایل ایل ڈی اور ڈاکٹر اوسکا جیسے قابل مصنفوں کو احمدیت کی طرف توجہ ہوئی اور ان کی دیکھا دیکھی برلن کے کالجوں کے پروفیسر اور طلباء میں بھی تحقیق کی جستجو پیدا ہوگئی۔
بعد میں مولوی مبارک علی صاحب کی معاونت میں حضرت ملک غلام فرید صاحب ایم اےکو بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے قادیان سے مورخہ 26؍ نومبر 1923ء کو روانہ فرمایا جو 18؍دسمبر 1923ءکو اپنی اہلیہ اور بچے کے ہمراہ صبح دس بجے برلن پہنچے۔
(تاریخ احمدیت جلد4صفحہ 411)
برلن میں مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر کا منصوبہ
مولوی مبارک علی صاحب نے جرمن قوم میں اشاعت اسلام کے حوالہ سے مسجد اور مشن ہاؤس کےمنصوبہ کی اسکیم حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں ارسال کی۔اس منصوبہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
“جرمنی پہنچ کر محترم مولوی مبارک علی صاحب کی ابتدائی کوششوں کو خداتعالیٰ کے فضل سے کس قدر کامیابی نصیب ہوئی۔ اس کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 2؍فروری 1923ء کے خطبہ میں فرمایا کہ ان کی رپورٹیں نہایت امید افزا ثابت ہوئیں بلکہ ان کو تو اس ملک میں کامیابی کا اس قدر یقین ہو گیا کہ وہ متواتر مجھے لکھ رہے ہیں کہ وہاں فوراً ایک مسجد اور مکان بنوایا جائے اور یہ اس طرح ممکن ہے کہ چھ ماہ مَیں خود وہاں چلا جاؤں۔ یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کو کہا کہ آپ خود وہاں آجائیں جس کے نتیجہ میں انہیں جلد کامیابی کی امید ہے کہ قلیل عرصہ میں دنیا میں اہم تغیرات ہو سکتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو خود جرمنی جانے پہ انشراح نہیں تھا لیکن دوسری تجویز کے متعلق آپؓ نے فرمایا کہ ان کی اس درخواست کو کہ اس جگہ فوراً ایک مسجداور سلسلہ کا ایک مکان بن جائے تو بہت کامیابی کی امید ہے نظر انداز کر دینا میرے نزدیک سلسلہ کے مفاد کو نقصان پہنچانے والا تھا۔ اس لیے مَیں نے اس کے متعلق ان کو تاکید کر دی ہے کہ وہ فوراً زمین خرید لیں۔’’
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ17؍ اکتوبر 2008ء۔بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 07؍نومبر2008ءصفحہ05)
مسجد کا مجوزہ نقشہ اور اندازۂ خرچ
مولوی مبارک علی صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منظوری کے فوراً بعد ہی مسجد کی تعمیر کے لیے کوششیں تیز کردیں اور ایک ماہر آرکیٹیکٹ K.A Hermann سے رابطہ کر کے اس سے مسجد کا نقشہ اور تخمینہ لگوا کر معاملہ حضرت مصلح موعود ؓکی خدمت میں ارسال کر دیا اس کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا:
“مولوی مبارک علی صاحب نے ایک خط بھیجا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ فن تعمیر کے ایک ماہر نے مسجد بنانے کے لیے سوا دولاکھ کا اندازہ لگایا تھا کیونکہ اس نے خیال کیا کہ جس قوم نے ہمارے ملک میں مسجد بنانے کا ارادہ کیا ہے وہ کوئی بڑی مالدار قوم ہو گی لیکن مولوی صاحب نے اسے کہا کہ اتنا روپیہ ہمارے پاس نہیں تو پھر اس نے پچاس ہزار کا اندازہ لگایا۔پانچ ہزار کی زمین اور 45 ہزار روپیہ عمارت پر خرچ آئےگا ۔کیونکہ اس کا نقطہ خیال ہے کہ چونکہ یہ ایک بڑا شہر ہے اور امراء کا شہر ہے اس واسطے اس میں بڑی عمارت چاہیے کہ جس کا لوگوں پر اثر ہو اور لوگ اس کی طرف توجہ کر سکیں ۔معمولی عمارت کا ان لوگوں پر اثر نہیں ہو گا وہ تو پھر ویسے ہی ہے جیسے ایک پختہ مکان ہو اور پھر اس میں کوئی حصہ کچی اینٹوں کا ہو تو وہ معیوب معلوم ہو گا خیر اس کے اندازہ کے مطابق پچاس ہزار روپیہ سے مسجد کی عمارت قائم ہو سکتی ہے جو صرف مسجد ہی نہیں ہو گی بلکہ اس میں مبلغین کی رہائش کے لیے بھی مکان ہو گا۔”
( الفضل قادیان جلد 10 نمبر 61 مورخہ8؍فروری 1923ء صفحہ6)
مسجد برلن کے لیے دو ایکڑ کی زمین خریدی گئی اور اس کے لیے جو مجوزہ نقشہ تیار کیا گیا اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کس قدر شاندار اور بلند پایہ منصوبہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذہن میں تھا۔ اس منصوبہ میں مسجد کے منارے 60میٹر بلند تھے ،اور اس میں طلباء کے لیے ایک ہوسٹل، گراؤنڈ فلور میں دکانوں کے علاوہ ایک ریسٹورنٹ تھا،مسجد کا حصہ دوسرے فلور پر مخصوص تھا اور اس کےگنبدکا قطر 13 میٹر پر محیط تھا۔
(ڈائری مولوی مبارک علی صاحب ۔بحوالہ ریویو آف ریلیجنز مؤرخہ 17؍ مارچ 2017ء)
مسجد برلن کی تعمیر کے لیے لجنہ اماء اللہ کو چندہ کی تحریک
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 25؍دسمبر 1922ءکو لجنہ اماء اللہ جیسی عالم گیر تنظیم کی بنیاد رکھی تھی ۔قیام لجنہ اماء اللہ کے بعد سب سے پہلی مالی تحریک جو حضور رضی اللہ عنہ کی طرف سے خواتین جماعت احمدیہ کے لیے کی گئی وہ مسجد برلن کی تعمیر کی تحریک تھی ۔لجنہ اماء اللہ کو مسجد برلن کے لیے چندہ کی تحریک اور اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
“پس میرا یہ منشاء ہے کہ جرمن میں مسجد عورتوں کے چندہ سے بنے کیونکہ یورپ میں لوگوں کا خیال ہے کہ ہم میں عورت جانور کی طرح سمجھی جاتی ہے ۔جب یورپ کو یہ معلوم ہو گا کہ اس وقت اس شہر میں جو دنیا کا مرکز بن رہا ہے اس میں مسلمان عورتوں نے جرمن کے نو مسلم بھائیوں کے لیے مسجد تیار کروائی ہے تو یورپ کے لوگ اپنے اس خیال کی وجہ سے جو مسلمان عورتوں کے متعلق ہیں کس قدر شرمندہ اور حیران ہوں گے اور جب وہ مسجد کے پاس سے گذریں گے تو ان پر ایک موت طاری ہو گی …پس ہر جگہ عورتوں کو بتایا جائے کہ وہ اس کام کےلیے چندہ دیں اور تمام اخبارات جو قادیان سے نکلتے ہیں اس کام کے لیے چندہ کے واسطے تحریک کریں اور میرا یہ خطبہ شائع کر دیں تاکہ تمام وہ لوگ جو ان خباروں سے تعلق رکھنے والے ہیں اپنے گھروں میں عورتوں کو بتائیں اور تحریک کریں کہ وہ تین ماہ کے اندر مسجد کے لیے چندہ دیں اور ہر جگہ مرد اپنی عورتوں کو بتائیں اور تحریک کریں کہ وہ تین ماہ کے اند ر مسجد کے لیے چندہ دیں اور ہر جگہ مرد اپنی عورتوں کو یہ بات سنا دیں اور یہاں جن کی عورتیں جمعہ میں نہیں آئیں وہ بھی اپنے گھروں میں اطلاع دیں اور اس کام کے لیے چندہ کے واسطے تحریک کریں ،اور یہ کام میں نے اس انجمن کے سپرد کیا ہے جس کانام میں نے لجنہ اماء اللہ رکھا ہے”
(خطبات محمود جلد 8صفحہ 19)
مسجد برلن کے چندہ کے لیے لجنہ اماء اللہ کی بے مثال مالی قربانیاں
لجنہ اماء اللہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی آواز پر والہانہ لبّیک کہتے ہوئے بے مثال عملی نمونہ کا اظہار کیا۔احمدی مستورات نے جس جوش اور ولولہ سے اس تحریک پر عملی نمونہ کا آغاز فرمایا اس کے ذکر کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے الفضل میں ایک مضمون تحریر فرمایا جس میں آپؓ نے فرمایا:
“مجھے مسجد برلن کے چندہ کے متعلق اعلان کیے ابھی ایک ماہ نہیں گزرا کہ ہماری بہنوں کے اعلیٰ درجہ کے اخلاص اور بے نظیر ایثار کے سبب سے چندہ کی رقم بیس ہزار سے اوپر نکل چکی ہے ہماری جماعت ایک غریب جماعت ہے اور درحقیقت ہمارے پاس ایمان اور محبت باللہ و محبت بالرسل …کے متاع کے سوا کہ وہی حقیقی متاع ہے اور کوئی دنیوی متاع اور سامان نہیں ہے”
(الفضل قادیان جلد 10 نمبر 67 مورخہ یکم مارچ 1923صفحہ1)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس حوالہ سے لجنہ اماء اللہ کی مالی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
“برلن کی مسجد کےلیے جیسا کہ پہلے بھی ایک دفعہ بتا چکا ہوں عورتوں نے چندہ جمع کیا تھا اور بڑی قربانی کرکے انہوں نے چندہ جمع کیا تھا۔ لجنہ نے اس زمانہ میں ہندوستان میں یا صرف قادیان میں، زیادہ تو قادیان میں کہنا چاہیے ہوتی تھیں، تقریباً ایک لاکھ روپیہ جمع کیا تھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں پیش کیا جو اس وقت کے لحاظ سے ایک بہت بڑی رقم تھی، بڑی خطیر رقم تھی اور زیادہ تر قادیان کی غریب عورتوں کی قربانی تھی جس کا مَیں پہلے ذکر کر چکا ہوں۔ کسی نے مرغی پالی ہوئی ہے تو بعض مرغی لے کے آجاتی تھیں۔ کوئی انڈے بیچنے والی ہے تو انڈے لے کر آگئی۔ کسی کے گھر میں بکری ہے تو وہ بکری لے کر آگئی۔ کسی کے گھر میں کچھ نہیں ہے تو گھر کے جو برتن تھے تو وہی لے کر آگئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ایک دفعہ تحریک جو کی تھی میرا خیال ہے کہ یہی تحریک تھی۔ فرماتے ہیں کہ مَیں نے جو تحریک کی تو عورتوں میں اس قدر جوش تھا کہ ان کا دل چاہتا تھا کہ سب کچھ گھر کا سامان جو ہے وہ دے دیں۔ ایک عورت نے اپنا سارا زیور جو تھا سارا چندے میں دے دیا۔ اور گھر آئی اور کہنے لگی کہ اب میرا دل چاہتا ہے کہ(غریب سی عورت تھی معمولی زیور تھا)کہ اب مَیں گھر کے برتن بھی دے آؤں۔ اس کے خاوند نے کہا کہ تمہارا جو زیور تم نے دے دیا ہے کافی ہے۔ تو اس کا جواب یہ تھا کہ اس وقت میرا اتنا جوش ہے کہ میرا اگر بس چلے تو تمہیں بھی بیچ کے دے آؤں۔ تو گو کہ جواب صحیح نہیں ہے لیکن یہ اس جوش کو ظاہر کرتا ہے جو قربانی کے لیے عورتوں میں تھا۔ حیرت ہوتی تھی اس وقت کی عورتوں کی قربانی دیکھ کر اور آج کل جو آپ اُس وقت کے حالات کے مقابلے میں بہت بہتر حالات میں ہیں تو کہنا چاہیے انتہائی امیرانہ حالت میں رہ رہے ہیں۔ فرق بڑا واضح نظر آتا ہے۔ آپ لوگ آج شاید وہ معیار پیش نہ کر سکیں۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے جو ان لوگوں نے کیے تھے۔”
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 29؍ دسمبر 2006ء ۔ بحوالہ الفضل انٹر نیشنل 19؍جنوری 2007ء صفحہ 5)
نیز ایک اَورموقع پرحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس حوالے سے فرمایا:
‘‘اُس وقت احمدی عورتوں نے نقد رقمیں اور طلائی زیورات حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں پیش کیے۔ پہلے دن ہی 8ہزار روپے نقد اور وعدوں کی صورت میں قادیان کی احمدی عورتوں نے یہ وعدہ پیش کیا اور یہ رقم ادا کی اور 2ماہ کے تھوڑے سے عرصہ میں 45ہزار روپے کے وعدے ہو گئے اور 20ہزار روپے کی رقم بھی وصول ہو گئی۔ پھر کیونکہ اخراجات کا زیادہ امکان پیدا ہو گیا تھا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس کی مدت بھی بڑھا دی اور ٹارگٹ بڑھا کے 70ہزار روپے کر دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی عورتوں نے اس وقت 72 ہزار 700کے قریب رقم جمع کی۔”
(خطبہ جمعہ فرمودہ17؍ اکتوبر 2008ء۔بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 7؍نومبر 2008ءصفحہ6)
لجنہ اماء اللہ کی قلمی خدمات
اس مسجد کی تعمیرکے لیے رقم وصول کرنے کی خاطر لجنہ اماءاللہ کی بعض ممبرات نے مضامین بھی لکھے۔ چنانچہ اس کاذکر لجنہ اماءاللہ کی تاریخ میںاس طرح ملتاہے:
“مسجد برلن کی تحریک کو بہنوں میں وسیع تر کرنے کے لیے اس زمانہ کی بعض خواتین نے بھی قلم اٹھایا چنانچہ الفضل میں اہلیہ صاحبہ منشی کظیم الرحمٰن ،مریم بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت حافظ روشن علی صاحب اور استانی سکینۃ النساء صاحبہ کے مضامین شائع ہوئے۔یہ مضامین اس امر پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ گو یہ وہ زمانہ تھا جب کہ قادیان میں عورتوں میں تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی لڑکیوں کے مدرسے ابھی پرائمری تک ہی تھے پھر بھی اس زمانہ کی خواتین میں چند کا مضمون نگار بن جانا اس عظیم الشان انقلاب کی نشاندہی کرتا ہے جس انقلاب کے برپا کرنے کے لیے حضرت مسیح موعودؑ تشریف لائے تھے۔”
(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اوّل صفحہ 102)
مسجدبرلن کاسنگ بنیاد
مسجد برلن کا سنگ بنیاد 6؍ اگست 1923ءکو رکھا گیا۔ مولوی مبارک علی صاحب نے اس تقریب میں شرکت کے لیے 500 کے قریب معززین کو دعوت نامے ارسال کیے۔اس تقریب سنگ بنیاد کے ماحول کو خراب کرنے کے لیے بعض غیر از جماعت مسلمانوں نے کوششیں بھی کیں لیکن محض اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا اور تقریب سنگ بنیاد ہر لحاظ سے کامیاب ثابت ہوئی۔
برلن مسجد کی تقریبِ سنگ بنیاد کی رپورٹ دیتے ہوئے حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحب نے تحریر کیا کہ
“6 اگست کو جیسا کہ پہلے اطلاع دی چکی ہے۔ برلن احمدیہ مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا ۔قریباً 400 مدعو شدہ اصحاب شامل جلسہ ہوئے ان میں فرزندان المانیہ(جرمنی) کی تعداد غیر ملکی مسلمانوں کی نسبت زیادہ تھی ۔حاضرین میں قابل ذکر نام یہ ہیں جرمن وزیر داخلہ،وزیر امور رفاہ عامہ اور کئی دوسرے اعلیٰ عہدہ دار اور ہز اکسلنسی سفیر دولت افغانیہ ترکی، امام بخاری پروفیسر میرزا احسن ایرانی ،پروفیسرکیمپ فیمر اور اور ڈاکٹر شومیلز ان کے علاوہ بہت سے مشہور جرمن اہل علم سوداگر اور اخبار نویس موجود تھے ۔
اس شاندار مجمع میں صرف چار احمدی تھے ۔مبلغ اسلام مولوی مبارک علی ،ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ ،ڈاکٹر صاحب کےبرادر خورد اور ہمارے مخلص دوست مستری قطب الدین مرحوم کی یادگار محمد اسحٰق خان …غرض اس مجمع میں مولوی مبارک علی صاحب نے کلمہ شہادت پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ اور سورہ والعصر کی تلاوت کرنے کے بعد انگریزی زبان میں مسجد برلن کے اغراض و مقاصد بیان کیے اور یہ بتایا کہ کس طرح خواتین سلسلہ احمدیہ نے چندہ سے اس مسجد کا روپیہ فراہم کیا ہے اور یہ کہ یہ جگہ یورپ میں اشاعت اسلام کا مرکز ہوگی”
سنگ بنیاد کی اس تقریب میں ایک مصری مسلمان نے شرارت کرنے کی کوشش کی مگرپولیس نے اسے پکڑ کے مجمع سے باہر نکال دیا اور یہ تقریب بخیر وخوبی انجام پذیر ہوئی اور اس میں مدعو معزز مہمانان نے مسجد کی بنیاد پر خوشی کا اظہار کیا اور سلسلہ احمدیہ کا شکریہ ادا کیا ۔
(الفضل قادیان۔جلد 11 نمبر 27 مورخہ 5؍ اکتوبر 1923ءصفحہ 1)
جرمنی میں خوفناک اقتصادی بحران
مسجد برلن کی تعمیر کا کام جاری تھا اور اس کی دیواریں اڑھائی میٹر تک بلند ہو چکی تھیں کہ جنگ عظیم اوّل کے بد اثرات کے طور پر جرمنی میں ایک خوفناک معاشی بحران پیدا ہو گیا اور ریکارڈ سطح پر افراط زر کی مصیبت پیدا ہو گئی اور پھر صورت حال یہاں تک پہنچی کہ کا غذی روپیہ عملی طور پر منسوخ کر دیا گیا اور سونے کا سکہ جاری کر دیا گیا۔
اس بحران میں قیمتوں میں دو تین سو گنا اضافہ ہو گیا اورجرمنی میں کمر توڑ مہنگائی کی بدولت مبلغ کا خرچ 6 پونڈ کی بجائے کم از کم 25 پونڈ تک جا پہنچا۔
(رپورٹ مجلس شوریٰ 1924ء صفحہ 46)
مسجد برلن کے متعلق فیصلہ
معاشی بحران کی وجہ سے مسجد برلن کی تعمیر کے لیے جس کا پہلے پچاس ہزار روپیہ کا اندازہ کیا گیا تھا اس کے پندرہ لاکھ روپے کے اخراجات بتائے جانے لگے اور پھر لندن میں مسجد فضل کی تعمیر کا منصوبہ بھی جاری تھا جس کے لیے زمین وغیرہ بھی خریدی جا چکی تھی۔
ان حالات کی بنا پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے تعمیر مسجد برلن کا کام ملتوی کرا دیا اور فیصلہ فرمایا کہ یورپ میں دو مرکز رکھ کر طاقت تقسیم کرنے کے بجائے لندن مشن کوہی مضبوط کیا جائے اور اسی سے وسط یورپ میں تبلیغ اسلام ہو ۔چنانچہ یہ معاملہ 1924ء میں ہونے والی مجلس شوریٰ میں پیش ہوا کہ کیا تینوں(انگلستان ،امریکہ ،جرمنی )مشنوں کو قائم رکھا جائے یا کسی کو کم کر کے دوسروں کو مضبوط کیا جائے؟
اس کے متعلق جب نمائندگان شوریٰ سے رائے لی گئی تو تینوں کو قائم کرنے کی تائید میں 61آرا ہوئیں جبکہ کسی ایک کو کم کرنے کی تائید میں 65۔ حضور انور بھی کثرت رائے سے متفق ہوئے۔ اس کے بعد حضور انور نے اس امر پر رائے لی کہ تینوں میں سے کس کوکم کیا جائے ؟
جرمن مشن کو کم کرنے کے متعلق 114 آرا ہوئیں ۔اس پر حضور انور نے فرمایا میں بھی اس سے متفق ہوں کہ اگر مالی مشکلات سے کسی مشن کو کم کرنا پڑے تو جرمنی کو کم کیا جائے۔
(رپورٹ مجلس شوری 1924ء صفحہ 48)
چنانچہ مجلس شوریٰ کی سفارش جسے خلیفۃ المسیح کی منظوری حاصل ہوئی کے تحت مئی 1924ء میں جرمن مشن بند کر دیا گیا اور جرمنی کے مبلغ انگلستان چلے گئے مگر بالآخر ربع صدی کے بعد 1949ء میں بعض روایات کے مطابق چوہدری عبد اللطیف صاحب بی۔ اے کے ذریعہ اس کا احیاء ہوا ۔
( تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 411۔412)
مسجد برلن کی رقم مسجد فضل لندن کی تعمیر کے مصرف میں لائی گئی اور جوکام مسجد برلن کی تحریک کے ساتھ شروع ہوا وہ مسجد فضل لندن کی شکل میں اختتام پذیر ہوا جو سارے یورپ اور انگلستان میں پہلی مسجد تھی ۔لاریب کہ یہ مسجد ہمیشہ ہمیش کے لیے لجنہ اماء اللہ کی قربانیوں کی گواہی دیتی رہے گی۔ بلاشبہ لجنہ اماء اللہ نے اپنے امام کے ایک اشارہ پر ایسی مالی قربانیاں پیش کیں جن کی بدولت قرون اولیٰ کی خواتینِ اسلام کی یاد تازہ ہو گئی اور یہ قربانیاں احمدی خواتین کی تاریخ میں موسلا دھاربارش میں آنے والے پہلے قطرات کی مانند تھیں اور ایک ایسے انقلاب کا پیش خیمہ تھیں جس کا مشاہدہ آج ہم جگہ جگہ افق احمدیت پر کر رہے ہیں ۔
مسجد خدیجہ کی تعمیر
مسجد برلن 1923ءکے منصوبہ کے 86سال بعد خلافت خامسہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح پاک ؑ کی جماعت کو جرمنی کے شہر برلن میں مسجدخدیجہ تعمیر کرنے کی توفیق دی اور یوں مسجد برلن 1923ءکا منصوبہ اپنی تکمیل کو پہنچا ۔ یہ مسجد 17لاکھ یورو میں تعمیر ہوئی جس میں سے 13لاکھ جرمنی کی لجنہ نے دیا اور 4 لاکھ باہر سے آیا ۔اس میں سے بھی زیادہ بڑا حصہ لجنہ UKنے دیاتھا ۔
الغرض مسجد خدیجہ کی تعمیر میں بھی لجنہ اماء اللہ نے تاریخ ساز مالی قربانیاں پیش کیں اور اپنے عملی نمونہ سے ایک زندہ جماعت سے وابستہ ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔
٭…٭…٭