الفضل ڈائجسٹ
اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
جنرل ناصر احمد چودھری صاحب شہید
ماہنامہ ‘‘انصاراللہ’’ ربوہ ستمبر 2011ء میں سانحہ لاہور میں شہادت پانے والے جنرل چودھری ناصر احمد صاحب کے بارے میں ایک مضمون اُن کے کزن مکرم کرنل انتصار احمد مہار صاحب کے قلم سے شائع ہوا ہے۔
پاکستان بننے سے قبل ہی محترم چودھری صاحب جڑانوالہ کے ایک گاؤں میں آباد ہوچکے تھے جہاں آپ کے والد کی شہادت کے بعد آپ کورقبہ الاٹ ہوا تھا۔میری والدہ کو بھی اپنے والد کی زمین اسی گاؤں میں ملی چنانچہ چودھری صاحب کی والدہ اور میری والدہ نے لمبا عرصہ ایک ہی گاؤں میں گزارا۔ کبھی کبھار گاؤں میں شہید مرحوم سے ملاقات ہوتی تو بہت شفقت سے ملتے، پڑھائی کے متعلق پوچھتے اور قیمتی نصائح کرتے۔ عاجزی سے اپنی والدہ کے ساتھ چولہے کے پاس بیٹھ کر کھانا کھا لیتے۔
خاکسار فوج سے ریٹائرڈ ہوکر لاہور آیا تو شہید مرحوم اُس وقت ماڈل ٹاؤن کے صدر تھے۔ بعد میں سیکرٹری اصلاح و ارشاد ضلع بنے۔ اس دوران قریب سے آپ کو دیکھنے اور آپ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ جس چیز نے سب سے زیادہ متأثر کیا وہ آپ کی انکساری تھی۔ کوئی تکلّف نہیں کرتے تھے۔ گرمی اور حبس میں بھی گھنٹوں بیٹھ کر میٹنگز کرتے، اپنے ہاتھ سے ہر کام کرتے۔ اگر کوئی ذکر کرتا کہ کسی اَور کو کہہ دیا ہوتا تو جواب ملتا کہ جماعتی خدمت ہے اس لیے خدا کا شکر کرو۔ اگر مَیں فون پر کسی سے کہتا کہ جنرل صاحب کے کہنے پر فون کررہا ہوں تو فوراً ٹوک دیتے کہ بھئی اب مَیں جنرل نہیں ہوں، مَیں صرف ناصر احمد ہوں۔ اگر کسی خط کے نیچے دستخط والی جگہ جنرل ریٹائرڈ لکھ دیتا تو کاٹ دیتے اور کہتے صرف ناصر احمد لکھا کرو۔ کسی میٹنگ میں آتے اور جگہ پُر ہوچکی ہوتی تو پیچھے ہی بیٹھ جاتے جب تک امیر صاحب آپ کو آگے نہ بلالیتے۔
فوج کے اعلیٰ عہدیدار ہونے کی وجہ سے آپ بہت باحوصلہ تھے۔ قریباً 90 سال کی عمر میں مسلسل گھنٹوں کام کرتے۔ 1971ء کی جنگ میں گولی لگنے سے زخمی ہوئے۔ گھٹنے میں گولی لگی تھی جو نکالی نہیں گئی تھی۔ چال میں فرق تھا۔ پراسٹیٹ کینسر کی بھی شکایت تھی۔ نماز بھی کرسی پر پڑھتے لیکن مسلسل لکھتے چلے جاتے۔ اسی دوران امیر صاحب یاد کرتے تو اُٹھ کر جاتے اور واپس آکر اُسی انہماک سے لکھنا شروع کردیتے۔ اس دوران دوسروں کو ہدایات بھی دیتے رہتے۔ کام مکمل کرکے ہی اُٹھتے۔
خدمت دین کو اعزاز سمجھتے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے کہ محنت، پوری استعداد اور بغیر کسی لالچ کے خدمت کرو تو اللہ تعالیٰ ہر مشکل آسان کردے گا۔ آپ خود اس کا عملی نمونہ پیش کرتے تھے۔ پیرانہ سالی اور چلنے میں دشواری کے باوجود مقررہ وقت 10 بجے دارالذکر پہنچ جاتے اور ایک بجے مسجد نُور نماز ادا کرنے چلے جاتے۔ دوستوں اور گھر والوں کے صحت کے حوالہ سے توجہ دلانے پر کہتے کہ جب تک جماعت خود فارغ نہ کرے مَیں کبھی اس کا اظہار نہیں کروں گا۔
خلافت سے عشق تھا اور نظام کی اطاعت آپ کا شیوہ تھا۔ وقت کا ضیاع برداشت نہیں کرتے تھے۔ ہر میٹنگ سے پہلے اس کی بھرپور تیاری کرتے اور پروگراموں کے ہر پہلو پر گہری نظر رکھتے۔ یادداشت بہت عمدہ تھی۔ تمام پروگراموں اور رپورٹوں کی تاریخیں زبانی یاد ہوتیں۔ ایک مشین کی طرح کام کرنے کا نمونہ پیش کرتے ۔
شہید مرحوم اپنے عزیزوں کا بہت خیال رکھتے، بزرگوں کا احترام کرتے۔ میری والدہ اپنی زندگی میں جب بھی میرے ہاں آتیں تو شہید مرحوم خود اُن کو ملنے کے لیے آتے۔ آپ کے مزارعین گاؤں سے آتے تو اُن کی بھی عزت کرتے اور اُن کے مسائل کوشش کرکے حل کرتے۔ ایک قیمتی اثاثہ تھے۔ اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے۔
………٭………٭………٭………
محترم ماسٹر غلام محمد صاحب شہید اور حضرت چودھری بدر دین صاحب شہید
ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ جون 2011ء میں مکرم نوید احمد انور صاحب کے قلم سے دو شہداء کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
محترم ماسٹر غلام محمد صاحب اوکاڑہ کے نواح میں ایک دیہاتی سکول میں ٹیچر تھے۔ آپ یکم اکتوبر 1950ء کو چند دیگر احمدیوں کے ساتھ تبلیغ کے لیے دوسرے گاؤں گئے جہاں چند فسادیوں نے انہیں پکڑ کر چہروں پر کالک ملی اور گندے پانی میں سے گزرنے پر مجبور کیا۔ پولیس میں رپورٹ ہوئی تو فضل نامی ایک مُلّا گرفتار کرلیا گیا جس پر احتجاجاً اوکاڑہ میں دکانیں بند ہوگئیں اور 3؍اکتوبر کی رات ایک جلسہ عام میں مقررین نے ہزاروں شرکاء کے سامنے اشتعال انگیز تقاریر کیں۔ اگلی صبح ایک شخص محمد اشرف یہ تقاریر سُن کر چھرے سے مسلح ہوکر نکلا اور موقع کی تلاش میں رہا۔ بعدازاں 4؍اکتوبر 1950ء کو ماسٹر غلام محمد صاحب کا تعاقب کرکے چھرے کا وار کیا۔ وہ بھاگ کر قریبی پانی میں چلے گئے اور مجرم نے پانی میں جاکر کئی وار کیے جس پر وہ شہید ہوگئے۔ مجرم محمد اشرف نے اپنے بیان میں کہا کہ اُس نے جلسے میں کی جانے والی تقریروں سے متاثر ہوکر ماسٹر کو قتل کرنے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی تھی۔
حضرت چودھری بدردین صاحب ایک سادہ مزاج اور خاموش طبع بزرگ تھے۔ 1890ء میں پیدا ہوئے اور 1899ء کے لگ بھگ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی سعادت حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم قادیان میں پائی۔ عرصۂ دراز تک لدھیانہ میں سیکرٹری مال اور سیکرٹری امورعامہ رہے۔ حضرت امّاں جانؓ اور حضرت مصلح موعودؓ نے آپؓ کے مکان پر قیام بھی فرمایا تھا۔
آپ قیام پاکستان کے بعد راولپنڈی میں آباد ہوئے۔ احراریوں کے سخت اشتعال پھیلانے پر ایک بدبخت ولایت خان نے 10؍اکتوبر 1950ء کو آپؓ کو اُس وقت گولی ماردی جب آپؓ ایک باغیچہ میں سے گزر رہے تھے۔ قاتل کو موقع پر ایک سب انسپکٹر پولیس نے گرفتار کرلیا جو اتفاق سے موقع پر موجود تھا۔ قاتل نے اعتراف کیا کہ احمدی ہونے کی وجہ سے آپؓ پر گولی چلائی ۔ آپؓ کے داماد ڈاکٹر میر محمد صاحب آپؓ کو زخمی حالت میں سول ہسپتال لے گئے۔ بے ہوشی کی حالت میں بھی آپؓ کی زبان پر مسنونہ دعائیں اور کلمہ طیّبہ جاری رہا۔ اگلے دن گیارہ بجے آپؓ نے شہادت پائی۔ آپؓ اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے لیکن اپنے بعد 34 ؍افرادکا کنبہ بطور یادگار چھوڑا۔ آپؓ کی شہادت پر گوالمنڈی راولپنڈی کے غیرازجماعت شرفاء نے بھی قاتل کی حرکت کو ظالمانہ فعل قرار دیا۔
………٭………٭………٭………
نیویارک
امریکہ کا سب سے بڑا شہر نیویارک اقوام متحدہ کے صدر دفتر کی وجہ سے بھی شہرت رکھتا ہے۔ ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ جون 2011ء میں مکرم فطین طیب صدیقی صاحب کے قلم سے ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے۔
نیویارک شہر کو اطالوی باشندے Giovanni da Verrazzanoنے دریافت کیا تھا لیکن وہ نیویارک کی بندرگاہ تک نہیں پہنچ پایا اور واپس بحراوقیانوس میں داخل ہوگیا۔ پہلی بار انگلستان کے ہنری ہڈسن نے 11؍ستمبر 1609ء کو دریا میں سفر کرتے ہوئے نیویارک کے جزیرے Manhattan کو دریافت کیا۔ یہ شہر کا کاروباری مرکز ہے اور نیویارک کی بلندوبالا عمارات اسی میں واقع ہیں۔ ہڈسن جس دریا میں سفر کر رہا تھا، وہ دریائے ہڈسن کہلایا۔ ہڈسن ‘ڈَچ ایسٹ انڈیا کمپنی’ کے لیے کام کرتا تھا اس لیے 1613ء میں ولندیزیوں نے یہاں شہر کی بنیاد رکھی جسے نیوایمسٹرڈیم کا نام دیا۔ 1652ء میں اس شہر نے خودمختاری حاصل کرلی لیکن برطانیہ نے ستمبر 1664ء میں اس پر قبضہ کرکے اسے (نیویارک کے مرکز) البانی اور ڈیوک آف یارک کے حوالہ سے نیویارک کا نام دیا۔
ولندیزیوں نے اگست 1673ء میں شہر پر دوبارہ قبضہ کرکے اسے نیواورنج کا نام دیا لیکن نومبر 1674ء میں برطانیہ نے پھر اس پر قبضہ کرلیا جو ایک صدی سے زائد جاری رہا۔ انقلابی جنگ کے خاتمے پر 1783ء میں یہ امریکہ کی آخری بندرگاہ تھی جسے برطانوی جہازوں نے چھوڑا۔
1785ء سے 1790ء تک نیویارک نوتشکیل شدہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کا دارالحکومت رہا۔ پھر اقتصادی ترقی کی وجہ سے اہمیت اختیار کرنے لگا اور 1904ء میں یہاں زمین دوز ریلوے کا منصوبہ شروع ہوا جس کی پٹڑیوں کی لمبائی اس وقت 1056؍کلومیٹر ہے۔ 1925ء میں اس شہر نے لندن کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہونے کا اعزاز اپنے نام کرلیا۔ جنگ عظیم دوم میں تجارت و صنعت میں بھی دنیا کا عظیم ملک بننے کے بعد یہاں کی وال اسٹریٹ نے عالمی اقتصادیات پر امریکہ کی برتری قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1952ء میں اقوام متحدہ کے دفاتر یہاں قائم ہونے کے بعد شہر کو عالمی سیاسی برتری بھی حاصل ہوگئی۔
11؍ستمبر 2001ء کو نیویارک کے ورلڈٹریڈ سینٹر پر حملوں نے دنیا کے حالات پر دیرپا اثرات چھوڑے۔ اس سینٹر کی تباہی کے نتیجے میں قریباً تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ بعدازاں اس کی جگہ 1776فٹ بلند فریڈم ٹاور تعمیر کیا گیا ہے۔
شہر قریباً چالیس جزائر پر مشتمل ہے جن میں سے تین اہم ہیں یعنی Manhattan، Staten اور Western Long۔ یہ شہر سیاحت کا بھی عظیم مرکز ہے اور سالانہ چالیس ملین سے زیادہ سیاح یہاں آتے ہیں۔ یہاں کی بسوں اور ریل کا نظام شمالی امریکہ کا سب سے بڑا نظام ہے۔ شہر کے گردونواح میں تین بڑے ہوائی اڈّے ہیں جن میں جان ایف کینیڈی انٹرنیشنل ایئرپورٹ، لاگارڈیا ایئرپورٹ اور نیویارک لبرٹی انٹرنیشنل ایئرپورٹ شامل ہیں۔
نیویارک دنیابھر کے ذرائع ابلاغ کا دارالحکومت کہلاتا ہے جہاں کئی معروف اشاعتی ادارے، دو سو سے زائد اخبارات اور 350؍جرائد کے دفاتر موجود ہیں۔ کتب کی اشاعت کی صنعت سے 13ہزار افراد وابستہ ہیں۔ دنیابھر کی آزاد فلموں میں سے ایک تہائی صرف نیویارک میں پیش کی جاتی ہیں۔
نیویارک کو تجارت کے تین عالمی مراکز میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ دیگر دو مراکز لندن اور ٹوکیو ہیں۔ امریکہ میں سب سے زیادہ پوسٹ گریجوایٹ ڈگریاں نیویارک میں دی جاتی ہیں۔ 40 ہزار سندیافتہ طبیبوں اور 127؍نوبل انعام یافتگان نے اسی شہر میں تعلیم حاصل کی۔ نیویارک پبلک لائبریری امریکہ کی سب سے بڑی سرکاری لائبریری ہے۔
………٭………٭………٭………
ماہنامہ ‘‘انصاراللہ’’ ربوہ اکتوبر 2011ء میں مکرم رانا فضل الرحمن نعیم صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے:
ہم احمدی انصار ہیں
ہم مخزنِ افکار ہیں
ہم معدنِ انوار ہیں
ہم صاحبِ کردار ہیں
ہم احمدی انصار ہیں
ہم دلبر و دلدار ہیں
ہم درد کے اشعار ہیں
گو آج ہم لاچار ہیں
پر شجرِ سایہ دار ہیں
ہم احمدی انصار ہیں
ہم مرکزِ تدبیر ہیں
ہم صبح کی تنویر ہیں
ہم عشق کی تفسیر ہی
ہم کوشش و تدبیر ہیں
ہم احمدی انصار ہیں
دلوں کے ہم حلیم ہیں
ہم فطرتاً سلیم ہیں
ہم نیک خُو کریم ہیں
ہم سادہ دل نعیم ہیں
ہم احمدی انصار ہیں