متفرق مضامین

عالمی وحدت اورہماری ذمہ داری

(طارق محمود طاہر۔ مربی سلسلہ)

اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

اللہ تعالیٰ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرما کر آپ کے ذریعہ دنیا کو دین واحد پر جمع کرنا چاہتا ہے اور ایک عالمی وحدت کا نمونہ دکھانا چاہتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم سے یہ کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ شروع ہوا اور آپ کے بعد آپ کے خلفائے کرام کے ذریعہ وحدت کا یہ دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور ان شاء اللہ ایک وقت آئے گا جب یہ دائرہ پوری دنیا پر محیط ہو جائے گا ۔

ہمارے پیارے اما م حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے امسال اپنے خطبۂ عیدالفطر میں فرمایا تھا کہ ہماری حقیقی عید اسی وقت ہو گی جب وحدت کا سب سے بڑا اجتماع ہو گا۔
اسی طرح حضور انور اید ہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حالیہ دورہ یورپ میں جلسہ سالانہ فرانس کےاختتامی خطاب میںبھی اس موضوع کو بیان فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ تقدیر ہےکہ وہ اور اُس کے رسول ضرور غالب آئیں گے۔ ان شاء اللہ ایسا ضرور ہو گا کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی اٹل تقدیر ہے۔تاہم اس سلسلہ میں ہم پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔

ان میں سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنے پیارےامام کی کامل اطاعت کریں اور آپ کے ہر منصوبہ ،حکم اور اشارہ کو پورا کرنے کے لیے جان لڑا دیں۔ تبلیغ کے دائرے اور رفتار کو وسیع اور تیز کریں اور اس کے لیے خاص طور پر اپنی عملی حالتوں کی اصلاح کریں کیونکہ اس کے بغیر تبلیغ مؤثر نہیں ہو سکتی۔

اپنی ان تمام کو ششوں کومضبوط اور طاقت ور کرنے کے لیے ایک بہت ضروری امر یہ ہے کہ اندرونی اختلاف اور انشقاق کا ، خواہ وہ معمولی ہی ہو،خاتمہ کیا جائے اور باہمی اتفاق و اتحاد اورالفت و محبت اور ہمدردی کو بڑھایا جائے تا کہ اس وحدت سے قومی طاقت مجتمع رہے اور منتشر نہ ہو اور ایک تیز رو دریا کی طرح ہم آگے بڑھتے چلے جائیں اور راستے میں آنے والے خس و خاشاک کو بہا کر لےجائیں۔خلاصہ یہ کہ وسیع عالمی وحدت کے مقصد کے جلد حصول کے لیے اندرونی وحدت بہت ضروری ہے۔جو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے خلافت حقہ اسلامیہ کے ذریعہ جماعت احمدیہ میں موجود ہے۔تاہم چونکہ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو اس حوالہ سے ایک نمونہ بنانا چاہتا ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ ایسی کمزوریوں کا مکمل طور پر قلع قمع کیا جائے،کیونکہ بغض کا جدا ہونا مہدی کی علامت ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

‘‘یاد رکھو بغض کا جدا ہونا مہدیؔ کی علامت ہے اور کیا وہ علامت پوری نہ ہو گی؟وہ ضرور ہو گی۔’’

(ملفوظات جلد اول صفحہ336)

باہم اتفاق ومحبت کے حوالہ سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘جماعت کے باہم اتفاق و محبت پر میں پہلے بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تم باہم اتفاق رکھو اور اجتماع کرو۔خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی تعلیم دی تھی۔ کہ تم وجود و احد رکھوورنہ ہوا نکل جائے گی۔نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہونے کا حکم اسی لیے ہے کہ باہم اتحاد ہو۔برقی طاقت کی طرح ایک کی خیر دوسرے میں سرایت کرے گی۔اگر اختلاف ہو،اتحاد نہ ہو۔تو پھر بے نصیب رہو گے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لیے غائبانہ دُعا کرو۔اگر ایک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لیے بھی ایسا ہو ۔کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے۔اگر انسان کی دعا منظور نہ ہو،تو فرشتہ کی تو منظور ہی ہوتی ہے۔میں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو۔’’

(ملفوظات جلد اول صفحہ 336)

پھر فرمایا:‘‘میں دو ؔہی مسئلے لے کر آیا ہوں۔اولؔ خدا کی توحید اختیار کرو۔دوسرؔے آپس میں محبت اور ہمددی ظاہر کرو۔وہ نمونہ دکھلائو کہ غیروں کے لیے کرامت ہو۔یہی دلیل تھی جو صحابہؓ میں پیدا ہوئی تھی۔ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ (آل عمران:104)یاد رکھو! تالیف ایک اعجاز ہے۔یاد رکھو ! جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرے،وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔وہ مصیبت اور بلا میں ہے۔اس کا انجام اچھا نہیں۔’’

(ملفوظات جلد اول صفحہ 336)

آپ علیہ السلام نہایت باریکی سے باہمی عداوت پیدا ہونے کے اسباب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی ہوتی ہے۔مثلاً ایک شخص کہتا ہے کہ کسی بازیگر نے دس گز کی چھلانگ ماری ہے۔دوسرا اُس پر بحث کرنے بیٹھتا ہے اور اس طرح پر کینہ کا وجود پیدا ہو جاتا ہے…جیسے طبی مسئلہ ہے کہ جبتک بعض امراض میں قلع قمع نہ کیا جاوے،مرض دفع نہیں ہوتا۔میرے وجود سے ان شاء اللہ ایک صالح جماعت پیداہو گی۔ باہمی عداوت کا سبب کیا ہے۔ بخلؔ ہے، رعونت ہے،خود پسندیؔ ہے اور جذباتؔ ہیں۔’’

(ملفوظات جلد اول صفحہ 336)

پس ہمیں ان تمام اسباب کو جو باہمی عداوت پیدا کرتے ہیں اور وحدت کے اور باہم اتفاق و محبت کے دشمن ہیں اپنے اندر سے نکال باہر کرنا چاہیے ورنہ ہماری یہ کمزوریاں ہمارے لیے ہی نقصان کا موجب ہوں گی ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہایت دکھ اور تکلیف سے ایسے لوگوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ

‘‘ایسے تمام لوگوں کو جماعت سے الگ کر دوں گا جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکتے اور باہم محبت اور اخوت سے نہیں رہ سکتے۔جو ایسے ہیں وہ یاد رکھیں کہ وہ چند روزہ مہمان ہیں۔ جب تک کہ عمدہ نمونہ نہ دکھائیں۔ میں کسی کے سبب سے اپنے اُوپر اعتراض لینا نہیں چاہتا۔ایسا شخص جو میری جماعت میں ہو کر میرے منشاء کے موافق نہ ہو،وہ خشک ٹہنی ہے۔اُس کو اگر باغبان کاٹے نہیں تو کیا کرے۔خشک ٹہنی دوسری سبز شاخ کے ساتھ رہ کر پانی تو چوستی ہے،مگر وہ اُس کو سر سبز نہیں کر سکتا،بلکہ وہ شاخ دوسری کو بھی لے بیٹھتی ہے۔پس ڈرو !میرے ساتھ وہ نہ رہے گا جو اپنا علاج نہ کرے گا۔’’

(ملفوظات جلد اول صفحہ 336)

یہ بہت خوف کا مقام ہے۔کیونکہ کوئی احمدی بھی ایسا نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ نہ رہنا چاہتا ہو۔اس لیے ہم میں سے جس میں بھی یہ کمزوریاں ہیں اسے فورا ًاس طرف متوجہ ہو کر ان کو دور کرنا چاہیے۔

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ بالا اقتباس کے حوالہ سے فرماتے ہیں:

‘‘چاہے اس کا ظاہر میں کسی کو پتہ ہو یانہ پتہ ہو لیکن جو شخص بھی کمزور ہے وہ ان باتوں سے فیضیاب نہیں ہو گا یا پھر ان دعاؤں سے حصہ نہیں پا سکے گا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کے افراد کے لیے کی ہیں۔ پس اس بارہ میں ہر ایک کو اپنے جائزے لیتے رہنا چاہیے’’

(خطبات مسرور جلد14صفحہ14)

پس ایک احمدی کے لیے یہ کوئی معمولی انذار نہیں ہے کہ جس چیز کے حصول کے لیے وہ احمدی ہوا ہے اسی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اگر اس کے عمل میں ایسی کمزوری ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے فیض سے بے نصیب رہے گا تو وہ خلیفۃ المسیح کی دعاؤں سے کیسے فیضیاب ہو سکتا ہے؟

باہمی اختلاف ایسی چیز ہے کہ جو قومی طاقت کو کمزور کر دیتی ہے اور منافق طبع لوگوں کے لیے فتنہ پیدا کرنے کے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں اور اندرونی فتنہ جو منافقت کی وجہ سے پیدا کیا جاتا ہے وہ بیرونی فتنوں اور آزمائشوں سے کہیں سخت ہو تا ہے کیونکہ بیرونی آزمائش تو عملا ًقوم کو متحد کرتی ہے جبکہ اندرونی فتنے وحدت کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔قرآن کریم نے ہماری نصیحت کے لیے گذشتہ انبیاء کی جماعتوں کے واقعات محفوظ فرمائے ہیں۔ سامری نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی غیر حاضری سے فائدہ اٹھا کر قوم میں جو فتنہ کھڑاکیا تھا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس کے متعلق فرماتے ہیں:

‘‘حضرت ہارون ؑنے اس موقعہ پر جو یہ کہا کہ یَاقَوْمِ اِنَّمَافُتِنْتُمْ بِہٖ یعنی اے میری قوم تمہیں اس بچھڑے کے ذریعے ایک آزمائش میں ڈالا گیا ہے ۔اس سے مراد یہ ہے کہ تمہاری اصل آزمائش کاوقت اب آیا ہے گویا فرعون کے عذاب اس آزمائش کے مقابل پر بالکل ہیچ تھے کیونکہ وہ آزمائش دشمن کی طرف سے تھی جس میں قدرتاً سب لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں لیکن جب اندرسے فتنہ کھڑا ہو تو کئی کمز ور طبائع ڈانواں ڈول ہوجاتی ہیں ۔پس حضرت ہارونؑ اپنی قوم کو توجہ دلاتے ہیں کہ بے شک پہلے بھی تمہارے سامنے مختلف آزمائشیں آتی رہی ہیں مگر اِنَّمَافُتِنْتُمْ بِہٖ تمہاری آزمائش کا اصل وقت اب آیا ہے اور اب دنیا پر ظاہر ہو جائے گا کہ تم میں سے کون سچے دل سے ایمان لایا تھا اور کون اپنے دعویٰ ایمان میں جھوٹاتھا ۔اس سے معلوم ہوا کہ اندرونی فتنوں کوکبھی حقیر نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ پوری تندہی سے ان کامقابلہ کرنا چاہیے ۔کیونکہ خطرے والا فتنہ وہی ہوتاہے۔ خواہ قوم کتنی بھی تھوڑی ہو اگر اندرونی فتنہ اس میں نہ ہو تو دشمن اسے مٹا نہیں سکتا لیکن اگر اندرونی فتنہ پیدا ہو تو پھرتباہی کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے ۔’’

(تفسیر کبیر جلد 5صفحہ459)

حضرت آدم کے وقت میں بھی شیطان کھلی مخالفت کی بجائے دوستانہ اور منافقانہ رنگ میں حملہ آور ہوا اور فتنہ اور آزمائش پیدا کر دی۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:

‘‘قرآن کریم نے سورئہ اعراف میں بتایا ہے کہ جب شیطان اخلاص کاجبہ پہن کر آدم کے پاس گیا تو قاسمھماانی لکما لمن الناصحین وہ آدم اور اس کے ساتھیوں کے سامنے قسمیں کھاکھا کر کہنے لگا کہ میں تو آپ لوگوں کا بڑاخیر خواہ ہوں۔گویا ظاہری مخالفت کو چھوڑ کر وہ منافقانہ رنگ میں آدم کی جماعت کے ساتھ شامل ہوگیا ۔ اور اس نے اپنے اخلاص کاانہیں قسمیں کھا کھا کر یقین دلایا جیسا کہ سورئہ منافقون میں اللہ تعالیٰ نے منافقون کا یہی طرق بتایا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے اور قسمیں کھا کھا کر کہتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔خدتعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ درست تو ہے کہ تو اللہ کارسول ہے مگر خداتعالیٰ اس بات پر بھی گواہ ہے کہ یہ منافق اپنی قسموںمیں بالکل جھوٹے ہیں ۔اس لیے ان منافقوں سے ہمیشہ بچتے رہو۔ یہی طریق زمانہ آدم کے منافقین کے سردار نے اختیار کیا ۔ اور آدم کو اپنے اخلاص اور فدائیت کا یقین دلایا اس پر آدم نے یہ اجتہاد کیا کہ گو یہ شخص پہلے ابلیسی روح اپنے اندر رکھتاتھا مگر اب تو یہ مخالفت کا راستہ ترک کر چکا ہے اس لیے اب اس سے تعلق رکھنے میں کوئی ہرج نہیں ۔

چنانچہ اس اجتہادی غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس حالت میں وہ رہتے تھے اس سے انہیں نکلناپڑا لَمْ نَجِدْلہٗ عَزْمًا میں ان کی اسی اجتہادی غلطی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ شیطان نے آدم کو بغیراس کے کہ اس کا اپناارادہ ہوتا پھسلا دیا۔’’

(تفسیر کبیر جلد 5 صفحہ471)

پس ایک عالمی وحدت کا نظارہ پیدا کرنے کے لیے ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اندرونی وحدت اور اتفاق اور محبت کا مظاہرہ کریں اور زندگی کے ہر پہلو میں محبت اور اتفاق اور باہمی ہمدردی کا نمونہ دکھائیں خواہ وہ گھریلو سطح پر ہو یا اس سے باہر نکل کر کسی بھی سطح پر، اور اپنی کسی ایسی کمزوری کے متعلق یہ نہ سمجھیں کہ یہ میرا ذاتی فعل یا ذاتی کمزوری ہے۔کیونکہ ایک جماعت سے منسلک ہو کر انسان کی ذاتی کمزوری بھی جماعت کو بدنام کرتی ہے اور اس کے اجتماعی مفاد کو نقصان پہنچانے کا موجب بنتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھیں کہ جماعت کے اوپر خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہوتا ہے۔اس لیے حقیقتًا ایسی کمزوریاں انسان کی اپنی محرومی اور بے نصیبی کا ہی موجب ہو جاتی ہیں اور یہی وہ بات ہےجس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خبردار فرمایا ہے جب فرمایا کہ

‘‘پس ڈرو میرے ساتھ وہ نہ رہے گا جو اپنا علاج نہ کرے گا۔’’

اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں کو دور فرمائے اور ہمیں اپنی وہ تمام ذمہ داریاں احسن رنگ میں پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو عالمی وحدت کا نظارہ پیدا کرنے کے لیے ہمارے اوپر عائد ہوتی ہیں۔ہمارے محبوب امام ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی یہ دعا کتنی پیاری ہے۔آپ فرماتے ہیں:
‘‘اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اپنی زندگیوں کو آپ علیہ السلام کی خواہش کے مطابق ڈھالنے والے ہوں اور ہمارے قدم ہر آن نیکیوں کی طرف بڑھنے والے قدم ہوں۔ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کو ضائع کرنے والے نہ ہوں بلکہ ہمیشہ ان دعاؤں کا وارث بنیں جو آپ علیہ السلام نے اپنی جماعت کے لیے کی ہیں۔’’

(خطبات مسرور جلد14 صفحہ16)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button