مضامین

تاریخ احمدیت جرمنی کا ایک ورق

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ اُس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو خلافت کے طفیل پورا کر کے دکھایا ہے اور مزید دکھاتا چلا جا رہا ہے، اس کی ایک اور مثال حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا حالیہ دورہ جرمنی بھی ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے خلافت کے سائے میں جماعت کو وسعتوں سے نوازا ہے۔

جرمنی اُن ممالک میں سے ایک ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے دعویٰ مجددیت اور صداقت اسلام کے لیے قادیان میں نشان نمائی کی دعوت کا پیغام پہنچایا۔ چنانچہ آپؑ نے براہین احمدیہ کی اشاعت کے فوراً بعد 1884ء میں دنیا کےلیے ایک عام اشتہار شائع فرمایا کہ
‘‘اصل مدعا خط جس کے ابلاغ سے میں مامور ہوا ہوں یہ ہے دین حق جو خدا کی مرضی کے موافق ہے صرف اسلام ہے …. آپ کو اس دین کی حقانیت یا اُن آسمانی نشانوں کی صداقت میں شک ہو تو آپ طالب صادق بن کر قادیان میں تشریف لاویں اور ایک سال تک اس عاجز کی صحبت میں رہ کر اُن آسمانی نشانوں کا بچشمِ خود مشاہدہ کر لیں….. اور اگر آپ آویں اور ایک سال رہ کر کوئی آسمانی نشان مشاہدہ نہ کریں تو دو سو روپیہ ماہوار کے حساب سے آپ کو ہر جانہ یا جرمانہ دیا جائے گا….’’

(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 21)

اسی اشتہار میں آپؑ نے اس ارادے کا اظہار فرمایا کہ ہندوستان سے باہر بھی اس اشتہار کی اشاعت کی جائے گی چنانچہ اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع ہوا جو حضرت اقدس علیہ السلام کی کتب سرمہ چشم آریہ (روحانی خزائن جلد 2صفحہ 319-320)، آئینہ کمالات اسلام (روحانی خزائن جلد 5صفحہ 657)اور برکات الدعا (روحانی خزائن جلد 6صفحہ 38-40)میں بھی شائع کیا گیا۔ غیر ممالک میں جن افراد کو رجسٹری کراکے اسلام کی صداقت کا یہ دعوت نامہ ارسال کیا گیا اُن میں جرمن ایمپائر کے چانسلر (Otto Eduard Leopold 1815-1898)بھی تھے جوOtto von Bismarckکے لقب سے مشہور ہیں، انھیں جدید جرمنی کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام منشی مظہر حسین صاحب نامی ایک شخص کے نام اپنے دعویٰ مجدد یت کے متعلق فرماتے ہیں:

‘‘یہ دعویٰ ایسا نہیں کہ وجودیوں کے پُر تزویر مشائخ کی طرح صرف چند سادہ لوح اور بے وقوف مریدوں میں کیا گیا ہو بلکہ یہ دعویٰ بفضلہ تعالیٰ و توفیقہٖ میدانِ مقابلہ میں کروڑہا مخالفوں کے سامنے کیا گیا ہے اور قریب تیس ہزار کے اس دعویٰ کے دکھلانے کے لیے اشتہارات تقسیم کیے گئے اور آٹھ ہزار انگریزی اشتہار اور خطوط انگریزی رجسٹری کرا کر ملک ہند کے تمام پادریوں اور پنڈتوں اور یہودیوں کی طرف بھیجے گئے اور پھر اس پر اکتفا نہ کر کے انگلستان اور جرمن اور فرانس اور یونان اور روس اور روم اور دیگر ممالک یورپ میں بڑے بڑے پادریوں کے نام اور شہزادوں اور وزیروں کے نام روانہ کیے گئے چنانچہ ان میں سے شہزادہ پرنس آف ویلز ولی عہد تخت انگلستان اور ہندوستان، اور گلیڈ سٹون وزیر اعظم اور جرمن کا شہزادہ بسمارک ہے۔ چنانچہ تمام صاحبوں کی رسیدوں سے ایک صندوق بھرا ہوا ہے۔ پس کیا ایسی کارروائی مکر و فریب میں داخل ہو سکتی ہے؟ کیا کسی مکار کو یہ جرأت ہے کہ ایسا کام کر کے دکھلاوے؟’’

(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 649۔ مطبوعہ قادیان 2009ء)

اس بات کا اظہار حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنی کتاب ‘‘ازالہ اوہام’’میں بھی فرمایا ہے، حضورؑ تحریر فرماتے ہیں:

‘‘یہ عاجز اسی قوتِ ایمانی کے جوش سے عام طور پر دعوت اسلام کے لیے کھڑا ہوا اور بارہ ہزار کے قریب اشتہارات دعوت اسلام رجسٹری کراکر تمام قوموں کے پیشواؤں اور امیروں اور والیانِ ملک کے نام روانہ کیے…ایسا ہی شہزادہ بسمارک کے نام اور دوسرے نامی امراء کے نام مختلف ملکوں میں اشتہارات و خطوط روانہ کیے گئے جن سے ایک صندوق پُر ہے اور ظاہر ہے کہ یہ کام بجز قوت ایمانی کے انجام پذیر نہیں ہو سکتا۔’’

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 156حاشیہ)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعویٰ کی صداقت کے لیے جن عیسائی پادری صاحبان کو مخاطب کیا ہے اُن میں ایک وائٹ بریخٹ صاحب (1937ء- 1857ء) بھی ہیں، ان کا پورا نام Herbert Udny Weitbrecht Stantonتھا اور یہ جرمن نژاد برطانوی چرچ مشنری تھے جو جرمنی کی مشہور یونیورسٹی University of Tübingen سے پی ایچ ڈی تھے اور انڈیا میں کام کرتے رہے، یہ کچھ عرصہ بٹالہ میں بھی نگران مشنری کے طور پر متعین رہے۔

Herbert Udny Weitbrecht Stanton

1888ء میں فتح مسیح نامی ایک عیسائی واعظ نے بٹالہ میں حضرت اقدس علیہ السلام کے مقابل الہام کا دعویٰ کیا لیکن بعد ازاں اس سے مُکر گیا (تفصیل کے لیے دیکھیں مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 150-145) حضرت اقدس علیہ السلام نے 24؍مئی 1888ء کو ایک اشتہار بعنوان ‘‘اکیس مئی 1888ء کے جلسہ مذہبی کی کیفیت اور پادری وائٹ بریخٹ صاحب پر اتمام حجت’’شائع کیا جس میں ایک طرف فتح مسیح صاحب کی غیر سنجیدگی اور دروغ گوئی کو دنیا پر ظاہر کیا تو دوسری طرف پادری وائٹ بریخٹ صاحب کو مقابل پر آنے کی دعوت دیتے ہوئے تحریر فرمایا:

‘‘…. نیز اس اشتہار میں پادری وائٹ بریخٹ صاحب جو کہ اس علاقے کے ایک معزز یورپین پادری ہیں، ہمارے بالتخصیص مخاطب ہیں….’’(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 148)

مئی 1907ء میں ایڈیٹر اخبار بدر نے ‘‘جرمنی میں سلسلہ حقّہ کی خبر’’کے عنوان سے ایک خبر شائع کی، یہ خبر حضرت مولوی محمد الدین صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ (ولادت: 1881ء۔ بیعت: 1901ء۔ وفات: مارچ 1983ء) نے علی گڑھ یونیورسٹی سے بھجوائی تھی جہاں وہ اُن دنوں بی اے کی تعلیم پا رہے تھے ۔ اخبار بدر لکھتا ہے:

‘‘ماسٹر محمد دین صاحب علی گڑھ کالج سے لکھتے ہیں کہ یہاں ایک جرمن پروفیسر ہے جو کہ عربی پڑھاتا ہے، اس نے مجھے ایک کتاب جرمن زبان میں دکھلائی جس میں اقصائے مشرق کے مختلف مذاہب کا حال دیا ہوا تھا، اس میں حضور مرزا صاحب اور فرقہ احمدیہ کا بھی مختصر ذکر لکھا ہے جو کہ ایک دو صفحوں سے پروفیسر نے ترجمہ کرکے مجھے سنایا مگر معلومات سب صحیح نہ تھے تاہم اس میں شک نہیں کہ فرقہ احمدیہ کی اہمیت کے وہ لوگ قائل ہوچکے ہیں اور اپنی کتب میں اس کا ذکر کرنے لگے ہیں۔’’

(بدر 9؍مئی 1907ء صفحہ 2کالم 1)

آپؓ کے یہ جرمن پروفیسر Joseph Horovitz 1931-1874ء ایک جرمن یہودی مستشرق تھے۔ بعد ازاں حضرت مولوی صاحب نے ایک اور خط میں جرمنی میں چھپنے والی اس کتاب میں درج احمدیت کے تعارف کا خلاصہ ارسال کیا۔ (اخبار بدر 6جون 1907ء صفحہ 2کالم 3) یہ کتاب مشہور ہنگرین مستشرق Ignaz Goldziherکی لکھی ہوئی تھی جو جرمن زبان میں بعنوان Vorlesungen uber den Islam چھپی جو کہ اس کے چھےلیکچروں کا مجموعہ ہے، اس کتاب کے مختلف زبانوں میں تراجم شائع ہو ئے۔(Ignaz کے قلم سے احمدیت کے تعارف کی تفصیل اخبار الفضل لندن 16؍مارچ 2012ء کے شمارے میں چھپ چکی ہے۔)

1907ء میں ہی اخبار بدر نے ‘‘جرمنی سے ایک اخلاص بھرا خط’’کے عنوان کے تحت ایک خبر شائع کرتے ہوئے لکھا:

‘‘ملک جرمنی کے شہر پاسنگ سے ایک لیڈی مسمات مسز کیرولامین کا ایک خط حضرت اقدس مسیح موعود کی خدمت میں گزشتہ ڈاک ولایت میں پہنچا ہے جس سے ظاہر ہے کہ اس سلسلہ کی اشاعت ان ممالک میں بھی اپنا قدم رکھے ہوئے ہے۔ لیڈی صاحبہ تحریر فرماتی ہیں:

‘‘میں کئی ماہ سے آپ کا پتہ تلاش کر رہی تھی تا کہ آپ کو خط لکھوں اور آخر کار اب مجھے ایک شخص ملا ہے جس نے مجھے آپ کا ایڈریس دیا ہے…میں آپ سے معافی چاہتی ہوں کہ میں آپ کو خط لکھتی ہوں لیکن بیان کیا گیا ہے کہ آپ خدا کے بزرگ رسول ہیں اور مسیح موعود کی قوت میں ہوکر آئے ہیں اور میں دل سے مسیح کو پیار کرتی ہوں، مجھے ہند کے تمام معاملات کے ساتھ اور بالخصوص مذہبی امور کے ساتھ دلچسپی حاصل ہے۔ میں ہند کے قحط، بیماری اور زلازل کی خبروں کو افسوس کے ساتھ سنتی ہوں اور مجھے یہ بھی افسوس ہے کہ مقدس رشیوں کا خوبصورت ملک اس قدر بُت پرستی سے بھرا ہوا ہے۔ ہمارے لارڈ اور نجات دہندہ مسیح کے واسطے جو اس قدر جوش آپ کے اندر ہے اُس کے واسطے میں آپ کو مبارکباد کہتی ہوں اور مجھے بڑی خوشی ہوگی کہ اگر آپ چند سطور اپنے اقوال کے مجھے تقریر فرماویں۔ میں پیدائش سے جرمن ہوں اور میرا خاوند انگریز تھا اگرچہ آپ شاندار قدیمی ہندوستان قوموں کے نور کے اصلی پُوت (مراد غالبًا بیٹے ہیں۔ ناقل) ہیں تاہم میرا خیال ہے کہ آپ انگریزی جانتے ہوں گے۔

اگر ممکن ہو تو مجھے اپنا ایک فوٹو ارسال فرماویں۔ کیا دنیا کے اس حصہ میں آپ کی کوئی خدمت ادا کر سکتی ہوں۔ آپ یقین رکھیں پیارے مرزا کہ میں آپ کی مخلصہ دوست ہوں۔ مسز کیرولا مین۔’’

(بدر 14؍مارچ 1907ء صفحہ 2)

محترم مولوی مبارک علی صاحب بنگالی

1923ء میں سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مولوی مبارک علی بنگالی صاحب بی اے بی ٹی (بیعت: 1913ء۔ وفات: یکم نومبر 1969ء)جو اُن دنوں انگلستان میں تبلیغی خدمات سر انجام دے رہے تھے، کو جرمنی کے شہر برلن میں احمدیہ مشن کھولنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ آپ 1923ء کے ابتدائی مہینوں میں برلن پہنچ گئے اور کام کا آغاز کر دیا، آپ نے جرمن ایمپائر کے آخری قیصر Friedrich Wilhelm Viktor Albert 1859 –1941 سمیت کئی اہم شخصیات کو دعوت اسلام پہنچائی۔

(Review of Religions, Qadian, May & June 1923 page 211)

محترم مولوی مبارک علی صاحب بنگالی

آپ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:

‘‘وسط یورپ کے رؤساء و شہزادگان کو پیغام حق پہنچانے کے سلسلہ میں مَیں نے سابق قیصر ولیم کو اسلام کی دعوت دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ایک ہنگرین پروفیسر یورپ میں اشاعت اسلام کے کام کو سر انجام دینے کی تجویز پر سنجیدگی سے غور کر رہا ہے….’’

(الفضل 21؍مئی 1923ء صفحہ 2 کالم 2)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت خلیفۃ المسیحؓ کی دعاؤں ، رہ نمائی اور آپ کی کوششوں کے نتیجے میں جرمنی میں لوگوں کو اسلامی معلومات کا شوق پیدا ہوا، یہ حالات دیکھتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے برلن میں مسجد کی تعمیر کا منصوبہ بنایا اور اس کے اخراجات کے لیے صرف لجنہ اماء اللہ کو مختص کیا کہ یہ مسجد احمدی خواتین کی مالی قربانیوں سے تیار ہوگی، الحمد للہ احمدی خواتین نے اپنے پیارے امام کی آواز پر بھرپور لبیک کہا اور اپنی اپنی مالی قربانیاں پیش کیں۔ احمدیہ مسجد برلن کے لیے چندہ دینے والی خواتین کی ایک فہرست اخبار الفضل 5؍ مارچ 1923ء میں شائع شدہ ہے۔اس تحریک میں نائیجیریا کی نو وارد احمدی خواتین نے بھی بڑے اخلاص سے حصہ لیا، نائیجیرین احمدی خواتین کے چندے کی ایک فہرست رسالہ ریویو آف ریلیجنز اکتوبر 1923ء صفحہ 368پر موجود ہے۔ اسی طرح امریکہ کی احمدی خواتین نے بھی چندہ مسجد برلن میں حصہ لیا۔ (دی مسلم سن رائز ، شکاگو، اکتوبر 1923ء صفحہ 268)مورخہ 5؍اگست 1923ء کو دوپہر 3بجے مسجد برلن کی بنیاد رکھی گئی، سنگ بنیاد کی اس تقریب میں جرمن وزیر داخلہ، جرمن وزیر امور رفاہ عامہ، سفیر دولت افغانیہ و ترکی کے علاوہ دیگر اہم شخصیات سمیت قریباً 400لوگ شامل ہوئے، اس شاندار مجمع میں صرف چار احمدی تھے یعنی مولوی مبارک علی صاحب، ڈاکٹر عطاء اللہ بٹ صاحب اور آپ کے چھوٹے بھائی (ڈاکٹر صاحب بعد میں طبیہ کالج علی گڑھ کے پرنسپل بنے، آپ حضرت حاجی عبدالعزیز صاحب سیالکوٹیؓ کے فرزند تھے) اور چوتھے محمد اسحاق خان ابن مستری قطب الدین صاحب (الفضل 5؍اکتوبر 1923ء صفحہ 1) حضورؓ نے بتائے گئے وقت کا قادیان میں اندازہ کر کے تمام مرد و خواتین کو بغرض دعا بعد نماز مغرب مسجد اقصیٰ میں جمع کیا اور دعا کرائی۔ (الفضل 10؍اگست 1923ء صفحہ 1،2) قادیان سے باہر کی جماعتوں کو بھی اجتماعی دعا کرنے کی حضورؓ نے تحریک فرمائی تھی۔ مسجد کی سنگ بنیاد رکھے جانے پر بعض مصری لوگوں نے شدید مخالفت کی اور شور مچایا کہ احمدی گورنمنٹ برطانیہ کے ایجنٹ ہیں اور یہ جرمنی اور اسلام دونوں کے لیے خطرہ ہیں۔ مولوی مبارک علی صاحب نے اس جھوٹے پروپیگنڈے کا جواب دیا۔ بہرحال مسجد کی تعمیر اور مصری لوگوں کے پروپیگنڈے دونوں نے جرمنی کے علاوہ باہر بھی اخباروں میں جگہ پائی۔ آسٹریلیا کے مشہور کے اخبار The Register نے Mosque and alleged Pan-English Propagandaکے تحت خبر دیتے ہوئے لکھا:

BERLIN, August 7. Remarkable scenes were witnessed today at the laying of the foundation stone of a Mohammendan mosque in the Berlin suburb of Charlottenburg. Mubarak Ali, a representative of the Ahmadia movement in Islamism, laid the stone, and in a speech delivered in English said the object of the movement was the propagation of the pure religion of Islam throughout the world. Those who attended the ceremony included Egyptian, Persian, and Indian Mohammedans, and representatives of the Prussian Government. The Egyptians frequently interrupted Mubarak Ali. Later a committee of the Egyptians National Party made statements to press representatives, declaring that the Ahmadia movement was being conducted by a group of Englishmen and Indians in order to support the English colonial policy throughout Islam; and that the British Government, through the Ahmadia Party, intended to use the new mosque for purposes of Pan-English propaganda
(The Register, Adelaide, SA. Thursday, 9 August 1923 page 7)

حضرت مصلح موعودؓ کو اطلاع ملنے پر حضورؓ نے پہلے ایک خط (الفضل 28؍اگست 1923ء صفحہ 5) اور بعد میں ایک مختصر مضمون ‘‘کیا احمدی گورنمنٹ برطانیہ کے ایجنٹ ہیں؟’’مولوی مبارک علی صاحب مبلغ برلن جرمنی کے نام ضروری ہدایات کے ساتھ ارسال فرمایا۔

(الفضل 21؍ستمبر 1923ء صفحہ 3)

مولوی مبارک علی صاحب کی تبلیغی کوششوں کا کچھ تذکرہ اخبار الفضل 6؍جولائی 1923ء صفحہ 9 پر بھی درج ہے۔ حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحبؓ آپ کے متعلق لکھتے ہیں:

‘‘….ان سعید لوگوں میں سے مولوی مبارک علی صاحب ایک ہیں، یہ بہت پیچھے آئے اور میں کسی اور کی نسبت تو نہیں کہہ سکتا مگر اپنی نسبت کہتا ہوں کہ بہت آگے نکل گئے ہیں اور سراسر اخلاص و محبت ہیں۔ انھوں نے لندن میں جو کچھ کیا بہت قابل تعریف ہے اور اب برلن میں جو کچھ کر رہے ہیں وہ خراج تحسین وصول کرنے کا مستحق ہے، جزاہ اللہ احسن الجزاء۔’’

ایک اور جگہ حضرت نیر صاحبؓ لکھتے ہیں:

‘‘مولوی مبارک علی صاحب جس درد سے کام کرتے ہیں وہ قابل پیروی ہے، اللہ ان کو بہت بہت اجر دے’’

(الفضل 16؍اپریل 1923ء صفحہ 2کالم 1)

حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ

1923ء کے آخر میں حضرت ملک غلام فرید صاحب (پیدائش: 1898ء۔ وفات: 7؍جنوری 1977ء) ابن حضرت ملک نور الدین صاحب آف کنجاہ ضلع گجرات بطور مبلغ جرمنی بھجوائے گئے جو دسمبر 1923ء میں برلن پہنچے۔ (الفضل 8 ؍ فروری 1924ء صفحہ 2)ریویو آف ریلیجنز 1924ء کے پرچوں میں جرمنی احمدیہ مشن کا ایڈریس charlotten strasse 55 berlinلکھا ہے۔

حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ

جرمنی میں مسجد اور مشن کے یہ ابتدائی کام جاری تھے کہ جرمنی کے حالات یکایک بدل گئے، کاغذی روپیہ عملی طور پر منسوخ کر کے سونے کا سکہ جاری کر دیا گیا جس کی وجہ سے قیمتوں میں دو تین سو گنا اضافہ ہوگیا، ان حالات میں مسجد کی تعمیر کا خرچ تیس ہزار روپیہ کی بجائے پندرہ لاکھ روپے بتایا جانے لگا۔ مبلغ کے خرچ میں بھی بہت گرانی آگئی۔ ان حالات میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے تعمیر مسجد کا کام ملتوی کرا دیا اور فیصلہ فرمایا کہ فی الحال دار التبلیغ لندن کو ہی مرکز بنا کر یورپ میں تبلیغ کا کام کیا جائے۔ چنانچہ مئی 1924ء میں جرمن مشن بند کر دیا گیا اور مولوی مبارک علی صاحب اور حضرت ملک غلام فرید صاحب دونوں انگلستان چلے آئے۔ (تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 411 از محترم دوست محمد شاہد صاحب)حضرت مصلح موعودؓ کے سفر یورپ 1924ء کے موقع پر یہ دونوں مبلغین بھی انگلستان میں موجود تھے۔

Friedrich Wagner Chemnitz

1930ء میں ایک جرمن سیاح فریڈرک ویگنر چیمنٹز(Friedrich Wagner Chemnitz) قادیان آئے۔ یہ صاحب 1924ء سے 1929ء تک چین میں رہے جہاں زیادہ تر ان کا تعلق چینی مسلمانوں سے رہا اور اسلام پر کافی بات چیت ہوئی لیکن کسی موقع پربھی احمدیت کا ذکر نہیں آیا۔ 1930ء میں آپ چین سے براستہ انڈیا واپس جرمنی جا رہے تھے کہ آپ کا گزر لداخ سے ہوا جہاں آپ کی ملاقات حضرت خان بہادر غلام محمد خان صاحب آف بھیرہ (بیعت :1892ء – وفات: 26؍جون 1956ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) سے ہوئی اور کافی دوستانہ ماحول میں مختلف باتیں ہوئی ۔

Friedrich Wagner Chemnitz

حضرت خان صاحب نے ان کو قادیان دیکھنے کا مشورہ دیا چنانچہ آپ نے اپنے سفر میں قادیان کا بھی ارادہ کر لیا اور نومبر 1930ء میں قادیان وارد ہوئے، ان کا ارادہ قادیان میں چند گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ ایک دن گزارنے کا تھا لیکن احمدی احباب کی دعوت پر کہ آپ کم از کم ایک ہفتہ ضرور قیام کریں، آپ ایک ہفتہ تک رہنے کے لیے راضی ہوگئے اور اگلے سفر کا پروگرام ملتوی کر دیا۔ بہر کیف آپ نے تقریبًا ڈیڑھ ماہ قادیان میں قیام کیا اور جلسہ سالانہ سمیت جماعت احمدیہ کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع پایا۔ آپ نے قادیان اور جماعت احمدیہ کے بارے میں اپنے تأثرات لکھ کر ریویو آف ریلیجنز میں شائع کرائے جس میں آپ لکھتے ہیں:

It is a spiritual atmosphere, which one feels at Qadian, an atmosphere quite different from the material world outside. Here, the religious thoughts dominate….
I would advise anyone who may afford to pay a visit to Qadian, that he should make it a point to stay there for several days because it is after a stay of some days, that the real spirit of Qadian will begin to reveal itself to him…. Qadian is not Delhi or Agra in respect of splendid buildings. But it is a place whose spiritual treasures never exhaust…. There will be only very few, who will leave Qadian taking nothing with them. And that what a visitor takes with him cannot be measured in coins. No, it is something much more precious and really invaluable
(Review of Religions, Qadian, May 1932 page 159-161)

ترجمہ: یہ ایک روحانی ماحول ہے جسے ایک شخص قادیان میں محسوس کرتا ہے، ایسا ماحول جو باہر کی مادی دنیا سے بالکل مختلف ہے، یہاں دینی خیالات غالب ہیں ….کوئی بھی شخص جو قادیان جانے کا متحمل ہو سکتا ہے، اسے میں یہی تجویز کروں گا کہ وہ اس جگہ کو کئی دنوں کے لیے قیام گاہ بنائے کیونکہ کچھ دنوں کے قیام کے بعد ہی قادیان کی اصل روح اس پر اپنے آپ کو عیاں کرنا شروع کرے گی۔ قادیان عالی شان عمارتوں کے اعتبار سے کوئی دہلی یا آگرہ نہیں ہے لیکن یہ ایک ایسی جگہ ہے جس کے روحانی خزائن کبھی ختم نہیں ہوتے…. بہت ہی تھوڑے ہوں گے جو قادیان آنے کے بعد کچھ نہ کچھ اپنے ساتھ لے کر جانے والے نہ ہوں اور یہ کہ جو کچھ بھی ایک مہمان اپنے ساتھ لے کر جاتا ہے اس کو پیسوں میں نہیں ناپا جا سکتا بلکہ وہ بہت ہی قیمتی اور حقیقۃً انمول چیز ہے۔

جرمنی مشن کا احیائے نَو

جیسا کہ ذکر ہوا 1924ء میں جرمنی میں احمدیہ مشن نامساعد حالات کی وجہ سے بند کر دیا گیا تھا، یہ مشن بند ہی رہا یہاں تک کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ہالینڈ میں مقیم احمدی مبلغ محترم چوہدری عبداللطیف صاحب بی اے ولد چوہدری عطا محمد صاحب (آپ اصل میں بہادرپور ڈاک خانہ میانی افغاناں ضلع ہوشیارپور کے رہنے والے تھے، بعدہٗ قادیان آگئے۔ وفات: 16؍نومبر 1997ء بعمر 82 سال مدفون ہیمبرگ جرمنی)کو جرمنی میں دوبارہ مشن کھولنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ آپ جنوری 1949ء میں Amsterdamسے روانہ ہوکر جرمنی پہنچے (الفضل 11؍جنوری 1949ء صفحہ 1) اور احمدیہ مشن کا احیاء کیا۔ تب سے لے کر آج تک یہ مشن بفضلہٖ تعالیٰ ترقی پذیر ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے سفر یورپ 1955ء میں جرمنی میں آمد سمیت بعد میں آنے والے خلفاء بھی اس ملک میں تشریف لا چکے ہیں اور ہر خلیفہ کا ہر دَورہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار برکتوں اور رحمتوں کو سمیٹنے والا ہوا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت کے ساتھ وابستہ رکھے اور احمدیت کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے، آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button