متفرق مضامین

اوّلین اور آخرین کی ایک پاکیزہ مماثلت۔ مالی قربانی

(محمد مقصود احمد منیب)

اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

ھُوَالَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّیْنَ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْہِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۔ وَاٰ خَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْابِہِمْ وَھُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ (سورۃ الجمعۃ)

ترجمہ: وہی ہے جس نے اُمی لوگوں میں ان ہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ وہ ان پر اس کی آیات تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس سے پہلے وہ یقینا ًکھلی کھلی گمراہی میں تھے۔

اور ان ہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (اسے مبعوث کیا ہے) جو ابھی ان سے نہیں ملے۔ وہ کامل غلبہ والا(اور) صاحبِ حکمت ہے۔

بخاری کتاب التفسیر میں اس آیت کی تفسیر کچھ یوں بیان شدہ ہے کہ

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ کُنَّا جُلُوْسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُنْزِلَتْ عَلَیْہِ سُوْرَۃُالْجُمُعَۃِ ‘‘وَ اٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْابِہِمْ’’ قَالَ قُلْتُ مَنْ ھُمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَلَمْ یُرَاجِعُہٗ حَتّٰی سَأَلَ ثَلَاثًا وَ فِیْنَا سَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ وَ وَضَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدَہٗ عَلٰی سَلْمَانَ ثُمَّ قَالَ ‘‘لَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رِِجَالٌ اَوْ رَجُلٌ مِّنْ ھٰؤُلَآءِ۔’’

(بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورہ جمعہ۔ جلد نمبر 3صفحہ نمبر125مصری۔ و تجرید البخاری مکمل معہ عربی ترجمہ شائع کردہ لاہور۔ فیروزالدین اینڈ سنز جلد نمبر 2صفحہ نمبر 370۔ مشکوٰۃ صفحہ نمبر576 باب جامع المناقب)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ سورۂ جمعہ نازل ہوئی جس میں یہ آیت بھی تھی ‘‘وَ اٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْابِہِمْ’’۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ یارسول اللہ! یہ کون لوگ ہیں جن کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے، یعنی ‘‘وَ اٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ’’سے کون لوگ مراد ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔ حتیٰ کہ تین بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا۔ اسی مجلس میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ پر رکھ کر فرمایا کہ اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہوگا تو ان (اہل فارس) میں سے ایک شخص یا ایک سے زائد اشخاص اس کو پا لیں گے۔

چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت ہوئی اور ہم دیکھتے ہیں کہ آخرین نے بھی قربانیوں کے وہی معیار قائم کرنے کی توفیق پائی جو اولین نے ان کے لیے بطور سنت کے چھوڑے تھے۔ وفا، اخلاص، محبت و عشق، قدمِ صدق، جان و مال و وقت غرضیکہ ہر قسم کی قربانی میں اولین اور آخرین کی مماثلت اظہر من الشمس ہے۔ اس مضمون میں ہم صرف ایک میدان یعنی مالی قربانی کے میدان میں اولین اور آخرین کی مماثلت کے چند ایک نظاروں کا جائزہ لے کر اپنے ایمان کو تازہ کریں گے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی کہ

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ (مائدہ:163)

تُو (ان سے)کہہ دے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔

گویا اس آیت کریمہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا خلاصہ پیش کر دیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا لمحہ لمحہ اپنے رب کی یاد میں ہی گزرا ہے۔

قربانی کا وہ اعلیٰ معیار اس وقت دیکھنے کو ملتا ہے جس کی نظیر انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ہبہ شدہ رقم اللہ کی راہ میں غرباء اور ضرورت مندوں میں تقسیم کر دی اور غلام آزاد کر دیے اور اپنے لیے فقر کی زندگی چن لی۔ قربانی کے یہ حقیقی واقعات پڑھنے والے بھی نم آنکھوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کثرتِ اموال کے موقع پر جودوسخا اور قربانی کی لذت اُٹھاتے ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سات دینار حضرت عائشہؓ کے پاس رکھواتے ہیں۔اپنی آخری بیماری میں فرماتے ہیں کہ عائشہ! وہ سات دینار صدقہ کر دو۔ غشی طاری ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے ساتھ مصروف ہو جاتی ہیں۔ پیارے آقا کو ہوش آتا ہے تو پوچھا کہ عائشہ!کیا وہ سات دینار صدقہ کر دیا؟ عرض کیا نہیں ابھی نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ دینار منگوا کر اپنی ہتھیلی پر رکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ محمد کا اپنے ربّ پر کیا توکل ہوا اگر خدا سے ملاقات اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت یہ دینار اس کے پاس ہوں پھر وہ دینار صدقہ کر دیے اور اسی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔

(ہیشمی مضمع الروالہ جلد3صفحہ نمبر124مطبوعہ بیروت)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو 9؍مارچ1906ء کو الہام ہوا:

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ (مائدہ:163)

کہو کہ میری نماز او ر میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا محض خدا کے لیے ہے جو رب العالمین ہے نہ کسی اور کام کے لیے۔

(تذکرہ ایڈیشن 2004ء صفحہ نمبر513)

اس زمانہ میں اسلام جس کمزوری اور ضعف کی حالت میں تھا اس کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں اسلام کے لیے ایک تڑپ تھی۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے لکھا کہ؎

دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضعفِ دینِ مصطفیٰ ؐ

مجھ کو کر اے میرے سلطاں کامیاب و کامگار

چنانچہ آپؑ نے ازسرِ نَو احیائے اسلام کے لیے نہ صرف گریہ و زاری سے کام لیا بلکہ اپنا تن من دھن سب کچھ وقف کر دیا۔ ظلمت و تاریکی کے اس پُرآشوب دور میں آپ نے ایک معرکۃ الآراکتاب تصنیف فرمائی جس کا نام ‘‘براہینِ احمدیہ’’رکھا اور تمام مذاہب کو چیلنج کیا اور اپنی کل جائداد اس راہ میں پیش کر دی جس کی مالیت اس وقت کم از کم دس ہزار روپے تھی۔

1891ء میں جماعت احمدیہ کا پہلا جلسہ سالانہ قادیان میں منعقد ہوا اور مہمانوں کی ایک کثیر تعداد جمع ہوئی جن کی ضیافت کا کل خرچ حضور اقدس علیہ السلام نے برداشت کیا۔ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر خرچ نہ رہا۔ ان دنوں جلسہ سالانہ کے لیے چندہ جمع ہو کر نہیں جاتا تھا۔ حضور اپنے پاس سے ہی صَرف فرماتے تھے۔ میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے آ کرعرض کی کہ رات کو مہمانوں کے لیے کوئی سالن نہیں ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ بیوی صاحبہ سے کوئی زیور لے کر جو کفایت کر سکے فروخت کر کے سامان کر لیں۔ چنانچہ زیور فروخت یا رہن کر کے میر صاحب روپیہ لے آئے اور مہمانوں کے لیے سامان بہم پہنچادیا۔ دو دن بعد پھر میر صاحب نے رات کے وقت …کہا کہ کل کے لیے پھر کچھ نہیں۔ فرمایا کہ ہم نے رعایتِ اسباب کا انتظام کر دیا تھا۔ اب ہمیں ضرورت نہیں جس کے مہمان ہیں وہ خود کر لے گا۔ اگلے دن آٹھ یا نو بجے جب چٹھی رساں آیا تو حضور نے میر صاحب کو …بلایا۔ چٹھی رساں کے ہاتھ میں دس یا پندرہ کے قریب منی آرڈر ہوں گے جو مختلف جگہوں سے آئے تھے۔ سو سو پچاس پچاس روپے کے۔ اور ان پر لکھا تھا کہ ہم حاضری سے معذور ہیں۔ مہمانوں کے صرف کے لیے یہ روپے بھیجے جاتے ہیں آپؑ نے وصول فرما کر توکّل پر تقریر فرمائی کہ جیسا کہ ایک دنیا دار کو اپنے صندوق میں رکھے ہوئے روپوں پربھروسا ہوتا ہے کہ جب چاہوں گا نکال لوں گا۔ اس سے زیادہ ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ پر پورا توکّل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ پر یقین ہوتا ہے اور ایسا ہی ہوتا کہ جب ضرورت ہوتی ہے تو فوراً خداتعالیٰ بھیج دیتا ہے۔

(ریویو آف ریلیجنز اردو جنوری 1942صفحہ نمبر44-45)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ دینے کا حکم فرمایا۔ اتفاق سے ان دنوں میں کافی مال دار تھا ۔میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر کبھی میں ابوبکرؓ سے سبقت لے جاؤں گا تو وہ آج کا دن ہے۔ میں اپنا آدھا مال لے کر حاضر ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا؟ عرض کی کہ اتنا ہی جتنا آپ کی خدمت میں حاضر کر دیا ہے۔کچھ ہی دیر بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے گھرکا سارا مال لے کر حاضر ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو؟ عرض کیا کہ حضور!اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کانام ہی گھر چھوڑ کر آیا ہوں ۔ میں نے کہا: میں ابوبکر سے کبھی سبقت نہ لے جا پاؤں گا۔

(سنن ترمذی کتاب المناقب باب فی مناقب ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘میاں شادی خان لکڑی فروش ساکن سیالکوٹ ہیں۔ ابھی وہ ایک کام میں ڈیڑھ سو روپے چندہ دے چکے ہیں اور اب اس کام کے لیے دو سو روپے چندہ بھیج دیا ہے اور یہ وہ متوکّل شخص ہے کہ اگر اس کے گھر کا تمام اسباب دیکھا جائے تو شاید تمام جائداد پچاس روپیہ سے زیادہ نہ ہو۔ انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ‘‘چونکہ ایامِ قحط ہیں اور دنیوی تجارت میں صاف تباہی نظر آتی ہے تو بہتر ہے کہ ہم دینی تجارت کر لیں اس لیے جو کچھ اپنے پاس تھا سب بھیج دیا’’اور درحقیقت وہ کام کیا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا۔’’

(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ نمبر 315۔ اشتہار یکم جولائی1900ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

‘‘حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ شادی خان صاحب سیالکوٹی نے بھی وہی نمونہ دکھایا ہے جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دکھایا تھا کہ سوائے خدا کے گھر میں کچھ نہ چھوڑا۔ جب میاں شادی خان صاحب نے یہ سنا تو گھر میں جو چارپائیاں موجود تھیں ان کو بھی فروخت کر ڈالا اور ان کی رقم بھی حضرت صاحب کے حضو رپیش کر دی۔’’

(قیامِ توحید کے لیے غیرت۔ انوارالعلوم جلد5صفحہ نمبر22)

پھر جب یہ آیت نازل ہوئی کہ

لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْن وَماَ تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ۔

تم ہرگز نیکی کو پا نہیں سکو گے یہاں تک کہ تم ان چیزوں میں سے خرچ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو تو اللہ یقیناً اس کو خوب جانتا ہے۔

حضرت انس ؓبیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ انصاریؓ مدینہ کے انصار میں سب سے مال دار تھے۔ ان کے کھجوروں کے باغات تھے جن میں سب سے زیادہ عمدہ باغ بیرحاء نامی تھا جو حضرت طلحہ ؓکو بہت پسند تھا اور مسجد (نبویﷺ) کے سامنے بالکل قریب تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالعموم اس باغ میں جاتے اور اس کا میٹھا اور عمدہ پانی پیتے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (جب تک تم اپنے پسندیدہ مال میں سے خرچ نہیں کرتے نیکی کو نہیں پاسکتے)۔ تو حضرت ابوطلحہؓ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ! آپ ﷺپر یہ آیت نازل ہوئی ہے لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ اور میری سب سے پیاری جائداد بیرحاء کا باغ ہے ۔میں اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری اس نیکی کو قبول کرے گا اور میرے آخرت کے ذخیرہ میں شامل کرے گا۔ یارسول اللہ !آپؐ اپنی مرضی کے مطابق اس کو اپنے مَصرف میں لائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واہ واہ! بہت ہی اعلیٰ اور عمدہ مال ہے ،بڑا نفع مند ہے اور جو تو نے کہا ہے وہ بھی میں نے سن لیا ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ تم یہ باغ اپنے رشتہ داروں کو دے دو۔ابو طلحہ ؓ نے کہا میں نے دے دیا یا رسول اللہ!چنانچہ حضرت ابو طلحہ ؓنے وہ باغ اپنے قریبی رشتہ داروں اور چچیرے بھائیوں میں تقسیم کر دیا۔

(حدیقۃ الصالحین صفحہ 584تا585)

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت مَنْ ذَاالَّذِی یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً وَاللّٰہُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُطُ وَ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ۔کہ کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسنہ دے تاکہ وہ اس کے لیے اسے کئی گنا بڑھائے اور اللہ رزق قبض بھی کر لیتا ہے اور کھول بھی دیتا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے، تو ابو الدعداع رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!میرے پاس دو باغ ہیں۔ اگر میں ان میں سے ایک صدقہ کر دوں تو کیا مجھے جنت میں ایسا ہی باغ ملے گا؟ فرمایا ہاں۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ کیا میری بیوی اور بیٹا بھی میرے ساتھ ہوں گے؟ فرمایا ہاں۔ اس پر ابوالدعداع نے کہا کہ میں اپنا بہترین باغ خدا کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اور پھر وہ اپنے گھر والوں کے پاس گئے جو اسی باغ میں تھے۔ وہ باغ کے دروازے پر کھڑے ہو گئے اور اپنی بیوی کو یہ واقعہ سنایا۔ انہوں نے جواب دیا کہ آپ نے بہت اچھا سودا کیا ہے۔ پھر وہ سب اندرچلے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوالدعداع کے لیے کتنے ہی لہلہاتے ہوئے باغات ہیں۔

(سورۃ البقرۃ آیت 248تفسیر کبیر رازی جلد 6صفحہ نمبر166)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘ہمارے ہادیٔ اکمل ؐ کے صحابہ نے اپنے خدا اور رسول کے لیے کیا کیا جانثاریاں کیں، جلا وطن ہوئے، ظلم اُٹھائے، طرح طرح کے مصائب برداشت کیے، جانیں دیں لیکن صدق و وفا کے ساتھ قدم مارتے ہی گئے۔ پس وہ کیا بات تھی کہ جس نے انہیں ایسا جاں نثار بنا دیا؟ وہ سچی الٰہی محبت کا جوش تھا جس کی شعاع ان کے دل میں پڑ چکی تھی اس لیے خواہ کسی نبی کے ساتھ مقابلہ کر لیا جائے آپ کی تعلیم، تزکیۂ نفس، اپنے پیروؤں کو دنیا سے متنفر کرا دینا، شجاعت کے ساتھ صداقت کے لیے خون بہا دینا، اس کی نظیر کہیں نہ مل سکے گی۔ یہ مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا ہے… اب ایک اور جماعت مسیح موعود کی ہے جس نے اپنے اندر صحابہ جیسا رنگ پیدا کر لیا ہے جس طرح صحابہ نے اپنا مال، اپنا وطن راہِ حق میں دے دیا اور سب کچھ چھوڑ دیا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا معاملہ اکثر سنا ہو گا۔ ایک دفعہ جب راہِ خدا میں مال دینے کا حکم ہوا تو گھر کا کل اثاثہ لے آئے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ گھر میں کیا چھوڑ آئے تو فرمایا کہ خدا اور رسول گھر چھوڑ آیا ہوں۔ رئیس مکہ ہو کمبل پوش، غرباء کا لباس پہنے ۔یہ سمجھ لو کہ وہ لوگ تو خدا کی راہ میں شہید ہو گئے۔ ان کے لیے تو یہی لکھا ہے کہ سیفوں کے نیچے بہشت ہے۔

(ملفوظات جلداوّل صفحہ نمبر27)

حضرت سیٹھ عبدالرحمٰن حاجی اللہ رکھا صاحب رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

‘‘جیسا کہ خدا نے براہین احمدیہ میں مالی نصرت کا وعدہ دیا ہے اور وہ وعدہ اب پورا ہوا اور پورب اور پچھم سے لوگ آئے اور مشرق اور مغرب سے معاون پیدا ہوئے اور جیسا کہ صفحہ 241میں فرمایا تھا یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآءِیَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٌ یعنی وہ لوگ تیری مدد کریں گے جن کے دلوں میں ہم آپ ڈالیں گے وہ دور دور سے اور بڑی گہری راہوں سے آئیں گے۔ چنانچہ اب وہ پیشگوئی جو آج کے دن سے سترہ برس پہلے لکھی گئی تھی ظہور میںآئی کس کو معلوم تھاکہ ایسے سچے اخلاص اور محبت سے لوگ مدد میں مشغول ہو جائیں گے دیکھو کہاں اور کس فاصلہ پر مدراس ہے جس میں سے خداتعالیٰ کا ارادہ سیٹھ عبدالرحمٰن حاجی اللہ رکھا کو مع ان کے تمام عزیزوں اور دوستوں کے کھینچ لایا جنہوں نے آتے ہی اخلاص اور خدمات میں وہ ترقی کی کہ صحابہ کے رنگ میں محبت پیدا کرلی اورکہاں ہے بمبئی جس میں منشی زین الدین ابراہیم جیسے مخلص پرجوش طیار کئے گئے اور کہاں ہے حیدر آباد دکن جس میں ایک جماعت پرجوش مخلصوں کی طیار کی گئی کیا یہ وہی باتیں نہیں جن کی نسبت پہلے سے براہین میں خبر دی گئی تھی۔’’

(روحانی خزائن جلد 12سراج منیر صفحہ 66تا67)

حضرت منشی رستم علی صاحب رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

‘‘مجھے یاد ہے میں ایک دفعہ حضور علیہ السلام کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ ایک منی آرڈر آیا جس کے کوپن پر لکھا تھا جسے پڑھ کر آپ علیہ السلام پر ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی جیسے جذبہ وفا کو دیکھ کر ایک رقت سی طاری ہوجاتی ہے۔ پھر آپ نے بتایا یہ منی آرڈر منشی رستم علی صاحب کا ہے اور لکھا ہے کہ حضور کی تحریر مالی تکالیف کے متعلق پہنچی ۔اور اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے ساتھ ہی میرے لیے اس میں حصہ لینے کا موقع بہم پہنچادیا یعنی میری ترقی کا حکم آگیا۔ ان کی تنخواہ70روپے کے قریب تھی اور ترقی ہونے پر ایک سَو یا کم و بیش کا اس میں اضافہ ہوا تھا۔ انہوں نے لکھا کہ یہ اضافہ اور جتنے عرصہ کی بقایا ترقی ملی ہے، وہ سب حضور کے لیے ہے۔ وہ میں بھیجتا ہوں اور پہلی تنخواہ سے چندہ بھی بھیجتا رہوں گا۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍جولائی1933ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 14 صفحہ نمبر178)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

‘‘حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب رضی اللہ عنہ کی قربانیاں اس قدر بڑھی ہوئی تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو تحریری سند دی کہ آپ نے سلسلہ کے لیے اس قدر مالی قربانی کی ہے کہ آئندہ آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں۔ حضرت مسیح موعو علیہ السلام کا وہ زمانہ مجھے یاد ہے جبکہ آپ پر مقدمہ گورداسپور میں ہو رہا تھا اور ا س میں روپیہ پیسہ کی ضرورت تھی۔ حضرت صاحب نے دوستوں میں تحریک بھیجی کہ چونکہ اخراجات بڑھ رہے ہیں ۔ لنگر خانہ دو جگہ پر ہو گیا ہے۔ ایک قادیان میں اور ایک یہاں گورداسپور میں اس کے علاوہ اور مقدمہ پر خرچ ہو رہا ہے لہٰذا دوست امداد کی طرف توجہ کریں۔ جب حضرت صاحب کی یہ تحریک ڈاکٹر صاحب کو پہنچی تو اتفاق ایسا ہوا کہ اس دن ان کو تنخواہ قریباً450روپے ملی تھی وہ ساری کی ساری تنخواہ اسی وقت حضرت صاحب کی خدمت میں بھیج دی۔ ایک دوست نے سوال کیا کہ آپ کچھ رقم گھر کی ضرورت کے لیے رکھ لیتے تو انہوں نے کہا کہ خدا کا مسیح لکھتا ہے کہ دین کے لیے ضرورت ہے تو پھر اَور کس کے لیے رکھ سکتا ہوں؟ ’’

(تقریر جلسہ سالانہ 27دسمبر1926ء انوارالعلوم جلد 9صفحہ نمبر403)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں:

‘‘حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب دعویٰ کیا تو مسلمانوں میں سے آپ کے ساتھ وہ لوگ شامل ہورہے تھے جنہوں نے اس کی خاطر کبھی ایک دھیلہ بھی نہیں دیا تھا۔ پھر جب وہ احمدی ہوگئے انہوں نے شروع میں آنہ ماہوار دینا شروع کیا،کسی نے چار آنے ماہوار دینے شروع کیے۔ کہنے کوتو ایک آنہ یا چارآنے کوئی چیز نہیں لیکن اگریہ دیکھا جائے کہ اس سے دلوں میں ایک عظیم انقلاب بپا ہوگیا کہ ساری عمر میں کبھی ایک آنہ نہیں د یا تھالیکن اب ایک آنہ ماہوار دینا شروع کردیا۔ ساری عمر میں کبھی چونّی نہیں دی تھی اور اب ہر مہینے چونّی دینی شروع کردی۔ تو اس کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس عظیم انقلاب کو نمایاں کرنے کے لیے اور ان کے لئے دعاؤں کے دروازے کھولنے کی خاطر اپنے ان صحابہ کا نام اپنی کتابوں میں لکھ دیا آپ کتابیں پڑھیں تو آپ کو پتہ لگے گا کسی نے آنہ دیا کسی نے چونّی د ی او رکسی نے اٹھنّی دی اورکتابوں میں ان کا نام درج ہے قیامت تک جب احمدی اُن کتب کو پڑھیں گے توان کے لئے دعائیں کریں گے مگر پھر یہی لوگ تھے کہ جب ایک وقت آیا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت میں بیٹھے اور انہوں نے آپ سے روحانی تربیت حاصل کی تو انہوں نے بعض دفعہ اپنی ساری جائیداد آپ کے قدموں پر لاکر ڈال دی کہ یہ لیں۔ خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی ضرورت ہے تو آپ اسے قبول کریں۔’’

(خطبہ جمعہ10؍جولائی1970ء۔روزنامہ الفضل 21؍اپریل 1971ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام خطبہ الہامیہ میں فرماتے ہیں:

‘‘وَآخَرِینْ َمِنْھُمْ کے قول میں اشارہ فرماتا ہے کہ مسیح موعود کی جماعت خدا کے نزدیک صحابہ کی ایک جماعت ہے اور اس نام رکھنے میں کچھ فرق نہیں اور یہ مرتبہ مسیح کی جماعت کو ہرگز حاصل نہیں ہوتا جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے درمیان قوتِ قدسی اور اپنے روحانی افاضہ کے ساتھ موجود نہ ہوں جیسا کہ صحابہ کے اندر موجود تھے یعنی مسیح موعود کے واسطہ سے کیونکہ وہ نبی کریم کا مظہر یا آنجناب کے لئے حلّہ کی مانند ہے۔’’

(روحانی خزائن جلد 16صفحہ295)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button