شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
چوغہ
حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ فرماتے ہیں :
‘‘ایک دفعہ ہمیں لدھیانہ سے پٹیالہ جانے کا اتفاق ہوا روانہ ہونے سے پہلے الہام ہوا کہ ‘‘اس سفر میں کچھ نقصان ہو گا اور کچھ ہم و غم پیش آئے گا’’ اس پیشگوئی کی خبر ہم نے اپنے ہمراہیوں کو دے دی چنانچہ جب کہ ہم پٹیالہ سے واپس آنے لگے تو عصر کا وقت تھا ایک جگہ ہم نے نماز پڑھنے کے لئے اپنا چوغہ اتار کر سید محمد حسن خان صاحب وزیر ریاست کے ایک نوکر کو دیا تاکہ وضو کریں پھر جب نماز سے فارغ ہو کر ٹکٹ لینے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو معلوم ہوا کہ جس رومال میں روپے باندھے ہوئے تھے وہ رومال گر گیا ہے تب ہمیں وہ الہام یاد آیا۔’’
(نزول المسیح ،روحانی خزائن جلد 18صفحہ609)
حضرت مولوی محب الرحمان صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
‘‘ایک دفعہ جمعہ کے دن میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ریشمی لمبا چوغہ پہنے ہوئے دیکھا۔جس کے نیچے سوتی کپڑا لگا ہوا تھا۔’’
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد9صفحہ91 روایت مولوی محب الرحمان صاحب ؓ)
حضرت میاں عبد العزیز صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
‘‘جب میں نے بیعت کی تو حضور نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ آپ نے کوئی دین کی کتاب پڑھی ہے؟ تو میں نے عرض کیا تھا کہ حضور تذکرۃ الاولیاء پڑھی ہے۔اس وقت میں سبز رنگ کی مرینہ کی پگڑی پہنے ہوئے تھا۔حضور عموماً سفید پگڑی پہنا کرتے تھے۔فوٹو کے وقت آپ نے ایک لنگی پہنی ہوئی تھی، جس کا پلہ تلّے کا تھا۔حضور پگڑی شیشہ کے بغیر ہی باندھ لیا کرتے تھے۔جب مولوی محمد حسین کے ساتھ مقدمہ تھا تو اس وقت بھی حضور لنگی باندھے ہوئے تھے۔سرخ نبات کا چوغہ بھی میں نے حضرت صاحب کو پہنے دیکھا ہے۔یہ یاد نہیں کہ آپ کہاں سے واپس آ رہے تھے لاہور کے سٹیشن پر غالباً دیکھا تھا۔’’
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد9 صفحہ 49 روایت میاں عبد العزیز صاحبؓ)
حضرت چوہدری فقیر محمد صاحبؓ ایک موقع کی روایت بیان کرتے ہیں :
‘‘حضور نے … سفید پگڑی، سفید چوغہ، سفید پاجامہ پہنا ہوا تھا۔ہاتھ میں چھڑی تھی اور حضور کسی کی طرف نہیں دیکھتے تھے نظر نیچے رکھتے تھے۔رنگ حضور کا گندم گوں تھا۔حضور کے منہ پر نور برس رہا تھا اور داڑھی لمبی تھی۔جو موتیوں کی طرح چمک رہی تھی۔’’
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 11 صفحہ348 روایت چوہدری فقیر محمد صاحبؓ)
حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
‘‘ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر بہت سے آدمی تھے جن کے پاس کوئی پارچہ سرمائی نہ تھا۔ایک شخص نبی بخش نمبردار ساکن بٹالہ نے اندر سے لحاف بچھو نے منگانے شروع کئے اور مہمانوں کو دیتا رہا۔عشاء کے بعد میں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بغلوں میں ہاتھ دیئے بیٹھے تھے اور ایک صاحبزادہ جو غالباً حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ؓتھے پاس لیٹے تھے اور ایک شتری چوغہ انہیں اوڑھا رکھا تھا۔معلوم ہوا کہ آپ نے بھی اپنا لحاف بچھونا طلب کرنے پر مہمانوں کے لئے بھیج دیا۔میں نے عرض کی کہ حضور کے پاس کوئی پارچہ نہیں رہا اور سردی بہت ہے۔فرمانے لگے کہ مہمانوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہئے اور ہمارا کیا ہے رات گزر جائے گی۔نیچے آکر میں نے نبی بخش نمبردار کو بہت برا بھلا کہا کہ تم حضرت صاحب کا لحاف بچھونا بھی لے آئے وہ شرمندہ ہوا اور کہنے لگا کہ جس کو دے چکا ہوں اس سے کس طرح واپس لوں ۔پھر میں مفتی فضل الرحمان صاحب یا کسی اور سے ٹھیک یاد نہیں رہا لحاف بچھونا مانگ کر اوپر لے گیا آپ نے فرمایا کسی اور مہمان کو دے دو مجھے تو اکثر نیند بھی نہیں آیا کرتی اور میرے اصرار پر بھی آپ نے نہ لیا اور فرمایا کسی مہمان کو دے دو۔پھر میں لے آیا۔’’
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد13صفحہ359-360 روایت حضرت منشی ظفر احمد صاحب ؓ)
کوٹ
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان فرماتے ہیں:
‘‘خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑعام طور پر سفید ململ کی پگڑی استعمال فرماتے تھے جو عمومًا دس گز لمبی ہو تی تھی۔پگڑی کے نیچے کلاہ کی جگہ نرم قسم کی رومی ٹوپی استعمال کرتے تھے۔اور گھر میں بعض اوقات پگڑی اتار کر سر پر صرف ٹوپی ہی رہنے دیتے تھے۔بدن پر گرمیوں میں عموماً ململ کا کرتہ استعمال فرماتے تھے۔اس کے اوپر گرم صدری اور گرم کوٹ پہنتے تھے۔’’
(سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر 83)
حضرت میاں میراں بخش صاحبؓ کی روایت ہے:
‘‘خاکسار نے حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام کی بیعت قریباً 1897ء یا 1898ء میں کی۔مگر اپنے والد صاحب سے کچھ عرصہ تک اس امر کا اظہار نہ کیا۔آخر کب تک پوشیدہ رہ سکتا تھا۔بھید کھل گیا تو والد صاحب نے خاکسار کو صاف جواب دے کر گھر سے نکال دیا تو خاکسار نے خدا رازق پر توکل کرکے ایک الگ دکان کرایہ پر لے لی۔تنگ دستی تو تھی ہی مگر دل میں شوق تھا کہ جس طرح بھی ہوسکے بموجب حیثیت حضرت اقدس علیہ السلام کے لیے ایک پوشاک بنا کر اور اپنے ہاتھ سے سی کر حضور کی خدمت میں پیش کی جائے۔(گر قبول افتد ز ہے عزو شرف) اس خیال سے میں نے ایک کُرتہ ململ کا اور ایک شلوار لٹھہ کی اور ایک کوٹ صرف سیاہ رنگ کا اور ایک دستار ململ کی خرید کر اور اپنے ہاتھ سے سی کر پوشاک تیار کرلی اور قادیان شریف کا کرایہ ادھر ادھر سے پکڑ پکڑا کر قادیان شریف پہنچ گیا۔
دوسرے روز جمعہ کا دن تھا۔اس لیے خیال تھا کہ اگر ہوسکے تو یہ ناچیز اور غریبانہ تحفہ آج ہی حضور کی خدمت بابرکت میں پہنچ جائے تو شاید حضور جمعہ کی نماز سے پہلے ہی پہن کر اس غریب کے دل کوخوش کردیں ۔غرض اس سوچ بچار میں قاضی ضیاء الدین صاحب (خدا ان پر بڑی بڑی رحمتیں نازل فرماوے) کی دکان پر پہنچ گیا اور ان کے آگے اپنی دلی خواہش کا اظہار کردیا۔و ہ سنتے ہی کہنے لگے کہ چل میاں میں تم کو حضور کی خدمت میں پہنچا دیتا ہوں ۔چنانچہ وہ اسی وقت اٹھ کر مجھے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں لے گئے۔اس وقت حضور علیہ السلام ایک تخت پوش پر بیٹھے ہوئے کچھ لکھ رہے تھے اور خواجہ صاحب کمال الدین تخت پوش کے سامنے ایک چٹائی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ہم دونوں بھی وہاں خو ا جہ صاحب کے پاس بیٹھ گئے۔خو ا جہ صاحب نے دریافت کیا کہ اس وقت آپ کیسے آئے تو قاضی صاحب نے میری خواہش کا اظہار کردیا۔خواجہ صاحب تھوڑی دیر خاموش رہ کر میری طرف مخاطب ہوئے اور کہا کیوں میاں میں ہی تمہاری وکالت کردوں ۔میں نے کہا یہ تو آپ کی نہایت ہی مہربانی ہوگی۔اس پر خواجہ صاحب نے مجھ سے وہ کپڑے لے کر حضور علیہ السلام کے پیش کردیے اور ساتھ ہی یہ عرض بھی کردی کہ حضور اس لڑکے کی خواہش ہے کہ حضور ان کپڑوں کو پہن کر جمعہ کی نماز پڑھیں ۔خواجہ صاحب کی یہ بات سن کر حضور فیض گنجور نے کپڑے اٹھا کر پہننے شروع کردیے مگر جب کوٹ پہنا تو وہ بہت تنگ تھا۔میں نے عرض کی کہ حضور کوٹ بہت تنگ ہے اگر اس کو اتار دیں تو میں اس کو کچھ کھول دوں۔حضور نے کوٹ اتار کر مجھے دے دیا۔میں جلدی سے اٹھ کر بازار میں آیا اور ایک درزی کی دکان پر بیٹھ کر کوٹ کی پیٹھ کا سارا دباؤ کھول دیا اور پھر حضور کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔حضور نے کوٹ پہن لیا۔مگر اب بھی کوٹ کے بٹن بخوبی حضور کی خواہش کے مطابق نہیں مل سکتے تھے۔مگر حضور نے کھینچ تان کر بٹن لگا ہی لیے اور کچھ بھی خیال نہ کیا کہ یہ کپڑے حضور کے پہننے کے لائق بھی ہیں یا نہیں ۔’’
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 3صفحہ12تا14 روایت میاں میراں بخش ؓ)
حضرت محمد رحیم الدین صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
‘‘حضرت مسیح موعود علیہ السلام انگریزی کوٹ اور صافہ یعنی دوپٹہ برابر باندھتے تھے۔جو مجھے یاد ہے وہ لکھا ہے۔اور گرمیوں میں کورتہ (کرتہ) استعمال فرماتے تھے۔اس پر واسکٹ ہوتی تھی۔’’
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 5صفحہ165 روایت محمد رحیم الدین احمدی ؓ)
واسکٹ
حضرت غلام حسین بھٹی صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
‘‘اس وقت حضور کا لباس سادہ سا تھا یعنی رومی ٹوپی،سفید قمیص اوپر واسکٹ تھی اور شلوار پہنے ہوئے تھے اور دیسی جوتی پہنے ہوئے تھے…’’
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 1صفحہ23 روایت غلام حسین بھٹی صاحبؓ)
حضرت ملک نیاز محمد صاحبؓ کی روایت ہے:
‘‘1906ء یا 1907ء میں مَیں بمعیت چوہدری فیروز خاں صاحب مرحوم و حاجی رحمت اللہ صاحب قادیان گیا۔واپس آنے کے وقت میاں بشیر احمد صاحب کا موجودہ مکان جو کہ اس وقت بطور مہمان خانہ استعمال ہوتا تھا میں جاکر اس کی مشرقی سیڑھیوں پر سے اطلاع حضور علیہ السلام کو کروائی گئی تو حضور ایسی حالت میں تشریف لائے کہ حضور نے قمیص پر واسکٹ پہنی ہوئی تھی۔’’
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 3صفحہ233 روایت ملک نیاز محمد صاحبؓ)
حضرت محمد رحیم الدین صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
‘‘حضرت مسیح موعود علیہ السلام انگریزی کوٹ اور صافہ یعنی دوپٹہ برابر باندھتے تھے جو مجھے یاد ہے وہ لکھا ہے اور گرمیوں میں کورتہ (کرتہ) استعمال فرماتے تھے۔اس پر واسکٹ ہوتی تھی۔’’
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 5صفحہ165 روایت محمد رحیم الدین احمدی ؓ)
کُرتہ
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
‘‘خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑعام طور پر سفید ململ کی پگڑی استعمال فرماتے تھے جو عموما ًدس گز لمبی ہو تی تھی۔پگڑی کے نیچے کلاہ کی جگہ نرم قسم کی رومی ٹوپی استعمال کرتے تھے۔اور گھر میں بعض اوقات پگڑی اتار کر سر پر صرف ٹوپی ہی رہنے دیتے تھے۔بدن پر گرمیوں میں عمومًا ململ کا کرتہ استعمال فرماتے تھے۔اس کے اوپر گرم صدری اور گرم کوٹ پہنتے تھے۔پاجامہ بھی آپ کا گرم ہوتا تھا … اور جب سے شیخ رحمت اللہ صاحب گجراتی ثم لاہوری احمدی ہوئے وہ آپ کےلیے کپڑوں کے جوڑے بنوا کر باقاعدہ لاتے تھے اور حضرت صاحب کی عادت تھی کہ جیسا کپڑا کوئی لے آئے پہن لیتے تھے۔
… والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت صاحب نے بعض اوقات انگریزی طرز کی قمیض کے کفوں کے متعلق بھی اسی قسم کے ناپسندیدگی کے الفاظ فرمائے تھے۔خاکسارعرض کرتاہے کہ شیخ صاحب موصوف آپ کے لیے انگریزی طرز کی گرم قمیض بنوا کر لایا کرتے تھے۔آپ انہیں استعما ل تو فرماتے تھے مگر انگریزی طرز کی کفوں کو پسند نہیں فرماتے تھے۔کیونکہ اول تو کفوں کے بٹن لگانے سے آپ گھبراتے تھے دوسرے بٹنوں کے کھولنے اور بند کرنے کا التزام آپ کے لیے مشکل تھا۔بعض اوقات فرماتے تھے کہ یہ کیا کان سے لٹکے رہتے ہیں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ لباس کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑکا عام اصول یہ تھا کہ جس قسم کا کپڑا مل جاتا تھا پہن لیتے تھے۔مگر عموما ًانگریزی طریق لباس کو پسند نہیں فرماتے تھے کیونکہ اول تو اسے اپنے لیے سادگی کے خلاف سمجھتے تھے دوسرے آپ ایسے لباس سے جو اعضاء کو جکڑا ہوا رکھے بہت گھبراتے تھے۔گھر میں آپ کے لیے صرف ململ کے کُرتے اور پگڑیاں تیار ہوتی تھیں ۔باقی سب کپڑے عموماًہدیتہ آپ کو آجاتے تھے۔شیخ رحمت اللہ صاحب لاہوری اس خدمت میں خاص امتیاز رکھتے تھے۔خاکسار عرض کرتاہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ بعض اوقات کمر پر پٹکا بھی استعمال فرماتے تھے اور جب کبھی گھر سے باہر تشریف لے جاتے تھے تو کوٹ ضرور پہن کر آتے تھے۔اور ہاتھ میں عصارکھنا بھی آپ کی سنت ہے۔والدہ صاحبہ بیان کر تی ہیں کہ میں حضرت صاحب کے واسطے ہر سال نصف تھان کے کُرتے تیار کیا کرتی تھی لیکن جس سال آپ کی وفات ہوئی تھی میں نے پورے تھا ن کے کُرتے تیار کیے۔حضرت صاحب نے مجھے کہا بھی کہ اتنے کُرتے کیا کر نے ہیں مگر میں نے تیار کر لیے ان میں سے اب تک بہت سے کُرتے بے پہنے میرے پاس رکھے ہیں ۔’’
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 83)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان کرتے ہیں :
‘‘ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری زمانے میں اکثر دفعہ احباب آپ کے لیے نیا کرتہ بنوا لاتے تھے اور اسے بطور نذر پیش کر کے تبرک کے طور پر حضور کا اترا ہوا کرتہ مانگ لیتے تھے۔اسی طرح ایک دفعہ کسی نے میرے ہاتھ ایک نیا کرتہ بھجوا کر پرانے اترے ہوئے کرتہ کی درخواست کی۔گھر میں تلاش سے معلوم ہوا کہ اس وقت کوئی اترا ہوا بے دُھلا کرتہ موجود نہیں۔ جس پر آپ نے اپنا مستعمل کرتہ دھوبی کے ہاں کا دھلا ہوا دیے جانے کا حکم فرمایا۔میں نے عرض کیا کہ یہ تو دھوبی کے ہاں کا دھلا ہوا کرتہ ہے اور وہ شخص تبرک کے طور پر میلا کرتہ لے جانا چاہتا ہے۔حضور ہنس کر فرمانے لگے کہ وہ بھی کیا برکت ہے جو دھوبی کے ہاں دھلنے سے جاتی رہے۔چنانچہ وہ کرتہ اس شخص کو دے دیا گیا۔’’
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر377)
حضرت مرزا مہتاب بیگ صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
‘‘15جولائی 1901ء میں سید حامد شاہ صاحب مرحوم کے ساتھ قادیان 5 بجے شام وارد ہوا اور ہمارے ساتھ بابو عطا محمد صاحب اوورسیئر بھی تھے۔جب ہم قادیان پہنچے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شاہ صاحب نے اطلاع کرائی۔اندر سے اسی وقت نوکر نے آکر کہا کہ اندر آجاؤ۔ہم لوگ مسجد مبارک کی سیڑھیوں سے اس دروازہ سے اندر داخل ہو گئے جو شمال کی طرف کھڑکی کی مشرقی طرف ہے۔اندر صحن میں جا کر ہم ایک تخت پوش پر بیٹھ گئے۔اسی اثناء میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب بھی اوپر سے تشریف لے آئے۔تھوڑی دیر بعد حضور مغربی کمرہ سے ننگے سر، کھلی آستینوں والا ململ کا کرتہ جس کا گلا شانوں پر ہوتا ہے جو کہ دونوں طرف سے استعمال ہو سکتا ہے پہنے ہوئے تشریف لائے…’’
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 5صفحہ29 روایت مرزا مہتاب بیگ صاحبؓ)
حضرت میاں عبد العزیز صاحبؓ کی روایت ہے:
‘‘حضور کا لباس: شلوار پہنے میں نے حضور کو کبھی نہیں دیکھا۔شرعی پاجامہ حضور پہنتے تھے۔قمیض فلالین کی گرم ہوتی تھی۔جن دنوں میں دہلی پہنچے۔اخبار نے یہ مشہور کیا تھا کہ حضور کو کوڑھ ہو گیا ہے۔ان دنوں میں حضور اکثر ململ کا کرتہ اور لٹھے کا پاجامہ پہنتے تھے۔اس کرتہ کے اوپر اور کچھ نہیں ہوتا تھا اور اکثر دیکھا ہے کہ آپ پنڈلیوں سے پاجامہ بھی بار بار اٹھایا کرتے تھے اور بازوؤں سے کرتہ بھی کہنیوں تک اٹھاتے تھے۔یہاں لاہور میں بکثرت یہ بات مشہور ہو گئی تھی اور بہت سے لوگوں کو ہم دکھانے کے لیے قادیان لے جایا کرتے تھے۔جن میں سے اکثر بیعت کر کے آتے تھے۔’’
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 9صفحہ52روایت میاں عبد العزیز صاحبؓ)
حضرت سردار بیگم صاحبہؓ بیان کرتی ہیں :
‘‘اتنے میں حضرت صاحب تشریف لائے اور ٹہلنے لگے۔لدھیانے کا پائجامہ تھا۔ململ باریک کا کرتہ تھا۔جس کے کندھے پر پٹی تھی۔سر پر لنگی تھی۔پیروں میں دہلی کی لال کھال کی جوتی تھی اور ایک طرف ایک سٹول پڑا تھا اس پر دوات تھی دوسری طرف بھی ایک چھوٹے سے میز پر دوات تھی۔حضور ٹہلتے ٹہلتے لکھ رہے تھے۔ایک لیمپ کے پاس کھڑے ہو کر حضور کچھ لکھ لیتے تھے اور پھر چل پڑتے تھے۔پھر دوسرے لیمپ کے پاس آکر کھڑے ہو جاتے تھے۔جب درمیان میں چلتے تھے تو درمیان میں کوئی دعا بھی پڑھتے تھے جو صاف سنائی نہ دیتی تھی۔’’
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد10صفحہ208-209 روایت سردار بیگم صا حبہ ؓ)
حضرت حکیم دین محمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
‘‘گھر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام رومی ٹوپی سر پر رکھتے اور موسمِ گرما میں ململ کا کرتہ اور لٹھے کا پاجامہ پہنتے۔مسجد یا سیر کے وقت پورا لباس یعنی سفید پگڑی جس میں کُلاہ کی بجائے رومی ٹوپی ہوتی۔کوٹ پہنتے۔بعض دفعہ موسمِ گرما میں بھی گرم لباس زیب تن کرتے۔یہ بعض بیماریوں کے سبب سے مجبوراً کرتے۔’’
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد13صفحہ51 روایت حکیم دین محمد صاحب ؓ)
(باقی آئندہ)