متفرق مضامین

1930ء کی دہائی کے آغاز میں جماعت احمدیہ کی مخالفت کے اسباب

(ڈاکٹر مرزا سلطان احمد)

اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

1930ءکی دہائی جماعت ِاحمدیہ کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔ اس کے آغاز میں ہندوستان کے مختلف حلقوں میں جماعت ِ احمدیہ کی مخالفت شدید تر ہو گئی اور یہ سلسلہ بڑھتا گیا، اس کے وسط میں یعنی 1934ءمیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تحریک ِ جدید کا آغاز فرمایا ۔اور اس کے آخر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے دعویٰ مصلح موعود کا اعلان فرمایا۔

ہمیشہ سے الٰہی جماعتوں کی تاریخ میں یہی نظر آتا ہے کہ مخالفت کی لہر مزید ترقی کا راستہ کھولتی ہے اور مزید ترقی مخالفت کی ایک نئی لہر کو جنم دیتی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔یہی منظر ہمیں 1930ء کی دہائی میں نظر آتا ہے۔اس دہائی میں ہندوستان کی برطانوی حکومت ، ہندوستان کی مختلف سیاسی جماعتوں اور مسلمانوں میں جماعت ِاحمدیہ کے مخالفین کی طرف سے گویا جماعت ِاحمدیہ کی مخالفت کو انتہا تک پہنچا دیا گیا۔اس مضمون میں ہم صرف 1929ء اور 1930ء کے دوران جماعت ِاحمدیہ کی مخالفت شروع ہونے کا تجزیہ کریں گے۔

ملک کا حقیقی وفادار کون ہوتا ہے؟

جب ہم ان حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو قدرتی طور پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے۔ اور وہ یہ کہ جماعت ِاحمدیہ تو امن پسند، قانون کی پیروی کرنے والی اور ملک کی حکومت سے تعاون کرنے والی جماعت ہے۔پھر اس وقت ہندوستان کی برطانوی حکومت نے جماعت ِاحمدیہ کے بعض مخالفین کی پشت پناہی کیوں شروع کردی؟

ان تاریخی واقعات کا تجزیہ کرنے سے قبل ایک اصول کو سمجھنا ضروری ہے۔ اور وہ اصول یہ ہے کہ ملک کی وفاداری ، قانون کی پیروی اور حکومت ِوقت سے تعاون کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ قانون کی حدود میں رہتے ہوئے سچائی کا اظہار نہ کیا جائے ۔یا اگر حکومت کے طرز ِعمل میں کوئی غلطی دیکھیں تو اسے مطلع نہ کیا جائے یا اسے نصیحت نہ کی جائے ۔ جہاں تک اسلامی اقدار کا تعلق ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا افضل جہاد ہے۔ اور دنیاوی طور پر ہر قانون میں سچائی کے اظہار کا حق خواہ وہ اظہارحکومت کی رائے کے خلاف ہو تسلیم کیا گیا ہے۔ہر صاحبِ شعور سمجھ سکتا ہے کہ اگر کوئی شہری حکومت کے سامنے سچی بات نہیں کرتا تو وہ اس حکومت یا ریاست کا خیر خواہ نہیں بلکہ بد ترین بد خواہ ہے۔

افسران احمدیوں سے خوشامد کی توقع نہ رکھیں

چنانچہ 1930ء میں جب گورنمنٹ کے بعض افسران نے ایسا روّیہ دکھایا جو کہ فتنہ پروروں کی حوصلہ افزائی کے مترادف تھا اور انہیں توقع تھی کہ احمدی ان کے خوف سے خوشامدانہ رویّہ دکھائیں گے تو اس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 4؍ اپریل 1930ءکے خطبہ جمعہ میں فرمایا :

“ہم اپنی جماعت کو فرماتے ہیں کہ جان و مال کوئی چیز نہیں تمہارے انعامات اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں اس لیے اس کی خاطر ہر ایک قربانی کرنے سے دریغ نہ کرو ۔پس ایسے افسروں کو یاد رکھنا چاہیے کہ احمدی خوشامد ہر گز نہیں کریں گے اور اگر ایسا کوئی کرے گا تو میں اسے سخت سزا دوں گا ۔کیونکہ وہ قوم کی ناک کاٹنے والا ہوگا۔ اور نہ ہی احمدی ناجائز فوائد کے حصول میںمدد کریں گے بلکہ روک ہوں گے اور اگر مجھے پتہ لگ گیا کہ کوئی احمدی ایسا کرتا ہے تو میں اسے سخت سزا دوں گا اس لیے ان باتوں کی امید رکھنے والے پولیس افسر جس قدر جلد ممکن ہو ان امیدوں کو قطع کردیں …اگر کسی کو پھانسی کی سزا بھی دی جائے اور وہ بزدلی دکھائے تو ہم اسے ہر گز منہ نہیں لگائیں گے۔ بلکہ میں تو اس کا جنازہ بھی نہیں پڑھوں گا۔”

(خطبات ِمحمود جلد 12صفحہ352)

پھر حضور ؓنے اسی خطبہ جمعہ میں فرمایا :

“احمدی کسی گورنمنٹ سے ہر گز نہیں ڈرتے وہ محض احمدیت سے ڈرتے ہیں۔کم از کم میں تو کسی گورنمنٹ کے قانون سے شمّہ بھر نہیں ڈرتا صرف اللہ تعالیٰ کے قانون سے ڈرتا ہوں۔ اور حکومت کے قانون کی تعمیل محض اس لیے کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے وگرنہ برطانیہ کی شان و شوکت میری نظر میں کچھ حقیقت نہیں رکھتی کیونکہ بہر حال وہ اجنبی حکومت ہے۔”

(خطبات محمود جلد 12صفحہ 354)

1930ء میں ہندوستان کا سیاسی ہیجان

1929ءاور 1930ء میں ہندوستان ایک سیاسی ہیجان کے دور سے گذر رہا تھا۔ پہلے وائسرائے لارڈ اِرون نے اعلان کیا کہ برطانوی حکومت ہندوستان کو کینیڈا اور آسٹریلیا کی طرز پر آزادی دینے پر غور کر رہی ہے ۔ لیکن جب انگلستان میں اس اعلان کی مخالفت ہوئی تو انہوں نے یہ اظہار کیا کہ اس قسم کی آزادی دینا ابھی مستقبل قریب میں ممکن نہیں ہے۔اس پر آل انڈیا نیشنل کانگریس نے ردّعمل دکھایا اور دسمبر 1929ء میں لاہورمیں ہونے والے اجلاس میں ‘پرنا سوراج ’یعنی مکمل آزادی کا مطالبہ کر دیا۔اور 26؍جنوری 1930ءکو ایک جلسہ میں اس کا اعلان کیا گیا۔ اُس وقت سمندر کے پانی سے نمک بنانے پر حکومت کا استحقاق تھا اور ٹیکس عائد تھا ۔ یہ ٹیکس ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے سے عائد تھا اور اُس دَور میں حکومت کی آمد کا اہم ذریعہ تھا۔ سمندر کے پانی سے نمک بنانے پر ٹیکس عائد کرنے کا ایک مقصد یہ تھا کہ ہندوستانی نمک کی قیمت زیادہ ہو جائے۔ اور اس کے نتیجہ میں ہندوستان میں انگلستان سے وسیع پیمانے پر نمک درآمد کیا جاتا تھا۔

گاندھی جی نے سِول نافرمانی کے طور پر یہ پابندی توڑنے کا اعلان کیا۔12؍ مارچ کوپیدل اس سفر کا آغاز کر کے 6؍ اپریل 1930ءکو ساحل پر پہنچ کر نمک بنانے کا آغاز کیا ۔ خواہ اس سفر کا مقصد ہندوستان کے جائز حقوق حاصل کرنا ہو لیکن اس میں قانون کو توڑنے کا عنصر بھی شامل تھا اور جماعت ِ احمدیہ اصولی طور پر قانون شکنی کی حمایت نہیں کر سکتی ۔

ہندوستان کو حقوق تو دینے پڑیں گے

گاندھی جی کے اس سفر کے دوران 4؍ اپریل 1930ء کو حضور ؓنے خطبہ جمعہ میں فرمایا :“ اگرچہ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملکی لیڈر بھی ایک حد تک حق بجانب ہیں اور بعض حقوق اب ہندوستان کو ضرور ملنے چاہئیں اور ان کے لحاظ سے ہم بھی ان لوگوں کے ساتھ ہیں خواہ گاندھی جی ہوں یا نہرو یا ہمارے سلسلے کا منہ پھٹ دشمن ‘زمیندار ’ہی کیوں نہ ہو مگر بعض باتوں میں ہم گورنمنٹ کو بھی حق بجانب سمجھتے ہیں اور اس کی تائید کرتے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے۔”

(خطبات محمود جلد 12صفحہ353)

اب یہ ایک اصولی موقف تھا ۔ لیکن یہ موقف اصولوں پر قائم تھا ۔ نہ حکومت کو خوش کرنے کے لیے تھا اور نہ کانگریس کو خوش کرنے کے لیے تھا۔ ہر اصول پسند شخص اس روّیہ کو پسند کرے گا ۔ لیکن دونوں گروہوں میں ایک طبقہ ایسا موجود تھا جو کہ اس موقف پر جماعت احمدیہ سے ناراض ہو رہا تھا کہ ان کے موقف کی سو فیصد حمایت کیوں نہیں کی جا رہی؟بہر حال گاندھی جی نے ساحل کے ساتھ سفر جاری رکھا اور زیادہ سے زیادہ لوگوں نے قانون توڑ کر نمک بنانا شروع کر دیا ۔ بلکہ نمک کے گوداموں پر حملے شروع کر دیے ۔ملک سے باہر تیار ہونے والے کپڑے کا بائیکاٹ کر دیا گیا اور گاندھی جی کی طرف سے یہ تحریک چلائی گئی کہ سب کھدر پہنیں ۔ اور کانگریس کے کارکنان نے ان دکانوں کے آگے لیٹ کر راستہ روکنا شروع کر دیا جن میں بیرون ِہندوستان بننے والا کپڑا فروخت ہو رہا تھا۔ اسی طرز پر مشرقی ہندوستان میں راج گوپال اچاریہ صاحب نے اور صوبہ سرحد میں خان عبدالغفار خان صاحب کی قیادت میں سِول نافرمانی کے سفر شروع ہو گئے ۔ پشاور میں احتجاج کرنے والوں پر گولی چلادی گئی اور کئی آدمی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اور ایک مرحلے کے بعد حکومت نے گاندھی جی کو گرفتار کر لیا اور نمک بنانے والوں کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں شروع کر دی گئیں ۔ ایک اندازے کے مطابق حکومت نے ساٹھ ہزار لوگوں کو گرفتار کیا۔ پورا ہندوستان اُس وقت ہیجان کی کیفیت میں تھا۔ امریکہ تک کے اخبارات میں یہ شائع ہو رہا تھا کہ 1857ءکے بعد ہندوستان میں برطانوی حکومت پر ایسا کڑا وقت کبھی نہیں آیا۔ ایک طرف احتجاج کرنے والے جان بوجھ کر قانون شکنی کر رہے تھے اور دوسری طرف حکومت ضرورت سے زیادہ ردّعمل دکھا رہی تھی۔اس موقع پر حضور ؓنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:

“ہندوستان کی آزادی اور حریت جس طرح گاندھی جی، پنڈت موتی لال نہرو ، پنڈت جواہر لال نہرو ، مسٹر سین ، مسٹر آینگر ، مسٹر ستیہ پال وغیرہ کو مطلوب ہے اسی طرح ہمیں بھی مطلوب ہے اور ہندوستان ویسا ہی ہمارا ملک ہے جیسا ان لوگوں کا ہے اور اپنے وطن کی محبت اور آزادی ٔ خیال اسی طرح ہمارے سینوں میں موجزن ہے جس طرح ان کے سینوں میں ہے۔ اس لیے ہم یہ سننے کے لیے کبھی آمادہ نہیں ہو سکتے کہ ہمارے دلوں میں ہندوستان کی محبت نہیں یا وہ لوگ اس بارے میں ہمارے سے بڑھے ہوئے سمجھے جائیں۔”

(خطبات ِمحمود جلد 12صفحہ381)

پھر حضور ؓنے اسی خطبہ میں فرمایا:

“ادھر ہندوستان میں اس حد تک بیداری ،تعلیم ، آزادی کا احساس پیدا ہو چکا ہے اور دوسرے ملک اس طرح آزاد ہو رہے ہیں کہ اب ہندوستانی خاموش نہیں بیٹھ سکتے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ دنیا کی آبادی کا 1/4حصہ غیر محدود اور غیر معیّن عرصہ تک ایک غیر ملکی حکومت کی اطاعت گوارا کر سکے ۔ اگر یہ مطالبہ پورا نہ کیا گیا تو آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں ملک عقل مندی اور مصلحت اور دور اندیشی کے تمام قوانین کو توڑنے کے لیے کھڑا ہو جائے گا۔ “

(خطبات ِمحمود جلد 12صفحہ381)

سِول نافرمانی کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی رہ نمائی

دوسری طرف کانگریس کے متعلق حضور ؓنے فرمایا کہ ہم اُن کی نیت پر حملہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔لیکن کانگریس کے طریقہ کار کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ تجزیہ بیان فرمایا:

“پس کانگریس کا موجودہ رویّہ عقل کے بالکل خلاف ہے۔ پھر ان کا یہ دعویٰ ہے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں نرمی اور محبت سے کر رہے ہیں سختی اور تشدّد کا اس میں کوئی دخل نہیں مگر یہ بھی غلط ہے۔ جس چیز کا نام گاندھی جی عدم تشدّد رکھتے ہیں دراصل وہ تشدّد ہے اور خطرناک تشدّد ہے۔مثلاََ یہی وہ غیر ملکی کپڑوں کی دکانوں پر پہرا لگا رہے ہیں تاکہ خریدنے والوں کو اس کپڑے کے خریدنے سے روکیں ان کے آگے بیٹھ جائیں اگر اس طرح بھی باز نہ آئیں تو لیٹ جائیں اس سے زیادہ تشدّد اَورکیا ہو سکتا ہے کہ وہ اس طرح دوسرے کو تشدّد کے لیے مجبور کرتے ہیں۔”

(خطبات ِ محمود جلد 12صفحہ384)

اس سے قبل بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے گاندھی جی کو یہی مشورہ دیا تھا کہ کانگریس کی پالیسی میں کسی قسم کا جبر نہیں ہونا چاہیے۔چنانچہ حضورؓ نے 9؍مئی 1930ءکے خطبہ جمعہ میں فرمایا :“اسی طرح ولایت سے آتے ہوئے میں خود گاندھی جی سے ملا اور ذکر کیا کہ کانگریس میں جبر نہیں ہونا چاہیے۔تمام ایسے قوانین مٹادیں جو جبر کا پہلو رکھتے ہوں اور کانگریس کے دروازے ہر ہندوستانی کے لیے کھول دیے جائیں پھر جس خیال کے لوگوں کو غلبہ حاصل ہوجائے وہ کام کریں۔”

(خطبات ِمحمود جلد 12صفحہ396)

جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا تھا، اس بظاہر عدم تشدّد میں تشدّد کے بیج پوشیدہ تھے۔ چنانچہ جب ساحل کی طرف گاندھی جی کا یہ سفر ختم ہو رہا تھا توامریکہ کے ایک جریدے نے گاندھی جی کا یہ اعلان شائع کیا کہ حکومت کو اپنے سے نمک نہ چھیننے دو اور پورے زور سے اس کی مزاحمت کرو یہاں تک کہ خون بہے۔تمام عورتیں اور بچے بھی مزاحمت کریں۔ ہم دیکھیں گے کہ کیا وہ ہماری عورتوں کو ہاتھ لگائیں گے۔ اگر ایسا کیا گیا تو ہندوستان کے بیٹے اور بیٹیاں نا مرد نہیں ہیں ۔ پورے ہندوستان میں آگ لگے گی۔

(Gandhi, Behind the mask of divinity, by G. B. Singh published by Vanguard Lahore 2005 p 219)

ایک طرف تو یہ اعلان ہو رہا تھا کہ یہ تحریک تشددّ سے پاک ہے اور دوسری طرف 9؍اپریل کو جب گاندھی جی خلافِ قانون نمک بنانے کا آغاز کر چکے تھے تو 9؍ اپریل کو گاندھی جی نے یہ اعلان کیا کہ حکومت کو اپنا بنایا ہوا نمک نہ چھیننے دو خواہ لاشیں گریں یا بازو کٹ جائیں۔ ایک طرف تو یہ اعلان کیا جا رہا تھا کہ اگر حکومت نے ہماری عورتوں کو ہاتھ لگایا تو آگ لگے گی دوسری طرف یہ اعلان کیا کہ شراب کی دکانوں کا محاصرہ کرو تاکہ وہاں کوئی خرید نہ ہو مرد نہ جائیں بلکہ عورتیں جائیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا نام جو بھی رکھا جائے ، اس کے نتیجہ میں فساد اور تشددّ کی کیفیت پیدا ہونی تھی اور عملاََ ہوئی بھی۔ اور جماعت ِ احمدیہ اس قسم کے رویہ کی کبھی حمایت نہیں کرتی جس کے نتیجہ میں فساد اور لڑائی جھگڑا پیدا ہو۔

(The Collected Works of Mahatma Gandhi Vol 43 p 218-219)

دس سال قبل چلنے والی سِول نافرمانی کی تحریک کے بارے میں حضورؓکی رہ نمائی

یہ پہلی مرتبہ نہیں تھا کہ جماعت ِ احمدیہ نے اس قسم کے احتجاج کی مخالفت کی تھی ۔1919ء اور 1920ء بلکہ بعد کے سالوں میں بھی جب کانگریس اور خلافت کمیٹی مل کر تحریکِ خلافت چلا رہے تھے اس وقت بھی بیرون ِہندوستان سے آنےوالے کپڑے کا بائیکاٹ کیاگیا تھا۔ کانگریس والوںنے اوربہت سے مسلمانوں نے صرف کھدر پہننا شروع کر دیا۔ بچوں کو سرکاری سکولوں سے اُٹھا لیا گیا ۔ تلقین کی گئی کہ لوگ فوج میں بھرتی نہ ہوں۔وکلاءکو اپیل کی گئی کہ وہ پریکٹس چھوڑ کر گھر بیٹھ جائیں۔ اَور تو اَور یہ فتویٰ داغا گیا کہ اب مسلمانوں کے لیے شرعی طور پر ہندوستان میں رہنا مناسب نہیں ہوگا ۔ اب ان پر فرض ہے کہ وہ ہندوستان سے افغانستان ہجرت کر جائیں ۔ اُس وقت بھی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہی رہ نمائی فرمائی تھی کہ اس قسم کی تحریک کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ خاص طور پر مسلمانوں کو شدید نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ یہی ہوا۔ اور یہ تحریک نہ ہندوستان کو آزاد کرا سکی اور نہ ترکی کی خلافت کو زندہ رکھ سکی۔[اس کے علاوہ جب 1928ء میں حضورؓ نے یہ محسوس فرمایا کہ ہندوستان کے آئینی مستقبل کے بارے میں کانگریس کے جاری کردہ منشور نہرو رپورٹ میں مسلمانوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا گیا تو آپؓ نے سب سے پہلے اس پر حقیقی راہنمائی فرمائی تھی۔ تحریک ِخلافت اور نہرو رپورٹ کے بارے میں حضور ؓکی راہنمائی کے بارے میں تفصیلی مضمون ماہنامہ انصاراللہ مصلح موعود نمبر جولائی 2009ءمیں شائع ہو چکا ہے اس لیے یہ سب تفاصیل اس مضمون میں شامل نہیں کی جا رہیں۔]

حکومت اور کانگریس دونوں جبر سے کام نہ لیں

دوسری طرف یہ بھی حقیقت تھی کہ کانگریس والے اپنے احتجاج کے طور پر نمک بنانے کے بارے میں قانون توڑ رہے تھے لیکن حکومت اس کے جواب میں ضرورت سے زیادہ ردّعمل دکھا رہی تھی ۔اس بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:

“پھر یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ جو سزائیں نمک کے قانون کو توڑنے پر دی جا رہی ہیں وہ سخت ہیں معمولی دو دو تین تین دن قید کر دینا کافی ہوتا اوّل تو جرمانہ ہی کرنا کافی ہوتا ۔بلکہ میں تو شروع میں اس رائے کا تھا کہ ایسے لوگ جو نمک بنائیں وہ ان سے چھین لیں ۔بلکہ اگر گورنمنٹ صحیح طور پر مذاق سے کام لیتی اور مذاق بھی بعض اوقات بڑا کام کر جاتا ہے تو بہت پہلے اس تحریک کا خاتمہ ہو جاتا ۔گورنمنٹ اعلان کر دیتی کہ چونکہ گاندھی جی اور ان کے ساتھی نمک بنانے لگ گئے ہیں اس لیے نمک بنانے والے کچھ ملازم موقوف کر دیے جائیں گے اور اس طرح نمک بنانے والے محکموں میں تخفیف کر دی جائے گی۔”

(خطبات ِمحمود جلد 12صفحہ386-387)

اُس وقت حکومت اور کانگریس ایک دوسرے کے مقابل صف آرا تھے اور دونوں کے جذبات مشتعل تھے ۔حضور ؓنے دونوں فریقوں کو ان الفاظ میں نصیحت فرمائی:

“جس طرح گورنمنٹ ظلم کر کے کامیاب نہیں ہو سکتی اسی طرح رعایا بھی ظلم سے دوسروں کو مجبور کر کے کامیابی نہیں حاصل کر سکتی ۔لیکن اس وقت یہ حالت ہے کہ اگر گورنمنٹ پولیس کے ذریعہ سختی کر رہی ہے تو کانگریس والنٹیئروں کے ذریعہ ۔یہ کہاں کی شرافت ہے کہ کہا جائے کہ اخبار بند کردو ورنہ ہم تمہارے دروازے کے آگے لیٹ جائیں گے حالانکہ جو کسی کے سامنے آکر لیٹتا ہے وہ خود مجبور کرتا ہے کہ اُس کے اوپرسے گذرا جائے۔”

(خطبات ِمحمود جلد 12صفحہ421)

ان سالوں میں گاندھی جی اور کانگریس کی طرف سے ‘کھدر ’کی تحریک چلی ہوئی تھی ۔ بلکہ اس کا آغاز دس بارہ سال قبل کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ تمام ہندوستان کے مرد اور عورتیں صرف کھدر پہنیں جو کہ گھروں میں چرخے پر بنایا جائے۔تمام مرد اور عورتیں چرخے پر روزانہ کھدر بنائیں۔ اس سے بیرونی کپڑے کی درآمد کم ہو جائے گی اور ہندوستان کا روپیہ بچے گا۔ ہندوستان کے لوگوں کو روزگار ملے گا۔اور بیرونی کپڑے کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔1930ء کی دہائی کے آغاز میں ہندوستان میں اس تحریک کو ایک خاص جوش سے چلایا جا رہا تھا اور حقیقت یہ تھی کہ بجائے ہندوستان کا کپڑا استعمال کرنے کے جاپان سے منگوایا ہوا کھدر بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ اس کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

“کھدّر کا ہاتھ سے بننا بھی ایسا ہی ہے۔جب تک آدھا ملک اس کام میں نہ لگ جائے ملک کی ضرورت کے لیے کپڑا مہیا نہیں ہو سکتا ۔ یا کم از کم تیسرا چوتھا حصہ ضرور ہونا چاہیے۔تب کہیں جا کر ملک کو لباس کے لیے کھدّر مہیا ہو سکتا ہے۔جس کے معنی یہ ہیں کہ کم از کم سات آٹھ کروڑ ہندوستانی اس کام میں لگ جائیں اور بجائے کوئی اَور مفید کام کرنے کے بیٹھے کھدّر بُنا کریں اور اس طرح ملک کی طاقت ضائع ہو گی۔ہاں اگر یہ شرط ہو کہ ہندوستان کا بنا ہوا کپڑا پہنا جائے تو یہ بات قابل ِعمل ہو سکتی ہے بشرطیکہ اس میں بائیکاٹ کی تحریک شامل نہ ہو ۔وہی کام درست ہو سکتا ہے جو اپنے فائدہ کے لیے کیا جائے نہ کہ دوسرے کے نقصان کے لیے ۔تو تحریک اگر یوں ہوتی کہ ہندوستان کا بنا ہوا کپڑا پہنا جائے تو بہت اچھا ہوتا۔ہندوستان میں بھی بمبئی اوراحمد آباد وغیرہ مقامات پر کپڑے کے بہت بڑے کارخانے ہیں اور نئے کھل سکتے ہیں۔”

(خطبات ِمحمود جلد 12صفحہ423تا424)

کتنی سچی ، سادہ اور کارآمد نصیحت ہے۔ نہ کسی پر کیچڑ اچھالا گیا، نہ عوام کے دل میں غیض و غضب کے خیالات بھڑکائے گئے۔ نہ کسی پیچیدہ بحث میں الجھایا گیا۔کوئی بھی ذی ہوش چند لمحے بھی غور کرے تو اس کی صداقت کا قائل ہوجائے گا بشرطیکہ کسی اَور نظریہ کی بے جا حمایت کا خیال دل میں نہ ہو۔لیکن جب ایک دوسرے کے خلاف جذبات راج کر رہے ہوں تو بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ سچے ہمدرد کو ہی دشمن خیال کر لیا جاتا ہے۔ایسا ہی 1929ءاور1930ء کے دوران ہوا۔برطانوی حکومت کے ایک طبقے نے جماعت ِاحمدیہ کے دشمنوں کی سرپرستی شروع کردی کیونکہ انہیں امام جماعت ِاحمدیہ کی طرف سے ایک سچی نصیحت کی گئی تھی کہ اب ہندوستان کے مقامی لوگوں کو اختیارات دیے بغیر گزارا نہیں ہوگا اور ایک علامتی قانون شکنی پر ساٹھ ہزار لوگوں کو جیلوں میں ٹھونسنے کی ضرورت نہیں۔یہ ایک ظلم ہے۔ سترہ سال بعد ہندوستان آزادکرنا ہی پڑا۔ کانگریس کا ایک طبقہ اس بات پر ناراض ہوگیا کہ ہر چیز میں خواہ یہ اسے صحیح سمجھ رہے ہیں یا غلط خیال کر رہے ہیں ہماری ہاں میں ہاں کیوں نہیں ملائی۔اور اس ناراضگی کی بنیاد تحریک ِخلافت اور نہرو رپورٹ کی اشاعت کے وقت پڑ چکی تھی۔ جلدہی کانگریس کو بھی سِول نافرمانی کی تحریک روک کے لندن میں دوسری رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں شریک ہونا پڑا اور کانگریس کی نمائندگی گاندھی جی ہی کر رہے تھے۔چند سال میں سِول نافرمانی کی تحریک ختم ہو گئی۔ اس کے نتیجہ میں ‘پُرنا راج’حاصل نہیں ہوا۔ہندوستان کے چند فی صد لوگوں نے ہی بمشکل کھدر پہنا ہوگا۔اور بھارت میں آج بھی نمک بنانے پر ٹیکس موجود ہے۔یہ ٹیکس لگانے کا قانون The Salt Cess Act, 1953 کہلاتا ہے۔ بہر حال یہ تاریخ کا ایک المیہ ہے کہ ان بنیادوں پر1930ء کی دہائی کے آغاز پر جماعت ِاحمدیہ کی مخالفت کا آغاز ہوا۔پھر ہندوستان میں برطانوی حکومت اور کانگریس میں شامل ایک طبقہ نے مسلمانوں میں جماعت ِاحمدیہ کے مخالف طبقہ کی پشت پناہی شروع کی ۔ مسلمانوں کے اس مخالف گروہ میں مجلس احرار پیش پیش تھی۔ اور مجلس احرار نے خاص طور پر پنجاب مسلم لیگ میں شامل مسلمانوں کو جماعت کے خلاف بھڑکانے کا کام شروع کیا۔ یہ تاریخ کا ایک علیحدہ باب ہے ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button