’’خدا کے نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ ہتھیار لگا کر پھر اسے اتار دے قبل اس کے کہ خدا کوئی فیصلہ کرے۔‘‘ (الحدیث)
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ 18؍اکتوبر 2019ء بمطابق 18؍اخاء 1398 ہجری شمسی بمقام ایگزیبشن سنٹر گیزن (Giesen)، (جرمنی)
خطبہ جمعہ کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بدری صحابہ کا جو میں نے ذکر شروع کیا ہوا ہے آج بھی وہی ذکر کروں گا۔ گذشتہ دورے کی وجہ سے، مختلف جلسوں کی وجہ سے یہ ذکر بیچ میں ٹوٹ گیا تھا، اس کا سلسلہ ٹوٹ گیا تھا۔ جو آخری خطبہ میں نے صحابہ کے ذکر پہ دیا تھا وہ 20؍ستمبر کا تھا۔ اس میں حضرت خبیب بن عدیؓ کا ذکر کیا گیا اور اس کا کچھ حصہ بیان کرنے سے رہ گیا تھا۔ اس میں بیان کیا گیا تھا کہ انہوں نے شہادت کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اللہ تعالیٰ کو یہ کہا کہ میرا سلام پہنچا دے تو بہرحال یہ وہ لوگ تھے جو بڑے اعلیٰ مقام کے تھے اور اللہ تعالیٰ کا بڑا قرب حاصل کرنے والے تھے اور اللہ تعالیٰ کا بھی ان سے سلوک کا پتا لگتا ہے کہ جب انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اور تو یہاں کوئی ذریعہ نہیں ہے تُو ہی میرا سلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا دے تو پھر وہ سلام اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا بھی دیا اور وہاں مجلس میں بیٹھے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وعلیکم السلام بھی کہا اور اس کا صحابہؓ سے ذکر بھی کیا کہ ان کی شہادت ہو گئی ہے۔
(فتح الباری شرح صحیح البخاری للامام ابن حجر عسقلانی جزء7 صفحہ488 کتاب المغازی حدیث نمبر4086 قدیمی کتب خانہ کراچی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، حضرت خبیب بن عدیؓ اور ان کے ساتھیوں کی جو شہادت ہوئی تھی اس کے بعد حضرت عمرو بن امیہ کو یہ حکم دیا کہ مکّے جاؤ اور اس ظلم کا جو کرتا دھرتا ہے ابوسفیان اس کو قتل کر دینا، اس کی یہ سزا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبار بن صخر انصاریؓ کو بھی ساتھ روانہ فرمایا۔یہ دونوں اپنے اونٹ یأجَج وادی جو مکّے سے آٹھ میل کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کی یہ گھاٹی تھی اس میں باندھ کر رات کے وقت مکے میں داخل ہوئے۔ حضرت جبارؓ نے حضرت عمروؓ سے کہا کہ کاش ہم طواف ِکعبہ کر سکیں اور دو رکعت نماز ادا کر سکیں یعنی کعبہ میں دو رکعت نماز ادا کر سکیں۔ حضرت عمرو نے کہا کہ قریش کا یہ طریق ہے کہ رات کو کھانا کھانے کے بعد اپنے صحنوں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ کہیں ہم پکڑے نہ جائیں۔ حضرت جبارؓ نے کہا ان شاء اللہ ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔ حضرت عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ پھر ہم نے طواف ِکعبہ کیا اور دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر ہم ابوسفیان کی تلاش میں نکل پڑے کہ اللہ کی قسم ! ہم پیدل چل رہے تھے کہ اہلِ مکہ میں سے ایک آدمی نے ہمیں دیکھا اور مجھے پہچان لیا اور کہنے لگا کہ عمرو بن امیہ یہ تو وہی ہے ضرور کسی شر کی نیت سے آیا ہو گا۔ اس پر میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ بچو،یہاں سے نکلو۔ پھر ہم تیزی سے وہاں سے نکلے یہاں تک کہ ایک پہاڑ پر چڑھ گئے۔ وہ لوگ بھی ہماری کھوج میں نکلے۔ جب ہم پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے تو وہ مایوس ہو کر چلے گئے۔ پھر ہم نیچے اتر کر پہاڑ کی ایک غار میں گھس گئے اور پتھر اکٹھے کر کے اوپر نیچے رکھ دیے اور وہیں ہم نے رات گزاری۔ صبح ہوئی تو ایک قریشی ادھر آ نکلا جو اپنے گھوڑے کو لے کر جا رہا تھا۔ ہم پھر غار میں چھپ گئے۔ میں نے کہا اگر اس نے ہمیںدیکھ لیا ہوا تو یہ شور مچائے گا لہٰذا اس کو پکڑ کر مار دینا ہی بہتر ہے۔ حضرت عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے پاس ایک خنجر تھا جسے میں نے ابوسفیان کے لیے تیار کیا تھا۔ میں نے اس خنجر سے اس شخص کے سینے پر وار کیا جس سے وہ اس زور سے چیخا کہ مکے والوں نے اس کی آواز سن لی۔ کہتے ہیں میں دوبارہ اپنی جگہ پر آ کر چھپ گیا۔ جب لوگ اس کے پاس تیزی سے پہنچے تو اپنی آخری سانس لے رہا تھا۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ تم پر کس نے حملہ کیا؟ اس نے کہا کہ عمرو بن امیہ نے۔ پھر موت نے اس پر غلبہ پا لیا اور اسی جگہ وہ مر گیا اور انہیں ہماری جگہ کا پتا نہیں بتا سکا۔
اس زمانے میں یہی حالت تھی کہ اگر دشمنوں کو پتا لگ جاتا تھا تو پھر ایک دوسرے کی شدید مخالفت کی وجہ سے یہی ہوتا تھا کہ قتل کر دو اور ان کو یہی شک تھا کہ اس نے کیونکہ ہمیں دیکھ لیا ہے اب یہ جا کے بتا بھی دے گا اور پھر کفار جو ہیں وہ ہمارے پیچھے آئیں گے اور پھر ہمیں بھی قتل کریں گے تو اس سے پہلے دفاع کے طور پر انہوں نے یہ کیا۔ بہرحال وہ کہتے ہیں کہ وہ ہمارا پتا بتا نہیں سکا۔ وہ اسے اٹھا کر لے گئے اور شام کے وقت میں نے اپنے ساتھی سے کہا اب ہم محفوظ ہیں۔ پس ہم رات کو مکے سے مدینے کی طرف نکلے تو ایک پارٹی کے پاس سے گزرے جو حضرت خبیب بن عدیؓ کی نعش کی حفاظت کر رہی تھی۔ ان میں سے ایک شخص نے حضرت عمروؓ کو دیکھ کر کہا کہ خدا کی قسم ! جتنی اس شخص کی چال عمرو بن امیہ سے ملتی ہے اس سے زیادہ میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ اگر وہ مدینے میں نہ ہوتا تو میں کہتا کہ یہی عمرو بن امیہ ہے۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ کہتے ہیں کہ حضرت جبارؓ جب اس لکڑی تک جس پر حضرت خبیبؓ کو لٹکایا گیا تھا وہاں تک پہنچے تو جلدی سے اسے اٹھا کر چل پڑے۔ وہ لوگ بھی آپ کے پیچھے بھاگے۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ وہ لوگ شراب کے نشے میں تھے، بدمست تھے ،کچھ جاگ رہے تھے، کچھ سو رہے تھے، کچھ اونگھ رہے تھے تو بہرحال ان کو پتا نہیں لگا اور یہ جلدی سے لے کے بھاگے اور پھر ان کو بھی پتا لگا تو آپ لوگوں کے پیچھے بھاگے یہاں تک کہ جب حضرت جبار یأجَج پہاڑ کے سیلابی نالے کے پاس پہنچے تو انہوں نے اس لکڑی کو اس کے اندر پھینک دیا۔ وہ لوگ بھی پیچھے پہنچے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس لکڑی کو ان کافروں کی آنکھوں سے اوجھل کر دیا اور وہ اسے نہ ڈھونڈ سکے۔ حضرت عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے ساتھی یعنی حضرت جبارؓ سے کہا کہ تم یہاں سے نکلو اور اپنے اونٹ پر بیٹھ کر روانہ ہو جاؤ۔ میں ان لوگوں کو تمہارے پیچھے آنے سے روکے رکھوں گا۔
حضرت عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ پھر میں چلا یہاں تک کہ ضَجْنَان پہاڑ تک پہنچ گیا جو مکّے سے پچیس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ میں نے ایک غار میں پناہ لی۔
وہاں سے نکلا یہاں تک کہ مقام عَرْج پر پہنچا جو مدینے سے 78 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ پھر چلتا گیا، کہتے ہیں کہ جب میں مقام نقیع پر اترا جو مدینے سے تقریباً ساٹھ میل کے فاصلے پر ہے تو مشرکین نے قریش کے دو آدمی دیکھے جنہیں قریش نے مدینہ میں جاسوسی کے لیے بھیجا تھا۔ میں نے انہیں کہا کہ ہتھیار ڈال دو۔ پتا تو لگ گیا ہے کہ تم جاسوسی کرنے آئے ہو لیکن وہ نہ مانے۔ اس پر وہاں لڑائی شروع ہو گئی ،کہتے ہیں ایک کو تو میں نے تیر مارا اوراس کو ہلاک کر دیا اور دوسرے کو قیدی بنا لیا اور پھر اسے باندھ کر مدینہ لے آیا۔
(السیرة النبویۃ لابن ہشام صفحہ885-886باب بعث عمرو بن امیہ الضمری لقتال ابی سفیان……دار الکتب العلمیۃ بیروت2001ء)(الاصابۃ فی تمییز الصحابہ جزء2 صفحہ226، خبیب بن عدی۔ دار الکتب العلمیہ بیروت1995ء)(لغات الحدیث جلد 4 صفحہ 603 کتاب ‘‘ی’’۔ جلد 3 صفحہ 46 کتاب ‘‘ف’’)(معجم البلدان جلد 3 صفحہ 225، 309۔ جلد 4 صفحہ 400)
ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت عمرو بن امیہ ضمری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تنہا جاسوس کے طور پر بھیجا تا کہ حضرت خبیبؓ کو لکڑی سے اتاروں۔ وہ کہتے ہیں کہ رات کے وقت مَیں حضرت خبیبؓ کی لکڑی کے پاس پہنچ کر اس کے اوپر چڑھ گیا تو اس وقت خوف تھا کہ کوئی مجھے دیکھ نہ لے۔ جب میں نے اس لکڑی کو چھوڑ دیا تو زمین پر گر پڑی۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ لکڑی ایسی غائب ہو گئی گویا اسے زمین نے نگل لیا۔ پھر اس وقت سے لے کر آج تک خبیب کی ہڈیوں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 1صفحہ684،خبیب بن عدی،دارالکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
ایک اور روایت کے مطابق حضرت عمرو بن امیہ ضمری بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے حضرت خبیبؓ کو رسیوں وغیرہ سے آزاد کر کے نیچے لٹایا تو میں نے اپنے پیچھے کوئی آہٹ کی آواز سنی۔ پھر جب دوبارہ میں سیدھا ہوا تو کچھ بھی نظر نہ آیا اور حضرت خبیبؓ کی نعش غائب ہو چکی تھی۔
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء2 صفحہ25 ،‘خبیب بن عدی’دار الکتب العلمیۃ بیروت2002ء)
تو پہلی روایت جو زیادہ صحیح لگتی ہے کہ پیچھے جب دوڑے تو انہوں نے دریا میں پھینک دیا اور دریا نے اس کو بہا لیا یا آگے پیچھے کر دیا، ندی تھی پانی کا بہاؤ تھا۔ تو مختلف روایات آتی ہیں۔ بہرحال اسی نام سے مشہور ہو گئے تھے کہ ان کی نعش زمین میں غائب ہو گئی۔
(الاصابۃ فی تمییز الصحابہ جزء2 صفحہ226، ‘خبیب بن عدی’دار الکتب العلمیہ بیروت2005ء)
تو وہ کفار جو کچھ کرنا چاہتے تھے کوئی معلوم نہ کر سکے اس نعش کی بے حرمتی وہ نہیں کر سکے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو محفوظ رکھا۔
ایک روایت حضرت خبیب بن عدیؓ کے قید کے واقعے کے بارے میں اس طرح بھی ہے کہ مَاوِیَّہ،حُجَیْربن اَبُوْاِہَابکی آزاد کردہ لونڈی تھی مکہ میں ان ہی کے گھر میں حضرت خبیب بن عدیؓ قید تھے تا کہ حرمت والے مہینے ختم ہوں تو انہیں قتل کیا جا سکے۔ ماویّہ نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا اور وہ اچھی مسلمان ثابت ہوئیں۔ ماویّہ بعد میں یہ قصہ بیان کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ کی قسم میں نے حضرت خبیبؓ سے بہتر کسی کو نہیں دیکھا۔ میں انہیں دروازے کے دَر ز سے دیکھا کرتی تھی اور وہ زنجیرمیں بندھے ہوتے تھے اور میرے علم میں روئے زمین پر کھانے کے لیے انگوروں کا ایک دانہ بھی نہ تھا، اس علاقے میں کوئی انگور نہیں تھا لیکن حضرت خبیبؓ کے ہاتھ میں آدمی کے سر کے برابر انگوروں کا گچھا ہوتا تھا یعنی کافی بڑا گچھا ہوتا تھا جس میں سے وہ کھاتے۔ وہ اللہ کے رزق کے سوا اَور کچھ نہ تھا۔ حضرت خبیبؓ تہجد میں قرآن پڑھتے اور عورتیں وہ سن کر رو دیتیں اور انہیں حضرت خبیبؓ پر رحم آتا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ایک دن میں نے حضرت خبیبؓ سے پوچھا اے خبیب! کیا تمہاری کوئی ضرورت ہے تو انہوں نے جواب دیا نہیں۔ ہاں ایک بات ہے کہ مجھے ٹھنڈا پانی پلا دو اور مجھے بتوں کے نام پر ذبح کیے جانے والے سے گوشت نہ دینا۔ جو کھانا تم لوگ دیتے ہو کبھی وہ کھانا نہ دینا جو بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو اور تیسری بات یہ کہ جب لوگ میرے قتل کا ارادہ کریں تو مجھے بتا دینا۔ پھر جب حرمت والے مہینے گزر گئے اور لوگوں نے حضرت خبیبؓ کے قتل پر اتفاق کر لیا تو کہتی ہیں کہ میں نے ان کے پاس جا کر انہیں یہ خبر دی۔ کہتی ہیں کہ اللہ کی قسم! انہوں نے اپنے قتل کیے جانے کی کوئی پروا نہیں کی۔ انہوں نے مجھ سے کہا میرے پاس استرابھیج دو تا کہ میں اپنے آپ کو درست کر لوں۔ وہ بتاتی ہیں کہ میں نے اپنے بیٹے ابوحسین کے ہاتھ استرا بھیجا۔ یہ بیٹا جو ہے کہتی ہیں وہ حقیقی بیٹا نہ تھا بلکہ ماویہ نے اس کی صرف پرورش کی تھی، یہی لکھا گیا ہے۔ جب بچہ چلا گیا تو پھر کہتی ہیں میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اللہ کی قسم! خبیب نے اپنا انتقام پا لیا۔ اب میرا بیٹا اس کے پاس ہے، استرا اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ تو انتقام لے لے گا۔ یہ میں نے کیا کر دیا! میں نے اس بچے کے ہاتھ استرا بھیج دیا ہے۔ خبیب اس بچے کو استرے سے قتل کر دے گا اور پھر کہے گا کہ مرد کے بدلے مرد۔ روایت تو یہ آتی ہے کہ بچہ کھیلتا ہوا ان کے پاس چلا گیا ان کے ہاتھ میں استرا تھا لیکن ایک روایت یہ اس طرح ہے جو تفصیل سے ہے کہ بچہ ہوش و حواس میں تھا اور اس قابل تھا کہ اس کے ہاتھ کوئی چیز بھجوائی جا سکے اور وہ انہوں نے بھجوایا۔ تو وہ کہتی ہیں کہ جائے گا تو کہہ دے گا کہ ٹھیک ہے تم میرا قتل کر رہے ہو تو میں بھی یہ قتل کر دیتا ہوں۔ پھر جب میرا بیٹا ان کے پاس استرا لے کر پہنچا تو انہوں نے وہ لیتے ہوئے مزاحاً اس بچے کو کہا کہ تُو بڑا بہادر ہے۔ کیا تمہاری ماں کو میری غداری کا خوف نہیں آیا اور تمہارے ہاتھ میرے پاس استرا بھجوا دیا جبکہ تم لوگ میرے قتل کا اردہ بھی کر چکے ہو۔ حضرت ماویہ بیان کرتی ہیں کہ خبیب کی یہ باتیں مَیں سن رہی تھی۔ میں نے کہا اے خبیب! میں اللہ کی امان کی وجہ سے تم سے بے خوف رہی اور میں نے تمہارے معبود پر بھروسا کر کے اس بچے کے ہاتھ تمہارے پاس استرا بھجوایا۔ میں نے وہ اس لیے نہیں بھجوایا کہ تم اس سے میرے بیٹے کو قتل کر ڈالو۔ حضرت خبیب نے کہا کہ میں ایسا نہیں ہوں کہ اس کو قتل کروں۔ ہم اپنے دین میں غداری جائز نہیں سمجھتے۔ وہ بتاتی ہیں کہ پھر میں نے خبیب کو خبر دی کہ لوگ کل صبح تمہیں یہاں سے نکال کر قتل کرنے والے ہیں۔ پھر یہ ہوا کہ اگلے دن لوگ انہیں زنجیر میں جکڑے ہوئے تنعیم ، مکے سے مدینے کی طرف تین میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے وہاں لے گئے اور خبیب کے قتل کا تماشا دیکھنے کے لیے بچے، عورتیں، غلام اور مکّے کے بہت سارے لوگ وہاں پہنچے اور اس روایت کے مطابق کوئی بھی مکے میں نہ رہا ۔
جو انتقام چاہتے تھے، جو اپنے بڑوں کے قتل کا بدلہ لینا چاہتے تھے جو جنگ میں مارے گئے تھے وہ تو اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے اور جنہوں نے انتقام نہیں لینا تھا اور جو اسلام اور مسلمانوں کے مخالف تھے وہ مخالفت کا اظہار کرنے اور خوش ہونے کے لیے وہاں گئے تھے کہ دیکھیں کس طرح اس کو قتل کیا جاتا ہے۔ پھر جب حضرت خبیب کو مع زید بن دثنہ کے تنعیم لے کر پہنچ گئے تو مشرکین کے حکم سے ایک لمبی لکڑی کھودی گئی۔ پھر جب وہ لوگ خبیب کو اس لکڑی کے پاس لے کر پہنچے، وہاں کھڑی کی گئی تو خبیبؓ بولے کیا مجھے دو رکعت پڑھنے کی مہلت مل سکتی ہے؟ لوگ بولے کہ ہاں۔ حضرت خبیبؓ نے دو نفل اختصار کے ساتھ ادا کیے اور انہیں لمبا نہ کیا۔ یہ ان خاتون کی روایت ہے۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء8 صفحہ399‘ماویۃمولاۃ حجیر’ دار احیاء التراث العربی بیروت1996ء)
(صحیح البخاری کتاب الجہاد باب ھل یساسر الرجل؟ حدیث 3045)
(اسدالغابہ جلد اول صفحہ 683 حاشیہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
ابن سعد کے حوالے سے جو روایت ابھی بیان ہوئی ہے اس کے مطابق ماویہ جو تھیں حجیر بن ابو اھابکی آزاد کردہ لونڈی تھیں جن کے گھر میں حضرت خبیبؓ قید کیے گئے تھے۔
علامہ ابن عبدالبر کے مطابق حضرت خبیبؓ عقبہ کے گھر میں قید تھے اور عقبہ کی بیوی انہیں خوراک مہیا کرتی تھیں اور کھانے کے وقت وہ حضرت خبیب کو کھول دیا کرتی تھی۔
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء2 صفحہ25 ،‘خبیب بن عدی’دار الکتب العلمیۃ بیروت2002ء)
علامہ ابن اثیر جزری لکھتے ہیں کہ حضرت خبیبؓ پہلے صحابی تھے جو اللہ تعالیٰ کی خاطر صلیب دیے گئے۔
(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 1صفحہ683،خبیب بن عدی،دارالکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
یعنی پہلے لکڑی کھڑی کی گئی، زمین پر گاڑی گئی اس پر ان کو باندھ کے پھر شہید کیا گیا۔
اس قتل کے واقعے کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھتے ہیں کہ ‘‘اس تماشےکو دیکھنے والوں میں ابوسفیان رئیس مکہ بھی تھا۔ وہ زیدؓ کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا کہ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ محمد تمہاری جگہ پر ہو اور تم اپنے گھر میں آرام سے بیٹھے ہو؟’’ (صلی اللہ علیہ وسلم )۔ ‘‘زید نے بڑے غصے سے جواب دیا کہ ابو سفیان! تم کیا کہتے ہو؟ خدا کی قسم! میرے لیے مرنا اس سے بہتر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کو مدینےکی گلیوں میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے۔ اس فدائیت سے ابوسفیان متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔’’ یہ جو جواب تھا ایسا تھا کہ ابوسفیان اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ‘‘اور اس نے حیرت سے زید کی طرف دیکھا اور فوراً ہی پھر دبی زبان میں کہنے لگا کہ خدا گواہ ہے کہ جس طرح محمدؐ کے ساتھ محمدؐ کے ساتھی محبت کرتے ہیں میں نے نہیں دیکھا کہ کوئی اور شخص کسی سے محبت کرتا ہو۔’’
(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20 صفحہ262تا263)
یہ تھا صحابہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و وفا کا تعلق اور جان قربان کر دینے کا معیار بھی۔ پھر اللہ تعالیٰ کا سلوک بھی ان سے کیا تھا وہ بھی ظاہر ہو گیا۔ ان کا اپنا معیار کیا تھا۔ جب یہ انہوں نے کہا کہ جب میں خدا تعالیٰ کی راہ میں مارا جا رہا ہوں تو جس پہلو میں بھی گروں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دائیں گرتا ہوں، بائیں گرتا ہوں، آگے گرتا ہوں، پیچھے گرتا ہوں۔ مَیں تو خدا تعالیٰ کی خاطر جان دے رہا ہوں۔
(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد 1 صفحہ683،خبیب بن عدی،دارالکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
ایک آرزو تھی جس کا انہوں نے قتل کیے جانے سے پہلے اظہار کیا اور وہ بھی یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کر لوں، دو نفل پڑھ لوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام پہنچانے کی آرزو تھی، خواہش تھی تو وہ بھی اللہ تعالیٰ نے پوری کر دی وہ بھی پہنچا دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کا یہ حال تھا کہ یہ بھی گوارہ نہیں ہوا کہ آپ کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھ جائے اور اس کے بدلے میں میری زندگی بچے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی ہلکی سی تکلیف کی بھی اہمیت تھی اور اپنی جان کی کوئی پروا نہیں تھی۔ تب ہی تو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن اُبی بن سلول اگلے صحابی ہیں جن کا ذکر ہو گا۔ حضرت عبداللہ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو عوف سے تھا۔ یہ رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی بن سلول کے بیٹے تھے اور نہایت ہی مخلص اور جاں ثار اور فدائی صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ حضرت عبداللہؓ کی والدہ کا نام خولہ بنت منذر تھا۔
(السیرة النبویة لابن ہشام صفحہ 468 "الانصار و من معھم” دارالکتب العلمیة بیروت لبنان2001ء)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزءثالث صفحہ 408 "عبد اللہ بن عبد اللہ”۔دارالکتب العلمیة بیروت لبنان1990ء)
حضرت عبداللہ کا نام جاہلیت کے زمانے میں حُباب تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کا نام بدل کر عبداللہ رکھ دیا اور فرمایا حُباب شیطان کا نام ہے۔ سلول عبداللہ بن اُبی رئیس المنافقین کی دادی کا نام تھا جس کا قبیلہ خزاعہ سے تعلق تھا۔ اُبی اپنی ماں کی نسبت سے مشہور تھا۔ اس لیے عبداللہ بن ابی بن سلول کہلاتا تھا۔ عبداللہ بن اُبی بن سلول ابوعامر راہب کی خالہ کا بیٹا تھا۔ ابوعامر ان لوگوں میں سے تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا لوگوں میں ذکر کیا کرتا تھا کہ ایک نبی مبعوث ہونے والا ہے اور اس نبی پر ایمان لانے کا اظہار کرتا تھا اور آپؐ کے ظہور کا لوگوں سے وعدہ کیا کرتا تھا کہ ظہور ہونے والا ہے۔ ابوعامر نے جاہلیت میں ٹاٹ پہن لیا تھا، بڑے موٹے کپڑے پہنتا تھا اور رہبانیت اختیار کر لی تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کر دیا تو پھر بجائے اس کے کہ جو تلقین کیا کرتا تھا اس کے الٹ ہو گیا اور حسد میں مبتلا ہو گیا، حسد کرنے لگا اور اس نے بغاوت کی اور اپنے کفر پر قائم رہا۔ مشرکین کے ساتھ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے نکلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام فاسق رکھا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزءثالث صفحہ 408-409 "عبد اللہ بن عبد اللہ”۔دارالکتب العلمیة بیروت لبنان1990ء)
حضرت عبداللہ کی اولاد میں عبادہ ، جلیحہ، خیثمہ اور خولی اور امامہ کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت عبداللہ اسلام لائے اور ان کا اسلام بہت اچھا تھا۔ یہ جلیل القدر صحابہ میں شامل تھے۔ حضرت عبداللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم راہ غزوۂ بدر، احد اور دیگر تمام غزوات میں شامل ہوئے۔ حضرت عبداللہ لکھنا پڑھنا بھی جانتے تھے۔ حضرت عائشہؓ نے حضرت عبداللہ سے احادیث روایت کی ہیں۔ حضرت عبداللہ کو کاتبِ وحی ہونے کا بھی شرف حاصل تھا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزءالثالث صفحہ 409 "عبد اللہ بن عبد اللہ”۔دارالکتب العلمیة بیروت لبنان1990ء)
(سیر الصحابہ از سعید انصاری جلد 3 صفحہ 425 دارالاشاعت اردو بازار کراچی 2004ء)
ایک روایت میں آتا ہے کہ غزوۂ احد میں حضرت عبداللہ کا ناک کٹ گیا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سونے کا ناک لگوانے کا ارشاد فرمایا جبکہ ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ غزوہ احد کے موقعےپر حضرت عبداللہ کے دو دانت ٹوٹ گئے تھے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سونے کے دانت لگوانے کا ارشاد فرمایا تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ دانت والی روایت زیادہ مشہور ہے اور درست ہے۔
(اسد الغابة فی معرفة الصحابة جزءثالث صفحہ298″عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی” دارالکتب العلمیة بیروت لبنان2008ء)
اور یہی درست لگتی ہے۔ بعض دفعہ بعض بیان کرنے و الے مبالغہ کر لیتے ہیں یا بعض دفعہ صحیح پیغام آگے نہیں سمجھ سکتے تو ناک کی بات تو نہیں دانتوں کی بات ہی صحیح لگتی ہے کہ دانت ٹوٹ گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سونے کے دانت لگوا لو اور وہی لگوایا کرتے تھے، اس زمانے میں بھی کراؤن (crown)چڑھایا کرتے تھے۔
غزوۂ احد میں ابوسفیان نے مسلمانوں کو چیلنج دیا تھا کہ اگلے سال ہم دوبارہ بدر کے میدان میں ملیں گے۔ اس واقعےکا ذکر کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے مختلف تواریخ سے لے کے جو نتیجہ نکالا ہے وہ ہے کہ
غزوۂ احد کے بعد میدان سے لوٹتے ہوئے ابوسفیان نے مسلمانوں کو یہ چیلنج دیا تھا کہ آئندہ سال بدر کے مقام پر ہماری تمہاری جنگ ہو گی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیلنج کو قبول کرنے کا اعلان فرمایا تھا۔اس لیے دوسرے سال یعنی 4ہجری میں جب شوال کے مہینے کاآخر آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ڈیڑھ ہزار صحابہ کی جمعیت کو ساتھ لے کرمدینے سے نکلے اور آپ نے اپنے پیچھے عبداللہ بن عبداللہ بن ابی بن سلول کوامیر مقرر فرمایا۔ حضرت عبداللہ کو مدینےکا امیر مقرر فرمایا جب آپ لشکر لے کر نکلے۔ دوسری طرف ابوسفیان بن حرب بھی دوہزار قریش کے لشکر کے ساتھ مکے سے نکلا مگر باوجود احد کی فتح اوراتنی بڑی جمعیت کے ساتھ ہونے کے اس کا دل خائف تھا اوراسلام کی تباہی کے درپے ہونے کے باوجود وہ چاہتا تھا کہ جب تک بہت زیادہ جمعیت کاانتظام نہ ہوجائے وہ مسلمانوں کے سامنے نہ ہو۔ چنانچہ ابھی وہ مکہ میں ہی تھا کہ اس نے نعیم نامی ایک شخص کوجوایک غیر جانب دار قبیلے سے تعلق رکھتا تھا مدینہ کی طرف روانہ کردیا اوراسے تاکید کی کہ جس طرح بھی ہو مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کراور جھوٹ سچ باتیں بنا کر جنگ سے نکلنے سے باز رکھو۔ چنانچہ یہ شخص مدینہ میں آیا اورقریش کی تیاری اور طاقت اوران کے جوش وخروش کے جھوٹے قصے سنا کر اس نے مدینہ میں ایک بے چینی کی حالت پیدا کردی حتٰی کہ بعض کم زور طبیعت لوگ اس غزوےمیں شامل ہونے سے خائف ہونے لگے لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکلنے کی تحریک فرمائی اورآپؐ نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم نے کفار کے چیلنج کوقبول کرکے اس موقع پر نکلنے کا وعدہ کیا ہے اس لیے ہم اس سے تخلّف نہیں کرسکتے، اس کے خلاف نہیں چلیں گے خواہ مجھے اکیلا جانا پڑے، تم لوگ ڈر رہے ہو، اکیلا بھی جانا پڑے تو میں جاؤں گا اوردشمن کے مقابل پراکیلا سینہ سپر ہوں گا۔ لوگوں کاخوف یہ باتیں سن کر جاتا رہا اوروہ بڑے جوش اوراخلاص کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلنے کوتیار ہو گئے۔
بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ڈیڑھ ہزار صحابہ کے ساتھ مدینے سے روانہ ہوئے اور دوسری طرف ابوسفیان اپنے دوہزار سپاہیوں کے ہمراہ مکّے سے نکلا لیکن خدائی تصرف کچھ ایسا ہوا کہ مسلمان توبدر میں اپنے وعدے پرپہنچ گئے مگر قریش کا لشکر تھوڑی دور آگے جا کر پھر مکہ لوٹ گیا اور اس کا قصہ یوں ہوا، کس طرح وہ لوٹا کہ جب ابوسفیان کونعیم کی ناکامی کاعلم ہوا، مسلمانوں کو ڈرانے کے لیے جو آدمی بھیجا تھا جب یہ پتا لگ گیا کہ مسلمان تو نہیں ڈرے، وہ تو باہر آ گئے ہیں تو وہ دل میں خائف ہوا اوراپنے لشکر کو یہ تلقین کرتا ہوا راستے سے لوٹا کرواپس لے گیا کہ اس سال قحط بہت زیادہ ہے اورلوگوں کوتنگی ہے اس لیے اس وقت لڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ جب کشائش ہوگی، حالات ٹھیک ہوں گے تو زیادہ تیاری کے ساتھ مدینے پر حملہ کریں گے۔
بہرحال اسلامی لشکر آٹھ دن تک بدر میں ٹھہرا اورچونکہ وہاں اس جگہ، اس میدان میں ماہ ذوقعدہ کے شروع میں ہرسال میلے لگا کرتا تھا تو ان دنوں میں بہت سے صحابیوں نے اس میلہ میں تجارت کرکے نفع کمایا۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں تک کہ انہوں نے اس آٹھ روزہ تجارت میں اپنے راس المال کودوگنا کرلیا۔ جو ان کا اپنا سرمایا تھا اس تجارت کی وجہ سے وہ دوگنا ہو گیاجب میلے کا اختتام ہوگیا اورلشکر قریش نہ آیا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بدر سے کوچ کرکے مدینے واپس تشریف لے آئے اور قریش نے مکے میں واپس پہنچ کر دوبارہ مدینے پر حملے کی تیاریاں شروع کردیں ۔ یہ جو غزوہ ہے یہ غزوہ بدرالموعد کہلاتا ہے جس کے لیے یہ لشکر نکلا تھا۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 529-530)
حضرت عبداللہ 12؍ہجری میں حضرت ابوبکرؓ کی خلافت میں جنگ یمامہ میں شہید ہوئےتھے۔
(الاستیعاب فی معرفة الاصحاب جزء 3 صفحہ72 "عبد اللہ بن عبد اللہ انصاری” دارالکتب العلمیة بیروت2010ء)
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ کے والد عبداللہ بن اُبی بن سلول کے بارے میں ایک روایت ہے۔ یہ روایتیں بھی مَیں بعض اس لیے بیان کر دیتا ہوں تا کہ تاریخ کا بھی پتا لگتا رہے جو براہ ِراست تعلق نہ بھی ہو۔
حضرت اسامہ بن زیدؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر فدک کی بنی ہوئی چادر ڈالی ہوئی تھی اور آپؐ نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ آپؐ حضرت سعد بن عبادہؓ کی عیادت کو جا رہے تھے جو بنو حارث بن خزرج کے محلے میں رہتے تھے۔ یہ واقعہ غزوۂ بدر سے پہلے کا ہے۔ حضرت اسامہؓ کہتے تھے کہ چلتے چلتے آپؐ ایک ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبداللہ بن اُبی بن سلول تھا اور یہ اس وقت کا واقعہ ہے کہ عبداللہ بن اُبی ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا، جو منافقانہ اسلام لایا تھا وہ بھی ابھی نہیں تھا۔ اس مجلس میں کچھ مشرک بھی بیٹھے تھے اور کچھ یہودی بھی تھے، کچھ مسلمان بیٹھے ہوئے تھے۔ سب ملے جلے لوگ تھے۔ مجلس میں حضرت عبداللہ بن رواحہؓ بھی تھے۔ جب اس جانور کی گرد مجلس پر پڑی تو عبداللہ بن اُبی نے اپنی چادر سے اپنی ناک ڈھانکی اور کہنے لگا غالباً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے یہ کہا کہ ہم پر گرد نہ اڑاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام کہنے کے بعد ٹھہرے اور جانور سے اترے۔ آپؐ نے انہیں اللہ کی طرف بلایا اور انہیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ عبداللہ بن اُبی بن سلول نے کہا اے شخص! جو بات تم کہتے ہو اس سے اچھی کوئی اَور بات نہیں۔ ٹھیک ہے تم کہتے ہو یا یہ مطلب تھا کہ تمہارے نزدیک اس سے اچھی کوئی اَور بات نہیں یا کوئی اَور اچھی بات نہیں تم کہہ سکتے؟ کئی مطلب اس کے ہو سکتے ہیں۔ بہرحال ترجمہ کرنے میں کس طرح کیا گیا ہے یہ تو اصل حوالے سے پتا لگ سکتا ہے۔ بہرحال اس نے یہ کہا اگر یہ سچ ہے کہ تمہاری اس بات سے کوئی اچھی بات نہیں تو ہماری مجلس میں آ کر اس سے تکلیف نہ دیا کرو، اپنے ٹھکانے پر ہی واپس جاؤ اور پھر جو تمہارے پاس آئے اس سے بیان کیا کرو۔ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے یہ سن کر کہا کہ نہیں یا رسول اللہ ! ہماری ان مجلسوں ہی میں آپؐ آ کر ہمیں پڑھ کر سنایا کریں۔ ہمیں تو یہ بات پسند ہے۔ اس پر مسلمان اور مشرک اور یہودی ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے۔ قریب تھا کہ وہ ایک دوسرے پر حملہ کرتے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےان کا جوش دبایا، دباتے رہے اور سمجھاتے رہے۔ آخر وہ رک گئے۔ پھر اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جانور پر سوار ہو کر چلے گئے یہاں تک کہ حضرت سعد بن عبادہؓ کے پاس آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ اے سعد! کیا تم نے نہیں سنا جو ابو حُباب نے آج مجھے کہا ہے؟ آپؐ کی مراد عبداللہ بن اُبی سے تھی۔ آپؐ نے فرمایا اس نے مجھے یوں یوں کہا ہے، ساری بات بتائی۔ حضرت سعد بن عبادہؓ نے کہا یا رسول اللہ !آپؐ اس کو معاف کر دیں اور اس سے درگزر کیجیے۔ اس ذات کی قسم ہے جس نے آپؐ پر کتاب نازل فرمائی ہے اللہ تعالیٰ اب وہ حق یہاں لے آیا ہے جس کو اس نے آپؐ پر نازل کیا ہے۔ اس بستی والوں نے تو یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس یعنی عبداللہ بن اُبی کو سرداری کا تاج پہنا کر عمامہ اس کے سر پر باندھیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس حق کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو عطا کیا ہے یہ منظور نہ کیا تو وہ حسد کی آگ میں جل گیا۔ اس لیے اس نے وہ کچھ کہا جو آپؐ نے دیکھا۔ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے درگزر کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ مشرکوں اور اہل کتاب سے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا درگزر کیا کرتے تھے اور ان کی ایذادہی پر، تکلیفوں پر صبر کیا کرتے تھے۔ اللہ عزّ وجلّ نے فرمایا ہے کہ
وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوْتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِيْنَ أَشْرَكُوْا أَذًى كَثِيرًا۔ (آل عمران 187)
اور تم ضرور ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان سے جنہوں نے شرک کیا بہت تکلیف دہ باتیں سنو گے اور اللہ تعالیٰ نے پھر فرمایا کہ
وَدَّ كَثِيْرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ۔(البقرة 110)
اہلِ کتاب میں سے بہت سے ایسے ہیں جو چاہتے ہیں کہ کاش تمہیں تمہارے ایمان لانے کے بعد ایک دفعہ پھر کفاّر بنا دیں بوجہ اُس حسد کے جو ان کے اپنے دلوں سے پیدا ہوتا ہے۔ پس تم اس وقت تک کہ اللہ اپنے حکم کو نازل فرمائے انہیں معاف کرو اور ان سے درگزرکرو اور اللہ یقینا ًہر ایک امر پر پورا پورا قادر ہے۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عفو کو ہی مناسب سمجھتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو حکم دیا تھا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ان کو اجازت دے دی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مقام پر اُن کا مقابلہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس لڑائی میں کفار قریش کے بڑے بڑے سرگرم مار ڈالے تو عبداللہ بن اُبی بن سلول اور جو اس کے ساتھ مشرک اور بت پرست تھے کہنے لگے اب تو یہ سلسلہ شان دار ہو گیا ہے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر قائم رہنے کی بیعت کر لی اور مسلمان ہو گئے۔
(صحیح بخاری کتاب التفسیر باب و لتسمعن من الذین ……حدیث نمبر 4566)
اسلام بھی ان کا اسی طرح تھا کہ جب دیکھا کہ جنگِ بدر میں کامیاب ہو گئے ہیں تو خوف پیدا ہوا اور اسلام لے آئے۔
تو بہرحال یہ روایتیں جیسا کہ میں نے کہا ان کا براہ ِراست تعلق نہیں بھی ہے تو بیان کرتا ہوں تا کہ اس حوالے سے تاریخ کا بھی پتا لگتا چلا جائے۔ پھر اس عبداللہ بن اُبی بن سلول کے کردار کی تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بیان کی ہے۔
غزوہ احد کے موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو جمع کر کے ان سے قریش کے اس حملے کے متعلق مشورہ مانگا کہ آیا مدینے میں ہی ٹھہرا جاوے یاباہر نکل کر مقابلہ کیا جاوے۔ اس مشورے پر عبداللہ بن اُبی بن سلول بھی شریک تھا جودراصل تو منافق تھا مگر بدر کے بعد بظاہر مسلمان ہوچکا تھا اوریہ پہلا موقع تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مشورے میں شرکت کی دعوت دی۔ مشورے سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے حملے اوران کے خونی ارادوں کاذکر فرمایا اورفرمایا کہ آج رات کو مَیں نے خواب میں ایک گائے دیکھی ہے نیز میں نے دیکھا کہ میری تلوار کاسر ٹوٹ گیا ہے اورپھر میں نے دیکھا کہ وہ گائے ذبح کی جارہی ہے اورمیں نے دیکھا کہ میں نے اپنا ہاتھ ایک مضبوط زرہ کے اندر ڈالا ہے۔ اورایک روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ میں نے دیکھا ہے کہ ایک مینڈھا ہے جس کی پیٹھ پر میں سوارہوں۔ صحابہ نے دریافت کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپؐ نے اس خواب کی کیا تعبیر فرمائی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گائے کے ذبح ہونے سے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرے صحابہ میں سے بعض کاشہید ہونا مراد ہے اورمیری تلوار کے کنارے کے ٹوٹنے سے میرے عزیزوں میں سے کسی کی شہادت کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے یا شاید خود مجھے اس مہم میں کوئی تکلیف پہنچے اورزرہ کے اندر ہاتھ ڈالنے سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس حملے کے مقابلے کے لیے ہمارا مدینے کے اندر ٹھہرنا زیادہ مناسب ہے اور مینڈھے پرسوار ہونے والے خواب کی آپ نے یہ تاویل فرمائی کہ اس سے کفار کے لشکر کاسردار یعنی علَم بردار مراد ہے، جھنڈا اٹھانے والا جو ان شا ءاللہ مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا جائے گا۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ طلب فرمایا کہ موجودہ صورت میں کیا کرنا چاہیے۔ بعض بڑے صحابہؓ نے حالات کے اونچ نیچ کی وجہ سے اور سوچ کراورشاید کسی قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب سے متاثر ہوکریہ رائے دی کہ مدینے میں ہی ٹھہر کر مقابلہ کرنا مناسب ہے۔ یہی رائے عبداللہ بن اُبی بن سلول جو رئیس المنافقین تھا اس نے بھی دی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی رائے کوپسند فرمایا اورکہا کہ بہتر یہی معلوم ہوتاہے کہ ہم مدینے کے اندر رہ کر مقابلہ کریں لیکن اکثر صحابہ نے اور خصوصاً ان نوجوانوں نے جو بدر کی جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے اوراپنی شہادت سے خدمتِ دین کا موقع حاصل کرنا چاہتے تھے اور بڑے بے تاب ہورہے تھے اس کے لیے بڑے اصرار کے ساتھ عرض کیا کہ شہر سے باہر نکل کرکھلے میدان میں مقابلہ کرنا چاہیے۔ ان لوگوں نے اس قدر اصرار کیا اور اپنی رائے کوپیش کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جوش کو دیکھ کران کی بات مان لی اورفیصلہ فرمایا کہ ہم کھلے میدان میں نکل کر کفار کامقابلہ کریں گے اورپھر جمعہ کی نماز کے بعد آپؐ نے مسلمانوں میں عام تحریک فرمائی کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ کی غرض سے اس غزوے میں شامل ہوکر ثواب حاصل کریں۔
اس کے بعد آپؐ اندرون خانہ تشریف لے گئے، گھر چلے گئے جہاں حضرت ابوبکرؓاورحضرت عمرؓ کی مدد سے آپؐ نے عمامہ باندھا اورجنگی لباس پہنا اورپھر ہتھیار لگا کر اللہ تعالیٰ کانام لیتے ہوئے باہر تشریف لے آئے لیکن اتنے عرصے میں حضرت سعدبن معاذؓ رئیس قبیلۂ اوس اور دوسرے اکابر صحابہ کے سمجھانے سے نوجوان لوگوں کواپنی غلطی محسوس ہونے لگی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے کے مقابلے میں اپنی رائے پراصرار نہیں کرنا چاہیے اور اکثر ان میں سے پشیمانی کی طرف مائل تھے۔
جب ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوہتھیار لگائے اوردہری زرہ اورخود وغیرہ پہنے ہوئے دیکھا کہ آپ تشریف لائے ہیں توان کو اوربھی زیادہ ندامت ہوگئی اور زیادہ پریشان ہو گئے۔ اورانہوں نے قریباً ایک زبان ہو کر عرض کیا کہ یارسول اللہ ہم سے غلطی ہو گئی کہ ہم نے آپؐ کی رائے کے مقابلے میں اپنی رائے پر اصرار کیا۔ آپؐ جس طرح مناسب خیال فرماتے ہیں اسی طرح کارروائی فرمائیں۔ ان شا ءاللہ اسی میں برکت ہوگی۔ آپؐ نے بڑے جوش سے فرمایا کہ خدا کے نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ ہتھیار لگا کر پھر اسے اتار دے قبل اس کے کہ خدا کوئی فیصلہ کرے۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا۔ یہ خدا کے نبی کی شان نہیں ہے کہ ہتھیار لگائے اور پھر انہیں اتار دے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہو۔ پس اب اللہ کا نام لے کر چلو اوراگرتم نے صبر سے کام لیا تو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے ساتھ ہوگی۔
اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکرِ اسلامی کے لیے تین جھنڈے تیار کروائے۔ قبیلہ اوس کا جھنڈا اُسَیدبن حضیر کے سپرد کیا گیا اورقبیلہ خزرج کاجھنڈا حباب بن منذر کے ہاتھ میں دیا گیا اورمہاجرین کاجھنڈا حضرت علیؓ کودیا گیا اور پھر مدینے میں عبداللہ بن امِ مکتوم کو امام الصلوٰة مقرر کرکے آپؐ صحابہ کی بڑی جماعت کے ہم راہ نمازِ عصر کے بعد مدینے سے نکلے۔ قبیلہ اوس اورخزرج کے رؤساء سعد بن معاذؓ اورسعد بن عبادہؓ آپؐ کی سواری کے سامنے آہستہ آہستہ دوڑتے جاتے تھے اور باقی صحابہؓ آپؐ کے دائیں اوربائیں اورپیچھے چل رہے تھے۔ احدکا پہاڑ مدینے کے شمال کی طرف قریباً تین میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کے نصف میں پہنچ کر، آدھا سفر طَے کر کے اس مقام پر جسے شیخین کہتے ہیں، یہ مدینے کے قریب ایک مقام کا نام ہے وہاں آپؐ نے قیام فرمایا اورلشکرِ اسلام کاجائزہ لیے جانے کا حکم دیا۔ کم عمر بچے جو جہاد کے شوق میں ساتھ آگئے تھے وہ واپس کیے گئے چنانچہ عبداللہ بن عمر، اسامہ بن زید، ابوسعید خدری وغیرہ سب واپس کیے گئے۔ رافع بن خدیج انہیں بچوں کے ہم عمر تھے مگرتیراندازی میں اچھی مہارت رکھتے تھے۔ ان کی اس خوبی کی وجہ سے ان کے والد نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ان کی سفارش کی کہ ان کو شریکِ جہاد ہونے کی اجازت دی جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رافع کی طرف نظر اٹھاکردیکھا تو وہ سپاہیوں کی طرح خوب تن کرکھڑے ہوگئے تاکہ چست اورلمبے نظر آئیں چنانچہ ان کا یہ داؤ چل گیا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی ساتھ چلنے کی اجازت دے دی۔ اس پر ایک اوربچہ سمرہ بن جندب جسے واپسی کا حکم مل چکا تھا اپنے باپ کے پاس گیا اورکہا کہ اگر رافع کولیا گیا ہے تو مجھے بھی اجازت ملنی چاہیے کیونکہ میں رافع سے مضبوط ہوں اور کُشتی میں اسے گرا لیتا ہوں۔ باپ کو بیٹے کے اس اخلاص پر بڑی خوشی ہوئی۔ اسے ساتھ لے کر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے بیٹے کی خواہش بیان کی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا اچھا یہ بات ہے تو پھر رافع اورسمرہ کی کُشتی کروا دیتے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ کون زیادہ مضبوط ہے۔ چنانچہ مقابلہ ہوا اور واقعہ میں سمرہ نے تھوڑی دیر میں ہی رافع کواٹھا کردے مارا، پچھاڑ دیا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سمرہ کو بھی ساتھ چلنے کی اجازت مرحمت فرمائی اوراس معصوم بچے کا دل خوش ہو گیا۔ اب چونکہ شام ہوچکی تھی اس لیے بلالؓ نے اذان کہی اور صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کی۔ پھررات کے واسطے مسلمانوں نے یہیں ڈیرے ڈال دیے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے پہرے کے لیے محمد بن مسلمہ کومنتظم مقررفرمایا جنہوں نے پچاس صحابہ کی جماعت کے ساتھ رات بھر لشکرِ اسلامی کے اردگرد چکر لگاتے ہوئے پہرہ دیا۔
دوسرے دن یعنی 15؍ شوال 3ہجری جو 31؍مارچ 624عیسوی بنتی ہے ہفتے کے دن سحری کے وقت یہ اسلامی لشکر آگے بڑھا اورراستے میں نماز اداکرتے ہوئے صبح ہوتے ہی احد کے دامن میں پہنچ گیا۔ اس موقعےپر عبداللہ بن اُبی بن سلول رئیس المنافقین نے غدّاری کی اوراپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ مسلمانوں کے لشکر سے ہٹ کریہ کہتا ہوا مدینے کی طرف واپس لَوٹ گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات نہیں مانی اورناتجربہ کار نوجوانوں کے کہنے میں آکر باہرنکل آئے ہیں اس لیے میں ان کے ساتھ ہوکر نہیں لڑ سکتا۔ بعض لوگوں نے بطور خود اُسے سمجھایا کہ یہ غدّاری ٹھیک نہیں ہے مگر اس نے ایک نہیں سنی اوریہی کہتا گیا کہ یہ کوئی لڑائی ہوتی ہے۔ اگر لڑائی ہوتی تومیں شامل ہوتامگر یہ لڑائی نہیں ہے بلکہ خودکو ہلاکت کے منہ میں ڈالنا ہے۔ اب مسلمانوں کی طاقت صرف سات سو لوگوں پر مشتمل تھی جو کفار کے تین ہزار سپاہیوں کے مقابلے میں چوتھائی حصے سے بھی کم تھی۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ؐ صفحہ 484تا487)(معجم البلدان جلد 3 صفحہ 168زیر لفظ ‘‘شیخان’’)
بہرحال جنگ ہوئی۔ اس کے حوالے سے کچھ اَور بھی حالات ہیں باقی ان شاء اللہ آئندہ خطبے میں بیان کروں گا۔
اس وقت اب میں ایک مرحوم کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں جن کا نمازوں کے بعد میں جنازہ بھی پڑھاؤں گا۔ وہ ہیں مکرم خواجہ رشید الدین قمر صاحب جو مولانا قمر الدین صاحب مرحوم کے بیٹے تھے۔ 10؍ اکتوبر کو کچھ علالت کے بعد 86؍ سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
آپ قادیان میں 1933ء میں پیدا ہوئے تھے اور جیسا کہ میں نے کہا مولوی قمر الدین صاحب کے بیٹے تھے۔ مولوی قمر الدین صاحب کو حضرت مصلح موعودؓ نے مجلس خدام الاحمدیہ کا پہلا صدر مقرر فرمایا تھا۔ مرحوم حضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے اور ہمارے محترم امیر صاحب یوکے جو ہیں ان کے ماموں تھے۔ حضرت میاں خیر دین سیکھوانیؓ اور آپؓ کے دو بھائیوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انجام ِآتھم میں لکھا ہے کہ مَیں اپنی جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب کرتا ہوں کہ ان میں سے نہایت ہی کم معاش والے جیسے میاں جمال الدین اور خیر الدین اور امام الدین کشمیری میرے گاؤں سے قریب رہنے والے ہیں۔ وہ تینوں غریب بھائی بھی جو شاید تین آنے یا چار آنے روزانہ مزدوری کرتے ہیں لیکن سرگرمی سے ماہ وار چندہ میں شریک ہیں۔
(ماخوذ از انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 313)
پھر ایک موقعےپر جب آپؑ نے چندے کی تحریک کی تو ان تینوں بھائیوں نے چندے دیے۔ ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان صاحبوں کے چندے کا معاملہ نہایت عجیب اور قابلِ رشک ہے کہ وہ دنیا کے مال سے نہایت ہی کم حصہ رکھتے ہیں گویا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح جو کچھ گھروں میں تھا وہ سب لے آئے ہیں اور دین کو دنیا پر مقدم کیا جیسا کہ بیعت میں شرط تھی۔
(ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 167)
تو خواجہ صاحب ان کی نسل میں سے تھے۔ مرحوم نے پاکستان ہجرت کے بعد کچھ عرصہ پاکستان ایئر فورس میں کام کیا۔ 1958ء میں یوکے آگئے اور یہاں 33؍ سال تک برٹش ایئر ویز میں ملازم رہے۔ آپ کو چونکہ خدمتِ سلسلہ کا بھی شوق تھا اس لیے آپ نے ملازمت کے دوران اپنی ڈیوٹی بھی رات کے وقت رکھی تا کہ دن کے وقت خدمتِ دین کر سکیں۔ تقریباً ساری عمر سلسلہ کی خدمت میں گزاری۔ جماعت کے مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ یوکے میں پہلے قائد مجلس خدام الاحمدیہ کے طور پر سات سال تک خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ اس وقت باہر کی خدام الاحمدیہ بھی خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے تحت اکٹھی ہوتی تھی تو یوکے کے پہلے قائد یہ تھے۔ اس کے ساتھ آپ کو نیشنل جنرل سیکرٹری اور پھر سیکرٹری مال پھر سیکرٹری رشتہ ناطہ، سیکرٹری امور عامہ، نائب افسر جلسہ گاہ خدمت بجا لانے کی توفیق ملی۔
خواجہ صاحب بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ خلافت سے بڑا عشق تھا۔ بزرگانِ دین ، مربیانِ کرام اور جماعتی عہدیداران کا بہت احترام کرتے تھے۔ انتہائی نیک آدمی تھے، تہجد گزار تھے۔ نماز باجماعت کے پابند، چندہ جات اور صدقہ و خیرات کی ادائیگی میں باقاعدہ نہایت ملنسار، غریب پرور، بچوں سے انتہائی شفقت سے پیش آنے والے، بڑوں اور چھوٹوں کا احترام کرنے والے بڑے دعا گو بزرگ تھے۔ مرحوم خدا تعالیٰ کے فضل سےموصی تھے۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں اور ان کی ایک ہمشیرہ اور تین بھائی ہیں۔
آپ کے نواسے قاصد معین مربی سلسلہ ہیں جو آج کل ایم ٹی اے میں بھی اور الحکم میں بھی خدمت کی توفیق پا رہے ہیں ۔ قاصد معین صاحب کہتے ہیں کہ ہم ہفتہ اور اتوار کےروز اپنے نانا کے گھر میں رہتے۔ ہر ہفتے ان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا۔ میں اکثر بچپن میں ان کے کمرے میں سوتا اور سونے سے پہلے ہمیشہ دیکھا کہ نوافل پڑھ کر سوتے اور نوافل نہایت خوب صورتی اور تسلی اور سکون سے پڑھتے اور صبح باقاعدگی سے تہجد پر اٹھتے اور فجر کے لیے ہمیں بھی اٹھاتے۔ یہ لکھتے ہیں ان کو ہمیشہ بڑا نرم دل پایا۔ بڑا فرشتہ صفت تھے۔ کبھی ہمیں ڈانٹا نہیں تھا۔ کہتے ہیں ایک دفعہ مجھے ان کی ڈانٹ یاد ہے اور وہ اس طرح کہ مَیں نے خلافتِ رابعہ میں بچپن کی معصومیت کی وجہ سے ان سے پوچھ لیا کہ اگلے خلیفہ کون ہو ں گے، اگلے خلیفہ کے بارے میں پوچھا۔ اس پر نانا جان نے مجھے بڑا ڈانٹا اور سمجھایا کہ ایسی باتیں نہیں کیا کرتے اور چھوٹی عمر میں ہی اس سبق سے مجھے خلافت کے مقام کا اندازہ ہوا۔
بہرحال خلافت سےایک غیر معمولی وفا کا تعلق تھا۔ وہ باقاعدگی سے مجھے بھی خط لکھا کرتے تھے اور آخری بیماری کے دنوں میں بھی آئے، یہاں دورے سے پہلے ہی، چند دن پہلے ملنے آئے۔ ان کو کینسر تشخیص ہوئی تھی اور بڑا تکلیف دہ علاج بھی ہے اور بیماری بھی لیکن بڑے صبر سے برداشت کیا اور بڑی ہمت سے ساری باتیں بتائیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے اور ان کی اولاد اور ان کی نسل کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل 08؍نومبر2019ء صفحہ 5تا9)