الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

برکاتِ خلافت

ماہنامہ ‘‘انصاراللہ’’ دسمبر 2011ء میں اطاعت کے نتیجے میں عطا ہونے والی برکات خلافت کا بیان مکرم مسعود احمد بوٹا صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ28؍ نومبر 1975ء کو احمدیہ ہال کراچی میں جمعہ پڑھا تو مکرم چودھری احمد مختار صاحب امیر کراچی نے بلاکر کہا حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کا ذاتی سامان جو کہ بارہ نَگ پر مشتمل ہے آپ نے ربوہ پہنچانا ہے۔ کل چناب ایکسپریس ریل میں فرسٹ کلاس کی سیٹ بُک کروادی ہے۔ یہ سامان کل دوپہر آپ کو مل جائے گا۔

اگلی صبح جب مَیں دفتر گیا تاکہ رخصت لے کر ربوہ روانہ ہوجاؤں تو مجھے بتایا گیا کہ یکم دسمبر کو ایک ضروری سٹاف میٹنگ ہے جس میں غیرحاضر سٹاف کو ملازمت سے فارغ کردیا جائے گا۔ یہ اطلاع بڑی پریشان کُن تھی۔ مَیں نے دفتر کے ایک کونے میں جاکر دعا کی کہ یا اللہ! مَیں نے تو آج تیرے خلیفۃالمسیح کا سامان لے کر جانا ہے، اب تُو جانے اور تیرا کام جانے، مَیں تجھ پر بھروسا کرکے جارہا ہوں۔ چنانچہ مَیں ربوہ روانہ ہوگیا۔ دفتر میں سامان پہنچایا اور ملاقات کی درخواست کی تو جواب ملا کہ کل صبح 9بجے آجائیں۔ اگلے روز حاضر ہوا تو حضورؒ نے سترہ منٹ عطا فرمائے اور ایسی نصائح سے نوازا جو آج تک میرے لیے مشعل راہ ہیں اور کئی مشکلات سے نجات کا باعث بنتی رہی ہیں۔

بہرحال 2دسمبر کو ربوہ سے روانہ ہوکر اگلے روز کراچی پہنچا اور ڈرتا ڈرتا سیدھا اپنے دفتر پہنچا کہ پتہ نہیں نوکری قائم بھی ہے یا نہیں۔ وہاں سب ساتھی پوچھنے لگے کہ دو دن کہاں رہے؟ جب مَیں نے اُن سے یکم دسمبر کی میٹنگ کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا کونسی میٹنگ؟ یہاں تو کسی کو یاد بھی نہیں تھا کہ کوئی میٹنگ بھی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے سچ فرمایا ہے:

قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت

اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے

………٭………٭………٭………

کیپٹن ریٹائرڈ مرزا نعیم الدین صاحب شہید

ماہنامہ ‘‘تشحیذالاذہان’’ اکتوبر 2011ء میں مکرم مرزا شہباز احمد نے اپنے تایا کیپٹن مرزا نعیم الدین صاحب کا ذکرخیر کیا ہے جنہیں 28؍مئی 2010ء کو سانحہ دارالذکر لاہور میں شہید کردیا گیا۔

محترم مرزا نعیم الدین صاحب 1953ء میں فتح پور ضلع گجرات میں پیدا ہوئے۔ پانچ بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھے۔ تین بہنیں بڑی تھیں۔ آپ کے والد مرزا سراج الدین صاحب محکمہ ڈاک خانہ میں ملازم تھے۔ جب آپ پیدا ہوئے تو آپ کے والد کی عمر ساٹھ سال سے متجاوز تھی۔ چنانچہ میٹرک کرکے آپ 1971ء میں فوج میں سپاہی بھرتی ہوگئے۔ اپنی قابلیت اور پروفیشنلزم کی بنیاد پر 1993ء میں فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ 2003ء میں بطور کیپٹن ریٹائرڈ ہوئے۔ اُن کی طبیعت ہمیشہ شکر کی طرف مائل رہتی۔ میجر نہ بن سکنے کا افسوس نہیں تھا۔ اسی بات پر شکر کرتے کہ مَیں نے بہت کچھ حاصل کرلیا۔ بحیثیت ایک فوجی وہ میرے آئیڈیل تھے اور فوج میں جانے کا شوق مجھے اُن کو دیکھ کر ہوا۔

مجھے اُن کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع اُس وقت ملا جب میری پوسٹنگ PAF کے لاہور Base میں ہوئی۔ میری والدہ جب ملٹری ہسپتال میں زیرعلاج تھیں تو وہ صبح دفتر جانے سے پہلے اور دفتر سے واپس آکر اُن کے پاس موجود رہتے۔ اُن کی وفات ہوئی تو بھی وہ ہسپتال میں موجود تھے اور انہوں نے ہی ہم سب عزیزوں کو اطلاع کی اور دیگر انتظامات کیے۔ ان کا حلقۂ احباب بہت وسیع تھا۔ خاندان میں ہر ایک کی خوشی غمی میں بھرپور شرکت کرتے۔ مسجد دارالذکر پر حملے کے وقت کئی لوگوں کی جانیں بچائیں اور اپنی شہادت تک دوسروں کی مدد میں مصروف رہے۔ ان کے بیٹے عامر نعیم بھی اُس روز دارالذکر کے گیٹ پر ڈیوٹی دیتے ہوئے زخمی ہوئے۔

………٭………٭………٭………

مکرم نعمت اللہ صاحب شہید نارووال

ماہنامہ ‘‘تشحیذالاذہان’’ ستمبر 2011ء میں عزیزم ذیشان نعمت اللہ نے اپنے والد مکرم نعمت اللہ صاحب کا ذکرخیر کیا ہے جنہیں نارووال میں رات کو اُن کے گھر میں حملہ کرکے شہید کردیا گیا۔

مکرم نعمت اللہ صاحب 1956ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا محترم میاں چراغ دین صاحب نے آپ کا نام نعمت اللہ اُس بزرگ کے نام پر رکھا جنہیں افغانستان میں سنگسار کرکے شہید کردیا گیا تھا۔ آپ پیدائشی طور پر کچھ کمزور تھے اور اکثر بیمار رہتے تھے۔ لوگ آپ کے دادا کو کہتے کہ بچے کا نام بدل دو تو یہ ٹھیک ہوجائے گا۔ لیکن وہ جواب دیتے کہ اس کا نام ایک شہید کے نام پر رکھا ہے اس لیے چاہے اس کی جان چلی جائے لیکن اس کا نام تبدیل نہیں کروں گا۔

مکرم نعمت اللہ صاحب ایک خوش شکل، خوش اخلاق اور اپنے حلقۂ احباب میں ہردلعزیز تھے۔ میٹرک کرکے ڈرائیونگ کو بطور پیشہ اپنایا۔ کچھ عرصہ عمان میں رہے۔ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کا بہت خیال رکھا۔ اپنے چار بھائیوں کو بھی اپنے ساتھ عمان لے گئے اور کاموں پر لگوایا۔ ہمسایوں کے ساتھ بھی بہت عمدہ تعلق تھا۔ بچوں کی تربیت کا خیال رکھتے اور نماز کی تلقین کرتے۔ حلقے کے احمدی بچے اور بچیاں آپ کی اہلیہ سے قرآن کریم پڑھنے آتے تھے۔ اگر کوئی بچہ ضد کرتا تو آپ اُسے کوئی لالچ دے کر پڑھنے پر آمادہ کرلیتے۔

کسی نے شہید مرحوم کی ایک کنال زمین پر قبضہ کرلیا۔ آپ نے علاقے کے ناظم اور نائب ناظم اور تحصیلدار سے رابطہ کیا تو ایک ہی جواب ملا کہ آپ اچھے لوگ ہیں لیکن ہم قادیانیوں کی مدد نہیں کرسکتے۔ آپ کا بھی ایک ہی جواب تھا کہ احمدیت پر تو جان بھی قربان ہے یہ تو پھر تھوڑی سی زمین ہے۔
شہادت سے پہلے آپ غیرمعمولی لمبی نمازیں ادا کرتے۔ دعوت الی اللہ کے شیدائی تھے۔ سانحہ لاہور والے دن بہت بے چین تھے۔ اس واقعے کے بعد آپ کے قصبے کے ایک مُلّا نے کہنا شروع کردیا کہ مَیں اپنے علاقے کو قادیانیوں سے پاک کردوں گا۔ اسی جنون میں اُس نے 31؍مئی 2010ء کی رات آپ کے گھر میں داخل ہوکر چھریوں کے پے در پے وار کرکے آپ کو شہید کردیا۔ آپ کے بڑے بیٹے منصور احمد جب آپ کو بچانے کے لیے آئے تو وہ بھی شدید زخمی ہوئے اور بعدازاں قریباً ایک ماہ تک لاہور کے ہسپتال میں زیرعلاج رہے۔

………٭………٭………٭………

شہنشاہ نورالدین محمد جہانگیر

ماہنامہ ‘‘تشحیذالاذہان’’ اگست 2011ء میں مغل بادشاہ نورالدین محمد جہانگیر کے بارے میں عزیزہ س۔نصیر کا ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے۔
شہنشاہ اکبر کے ہاں بڑی دعاؤں اور منّتوں کے بعد 30؍اگست 1569ء کو فتح پور سیکری کے مقام پر شیخ سلیم چشتی کے تکیہ میں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام شیخ سلیم چشتی کے نام پر محمد سلیم رکھا گیا۔ اس بچے کی ماں جے پور کی رانی جودھا بائی عرف مریم زمانی تھی۔ اکبر کو بیٹے کی پیدائش کی اتنی خوشی ہوئی کہ وہ اپنی منّت کے مطابق حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے مزار پر پیدل چل کر حاضر ہوا۔

شہنشاہ اکبر خود تو اَن پڑھ تھا مگر اس نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ دی اور عبدالرحیم کو استاد مقرر کیا۔ شہزادہ سلیم قدرتی طور پر بہت ذہین تھا اس لیے بہت جلد عربی، فارسی، سنسکرت اور ترکی زبانوں پر عبور حاصل کرنے کے بعد جغرافیہ، علم نباتات، موسیقی اور فن مصوّری میں بھی کمال حاصل کیا۔ صرف بارہ سال کی عمر میں کابل کی مُہم کے دوران اُس نے فوج کی کمان بھی سنبھالی۔

شہزادہ سلیم کی پہلی شادی پندرہ سال کی عمر میں ریاست کے والی راجہ بھگوان داس جواہر کی بیٹی مان بائی عرف شاہ بیگم سے ہندوانہ اور اسلامی طریقوں پر ہوئی۔ بعدازاں مان بائی شاہ بیگم افیون کی بھاری مقدار کھاکر مرگئی جس کا سلیم کو بہت دکھ ہوا۔

شہزادہ سلیم اوائل عمر میں عیش و عشرت کا دلدادہ تھا۔ اکبر کا سمجھانا بھی کسی کام نہ آیا۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ باپ بیٹے میں ناراضگی کی وجہ اکبر کی اسلام کش پالیسی تھی۔

36 سال کی عمر میں شہزادہ سلیم تخت نشین ہوا اور اس نے نورالدین محمد جہانگیر کا لقب اختیار کیا۔ تاجپوشی کی تقریب آگرہ کے قلعہ میں منعقد ہوئی۔ جہانگیر نے اپنی سرگزشت بھی لکھی جو ‘‘تزک جہانگیری’’ کے نام سے معروف ہے۔

جہانگیر نے 22سال ہندوستان پر حکومت کی۔ اُس کی اصلاحات میں کئی قسم کے ٹیکسوں کی منسوخی کا اعلان نیز شاہراہوں کے تحفظ کے لیے شاہراہوں سے متصل مساجد اور کنوؤں کی تعمیر، بستیوں کا قیام شامل ہے۔ اُس نے شراب اور دیگر تمام منشّیات کی تیاری اور فروخت پر پابندی لگادی۔ مجرموں کے ناک، کان کاٹنے کی بہیمانہ سزاؤں کو موقوف کردیا۔ سرکاری حکّام کو عوام کے گھروں میں ٹھہرنے کی ممانعت کردی۔ کاشت کاروں کو جبراً اُن کی اراضی سے بے دخل کرنے سے روک دیاگیا۔ بڑے شہروں میں ہسپتال قائم کرکے مفت علاج کی سہولیات فراہم کیں۔ ہفتہ میں تین دن جانوروں کے ذبیحہ کی ممانعت کردی۔ اکبر کے زمانے کے جو لوگ قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کررہے تھے ان سب کو معاف کردیا۔ وہ عدل و انصاف کا دلدادہ تھا۔ اپنے محل کے دروازے پر ایک زنجیرِ عدل لٹکارکھی تھی جس کو فریادی کھینچتا تو بادشاہ خود اُس کی فریاد سنتا۔ سونے کی یہ زنجیر تیس گز لمبی اور ساٹھ سونے کی گھنٹیوں سے مزیّن تھی اور اس کا وزن چار من تھا۔

کشمیر سے لاہور واپس آتے ہوئے بھمبر کے مقام پر دمہ کے شدید حملے کے نتیجے میں 28؍اکتوبر 1627ء کو 58 سال کی عمر میں اس کا انتقال ہوگیا۔ اُس کی وصیت کے مطابق نعش کو لاہور لاکر شاہدرہ کے قریب دلکشا باغ میں دفن کیا گیا۔ پہلے یہ باغ مہدی قاسم خان کا باغ کہلاتا تھا جو اکبر کا منصب دار تھا۔ بعد میں نورجہاں نے اس باغ کا نام دلکشا باغ رکھا۔

جہانگیر نے اپنے دَور کے علماء کے اُکسانے پر مجدّد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی کے ساتھ ناروا سلوک کرتے ہوئے اُنہیں گوالیار کے قلعے میں قید کردیا۔

………٭………٭………٭………

واقفینِ نَو کے رسالہ ‘‘اسماعیل’’ لندن اپریل تا جون 2012ء میں مکرم عبدالمنان شادؔ صاحب مرحوم کی درج ذیل معروف نظم (منقول از روزنامہ الفضل ربوہ 25؍دسمبر 1949ء) شامل اشاعت ہے:

ہم احمدی بچے ہیں کچھ کرکے دکھادیں گے
شیطاں کی حکومت کو دنیا سے مٹادیں گے
ہم مشرق و مغرب میں وحدت کی صدا دیں گے
دنیا کو طریقت کا پھر درس سکھا دیں گے
ہر طرف پکاریں گے دنیا میں نذیر آیا
ہر ایک کو جا جا کر پیغامِ خدا دیں گے
کہتی ہے غلط دنیا عیسیٰ ہے ابھی زندہ
برہان توفّی کی قرآں سے بتادیں گے
ہم سچے مسلماں ہیں کچھ خوف نہیں ہم کو
جو بات حقیقت ہے دنیا کو سنادیں گے
نکلیں گے زمانے میں ہم شمع ہدیٰ لے کر
ظلمات مٹادیں گے نوروں سے بسا دیں گے
بچہ نہ ہمیں سمجھو جانباز مجاہد ہیں
اسلام کی خاطر ہم جانیں بھی لٹادیں گے
اے شادؔ گماں مت کر کمزور نہیں ہیں ہم
جب وقت پڑا اپنی جانیں بھی لڑا دیں گے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button