ترقی کے گُر
اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
لوگ چاہتے ہیں کہ ترقی ہو مگر وہ نہیں جانتے کہ ترقی کس طرح ہوا کرتی ہے۔ دنیاداروں نے تو یہی سمجھ لیا ہے کہ یورپ کی تقلید سے ترقی ہو گی۔ مگر میں کہتا ہوں کہ ترقی ہمیشہ راستبازی سے ہوا کرتی ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے نمونہ رکھا ہواہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کی جماعت کا نمونہ دیکھو۔ ترقی اسی طرح ہو گی جیسے پہلے ہوئی تھی۔ اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ پہلے جو ترقی ہوئی وہ اصلاح اور تقویٰ اور راستبازی سے ہوئی تھی۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے جویا ہوئے اور اس کے احکام کے تابع ہوئے۔ اب بھی جب ترقی ہو گی۔ اسی طرح ہو گی۔
سید احمد خاں قومی قومی کہتے تھے۔ مگر افسوس ہے کہ وہ ایک بیٹے کی بھی اصلاح نہ کر سکے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دعویٰ کرنا اَور چیز ہے اور اس دعویٰ کی صداقت کو دکھانا اَور بات۔ اصل یہی ہے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں سکھایا ہے۔ جب تک مسلمان قرآنِ شریف کے پُورے متبع اور پابند نہیں ہوتے وہ کسی قسم کی ترقی نہیں کر سکتے۔ جس قدر وہ قرآن شریف سے دُور جا رہے ہیں اسی قدر وہ ترقی کے مدارج اور راہوں سے دُور جا رہے ہیں۔ قرآن شریف پر عمل ہی ترقی اور ہدایت کا موجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تجارت، زراعت اور ذرائع معاش سے جو حلال ہوں، منع نہیں کیا۔ مگر ہاں اس کو مقصود بالذات قرار نہ دیا جاوے بلکہ اس کو بطور خادمِ دین رکھنا چاہیے۔ زکوٰۃ سے بھی یہی منشا ہے کہ وہ مال خادمِ دین ہو۔
خوب یاد رکھو کہ اصل طریق ترقی کا یہی ہے۔ جب تک قوم اللہ تعالیٰ کے لیے قدم نہیں اُٹھاتی اور اپنے دلوں کو پاک و صاف نہیں کرتی کبھی ممکن نہیں کہ یہ قوم ترقی کر سکے۔ یہ خیال محض غلط ہے کہ صرف انگریزی پڑھنے اور انگریزی لباس پہننے اور شراب پینے اور فسق و فجور میں مبتلا ہونے سے ترقی ہو سکتی ہے۔ یہ تو ہلاک کرنے کی راہ ہے۔ نوح علیہ السلام کے زمانہ میں جو قوم رہتی تھی کیا وہ معاش اور آسائش کے سامان نہ رکھتے تھے؟ کیا وہ انگریزی ہی پڑھے ہوئے تھے؟ اسی طرح لُوط علیہ السلام کے زمانہ میں بھی معاش کے ذریعے تھے۔ اسی طرح اس زمانہ میں بھی معاش کے بعض ذریعے ہیں جن میں سے ایک یہ زبان بھی ہے جو معاش کا ذریعہ سمجھی گئی ہے لیکن وہ زبان جو خدا تعالیٰ کی زبان ہے ۔ اسے اللہ تعالیٰ نے علم و معرفت کی کنجی بنایا ہے۔ جب انسان تعصّب سے پاک ہو کر تدبر سے قرآن شریف کو دیکھے گا اور اعراض صوری اور معنوں سے باز رہے گا بلکہ دعاؤں میں لگا رہے گا تب ترقی ہو گی۔
یہ لوگ جو قومی ترقی قومی ترقی کا شور مچا رہے ہیں۔ میں ان کی آوازوں کو سن کر حیران ہوا کرتا ہوں کہ شاید ان کو مرنا ہی بھولا ہوا ہے اور ناپائیدار زندگی کو انہوں نے مقدم کر لیا ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ یورپ جیسے امیر کبیر بن جاویں۔ ہم منع نہیں کرتے کہ حد مناسب تک کوئی کوشش نہ کرے۔ مگر افراط تو مذموم امر ہے۔ افسوس ان ترقی چاہنے والوں کے نزدیک عملی طور پر ہر ایک بدی حلال ہے یہاں تک کہ زنا بھی۔ جیسا کہ یورپ کا عملی طرز بتا رہا ہے۔ اگر یہی ترقی ہے تو پھر ہلاکت کیا ہو گی؟ پس تم اپنی نیتوں کو صاف کرو۔ اللہ تعالیٰ کو رضا مند کرو۔ دعاؤں میں لگے رہو اور دین کی اشاعت کے لیے دعا کرو۔ پھر منع نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ نے جس قسم کی استعداد اور مناسبت معاش کے لیے دی ہے اس سے کام لو۔ زراعت ہو یا ملازمت یا تجارت۔ کرو مگر یہ نہیں کہ اس کو مقصود بالذات سمجھ کر دل اس سے لگا لو۔ بلکہ دل اس سے ہمیشہ اداس رکھو اور اسے ایک ابتلا سمجھو اور دعا کرتے رہو کہ خدا تعالیٰ وہ زمانہ لاوے کہ فراغت کا زمانہ یادِ الٰہی کے لیے میسر آوے۔ میری غرض اور تعلیم تو یہ ہے ۔ جو اس پرمخالفت کرے اس کا اختیار ہے۔ ہنسی کرے اختیار ہے۔ مگر حق یہی ہے۔ جو لوگ آزاد مشرب ہیں وہ ایسی باتوں پر سخت ہنسی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ اطفال کے درجہ پر ہیں اور ہمیں تیرہ سو برس پیچھے لے جاتے ہیں مگر جن میں تقویٰ ہو اور موت کو یاد رکھتے ہیں وہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ان دونوں میں سے حق پر کون ہے؟
میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ جب تک صحت ہے اس وقت تک یہ لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں لیکن جب ذرا مبتلا ہوتے ہیں تو ہوش میں آجاتے ہیں۔ نیچری مذہب کے لیے اسی قدر مستحکم ہو گا جس قدر دنیوی آسائش و آرام میسر ہو گا۔ جس قدر مصائب ہوں گے ڈھیلا ہوتا جائے گا۔ جو شخص دنیوی وجاہت اور عہدہ پاتا ہے اور قوم میں ایک عزت دیکھتا ہے وہ کیا سمجھ سکتا ہے کہ دین کیا چیز ہے؟
جو گروہ نمازوں میں تخفیف کرنی چاہتا ہے اور روزوں کو اُڑانا چاہتا ہے اور قرآن شریف کی ترمیم کرنے کا خواہش مند ہے۔ اگر اُسے ترقی ہو تو تم سمجھ لو کہ انجام کیا ہو۔
(ملفوظات جلد 8 صفحہ 29تا31۔ ایڈیشن 1984ء)
٭…٭…٭