اسلام کی داستانِ ناگفتہ:ایک تجزیہ (قسط دوم آخر)
اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
(ڈاکیومنٹری Islam: The Untold Story پر محاکمہ)
تاریخی شواہد
ظہور اسلام سے قبل کے ملک عرب کی تاریخ کی کھوج میں مورخین نے ایسی عرق ریزی کی ہے کہ جس کی نظیر کسی دوسرے خطے کی تاریخ کی تلاش میں ملنا مشکل ہے اور ایسی گہرائی سے شاید ہی کسی او رملک اور معاشرے کی تاریخ کو کھنگالا گیا ہوگا اور اتنے کثرت سے شواہد سامنے لائے گئے ہوںگے۔ لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ قریبا ًسب کی تحقیقات کے نتائج اور پیش کردہ شواہد یکساں ہیں۔
ایک امر جس پر سب متفق ہیں وہ حبشی حاکم ابرہہ کا لشکر لےکر ملک عرب پر چڑھائی کا واقعہ ہے جس کا ارادہ تھا کہ وہ مکہ میں واقع خانہ کعبہ پر قبضہ کرلے۔ قریبا ًتمام محققین نے اس واقعہ کا سال 570ء درج کرکے اس کی تفاصیل پر ابواب لکھے ہیں۔
Patrick Hughes and Thomas Patrick Hughes, A Dictionary of Islam Being a Cyclopaedia of the Doctrines, Rites, Ceremonies, and Customs, Together With the Technical and Theological Terms, of the Muhammad saan Religion (Asian Educational Services, 1995), 367
مکہ پر یہ حملہ دراصل ساسانی سلطنت کی طرف پیش قدمی کا ہی حصہ تھاجس کے ایک مرحلہ میں ملک عرب کے جنوبی حصوں پر قبضہ جمایا گیا تھا۔ مگر یہ حملہ آور محض مکہ تک ہی پہنچ سکے اور یہاں ان کی تباہی و بربادی کے سامان ہوگئے۔
Carl Brockelmann, History of the Islamic People Routledge Kegan & Paul, 1980), 3)
اس تاریخی جنگ کا ذکر قرآن کریم نےبھی سورۃ الفیل میں کیا ہے۔ اور مغربی محققین نے بھی 570ء سے 632ء کے درمیانی برسوں میں نبی کریم ﷺ کی موجودگی کے تاریخی شواہد پر تحقیقات کی ہیں۔ اور دلائل سے ثابت کیا ہے۔ مثلاً تھامس پیٹرک ہیوز نے اپنی ڈکشنری آف اسلام میں اس بابت نوٹ لکھے ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ واقعہ اصحا ب الفیل کے غالبا ً55 دن بعد نبی کریم ﷺ کی ولادت ہوئی تھی۔یا واقعہ اصحاب الفیل کے سال 12؍ربیع الاول کو ولادت ہوئی۔ جیسا کہ M Caussini-de-Percellنے لکھا کہ کسریٰ شاہ ایران نوشیروان کے عہد حکومت کے 40 ویں سال میں ولادت کا واقعہ ہوا۔ یوں اس حساب سے تاریخ پیدائش 20؍ اگست 570ء بنتی ہے۔
(Hughes and Hughes, A Dictionary of Islam, 367)
جبکہ سپینگلر کی تحقیقات 12؍ربیع الاول 571ء بتاتی ہیں۔
اب یہاں ولادت کے سال، مہینے اور دن کی تعیین پر تواختلاف رائے ہوسکتا ہے کہ لیکن آپؐ کے وجود مسعود ، آپؐ کے انقلابی کارناموں اور آپؐ کے لائے ہوئے دین اور نظام سے ہی یک سر انکار کردینا علم اور تحقیق کے پہلو سے صریح زیادتی ٹھہرے گی وہ بھی ایسے حالات میں کہ آپؐ کے قائم کردہ نظام نے صفحہ ہستی پر انقلاب عظیم برپا کرکے رکھ دیا تھا۔
یہ امر تاریخی طور پر مسلّم ہے کہ ابرہہ کےحملہ کے وقت سال 570ء میں مکہ پر قریش کی حکومت تھی اور دوسری طرف سب جانتے ہیں کہ مکہ سے مدینہ ہجرت کے آٹھویں سال میں نبی کریم ﷺ کی قیادت میں مسلمانوں نے قریش پر فتح پاکر مکہ پر اپنی حکومت قائم کرلی تھی اور یہ سال 629ء کا واقعہ بنتا ہے۔ بغیر کسی کشت وخون کے مسلمانوں کو ملنے والی اس فتح کا ایک ثبوت وہ عام معافی ہے جو بانی اسلام ﷺ نے اہل مکہ کو عطا فرمائی تھی۔ اب یہ دین اسلام کی قائم کردہ حسین اور خارق عادت تعلیم کا معجزہ نہیں تو اور کیا ہے کہ بغیر خون خرابہ کیے مکہ فتح کرکے اپنی حکومت قائم کرلی ورنہ ملک عرب میں تو معمولی تنازعات پر ہی برسوں تک جنگ و جدال جاری رہتا تھااور معمولی رنجشوں پر ہی خون کی ندیاں بہا دی جاتی تھیں۔
مکہ کے باسیوں کو ملنے والی عام معافی مسلمانوں کے حاکم اور سردار کی طرف سے عطاکی گئی تھی اور سب کو معلوم ہے کہ سال 630ء میں مسلمانوں کی قیادت صرف اور صرف محمد ﷺ کے ہاتھ میں تھی۔
محققین کی بعد کی تحقیقات بتاتی ہیں کہ جب ابرہہ نے جنوبی عرب پر اپنا تسلط قائم کرنا شروع کیا تو اس خطے میں آباد یہودی قبائل نے مجبور ہوکر ہجرت کی اور اپنا علاقہ چھوڑ کر اوس اور خزرج کے قبائل کے پاس پناہ گزین ہوئے۔بعد میں اس علاقہ میں جب اوس و خزرج کے مابین خانہ جنگی پھوٹی تو اہل اوس کو مجبورا ًخزرجیوں کے سامنے شکست قبول کرنی پڑی اور علاقہ یثرب کے یہی خزرجی لوگ ہی تھے جنہوں نے اسلام کا پیغام ملنے پر قبول کرنے میں اولاً سرگرمی دکھائی۔
(Brockelmann, History of the Islamic People, 16)
کیونکہ اہل خزرج اپنے ہمسایہ یہود قبائل سے قربت اور میل ملاقات کے بعد ایک ظاہر ہونے والے موعود کی اطلاع پاکر اس کی راہ تک رہے تھے۔ اور جیسے ہی ان تک پیغام پہنچا وہ فورا ًاسلام کی طرف مائل ہوگئے۔ اور سال 622ء میں اہل یثرب کا قبول اسلام تاریخی طور پر ثابت ہے اور اسی عرصہ میں نبی کریم ﷺ کا مکہ چھوڑ کر اہل خزرج کے علاقہ یثرب کی طرف ہجرت کرنے کاسراغ ملتا ہے۔تب سے یہ شہر یثرب کی بجائے مدینۃ النبیؐ یا مدینۃ الرسولؐ کے طور پر مشہور عالم ہے۔ یہاں سے ہی اسلام کا پیغام دنیا میں پھیلا گویا یہ دور اول میں مسلمان سلطنت کا دارالخلافہ تھا۔
ملک عرب میں شمالی حجاز کے زرخیز میدانوں میں واقع قدیمی شہر جو جغرافیائی طو رپر نجد اور تہامہ کی حد بندیوں پر واقع تھا اس کا پرانا نام یثرب تبدیل ہوکر مدینۃ النبیؐ یا مدینۃ الرسولؐ ہوجانا ایک غیر معمولی بات تھی۔ اور اس کی واحد وجہ بانی اسلام ﷺ کی مکہ کو چھوڑ کراس شہر کی طرف ہجرت کرنا اور یہاں کے باسیوں کی ایک غیر معمولی تعداد کا دین اسلام میں داخل ہوجانا ہی تھی۔ کیونکہ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے کہ یہ شہر دور اوّل میں اسلام کا مرکز بن گیا تھا۔
ہجری اسلامی کیلنڈر کا آغاز بانی اسلام ﷺ کی مکہ سے مدینہ ہجرت کے سال سے ہوتا ہے۔ اور یہ سال تاریخی طور پر 622ء کا آخر اور 623ء کے اوائل کا زمانہ ہے۔
(Hodgson, The Venture of Islam, Volume 1, 20)
سلطنت اسلامی کے دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر ؓ کے زمانہ خلافت میں جب اسلام کا بلحاظ پیروکار اور بلحاظ علاقہ غیر معمولی پھیلاؤ ہوا تو امور سلطنت کی زیادہ مربوط اورمستحکم بنیادوں پر بجاآوری کے لیے نظام سازی ناگزیر تھی۔ ہمسایہ ریاستوں سے امور سلطنت کی بجاآوری کے لیے سرکاری مراسلوں کی آمد و رفت اور معاہدات کی تحریر و توثیق کے لیے ضروری تھا کہ سرکاری کاغذات پر معین تاریخ درج ہو ۔ اسی تناظر میں اسلامی ہجری کیلنڈر کا اجرا کیا گیا اور اس کا نقطہ آغاز نبی کریم ﷺ کی ہجرت مدینہ کا سال طے پایا۔
(Franz Rosenthal, A History of Muslim Historiography (E. J. Brill, 1952), 309; Sir William Muir, Annals Of The Early Caliphate: From Original Sources (Smith, Elder & Co., 1883), 271)
یوں اس اسلامی کیلنڈر کا اجرا بانی اسلام ﷺ کی وفات کے دو سے بارہ سال کے اندر اندر وقوع پذیر ہوا کیونکہ یہی برس حضرت عمر ؓ کا زمانہ خلافت تھے۔ اس لحاظ سے ہجرت سے شروع کرکے اسلامی کیلنڈر کے برسوں کی تعیین صحابہ کرام کی ایک بہت بڑی جماعت کی موجودگی میں مکمل کی گئی مگر کسی نے بھی ہجرت اور بعد کے واقعات کی تعیین پر کوئی ایسا بڑا اور قابل ذکر اعتراض یا سوال نہیں کیا جو تاریخ میں محفوظ ہو۔ حضرت عمرؓ سمیت باقی تمام خلفائے راشدین کا ذکر اور ثبوت کتب تاریخ میں موجود اور محفوظ ہے اور ان خلفائے راشدین نے بھی اسی کیلنڈر کو جاری رکھا اور توثیق فرمائی جو مکہ سے مدینہ ہجرت کے سال سے شروع کیا گیا تھا۔ یہ اس امر کا نہایت واضح اور تاریخی ثبوت ہے کہ محمدﷺ تاریخی طور پر ایک مسلم وجود تھے اور آپ نے انسانی تاریخ پر اپناایک انمٹ نقش ثبت کیا اور آپ کے زمانہ کے واقعات اور حالات کو مسلمان مورخین نے خوب محفوظ رکھا۔
میں یہاں Donner کا ایک حوالہ درج کرتا ہوں جو مذکورہ بالا اہم سنگ میل کی مزید وضاحت کرتا ہے۔
بلاشبہ حکومتی سطح کے اداروں کی تشکیل ایک تدریجی عمل سے ہی ممکن ہوتی ہے اس لیے کوئی فرد واحد بھی حتمی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ اس نے اسلامی ریاست کی تشکیل کا سرا تلاش کرلیا ہے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ محمدﷺ نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں زمام سیاست اپنی مٹھی میں کر لی تھی جو اسلامی ریاست کی تشکیل کاواضح ثبوت ہے یا بطور تنزل اتنا تو ضرور تھا کہ آپ ﷺ نے اسلامی ریاست میں انتہائی مرکزی حیثیت حاصل کرلی تھی کیونکہ تنازعات حل کروانے کے لیے درکار مرکزی اور اساسی برتری آپ کو میسر ہوچکی تھی اور آپ کے زیر قیادت مختلف ادارے ملک کا انصرام چلانے لگ گئے تھے۔
اب اگر معین سال کی تعیین اور تلاش از حد ضروری ہے تو ہم سال 622ء کا انتخاب بآسانی کرسکتے ہیں جب آپﷺ کا مدینہ میں سیاسی اثر ورسوخ شروع ہوچکا تھا ، گویا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی ریاست کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔
(Donner, The Early Islamic Conquests, 54–55)
زیر نظر زمانہ میں ملک عرب کی ہمسائیگی میں موجود دیگر ادیان کے مذہبی تعلیمی اداروں کے میسر شواہد بتاتے ہیں کہ اس دَور میں اسلام اور مسلمان دونوں ہی موجود تھے۔
توحید باری تعالیٰ کی تلاش میں سرگرداں اور وحدت الوجود جیسے نظریات کے حامل گروہوں کے روزنامچے اور تاریخی ریکارڈ بتاتے ہیں کہ ساتویں صدی عیسویں میں نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد ابتدائی تین عشروں میں آپ ﷺ کے خلفاء موجود تھے۔ یہ مذکورہ بالا وثیقہ جات بتاتے ہیں کہ ایک حضرت ابوبکرؓ تھے جو نبی کریم ﷺ کی وفات کے معا ًبعد خلیفہ بنے جنہوں نے ملک شام میں برسرپیکار مسلمان فوجی جرنیلوں کو خاص ہدایات سے نوازا تھا جو سپہ سالاروں کے لیے مفید رہیں۔
I.M. Lapidus, “The Arab Conquests and the Transformation of the Islamic Society,” 20
یہی مذکورہ بالا روزنامچہ بتاتا ہے کہ ایک شخص حضرت عمرؓ تھے جنہوں نے ہیکل سلیمانی کی جگہ قبۃ الصخرۃ تعمیر کروایا تھااور اسے ہیکل کی تعمیر نو سے موسوم کیا تھا۔
I.M. Lapidus, “The Arab Conquests and the Transformation of the Islamic Society,” 20
تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان ؓکے بارہ میں ان روز نامچوں میں تبصرے موجود ہیں جن میں حضرت عثمان ؓ پر بعض ناواجب حملے اور بے بنیاد الزام تراشیاں درج ہیں۔ مثلاً یہ کہ انہوں نے قانون کو بگاڑ کر رکھ دیا اور اپنے سے پہلے آنے والے بادشاہوں کے معتدل طریق کو بدل ڈالا۔
I.M. Lapidus, “The Arab Conquests and the Transformation of the Islamic Society,” 20
اب جبکہ نبی کریم ﷺ کے اپنے زمانہ حیات اور آپ کے قریب قریب ادوار کے قریبا ًتمام اہم واقعات کو تاریخی اور علمی توثیق میسر ہے تو ایسے میں نبی کریم ﷺ کی ذات والا صفات، وجود مسعود، آپؐ کے کارہائے نمایاں اور احسانات عظیمہ سے یک سر انکار کیسےممکن ہے؟
بانی اسلام ﷺ کے بارہ میں ادبی شواہد
اب تک ہم وضاحت سے ثابت کرچکے ہیں کہ اسلام کا آغاز ساتویں صدی عیسوی کے اوائل میں قریش کے قبیلہ سے تعلق رکھنے والے شخص محمدﷺ کے ذریعہ مکہ اور مدینہ کے شہروں سے ہوا۔ اب مزید شواہد کی تفصیل بتانا قدرے آسان ہوجائے گا۔
یاد رہے کہ ملک عرب کے بادیہ نشینوں کو یکسر بدل کر رکھنے والا سب سے اہم امر وہ آفاقی تعلیم تھی جو کتاب ہدایت قرآن کریم کی شکل میں محفوظ ہے اور نبی کریم ﷺ پر تئیس برسوں کے عرصہ میں وقفے وقفے سے الہام کی صورت میں نازل ہوتی رہی۔ یہ قرآن روز اول سے آج تک دنیا کے سامنے موجود ہے۔ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ قرآن کریم کی سب کی سب آیات ایک مجموعہ کی شکل میں نبی کریم ﷺ کی حین حیات میں ہی جمع ہوچکی تھیں۔ اس مجموعہ کو حضرت ابوبکر ؓ کے دَور خلافت میں محفوظ کرکے سارے عالم اسلام میں قرآن کریم کی تعلیم کی اشاعت کا اہتمام کیا گیا، یوں کسی سے بھی یہ امر پوشیدہ نہیں ہے کہ روز اول سے دنیا میں عام کیا جانے والا کلام وہی ہے جو بانی اسلام ﷺ پر آیت آیت نازل ہوا۔ نیز بعد کے ادوار میں صحابہ کرام کی موجودگی ثابت کرتی ہے کہ اس قرآن کریم میں تحریف یا تبدیلی نہ ہوئی کیونکہ صرف ایک آیت یا ایک لفظ کے فرق سے بھی شور مچ جانا تھا۔ اسی وجہ سے صدیوں بعد بھی ہمیں وہی متفق علیہ قرآن کریم کا متن ملا ہے کیونکہ صحابہ کرام کو زمانہ نبویؐ بہت ہی عزیز تھا اور اپنے اس محبوب ﷺ کی طرف منسوب ایک چھوٹی سے چھوٹی آیت کا اندراج چھوٹ جانا ان کے لیے شاق گزرنا تھا۔
یاد رہے کہ حفاظت قرآن کریم کا ایک اَورزیادہ قابل اعتماد ذریعہ حفظ تھااور یہ حفاظ بھی کسی بھی طرح کی تحریف اور تبدیلی کو فورا ًپکڑ سکتے تھے جو زمانہ نبوی سے ذرہ بھر بھی مختلف ہوتی۔ خواہ یہ تبدیلی عمدا ًکی جاتی یا نادانستہ ہوجاتی ۔
ظہور اسلام سے قبل کے عرب معاشرہ کا جائزہ ظاہر کرتاہے کہ کیونکر حفاظ قرآن کریم کے متن کی حفاظت کا ایک قابل اعتماد اور باوثوق ذریعہ تھے۔ اہل عرب میں قابل ذکر اشعار کو یاد رکھنا ایک عام عادت تھی اور شعراء کا کلام حفظ کرنا ایک رواج کی بات تھی۔ کیونکہ یہ زبانی یاد کرنا ہی وہ ذریعہ تھا جس کی مدد سے اہل عرب اپنے امور اورافکار کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بلکہ ایک نسل سے اگلی نسلوں تک منتقل کیا کرتے تھے۔
سب کو معلوم ہے کہ اہل عر ب شاعری، علم الانساب اور امثال کو یادداشت کی بنا پر ہی اگلی نسلوں کے لیے محفوظ رکھتے تھے۔
Shoeler G, ‘The Oral and the Written in Early Islam’, Trans.Vagelpohl U, Routledge, Oxon 2006, p 65
جس معاشرہ میں عام روزمرہ کی شاعری کو از بر یاد رکھا جاتا تھا وہاں کیسے ممکن تھا کہ وہ کلام حفظ ہونے سے رہ جاتا جو اتنا پُراثر تھا کہ اس نے صدیوں سے منتشر بلکہ متحارب عرب قبائل کو متحد کرکے رکھ دیا ، یہ نازل شدہ کلام ایسی اعجازی شان کا حامل تھا کہ عرب لوگوں کی صدیوں سے راسخ عادات چھڑواکر ان کا طرز حیات ہی بدل کررکھ دینے والا تھا۔ ایسے خارق عادت کلام کے بارہ میں یہ وہم کہ اہل عرب نے حفظ نہ کیا ہوگا سمجھ سے بالا تر ہے۔
یاد رہے کہ قرآن کریم کے متن کی عالمگیر سلطنت اسلامی میں اشاعت و ترسیل کا زبردست فریضہ حضرت عثمان ؓ کے عہد خلافت میں مکمل ہوا،اور اس دور میں مسلمانوں کے باہمی سیاسی اختلافات عروج پر تھے۔
Muir W, ‘Annals of the Early Caliphate’, Elder & Co London 1883, p 296
ایسے سخت دور میں قرآن کریم جو مسلمانوں کے لیے سیاسی، مذہبی، معاشی اور معاشرتی امو رپر رہنمائی کا ذریعہ ہے، اس کتاب کی اشاعت میں ایک معمولی سا فرق بھی نظروں سے اوجھل نہیں رہ سکتا تھا۔ اور ایسی کسی بھی مزعومہ سازش کا سارا بوجھ خلیفہ راشد کی ہی مقدس ذات پر آنا تھا۔
اب حضرت عثمان ؓکے دور خلافت میں صرف ایک اختلاف کا ذکر ملتا ہے مگر وہ بھی قرآن کریم کے متن کے حوالہ سے نہیں بلکہ تلاوت اور تلفظ کے متعلق تھا۔
لیکن اب کوئی اس وہم میں نہ پڑ جائے کہ حضرت محمد ﷺ کی وفات سے لےکر حضرت عثمان ؓ کے اشاعت قرآن تک کے درمیانی عرصہ میں مسلم امہ کے پاس کوئی قرآن کریم ہی موجود نہ تھا۔ دراصل حضرت ابوبکر ؓ کے زمانہ خلافت میں اسلام دشمنوں سے جنگ یمامہ وغیرہ کے معرکوں میں بہت سے صحابہ کو شہادت کا درجہ ملا اور ان میں ایک غیرمعمولی تعداد ان اصحاب کی بھی تھی جو حافظ قرآن تھے۔ اس تکلیف دہ سانحہ کو دیکھ کر حضرت عمر ؓ کے دل میں تشویش پیدا ہوئی، انہوں نے اپنی فکرمندی خلیفہ راشد حضرت ابوبکر ؓ کے سامنے پیش کی اور حضرت ابو بکر صدیقؓ نے معاملہ کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے قرآن کریم کی تمام آیات پر مشتمل ایک نسخہ تیار کروا کر ام المومنین حضرت حفصہ ؓ کے پاس رکھوا دیا۔ تب یہ نسخہ قرآن کریم کی موجودہ ترتیب کے لحاظ سے تیار کیا گیا تھا اسی وجہ سےولیم میور اور دوسرے مغربی محققین کو قرآن کریم کو ترتیب کے بغیرکتاب قرار دےکر ادھر ادھر سے جوڑ جاڑ سے مرتب کیے گئے کلام سے مشابہ قرار دیتے ہیں۔
4. Muir W, ‘Annals of the Early Caliphate’, Elder & Co London 1883, p 231
لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ مذکورہ بالا اعتراض کرکے ولیم میور اور دوسرے مغربی محققین دراصل یہ اقرار کر رہے ہوتے ہیں کہ قرآن کریم اپنی اصل شکل میں محفوظ ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ پر آغاز میں الہام کیا گیا تھا۔ مگر یہاں قرآن کریم کی تاریخی حیثیت پر زبان ِطعن دراز کرنے والوں کی بے وقعتی بھی عیاں ہورہی ہے کہ کس طرح یہ لوگ ایک طرف اسلام کی تاریخی حیثیت پر اشتباہ کے پردے گرانے کی مذموم کوشش کرتے ہیں اور دوسری طرف اس آفاقی مذہب کے ہر ایک شعبہ پر اعتراض کے نشتر چلانے سے بھی باز نہیں آتے ہیں۔
اشد مخالف جارج سیل ، جس نے قرآن کریم کے 7 مختلف متون بھی تلاش کررکھے تھے وہ بھی مقر تھا کہ یہ فرق محض آیات کی تعداد کا ہے یعنی یہ مختلف متون میں الفاظ یا الفاظ کی تعداد کا بھی فرق نہیں ہے۔ قرآن کریم کے الفاظ کی تعداد 77639 ہے اور حروف کی تعداد ہر نسخہ میں 3230155 ہے۔ اب خلاصہ کلام یہی بنتا ہے کہ تمام معاندین اکیلے اکیلے بھی اور مل کر بھی قرآن کریم کے مختلف نسخوں سے وہ معمولی فرق تلاش کر پائے جس کا ذکر بھی بچگانہ ہے۔
صحابہ کی مشاورت سے قرآن کریم کا ایک نسخہ تیار کرکے باقی پرانے اوراق ختم کروانے کا حضرت عثمان ؓ کا فیصلہ بھی متفق علیہ نسخہ قرآنی کی ثقاہت میں اضافہ کرنے والا تھا۔
اختتامیہ
اس طویل مضمون کے مطالعہ سے سامنے آتا ہے کہ اس امر کے کافی زیادہ شواہد موجود ہیں کہ مذہب اسلام کے بانی حضرت محمد ﷺ ایک تاریخی طو رپر ثابت شدہ انسان تھے۔ یہ آپﷺ کا عظیم الشان معجزہ تھا کہ آپ نے پراگندہ لوگوں کو ایک وحدت کی لڑی میں پرو دیا، یہی وحدت بعد میں ایک ریاست کی شکل میں ابھری اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی عظیم الشان تہذیبوں میں سے ایک قرار پائی۔ مدتوں تک قائم رہنے والی سلطنتیں اور تہذیبیں مل کر بھی وہ کام نہ کرسکیں جو ایک امی اوربے کس کی لائی ہوئی تعلیم نے ایک نہایت ہی مختصر سے وقت میں کر دیا اور آپ کا لایا ہوا قرآن کریم روز اوّل سے غیر محرف اور غیر مبدل ہے۔ آیات کی تفاسیر پر بحثیں ہوتی تھیں اور ہوتی رہیں گی لیکن متن قرآنی بالکل نہیں بدلا۔
زیر نظر مضمون میں صرف مغربی محققین کے تائیدی حوالہ جات شامل کیے گئے ہیں کیونکہ مسلمان مورخین اور مصنفین کا کام ٹام ہالینڈ ، Patricia Crone اور Michael Cookکو کیسے قابل قبول ہوسکتے تھے۔ لیکن مسلمان محققین اور مورخین کی تاریخی واقعات کی کھوج اور کتب تاریخ و سیرت کی تیاری میں اختیار کردہ محنت اور بلند ترعلمی و تحقیقی معیار سے قطعاً انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ان مردان خدا نے ایک ایک روایت کو جرح و تعدیل کے کڑے پیمانوں پر پرکھا اور عقلی و نقلی لحاظ سے ثقہ ترین مواد پر انحصار کرکے تاریخ مرتب کی تھی۔ وہ ہر لحاظ سے داد و تحسین کے قابل کارنامے تھے۔ یقینا ًاس پہلو سے آئندہ کسی مضمون میں روشنی ڈالی جائے گی۔
(ترجمہ از انگریزی: طارق حیات، پاکستان)
٭…٭…٭