سو تم دنیا کی لعنتوں سے مت ڈرو …
(وفاقی وزیرِ پاکستان جناب اعظم سواتی کے نام)
اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
پاکستان تحریک انصاف کے وفاقی وزیر ،اعظم سواتی نے ایک ٹی وی چینل کے لائیو پروگرام میں بلا وجہ اور بلا اشتعال، صرف ایک مفتی صاحب کی ‘تسلّی’کروانے کے لیے بلا جھجک اور بے دھڑک جماعت احمدیہ پر ‘لعنت’ بھیجنے میں خیریت جانی اور اپنے موقف کو مضبوط اور مستند بنانے کے لیے ساتھ وزیر اعظم کو بھی شامل کر لیا۔جب یہ ‘آفیشل’اور سرکاری ‘بیان’ دیا جا رہا تھا تو سکرین پر سرکردہ اینکرپرسنز مالک صاحب اور مہر عباسی بھی موجود تھے۔
افسوس کی بات ہے کہ ‘اسلامی’ جمہوریہ پاکستان میں جماعتِ احمدیہ کے خلاف مظالم اور تکالیف کا سلسلہ تو ایک طرف ان کے بارے میں اس قدر غلط فہمیاں پیدا کی جا چکی ہیں کہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور مفادات کے لیے ایک طبقے کی طرف سے اگر جھوٹے طور پر بھی دعویٰ کر دیا جائے کہ فلاں سیاسی گروہ ‘جماعتِ احمدیہ’ کو سہولت دے رہا ہے تو دوسری جانب سے ‘سادہ’ تردید کو قابلِ قبول نہیں سمجھا جاتا بلکہ جماعتِ احمدیہ کے خلاف جب تک کوئی سخت بیان یا کوئی ‘کارروائی’ نہ کر دی جائے بات نہیں ٹھہرتی۔کچھ ایسا ہی جناب وفاقی وزیر موصوف نے کیا۔
تاریخِ پاکستان ایسے معروف ناموں سے بھری پڑی ہے جو وقتی مفادات کے حصول کے لیے جماعت احمدیہ کے خلاف ‘بیان بازیاں’اور ‘کارروائیاں’کرتے رہے اور ان کا ‘پھل’ یا کہنا چاہیے خمیازہ خود بھی بھگتا اور پاکستان کے عوام تو آج تک ان ‘اقدامات’ کے نتائج سہنے پر مجبور ہیں۔ اور اب یہ الفاظ ان پر صادق آتے محسوس ہوتے ہیں کہ
جو ابر ہے سو وہ اب سنگ و خشت لاتا ہے
فضا یہ ہو تو دلوں میں نزاکتیں کیسی……؟
بات مزید آگے بڑھانے سے قبل قارئین کو اپنے ایک مرحوم اور غیر معروف شاعر دوست ارشد طارق کا ایک شعر سنا دوں، جو کوئی پچیس برس قبل ان سے سنا اور آج یہ سطور لکھتے ہوئے بر محل ہونے کی وجہ سے اچانک حافظے میں تازہ ہو گیا؎
گدھ کی چونچ پہ جب خونِ شہر دیکھا تھا
چشم حیراں نے کئی بار ، ادھر دیکھا تھا
یہ بات درست ہے کہ وہ بیان چونکہ حکومت کے ایک وفاقی وزیر کا تھا اور اس میں وزیر اعظم کا نام لے کر ساتھ شامل کیا گیا ہے اور مین سٹریم میڈیا کے مشہور اینکرز کے سامنے وہ بات کی گئی ہے اس لیے سماجی اور سیاسی ریکارڈ کی خاطر جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان سلیم الدین صاحب نے اپنے ٹویٹر ہینڈل سے اس پر تشویش اور اس کی تردید بھی کی ہے اور دیگر شرفاء کو بھی اس پر تشویش ہے۔
لیکن آپ سے سیاسیات اور سماجی تاریخ کے طالبعلم بھی تو پوچھتے ہیں کہ جناب آپ کو لعنت کے لفظ کا شعور تو ہو گا؟ ناکامی و نامرادی،سماجی ابتری اور معاشی بد حالی آپ کے نزدیک کسی زائچے میں شمار ہوتی ہوں گی؟ تعلیمی پس ماندگی، صحت اور سلامتی کی ابتری، معاشرتی امن کا فقدان، سیاسی عدم استحکام، ریاستی طور پر متزلزل خود مختاری اور ادارہ جاتی بد نظمی اور بد حالی بھی کچھ تصویر کو واضح کرتی ہوں گی؟ اسی طرح حقوق انسانی کی عدم فراہمی، آئین و قانون کی مثالی پائمالی ،گلی کوچوں میں پائے جانے والے عام طور پر احساس عدم تحفظ اور مستقبل کا خدشات اور خطرات کی دھند میں غائب ہو جانا ……یہ ایک معاشرے اور ملک کے لیے کیا ہوتا ہے، یہ بھی آپ جانتے ہوں گے؟
اس کے علاوہ بے شمار اشارئیے ہیں جو وطنِ عزیز میں جاری تنزل اور بڑھتی ہوئی بد حالی پر دلیل ہیں۔
ان تمام اقسام کی ‘آفتوں’کی کشتی میں بیٹھ کر ایک ایسی جماعت پر لعنت ڈالنا جس کے……قدم قدم پر اللہ کا فضل دکھائی دیتا ہے، جس کی نہ صرف اپنی مجموعی تعلیمی حالت مثالی ہے بلکہ وہ دنیا کے دور دراز، غریب اور پس ماندہ علاقوں میں تعلیم کی دولت کو عام کر رہے ہیں، جنہوں نے صحت کی سہولتوں کا بین الاقوامی معیار کا بندوبست کر رکھا ہے جس سے نہ صرف اپنے بلکہ بلا تفریق رنگ و نسل مذہب و قومیت ہر شخص کی بے لوث خدمت کا سلسلہ جاری ہے،
جن کی ‘معیشت’ دنیا کے کسی ملک میں بھی مقروض اور دوسروں پر انحصار کرنے والی نہیں ہے۔
جن کی معاشرت مثالی سطح کی پُرامن ہے۔ جن کا منظم ہونا بین الاقوامی فورمز پر رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جن کی لیڈر شپ ان کی اجتماعی خوبیوں کی آئینہ دار…… یعنی درحقیقت، اِمَامُکُم مِنْکُم کی حقیقی مصداق ہے، جس کے زیرِ سایہ وہ تعلق باللہ اور توکّل علیٰ اللہ کے سالک بننے کی تگ و دو میں مگن ہیں۔
یہ کیفیاتی، احساساتی اور نظریاتی جواب تھا جو آپ کونہیں بلکہ آپ کی وجہ اور حوالے سے پاکستان سے تعلق رکھنے والے دنیا بھر میں موجود سعید الفطرت طبقے کی سہولت کے لیے لکھا گیا ہے کہ ان کے حافظے میں رہ جائے۔ اور خدا تعالی کی آئندہ میں ظاہر ہونے والی ‘رحمتوں’ اور ‘لعنتوں’ میں فرق کرنے کے لیے مددگار ہو۔
آج کے مضمون کا عنوان میں نے بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے ایک اقتباس سے لیا ہےجس میں آپؑ اپنی جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے ہدایت فرما رہے ہیں کہ،
تم دنیا کی لعنتوں سے مت ڈرو……کہ یہ دن کو رات نہیں کر سکتی، البتہ خدا کی لعنت سے ڈرنے کے لیے کہا کہ وہ جس پر پڑے اس کی دونوں جہانوں میں بیخ کنی کر دیتی ہے۔
سواتی صاحب!آخر پہ ‘آنمحترم’ اور قارئین کے لیے وضاحت کر دوں کہ از روئے لغوی مفہوم لعنت خدا سے دوری کا مفہوم بھی اپنے اندر رکھتی ہے اور اہل خدا کو زیبا ہے کے وہ دنیاوی بے اختیاری کی حالت میں کسی ظلم وستم سے ستائے جائیں تو اپنی بے اختیاری اور بے بسی میں خدا تعالی سے استمداد اور اس کے قہر کو اپنی کمزوری کی ڈھال بنا کر اپنے مخالفوں کے لیے مانگیں اور معاملہ خدا پر چھوڑ دیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا آپ اس تعریف کے تحت لعنت ڈالنے کے لیے کوالیفائی بھی کرتے ہیں! لیکن خیر وطنِ عزیز میں تو ہر سمت الٹی گنگا ہی بہ رہی ہے!
مجھ کو پردے میں نظر آتا ہے اک میرا معین
تیغ کو کھینچے ہوئے اس پر کہ جو کرتا ہے وار
٭…٭…٭