انگلستان کا سفر کرنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہؓ (قسط 2)
اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
حضرت مولانا عبدالرحیم نیّر صاحب رضی اللہ عنہ
حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحب رضی اللہ عنہ نے 1901ء میں قبول احمدیت کی توفیق پائی، 1906ء میں قادیان میں رہائش پذیر ہوگئے۔ 15؍جولائی 1919ء کو بطور مبلغ اسلام انگلستان روانہ ہوئے آپ کا یہ سفر حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ (جو دوسری دفعہ اعلائے کلمہ اسلام کے لیے انگلستان جارہے تھے)کی معیت میں تھا۔ تقریبًا ڈیڑھ سال انگلستان میں تبلیغی خدمات سر انجام دینے کے بعد آپ وہیں سے مغربی افریقہ تشریف لے گئے جہاں ایک سال عظیم الشان خدمات سر انجام دینے کے بعد دوبارہ انگلستان آگئے اور لندن مشن کا چارج سنبھالا۔ آپ ہی کے دَور میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ Wembleyکانفرنس میں شرکت کے لیے انگلستان تشریف لے گئے اور مسجد فضل لندن کی بنیاد رکھی گئی۔ حضورؓ کے اسی سفر انگلستان میں حضرت عبدالرحیم دردؔ صاحبؓ لندن مشن کے امام مقرر ہوئے اور آپ حضرت مصلح موعودؓ کی رفاقت میں ہی ہندوستان واپس آگئے اور یہاں مختلف علاقوں میں تبلیغی خدمات پر متعین رہے۔ انگلستان میں تبلیغی مساعی کے متعلق آپ کی کئی رپورٹیں اخبار الفضل میں شائع شدہ ہیں۔ آپ نے 17؍ستمبر 1948ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔
حضرت بابو عزیز الدین صاحب رضی اللہ عنہ
حضرت بابو عزیز الدین صاحب رضی اللہ عنہ ولد مکرم گلاب دین صاحب زرگر سیالکوٹ کے رہنے والے تھے، آپ اندازاً 1886ء میں پیدا ہوئے اور 1902ء میں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے ۔ اخبار الحکم میں درج نو مبائعین کی فہرست میں سیالکوٹ سے زرگر فیملی کے چند نام بھی شامل ہیں جس میں آپ کا نام ‘‘میاں عزیز الدین صاحب’’بھی شامل ہے۔ (الحکم 24؍نومبر 1902ء صفحہ 16 کالم 3)آپ مورخہ 3؍مارچ 1920ء کو نواب زادہ عبدالرحیم خان صاحب ابن حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ آف مالیر کوٹلہ کی معیت میں لندن پہنچے۔ (الفضل 15؍اپریل 1920ء صفحہ 7 کالم 1) ، اخبار الفضل لکھتا ہے:
‘‘بابو عزیزالدین صاحب احمدی جو اپنے خرچ پر تبلیغ اسلام و احمدیت کے لیے حسب منشاء حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ لنڈن گئے ہیں، اپنے تازہ خط میں لکھتے ہیں کہ میں ایک ہندوستانی مسلمان کے مکان پر رہتا ہوں جو بیس سال سے یہاں اقامت پذیر ہیں، حضرت اقدس مسیح موعود سے محبت رکھتے ہیں، میں نے انھیں براہین احمدیہ سنانا شروع کی ہے اور کوشش میں ہوں کہ ان کے بال بچے نماز کے پابند ہو جائیں…..’’
(الفضل 12؍اپریل 1920ء صفحہ 2 کالم1)
تجارت کے ساتھ ساتھ آپ تبلیغ احمدیت میں بھی اپنا وقت گزارتے، اخبار الفضل میں شائع شدہ انگلستان کی بعض تبلیغی رپورٹوں میں آپ کی کاوشوں کا ذکر موجود ہے، ایک جگہ لکھا ہے:
‘‘بھائی عزیزالدین صاحب علاوہ اپنے معمولی فرائض کے تبلیغ کے کام میں بھی دلچسپی لے رہے ہیں، لٹریچر تقسیم کرنے، لوگوں سے ملاقاتیں کرنے اور لیکچروں کے انتظام میں آپ کی مدد نہایت مفید ثابت ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے اور دوسرے دوستوں کو ان کی مثال کی تقلید کرنے کی توفیق۔’’(الفضل 9؍ستمبر 1920ء صفحہ 2 کالم 2) ایک اور رپورٹ کہتی ہے: ‘‘پبلک اور پرائیویٹ لیکچر بدستور جاری ہیں جس میں بھائی عزیز الدین احمد اور مولوی مبارک علی صاحب زیادہ تر حصہ لے رہے ہیں۔’’
(الفضل 10؍فروری 1921ء صفحہ 2کالم 2)
مکرم و محترم مولوی مبارک علی صاحب بی اے بی ٹی (وفات یکم نومبر 1969ء)جو اُس وقت لنڈن میں احمدیہ مسجد کے امام تھے، اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں:
‘‘…میرے رفیق شیخ عزیزالدین صاحب نے اثناء سال میں باوجود اپنے متعلقہ کاروبار کی مصروفیتوں کے حاضرین کی خاصی تعداد کے سامنے متعدد مقامات ڈبلن، برمنگھم، گلاسگو، لیڈس، لِور پول، ناٹنگھم، نائٹن، شف فیلڈ، ڈاربی وغیرہ دیگر شہروں میں لیکچر دیے ہیں…’’
(الفضل 9؍نومبر 1922ء صفحہ 4)
1921ء میں لنڈن مشن کے اخراجات برداشت کرنے کی غرض سے لنڈن میں ایک ‘‘اورینٹل ہاؤس’’(Oriental House) جاری کیا گیا جو انگلستان اور دیگر یورپین ممالک میں تجارت کی غرض سے ہندوستانی ساخت کی اشیاء مہیا کرتا تھا۔ (الفضل 9؍نومبر 1922ء صفحہ 3 کالم3)حضرت بابو عزیز الدین صاحبؓ اس تجارتی شاخ کے انچارج تھے۔ 1923ء میں لندن میں مصنوعات کی ایک نمائش ہوئی جس میں آپ نے جماعت کی طرف سے سٹال لگایا، اس نمائش کو دیکھنے کے لیے اُس وقت کے شاہ برطانیہ و قیصر ہند عزت مآب جارج پنجم بھی تشریف لائے، اخبار الفضل اس کے متعلق رپورٹ میں لکھتا ہے :
‘‘حضور ملک معظم شاہ برطانیہ و قیصر ہند …نمائشی مصنوعات سلطنت برطانیہ کے میلہ میں …معہ وزراء تشریف لائے اور احمدیہ وفد تبلیغ کی شاخ تجارت نے جو دکان نمائش میں کھولی تھی اُس پر آگئے اور مولوی عزیزالدین صاحب مینجر صیغہ تجارت سے قریبًا 5 منٹ تک گفتگو فرمائی۔ مولوی صاحب نے موقعہ سے فائدہ اٹھاکر حضور قیصر ہند میں تحفہ شہزادہ ویلز دکھا کر سلسلہ عالیہ احمدیہ کا اسی قدر ذکر کر دیا جس کی وقت و حالات نے اجازت دی، الحمد للہ علیٰ ذالک۔’’
(الفضل 23؍اپریل 1923ء صفحہ 11 کالم 2)
حضرت مولوی عبدالرحیم درد صاحب رضی اللہ عنہ اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں:‘‘اس ہفتہ ہائڈ پارک میں عیسائیوں کے ساتھ ہمارا ایک مباحثہ ہوا، ہماری طرف سے مکرمی بابو عزیز الدین صاحب مناظر تھے اور ان کی طرف سے ایک مناظر پروٹسٹنٹ سوسائٹی کا تھا …’’
(الفضل 22؍اگست 1925ء صفحہ 2کالم 2،1)
آپ 1927ء میں واپس ہندوستان آگئے، اخبار الفضل لکھتا ہے:
‘‘میاں عزیزالدین صاحب جو لنڈن میں احمدیہ مشن کے ماتحت تجارتی شاخ کے انچارج تھے، سات سال کام کرنے کے بعد واپس آگئے ہیں۔’’
(الفضل 12؍اپریل 1927ء صفحہ 1 کالم 2)
آپ نے 9؍مئی 1934ء کو بعمر 47 سال وفات پائی اور آپ بوجہ موصی (وصیت نمبر 1705) ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے، آپ کے بیٹے مکرم عبدالعزیز صاحب لنڈن نے خبر وفات دیتے ہوئے لکھا:
‘‘خاکسار کے والد بزرگوار بابو عزیزالدین صاحب مرحوم بہت عرصہ بیمار رہنے کے بعد 9؍مئی کو وفات پاگئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت کے مخلص احمدی تھے، تبلیغ کا جوش اس قدر تھا کہ باوجود سخت بیماری کے انگلستان کے اکثر حصوں میں باقاعدہ لیکچر دیتے رہے۔ بیماری کے دوران میں آپ کی یہی دعا اور خواہش تھی قادیان پہنچ کر فوت ہوں۔ گو ظاہری حالات کے لحاظ سے ان کا قادیان پہنچنا مشکل تھا لیکن خدا تعالیٰ نے آپ کی اس خواہش کو محض غیبی سامانوں سے پورا کردیا…حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے جنازہ خود پڑھا اور مرحوم مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئے…’’ (الفضل 12؍جون 1934ء صفحہ 2 کالم 1)
آپ کے بیٹے مکرم عبدالعزیز دین صاحب جماعت احمدیہ انگلستان کے دیرینہ ممبر تھے، 1928ء میں انگلستان آئے اور اپنے کاروبار کے علاوہ جماعتی خدمات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، انگلستان کی پرانی رپورٹوں میں آپ کا ذکر بھی موجود ہے، مثلا ًلنڈن میں یوم التبلیغ کے متعلق آپ کی رپورٹ اخبار الفضل 25؍نومبر 1936ء صفحہ 7پر شائع شدہ ہے۔ ایک اور جگہ لکھا ہے:‘‘عزیزم عبدالعزیز نے نہ صرف صبح کے کھانے کا نہایت عمدہ انتظام کیا بلکہ خیمہ کے اندر لگانے کے لیے ماٹو بھی تیار کرائے جو بہت اچھے تھے۔’’
(الفضل 6 اپریل 1946ء صفحہ 3)
محترم بشیر احمد رفیق صاحب سابق امام مسجد فضل لندن نے اپنی کتاب ‘‘چند خوشگوار یادیں’’میں آپ کا محبت بھرا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:‘‘مسٹر عبدالعزیز دین صاحب …ہمارے لندن مشن کے ایک نہایت فعال، مخلص اور دیندار بزرگ تھے۔’’ ‘‘ان کا ملنا یقیناً ملاقات مسیحا و خضر سے کم نہ تھا، ان کی صحبت صالحین کی صحبت سے کم نہ تھی۔’’‘‘مکرم عزیز صاحب لندن مشن کی چلتی پھرتی تاریخ تھے۔’’
حضرت سیدہ نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ جب 1962ء میں انگلستان تشریف لے گئیں تو اُن کا قیام مکرم عبدالعزیز صاحب کے گھر ہی رہا اور آپ نے تین ماہ تک ‘‘دخت کرام’’ کی مہمان نوازی کا شرف پایا۔ آپ کی ایک بیٹی محترمہ نصرت صاحبہ کی شادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پڑ نواسے مکرم سلمان احمد خان صاحب ابن محترم نواب عباس احمد خان صاحب کے ساتھ ہوئی۔ حضرت بابو عزیزالدین صاحبؓ کی اہلیہ محترمہ اپنے بیٹے کے پاس لنڈن چلی گئی تھیں جہاں پہنچنے کے تھوڑے عرصہ بعد ہی وفات پاگئیں۔ آپ بہت نیک خاتون تھیں اور موصیہ تھیں۔
(الفضل 19؍اکتوبر 1946ء صفحہ 5 کالم1)
حضرت شیخ احمد اللہ صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ
حضرت شیخ احمد اللہ صاحب رضی اللہ عنہ ولد مکرم شیخ الٰہی بخش صاحب سیالکوٹ کے رہنے والے تھے، وصیت کے ریکارڈ کے مطابق آپ نے 1903ء میں قبول احمدیت کی توفیق پائی۔ آپ نے اپنی ملازمت کے سلسلے میں ایک لمبا عرصہ نوشہرہ (صوبہ پختونخواہ) میں گزارا جہاں دفتر مجسٹریٹ نوشہرہ چھاؤنی میں ہیڈ کلرک تھے۔ 1933ء میں ریٹائرڈہونے کے بعد قادیان ہجرت کر گئے اور محلہ دار العلوم میں رہائش رکھی۔ آپ فیروزپور میں تھے جہاں آپ کو ولایت میں تبلیغ کا شوق پیدا ہوا، ایک جگہ لکھا ہے: ‘‘….ایک اور نوجوان شیخ احمد اللہ صاحب فیروزپور سے خواجہ صاحب کی امداد کے واسطے لنڈن جانے کو طیار ہوئے ہیں، ان شاء اللہ ستمبر میں جائیں گے، سفر خرچ اپنا آپ ادا کریں گے۔’’ (بدر 24؍جولائی 1913ء صفحہ 6 کالم 3) لیکن آپ کسی وجہ سے نہ جا سکے اور آگے جنگ شروع ہوگئی۔ پھر جنگ کے بعد آپ نے حضرت قاضی محمد یوسف صاحب رضی اللہ عنہ سے اسی شوق کا ذکر کیا، اُن کے مشورہ پر اپنی ملازمت سے ایک سال کی رخصت کچھ با تنخواہ اور کچھ بے تنخواہ لے کر بمبئی میں ایک کمپنی میں ایجنٹ مقرر ہوئے اور کمپنی کے خرچ سے لندن پہنچ گئے۔ (تاریخ احمد صوبہ سرحد صفحہ 265) سفر ولایت سے پہلے آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جس کے متعلق اخبار الفضل لکھتا ہے : ‘‘شیخ احمد اللہ صاحب ہیڈ کلرک دفتر چھاؤنی مجسٹریٹ نوشہرہ نے لندن بغرض تبلیغ جاتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ سے ملاقات کی۔’’(الفضل 3؍فروری 1921ء صفحہ 7 کالم3) آپ 12؍فروری 1921ء کو بمبئی بندرگاہ سے محترم سیٹھ علی محمد الٰہ دین صاحب آف سکندر آباد (وفات: 19؍جون 1991ء مدفون بہشتی مقبرہ قادیان) جو کہ I.C.S کی اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن جارہے تھے، کی معیت میں انگلستان کے لیے روانہ ہوئے۔ (الفضل 21؍فروری 1921ء صفحہ 2کالم 2) لندن پہنچنے کی خبر بھی اخبار الفضل میں محفوظ ہے۔ (الفضل 11؍اپریل 1921ء صفحہ 1 کالم 2) اس وقت کے مبلغ انگلستان کی رپورٹوں میں بعض جگہ آپ کا ذکر بھی موجود ہے۔ آپ نے کچھ عرصہ وہاں تبلیغ احمدیت میں گزارا جس کے بعد واپس انڈیا آگئے۔ پھر تحریک جدید کے آغاز کے بعد 1936ء میں دوبارہ انگلستان گئے ۔ (الفضل 2؍اپریل 1936ء صفحہ 1) اُس وقت کے مبلغ انگلستان حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب کی تبلیغی رپورٹوں میں آپ کا ذکر بھی موجود ہے۔ محترم مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب مورخہ 30 ؍جولائی 1939ء کو لندن میں یوم تبلیغ کے پروگراموں میں کرنل ڈگلس صاحب کی آمد اور ان سے ملاقات میں آپ کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ (روح پرور یادیں صفحہ 194۔ حیات شمس صفحہ 469) آپ نے 18؍نومبر 1948ء کو بعمر 74 سال وفات پائی اور بوجہ موصی (وصیت نمبر 1917) ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔
حضرت ملک محمد حسین صاحب رہتاسی رضی اللہ عنہ
حضرت ملک محمد حسین صاحبؓ اصل میں رہتاس ضلع جہلم کے رہنے والے تھے اور یکے از 313 صحابہ حضرت ملک غلام حسین رہتاسی رضی اللہ عنہ (وفات6؍جنوری 1954ء) کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ حضرت ملک محمد حسین صاحبؓ 1887ء میں پیدا ہوئے، آپ کے والد حضرت اقدسؑ کی زندگی میں ہی بچوں سمیت ہجرت کر کے قادیان آگئے تھے چنانچہ آپ کو چھوٹی عمر سے ہی حضرت مسیح موعودؑ کے گھر میں تربیت پانے کا موقع ملا۔ خلافت اولیٰ کے زمانے میں مشرقی افریقہ چلے گئے جہاں سے بیرسٹری کی اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن بھی گئے، حضرت مولاناعبدالرحیم نیّر صاحبؓ مبلغ انگلستان اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں:
‘‘مسٹر محمد حسین ملک جو پہلے مشرقی افریقہ میں تھے اسی ہفتہ مع الخیر لندن پہنچے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو اپنے اغراض میں کامیاب کرے اور ان کے نیک ارادہ ہائے تبلیغ حق میں ان کے ساتھ ہو،آمین۔’’(الفضل 25؍نومبر 1920ء صفحہ 2 کالم 2)لندن میں تعلیم کے ساتھ جماعت کے کاموں میں بھی بھرپور حصہ لیا، اس دور کی بعض رپورٹوں میں آپ کا ذکر ملتا ہے، اس وقت کے مبلغ محترم مولوی مبارک علی صاحب بی اے بی ٹی (وفات :یکم نومبر 1969ء) اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں:
‘‘ملک محمد حسین صاحب کا پیرس میں لیکچر ہوا اور انھوں نے وہاں احمدیہ لٹریچر بھی تقسیم کیا ہے …اب وہ فرانسیسی زبان سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں تا کہ فرنچ میں تبلیغ کی جاوے۔ ملک صاحب موصوف پیرس سے لندن واپس آگئے اور مجھے کام میں مدد دیتے ہیں۔’’(الفضل یکم ستمبر 1921ء صفحہ 1) پیرس میں تبلیغ کے متعلق آپ کی اپنی رپورٹ بھی اخبار الفضل 29؍اگست 1921ء صفحہ 9 پر درج ہے۔ اخبار الفضل 26؍ستمبر 1921ء صفحہ 1 پر آپ کی تحریر کردہ رپورٹ ‘‘نامہ لنڈن’’کے نام سے درج ہے۔بیرسٹری کا امتحان پاس کرنے کے بعد کینیا واپس آگئے اور نیروبی میں رہائش اختیار کی، آپ کا شمار نیروبی کے ممتاز ترین بیرسٹروں میں ہوتا تھا۔ 1923ء میں لیجسلیٹو کونسل کے ممبر نامزد ہوئے ۔ آپ نے 4؍اپریل 1935ء کو کینیا میں وفات پائی اور وہیں احمدیہ قبرستان میں دفن ہوئے۔
(الفضل 19؍جون 1935ء صفحہ 8)
حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب رضی اللہ عنہ
حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب (ولادت : دسمبر 1900ء۔ وفات: 16؍دسمبر 1952ء) سلسلہ احمدیہ کے معروف بزرگ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے۔ بچپن میں اپنے والد صاحب کے ساتھ قادیان جانے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا شرف پایا۔ 1922ء میں ریلوے انجنیئرنگ کی فنی تعلیم کے لیے انگلستان تشریف لے گئے اور 1924ء میں واپس آگئے۔ 1929ء میں مشرقی افریقہ تشریف لے گئے اور پندرہ سال تک وہیں قیام کیا۔ بہت ہی عمدہ اوصاف کے مالک تھے۔ قیام انگلستان کے وقت کی بعض جماعتی رپورٹوں میں آپ کا ذکر موجود ہے۔ حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحبؓ انگلستان سے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں:
‘‘عزیز حافظ سید محمود اللہ شاہ بی اے ابھی دارالتبلیغ میں مقیم ہیں اور کام میں مدد دیتے ہیں۔’’
(الفضل 19؍فروری 1923ء صفحہ 2 کالم 1)
حضرت عبدالرحیم نیر صاحبؓ لندن سے اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:
‘‘ہفتہ گذشتہ عزیزی مکرم حافظ سید محمود اللہ شاہ صاحب بی اے کا لیکچر محاسن اسلام پر تھا۔ عزیز موصوف نے کیا بلحاظ زبان اور کیا بلحاظ خوبیٔ مضمون حاضرین سے خراج تحسین حصول کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے علم و عمر میں برکت دے اور عاقبت محمود کرے …احباب ہمارے اس نونہال آنریری مبلغ اسلام کے لیے دعا فرماویں، وہ تقریرًا تحریرًا خدمت دین کے لیے تیار اور ہر موقع پر پیغام حق مستعدی سے پہنچاتے رہتے ہیں۔’’
(الفضل 23؍اپریل 1923ء صفحہ 11 کالم 2)
حضرت ملک محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ
حضرت ملک محمد اسماعیل صاحب ولد حضرت ڈاکٹر الٰہی بخش صاحب رضی اللہ عنہ موضع آڑھا ضلع مونگھیر صوبہ بہار (انڈیا) کے رہنے والے تھے، 1901ء میں پیدا ہوئے۔ حضرت ڈاکٹر الٰہی بخش صاحب رضی اللہ عنہ کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے ایک مرتبہ فرمایا: ‘‘…. ڈاکٹر الٰہی بخش صاحب رات کو بھی دباتے رہے، انہوں نے بہت ہی خدمت کی، میرا رونگٹا رونگٹا اُن کا احسان مند ہے۔’’
(بدر 11؍ دسمبر 1913ء صفحہ 2)
حضرت ملک محمد اسماعیل صاحب کو اپنے والد صاحب کے ساتھ قادیان جانے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے دعا کرانے کا شرف حاصل ہے۔ آپ نہایت ہی ہونہار اور لائق طالب علم تھے، ہندو یونیورسٹی بنارس سے بی ایس سی میں اول پوزیشن حاصل کی، ان ہی دنوں ملکانہ میں ارتداد کا بازار گرم تھا آپ نے جماعتی وفد میں شامل ہوکر وہاں بھی تبلیغی و تربیتی خدمات سر انجام دیں۔ آپ کو گورنمنٹ آف بہار نے اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان بھجوایا، اخبار الفضل لکھتا ہے:
‘‘ملک محمد اسماعیل صاحب بی ایس سی جو جناب ڈاکٹر الٰہی بخش صاحب مرحوم کے مخلص اور پر جوش فرزند ہیں اور جنھوں نے میدان ارتداد میں بھی نہایت قابلیت اور اخلاص و سرگرمی سے کام کیا تھا اور جو ہندو یونیورسٹی بنارس کے ایک ممتاز گریجوایٹ ہیں اور سال رواں کے امتحان بی ایس سی میں اول رہے ہیں، اُن کو بہار گورنمنٹ نے ڈھائی سو پونڈ سالانہ کا وظیفہ چار سال کے لیے بدیں غرض عطا کیا ہے کہ وہ ولایت جائیں اور وہاں سے چار سال کی تعلیم کے بعد لندن یونیورسٹی کے سند یافتہ ویٹرینری سرجن بن کر آئیں۔ ملک محمد اسماعیل صاحب پہلے مسلمان طالب علم ہیں جو ہندوستان سے طب حیوانات کی اعلیٰ تعلیم کے لیے سرکاری وظیفہ پر ولایت جا رہے ہیں۔ ہم تہ دل سے اُن کی کامیابی کے متمنی ہیں۔’’
(الفضل 26؍اکتوبر 1923ء صفحہ 2 کالم1)
لندن میں تبلیغی کاوشوں کا ذکر بعض رپورٹوں میں ملتا ہے، حضرت عبدالرحیم نیر صاحبؓ مبلغ سلسلہ اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں:
‘‘عزیز ملک محمد اسماعیل خلف ڈاکٹر الٰہی بخش صاحب مرحوم ٹارقی میں مقیم ہیں اور اپنے مختصر مقام میں تقسیم لٹریچر اور انفرادی گفتگو سے خدمت کرتے ہیں، عزیز کو تبلیغ کی دھن ہے۔’’
(الفضل 8؍فروری 1924ء صفحہ 2 کالم 1)
انگلستان سے واپسی پر انڈیا میں سرکاری نوکری کی اور ایک لمبے عرصہ تک صوبہ بہار اور اُڑیسہ کے Director of Animal Husbandry رہے اور اسی پوسٹ سے ریٹائرڈ ہوئے۔ 18؍جون 1972ء کو پٹنہ (صوبہ بِہار) میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئے۔
(………جاری ہے………)
٭…٭…٭