تقدیر الٰہی (قسط 4)
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
پانچویں آیت کا صحیح مطلب
پھر کہتے ہیں ایک آیت نے تو ہمارے مطلب کو بالکل صاف کر دیا۔ اور وہ یہ ہے۔
اَیۡنَ مَا تَکُوۡنُوۡا یُدۡرِکۡکُّمُ الۡمَوۡتُ وَ لَوۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ بُرُوۡجٍ مُّشَیَّدَۃٍ ؕ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ حَسَنَۃٌ یَّقُوۡلُوۡا ہٰذِہٖ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ۚ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌ یَّقُوۡلُوۡا ہٰذِہٖ مِنۡ عِنۡدِکَ ؕ قُلۡ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ؕ فَمَالِ ہٰۤؤُلَآءِ الۡقَوۡمِ لَا یَکَادُوۡنَ یَفۡقَہُوۡنَ حَدِیۡثًا۔ (النساء:79)
فرمایا: جہاں کہیں تم ہوگے وہیں تمہیں موت پہنچ جائے گی۔ خواہ مضبوط برجوں میں ہی کیوں نہ ہو۔ اگر ان کو بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر برائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ محمد (ﷺ) کی طرف سے ہے فرمایا۔ ان کو کہہ دو سب اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ ان کو ہو کیا گیا اتنی سی بات بھی نہیں سمجھتے۔
کہتے ہیں دیکھو اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ بھلائی برائی خدا کی طرف سے پہنچتی ہے۔ مگر وہ سمجھتے نہیں کہ اول تو ہر ایک فعل کے خواہ برا ہو یا بھلا نتائج اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ملتے ہیں اور اس بات سے کون انکار کرتا ہے کہ ہر ایک فعل کی سزا یا جزا خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے ملتی ہے لیکن اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ بھلائی اور برائی خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے آتی ہے تو پھر بھی کچھ حرج نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کبھی خادم کے کام کو آقا کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے خواہ اس کا منشا اس کام کے متعلق ہو یا نہ ہو۔ مثلاً ایک آقا کا نوکر اگر کسی کو کوئی تکلیف پہنچاتا ہے تو گو آقا کی یہ غرض نہیں ہوتی کہ اس کا نوکر کسی کو تکلیف پہنچائے لیکن بعض دفعہ آقا کو بھی کہہ دیتے ہیں کہ تمہاری طرف سے ہمیں یہ تکلیف پہنچی۔ اور اس طرح نوکر کے تکلیف دینے کو آقا کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ اس قاعدے کے ماتحت اگر اس آیت کے معنی کیے جاویں تو یہ معنی ہوں گے کہ وہ چیزیں جن کے بداستعمال سے گناہ پیدا ہوا وہ چونکہ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ ہیں اس لیے خدا تعالیٰ کے متعلق کہہ دیا گیا کہ گویا بدی اور نیکی اسی کی طرف سے آئی ہے۔ اور ان معنوں سے اعمال میں جبر ثابت نہیں ہوتا اور یہ نتیجہ ہرگز نہیں نکلتا کہ خدا تعالیٰ جبراً پکڑ کر بدی کرواتا ہے بلکہ یہ کہ خدا نے انسان میں بعض طاقتیں پیدا کی ہیں جن کو برے طور پر استعمال کر کے انسان زنا یا چوری کرتا ہے۔
لیکن اصل معنی اس آیت کے وہی ہیں جو میں پہلے بتا چکا ہوں۔ یعنی یہاں اعمال کا ذکر ہی نہیں بلکہ دکھ اور سکھ کا ذکر ہے۔ پہلے تو اللہ تعالیٰ منافقوں سے فرماتا ہے کہ تم جہاں کہیں بھی ہو تم کو موت پہنچ جاوے گی۔ یعنی خدا تعالیٰ نے تمہاری بداعمالیوں کی وجہ سے تمہارے لیے ہلاکت کی سزا تجویز کی ہے۔ اب چونکہ یہ فیصلہ ہوچکا ہے خواہ کتنی بھی احتیاط کرو کچھ نہیں کرسکتے۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ لوگ سکھ کو اللہ تعالیٰ کی طرف اور دکھ کو تیری طرف منسوب کرتے ہیں یہ ان کی نادانی ہے۔ تیرا جزاو سزا میں کیا دخل اور تعلق ہے۔ سکھ اور دکھ بلحاظ نتائج کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔ یعنی یہ اللہ تعالیٰ فیصلہ فرماتا ہے کہ فلاں شخص کو فلاں عمل کے بدلہ میں فلاں سکھ یا فلاں دکھ پہنچے تیرا اس میں کیا تعلق ہے۔ یہ تو خدائی طاقت ہے جو اس نے کسی بندے کے اختیار میں نہیں دی۔ اور اس لیے فرماتا ہے کہ ان لوگوں کو کیا ہوا کہ یہ اتنی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ چنانچہ اگلی ہی آیت میں اس کی اَور تشریح فرما دی کہ۔
مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ۫ وَ مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ سَیِّئَۃٍ فَمِنۡ نَّفۡسِکَ۔ (النساء:80)
یعنی جو کچھ سکھ تجھے پہنچتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جو دکھ پہنچتا ہے وہ تیری جان کی طرف سے ہے۔
اب اگر پہلی آیت کے یہ معنی لیے جاویں کہ سب اعمال خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو پھر آیت کے کچھ معنی ہی نہیں بن سکتے۔ اس آیت کے معنی تب ہی ہوسکتے ہیں جب کہ پہلی آیت کے وہ معنی کیے جاویں جو میں نے کیے ہیں اور اس صورت میں اس دوسری آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ جو نیک بدلہ ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے کیونکہ نیکی کی تحریک اس کی طرف سے ہوتی ہے اور جو دکھ ہو وہ انسان کی طرف سے ہوتا ہے۔ کیونکہ دکھ غلطی کا نتیجہ ہے اور غلطی کی تحریک اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوتی۔
چھٹی آیت کا صحیح مطلب
پھر کہتے ہیں ایک اَور آیت نے تو مطلب بالکل صاف کر دیا ہے اور وہ یہ ہے۔
قُلۡ لَّوۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ بُیُوۡتِکُمۡ لَبَرَزَ الَّذِیۡنَ کُتِبَ عَلَیۡہِمُ الۡقَتۡلُ اِلٰی مَضَاجِعِہِمۡ ۚ۔ (اٰل عمران: 155)
ان سے کہہ دے کہ اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو تب بھی وہ لوگ جن کے متعلق قتل کا فیصلہ کیا گیا تھا اپنے قتل ہونے کی جگہوں کی طرف نکل کھڑے ہوتے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ خدا ہی کرتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے اول تو جیسا کہ میں پہلی آیت کے متعلق بیان کرچکا ہوں اس جگہ بھی جزا کا ذکر ہے اعمال کا ذکر نہیں۔ یہ آیت جنگ احد کے متعلق ہے۔ اس جنگ میں پہلے تو منافق مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے لیے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ مگر عین موقع پر ایک ہزار آدمیوں میں سے تین سو آدمی واپس لوٹ آئے اور اس طرح انہوں نے اپنے نزدیک یہ سمجھا کہ ہم مسلمانوں کو دھوکا دے کر جنگ میں پھنسا آئے ہیں کیونکہ دشمن کے سامنے جا کر لوٹنا مشکل ہوتا ہے اور جنگ کے بعد مسلمانوں پر تمسخر اڑانا شروع کیا کہ یونہی تم نے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نادانو! تم یہ سمجھ رہے ہو کہ ہم ساتھ جا کر مسلمانوں کو پھنسا آئے۔ ہماری مدد کے بھروسہ پر یہ لوگ جنگ کے لیے گئے تھے۔ سو سنو! اگر تم محفوظ قلعوں میں بھی ہوتے یعنی مدینہ جیسا غیرمحفوظ مقام تو الگ رہا اگر قلعوں کی حفاظت بھی ہوتی تب بھی وہ لوگ جن پر جنگ فرض کر دی گئی تھی کفار کے مقابلہ میں جنگ کرنے کے لیے نکلنے سے نہ ڈرتے اور ضرور باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کرتے۔
پس اس جگہ کُتِبَ کے معنی مقدر ہونے کے نہیں ہیں بلکہ فرض کیے جانے کے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا کہ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ (البقرۃ:184) تم پر روزے فرض کر دیے گئے ہیں اور القتل کے معنی قتل ہونے کے نہیں بلکہ قتل کرنے کے ہیں۔ اور ان معنوں میں یہ لفظ قرآن کریم میں متعدد جگہ آیا ہے۔ جیسے کہ اَلْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ(البقرۃ: 192) اور فَلَایُسْرِفْ فِی الْقَتْل (بنی اسرائیل:34) اور اِنَّ قَتْلَھُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًا۔ (بنی اسرائیل:32) غرض اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ مومن تو اللہ تعالیٰ کے احکام کے ماننے میں خوشی پاتا ہے۔ کبھی بھی سستی نہیں دکھاتا۔ مدینہ تو کوئی محفوظ قلعہ نہیں ہے۔ اگر مسلمان باہر نہ جاتے تو کافر یہاں آسکتے تھے۔ اگر قلعوں کی حفاظت ہوتی اور مسلمانوں کو باہر نکل کر حملہ کرنے کا حکم ہوتا۔ تب بھی ان کو یہ بات بری نہ لگتی اور شوق سے اپنے فرض کو ادا کرتے۔
اس خیال کی تردید کہ خدا کچھ بھی نہیں کرتا
پس ان آیتوں میں سے کسی سے بھی یہ نہیں نکلتا کہ خدا انسان کو مجبور کرا کر اس سے ہر ایک فعل کراتا ہے اور جب یہ نہیں نکلتا تو ان لوگوں کا استدلال جو یہ کہتے ہیں کہ ہر ایک فعل خدا ہی کراتا ہے بالکل باطل ہوگیا۔ اور جو یہ کہتے ہیں کہ خدا کچھ بھی نہیں کرتا اور اس کا کوئی دخل نہیں ہے ان کا عقیدہ بھی قرآن کریم سے ہی غلط ثابت ہوتا ہے مثلاً اس آیت کو لے لو۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔
کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیۡ۔ (المجادلۃ: 22)
کہ میں نے فرض کر دیا ہے کہ میں اور میرے رسول اپنے مخالفین پر غالب ہوں۔
اب دیکھ لو ایک نبی جس وقت دنیا میں آتا ہے اس وقت اس کی حالت دنیوی لحاظ سے بہت کمزور ہوتی ہے لیکن خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ خواہ ساری دنیا بھی اس کے خلاف زور لگائے اس پر غالب نہیں آسکتی۔ چنانچہ آج تک ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے کہ کبھی دنیا خدا تعالیٰ کے کسی رسول پر غالب نہیں آسکی اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کا دخل ہے اور ضرور ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ دنیا رسولوں پر غالب نہیں آسکتی؟ تو یہ خیال بھی غلط ثابت ہوگیا۔
علم الٰہی اور مسئلہ تقدیر کا خلط
اصل بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے تقدیر کو اس طرح قرار دیا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے خدا ہی کر رہا ہے ہمارا اس میں کچھ دخل نہیں ان کے خیال کی بنیاد گو مسئلہ وحدت الوجود پر ہے لیکن ان کو ایک اَور مسئلہ سے ٹھوکر لگی ہے اور اسی نے مسلمانوں کو زیادہ فتنہ میں مبتلا کر دیا ہے حالانکہ یہ دونوں مسئلے بالکل علیحدہ علیحدہ ہیں۔ موٹا ثبوت اس کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا ایک نام علیم اور ایک قدیر ہے۔ اب سوال ہوتا ہے کہ اگر علم الٰہی اور تقدیر ایک ہی بات ہے تو خدا تعالیٰ کے یہ دو نام علیحدہ علیحدہ کیوں ہیں؟ قدر قدیر سے تعلق رکھتا ہے یعنی قدرت والا اور علم علیم سے تعلق رکھتا ہے یعنی جاننے والا۔ لیکن ان لوگوں نے اس بات کو سمجھا نہیں۔ وہ کہتے ہیں زید جو چوری کرنے چلا ہے۔ خدا کو یہ پتہ تھا یا نہیں کہ زید چوری کرنے جائے گا۔ اگر پتہ تھا اور زید چوری کرنے نہ جائے تو خدا کا علم جھوٹا ہو جائے گا۔ اس لیے معلوم ہوا کہ زید چوری کرنے کے لیے جانے پر مجبور تھا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ خدا اسے ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو خدا کا علم جھوٹا نکلتا ہے۔ اس ڈھنگ سے یہ لوگ عوام پر قبضہ پا لیتے ہیں اور ان سے منوا لیتے ہیں کہ ہر ایک فعل خدا تعالیٰ ہی کرواتا ہے۔ حالانکہ نادان بات کو الٹے طور پر لے جاتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں یہ غلط ہے کہ چونکہ خدا کے علم میں تھا کہ زید چوری کرے گا اس لیے وہ چوری کو چھوڑ نہیں سکتا۔ بلکہ بات یہ ہے کہ چونکہ زید نے چوری نہیں چھوڑنی تھی اس لیے خدا کو علم تھا کہ وہ چوری کرے گا۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ ایک ایسا آدمی ہمارے پاس آتا ہے جس کی باتوں سے ہمیں پتہ لگ جاتا ہے کہ اس نے فلاں جگہ ڈاکہ مارنا ہے۔ اب کیا اس ہمارے جان لینے سے کوئی عقلمند یہ کہے گا کہ چونکہ ہم نے جان لیا تھا کہ وہ فلاں جگہ ڈاکہ مارے گا اس لیے وہ ڈاکہ مارنے پر مجبور تھا اور ہم نے اس سے ڈاکہ مروایا ہے ہرگزنہیں۔ یہی حال خدا تعالیٰ کے علیم ہونے کا ہے۔ زید نے آج جو کام کرنا تھا بغیر خدا تعالیٰ کے مجبور کرنے کے کرنا تھا لیکن چونکہ خدا تعالیٰ علیم ہے اور ہر بات کا اسے علم ہے اس لیے اس کے متعلق اسے علم تھا کہ زید ایسا کرے گا۔ اسی طرح زید نے چونکہ چوری نہیں چھوڑنی تھی بلکہ کرنی تھی اس لیے خدا تعالیٰ کو علم تھا کہ اس نے چوری کرنی ہے اور جس نے چھوڑنی تھی اس کے متعلق اسے یہ علم ہے کہ وہ چوری چھوڑ دے گا۔ تو خدا تعالیٰ کا علم کسی فعل کے کرنے کا باعث نہیں ہے بلکہ وہ فعل خدا تعالیٰ کے علم کا باعث ہے۔
مزید توضیح
زمیندار بھائی شاید اس کو نہ سمجھے ہوں اس لیے پھر سناتا ہوں۔ بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہر ایک فعل خدا کراتا ہے وہ اس کے ثبوت میں کہتے ہیں کہ خدا کو یہ پتہ تھا یا نہیں کہ عبداللہ فلاں دن چوری کرے گا یا ڈاکہ مارے گا۔ اگر دہریوں کا خیال درست مان لیا جائے کہ خدا نہیں ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ عبداللہ جو کچھ کرے گا اپنی مرضی اور اپنے خیال سے کرے گا۔ لیکن چونکہ خدا ہے اس لیے اس کو پتہ ہے کہ عبداللہ فلاں دن یہ کام کرے گا۔ اگر وہ اس دن وہ کام نہ کرے تو خدا کا علم غلط ٹھہرتا ہے۔ پس خدا اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ اس دن چوری کرے یا ڈاکہ مارے یا زنا کرے۔ ہم کہتے ہیں یہ غلط ہے کہ چونکہ خدا کو علم ہے کہ عبداللہ نے فلاں دن چوری کرنی ہے اس لیے وہ چوری کرتا ہے۔ بلکہ یہ بات ہے کہ چونکہ عبداللہ نے اس دن ایسا کرنا تھا اس لیے یہ بات خداکے کے علم میں آئی ہے۔ اگر اس نے چوری نہ کرنی ہوتی اور خدا کے علم میں یہ بات ہوتی کہ اس نے چوری کرنی ہے تو یہ جہل کہلاتا علم نہ کہلاتا۔
پس چور چوری اس لیے نہیں کرتا کہ خدا تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ وہ چوری کرے گا بلکہ خدا تعالیٰ کو اس بات کا علم اس لیے ہوا کہ چور نے چوری کرنی تھی۔
غرض یہ دھوکا علم اور قدر کے ملا دینے کی وجہ سے لگا ہے لیکن یہ دونوں الگ الگ صفات ہیں اور ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔
خدا تعالیٰ بُرا کام کرنے سے روک کیوں نہیں دیتا
اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو جب یہ علم تھا کہ فلاں آدمی فلاں وقت یہ برا کام کرے گا تو اسے روک کیوں نہیں دیتا؟ مثلاً اگر خدا کو علم ہے کہ فلاں شخص چوری کرے گا تو کیوں اس نے چوری کرنے سے اسے روک نہ دیا؟ ہمارے پاس اگر ایک شخص سندر سنگھ ڈاکو آئے اور کہے کہ میں نے فلاں وقت جیون لال کے گھر ڈاکہ مارنا ہے تو اس علم کے باوجود اگر ہم چپ بیٹھے رہیں تو ہم مجرم ہوں گے کہ نہیں؟ یقیناً شرعی، اخلاقی، تمدنی اور اپنے ملک کے قانون کے لحاظ سے ہم مجرم ہوں گے۔ حالانکہ ہوسکتا ہے کہ ہمیں کوئی اَور کام ہو اور ہم جیون لال کو نہ بتا سکیں کہ اس کے گھر فلاں وقت ڈاکہ پڑے گا۔ یا ہوسکتا ہے کہ یہ خطرہ ہو کہ اگر بتایا تو ڈاکو ہمیں مار دیں گے۔ پس جب باوجود اس کے کہ اس ڈاکو کو اپنے ارادہ سے باز رکھنے میں ہمیں خطرات ہیں اگر ہم اس کو باز نہیں رکھتے یا ایسے لوگوں کو اطلاع نہیں دیتے جو اسے باز رکھ سکتے ہیں ہم زیر الزام آجاتے ہیں۔ تو پھر خدا تعالیٰ جو طاقتور اور قدرت والا ہے اس کو کسی کا ڈر نہیں اور کوئی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا، اس پر زیادہ الزام آتا ہے کہ وہ علم رکھنے کے باوجود کیوں ڈاکو کو روک نہیں دیتا یا جس کے گھر ڈاکہ پڑنا ہو اس کو نہیں بتا دیتا تاکہ وہ اپنی حفاظت کا سامان کر لے۔ یہ عجیب بات ہے کہ انسان تو معذور بھی ہو کیونکہ کوئی نہ کوئی وجہ اس کی معذوری کی ہوسکتی ہے وہ باوجود اس کے پکڑا جائے مگر خدا پر باوجود اس کے قادر ہونے کے کوئی الزام نہ آئے؟
یہ اعتراض محض قلت تدبر کا نتیجہ ہے اس لیے کہ خدا تعالیٰ کے متعلق اس مثال کا پیش کرنا ہی غلط ہے۔ اور دنیا میں انسان کی پیدائش کی غرض کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ مثال بنائی گئی ہے۔ خدا کا تعلق جو بندوں سے ہے اس کی صحیح مثال یہ ہے کہ لڑکوں کا امتحان ہو رہا ہو اور سپرنٹنڈنٹ ان کی نگرانی کر رہاہے اس کے لیے کیا یہ جائز ہے کہ جو لڑکا غلط سوال حل کر رہا ہو اس کو بتا دے؟نہیں۔ پس جب انسان کو دنیا میں اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ اس کو امتحان میں ڈال کر انعام کا وارث بنایا جائے تو اگر اس کے غلطی کرنے پر اسے بتا دیا جائے کہ تُو فلاں غلطی کر رہا ہے تو پھر امتحان کیسا؟ اور انعام کس کا؟ اس معاملہ میں خدا تعالیٰ کا جو تعلق بندوں سے ہے وہ وہی ہے جو اس سپرنٹنڈنٹ کا ہوتا ہے جو کمرہ امتحان میں پھر رہا ہو اور جو دیکھ رہا ہو کہ لڑکے غلط سوال بھی حل کر رہے ہیں اور صحیح بھی۔ پس باوجود علم کے اللہ تعالیٰ کا بندہ کو فرداً فرداً نہ روکنا اس کی شان کے خلاف نہیں بلکہ اس غرض کے عین مطابق ہے جس غرض کے لیے انسان پیدا کیا گیا ہے۔
(جاری ہے)