تقدیر الٰہی (قسط 5)
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
صوفیوں کے فقرے
آج کل کے صوفیوں میں علم اور قدر میں فرق نہ سمجھنے کی وجہ سے عجیب عجیب قسم کے خیالات پھیلے ہوئے ہیں اور بعض خاص فقرات ہیں جو اس وقت کے صوفیوں کے منہ چڑھے ہوئے ہیں اور جن کو خدا پرستی کی خاص علامت سمجھا جاتا ہے اور جن کے ذریعے وہ نادانوں پر اپنا رعب جماتے ہیں مگر عقلمند آدمی ان کے قابو میں نہیں آسکتا۔ چنانچہ میں اس کے متعلق اپنا ایک واقعہ سناتا ہوں جو ایک لطیفہ سے کم نہیں۔
میں ایک دفعہ لاہور سے آرہا تھا۔ دو تین دوست مجھے سٹیشن پر چھوڑنے آئے۔ یہ 1910ء کا واقعہ ہے۔ جب ہم ریل کے ایک کمرہ میں داخل ہونے لگے تو اس کے آگے کچھ لوگ کھڑے تھے۔ میاں محمد شریف صاحب جو آج کل امرتسر میں ای۔ اے۔ سی ہیں انہوں نے مجھے کہا آپ اس میں نہ بیٹھیں۔ اس میں فلاں پیر صاحب اور ان کے مرید ہیں۔ (یہ پیر صاحب پنجاب کے مشہور پیر ہیں اور اس وقت ہمارے صوبہ کے پیروں میں شاید ان کی گدی سب سے زیادہ چل رہی ہے) شاید کچھ نقصان پہنچائیں۔ اس پر کوئی اور کمرہ تلاش کیا گیا مگر نہ ملا۔ میاں صاحب نے مشورہ دیا کہ سیکنڈ کلاس میں جگہ نہیں انٹر ہی میں بیٹھ جائیں لیکن ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب بھی ساتھ تھے انہوں نے کہا نہیں اسی کمرہ میں بیٹھنا چاہیے۔ ان لوگوں کا ڈر کیا ہے۔ میں تو پہلے ہی دل سے یہ چاہتا تھا۔ چنانچہ میں اسی کمرہ میں جا کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر کے بعد جب گاڑی چلنے لگی۔ تو سارے لوگ چلے گئے اور معلوم ہوا کہ پیر صاحب اکیلے ہی میرے ہمسفر ہیں۔ اسٹیشن پر پیر صاحب سے لوگوں نے دریافت کیا تھا کہ آپ کچھ کھائیں گے تو انہوں نے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ مجھے اس وقت بھوک نہیں۔ میں تو امرتسر جا کر ہی کچھ کھاؤں گا لیکن جونہی گاڑی چلی انہوں نے اس سبز کپڑے کو جو پگڑی پر ڈالا ہوا تھا اور جس سے منہ کا ایک حصہ ڈھانکا ہوا تھا اتار دیا۔ اور کھڑکی سے منہ نکال کر اپنے ملازم کو جو نوکروں کے کمرہ میں تھا آوازی دی کہ کیا کچھ کھانے کو ہے؟ اس نے جواب دیا کہ کھانے کو تو کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے تو سخت بھوک لگ رہی ہے اس پر اس نے کہا کہ اچھا میاں میر چل کر چائے کا انتظام کروں گا۔ اس پر انہوں نے پوچھا کہ وہ خشک میوہ جو تیرے پاس تھا وہی دے دے۔ چنانچہ اس نے میوہ کا رومال ہاتھ نکال کر پیر صاحب کو پکڑا دیا۔ جو انہوں نے اپنے پاس رکھ لیا۔ اس کے بعد وہ میری طرف مخاطب ہوئے اور پوچھا کہ آپ کی تعریف! میں نے کہا میرا نام محمود احمد ہے۔ پھر کہا آپ کہاں جائیں گے؟ میں نے کہا قادیان۔ اس پر انہوں نے سوال کیا کہ کیا آپ قادیان کے باشندہ ہیں یا صرف قادیان کسی کام جارہے ہیں؟ میں نے جواب دیا میں قادیان کا باشندہ ہوں۔ اس پر وہ ذرا ہوشیار ہوئے اور پوچھا کہ کیا آپ کو مرزا صاحب سے کچھ تعلق ہے؟ میں نے کہا ہاں! مجھے ان سے تعلق ہے۔ اس پر انہوں نے پوچھا کیا تعلق ہے؟ میں نے جواب دیا کہ میں ان کا بیٹا ہوں۔ اس پر انہوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور کہا اوہو! مجھے آپ سے ملنے کی بہت خوشی ہوئی کیونکہ مجھے مدت سے آپ سے ملنے کا اشتیاق تھا۔ ان کی یہ بات سن کر مجھے حیرت ہوئی کیونکہ ان پیر صاحب کو ہمارے سلسلہ سے سخت عداوت ہے اور ان کا فتویٰ ہے کہ جو احمدی سے بات بھی کر جاوے اس کی بیوی کو طلاق ہو جاتی ہے مگر میں خاموش رہا اور اس بات کا منتظر رہا کہ آئندہ کلام کس سمت کا رخ کرتا ہے۔ اس مرحلہ پر پہنچ کر انہوں نے وہ میوہ کا رومال کھولا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر اس بنچ پر آبیٹھے جو میرے اور ان کے بنچ کے درمیان تھا۔ اور رومال کھول کر میرے سامنے بچھا دیا کہ آپ بھی کھائیں۔ چونکہ مجھے کھانسی اور نزلہ کی شکایت تھی۔ میں نے انکار کیا اور کہا کہ مجھے چونکہ گلے میں تکلیف ہے اس لیے آپ مجھے معاف رکھیں۔ پیر صاحب فرمانے لگے کہ نہیں کچھ نہیں ہوتا آپ کھائیں تو سہی۔ میں نے پھر انکار کیا کہ مجھے اس حالت میں ذرا سی بدپرہیزی سے بھی بہت تکلیف ہو جاتی ہے۔ اس پر پیر صاحب فرمانے لگے کہ ہوتا تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کرتا ہے یہ تو باتیں ہیں۔ میں تو اس موقع کا منتظر تھا کہ پیر صاحب اپنے خاص علوم کی طرف آئیں تو مجھے کچھ ان لوگوں کے حالات سے واقفیت ہو۔ میں نے پیر صاحب سے کہا کہ پیر صاحب آپ نے یہ بات بہت بعد میں بتائی۔ اگر آپ لاہور میں بتاتے تو آپ اور میں دونوں نقصان سے بچ جاتے۔ میں نے اور آپ نے ٹکٹ پر روپیہ ضائع کیا۔ اگر آپ کے لیے امرتسر اور میرے لیے قادیان پہنچنا مقدر تھا تو ہم کو اللہ تعالیٰ آپ ہی پہنچا دیتا۔ ٹکٹ پر روپیہ خرچنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس پر پیر صاحب فرمانے لگے کہ نہیں اسباب بھی تو ہیں۔ میں نے کہا انہی اسباب کی رعایت کے ماتحت مجھے بھی عذر تھا۔ اس پر پیر صاحب فرمانے لگے۔ یہی میرا بھی مطلب تھا۔ گو مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا کہ ان کا اور میرا مطلب ایک کیوں کر ہوسکتا تھا؟
اس کے علاوہ اور بھی باتیں پیر صاحب سے ہوئیں مگر قدر کے متعلق اسی قدر بات ان سے ہوئی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کے پیر اس مسئلہ کے متعلق کس قدر غلط خیالات میں مبتلا ہیں مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں قرآن کریم کی رو سے یہ خیالات باطل ہیں۔
بعض لوگوں کے اقوال کا مطلب
ہاں بعض لوگوں کے اقوال ایسے بھی ہیں کہ وہ کہتے ہیں سعی بے فائدہ میں اپنا وقت ضائع نہ کرو جو کچھ ملنا ہے وہ مل رہے گا۔
اس قسم کے اقوال سے بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہر بات کے لیے سعی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اگر ان کے کلام کا یہی مطلب ہے تو میں پوچھتا ہوں وہ روٹی کھانے کے لیے لقمہ پکڑتے، منہ میں ڈالتے، اسے چباتے اور نگلتے تھے یا نہیں؟ پھر وہ سونے کے لیے لیٹتے تھے یا ایک ہی حالت میں دن رات بیٹھے رہتے تھے؟ پھر اگر خدا نے ہر ایک کام کروانا ہے تو ان کے قول کے کیا معنی ہوئے کہ سعی نہ کرو۔ اگر کوئی سعی کرتا ہے تو اس سے سعی بھی خدا ہی کرواتا ہے پھر منع کیوں کیا جائے؟
صوفیاء کے کلام کا صحیح مطلب
مگر بات یہ ہے کہ ایسے اقوال کا مطلب لوگوں نے سمجھا نہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ بعض لوگ دنیا کے کام میں ایسے منہمک ہوتے ہیں کہ ہر وقت اسی میں لگے رہتے ہیں اور ساری محنت اسی میں لگا دیتے ہیں۔ مثلاً آٹھ نو گھنٹے تو دکان پر بیٹھتے ہیں لیکن جب گھر آتے ہیں تو گھر پر بھی دکان کا ہی حساب کتاب کرتے رہتے ہیں یا کوئی زمیندار ہے اسے ہر وقت یہی خیال رہتا ہے کہ اگر یوں ہوگا تو کیا ہوگا اگر یوں ہوگا تو کیا؟ بزرگوں نے اس قسم کے خیالات سے روکا ہے اور سعی لاحاصل سے منع کیا ہے اور سعی حقیقی سے وہ نہیں روکتے۔ اور سعی لاحاصل یہ ہوتی ہے کہ مثلاً سردی کے موسم میں بستر ساتھ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اب اگر کوئی تیس تو شکیں اور دس لحاف لے لے تو ہم کہیں گے یہ فضول ہے ایک بستر لے لینا کافی ہے اسی طرح وہ کہتے ہیں۔ ورنہ اصل اور حقیقی سعی تو وہ خود بھی کرتے ہیں۔
ایک اَور گروہ
ان دو گروہوں کے سوا جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔ ایک تیسرا گروہ بھی ہے اس نے اپنی طرف سے درمیانی راستہ اختیار کیا ہے مگر وہ بھی اسلام کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں ہر ایک کام میں تقدیر بھی چلتی ہے اور تدبیر بھی۔ وہ کہتے ہیں ہر ایک چیز میں طاقت خدا نے رکھی ہے۔ مثلاً آگ میں جلانے، پانی میں پیاس بجھانے کی طاقت خدا نے بنائی کسی بندہ نے نہیں بنائی۔ اسی طرح یہ کہ لکڑی آگ میں جلے۔ لوہا، پیتل، چاندی، سونا پگھلے، یہ خدا نے مقدر کیا ہے۔ آگے اس کو گھڑنا اور اس کی کوئی خاص شکل بنانا لوہار یا سنار کا کام ہے جو تدبیر ہے۔ تو ہر چیز میں خدا نے طاقتیں رکھ دی ہیں یہ تقدیر ہے۔ آگے بندہ ان طاقتوں سے کام لیتا ہے یہ تدبیر ہے اور ہر کام میں دونوں باتیں جاری ہیں۔
یہ بات تو ٹھیک ہے مگر چونکہ وہ اسی پر بس کر دیتے ہیں اور اپنے خیالات کا انحصار اسی پر رکھتے ہیں اس لیے ہم کہتے ہیں یہ راستہ بھی ٹھیک راستہ نہیں ہےدراصل جو کچھ ایک سائنس دان کہتا ہے وہی یہ بھی کہتے ہیں۔ ہاں اتنا فرق ہے کہ سائنس دان بات کو کچھ دور لے جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہ چاندی کے پگھلنے کی کیا وجہ ہے؟ وہ کیونکر پگھلتی ہے؟ لیکن آخر میں کہہ دے گا کہ مجھے علم نہیں کہ پھر اس کی کیا وجہ ہے۔ میں اتنا جانتا ہوں کہ کسی غیر متبدل اور محیطِ کُل قانون کے ماتحت یہ سب کام ہو رہا ہے۔ مگر اس گروہ کے لوگ ابتدا میں تمام کارخانہ عالم کو ایک قانون کی طرف منسوب کر دیتے ہیں جس کو قانون قدرت کہتے ہیں۔
غلط نام کی وجہ سے دھوکا
میری تحقیق یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے اس مسئلہ کے نام ایسے رکھے ہیں جو غلط ہیں۔ اس لیے اصل مسئلہ مشکل اور مخلوط ہو گیا ہے اور ایسا بہت دفعہ ہوتا ہے کہ غلط نام رکھنے سے دھوکا لگ جاتا ہے مثلاً اگر کسی شخص کا نام نیک بندہ ہو اور کہا جائے کہ فلاں نیک بندہ نے بہت برا کام کیا ہے تو سننے والا حیران رہ جائے گا کہ یہ شخص کیا کہہ رہا ہے اور تعجب کرے گا کہ ایک طرف تو یہ شخص اسے نیک بندہ کہتا ہے اور دوسری طرف اس پر عیب بھی لگاتا ہے تو اگر کسی کا غلط نام بامعنی ہو تو اس سے بہت مغالطہ لگ جاتا ہے ہاں اگر بے معنی نام ہو تو دھوکا نہیں لگتا۔ مثلاً یہ کہیں کہ رلدو نے چوری کی یا ڈاکہ مارا تو کسی کو اس فقرہ پر تعجب نہیں آتا اور اگر کہا جائے رلدو خدا کا پیارا اور نیک بندہ ہے تو بھی کوئی تعجب نہیں آتا۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ فلاں خدا پرست ( جو عبداللہ کا ترجمہ ہے) نے شرک کیا تو سخت حیرانی ہوتی ہے۔
مسئلہ قدر میں غلط نام
پس بامعنی نام جو غلط طور پر رکھے جاویں ان سے دھوکا لگ جاتا ہے ایسا ہی ان لوگوں کو ہوا ہے۔ تقدیر کا لفظ تو صحیح ہے لیکن اس کے مقابلہ میں جو نام وہ رکھتے ہیں ان کے معنی بالکل الٹے ہوتے ہیں۔ مثلاً بعض لوگ تقدیر کے بالمقابل انسانی فعل کا نام تدبیر رکھتے ہیں۔ بعض دونوں کا نام جبر اور اختیار رکھتے ہیں حالانکہ یہ دونوں نام غلط ہیں۔ اور ان الفاظ کے معنوں کا اثر اصل مسئلہ پر پڑگیا ہے اور اس وجہ سے یہ مسئلہ غلط ہوگیا ہے۔
تو پہلی غلطی انہوں نے یہ کی کہ نام غلط رکھا اور صرف یہی نام غلط نہیں بلکہ ان دونوں شقوں کے جس قدر نام انہوں نے رکھے ہیں وہ سب کے سب غلط ہیں۔ مثلاً (1) تقدیر اور تدبیر (2)جبر اور اختیار (3)قدرت قدیمہ و قدرت حادثہ۔ لیکن یہ نام بحیثیت مجموعی پوری طرح تسلی نہیں کرتے۔
تقدیر کے مقابلہ میں تدبیر غلط ہے:
تقدیر تو ٹھیک ہے لیکن اس کے مقابلہ میں تدبیر انسانی فعل کو کہنا غلط ہے۔ کیونکہ تدبیر خدا بھی کرتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔
یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الۡاَرۡضِ ثُمَّ یَعۡرُجُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗۤ اَلۡفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ۔ (السجدۃ:6)
یعنی اللہ تعالیٰ بعض خاص کاموں کی تدبیر کر کے ان کو زمین کی طرف بھیجتا ہے۔ پھر وہ ایک ایسے وقت میں جس کی مقدار انسانی سالوں کے ایک ہزار سال کے برابر ہوتی ہے اس کی طرف چڑھنا شروع کرتا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تدبیر تو اللہ تعالیٰ بھی کرتا ہے مگر یہ لوگ کہتے ہیں کہ تدبیر وہ ہے جس میں خدا کا کوئی دخل نہ ہو۔ مگر اس سے بھی زیادہ جبر اور اختیار کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں حالانکہ یہ دونوں لفظ ہی قرآن سے ثابت نہیں ہیں۔ قرآن کریم سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ جبار ہے مگر اس کے معنی اصلاح کرنے والا ہیں اور یہ کہتے ہیں جبر یہ ہے کہ زبردستی کام کراتا ہے حالانکہ یہ کسی صورت میں بھی درست نہیں ہے۔ عربی میں جبر کے معنی ٹوٹی ہوئی ہڈی کو درست کرنے کے ہیں اور جب یہ لفظ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ بندوں کے خراب شدہ کاموں کو درست کرنے والا اور اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ دوسرے کے حق کو دبا کر اپنی عزت قائم کرنے والا۔ لیکن یہ معنی تب کیے جاتے ہیں جب بندوں کی نسبت استعمال ہو۔ خدا تعالیٰ کی نسبت استعمال نہیں کیے جاتے اور نہ کیے جاسکتےہیں کیونکہ سب کچھ خدا تعالیٰ کا ہی ہے۔ یہ کہا ہی نہیں جاسکتا کہ دوسروں کے حقوق کو تلف کر کے اپنی عزت قائم کرتا ہے۔
علاوہ ازیں تدبیر کا لفظ ان معنوں پر پوری روشنی نہیں ڈالتا جن کی طرف اشارہ کرنا اس سے مقصود ہے۔ کیونکہ تدبیر کے معنی عربی زبان میں کسی چیز کو آگے پیچھے کرنے کے ہیں اور مراد اس سے انتظام لیا جاتا ہے۔ لیکن انتظام کا لفظ اس جگہ کچھ بھی نفسِ مسئلہ پر روشنی نہیں ڈالتا۔
اب رہا اختیار۔ اس کے معنی ہیں جو چیز پسند آئے وہ لے لینا۔ پس اگر خدا تعالیٰ نے انسان کو اختیار دے دیا ہے تو جو جس کو اچھا لگا وہ اس نے لیا اور جو عمدہ نظر آیا وہ کیا۔ پھر اس کو کسی فعل پر سزا کیسی؟ تو یہ لفظ بھی غلط ہے۔
صحیح نام
اصل میں قرآن شریف سے جو الفاظ ثابت ہیں وہ یہ ہیں۔
قدر، تقدیر، قضاء، تدبیر الٰہی
اور ان کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے کسب اور اکتساب کے لفظ رکھے ہیں۔
پس قرآن کریم کی رو سے اس مسئلہ کا نام تقدیر الٰہی اور اکتساب یا قدر الٰہی اور کسب یا قضاء الٰہی اور کسب ہوگا۔ اب میں ان ناموں کے ماتحت اس مسئلہ کی تشریح کرتا ہوں۔
اول تو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم نے تقدیر الٰہی کے مقابلہ میں بندہ کے لیے کسب و اکتساب کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ اور یہ لفظ بندہ ہی کے لیے استعمال ہوسکتا ہے خدا تعالیٰ کے لیے نہیں استعمال ہوسکتا ہے کیونکہ کسب کے معنی کسی چیز کی جستجو کرنی اور اس کو محنت سے حاصل کرنے کے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نہ جستجو کرتا ہے اور نہ کسی بات کو محنت سے حاصل کرتا ہے۔ ہر چیز اسی کے تابع فرمان ہے اور اس کے ایک ذرا سے اشارہ پر اس کی رضا کو پوری کرنے لیے تیار ہے۔ پھر وہ تکلیف سے بالکل پاک ہے وہ کہتا ہے کہ یوں ہو جائے اور اسی طرح ہوجاتا ہے۔ پس اس کے لیے کسب کا لفظ استعمال نہیں ہوسکتا۔ اور اس لفظ کے استعمال سے جو امتیاز قائم ہوگیا ہے وہ اور کسی لفظ سے نہیں ہوسکتا تھا۔
……………………………………………(باقی آئندہ)