نعمائے بہشت کی حقیقت(حصہ دوم)
اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
خدا تعالیٰ نے اس وقت ایک صادق کو بھیج کر چاہا ہے کہ ایسی جماعت تیار کرے جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرے۔ میں دیکھتا ہوں کہ بعض کچے لوگ داخل ہو جاتے ہیں اور پھر ذرا سی دھمکی ملتی ہے اور لوگ ڈراتے ہیں تو پھر خط لکھ دیتے ہیں کہ کچھ تقیہ کر لیا ہے۔ بتاؤ۔ انبیاء علیہم السلام اس قسم کے تقیہ کیا کرتے ہیں؟ کبھی نہیں۔ وہ دلیر ہوتے ہیں اور انہیں کسی مصیبت اور دُکھ کی پروا نہیں ہوتی۔ وہ جو کچھ لے کر آتے ہیں اسے چھپا نہیں سکتے خواہ ایک شخص بھی دنیا میں ان کا ساتھی نہ ہو۔ وہ دنیا سے پیار نہیں کرتے۔ ان کا محبوب ایک ہی خدا ہوتا ہے۔ وہ اس راہ میں ایک مرتبہ نہیں ہزار مرتبہ قتل ہوں اس کو پسند کرتے ہیں اس سے سمجھ لو کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچے تعلق کا مزا اور لطف نہیں تو پھر یہ گروہ کیوں مصائب اُٹھاتے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حالات کو پڑھو کہ کفار نے کس قدر دُکھ آپ کو دیے۔ آپ کے قتل کا منصوبہ کیا گیا۔ طائف میں گئے تووہاں سے خون آلود ہو کر پھرے۔آخر مکّہ سے نکلنا پڑا۔ مگر وہ بات جو دل میں تھی اور جس کے لیے آپ مبعوث ہوئے تھے اُسے ایک آن کے لیے بھی نہ چھوڑا۔
یہ مصائب اور تکالیف کبھی برداشت نہیں ہو سکتیں جب تک اندرونی کشش نہ ہو۔ ایک غریب انسان کے لیے دو چار دشمن بھی ہوں وہ تنگ آ جاتا ہے اور آخر صلح کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مگر وہ جس کا سارا جہاں دشمن ہو وہ کیونکر اس بوجھ کو برداشت کرے گا۔ اگر قوی تعلق نہ ہو۔ عقل اس کو قبول نہیں کرتی۔
مختصر یہ کہ خدا تعالیٰ کی محبت کی لذّت ساری لذّتوں سے بڑھ کر ترازو میں ثابت ہوتی ہے۔ پس وہ لذات جو بہشت میں ملیں گی یہ وہی لذّتیں ہیں جو پہلے اُٹھا چکے ہیں۔ اور وہی ان کو سمجھتے ہیں جو پہلے اٹھا چکے ہیں۔
اگر کہو کہ وہ نعمتیں کیونکر ہوں گی؟ تو اس کا جواب صاف ہے۔ اللہ تعالیٰ خلق جدید پر قادر ہے۔ خود انسان کا اپنا وجود بھی خیالی ہے۔ جس قطرہ سے پیدا ہوتا ہے وہ کیا چیز ہے؟ پھر خیال کرو کہ اس سے کیسا اچھا انسان بناتا ہے۔ کیسے عقلمند، خوبصورت، بہادر، پھر وہی خدا ہے جو دوسرے عالم میں خلق جدیدکرے گا۔ دیکھنے میں وہ لذّات اور میوہ جات ہمرنگ ہوں گے لیکن کھانے میں ایسے لذیذ ہوں گے کہ نہ کسی آنکھ نے ان کو دیکھا نہ کسی کان نے سُنا اور نہ کسی زبان نے ان کو چکھا اور نہ وہ کسی خیال میں گزرے۔
بہشت کی لذّات میں ایک اور بھی خوبی ہے جو دنیا کی لذّتوں میں اور جسمانی لذّتوں میں نہیں ہے۔ مثلاً انسان روٹی کھاتا ہے تو دوسری لذتیں اسے یاد نہیں رہتی ہیں۔ مگر بہشت کی لذّات نہ صرف جسم ہی کے لیے ہوں گی بلکہ رُوح کے لیےبھی لذّت بخش ہوں گی۔ دونوں لذّتیں اس میں اکٹھی ہوں گی اور پھر اس میں کوئی کثافت نہ ہو گی۔ اور سب سے بڑھ کر جو لذّت ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار ہو گا مگر دیدار الٰہی کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہاں ہی سے تیاری ہو۔ اور اس کے دیکھنے کے لیے یہاں ہی سے انسان آنکھیں لے جاوے جو شخص یہاں تیاری کر کے نہ جاوے گا وہ وہاں محروم رہے گا۔ چنانچہ فرمایا مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہِ اَعْمیٰ فَھُوَ فِی الْآخِرَۃِ اَعْمیٰ (بنی اسرائیل:73)۔ اس کے یہ معنے نہیں کہ جو لوگ یہاں نابینا اور اندھے ہیں وہ وہاں بھی اندھے ہوںگے۔ نہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ دیدار الٰہی کے لیے یہاں سے حواس اور آنکھیں لے جاوے اور ان آنکھوں کے لیے ضرورت ہے تبتل کی، تزکیہ نفس کی اور یہ کہ خدا تعالیٰ کو سب پر مقدم کرو۔ اور خدا تعالیٰ کے ساتھ دیکھو، سنو اور بولو۔اسی کا نام فنا فی اللہ ہے اور جب تک یہ مقام اور درجہ حاصل نہیں ہوتا۔ نجات نہیں۔
ہاں یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا تعلق قوی اور محبت صافی تب ہو سکتی ہے جب اس کی ہستی کا پتہ لگے۔ دنیا اس قسم کے شبہات کے ساتھ خراب ہوئی ہے۔ بہت سے تو کھلے طور پر دہریّہ ہو گئے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو دہریہ تو نہیں ہوئے مگر ان کے رنگ میں رنگین ہیں اور اسی وجہ سے دین میں سُست ہو رہے ہیں۔ اس کا علاج یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں تا ان کی معرفت زیادہ ہو اور صادقوں کی صحبت میں رہیں جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور تصرف کے تازہ بتازہ نشان دیکھتے رہیں۔ پھر وہ جس طرح پر چاہے گا اور جس راہ سے چاہے گا معرفت بڑھا دے گا اور بصیرت عطا کرے گا اور ثلج قلب ہو جائے گا۔
(ملفوظات جلد 8صفحہ 60تا62۔ ایڈیشن 1984ء)
٭…٭…٭