دورۂ یورپ ستمبر، اکتوبر2019ء کے دوران مختلف تقاریب میں شامل ہونے والے غیراز جماعت مہمانوں کے تأثرات کا بیان
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ یکم نومبر 2019ء بمطابق یکم؍نبوّت1398 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک ، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یو کے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
گذشتہ دنوں مَیں یورپ کے بعض ممالک کے دورے پر گیا تھا جہاں دو ممالک ہالینڈ اور فرانس کے جلسہ سالانہ بھی تھے۔ اس کے علاوہ مساجد کے افتتاح اور غیروں کے ساتھ دوسرے پروگرام بھی ہوتے رہے۔ فرانس میں یونیسکو (UNESCO)کی عمارت میں تقریب ہوئی جس کی اجازت وہاں کی انتظامیہ نے دی تھی اور ان کی دعوت پہ کی گئی تھی جس میں اسلامی تعلیمات بیان کرنے اور علمی اور سائنسی ترقی میں مسلمانوں کے کردار کو بیان کرنے کی بھی توفیق ملی۔ یونیسکو (UNESCO) یو۔این (UN)کا ایک ادارہ ہے جو تعلیم ،سائنس اور کلچر کے فروغ کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ اس کے کاموں میں پریس کی آزادی، غربت کا خاتمہ اور ورثے کی حفاظت وغیرہ کے کام بھی ہیں۔ بہرحال ان کے انھی کاموں کے حوالے سے اسلام کی تعلیم اور پہلے مسلمانوں کی اس بارے میں خدمات اور ان کا حصہ اور جماعت احمدیہ کے کردار کے بارے میں انہیں بتایا۔ اسی طرح جرمنی میں برلن میں جو وہاں کا دارالحکومت ہے ، وہاں سیاست دانوں اور پڑھے لکھے لوگوں کو اسلامی تعلیم اور یہ بات جو یورپین لوگوں کے دماغوں میں ہے اور جو تصور قائم ہو گیا ہے، خاص طور جرمنی اور بعض ممالک میں زیادہ ہے کہ اسلام یورپ کے کلچر اور سویلائزیشن (civilization) سے مطابقت نہیں رکھتا ۔اس لیے اسلام کو نہ یہاں آنا چاہیے، نہ یہاں آ سکتا ہے اور یہ بھی کہ اسلام یورپ کے لیے خطرہ ہے۔ اس بارے میں اسلامی تعلیم کی روشنی میں بتایا اور وہاں بعض بڑے پڑھے لکھے لوگ، سیاست دان اور ڈپلومیٹس وغیرہ بھی تھے۔ ان پہ بڑا مثبت ردّعمل ہوا۔ انہوں نےاس کا اظہار کیا ۔ اسی طرح دوسری تقریبات میں بھی اسلامی تعلیم اور اسلام کا تعارف کروانے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی۔ الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھنے کا ہر جگہ موقع ملا۔ اس وقت مَیں مختلف فنکشنوں پر بعض غیروں کے جو تاثرات تھے وہ مختصراً بیان کروں گا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو اسلام کی حقیقی تعلیم سمجھنے اور اپنے تحفّظات دُور کرنے کا ہر جگہ موقع ملا۔
ہالینڈ میں جلسے کے دوسرے دن ڈَچ مہمانوں سے بھی مخاطب ہونے کا موقع ملا۔ 125 غیرمسلم ڈچ مہمان وہاں شامل ہوئے۔ نن سپیت (Nunspeet)جو اس وقت ہمارا مرکز ہے وہاں کے کونسلر نے اپنے تاثر بیان کرتے ہوئے کہا کہ بہت عرصہ پہلے میں یہاں آنے کو یعنی جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے کو پسند بھی نہیں کرتا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ تعلقات اچھے ہو گئے۔ اور جب مَیں وہاں گیا ہوں تو میرے استقبال کے لیے بھی وہاں آئے ہوئے تھے۔ پھر کہتے ہیں پہلے بھی میں نے امام جماعت احمدیہ کو سنا ، اب دوبارہ سننا چاہتا تھا اور یہ سب باتیں جو کی ہیں ان سے میں بڑا متاثر ہوں کیونکہ اس سے لگتا ہے کہ جس طرح ایک گہرا باہمی رشتہ ہمارا آپس میں ہو گیا ہے اور آپ لوگ یعنی وہاں کی جماعت معاشرے کا ایک فعال حصہ ہیں اور اس جلسہ میں شامل ہو کے اس میں مزید مضبوطی پیدا ہوئی ہے۔
اسی طرح روٹرڈم (Rotterdam)وہاں ایک شہر ہے۔ وہاں سے آنے والے ایک مہمان ہرمن میٹر (Herman Meeter) صاحب نے کہا کہ جلسہ پر آنے سے قبل میں گھبرایا ہوا تھا کہ اس جلسے پر مسلمان اکٹھے ہو رہے ہیں، پتا نہیں کیا ہو گا؟ مگر یہاں آ کر بڑی حیرت ہوئی کہ امن کی باتیں ہو رہی ہیں اور جو بات مجھے آپ کی تقریر کی اچھی لگی وہ یہ تھی کہ بڑی جرأت سے بات کی ہے۔ اور پھر کہتے ہیں کہ پوپ عمومی رنگ میں امن کی بات کرتا ہے مگر اس نے احمدی دوست کو کہا کہ آپ کے خلیفہ نے برملا طور پر طاقت وَر قوموں کو مخاطب کر کے بات کی ہے۔
پھر ایک ڈچ میاں بیوی تھے جو اس میں شامل ہوئے وہ کہتے ہیں کہ جلسے کا ماحول عجیب تھا۔ سب لوگ خوش اخلاق تھے۔ لگتا تھا ایک جنت نظیر ماحول ہے اور پھر میری تقریر کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ہم پہ اس کا بڑا اثر ہوا اور مترجمین نے بھی بہت متاثر کیا۔ بڑا اچھا ترجمہ ساتھ ساتھ ہو رہا تھا۔ یہ مترجمین پہ بھی dependکرتا ہے کہ وہ کس طرح بیان کرتے ہیں اس لیے ہمارے ترجمہ کے شعبہ کو مختلف ملکوں میں بھی کوشش یہ کرنی چاہیے، ایم۔ٹی۔اے میں تو کرتے ہی ہیں کہ جب بھی وہاں فنکشن اور جلسے ہوں تو ترجمے صحیح رنگ میں ہونے چاہئیں۔
ایک مہمان ڈینی ہارکنک(Dini Harkink)صاحب اس میں شامل ہوئے۔ کہتے ہیں کہ میرا تعلیمی بیک گراؤنڈ ہے۔ چار سال قبل مَیں نے ایک ادارے میں ڈچ زبان پڑھانی شروع کی۔ یہاں میری ملاقات ایک پاکستانی فیملی سے ہوئی اور وہ زبان سیکھنے آیا کرتے تھے۔ تعلقات بڑھے اور انہیں میں نے ہر طرح سے تعاون کا یقین دلایا ۔ ہر ہفتے وہ میرے ساتھ کچھ وقت گزارتے اور ان کے بچے بھی مجھے ملتے ۔ ان بچوں سے بھی مجھے جماعت کے بارے میں علم ہوا اور پھر کہتے ہیں کہ اب میں یہاں آیا ہوں تو مجھے بڑا اچھا محسوس ہو رہا ہے اور آپ کے خلیفہ بھی امن اور باہمی ہم آہنگی کی باتیں کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مَیں خود عیسائی ہوں اور دیکھ سکتا ہوں کہ آپ کی جماعت صرف احمدیوں سے ہی نہیں بلکہ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے سے اچھا برتاؤ کرتی ہے۔ خاص کر ایک مسلمان رہنما سے یہ باتیں سننا ، اس نے مجھے بڑا متاثر کیا کیونکہ آج کل اسلام کے بارے میں غلط تصورات موجود ہیں۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ آپ نے دنیا میں پھیلی بدامنی کا ذکر کیا ہے اور امن کے قیام کی ضرورت پہ زور دیا ہے۔ ہم زمین پر ایک دوسرے سے مل کر رہتے ہیں اور ہمیں اس بارے میں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم سب مل کر امن کا قیام کریں۔
پھر ہالینڈ میں المیرے (Almere)شہر میں انہوں نے وہاں دوسری مسجد بنائی ہے جو باقاعدہ مسجد ہے، اس کا افتتاح تھا۔ وہاں المیرے چرچ کے چیئرمین حایوویتزل صاحب آئے ہوئے تھے ۔کہتے ہیں کہ آپ کی جماعت کا پیغام امن کا پیغام ہے۔ آپ کے خلیفہ نے امن اور مذہبی آزادی پر بہت ہی اچھی تقریر کی ہے۔ المیرے میں پہلے کیتھولکس اور پروٹسٹنٹ مل کر امن کے ساتھ رہتے تھے۔ اب امید ہے کہ احمدی بھی ہمارے ساتھ مل کر امن کے ساتھ رہیں گے۔ انہوں نے کچھ تو چرچ کے حوالے سے بھی بات کرنی تھی ورنہ یہ ان کا وہاں کے لوگوں کا عموماً اظہار ہے کہ جو بھی احمدی وہاں رہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے مل جل کر رہتے ہیں اور بڑے پُرامن لوگ ہیں۔
ایک عرب مہمان زکریا صاحب آئے ہوئے تھے ۔کہتے ہیں مجھے بڑا اچھا پروگرام لگا اور آپ کے خلیفہ کی تقریر جو تھی وہ میں نے سنی ۔ پھر یہ کہنے لگے کہ اگر ہم امن چاہتے ہیں تو اس تقریر پر عمل کرنا چاہیے۔ پھر کہتے ہیں کہ ایک عرب ہونے کے ناطے یہ بھی مَیں کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کے پروگرام کے شروع میں تلاوتِ قرآن کریم کی گئی جو ان ملکوں میں رہتے ہوئے میرے لیے ایک عجیب بات تھی اور مجھے بڑی اچھی لگی۔
پھر ایک لوکل مہمان تھیں ‘‘دینے کے’’ صاحبہ۔ کہتی ہیں یہ فنکشن بڑا اچھا آرگنائز کیا تھا اور آپ کے خلیفہ کی تقریر میں نے سنی۔ بڑی اچھی تھی ۔ عورتوں کے لیے بھی بڑا اچھا انتظام تھا اور پہلی دفعہ میں آئی ہوں اور اب میں دوبارہ مسجد آؤں گی اور جماعت کی عورتوں سے دوبارہ ملوں گی اور اپنا تعارف بڑھاؤں گی۔
ایک اَور لوکل مہمان تھے کہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع ہے کہ میں مسلمانوں کے اس قسم کے پروگرام پر آ رہا ہوں۔ آنے سے پہلے میرے ہمسائے نے کہا تھا کہ بچ کر رہنا۔ مسلمانوں کا کچھ پتا نہیں کہ کب کیا کر دیں لیکن مجھے یہاں آ کر بہت اچھا لگا۔ آپ کی جماعت کے لوگوں نے ہمارا شروع سے لے کر آخر تک بہت خیال رکھا۔
پھر ایک لوکل خاتون ہیں ایولِن صاحبہ۔ کہتی ہیں کہ افسوس کی بات ہے کہ دنیا کو اسلام کی یہ تصویر نہیں دکھائی جاتی۔ آپ کی جماعت کے لوگ بہت محنتی ہیں اور مہمان نواز ہیں۔ میں نے آج اس مسجد کو پہلی بار دیکھا ہے مگر میں آئندہ بھی یہاں آنا چاہتی ہوں کیونکہ آپ کی مسجد میں مجھے سکون ملا ہے۔
اس کے بعد پھر فرانس کا دورہ تھا ۔ ان کے اس طرح کے تاثرات بے شمار ہیں لیکن بہرحال چند ایک میَں نے بیان کیے۔ فرانس کا جو دورہ تھا وہاں جلسہ تھا اور وہاں بھی اسی طرح غیر احمدی، غیر مسلم مہمانوں کے ساتھ نشست تھی جس میں 75 کے قریب مہمان آئے ہوئے تھے وہاں ایک مہمان خاتون جو پیشے کے اعتبار سے انتھراپولوجسٹ (Anthropologist) ہیں۔ کہتی ہیں کہ جب خلیفہ نے یہ بات کی کہ وہ فرانس میں جو مختلف حملے ہوئے ہیں ان کی مذمت کرتے ہیں تو انہوں نے واضح کر دیا کہ اسلام کا ایسے حملوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پھر کہتی ہیں کہ امام جماعت احمدیہ نے اسلام کی جو حقیقی تصویر پیش کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان آسانی سے مغربی دنیا میں انٹیگریٹ (Integrate) ہو سکتے ہیں اور کہنے لگیں کہ جو کہتے ہیں کہ مغربی دنیا میں اسلام کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ،مسلمان وہاں مل کر نہیں رہ سکتے وہ غلط کہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو آج کی تقریر سننی چاہیے تھی۔
پھر ایک غیر احمدی مرتضیٰ صاحب تھے جن کا تعلق ایران سے تھا ۔ کہتے ہیں کہ انہیں آج پہلی دفعہ احمدیہ جماعت اور خلیفة المسیح کے سٹیٹس (status)کاعلم ہوا ۔ لوگ دنیا میں اسلام کے خلاف بہت پروپیگنڈا کرتے ہیں، آپ کے خلیفہ نے آج ان سب کا زبردست جواب دیا ہے۔ مسلمانوں کی حالت ایسی ہے کہ ان کو تو اپنے عقیدے اور ایمان کے بارے میں علم ہی نہیں ہے۔ ان لوگوں کو آپ کے خلیفہ سے اسلام سیکھنا چاہیے۔ اور اصل بات تو یہ ہے کہ زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی معہود سے جُڑ کر ہی اسلام کی حقیقی تعلیم کا پتا لگتا ہے اور جب تک ان مسلمانوں کو اس بات کا ادراک نہیں ہوگا کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں آنا ہے تب تک صحیح اسلام کا، حقیقی اسلام کا پتا لگ بھی نہیں سکتا۔ بہرحال یہ کہتے ہیں کہ خلیفہ نے آج واضح کر دیا ہے کہ جہاد اصل میں کیا ہے اور کس طرح اس کی غلط تشریحات کی جا رہی ہیں۔ خلیفہ نے اسلام کی ابتدائی دَور کے واقعات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جو واقعات پیش کیے ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ اس طرح حکمت کے ساتھ اسلام کا پیغام سنا ہے۔
پھر مراکش سے تعلق رکھنے والے ایک غیر احمدی مہمان سفیان صاحب کہتے ہیں کہ مجھے آج کے خطاب سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ آپ لوگ ہی حقیقی اور اصل مسلمان ہیں اور جو لوگ کہتے ہیں کہ آپ مسلمان نہیں ہیں وہ بالکل غلط کہتے ہیں۔ مولویوں نے جو مجھے بچپن سے احمدیوں کے بارے میں سکھایا تھا وہ سب جھوٹ تھا لیکن فرانس میں اسلام سے اور مسلمانوں سے لوگ ڈرتے ہیں۔ ہمیں پتا نہیں تھا کہ ہم کس طرح اس کا دفاع کریں۔ کس طرح لوگوں کا ڈر اور خوف دور کریں۔ آج کہتے ہیں کہ آپ کے خلیفہ نے بہت اچھے طریقے سے اسلام کا دفاع کیا ہے اور یہ بھی جیسا کہ مَیں نے کہا کہ حقیقی اسلامی تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں آنے سے ہی پتا لگتی ہے۔
ایک عیسائی مہمان تھے جیکب (Jacob)صاحب۔ کہتے ہیں ایسے پروگراموں کی دنیا میں بہت ضرورت ہے۔ آپ کے خلیفہ مختلف اقوام اور مذاہب میں جو آپس کے فاصلے ہیں ان کو کم کر رہے ہیں۔ انہوں نے ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ جو دہشت گرد ہیں ان کے سیاسی مقاصد ہیں۔ مذہب ایک اچھی چیز ہے۔ مذہب سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ خلیفہ نے بار بار آزادی کی بات کی۔ یہ فرانس کے لوگوں کے لیے ایک نئی بات ہے۔ فرانس کے لوگوں میں اسلام کے بارے میں بالکل اَور سوچ ہے۔
پھر ایک مہمان میکسین آن فرے (Maxine Onfray)جو تھنک ٹینک میں کام کرتے ہیں، کہنے لگے کہ آج میری زندگی کا ایک بہت پیارا دن ہے جس میں آپ کے خلیفہ کو براہِ راست میں نے سنا اور انہوں نے بالکل صحیح کہا ہے کہ اس وقت ہم ایک ایسے اندھیرے دور سے گزر رہے ہیں جس میں نفرت پائی جاتی ہے لیکن ساتھ ہمیں یہ بھی سمجھا دیا کہ یہ سب کچھ مذہب کی وجہ سے نہیں ہے اور لوگوں کو اسلام سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ خلیفہ نے جو یہ کہا ہے کہ مذہب کو شدت پسند لوگوں نے ہائی جیک کر لیا ہے اور اسے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ بالکل درست ہے۔ میں اس سے متفق ہوں۔ اور پھر کہتے ہیں کہ انہوں نے اسلامی تعلیم کی رو سے ہمیں سمجھایا کہ ہم آئندہ اپنی نسلوں کے لیے کس طرح دنیا کو اچھا چھوڑ کے جا سکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس خطاب کو شائع ہونا چاہیے اور ہم سب کو ملنا چاہیے۔ یہ تھنک ٹینک کے ایک ممبر ہیں ان کا تبصرہ ہے۔
پھر 8؍اکتوبر کو یونیسکو (UNESCO)میں جیسا کہ میں نے ذکر کیا وہاں تقریب تھی۔ اس تقریب میں 91؍ مہمان شریک ہوئے جن میں یونیسکو میں مالی کے ایمبیسیڈر، فرانس کی وزارت خارجہ اور داخلہ کے حکام ، مذہبی امور کے مشیر، فرانس کی مذہبی امور کی جو وزارت ہے اس کی مشیر، مذاہب کے شعبہ کے ڈائریکٹر، NATOمیموریل کے پریذیڈنٹ، ممبر پارلیمنٹ ، کونسلرز، میئرز اور مختلف حکومتی اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد اور ڈائریکٹرز وغیرہ شامل تھے۔
مالی سے یونیسکو کے ایمبیسیڈر عمر کائتا صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امام جماعت امن پھیلا رہے ہیں۔ میں آپ کے امن کے پیغام کی وجہ سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ یونیسکو ایک ایسی آئیڈیل جگہ ہے جہاں امن کی بات ہو سکتی ہے اور پھر انہوں نے اپنے باقی جذبات کا بھی اظہار کیا کہ کس طرح اس تقریر سے، خطاب سے ہمیں بہت ساری باتیں پتا لگیں اور پھر کہتے ہیں کہ یہی وہ چیز ہے جس کی امتِ مسلمہ کو بھی ضرورت ہے۔ مالی کے رہنے والے خود مسلمان نہیں ہیں۔ کہتے ہیں یہی وہ چیز ہے جس کی امتِ مسلمہ کو بھی ضرورت ہے۔ عالمی انصاف اور ہم آہنگی کا جو تصور امام جماعت نے پیش کیا ہے دنیا کو اس کی اشد ضرورت ہے۔
پھر نیٹو میموریل کے صدر مسٹر برینٹن (Mr Brenton)نے کہا کہ اس میں شامل ہو کر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ اس بات کا اظہار کیا کہ وہ شامل ہوئے۔ پھر کہتے ہیں کہ یہ کانفرنس اہم اور تاریخی تھی اس سے امن ،رواداری اور اخوت قائم ہو سکتی ہے۔ میری خواہش ہے کہ زیادہ سے زیاد ہ لوگ جماعت احمدیہ کے امام کے پیغام کو سنیں اور پھر کہتے ہیں کہ یہ حقیقی اسلام کی بات کرتے ہیں جو پُرامن اور برداشت کی تعلیم دینے والا ہے۔ یہ پیغام شدت پسندوں کے عمل سے بالکل مختلف ہے۔ امام جماعت اس امن کے پیغام کو فروغ دینے کے لیے بہت کوشش کر رہے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ یہ ایک ضروری کام ہے ، امن کے کام کو فروغ دینا اور ہم بھی ان کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اور پھر کہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کو امن قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ کام ہر سطح پر کرنا چاہیے اور اس کے لیے اپنا عملی نمونہ پیش کرنا چاہیے۔
پھر فرانس میں مالی سے تعلق رکھنے والے کیتھولک افراد کی ایسوسی ایشن کے صدر دیالو (Diallo)صاحب بھی اس پروگرام میں شامل تھے۔ کہتے ہیں کہ مَیں پہلے سے احمدیوں کے بارے میں جانتا تھا۔ تمام مذاہب کو یہ پیغام دوسروں تک پہنچانا چاہیے جو آج ہمیں ملا اور یہ تقریر سن کر مجھے لگا کہ یہ اتنا پیارا پیغام ہے اور اس کو سننے کے بعد میرے دل میں اس کی اتنی خواہش پیدا ہوئی کہ میں اسلام کی ترقی کے لیے خود دعا کروں۔ یہ کیتھولک ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ اگر دنیا میں وہ اسلام قائم ہو جو امام جماعت احمدیہ پیش کر رہے ہیں تو دنیا کے سب مسائل ختم ہو جائیں گے۔ جب دوسروں کے جذبات کا احترام ہو گا تو ہر جگہ امن قائم ہوگا۔ باہمی احترام کی بڑی ضرورت ہے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے دین پر قائم ہے لیکن ہمارا ایک مشترکہ عقیدہ ہے اور وہ اللہ کی ذات ہے۔
پھر ایک مہمان برنرڈ (Bernard)صاحب کہتے ہیں کہ ہم ٹی وی پر اسلام کے بارے میں جو پروپیگنڈا سنتے تھے آج اس سے بالکل مختلف اسلام کی تعلیم پیش کی گئی ہے اور یہی حقیقی اسلام ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے آج آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں علم حاصل کیا ہے کہ کس طرح مدینے میں بہت اعلیٰ معاشرہ قائم کیا۔ مجھے آج پہلی دفعہ پتا چلا ہے کہ اسلام نے علم کے میدان میں کتنا بڑا حصہ لیا اور دنیا کو علم دیا ہے۔
پھر فرانس کی ایک انسانی حقوق کی فیڈریشن کے ممبر ہیں جو اس پروگرام میں شامل تھے ۔کہتے ہیں کہ یہ تقریر بہت اچھی اور بہت گہری تھی۔ بڑی تفصیل سے علم کی ضرورت اور علم کے فروغ کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا ذکر کیا۔ آپ نے علم کی تاریخ میں اسلام کی خدمات بھی گنوائی ہیں۔ یہ بہت دلچسپ معلومات تھیں۔
پھر سٹی کونسل کے ایک ممبر پروگرام میں شامل تھے۔ یہ کہتے ہیں کہ میں کونسل میں مختلف نسلوں کے مابین تفریق کے خلاف کام کرنے والے شعبے کا انچارج ہوں اور پھر کہتے ہیں کہ خاص کر جو تقریر، جو باتیں میں نے آج سنیں اس میں خاص طور پر آپ نے جو خواتین کو علم کے یکساں مواقع فراہم کرنے کی بات کی ہے اور پھر بین المذاہب ہم آہنگی کی بات کی ہے یہ بہت ضروری ہے۔ پھر افریقہ کے پس ماندہ علاقے میں تعلیم اور صحت کے حوالے سے شروع کیے جانے والے جماعت کے پروجیکٹس کا ذکر کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ عام طور پر جب فرانس یا دیگر ممالک میں اسلام کی بات ہوتی ہے تو مختلف خدشات کا ذکر ہوتا ہے۔ معاشرے میں ایک اسلامو فوبیا ہے، ایسے میں اسلام کے بارے میں مثبت باتیں سننے کو ملی ہیں۔ مجھے اس بات سے بڑی خوشی ہوئی ہے۔ کہتے ہیں کہ میری خواہش تھی کہ میں یہاں آؤں اور دیکھوں کہ آپ کی جماعت کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے اور آپ کے بارے میں مزید علم حاصل کروں۔ چنانچہ آج میری یہ خواہش پوری ہوئی۔
پھر ایک اَور مہمان الیگزینڈر (Alexander)صاحب ہیں کہتے ہیں کہ خلیفہ نے امن کا پیغام دیا اور یہ خطاب سچائی پر مشتمل تھا۔ آپ نےبڑی کھل کر اور واضح بات کی ۔ مجھے لگتا ہے کہ احمدیہ جماعت نے غلامی کے مضمون کو واضح کیا ہے۔ یہ پیغام بہت شان دار ہے ۔مسلمانوں میں سے احمدیوں نے یہ پیغام پیش کیا ہے جو ایک چھوٹی سی جماعت ہے۔
پھر ایک خاتون جرنلسٹ تھیں۔ کہتی ہیں کہ تقریر سنی، بڑی اچھی تقریر تھی۔خاص طور پر یہ سن کر حیرانی ہوئی کہ کس حد تک اسلام نے دنیا میں تعلیمی ترقی کی ہوئی ہے۔ اس میں مسلمانوں کا کتنا بڑا کردار ہے اور اس کی مثالیں بھی آپ نے اپنی تقریر میں دیں اور قرآن کی بھی مثال دی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی مثالیں دیں کہ کس طرح انہوں نے ایک امن پسند معاشرے کا قیام فرمایا۔ کہتی ہیں کہ آج میں نے یہاں بہت کچھ سیکھا ہے۔
پھر ایک مہمان مسٹر بریزیوولی(Mr Bresiouu Willy)صاحب ہیں۔ ایک چیریٹی میں کام کرنے والے ہیں ۔کہتے ہیں کہ بڑی اہم تقریب تھی۔ بڑا عمدہ پیغام تھا۔ ایک تاریخی پیغام تھا۔ ایک ایسا پیغام تھا جس کو ساری دنیا کو سننا چاہیے۔ اس خطاب سے میرا علم بڑھا ہے اور مجھے امن کی اصل حقیقت اور اہمیت کا اندازہ ہوا ہے۔
پھر سٹراس برگ میں مسجد کا افتتاح تھا۔ جرمنی کے بارڈر پہ سٹراس برگ فرانس کا ایک دوسرا شہر ہے وہاں تقریباً 191مہمانوں نے شرکت کی۔ ان مہمانوں میں علاقہ کی پارلیمنٹ کی ممبر تھیں۔ پانچ علاقوں کے میئرز شامل ہوئے۔ مختلف مذاہب کے نمائندے تھے۔ مختلف ایسوسی ایشنز کے صدران تھے۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے اور ارد گرد کے جو چھوٹے چھوٹے قصبے ہیں ان کے لوگ بھی خاص طور پر آئے ہوئے تھے کیونکہ ان لوگوں میں اسلام کے خلاف کافی تحفّظات بلکہ نفرت پائی جاتی ہے اور جب آئے ہیں تو ان کے تاثر بالکل مختلف تھے۔
مارٹن (Martine)صاحبہ ممبر آف فرنچ پارلیمنٹ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں بہت خوش ہوں کہ آپ نے ایک بھرپور پیغام دیا ہے۔ ایک امن کا پیغام، بھائی چارے کا پیغام اور یہ پیغام تمام دنیا کے لیے ہے۔ پھر کہتی ہیں کہ احمدی بہت فعال ہیں۔ یہ کچھ کر کے دکھانا چاہتے ہیں اور ان کے اعمال سے ان کا ماٹو جھلک رہا ہے۔ پھر کہتی ہیں کہ مَیں دوبارہ کسی وقت آؤں گی جب کہ یہاں کم لوگ ہوں گے اور آپ لوگوں سے بیٹھ کر تسلی سے بات کرنے کا موقع ملے گا۔ پھر میں آپ کی اقدار بہتر طور پر جان سکوں گی اور یہ ہمارے معاشرے کے لیے اس کی بہتری کے لیے بہت ضروری ہے۔ پھر کہتی ہیں کہ آپ کے خلیفہ نے امن کی بات کی ہے، برداشت کی بات کی ہے۔ فرانس کے لیے، فرانس کے شہریوں کے لیے یہ پیغام بہت اہم ہے۔ فرنچ لوگوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ جو اسلام ہم میڈیا سے جانتے ہیں وہ مختلف ہے۔ ہمیں اس اصل اور حقیقی اسلام کو جاننے کی ضرورت ہے۔
پھر وہاں کی کونسل آف بیرین (Barin)میں ایک شعبے کے نائب صدر اس تقریب میں شامل ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں تبت سے تعلق رکھنے والے بدھ مت کا یورپین سینٹر ہے۔ مَیں مذاہب کے بارے میں جانتا ہوں۔ عیسائیت، یہودیت، جوڈو کرسچن، بدھ مت وغیرہ کی خدمات سے بخوبی آگاہ ہوں لیکن جو تقریر آج میں نے سنی ہے اس سے بڑا متاثر ہوا کیونکہ ایک تو آپ کے الفاظ تھے اور ایک آپ کا نظریہ تھا اور وہ یہ تھا کہ ‘محبت سب کے لیے، نفرت کسی سے نہیں’۔ آپ نے اسلام کی بھرپور تصویر پیش کی ہے۔ آج کل جیسا کہ اسلام کو سمجھا جاتا ہے آپ نے اس کے برخلاف اسلام کی حقیقی تصویر پیش کی ہے ۔ آپ کے الفاظ اور آپ کے نظریے میں بہت مطابقت ہے۔ آپ ہر ایک کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھنے پر یقین رکھتے ہیں اور آج کی تقریب سے میں نے یہی سیکھا ہے اور یہی امن کا راستہ ہے۔
پھر سٹراس برگ کی مسجد کے افتتاح پر یوباجیا(Eubajia)صاحب اور ان کے ساتھ ایک خاتون تھیں غالباً ان کی بیوی تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے آج کی تقریب کے لیے موصولہ دعوت قبول کرنے سے قبل انٹرنیٹ پر آپ کی جماعت کے متعلق معلومات حاصل کیں۔ جماعت احمدیہ کی کاوشوں کے بارے میں جان کر ہم نے دلی بشاشت سے دعوت قبول کی اور سب سے زیادہ ہمیں اس بات کی خوشی ہوئی ہے کہ یہاں بین المذاہبی مفاہمت کو فروغ دیا گیا ہے اور تقریر میں بھی حقوق انسانیت اور بالخصوص ہمسایوں کے حقوق پر اسلامی تعلیم پیش کی گئی ہے۔
پس ہماری تقریبات میں جب لوگ آتے ہیں تو انٹرنیٹ کے ذریعے سے جماعت کی معلومات بھی حاصل کرتے ہیں اور وہیں ان کو پھر اسلام کی حقیقی تعلیم کے بارے میں بہت کچھ پتا بھی لگ جاتا ہے۔
ایک مہمان نے کہا کہ میرے لیے اپنے جذبات بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ مجھے اسلام کی اس تنظیم کا پہلے بالکل علم نہیں تھا۔ گلی میں مجھے بعض افراد ملے جنہوں نے اس تقریب میں آنے کا کہا۔ میں نے انٹرنیٹ سے کچھ معلومات لیں اور یہاں آنے کا فیصلہ کیا اور کیا ہی اچھا فیصلہ تھا۔ جو آج میں نے یہاں سنا ہے میں اس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسلام کی یہ شاخ امن پسند شاخ ہے۔ یہ اسلام کی اصل تصویر ہے۔ یہ ایسا اسلام ہے جس میں انسانیت ہے، پیار ہے، محبت ہے۔ اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ جو اسلام ہمیں بتایا جاتا ہے وہ اسلام نہیں بلکہ کوئی اور شَے ہے۔ مجھے اب معلوم ہوا ہے کہ اسلام کی اخلاقی تعلیم عیسائیت جیسی ہے۔ یہ تو یہ لوگ مجبوراً کہتے ہیں ورنہ بہت ساری پرائیویٹ مجلسوں میں انہوں نے یہ بھی اظہار کیا کہ عیسائیت کی تعلیم سے بہت بڑھ کر ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ خلیفہ کی باتوں سے مجھے یقین ہو گیا ہے کہ یہ غیر معمولی جماعت ہے۔
پھر ایک صاحب ہیں جسٹن (Justin)جو شہر کی ڈسٹرکٹ کونسل کے پریذیڈنٹ ہیں۔ کہتے ہیں کہ شروع میں جب میرے علم میں یہ بات آئی کہ یہاں مسجد بننے والی ہے تو میرے بہت سے خدشات تھے لیکن جب میں نے آپ لوگوں کا یہ نعرہ سنا کہ ‘محبت سب سے ،نفرت کسی سے نہیں’ تو مجھے یہ خیال ہوا کہ آج کی دنیا میں کس طرح ہو سکتا ہے کہ کوئی اتنا پیار سے بھرا ہوا نعرہ لگائے اور اسے قبول نہ کیا جائے۔ جماعت احمدیہ تو دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف ایک تلوار بن سکتی ہے اور اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ فرانس میں ابھی تک لوگ جماعت احمدیہ کو اتنا تو نہیں جانتے لیکن شدت پسندی اور موجودہ مشکلات کے خلاف احمدیت کے نقطہ نظر کو ہی دیکھنا چاہیے اور ان کے ذریعے سے جاننا چاہیے۔ اس لیے آپ لوگوں کوبہت زیادہ کام کرنا چاہیے۔
پھر لوک گینزک (Luc Ginzc)صاحب ہیں جو ایک شہر کے میئر ہیں ۔کہتے ہیں میں پہلی بار مسجد میں آیا ہوں۔ اگر مسجد میں آنا یہ چیز ہے جو میں نے آج دیکھی تو میں روزانہ مسجد میں آؤں گا۔ مجھے مسجد میں آنا اتنا اچھا لگا اور سکون ملا ہے کہ میں اس کا بیان نہیں کر سکتا۔
پھر وہاں سے 14؍اکتوبر کو جرمنی گئے ہیں۔ وہاں مسجد ویزبادن کا افتتاح تھا اور وہاں کا ایک مشہور ہال ہے جہاں افتتاح کی تقریب ہوئی کیونکہ مسجد کے اپنے صحن میں جگہ نہیں تھی۔ اس تقریب میں جو مہمانان شامل ہوئے ان کی تعداد 370 تھی اور لارڈ میئر وغیرہ تو وہاںآئے تھے لیکن وہاں صوبائی اسمبلی کے ممبر بھی تھے اور مختلف وزارتوںکے حکومتی نمائندے بھی تھے۔ مختلف حکومتی شعبوں کے ڈائریکٹرز تھے، پولیس افسر تھے، چرچ کے پادری تھے، پروفیسر زتھے، ڈاکٹر، وکلا وغیرہ مختلف طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔
کیتھولک چرچ کے ایک پادری نے کہا کہ اس تقریر میں جو آپ نے کی ہے تمام نقطہ ہائے نظر بیان کر دیے ہیں اور میں ان سے کامل اتفاق رکھتا ہوں۔دوسروں سے محبت کرنا اور خدا کے حقوق ادا کرنا یہ سب باتیں میری تعلیم میںبھی ہیں۔ اسی طرح کہتے ہیں کہ آج تک میں نے اسلام کے خدا پر اتنا گہرا اور وسیع تبصرہ نہیں سنا جو خدا کی وحدانیت کے کامل دعوے کے ساتھ اسی خدائے واحد کو دنیا کے تمام مذاہب، ممالک اور انسانی معاشروں کا پالنے والا خدا قرار دیتا ہے اور اپنی خبر گیری اور خیر پہنچانے کے لیے اہل زمین میں اپنے، بےگانے اور مذہب و ملت کا امتیاز روا نہیں رکھتا۔ پھر کہتے ہیں کاش دنیا کے تمام لیڈر اگر امن کے بارے میں اس طرح کی تقاریر کریں تو بڑا اچھا ہو۔ پھر کہتے ہیں کہ میں جماعت احمدیہ سے اب رابطے میں رہنا چاہتا ہوں اور مسجد دیکھنے بھی ضرور آؤں گا۔ انہوں نےخود یہ ایک تصور قائم کر لیا کہ اسلام کا خدا کوئی اَور ہے اور عیسائیت کا خدا کوئی اور ہے اور جب ان کو صحیح حقیقت بتائی جائے تو بہرحال ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔
پھر مائنز(Mainz) شہر سے ایک چرچ کے نمائندے شامل ہوئے۔کہتے ہیں کہ ہمسائے کے حقوق کے بارے میں آپ نے جو کہا، تفصیل کے ساتھ جو اسلامی تعلیم پیش کی ہے یہ میرے لیے بالکل نئی اور دل چسپ تھی اور کسی بھی مذہبی شخصیت سے اس حد تک ہمسائے کے حق کی تاکید میں نے پہلی بار سنی ہے۔
پھر ایک لاء فرم سے آئے ہوئے وکیل تھے ۔کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی سوچ کی وسعت پر تو مَیں اور میرا دفتر پہلے بھی حیرت زدہ ہوتے تھے لیکن آج ہمسائے کے حقوق جو آپ نے بیان کیے ہیں اور ہمسائے کی تعریف میں جو وسعت بیان کی ہے تو شہر کا شہر ہی اس وسعت میں سما گیا ہے اس سے ہماری حیرت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح اہلِ شہر کے لیے جماعت احمدیہ کی ہم دردی اور خبر گیری کا دائرہ اور وسیع ہو گیا ہے۔
پھر ایک مہمان سوزَین (Susanne)صاحبہ جو ٹیچر ہیں کہتی ہیں کہ جو بات مجھے اس خطاب میں سب سے اچھی لگی وہ یہ تھی کہ ہم سب انسانوں کا خالق ایک ہی ہے اور ہم سب ایک ہی خدا پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ بات ہم سب کو یاد رکھنی چاہیے۔
پھر ایک خاتون کونی (Conny) صاحبہ ہیں جن کا تعلق ڈئی گرون (Die Grüne)پارٹی سے ہے جو شہر ویزبادن کے پارلیمنٹ میں شعبہ انٹیگریشن (integration)کے لیے کام کرتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ یہ خطاب نہایت حوصلہ افزا محسوس ہوا۔ ایک بات جو میرے لیے بھی نہایت اہم ہے اور مجھے کبھی بھولے گی نہیں وہ یہ تھی کہ تمام احمدیوں کو اپنے ماحول کے لیے مفید وجود بننا چاہیے۔ اس بات پر صرف احمدیوں کو ہی نہیں بلکہ سب کو عمل کرنا چاہیے۔ اگر تمام مسلمان فرقے آپ احمدیوں کی طرح اوپن مائنڈڈ (open minded) ہوتے تو ہمارا آپس میں مل جل کر رہنا بہت آسان ہو جاتا۔ یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ بےشک ہم مل جل کر تو رہتے ہیں لیکن بعض لوگ بعض دفعہ مداہنت کا اظہار کردیتے ہیں۔ اس لیے اپنی تعلیم کے اندر رہتے ہوئے آپ بات کریں اور انٹی گریشن کے لیے اسی اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی آرام سے تعلیم بتائی جا سکتی ہے۔ اس لیے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انٹیگریشن کا مطلب یہ ہے کہ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام کی تعلیم کو واضح کیا جائے۔
بہرحال اب اگلے مہمان کا ذکر کرتا ہوں۔ یہ سکول میں استاد ہیں۔ کہتے ہیں کہ مجھے یہاں پہلی بار جماعت کا تعارف ہوا اور بڑا اچھا انتظام تھا۔ یہ بات مجھے بڑی اہم لگی ہے جو خلیفہ نے بیان کی ہے کہ رواداری پر زور دیا جائے اور دوسرے مذاہب کے لوگوں اور اسی طرح تمام انسانوں کے ساتھ پیار سے پیش آیا جائے۔ یہ آج کل کے معاشرے میں بہت ہی کم ہو گیا ہے اور دوسرے مذاہب اس بات کو بھولتے جا رہے ہیں لیکن آپ لوگ اس کو اہمیت دیتے ہیں۔ اب میں نے آپ لوگوں کی مسجد میں بھی ضرور جانا ہے اور میرے ذہن میں جو میرے سارے سوالات پیدا ہو رہے ہیں ان کو حل کروانا ہے۔
ایک مقامی ہسپتال کے ڈاکٹر ہیں۔ کہتے ہیں کہ مذہبی حلقوں سے اگر ایسی تعلیم ملے جس کا اظہار آج امام جماعت احمدیہ کی تقریر سے ہوا ہے تو معاشرے میں انسانی قدروں کا احترام قائم ہو سکتا ہے۔ چرچ کو بھی ایسا نقطہ نظر عام کرنا ہو گا۔ ابھی چرچ بہت سے سوالوں سے آنکھیں چراتا ہے۔ یہ عیسائی ہیں اور کہتے ہیں کہ ابھی چرچ بہت سے سوالوں سے آنکھیں چراتا ہے جب کہ امام جماعت احمدیہ نے ہر ممکنہ سوال اور اعتراض کو لے کر کئی زاویوں سے اس کے جوابات دیے اور بے خوف ہو کر اسلام کے نقطہ نظر کی وضاحت کی۔ پھر کہتے ہیں خوشی کی بات یہ ہے کہ ان کی ہر وضاحت اور تشریح انسانی معاشرے کو امن ،صلح اور محبت کی طرف لے جانے والی ہے۔
پھر ایک مہمان خاتون ہیں ہائیک براڈر (Heike Brader) صاحبہ۔ کہتی ہیں کہ آپ نے بتایا کہ خدا ساری دنیا کا رب ہے ۔ ربّ العالمین ہے اور یہ خدا کا ایسا وسیع تر تصور ہے جو میرے لیے بہت دل چسپی کا باعث تھا اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خدا ایک اور واحد ہوتے ہوئے بھی سب مذاہب اور سارے انسانوں اور قوموں کا خدا ہے اور سب کو بلاامتیاز پالتا ہے۔ ہر غور کرنے والے اور عقل مند کو توحید کو مانے بغیر چارہ ہی نہیں ہے اور یہ ان کے لیے ضروری ہے کہ واحد و یگانہ خدا کو مانیں جوسب طاقتوں کا مالک ہے اور ہر احمدی کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ یہ توحید کا جو پیغام ہے ہر ایک تک پہنچائیں۔
ایک خاتون باؤور ( Bauer) صاحبہ کہتی ہیں کہ میرے لیے ایک بہت بڑے اعزاز کا باعث ہے کہ میں ایک ایسی بابرکت محفل میں شامل ہو سکی۔ بعض تحفظات اور غلط فہمیاں جو میرے ذہن میں تھیں وہ امام جماعت احمدیہ نے اپنے واضح موقف اور اسلامی تعلیم کی حقیقی تشریح اور تفصیل سے دور کر دی ہیں۔ اب میرے لیے بہت کچھ واضح ہو چکا ہے۔
ایک مہمان کہتے ہیں کہ امن قائم کرنے کے لیے سب سے اہم بات جو بیان کی گئی وہ یہ ہے کہ دوسروں کی اقدار کو مدّنظر رکھا جانا چاہیے۔ مجھے اس بات کا علم تو تھا کہ اسلام میں مختلف فرقے ہوتے ہیں لیکن اس جماعت کا بہرحال نہیں پتا تھا جو اتنی امن پسند ہو۔
پھر ایک مہمان مختاری (Muktari)صاحب ہیں جو کہ ویزبادن کی پولیس میں کام کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آج کا پروگرام یہ واضح کر رہا تھا کہ مسلمان اپنی ایک اَور تصویر بھی دکھانا چاہتے ہیں کہ اسلام حقیقت میں ایک امن پسند مذہب ہے۔ خلیفہ نے یہ جو ذکر کیا کہ افریقہ میں بھی آپ لوگ مختلف پراجیکٹس کرواتے ہیں یہ مجھے بہت ہی اچھا لگا۔
پھر فُلڈا (Fulda)میں مسجد بیت الحمید کا افتتاح ہوا۔ اس تقریب میں بھی 330؍مہمان شامل ہوئے اور وہاں کے لارڈ میئر تو آئے تھے لیکن لارڈ میئرصرف باہر استقبال کر کے چلے گئے تھے۔ دوسرے علاقوں کے میئر صاحبان بھی آئے تھے۔ کونسل کے ممبران اور سابقہ ممبر پارلیمنٹ اور مختلف پارٹیوں کے چیئر مین بھی تھے اور راؤنڈ ٹیبل وہاں کی ایک ریلیجس کانفرنس (religious conference)ہے، ایک کمیٹی ہے راؤنڈ ٹیبل، اس کے چیئرمین بھی آئے ہوئے تھے۔ فلڈا جو ہے یہاں عموماً مسلمانوں کے خلاف کافی تحفّظات پائے جاتے ہیں بلکہ مخالفت ہے اور یہ عیسائیت کا ایک پرانا گڑھ ہے اور اپنی روایات کو قائم رکھنے والا شہر ہے۔ کم از کم چرچ یہ چاہتا ہے کہ روایات کو قائم رکھیں لیکن لوگ تو وہاں بھی عیسائیت سے بہت دور ہٹتے جا رہے ہیں۔ بہرحال ان کے خوف کی وجہ سے چرچ کے نمائندے تو سارے نہیں آئے اور بعض سیاست دان بھی نہیں آئے۔ اسی طرح لارڈ میئر بھی بیٹھے رہے ۔انہوں نے یہی کہا کہ میں تقریر نہیں کروں گا ، آ کے استقبال کر لوں گا لیکن بہرحال اس خوف سے سٹیج پر نہیں بیٹھے کہ لوگ مخالفت کریں گے۔ وہاں جو مہمان آئے تھے ان کے بعض تاثرات ہیں۔
ایک مہمان ہارالڈ (Harald) صاحب کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تقریر میں جو بتایا کہ جو قدرِ مشترک ہے اس پہ ہم سب کو اکٹھے ہونا چاہیے اور اسی کی وجہ سے باہمی یگانگت اور گلوبل امن کی بنیاد پڑے گی اور یہ کہتے ہیںکہ یہ جو طریق بتایا گیا ہے یہ طرز عمل دنیا کے موجودہ حالات میں انتہائی قابلِ عمل لگتا ہے اور اسی کی اس وقت دنیا کو ضرورت ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ میں جان چکا ہوں کہ اس سے قبل ہمیں اسلامی تعلیمات کے بارے میں جو تعارف تھا وہ اسلام کی درست تصویر پیش نہیں کرتا ۔اس لیے آج کی شام میرے لیے ایک مثبت اور پرامن پیغام لائی ہے۔
ایک مہمان جو وہاں کے مقامی سکول کے ٹیچر ہیں کہتے ہیں کہ یہ جو تقریر ہے یہ سکول میں طلبہ کو سنوا کر پوچھنا چاہیے کہ آپ اس سے کیا سمجھے اور آپ کے خیال میں یہ خوب صورت تعلیم کس مذہب کی ہو سکتی ہے؟ کہتے ہیں کم از کم مجھے تو آپ اس کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ ضرور مہیا کریں تاکہ میں اپنے سکول کے طلبہ کے سامنے اس شام کی کیفیات شیئر کر سکوں۔
ساتھ والے ایک شہر کے میئر تھے وہ کہتے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ نے دو طرفہ تحفظات و تعلقات کا موازنہ بھی پیش کیا اور معاشرے کے طبقات میں موجود باہمی کشمکش کے اسباب بھی کھول کر بتائے اور کھلے لفظوں میں ان عوامل کی نشان دہی بھی کر دی جو معاشرے کا امن برباد کرتے ہیں مگر اس کے باوجود کسی طبقے یا فرقے یا گروہ کی عزت ِنفس پر کوئی سخت بات نہیں کی بلکہ اجتماعی انسانی ضمیر اور بین الاقوامی انسانی قدروں کے حوالے سے فوڈ فار تھاٹ (food for thought)کے رنگ میں بات کرتے گئے۔
وہاں کی ایک ڈاکٹر کوہلر ( Dr. Koehler) ہیں ۔کہتی ہیں کہ مجھے اس بات نے بڑا متاثر کیا ہے کہ آپ لوگ کتنے کھلے دل کے ہیں اور یہی وہ خوبی ہے جس کی آپ کے خلیفہ تلقین کر رہے تھے کہ انسانی قدروں کے قیام کے لیے اپنے دلوں کو کھولنا پڑے گا اور تحفظات دور کرنے ہوں گے۔ پھر کہتی ہیں کہ میں بھی اپنے ہسپتال میں کوشش کرتی ہوں کہ بین المذاہب ہم آہنگی بڑھے اور لوگوں کی روحانیت سے سکون حاصل ہو۔ یہی سکون و امن مجھے آج کی تقریب میں دیکھنے کو ملا ہے۔ مَیں بہت خوش ہوں کہ مجھے یہاں شامل ہونے کا موقع ملا ۔
پھر برلن میں جس تقریب کا میں نے ذکر کیا تھا یہاں اسلام اینڈ یورپ (Islam and Europe)کے موضوع پر خطاب تھا یا سویلائزیشن (Civilization)اور کلچر کا موازنہ۔ اس میں ستائیس 27؍ممبران قومی اسمبلی، دفتر خارجہ کے تین نمائندے جن میں مذہب اور سیاست کے ڈائریکٹرز بھی شامل تھے، پانچ پروفیسر جن میں برلن یونیورسٹی کی نائب صدر اور جرمنی میں مشرق وسطیٰ پر اس وقت سند پائے جانے والے پروفیسر شٹائن باخ (Steinbach)شامل تھے اور اس کے علاوہ یو۔ایس۔اے اور فرانس ایمبیسیز کے پولیٹیکل آفیسرز،حکومت کے مختلف نمائندے، مختلف مذاہب اور چرچز اور کمیونٹیز کے نمائندے تھے۔ پریس اور میڈیا کے نمائندے بھی تھے اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے نمائندے بھی تھے۔
الیگزینڈر (Alexander)صاحب جو ممبر آف پارلیمنٹ ہیں، کہتے ہیں کہ جس امن اور سلامتی کا آپ نے پیغام دیا ہے اس کا مأخذ قرآن تھا اور اپنے موقف کی تائید قرآن اور بانیٔ اسلام کے فرمودات سے کی۔ اگرچہ یہ موضوع جدید تھا اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ تھا لیکن خلیفہ نے اپنے موقف کو قدیم اسلامی مأخذ سے سپورٹ کر کے ثابت کیا کہ اسلام اور قرآن نے مذہب کی بنیاد روزِ اول سے ہی انسانی ہم دردی اور امن وسلامتی کی تعلیم پر رکھی ہے۔ میرے خیال میں اس خطاب کی وسیع پیمانے پر تشہیر ہونی چاہیے تا کہ مغرب میں اسلام کے بارے میں حقیقی تعلیم سے عام لوگوں کو بھی واقفیت ہو۔
پھر نیل اینن (Niel Annen)صاحب جو وفاقی وزیر ِمملکت ہیں کہتے ہیں کہ جس وضاحت، تفصیل اور تجزیاتی موازنے کے ساتھ امام جماعت احمدیہ نے اسلام احمدیت اور بحیثیت مجموعی مذہب کا تعارف اور معاشرتی کردار واضح کیا ہے اس کو سمجھنے کے بعد مَیں محسوس کرتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کا انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانا کسی مذہب یا فرقے کی مدد نہیں بلکہ اجتماعی اور عالمی طور پر انسانی قدروں کے تحفظ کی کوشش ہو گی۔
پھر کرسٹوف سٹراک(Christoph Strack) صاحب ہیں ،کہتے ہیں میں نے زندگی میں شاید ہی کوئی ایسا پروگرام دیکھا ہو یا اس میں شامل ہوا ہوں کہ جس کو مسلمانوں نے منعقد کیا ہو اور اس کی مجموعی فضا ایسی پرسکون اور اس میں ہونے والی گفتگو اتنی جامع اور مدلل ہو۔ مجھے خوشی ہوئی کہ کسی کی نظر تو ظاہری تہذیب اور تمدن اور معاشرتی ترقی کے اندر چھپے ہوئے اختلافات کو دیکھ سکتی ہے۔ کہتے ہیں کہ اس میں آپ نے کھل کر انسانیت کے سر پر منڈلانے والی ایٹمی جنگ کے خطرے سے بھی کھلے الفاظ میں خبردار کیا۔
پھر کرسٹن بوشلز (Christine Buchholz)صاحبہ ہیں جو ممبر آف پارلیمنٹ ہیں ،کہتی ہیں کہ امام جماعت احمدیہ نے حالاتِ حاضرہ کی نبض کو بالکل صحیح طور پر محسوس کیا اور چونکہ ان کی تشخیص درست ہے اس لیے ان کے تجویز کردہ علاج میں معاشرتی بدامنی کا دیرپا علاج ہے۔
پھر ایک اَور خاتون ممبر آف پارلیمنٹ ہیں زاکلین (Zaklin)صاحبہ ۔کہتی ہیں کہ امام جماعت احمدیہ نے اپنا موقف تمام زاویوں سے واضح کیا اور کوئی ابہام نہیں رہنے دیا۔ کہتی ہیں مجھے اس کے لفظ لفظ سے اتفاق ہے۔
ایک پروفیسر ہیربرٹ ہیرٹے (Prof. Heribert Hirte)کہتے ہیں کہ آپ لوگوں نے جماعت کو تعلیمی میدان میں نمایاں کر کے جماعت احمدیہ کو دیگر مذہبی جماعتوں سے ممتاز مقام پر کھڑا کر دیا۔ جس جماعت کے افراد تعلیم پر اتنی توجہ دیں گے ان کی منزل ہی یہ ہے کہ وہ قیادت کریں نہ کہ اندھی تقلید۔
پھر ایک ممبر پارلیمنٹ ایکسل(Axel) صاحب ہیں۔ کہتے ہیںکہ اس خطاب کو جا کر دوبارہ پڑھوں گا اور جہاں تک میری رسائی ہو گی اس کو آگے بھی بیان کروں گا۔
پھر سبین لیڈگ (Sabine Leidig)صاحبہ ہیں ۔کہتی ہیں میرا تعلق خود تو کسی مذہب سے بھی نہیں ہے لیکن بحیثیت ایک مذہبی سربراہ امام جماعت احمدیہ نے آنے والی نسلِ انسانی کے درد کو جس طرح قبل از وقت محسوس کر کے آج کی لیڈرشپ کو خبردار کیا ہے اس کا میرے دل پر گہرا اثر ہے اور میری خواہش ہے کہ یہ پیغام عام ہو تا کہ انسانوں کا اجتماعی شعور اس بارے میں بیدار ہو سکے اور اگلی نسلوں کی ذمہ داری کا ادراک ہو سکے۔
پھر پروفیسر کرسٹوف گُلٹ مین (Christoph Gultman)صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ پروگرام مجھے بہت پسند آیا اور خطاب سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ بہت سے قرآن کے حوالہ جات میں نے ساتھ ساتھ نوٹ بھی کیے ہیں جن کا تقریر میں ذکر کیا گیا تھا۔ اب میں انہیں گھر جا کر ضرور دوبارہ پڑھوں گا۔
پھر ایک عیسائی مہمان ہیں ،کہتے ہیں کہ اس سے قبل میں نے کبھی بھی یہ نہیں سنا تھا کہ اسلام امن کو اتنی اہمیت دیتا ہے اور امن قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس بات کی مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ امام جماعت کا خطاب آج مختلف سیاسی پارٹیز کے نمائندگان نے سنا ہے۔ اسی طرح یہودی ربائی اور دوسرے مسلمان فرقوں کے لوگ بھی مجھے یہاں نظر آئے۔
پھر ایک مہمان بیان کرتے ہیں کہ خطاب میں ہر ایک فرد کو اس کی ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی کہ کس طرح سے امن قائم کیا جا سکتا ہے۔ بہت آسان الفاظ میں واضح کر دیا کہ سب انسانوں کو امن اور پیار سے اکٹھے رہنا چاہیے۔ اس کے لیے سب سے ضروری یہ بات ہے کہ ایک دوسرے کا احترام کیا جائے۔ یہ بات بھی انہوں نے بیان کی کہ دنیا میں ہر چیز کافی مقدار میں موجود ہے اور سب کے لیے کافی ہے اگر اس کو صحیح طرح استعمال کیا جائے۔
پھر ایک مہمان کہتی ہیں کہ آپ نے بہت سی باتوں کی طرف توجہ دلائی ۔سب سے پہلے جس بات کا ذکر کیا وہ یہ تھی کہ آج کل کے معاشرے میں مذہب کو اہمیت نہیں دی جاتی اور مذہب کو منفی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ کہتی ہیں کہ یہ بات ہمیں بطور عیسائی بھی محسوس ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جو بات مجھے خلیفہ کے خطاب میں بہت اہم لگی وہ تعلیم و تربیت کی اہمیت ہے۔ اس حوالے سے تو احمدیہ مسلم جماعت ویسے ہی ایک نمونہ ہے۔ کیونکہ جب انسانوںکو علم ہو کہ ان کی مقدس کتاب کیا تعلیم دیتی ہے تو پھر بہت سی مشکلات سے ہم آج بچے رہ سکتے ہیں۔ پس یہ آج احمدی نوجوانوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ خاص طور پر قرآن کریم کو پڑھیں اور سمجھیں تا کہ ان کو سمجھایا جائے اور یہ لوگ پھر مجبور ہوں گے کہ اس پر غور کریں اور اس کی حکمت کو سمجھیں ۔اس تعلیم پر عمل کریں یا اس تعلیم کو مانیں۔
پھر ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ترجمان تھے ،کہتے ہیں کہ جو باتیں کی گئیں، مجھے وہ سن کر دل کو بہت اطمینان محسوس ہوا اور اپنے دوسرے خلیفہ کے حوالے سے انہوں نے تہذیب اور کلچر کی جو تعریف بیان کی تھی، دونوں کا باہمی تعلق بتایا اس سے جدید دور کے اہلِ دانش انکار نہیں کر سکتے۔ کہتے ہیں کہ خلیفہ نے قرآنی آیات کی بڑے احسن رنگ میں وضاحت کی ہے ۔یہ وہی آیات ہیں جو اسلام سے متنفر لوگ سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرتے ہیں۔
پھر ایک خاتون ہیں ناہونڈی (Nahawandi)صاحبہ کہتی ہیں اس خطاب کی یورپ میں وسیع پیمانے پر اشاعت ہونے سے اسلام کے بارے میں پائے جانے والے تحفظات دور ہوں گے اور یک طرفہ طور پر پائے جانے والے منفی تاثرات کا ازالہ ہو سکے گا۔
پھر مسجد مہدی آباد کا افتتاح تھا ۔اس میں بھی جرمنی کی نیشنل پارلیمنٹ کے ممبر تھے، علاقے کے لارڈ میئر، صوبائی اسمبلی کے ممبر، صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر، علاقے کے پانچ میئرز، پانچ (ڈسٹرکٹس) پارلیمنٹس کے چیئرمین آئے اور اس تقریب میں تقریباً 170؍ مہمان شامل ہوئے۔
ایک مہمان جو وائس میئر ہیں ، یہ خاتون ہیں،کہتی ہیں کہ میں واپس جا کر ضرور خلیفہ کی باتوں کو پھیلاؤں گی۔ اور جب بھی کوئی اسلام پر اعتراض کرے گا تو میں خلیفہ وقت کے ارشاد کو پیش کرتے ہوئے اسلام کا دفاع کرنے کی کوشش کروں گی۔ آپ آج ہم مہمانوں سے ہی مخاطب نہیں ہوئے بلکہ اپنی جماعت کے افراد کو بھی اس طرف توجہ دلائی کہ آپ لوگوں نے مسجد کے بننے کے بعد پہلے سے بڑھ کر انسانیت کی خدمت کرنی ہے۔
پھر ایک خاتون ہیں انجلیکا (Angelika)صاحبہ۔ کہتی ہیں اس خطاب سے مجھے یہ سبق حاصل ہوا ہے کہ ہمیں اس بارے میں غور کرنا چاہیے کہ ہمارا دوسروں سے روز مرہ کا رویہ کیسا ہے۔ ہمیں دوستوں اور غیروں کی مدد کرنی چاہیے۔
پھر ایک مہمان کہتے ہیں کہ یہاں آنا بڑا اچھا لگا۔ اسلام کے بارے میں بہت سے تحفظات دور ہو گئے اور جس طرح رواداری کاپہلو بیان کیا ہے وہ سب تمام مذاہب کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔
پھر ایک مہمان اُلف (Ulf)صاحب ہیں جو کنسلٹنٹ آف منسٹر پریذیڈنٹ (Consultant of Ministerpresident) ہیں۔ کہتے ہیں کہ خطاب میں جو بات مجھے نہایت عمدہ لگی وہ یہ تھی کہ آپ نے ایسے پہلو بیان کیے جو تمام مذاہب میں اتحاد پیدا کرنے والے ہیں۔ میں تو ایک عیسائی چرچ کا ممبر ہوں اور باوجود اس کے کہ ہمارے عبادت کے طریق اور آپ کے مذہب میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا آپس میں اختلاف ہو گا لیکن پھر بھی امام جماعت نے ایسے پہلو بیان کیے جن کی ہر کوئی تائید کر سکتا ہے۔ میرا تو یہ ایمان ہے کہ ہم سب کا ایک ہی خدا ہے۔ صرف عبادت کا طریق مختلف ہے۔ چلو اتنا تو کم از کم قریب آنا شروع ہو گئے۔
ایک مہمان ویٹک (Witecke)صاحب تھے وہ کہتے ہیں کہ اپنے خطاب میں عورت کے مقام کو بہت اچھے رنگ میں بیان کیا ہے اور اس سے اسلام میں عورت کا مقام اور معاشرے میں عورت کی تکریم ظاہر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ان لوگوں کے سینے اسلام کی حقیقی تعلیم کو سمجھنے کے لیے بھی کھل جائیں اور اسے قبول کرنے والے بھی ہوں اور حقیقی توحید کو ماننے والے بھی ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے آنے والے ہوں۔ یہی ان کی بقا ہے ورنہ یہ جو ان کا خیال ہے کہ عارضی دنیاوی ترقیاں ان کی بقا ہیں تو یہ ان کی بقا کی کوئی ضمانت نہیں۔
میڈیا کے بارے میں بھی کچھ بات بتا دوں کہ ہالینڈ میں دو میڈیا چینلز آر۔ٹی۔وی نن سپیت (Nunspeet) اور یوروٹائمز میں رپورٹیں نشر ہوئیں۔ 75؍ہزار افراد تک پہنچیں۔ بیت العافیت المیرے کی ٹی وی چینل پر رپورٹ نشر ہوئی۔ پندرہ لاکھ افراد تک پہنچی۔ پہلی 75؍ ہزار افراد تک تھی۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ بھی ہزاروں میں پہنچی۔ ہالینڈ کے دوران ان کا خیال ہے کہ میڈیا کے ذریعہ سولہ لاکھ افراد تک پیغام پہنچا جس میں زیادہ تر المیرے مسجد کی کوریج تھی جو ان کے نیشنل ٹی وی نے دی تھی۔
فرانس کی نیوز ایجنسی ہے ‘‘نیشنل نیوز ایجنسی’’ ۔انہوں نے یونیسکو والے خطاب کے حوالے سے ایک آرٹیکل شائع کیا اور اس آرٹیکل کے آخر میں لکھنے والے نے اس بات پر حیرانی کا ذکر کیا کہ خلیفہ نے احمدیوں کے مظالم پر کوئی بات نہیں کی۔پھر سٹراس برگ میں مسجد مہدی کے افتتاح کے حوالے سے ڈی۔این۔اے میں خبر شائع ہوئی۔ ریڈیو چینل پر رپورٹ آئی اور اس طرح یہ خبر (میڈیا) آؤٹ لٹس کے ذریعہ بھی کئی ملین افراد تک پہنچی۔
جرمنی میں ویزبادن اور فلڈا اور برلن اور مہدی آباد کے جو فنکشن ہوئے ہیں ان میں مجموعی جائزے کے مطابق کُل تیرہ اخبارات میں، چار ٹی وی چینلز پر، ایک ریڈیو چینل پر اور الیکٹرانک میڈیا میں بارہ رپورٹس شائع ہوئی ہیں اور رپورٹ دینے والے کے خیال میں جو کہ خارجہ سیکرٹری ہیں، ان کا خیال ہے کہ تقریباً انچاس (49)ملین تک اس مختلف میڈیا کے ذریعے سے یہ پیغام پہنچا ہے۔ اس طرح ریویو آف ریلیجنز نے بھی اپنے ذریعے سے تقریباً ڈیڑھ ملین لوگوں تک پیغام پہنچایا۔ اللہ کرے کہ یہ پیغام جیسا کہ پہلے میں نے کہالوگوں کے سمجھنے کا باعث بھی بنے۔
نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرم مولوی محمود احمد صاحب مبلغ سلسلہ پال گھاٹ (کیرالہ انڈیا ) کا ہے۔ 54؍سال کی عمر میں 15؍ اکتوبر کو ان کی وفات ہوئی تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
ان کے خاندان میں احمدیت ان کے والد مکرم مولوی کے محمد علوی صاحب کے ذریعہ آئی تھی جو کہ غیر احمدیوں کے معروف عالم تھے۔ قبول احمدیت کی وجہ سے انہیں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے ذریعہ صوبہ کیرالہ میں سینکڑوں افراد کو قبول احمدیت کی توفیق حاصل ہوئی۔ مرحوم مولوی کے محمود احمد صاحب نے اپنے والد کی نصیحت پر کالج کی تعلیم ترک کر کے جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا تھا اور 1988ء میں جامعہ پاس کیا۔ مرحوم ایک بہت بڑے عالم تھے، متقی تھے، صوم و صلوٰة کے پابند، تہجد گزار، دعا گو، غریب پرور، صابر اور شاکر مخلص انسان تھے۔ قرآن کریم، حدیث، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اور خلفائے کرام کی کتب کا گہرا مطالعہ تھا۔ عربی، اردو، ملیالم اور تامل زبانوں پر بھی کافی عبور تھا۔ مرحوم کے پاس اپنی ذاتی لائبریری تھی۔ اس میں بے شمار نایاب کتابیں تھیں۔ صوبہ کیرالہ، تامل ناڈو، لکش دیپ اور بیرونِ ملک کویت میں ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ ایک اچھے مقرر اور مناظر بھی تھے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر 1994ء میں ان کو محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد اور حافظ مظفر احمد صاحب کے ساتھ جماعت کے ایک شدید مخالف مولوی کے ساتھ مناظرے کی بھی توفیق ملی۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں دو بیویاں اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ دو داماد اللہ تعالیٰ کے فضل سے واقفِ زندگی ہیں۔
ان کے ایک داماد لکھتے ہیں کہ جامعہ کے آخری سال کی چھٹیوں میں اپنے والد صاحب کی ہدایت پر گھر نہیں گئے بلکہ دو ماہ خالص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرنے کے لیے وقف کر دیا۔ جامعہ کے طلبہ کے لیے اس میں ایک بڑا نمونہ ہے۔ ہندوستان کے صوبہ کیرالہ سے احمدیت کو مٹانے کے لیے وہاں کے تمام غیر احمدی مسلمان فرقوں نے متحد ہو کر ایک انجمن بنائی جس کا نام انجمن اشاعتِ اسلام رکھا ۔ یہ ایک تنظیم تھی۔ اس تنظیم نے کیرالہ کے طول و عرض میں مسلسل جماعت احمدیہ کے خلاف اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات پر اعتراض کرتے ہوئے جلسے منعقد کیے۔ اس کے جواب میں جگہ جگہ پر جماعت نے جو جلسے کیے وہ مرحوم کی ہی قیادت میں ہوئے۔ 1998ء میں اور 2015ء میں انجمن اشاعت اسلام کے ساتھ جماعت کے تاریخی مناظرے ہوئے جس میں موصوف کو بطور مناظر خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ علاوہ ازیں اہلِ قرآن اور اہلِ حدیث کے ساتھ بھی محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ نے کامیاب مباحثات کرنے کی سعادت پائی۔ مرحوم صوم و صلوٰة کے پابند تھے۔ چھوٹی عمر میں ہی تہجد پڑھنے کے عادی تھے۔ ان کے داماد لکھتے ہیں کہ لڑکپن کا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ مرحوم نماز ِتہجد ادا نہیں کر سکے جس پر ان کے والد صاحب نے کہا کہ بیٹا کیا آپ نہیں چاہتے کہ آپ کو مقام محمود ملے؟ اس دن سے آپ نے اس وصیت کو پلے باندھ لیا اور عمر بھر اس پر عمل درآمد کیا حتیٰ کہ بیماری اور اشد کم زوری کی حالت میں بھی اس پر قائم رہے۔ خلافت کے ساتھ والہانہ محبت اور عقیدت تھی اور اخلاص کا گہرا تعلق تھا۔ تعلیمی، تربیتی، تبلیغی نشست میں بڑا حصہ خلافت کے لیے مخصوص ہوتا تھا۔ اسی موضوع پر بات کرتے تھے اور اس موضوع پر بات کرتے ہوئے اکثر جذباتی ہو جایا کرتے تھے۔ 2015ء میں ایک خاتون اپنے بچوںکے ساتھ احمدی ہوئیں ان کے خاوند بیرونِ ملک تھے۔ جب وہ آئے تو انہوں نے ان کو تبلیغ کی۔ انہوں نے ایک سوال کیا کہ خلافت کو ماننے کی ضرورت کیا ہے؟ اس پر مرحوم نے منصبِ خلافت اور خلافت کی اہمیت و برکات کے بارے میں اتنے جذباتی انداز میں باتیں کیں کہ ان کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں جس کا اس غیر از جماعت پر بھی ایسا اثر ہوا کہ باقی باتیں تو ٹھیک تھیں اور اس بات کو سنتے ہی فوراً انہوں نے بھی بیعت کر لی۔
حقیقت میں وہ خلافت کے سلطانِ نصیر تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(الفضل انٹر نیشنل 22 نومبر2019ءصفحہ 5تا 9)