امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ فرانس 2019ء
اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
انفرادی و فیملی ملاقاتیں۔ ملاقات کرنے والوں کے تأثرات
جماعت احمدیہ فرانس کے 27ویں جلسہ سالانہ کا آغاز۔ تقریب پرچم کشائی ،خطبہ جمعہ ، اجلاس مستورات اور فرنچ مہمانوں کے ساتھ پروگرام کی روئیداد
………………………………
03؍اکتوبر2019ءبروزجمعرات
……………………………
حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے صبح چھےبج کر پینتالیس منٹ پرہال میں تشریف لا کر نمازِفجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاپنی رہائش گاہ پرتشریف لے گئے۔
صبح حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔
پروگرام کے مطابق دو بجے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ہال میں تشریف لا کر نمازِظہروعصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
پچھلے پہر بھی حضورِانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دفتری امور کی ادائیگی میں مصروفیت رہی۔
پروگرام کے مطابق چھے بجے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔
آج ملاقاتوں کے اس سیشن میں 45 فیملیز کے 160 افراد نے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی سعادت پائی۔ہر ایک فیملی نے حضورِانور کےساتھ تصویر بنوانے کا شرف پایا۔ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تعلیم حاصل کرنے والے طلبا اور طالبات کو قلم عطافرمائے اور ازراہِ شفقت چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطافرمائے۔
آج ملاقات کرنے والی یہ فیملیز پیرس (Paris) کی پانچ جماعتوں سے 80 کلومیٹر کا سفر طے کرکے آئی تھیں۔ اس کے لیے Epernay جماعت سے آنے والے احباب اور فیملیز یک صد کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے پہنچی تھیں۔ ان سبھی نے جہاں اپنے پیارے آقا سے ملاقات کاشرف پایا وہاں ہر ایک ان بابرکت لمحات سے بے انتہا برکتیں سمیٹتے ہوئے باہر آیا۔ بیماروں نے اپنی صحت یابی کے لیے دعائیں حاصل کیں۔ مختلف پریشانیوں اور مسائل میں گھِرے ہوئے لوگوں نے اپنی تکالیف دور ہونے کے لیے دعا کی درخواستیں کیں اور تسکین قلب پاکر مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ باہر نکلے۔ طلباء اور طالبات نے اپنی تعلیم اور امتحانات میں کامیابی کے حصول کے لیے اپنے پیارے آقا سے دعائیں حاصل کیں۔ غرض ہر ایک نے اپنے پیارے آقا کی دعاؤں سے حصہ پایا۔ راحت وسکون اور اطمینان قلب حاصل ہوا۔
ایک افریقن فیملی جب ملاقات کرکے دفتر سے باہرآئی تو فیملی کے سربراہ حافظ سلیم طور ےصاحب کہنے لگے کہ آج میں بہت خوش ہوں۔ پیارے آقا کا قرب ہمیں نصیب ہوا ہے۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں بیان کرسکوں کہ اس وقت میرے دل کی کیا کیفیت ہے۔ میرے دل میں کیا ہے۔ میرا دل شکرکے جذبات سے بھرا ہوا ہے۔ صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ الحمدللہ۔ الحمدللہ۔
پاکستان سے آنے والے ایک دوست عمران احمد صاحب نے بیان کیا: آج یہ ملاقات میری زندگی کا خوش قسمت ترین لمحہ ہے۔ میں ہمیشہ یہ دعا کیا کرتا تھا کہ کبھی زندگی میں میری بھی پیارے آقا سے ملاقات ہو۔ آج میری دعا کی قبولیت کی گھڑی تھی۔ مجھے انتہائی قریب سے حضورِانور کا دیدار نصیب ہوا۔ میں اسے کبھی بھول نہیں سکتا۔
ایک نوجوان کہنے لگا: آج میں بہت خوش ہوں۔ میں زیادہ بیان کرنے کی سکت نہیں پاتا۔ بس اتنا کہتاہوں کہ ’’اللھم ایّد امامنا بروح القدس۔‘‘
ایک بچہ خوشی خوشی بتا رہا تھا کہ حضور نے مجھے پین اور چاکلیٹ دی ہے۔ میں اس پین سے اپنے سکول کا کام کروں گا اور اب زیادہ محنت کروں گا۔
ملاقاتوں کا یہ پروگرام آٹھ بجے تک جاری رہا ۔ بعدازاں سوا آٹھ بجے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ہال میں تشریف لا کر نمازِمغرب وعشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گے۔
جماعت احمدیہ فرانس کا 27واں جلسہ سالانہ 4؍اکتوبر بروز جمعۃ المبارک کو اسی جگہ پر شروع ہورہا ہے۔ پختہ عمارات کے علاوہ اِس وسیع وعریض قطعہ زمین پر مارکیز اور شامیانے، خیمہ جات لگا کر جلسہ سالانہ کےا نتظامات کیے گئے ہیں۔
مردانہ اور لجنہ کے جلسہ گاہ کے علیحدہ علیحدہ احاطہ میں مارکیز لگائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ جلسہ کے مردانہ حصہ میں MTA کےا نتظامات کے لیے علیحدہ مارکی ہے۔ خاص مہمانوں کا انتظام ایک علیحدہ مارکی لگا کر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ شعبہ نمائش، شعبہ تبلیغ، شعبہ ہیومینٹی فرسٹ، شعبہ امانات کے لیے مارکیز لگا کر انتظام کیا گیا ہے۔
دفتر جلسہ سالانہ، شعبہ رجسٹریشن اور شعبہ scanning کے لیے بھی دفاتر قائم کیے گئے ہیں۔
رہائش کے لیے اور کھانا کھانے کے لیے علیحدہ علیحدہ مارکیز لگائی گئی ہیں۔ بازار کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ بیوت الخلاء کا انتظام بھی علیحدہ طور پر کیا گیا ہے۔
جلسہ گاہ کے لجنہ کے حصہ میں لجنہ کے جلسہ گاہ کےعلاوہ لجنہ کے لیے کھانا کھانے کی مارکی بھی لگائی گئی ہے۔ شعبہ رجسٹریشن اور دیگر دفاتراور لجنہ کے لیے ایک علیحدہ بازار کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ بیوت الخلا کا انتظام بھی ہے۔
مردوں اور خواتین کے لیے علیحدہ علیحدہ پارکنگ کے لیے کھلی جگہ مہیا کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس قطعہ زمین پر، جماعت کے اس سینٹر‘‘بیت العطاء’’میں جو قریباً پونے چھ ھیکٹر پر مشتمل ہے جلسہ سالانہ کے تمام انتظامات بڑی آسانی سے طے پائے ہیں۔ اللہ کے فضل وکرم سے جماعت فرانس کو ایک بڑی وسیع اور کھلی جگہ اپنے جلسے کے لیے میسر آگئی ہے۔ الحمدللہ
…………………………………
04؍اکتوبر2019ءبروزجمعۃالمبارک
…………………………………
حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے صبح چھےبج کر پینتالیس منٹ پرہال میں تشریف لا کر نمازِفجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاپنی رہائش گاہ پرتشریف لے گئے۔
صبح حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مختلف نوعیت کے دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ فرانس کے 27ویں جلسہ سالانہ کا آغاز ہورہا تھا۔ اور آج جلسہ سالانہ کا پہلا روز تھا۔
پروگرام کے مطابق دو بجے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پرچم کشائی کی تقریب کے لیے تشریف لائے۔ حضورِانور نے لوائے احمدیت لہرایا۔ جب کہ امیر صاحب فرانس نے فرانس کا قومی پرچم لہرایا۔ بعدازاں حضورِانور نے دعاکروائی۔ MTA انٹرنیشنل کی یہاں جلسہ گاہ سے Live نشریات شروع ہو چکی تھیں۔ پرچم کشائی کی یہ تقریب بھی دنیا بھر میں براہِ راست دکھائی گئی۔
بعدازاں حضورِانور مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لائے اور خطبہ جمعہ ارشادفرمایا۔ جس کے ساتھ جلسہ کا افتتاح ہوا۔
(اس خطبہ کا مکمل متن الفضل انٹر نیشنل کے 25؍اکتوبر 2019ءکے شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں)
حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہ خطبہ جمعہ دو بج کر پچپن منٹ تک جاری رہا۔
بعدازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے نماز جمعہ کے ساتھ نمازِعصر جمع کرکے پڑھائیں۔
نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے امیر صاحب فرانس کو ہدایت فرمائی کہ سٹیج پر جو بینرہے، نمازوں کے وقت اس کے نچلے حصہ کو کپڑے سے ڈھانپ دیا کریں تاکہ نظر نہ پڑے۔ بینر پر جماعت فرانس کے گزشتہ جلسہ سالانہ کو تصویری زبان میں پیش کیا گیا تھا اور جماعت کے نئے سنٹربیت العطاء کا نقشہ تصویری زبان میں دکھایا گیا تھا۔
بعدازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاپنی رہائش گاہ پر تشریف لے آئے۔
آج نمازِجمعہ پر حاضری تیرہ صد (1300)کے لگ بھگ تھی۔ اس میں بیرونی ممالک سے چارصد سے زائد مہمان شامل ہوئے تھے۔
فرانس کے علاوہ، جرمنی، برطانیہ، بیلجیم، سپین، الجیریا، بورکینیا فاسو، کینیڈا، گیمبیا، آئیوری کوسٹ، ھالینڈ، اٹلی، مالی، پاکستان، سینیگال، سوئٹزرلینڈ، متحدہ عرب امارات اور یوایس اے سے تعلق رکھنے والے احباب شامل ہوئے۔
حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا خطبہ جمعہ اس جلسہ گاہ سے MTAانٹرنیشنل پر براہِ راست نشر ہوا۔
پروگرام کے مطابق آٹھ بجے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ گاہ تشریف لا کر نمازمغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
………………………………
05؍اکتوبر2019ءبروزہفتہ
………………………………
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح 6بج کر 45منٹ پر تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے رہائشی حصہ میں تشریف لے گئے۔
صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے ساتھ مستورات کا اجلاس
آج پروگرام کے مطابق لجنہ جلسہ گاہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطاب تھا۔
پروگرام کے مطابق ساڑھے12بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لجنہ جلسہ گاہ میں تشریف لائے۔ صدر لجنہ اماءاللہ فرانس فرحت فہیم صاحبہ و ناظمہ اعلیٰ نے اپنی نائب ناظمات کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا استقبال کیا اور اپنے پیارے آقا کو خوش آمدید کہا۔
اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزہ انعم کاہلوں صاحبہ نے کی اور اس کا اردو ترجمہ عزیزہ ہاجرہ ہادی صاحبہ نے پیش کیا۔
اس کے بعد عزیزہ عائشہ سندس صاحبہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا منظوم کلام؎
اِک نہ اک دن پیش ہوگا تو فنا کے سامنے
چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضاء کے سامنے
خوش الحانی سے پیش کیا۔
بعد ازاں پروگرام کے مطابق حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی 41طالبات کو اسناد عطا فرمائیں۔
تعلیمی ایوارڈ حاصل کرنے والی ان خوش نصیب طالبات کے نام درج ذیل ہیں:
اقراء خلیل۔ BTEC نیشنل ڈپلومہ
مہ جبین اظہر۔BTEC نیشنل ڈپلومہ
سائرہ کنول داؤد۔ BTEC نیشنل ڈپلومہ
قمر ضیاء۔ BTEC نیشنل ڈپلومہ
درثمین طوبیٰ وسیم۔BTEC نیشنل ڈپلومہ
طوبیٰ طاہر۔ BTEC نیشنل ڈپلومہ
Aneeza Asim۔ماسٹرز اِن سائنس
Ines Rezig۔ اے لیول
Amina Chettih۔اے لیول
Imane Haddioui۔اے لیول
Nughz Tul Zahra۔ بی اے ٹیکسٹائل ڈیزائننگ
ذنوبیہ عامر۔بی اے ان سائنس(Digital and Creative Media)
Ines Doobory۔بی اے ماڈرن لٹریچر
فوزیہ چوہدری ۔ماسٹرزان ہومیوپیتھی
آصفہ خان ۔ماسٹر زان سائنس آف Medication
سعدیہ ظفر۔ماسٹرزسائیکالوجی
عطیہ کوثر۔ ماسٹرز ہسٹری (History)
رضوانہ اعجاز۔ماسٹرز Mathematics
مبشرہ صوف ۔ماسٹرز اردو
شفیقہ اشتیاق ۔Master in Foreigner Languages International Relation and Comparisons
اذکیٰ غلام۔ ماسٹرز اِن مینجمنٹ
قدسیہ عالم ۔ماسٹرز اِن ایجوکیشن
Asima Naseer۔ماسٹرز ایجوکیشن
بشریٰ سلام ۔ماسٹرز فزکس (Physics)
ثناء سہیل ۔ماسٹرز سائیکالوجی
مریم ناصر ۔ماسٹرز الیکٹریکل انجینئرنگ
ہبۃ النور مریم۔ ماسٹرز Material Sciences
مہوش حفیظ۔ماسٹرز ایجوکیشن
مہ جبین حفیظ۔ ماسٹرز پرائیویٹ لاء
Duriah Malik۔ Diplome of Architect of Interior/Enviromental Designer
نداء نصیر۔ماسٹرز ایجوکیشن
جویریہ خان ۔ماسٹرز اکاؤنٹنسی ،کنٹرول اینڈ آڈٹ
نداء ناصر ۔ماسٹرز اِن انگلش
میمونہ خان ۔ماسٹرز بیالوجی
مدیحہ چوہدری ۔پی ایچ ڈی جنرل میڈیسن
صنوبر خان ۔پی ایچ ڈی جنرل میڈیسن
Mamode Hossen Karina۔ماسٹرز ٹورازم
رابعہ بن اویس۔اے لیول سائنس
نادیہ انجم۔ اے لیول
ہانیہ افضال۔ ماسٹرز ایجوکیشنل سائنس
باسمہ چوہدری ۔ماسٹرز
تعلیمی ایوارڈ کی تقریب کے بعد ایک بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطاب فرمایا۔
(اس خطاب کا خلاصہ الفضل انٹرنیشنل 8؍اکتوبر 2019ء میں شائع ہو چکا ہے۔ اس خطاب کا مکمل متن حسب طریق الگ سے شائع ہو گا۔ ان شاء اللہ)
خطاب کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔
………………………………………………………………………
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا لجنہ سے یہ خطاب ایک بج کر 40منٹ تک جاری رہا۔ دعا کے بعد لجنہ اور بچیوں کے مختلف گروپس نے عربی، اردو، فرنچ زبان میں ترانے اور دعائیہ نظمیں پیش کیں۔ آخر پر افریقن خواتین نے اپنے مخصوص انداز میں کلمہ طیبہ کا ورد کیا اور نعرے بلند کیے۔
بعد ازاں دو بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لا کر نماز ظہر وعصر جمع کر کے پڑھائیں نمازوں کی ادئیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
فرنچ مہمانوں کے ساتھ پروگرام
پروگرام کے مطابق 6بج کر 40منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مردانہ مارکی میں تشریف لائے اور فرنچ مہمانوں کے ساتھ پروگرام شروع ہوا۔
مکرم عطاء الحئی صاحب نے تلاوت قرآن کریم کی اور بعد ازاں اس کا فرنچ زبان میں ترجمہ پیش کیا۔
اس کے بعد مکرم آصف عارف صاحب نیشنل سیکرٹری امور عامہ فرانس نے اپنا تعارفی ایڈریس پیش کیا۔
بعدازاں سب سے پہلے Trie Chateau کے میئر Mr David نے اپنا ایڈریس پیش کیا جس میں انہوں نے کہا:
خلیفہ کی اس چھوٹے سے شہر Trie Chateau میں آمد ہمارے لیے بہت خوشی اور اعزاز کا باعث ہے۔ اس کمیونٹی کی بھلائی اور جماعت احمدیہ کے ساتھ تعلقات میں اضافہ کے لیے امن کا پیغام بہت اہم ہے۔ مجھے امید ہے کہ موسم کی خرابی کے باوجود بھی آپ اس جلسہ سے محظوظ ہوں گے جو کہ ایک ایسی جگہ پر منعقد ہورہا ہے جو پیرس کے قریب ہے اور بہت خوشگوار مقام ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ لوگ ہمیں جانیں گے اور اپنا تعارف ہمیں کروائیں گے۔ پس میں آپ لوگوں کا اور بالخصوص خلیفہ کی اس موقع پر تشریف آوری پر شکریہ ادا کرناچاہتاہوں۔ آپ سب کا شکریہ۔
اس کے بعد ڈاکٹر Annelise Defaix صاحبہ نے اپناایڈریسں پیش کیا۔ موصوفہ پیرس یونیورسٹی کے ساتھ منسلک ہیں اور ساؤتھ ویسٹ ایشین ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتی ہیں۔ موصوفہ نے کہا:
میں پیشہ کے اعتبار سے سوشیالوجسٹ ہوں اور مسلمان اقلیتوں پر تخصّص کر رہی ہوں۔ اس غیر معمولی تقریب میں دعوت پر آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔ میں 10سال سے احمدیوں کو جانتی ہوں۔ سب سے پہلے میری احمدیوں کے ساتھ ملاقات انڈونیشیا میں ہوئی جہاں انہیں مخالفت کا سامنا تھا۔ میں ان سے بہت متاثر ہوئی تھی۔ پھر مجھے کمبوڈیا میں بھی احمد ی ملے۔ میں Saint Prix میں بھی تین سال سے احمدیوں سے مل رہی ہوں اور مذہبی اقلیتوں کے atlas میں احمدیوں کے حوالہ سے ایک باب لکھا ہے۔ اس وقت ہمارا ملک مسلمانوں کے حوالہ سے ایک نازک دور سے گزر رہا ہے جس کی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی اور ایسے وقت میں خلیفہ نے جو پیغام دیا ہے وہ ہمارے دلوں کے لیے راحت کا باعث بنا ہے اور اس تاریک دور سے نکلنے کے لیے ہمارے اندر جذبہ پیدا کر تا ہے۔ فرانس میں اسلامو فوبیا بہت عام ہو چکا ہے لیکن امن اور پیار کبھی علیحدہ نہیں ہوسکتے۔ السلام علیکم۔
اس کے بعد ڈاکٹر Langewish Katrineصاحبہ جو کہ Anthropologist ہیں اور یونیورسٹی آف Jonnas Gutenberg میں افریقن سٹڈیز کی انچارج ہیں نے اپنا ایڈر یس پیش کیا جس میں انہوں نے کہا:
میری جماعت احمدیہ سے ملاقات ویسٹ افریقہ کے ملک بورکینافاسو میں واقع ان کے ایک ہسپتال میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد میں نے اس جماعت کے ساتھ اپنارابطہ بحال رکھا اور پھر فرانس، جرمنی اور دیگر ممالک میں بھی اس جماعت کو دیکھا۔ بطور Anthropologistمیں جماعت کے فلاحی منصوبوں بالخصوص ہیومینٹی فرسٹ میں بہت زیادہ دلچسپی لیتی ہوں اور اس جماعت کا روحانیت کی تلاش اور فلاحی کاموں میں ساتھ ساتھ چلنا بہت ہی اعلیٰ چیز ہے۔ اس لیے مجھے خلیفہ کی موجودگی میں آج اس جلسہ میں شمولیت کر کے بہت خوشی مل رہی ہے۔ آپ لوگوں کو شاید بورکینافاسو میں شائع ہونے والی میری ایک کتاب اچھی لگے جس کا ایک باب ہی جماعت احمدیہ کے متعلق ہے۔
اس کے بعد حضور انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 6بجکر 53منٹ پر انگریزی زبان میں خطاب فرمایاجس کا اردو ترجمہ پیش ہے۔
خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد، تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آپ سب پر الله تعالیٰ کی رحمتیں اور سلامتی ہو۔ سب سے پہلے تو میں تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جو کہ ایک مسلمان کمیونٹی کی طرف سے منعقدہ خالص مذہبی تقریب میں شامل ہوئے ہیں۔ حالیہ چند سالوں میں بعض نام نہاد مسلمان گروہوں کےبہیمانہ اور گھناؤنے مظالم فرانس سمیت مختلف ممالک میں بے انتہا دکھ اور تکلیف پہنچانے کاباعث بنے ہیں۔ اس طرح کے حملوں کی پرزور مذمت ہی کی جاسکتی ہے اور ہماری دعائیں اور ہمدردیاں ہمیشہ ظلم وستم کا شکار ہونے والے ان لوگوں کے ساتھ رہیں گی۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اسلام کی حقیقی تعلیمات کا دہشت گردی اور انتہا پسندی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اسلام تو امن، پیار، تحمل اور صلح کا مذہب ہے۔ ‘‘اسلام’’ کا لفظی مطلب ہی ‘‘امن اور سلامتی’’ہے۔ پس ایک حقیقی مسلمان وہی ہے جو کہ خود بھی پرامن ہے اور دنیا میں بھی امن و آشتی قائم کرنے کی کوشش میں لگارہتا ہے۔ مسلمانوں کو انتہائی بنیادی سطح پر یہی تعلیم دی گئی ہے کہ جب دوسروں کو خواہ وہ مسلمان ہیں یا غیر مسلم ملیں تو ‘‘السلام علیکم’’کہیں جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ ‘‘آپ پر سلامتی ہو’’۔ ملنے کا یہ اسلامی طریق خیر خواہی کی علامت ہے جو کہ دوسرے کو امن اور سلامتی کا پیغام دیتا ہے۔ بلکہ میں نے کئی غیرمسلموں کو بھی دیکھا ہے جن کے مسلمان دوست یا واقف کار ہوتے ہیں اور وہ انہیں اسلامی طریق کے مطابق ‘سلام’ کہہ کر ملتے ہیں۔ بہر حال یہ ممکن نہیں ہے کہ ہمارا مذہب ہمیں ہر ایک پر امن و سلامتی بھیجنے کی تلقین کرتا ہو اور ساتھ ہی ہم سے یہ بھی مطالبہ کرے کہ لوگوں کی مخالفت میں ان کے حقوق غصب کریں اور ان کے خلاف مشتعل ہو کر ہتھیار لے کر کھڑے ہو جائیں۔ یہ ناممکن ہے کہ اسلامی تعلیمات میں اس قدر تضاد پایا جائے۔ اس لیے یہ واضح رکھیں کہ ہر قسم کی انتہا پسندی اور ظلم و تعدّی اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اسلام کی حقیقت سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ بانی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے زمانہ پر غور کیا جائے۔ جب آپؐ نے الله تعالیٰ کے نبی ہونے کا دعوی فرمایا توآپؐ اور آپؐ کے صحابہ شدید مخالفت اور بہیمانہ مظالم کا شکار بنے۔ اولین مسلمانوں میں سے صرف چند ایک کا ہی تعلق عزت دار اور متمول خاندانوں سے تھا لیکن اکثریت غریبوں اور غلاموں کی تھی۔ کفار مکہ ان لوگوں کو ڈرانے اور دھمکانے کے لیے ان پر شدید ظلم و بربریت ڈھاتے۔ لیکن رسول کریمﷺ عظیم صبر و حوصلہ کے ساتھ اس غیرانسانی سلوک اور سنگ دلانہ نا انصافیوں کو برداشت کرتے رہے اور اپنے پیرو کاروں کو بھی اسی بات کی نصیحت فرماتے رہے۔ مثال کے طور پر ایک موقع پر رسول کریمؐ نے ایک مسلمان میاں بیوی اور ان کے چھوٹے بچے کو دیکھا کہ کفار انہیں مار پیٹ رہے تھے اور ان پر ظلم ڈھارہے تھے۔ اس سنگدلی اور ظلم و بربریت کے باوجود رسول کریمﷺ نے انہیں ان مظالم کو صبر و استقامت کےساتھ برداشت کرنے کی تلقین فرمائی۔ آپؐ نے نہ تو ان کو بدلہ لینے کا حکم دیا اور نہ ہی دیگر مسلمانوں کو ان کفار کا مقابلہ کرنے کے لیے بلایا بلکہ آپؐ نے تو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو پرامن رہنے کا ارشاد فرمایا خواہ ان کی جان بھی چلی جائے۔ آپؐ نے انہیں اس بات کی تاکید فرمائی کہ انہیں اس کا اجر آخرت میں الله تعالیٰ کے حضور حاضر ہو کر ملے گا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
چنانچہ رسول کریم ﷺ اور آپؐ کے صحابہ کئی سال تک یہ ظلم و ستم بر داشت کرتے رہے جب تک کہ ہجرت کر کے مدینہ نہیں چلے گئے تاکہ وہاں پر آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل کر سکیں اور پرامن زندگیاں گزار سکیں۔ لیکن ہجرت کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ کفار مکہ مسلمانوں کا پیچھا کرتے ہوئے ان کے نئے وطن بھی پہنچ گئے اور وہاں بھی مسلمانوں کے خلاف جنگ شروع کر دی۔ پس تب پہلی مرتبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مقابلہ کرنے کی اجازت عطا فرمائی اور اس اجازت کا ذکر قرآن کریم کی سورة الحج کی آیات 40 و 41 میں ملتا ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ جنگ کرنے کی اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ لوگوں کی طرف سے مسلمانوں پر حملے کیے جارہے ہیں اور یہ لوگ صرف اسلام کو ہی نہیں بلکہ مذہب کو ہی صفحہ ہستی سے ختم کر دینا چاہتے تھے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر مسلمانوں کو دفاع کرنے کی اجازت نہ دی جاتی تو کوئی بھی کلیسا، گر جا، مندر، مسجد اور کسی بھی مذہب کی کوئی بھی عبادت گاه محفوظ نہ رہتی۔ پس اگر رسول کریم ﷺ اور آپؐ کے صحابہ کو مجبور اًجنگوں میں حصہ لینا پڑا تویہ تمام لوگوں کے حقوق کی حفاظت کی خاطر تھا۔ یہ اس لیے تھا کہ اس بات کی یقین دہانی کروائی جائے کہ عیسائی، یہودی، ہندو، مسلمان اور دوسرے مذاہب و عقائد کے لوگوں کو اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق اپنی مرضی سے عبادت کرنے کا حق حاصل ہو۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جیسا کہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر اسلام نے مسلمانوں کو زبردستی اپنی تعلیمات پھیلانے اور ملکوں پر قبضہ کرنے اور دیگر مذاہب کو ختم کرنے کی اجازت دی ہوتی تو قرآن کریم اتنا کھل کر کیوں کہتا کہ دیگر مذاہب کی حفاظت کرنا اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے حقوق کی حفاظت کرنا مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ابتدائی مسلمانوں نے شخصی و مذہبی آزادی کے دائمی اصول قائم کرنے کے لیے اپنی جانیں تک دے دیں۔ یہ آزادیاں اسلامی عقیدہ کی بنیاد ہیں اور ہمیشہ کے لیے قرآن کریم میں محفوظ ہو چکی ہیں۔ قرآن کریم کی سورہ بقرہ کی آیت 257 میں اللہ تعالی ٰقطعی طور پر فرماتا ہے کہ ‘‘دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ ’’یہ آزادی خیال، آزادی مذہب اور آزادی شعور کے حق میں بڑا واضح بیان ہے جس میں کسی قسم کا ابہام نہیں پایا جاتا۔
حضورانور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے دور میں غیر مسلم افراد کی کبھی حق تلفی نہیں کی گئی اور نہ ہی انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا یا انہیں اپنی روایات و عقائد کو چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ آنحضرتﷺ تمام عمر امن، بین المذاہب مکالمات اور مختلف قوموں کے مابین مفاہمت اور باہمی عزت و احترام کے خواہاں رہے۔ مثال کے طور پر ہجرت مدینہ کے بعد آنحضرت ﷺنے یہودیوں سے ایک معاہدہ کیا، جس کے تحت ایک مشتر کہ حکومت قائم کی گئی اور بانی اسلام ﷺ کو متفقہ طور پر سربراہ ریاست منتخب کیا گیا۔ اس معاہدہ کی شرائط کے مطابق مسلمانوں اور یہودیوں نے ریاست کے ساتھ تعاون کرنے اور وفادار شہری بننے کا عہد کیا۔ اس معاہدہ کے تحت ہر ایک کو اپنے مذہب اور عقائد پر بغیر کسی خوف، تکلیف یا پابندی کے عمل کرنے کا حق دیا گیا تھا۔ آنحضرتﷺ نے کبھی بھی اس معاہدہ کی خلاف ورزی نہیں کی۔ جبکہ دوسری طرف بعض ایسے مواقع آئے کہ غیر مسلموں نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور پھر پہلے سے ہی متعین کردہ قوانین کے مطابق انہیں سزا دی گئی۔
حضور انور ایده الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اسلام نے کبھی بھی اپنے پیروکاروں کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ طاقت کے ذریعہ اپنا عقیدہ پھیلائیں اور نہ ہی کسی مسلمان حکومت اور رہ نما کو یہ اجازت دی کہ وہ یہ اعلان کریں کہ یہاں صرف مسلمانوں کو رہنے کی اجازت ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ میثاق مدینہ کے تحت ہر قوم کو اپنی روایات اور عقائد پر عمل کرنے کی آزادی تھی۔ وہ معاشرہ ایک اہم اصول پر یکجا تھا کہ ہر کوئی بلاامتیاز مذہب و عقیدہ اپنی اپنی ذمہ داری ادا کرے گا اور ریاست کا وفادار شہری بن کر رہے گا اور ہر اس کام سے اجتناب کرے گا جس سے معاشرے کے امن و تحفظ کو خطرہ لاحق ہو۔ اس لیے یہ بالکل نا انصافی ہے کہ معدودے چند مسلمانوں کے گمراہ کن اور برے اعمال کا الزام اسلام کی امن پسند تعلیم پر ڈالا جائے۔ یہ افراد اور تنظیمیں جو انتہا پسند ہیں اور جن کے ذاتی مفادات دہشت گردی اور انتہا پسندی سے وابستہ ہیں ، ان کا اسلام سے کوئی بھی واسطہ نہیں ہے۔ وہ بے شک اپنے نفرت سے بھرے ہوئے اقدامات کو اسلام کے نام پر جائز قرار دیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف اور صرف قرآن کریم اور بانی اسلامﷺ کی پاکیزہ اور امن پسند تعلیمات کو بدنام کرتے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
قرآن کریم کا ورق ورق اس روشن تعلیم سے بھرا ہے جس کے مطابق مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دنیا میں امن قائم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ مثلاً قرآن کریم کی سورہ زخرف کی آیات 89 اور 90 میں آنحضرت ﷺ کی ان درد بھری اور پر سوز دعاؤں کا ذکر کیا گیا ہے جن میں آنحضرت ﷺ خدا تعالی سے التجا کر رہے ہیں کہ وہ جو پیار بھری اور سچی تعلیم لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں اس کا انکار ہورہا ہے۔ جواباً الله تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو ان لوگوں سے در گزر کرنے اور امن کا پیغام پھیلاتے رہنے کی تاکید فرمائی۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
لفظ ‘‘اَمَنَ’’ کا مطلب ہے کہ ایمان لانا اور امن پھیلانا۔ اور اس لحاظ سے اللہ تعالی نے آنحضرت ﷺ کو اسلام کا پیغام پہنچانے اور باقی معاملہ اللہ پر چھوڑنے اور جن لوگوں نے اس پیغام کو مسترد کیا، انہیں مسلسل امن دیتے رہنے کی تاکید فرمائی۔ قرآن کریم نے کسی ایک جگہ بھی انکار کرنے والوں کے خلاف فساد اور طاقت کے استعمال کی تعلیم نہیں دی بلکہ مسلمانوں کو برداشت اور صبر کی نصیحت کی ہے۔ لہٰذا آج کل کے نام نہاد مسلمان رہ نما یا اسلامی حکومتیں جو انتہا پسندی اور جنونیت کا مظاہرہ کرتی ہیں، اس کا الزام انہی کے کندھوں پر ہے۔ ان کے فریبی اور مکروہ رویوں کو، جن کے باعث دنیا کا امن اور ہم آہنگی تباہ ہورہی ہے، کسی بھی صورت جائز قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی اس کی کسی طرح تلافی کی جاسکتی ہے۔
حضور انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اسلامی تعلیم اس بارہ میں قطعی ہے کہ کسی کا زبردستی مذہب تبدیل کرنا ظلم وستم کے ذریعہ دوسروں پر فتح حاصل کرنا سختی سے منع ہے۔ بلکہ امن اور معاشرہ کے تحفظ کے خلاف کوئی بھی ضرر رساں عمل ممنوع ہے۔ رسول کریمﷺ نے ہر موقع پر ملاطفت اور کریم النفسی کا مظاہرہ فرمایا۔ آپ نے سکھایا کہ سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ ہیں۔ آپؐ نے یہاں فرق نہیں کیا کہ مسلمان صرف مسلمانوں سے ہمدردی اور رحم کا سلوک کریں۔ بلکہ واضح طور پر فرمایا کہ عقائد کے اختلافات سے بالا ہو کر معاشرہ کے تمام لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہئے۔ پس وہ شدت پسند جو نائٹ کلبوں، کانسرٹ ہالوں اور سٹیڈ یمز پر خود کش حملہ کرتے ہیں یا پاگلوں کی طرح عوام الناس پر گاڑیاں چڑھادیتے ہیں وہ انتہائی وحشیانہ اور ظالمانہ رنگ میں اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
قرآن شریف نے بنیادی انسانی حقوق کے طور پر مذہبی آزادی کے علاوہ اور بھی بہت سے روز مرہ کی زندگی کے اصول سکھائے ہیں جن کے ذریعہ لوگ بلاامتیاز نسل و عقائد مل جل کر پرامن زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر سورة البقرة کی آیت نمبر 189 میں قرآن شریف نے انصاف پر مبنی تجارت کے بارہ میں بیان فرمایا ہے اور مالی تعلقات یا پیسوں کے لین دین میں نیک نیتی کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اس آیت میں الله تعالیٰ نے مسلمانوں کو نصیحت فرمائی ہے کہ انہیں کبھی دھوکہ دہی سے مال حاصل نہیں کرناچاہئے۔ بلکہ مسلمانوں کو ایماندار اور قابل اعتبار بننے کی تعلیم دی گئی ہے تاکہ مختلف لوگوں کے در میان عداوت اور کینہ نہ پید اہو۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اسلام یہ سکھاتا ہے کہ غیرمنصفانہ تجارت اور بد معاملگی معاشرہ میں اتحاد کو کمزور کر دیتی ہے اور معاشرہ کے امن کو تباہ کر دیتی ہے۔ جہاں دنیا میں انفرادی اور مجموعی سطح پر خود غرضی اور لالچ کے باعث اس قدر انتشار اور تکلیف موجود ہے، وہاں معاشرے میں امن کے قیام کے لیے انصاف اور برابری کے اصول بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ پھر سورة المطفّفین کی آیات 2 تا 4 میں قرآن شریف فرماتا ہے۔ ‘‘ہلاکت ہے تول میں ناانصافی کرنے والوں کے لیے۔ یعنی وہ لوگ کہ جب وہ لوگوں سے تول لیتے ہیں بھر پور (پیمانوں کے ساتھ) لیتے ہیں ۔ اور جب ان کو ماپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔’’ یہ آیات اس بات کی توثیق کرتی ہیں کہ جو لوگ تجارتی لین دین میں استحصالی کرتے ہیں، جو دوسروں کو کم دیتے ہیں جبکہ بدلہ میں واجب الادا سے بھی زیادہ کا مطالبہ کرتے ہیں اور دھوکا دہی اور فریب سے کام لیتے ہیں، ان پر لعنت بھیجی گئی ہے اور ان کا شمار ذلیل و رسوا ہونے والوں میں ہو گا۔
حضور انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
قرآن کریم نے بین الا قوامی تعلقات اور اندرونی اختلافات یا مختلف قوموں کے مابین اٹھنے والے اختلافات کو حل کرنے کے بارہ میں بھی رہ نما اصول تفصیل کے ساتھ بیان فرمائے ہیں۔ اسلام کی توجہ ہمیشہ پائیدار امن کے قیام اور عناد اور دشمنی کے خاتمہ کی طرف رہی ہے۔ مثال کے طور پر سورة الحجرات کی آیت نمبر 10 میں بیان فرمایا ہے کہ اگر دوگروہوں میں تصادم ہو جائے تو ان کے ہمسایوں یا کسی غیر جانبدار گروہ کو مذاکرات کے ذریعہ ان میں مفاہمت کروادینی چاہئے۔ ثالثی گروہ جو صلح کروائے اپنے مفادات سے مبرا ہو کر کروائے۔ پھر اگر مفاہمت سے پر امن فیصلہ نہ ہو سکے یا کوئی گر وہ معاہدہ کے بعد اس کی پاسداری نہ کرے تو دوسری اقوام اس فریق کے خلاف متحد ہو جائیں جو نا انصافی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اس کو زور بازو سے روکیں۔ پھر جب وہ ظلم کرنے والا باز آجائے تو پھر اس کی تذلیل نہیں کرنی چاہئے اور نہ ہی اس پر غیرمنصفانہ پابندیاں لگانی چاہئیں۔ بلکہ انصاف اور پائیدار امن کے حصول کے لیے انہیں موقع فراہم کرنا چاہئے کہ وہ آزاد معاشرہ کے طور پر آگے بڑھ سکیں اور انہیں دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے ہر قسم کی مدد بھی فراہم کرنی چاہئے۔
حضور انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمايا:
میرا اعتقاد ہے کہ یہ غیرمعمولی قرآنی اصول صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ عالمی طور پر تنازعات کو سلجھانے کے لیے بنیادی اصول ہے اور اگر اس پر عمل کیا جائے تو یہ دنیا کے استحکام اور پائیدار امن کے حصول کا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ بہت سے مسلمان ممالک اس قرآنی اصول پر عمل درآمد کرتے نظر نہیں آتے جس کے نتیجہ میں وہ بےوقوفانہ تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں اور مسلسل ظلم و ناانصافی کے دائرے میں جکڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ یہ آیت اس بات کو بھی بیان کرتی ہے کہ فاتح کو فتح حاصل کرنے کے بعد شکست خوردہ پر دباؤ نہیں ڈالنا چاہئے اور اس کی تذلیل نہیں کرنی چاہئے۔ اس کی حکمت واضح ہے کہ اگر شکست خوردہ کو ذلیل کیا جائے تو امن زیادہ دیر قائم نہیں رہے گا بلکہ اس قوم کے لیڈروں اور عوام میں اضطراب اور رنجشیں پیدا ہو جائیں گی۔ اور اس کے برعکس اگر شکست خوردہ قوم کے ساتھ شفقت اور انصاف کا سلوک کیا جائے تو باہمی احترام اور اعتماد کی فضا پیدا ہو گی۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
تاہم آج کل ہم بارہا دیکھتے ہیں کہ بڑی طاقتیں قیام امن کے نام پر ظلم و نا انصافیاں روا رکھتی ہیں جس کی وجہ سے بے چینی اور عداوتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر قسم کا امن معاہدہ نازک دھاگے سے بندھا ہواہوتا ہے جو کہ ہر وقت ٹوٹنے کے خطرہ سے دو چار رہتا ہے۔ اس قسم کے عدم استحکام سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ماسوائے دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے جو مایوس لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں اور اس کے نتائج ہم کئی سالوں سے دیکھ رہے ہیں۔ مشرق و مغرب دونوں میں امن اور کامرانی کے نیلے آسمان پر نا انصافی اور جنگ کے گھنے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ دنیا کی اکثر و بیشتر اقوام، لڑائی جھگڑا اور انتقام اور دوسروں کو نیچا دکھانے کی خواہش کی وجہ سے پھوٹ کا شکار ہیں۔ بے چینی کا یہ عالم بڑھتا چلا جائے گا جب تک کہ بین الاقوامی تعلقات کی اساس انصاف ، دیانت داری اور دوسروں کے حقوق کی ادائیگی پر نہ رکھی جائے۔ جیسا کہ میں دنیا کو آج دیکھتا ہوں، میری دعا ہے کہ دنیاماضی کی غلطیوں کو نہ دہرائے، بلکہ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے تاکہ ہم اپنے لیے اور اپنی آئندہ نسلوں کے لیے بہتر مستقبل تعمیر کریں۔
حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اگر ہم پہلی جنگ عظیم کے بعد کے حالات کو دیکھیں تو لیگ آف نیشنز بنائی گئی تھی لیکن یہ اپنے مقاصد کے حصول میں بری طرح ناکام ہوئی۔ اس کی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ انصاف اور غیرجانبداری کو روانہ رکھا گیا تھا۔ بلکہ دوستیاں اور گروہ بندیاں بن گئی تھیں اور بعض اقوام سے غیر مناسب سلوک کیا گیا اور ان کو اپنے وقار سے محروم رکھا گیا۔ جس کے نتیجہ میں جلد ہی انسانی تاریخ کی سب سے ہلاکت کن جنگ یعنی جنگ عظیم دوم شروع ہوگئی۔ بالآخر چھے سال کی تباہ کاری اور فریب کاری کے بعد یہ جنگ اپنے اختتام کو پہنچی ، تو دنیا میں امن و تحفظ کے قیام کے لیے اقوام متحدہ بنائی گئی۔ لیکن اقوام متحدہ بھی اپنے بلند و بالا مقاصد اور بیان کر دہ عزائم کے باوجود اپنے مشن میں ناکام ہو چکی ہے۔ آج دوبارہ گروہ بندی ہو رہی ہے، معاشرہ تفریق کا شکار ہو رہا ہے ۔ اور قوموں کے در میان شگاف روز بروز گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ بہت سے مسلمان اور غیرمسلم ممالک امن کا صحیح رنگ میں ادراک نہیں رکھتے اور درپیش خطرات سے لاعلم ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
یقیناً اب ہونے والی جنگ کے نتائج ان جنگوں سے کہیں زیادہ بھیانک اور تباہ کن ہیں جو کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں۔ کیونکہ کئی ملکوں نے ایٹمی ہتھیار بنا لیے ہیں۔ اگر ان میں سے ایک ملک نے بھی یہ مہلک ہتھیار استعمال کر لیے تو وہ نہ صرف اس دنیا کو جو ہم دیکھ رہے ہیں تباہ کر دیں گے بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی بھیانک اور تباہ کن نتائج پیچھے چھوڑ کر جائیں گے۔ اگر ایٹمی جنگ شروع ہوتی ہے تو نسل در نسل بچے ذہنی اور جسمانی طور پر معذور پیدا ہوں گے۔ پس اس طرح وہ اپنی قوم کی خدمت کرنے کی بجائے انتہائی تکلیف دہ و جو د بن کر زندگی گزار رہے ہوں گے اور معاشرہ پر بوجھ بن رہے ہوں گے۔ ان کے گھر مایوسی سے بھرے ہوئے ہوں گے، ان کے قصبے افسردہ اور ان کی قوم بد حالی کا شکار ہو گی۔ ہماری بیوقوفیوں اور خود غرضی کی وجہ سے ہونے والی جنگوں کی وجہ سے اگر وہ ہم پر ملامت کریں تو وہ ایسا کرنے میں بجا ہوں گے کیونکہ ان جنگوں نے ان کی پیدائش سے قبل ہی ان کے خواب چکنا چور کر دیے ہوں گے۔ پس کسی کو بھی اس خیال میں نہیں رہنا چاہیے کہ ہم جس بحران سے گزر رہے ہیں وہ ایک معمولی چیز ہے یا یہ بحران ہمارے رویے تبدیل کیے بغیر خود ہی ٹل جائے گا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
علاوہ ازیں، اگر دنیا میں امن اور تحفظ کے فقدان کا الزام اسلام پر ڈالا جا تار ہاتو د نیاکی یہ غیرمستحکم صورت حال مزید بگاڑ کا شکار ہوتی رہے گی۔ کسی مذہب یا اس کے پیروکاروں پر حملہ کرنے سے اس تفریق میں مزید اضافہ ہی ہو گا۔ اس سے صرف انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی ہی ہوگی جس سے تمام جماعتوں اور عقائد کے مابین نفرت کی آگ بھڑکانے کی کوششوں میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جیسا کہ میں نے صاف طور پر بیان کر دیا ہے کہ اگر مسلمان ممالک یا دہشت گرد گروہ اسلام کے نام پر ظلم کرتے ہیں تو یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ اپنی تعلیمات سے منحرف ہوچکے ہیں اور صرف ذاتی مفادات کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ آج کل کے تنازعات اور جنگوں کا مذہب سے کچھ لینا دینا نہیں بلکہ فقط دولت، طاقت اور جغرافیائی فتح کی غرض سے ہیں۔
حضور انور ایدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ان باتوں کے پیش نظر میں اپنے دل کی گہرائیوں سے دعا گو ہوں کہ اللہ کرے کہ دنیا والے مشترکہ مفاد کی خاطر اکٹھے ہوں اور اتحاد کے ساتھ کام کریں اور باہمی اعتماد اور مفاہمت کو پروان چڑھائیں۔ آیئے ہم سب مذہب پر الزام لگانے یا ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے کی بجائے مل کر اپنی تمام تر طاقت امن کے قیام کے لیے صرف کریں اور اپنی آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ مستقبل چھوڑ کر جائیں۔ ہماری آئندہ نسلیں ہمیں نفرت اور ناراضگی کے ساتھ نہیں بلکہ انس اور پیار کے ساتھ یاد کریں۔ اللہ کرے کہ تمام افراد اور تمام اقوام ایک دوسرے کے حقوق پورے کرنے والی ہوں ۔ اور الله کرے کہ ہمدردی اور انصاف ہر قسم کی نا انصافی اور تنازعات پر غالب آجائے۔
ان الفاظ کے ساتھ میں اب ایک دفعہ پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ سب یہاں آئے۔ بہت بہت شکریہ
………………………………………………………………………
خطاب کے آخر میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔ جس میں تمام مہمان اپنے اپنے طریق کے مطابق شامل ہوئے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا یہ خطاب 7بجکر 23منٹ تک جاری رہا۔ بعد ازاں پروگرام کے مطابق حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے فرنچ ایڈیشن کی ویب سائٹ کا اجراء فرمایا۔
اب اس رسالہ کے پرنٹ ایڈیشن کے ساتھ ساتھ اس کا انٹرنیٹ ایڈیشن بھی دستیاب ہوگا۔ اس طرح ان شاء اللہ العزیز اس رسالہ کے ذریعہ فرنچ زبان بولنے والے کروڑوں لوگ تک اسلام کا حقیقی پیغام پہنچے گا۔
رسالہ ریویو آف ریلیجنز وہ بابرکت رسالہ ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے 1902ء میں مغربی دنیا کو اسلام کی خوبصورت اور حقیقی تعلیم سے روشناس کروانے کے لیے جاری فرمایا۔ حضور علیہ السلام کے عہد مبارک میں ہی اس رسالہ کی شہرت اس قدر ہوئی کہ مغربی اخبارات، رسائل اور علمی طبقہ نے اس کے مختلف حوالہ جات دیے۔
اس وقت تک رسالہ ریویو آف ریلیجنز چار زبانوں انگریزی (ماہانہ) جرمن (سہ ماہی)، فرنچ (سہ ماہی) اور سپینش (سہ ماہی) شائع ہو رہاہے۔
فرنچ ایڈیشن گزشتہ دو سالوں سے پرنٹ ایڈیشن میں دستیاب تھا۔ لیکن اب انٹرنیٹ کے ذریعہ ایک کثیر تعداد کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آگاہ کرنے کا باعث ہوگا۔ ان شاء اللہ العزیز
بعدازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزمارکی سے باہر تشریف لائے اور ہیومینیٹی فرسٹ فرانس کے دفتر میں تشریف لے گئے۔ اس شعبہ نے بھی جلسہ کے موقع پر اپنا ایک دفتر قائم کیا تھا۔ جس میں اس شعبہ کے ذریعہ ہونے والے کاموں کو نمایاں کر کے تصویری اور تحریری زبان میں دکھایا گیا تھا۔ حضور انور نے معائنہ فرمایا اور بعض امور کے متعلق دریافت فرمایا۔
آج کی اس تقریب میں Francophoneممالک سے تعلق رکھنے والے 75مہمان شامل ہوئے۔ علاوہ ازیں ان ممالک سے تعلق رکھنے والے نومبائع احمدی احباب بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔
ایک علیحدہ مارکی میں ان مہمانوں کے لیے شام کے کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ پروگرام کے مطابق حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس مارکی میں تشریف لائے جہاں ان مہمانوں نے حضور انور کی معیت میں کھانا تناول فرمایا۔
کھانا کھانے کے بعد مہمانوں نے باری باری حضور انور سے ملاقات کی سعادت پائی۔ مہمان باری باری حضور انور کے پاس تشریف لاتے۔ حضور انور ازراہ شفقت مہمانوں سے گفتگو فرماتے۔ مہمان حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پاتے۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکچھ دیر کے لیے اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
آٹھ بجکر 50منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کر کے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
…………………………………(باقی آئندہ)