نشان آسمانی
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصنیفِ لطیف نشان آسمانی کے تعارف پر جامعہ احمدیہ گھانا میں علمی نشست
اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
مؤرخہ23اکتوبر2019ء کو جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا کے سیمینار ہال میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی عظیم الشان کتاب‘‘نشان آسمانی’’ کے تعارف پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزم سلمان ابراہیم نے کی۔بعد ازاں خاکسار نے کتاب کا تفصیلی تعارف بزبان انگریزی پیش کیا اور کتاب سے متعلق طلباء کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔الفضل انٹرنیشنل کے معزز قارئین کے لیے اس کتاب کا تعارف اور خلاصہ مضامین ذیل میں درج ہے۔
تعارف کتاب
رسالہ نشان آسمانی مئی 1892ء میں لکھا گیا اور جون 1892ء میں شائع ہوا۔اس کا دوسرا نام ‘‘شہادت الملہمین‘‘ہے۔یہ کتاب روحانی خزائن جلد نمبر4کے صفحہ نمبر 355تا412پر ہے۔اس میں حضور علیہ السلام نے ہندوستان کے دو اولیاء اللہ کی پیشگوئیاں درج فرمائی ہیں جن سے آپ کے دعویٰ کی صداقت ثابت ہوتی ہے۔ان میں سے ایک بزرگ شاہ نعمت اللہ ولی صاحب ہیں۔یہ مرد باخدا ہندوستان میں ولایت اور اہل کشف ہونے کا غیر معمولی شہرہ رکھتے ہیں اور دہلی کے نواح کے رہنے والے تھے۔ان کا زمانہ ان کے دیوان کے مطابق پانچ سو ساٹھ ہجری ہے۔یہ پیشگوئی فارسی زبان میں ایک قصیدہ میں لکھی گئی ہے۔
(صفحہ363اور369)
دوسرے بزرگ مجذوب گلاب شاہ تھے جن کا زمانہ رسالہ‘‘نشان آسمانی’’کی تصنیف سے تیس یا اکتیس برس پہلے کاہے۔(صفحہ361)یہ بزرگ صاحبِ خوارق و کرامات تھے۔ ان کے ایک کامل مریدمیاں کریم بخش صاحب نے ان کی پیشگوئی حضور علیہ السلام کے سامنے حلفاً بیان کی۔
مذکورہ بالا دو پیشگوئیوں کے علاوہ اس کتاب میں دجال کی حقیقت،احادیث نبویہ ؐکی روشنی میں مہدی موعوؑدکی تعیین،مولوی محمد حسین بٹالوی کی طرف سے آپ پر لگائے جانے والے فتویٰ تکفیر کی اصلیت ،الٰہی نشانوں کی حقانیت،خوابوں کے ذریعہ لوگوں کا احمدیت قبول کرنا ،آپ کی صداقت معلوم کرنے کے لیے استخارہ کا طریق اور جماعتی واعظین کی اہمیت کے حوالے سے حقائق و معارف پر مشتمل لطیف مضامین شامل ہیں۔
اس پیشگوئی کے مصداق سید احمد بریلوی شہید نہیں ہوسکتے
مولوی محمد اسمعیل صاحب شہید دہلوی نے نعمت اللہ ولی صاحب کی پیشگوئی کو اپنے مرشدسید احمد بریلوی پر چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس سلسلہ میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: اس پیشگوئی میں وہ پتے اور نشان دیے گئے تھے کہ کسی طرح سید احمد صاحب ان علامات کے مصداق نہیں ٹھہر سکتے تھے………سید موصوف نے یہ دعویٰ جو ان کی نسبت بیان کیا جاتا ہے اپنی زبان سے کہیں نہیں کیا اور کوئی بیان ان کا ایسا پیش نہیں ہوسکتا جس میں یہ دعویٰ موجود ہو اور ان سب باتوں سے بڑھ کر یہ امر ہے کہ شیخ نعمت اللہ ولی نے ان اشعار میں اس آنے والے کی نسبت یہ بھی لکھا ہے کہ وہ مہدی اور عیسیٰ بھی کہلائے گا حالانکہ صاف ظاہر ہے کہ سید احمد صاحب نے کبھی عیسیٰ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ پھر انھیں اشعار میں ایک یہ بھی اشارہ کیا ہے کہ اسکے بعد اسکے رنگ پر آنے والا اس کا بیٹا ہوگا کہ اس کا یادگار ہوگا۔ اب صاف ظاہر ہے کہ سید احمد صاحب نے ایسے کامل بیٹے کی نسبت کوئی پیشگوئی نہیں کی اور نہ کوئی ان کا ایسا بیٹا ہوا کہ وہ عیسوی رنگ سے رنگین ہو۔
(صفحہ363-364)
دجال کی جامع تشریح
‘‘نبی کریم نے جن بد باتوں کے پھیلنے کی آخری زمانہ میں خبر دی ہے اسی مجموعہ کا نام دجالیت ہے جس کی تاریں یا یوں کہو کہ جس کی شاخیں صدہا قسم کی آنحضرت نے بیان فرمائی ہیں۔ چنانچہ ان میں سے وہ مولوی بھی دجالیت کے درخت کی شاخیں ہیں جنہوں نے لکیر کو اختیار کیا اور قرآن کو چھوڑ دیا۔ قرآن کریم کو پڑھتے تو ہیں مگر ان کے حلقوں کے نیچے نہیں اترتا۔ غرض دجالیت اس زمانہ میں عنکبوت کی طرح بہت سی تاریں پھیلا رہی ہے۔ کافر اپنے کفر سے اور منافق اپنے نفاق سے اور میخوار میخواری سے اور مولوی اپنے شیوہ گفتن و نہ کردن اور سیہ دلی سے دجّالیت کی تاریں بُن رہے ہیں ان تاروں کو اب کوئی کاٹ نہیں سکتا بجز اُس حربہ کے جو آسمان سے اترے اور کوئی اس حربہ کو چلا نہیں سکتا بجز اس عیسیٰ کے جو اسی آسمان سے نازل ہو سو عیسیٰ نازل ہوگیا۔ وکان وعداللّٰہ مفعولًا۔’’
(صفحہ369)
اما م مہدی کی تعیین
‘‘اگرچہ اس میں کچھ شک نہیں کہ احادیث میں جہاں جہاں مہدی کے نام سے کسی آنے والے کی نسبت پیشگوئی رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی درج ہے اسکے سمجھنے میں لوگوں نے بڑے بڑے دھوکے کھائے ہیں اور غلط فہمی کی وجہ سے عام طور پر یہی سمجھا گیا ہے کہ ہر ایک مہدی کے لفظ سے مراد محمّد بن عبداللّٰہ ہے جس کی نسبت بعض احادیث پائی جاتی ہیں لیکن نظر غور سے معلوم ہوگاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کئی مہدیوں کی خبر دیتے ہیں منجملہ ان کے وہ مہدی بھی ہے جس کا نام حدیث میں سلطان مشرق رکھا گیا ہے جس کا ظہور ممالک مشرقیہ ہندوستان وغیرہ سے اور اصل وطن فارس سے ہونا ضرور ہے۔ درحقیقت اسی کی تعریف میں یہ حدیث ہے کہ اگر ایمان ثریا سے معلق یا ثریا پر ہوتا تب بھی وہ مرد وہیں سے اس کو لے لیتا اور اسی کی یہ نشانی بھی لکھی ہے کہ وہ کھیتی کرنے والا ہوگا۔ غرض یہ بات بالکل ثابت شدہ اور یقینی ہے کہ صحاح ِستہّ میں کئی مہدیوں کا ذکر ہے اور ان میں سے ایک وہ بھی ہے جس کا ممالک مشرقیہ سے ظہور لکھا ہے مگر بعض لوگوں نے روایات کے اختلاط کی وجہ سے دھوکا کھایا ہے لیکن بڑی توجہ دلانے والی یہ بات ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مہدی کے ظہور کا زمانہ وہی زمانہ قرار دیا ہے جس میں ہم ہیں اور چودھویں صدی کا اس کو مجدّد قرار دیا ہے’’۔
(صفحہ370)
‘‘دراصل بات یہ ہے کہ احادیث میں کئی قسم کے مہدیوں کی طرف اشارہ ہے۔ اور مولویوں نے تمام احادیث کو ایک ہی جگہ خلط ملط کر کے گڑ بڑ ڈال دیا ہے اور اختلاط روایات کی وجہ سے اور نیز قلّت تدبّر کے باعث سے ان پر امر مشتبہ ہوگیا ہے ورنہ چودھویں صدی کا مہدی جس کا نام سلطان المشرق بھی ہے خصوصیت کے ساتھ احادیث میں بیان کیا گیا ہے جس کے جہاد روحانی جہاد ہیں اور جو دجالیت تامہ کے پھیلنے کی وجہ سے عیسیٰ کی صفت پر نازل ہوا ہے’’۔
(صفحہ379-380)
شاہ نعمت اللہ ولی صاحب کی پیشگوئی
شاہ نعمت اللہ ولی صاحب کی پیشگوئی فارسی قصیدہ میں بیان کی گئی ہے۔رسالہ نشان آسمانی میں اس قصیدہ کے55اشعار درج ہیں۔ان میں سے بعض اشعار مع ترجمہ و تشریح تحریر کردہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام درج ذیل ہیں۔
قدرت کردگار مے بینم
حالت روزگار مے بینم
از نجوم این سخن نمے گویم
بلکہ از کردگار مے بینم
یعنی جو کچھ میں ان ابیات میں لکھوں گا وہ منجمانہ خبر نہیں بلکہ الہامی طور پر مجھ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہوا ہے۔
غینورے سال چوں گذشت از سال
بُوالعجب کاروبار مے بینم
یعنی بارہ سو سال کے گذرتے ہی عجیب عجیب کام مجھ کو نظر آتے ہیں مطلب یہ کہ تیرھویں صدی کے شروع ہوتے ہی ایک انقلاب دنیا میں آئے گا اور تعجب انگیز باتیں ظہور میں آئیں گی اور ہجرت کے باراں سو سال گذرنے کے ساتھ ہی مَیں دیکھتا ہوں کہ بوالعجب کام ظاہر ہونے شروع ہوجائیں گے۔
دور او چوں شود تمام بکام
پسرش یادگار مے بینم
یعنی جب اس کا زمانہ کامیابی کے ساتھ گذر جائے گا تو اس کے نمونہ پر اسکا لڑکا یادگار رہ جائے گا۔ یعنی مقدریوں ہے کہ خدائے تعالیٰ اسکو ایک لڑکا پارسا دے گا جو اسی کے نمونہ پر ہوگا اور اُسی کے رنگ سے رنگین ہوجائے گا اور وہ اسکے بعد اسکا یادگار ہوگا ۔یہ درحقیقت اس عاجز کی اس پیشگوئی کے مطابق ہے جو ایک لڑکے کے بارے میں کی گئی ہے۔
ا ح م و دال مے خوانم
نام آن نامدار مے بینم
یعنی کشفی طور پر مجھے معلوم ہوا ہے کہ نام اس امام کا احمد ہوگا۔
مہدیٔ وقت و عیسیٰ دوران
ہر دو را شہسوار مے بینم
یعنی وہ مہدی بھی ہوگا اور عیسیٰ بھی دونوں صفات کا حامل ہوگا اور دونوں صفات سے اپنے تئیں ظاہر کرے گا یہ آخری بیت عجیب تصریح پر مشتمل ہے جس سے صاف طور پر سمجھا جاتا ہے کہ وہ خدا ئے تعالیٰ کی طرف سے حکم پا کر عیسیٰ ہونے کا بھی دعویٰ کرے گا اور ظاہر ہے کہ یہ دعویٰ تیرہ سو (1300)برس سے آج تک کسی نے بجز اس عاجز کے نہیں کیا کہ عیسیٰ موعود میں ہوں۔
(صفحہ371تا377)
پیشگوئی میاں گلاب شاہ مجذوب
میاں گلاب شاہ مجذوب کی پیشگوئی ان کے مرید میاں کریم بخش صاحب نے ایک مجمع کثیر کے سامنے قسم کھا کر بیان کی ہے ۔ اس پیشگوئی کا خلاصہ میاں کریم بخش صاحب کے الفاظ میں درج ذیل ہے۔ ‘‘اس بزرگ درویش نے ایک دفعہ میرے پاس بیان کیا کہ عیسیٰ جوان ہوگیا ہے اور لدھیانہ میں آوے گا۔۔۔ میں نے ان سے پوچھا کہ عیسیٰ جوان تو ہوگیا مگر وہ کہاں ہے انہوں نے کہا کہ بیچ قادیان کے(یعنی قادیان میں) ۔۔۔ آخر میں کئی دفعہ انہوں نے فرمایا کہ وہ قادیان بٹالہ کے پاس ہے اس جگہ عیسیٰ ہے اور جب انہوں نے یہ فرمایا تھا کہ عیسیٰ قادیان میں ہے اور اب جوان ہوگیا تو میں نے انکار کی راہ سے ان کو کہا کہ عیسیٰ مریم کا بیٹا تو آسمان پر زندہ موجود ہے اور خانہ کعبہ پر اترے گا یہ کون عیسیٰ ہے جو قادیان میں ہے اور جوان ہوگیا۔ اس کے جواب میں وہ بڑی نرمی اور سلوک کے ساتھ بولے اور فرمایا کہ وہ عیسیٰ بیٹا مریم کا جو نبی تھا مر گیا ہے وہ پھر نہیں آئے گا اور میں نے اچھی طرح تحقیق کیا ہے کہ عیسیٰ بیٹا مریم کا مر گیا ہے وہ پھر نہیں آئے گا اللہ نے مجھے بادشاہ کہا ہے میں سچ کہتا ہوں جھوٹ نہیں کہتا۔ پھر انہوں نے تین مرتبہ خودبخود کہا کہ وہ عیسیٰ جو آنے والا ہے اس کا نام غلام احمد ہے۔’’
(صفحہ383-384)
میاں گلاب شاہ مجذوب کی بعض کرامات
میاں کریم بخش صاحب اپنے پیر و مرشد کی بعض کرامات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘میں اس بات کا لکھنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھے بارہا اور بتکرار اس بات کا مشاہدہ ہوچکا ہے کہ یہ بزرگ صاحب خوارق و کرامات تھا۔ َمیں نے بچشم خود دیکھا کہ ایک دفعہ ایک جنگل میں موضع رام پور کے قریب انہوں نے نشان کیا کہ اس جگہ دریا چلے گا اور دریا چلنے کی کوئی جگہ نہ تھی اس لیے ہم نے انکار کیا مگر ایک مدت کے بعد اسی جگہ نہر چلی جہاں نشان لگایا تھا۔ ایک جگہ معمار ایک کنوآں بنا رہے تھے اور طیار ہوچکا تھا کچھ تھوڑا باقی تھا۔ گلاب شاہ کی اس پر نظر پڑی کہا ناحق اس کنوئیں کو بناتے ہو یہ تو تمام نہیں ہوگا اور بظاہر یہ ان کی بات خلاف عقل تھی کیونکہ کنوآں تو بن چکا تھا کچھ تھوڑا سا باقی تھا مگر ان کا کہنا سچ ہوگیا اور اسی اثنا میں وہ کنواں نیچے بیٹھ گیا اور اس کا نشان نہ رہا۔
ایک دفعہ انہوں نے علی بخش نام ایک شخص کو بلایا کہ کوٹھہ پر سے جہاں وہ بیٹھا تھا دوسری طرف چلا آ۔ اور علی بخش اس کوٹھہ پرسے الگ ہونے سے سستی کرتا تھا آخر انہوں نے جھڑک کر اس کو کوٹھہ پر سے اٹھایا۔ پس اسی دم جو علی بخش کوٹھہ پر سے الگ ہوا کوٹھہ بیک دفعہ گر پڑا۔ ایک دفعہ مجھے پوچھنے لگے کہ تیرے باپ کا ایک دانت بھی ٹوٹا ہوا تھا میں نے کہا کہ ہاں تب انہوں نے فرمایا کہ وہ بہشت میں داخل ہوگیا۔ میرا باپ مدت سے فوت ہوچکا تھا اور ان کو اس کے دانت کی کچھ بھی خبر نہیں تھی کیونکہ وہ اس زمانہ کے بعد ہمارے گائوں میں آئے تھے سو دانت ٹوٹنے کی خبر انہوں نے الہام کے رُو سے دی اور عالم کشف سے اس کے بہشتی ہونے کی مجھے بشارت دی۔’’
(صفحہ385-386)
آسمانی نشانوں کی میعاد اور تخصیص کے متعلق لطیف بحث
مخالفین کی طرف سے نشان نمائی کی ایک سال کی میعاد پر اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضور علیہ السلام نے فرمایا: یہ درخواست کس قدر فضول ہے کہ ایک سال کے عرصہ کو جو ایک الہامی امر ہے خودبخود بدلا دیا جائے اور ایک یا دو ہفتے بجائے اس کے مقرر کیے جائیں یہ لوگ نہیں جانتے کہ یہ میعاد منجانب اللہ ہے اور انسان تو اپنے اختیار سے کبھی جرأت ہی نہیں کرسکتا کہ خوارق کے دکھلانے کے لیے کوئی میعاد مقرر کرسکے ………کیا یہ نہیں جانتے کہ میعادوں کا مقرر کرنا انسان کا کام نہیں۔’’
(صفحہ391)
اللہ تعالیٰ نشان اپنی مرضی کے موافق دکھلاتا ہے:مخالفین انبیاء کا شروع سے یہ شیوہ ہے کہ وہ انبیاء سے مخصوص نشان طلب کرتے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے بھی مخالفین نے کہا کہ ہم آپ کو:
‘‘ تب قبول کریں گے کہ جب آسمان سے من وسلویٰ نازل ہو یا کوئی مجذوم اچھا ہوجائے یا ایک کانے کو دوسری آنکھ مل جائے یا لکڑی کا سانپ بن جائے یا جلتی آگ میں کود پڑیں اور بچ جائیں دیکھو صفحہ 50جواب فیصلہ آسمانی۔
ان تمام واہیات باتوں کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ان سب باتوں پر قادر ہے اور اس کے علاوہ بے شماراور نشانوں پر بھی قادر ہے مگر اپنی مصلحت اور مرضی کے موافق کام کرتا ہے پہلے کفار نے یہی سوال کیا تھا……یعنی اگر یہ نبی سچا ہے تو موسیٰ وغیرہ انبیاء بنی اسرائیل کے نشانوں کی مانند نشان دکھاوے اور مشرکین نے یہ بھی کہا کہ ہمارے مردے ہمارے لیے زندہ کر دیوے یا آسمان پر ہمارے روبرو چڑھ جاوے اور کتاب لاوے جس کو ہم ہاتھ میں لے کر دیکھ لیں وغیرہ وغیرہ مگر خدائے تعالیٰ نے محکوموں کی طرح ان کی پیروی نہیں کی اور وہی نشان دکھلائے جو اس کی مرضی تھی …… اسی وجہ سے قرآن کریم اور توریت میں سچے نبی کی شناخت کے لیے یہ علامتیں قرار نہیں دیں کہ وہ آگ سے بازی کرے یا لکڑی کے سانپ بناوے یا اسی قسم کے اور کرتب دکھلاوے بلکہ یہ علامت قرار دی کہ اس کی پیشگوئیاں وقوع میں آجائیں یا اس کی تصدیق کے لیے پیشگوئی ہو’’۔
(صفحہ392-394)
‘‘اس عاجز کی اپنی گذشتہ پیشگوئیاں تین ہزار کے قریب ہیں جو اکثر استجابت دعا کے بعد ظہور میں آئی ہیں’’۔
(صفحہ396)
‘‘اگر ان کو سمجھ ہو تو ایک بڑا نشان یہ بھی ہے کہ یہ لوگ دن رات اس نور الٰہی کے بجھانے کے لیے کوشش کررہے ہیں …… اور اگر کسی کی آنکھیں ہوں تو اس عاجز پر جو کچھ عنایات اللہ جلّ شانہ کی وارد ہورہی ہیں وہ سب نشان ہی ہیں…… میں حضرت قدس کا باغ ہوں جو مجھے کاٹنے کا ارادہ کرے گا وہ خود کاٹا جائے گا مخالف رو سیاہ ہوگا اور منکر شرمسار یہ سب نشان ہیں مگر ان کے لیے جو دیکھ سکتے ہیں’’۔
(صفحہ397-398)
بعض لوگ محض خوابوں کے ہی ذریعہ سے کامل مخلصین میں داخل ہوگئے
جماعت احمدیہ میں شامل ہونے والوں میں ایک بڑا گروہ ایسے لوگوں کا ہے جنہیں اللہ تعالی نے بذریعہ خواب رہنمائی فرمائی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سچے ہیں ۔یہ سلسلہ احمدیت کی ابتدا ہی سے بڑے زور شور سے جاری ہے۔اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس کتاب میں فرماتے ہیں :
‘‘یہ بات قرآن اور حدیث نبوی سے ثابت ہے کہ مومن رؤیا صالحہ مبشرہ دیکھتا ہے اور اس کے لیے دکھائی بھی جاتی ہیں……بعض صاحبوں نے پنجاب اور ہندوستان سے اکثر خوابیں متعلق زیارت رسول اللہ ﷺ اور نیز الہامات بھی اس عاجز کے بارہ میں لکھ کر بھیجی ہیں جن کا مضمون قریباً اور اکثر یہی ہوتا ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں دیکھا ہے اور یا بذریعہ الہام کے خدائے تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہوا ہے کہ یہ شخص یعنی یہ عاجز خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہے اس کو قبول کرو چنانچہ بعض نے ایسی خوابیں بھی بیان کیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نہایت غضب کی حالت میں نظر آئے اور معلوم ہوا کہ گویا آنحضرت روضہ مقدسہ سے باہر تشریف رکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تمام ایسے لوگ جو اس شخص یعنی اس عاجز کو عمداًستا رہے ہیں قریب ہے جو اُن پر غضب الٰہی نازل ہو۔ اوّل اوّل اس عاجزنے ان خوابوں کی طرف التفات نہیں کی مگراب میں دیکھتا ہوں کہ کثرت سے دنیا میں یہ سلسلہ شروع ہوگیا یہاں تک کہ بعض لوگ محض خوابوں کے ہی ذریعہ سے عناد اور کینہ کو ترک کر کے کامل مخلصین میں داخل ہوگئے اور اسی بنا پر اپنے مالوں سے امداد کرنے لگے سو مجھے اس وقت یاد آیا کہ براہین احمدیہ کے صفحہ 241میں یہ الہام درج ہے جس کو دس برس کا عرصہ گذر گیا اور وہ یہ ہے۔ینصرک رجال نوحی الیھم من السّماء۔یعنی ایسے لوگ تیری مدد کریں گے جن پر ہم آسمان سے وحی نازل کریں گے سو وہ وقت آگیا۔
(صفحہ398-399)
استخارہ کا طریق
انبیاء کی صداقت پرکھنے کے لیے خدا تعالیٰ نے کئی طریقوں میں سے ایک طریق استخارہ کا بھی ہے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس کتاب میں فرماتے ہیں :
‘‘اور اگر اس عاجز پر شک ہو اور وہ دعویٰ جو اس عاجز نے کیاہے اس کی صحت کی نسبت دل میں شبہ ہو تو میں ایک آسان صورت رفع شک کی بتلاتا ہوں جس سے ایک طالب صادق انشاء اللہ مطمئن ہوسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اول توبہ نصوح کرکے رات کے وقت دو رکعت نماز پڑھیں جس کی پہلی رکعت میں سورة یٰسین اور دوسری رکعت میں اکیس مرتبہ سورة اخلاص ہو اور پھر بعد اس کے تین سو مرتبہ درود شریف اور تین سو مرتبہ استغفار پڑھ کر خدا تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ اے قادر کریم تو پوشیدہ حالات کو جانتا ہے اور ہم نہیں جانتے اور مقبول اور مردود اور مفتری اور صادق تیری نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ پس ہم عاجزی سے تیری جناب میں التجا کرتے ہیں کہ اس شخص کا تیرے نزدیک کہ جو مسیح موعود اور مہدی اور مجدّد الوقت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کیا حال ہے۔ کیا صادق ہے یا کاذب اور مقبول ہے یا مردود۔ اپنے فضل سے یہ حال رؤیا یا کشف یا الہام سے ہم پر ظاہر فرما تا اگر مردود ہے تو اس کے قبول کرنے سے ہم گمراہ نہ ہوں اور اگر مقبول ہے اور تیری طرف سے ہے تو اس کے انکار اور اس کی اہانت سے ہم ہلاک نہ ہوجائیں۔ ہمیں ہر ایک قسم کے فتنہ سے بچا کہ ہر ایک قوت تجھ کو ہی ہے۔ آمین۔ یہ استخارہ کم سے کم دو ہفتے کریں لیکن اپنے نفس سے خالی ہو کر۔ کیونکہ جو شخص پہلے ہی بُغض سے بھرا ہوا ہے اور بدظنی اس پر غالب آگئی ہے اگر وہ خواب میں اس شخص کا حال دریافت کرنا چاہے جس کو وہ بہت ہی ُبرا جانتا ہے تو شیطان آتا ہے اور موافق اس ظلمت کے جو اس کے دل میں ہے اور پُر ظلمت خیالات اپنی طرف سے اس کے دل میں ڈال دیتا ہے۔ پس اس کا پچھلا حال پہلے سے بھی بدتر ہوتا ہے۔ سو اگر تو خدا تعالیٰ سے کوئی خبر دریافت کرنا چاہے تو اپنے سینہ کو بکلّی بغض اور عناد سے دھو ڈال اور اپنے تئیں بکلی خالی النفس کر کے اور دونوں پہلوئوںبغض اور محبت سے الگ ہو کر اس سے ہدایت کی روشنی مانگ کہ وہ ضرور اپنے وعدہ کے موافق اپنی طرف سے روشنی نازل کرے گا ۔ جس پر نفسانی اوہام کا کوئی دخان نہیں ہوگا۔ سو اے حق کے طالبو! ان مولویوں کی باتوں سے فتنہ میں مت پڑو۔ اٹھو اور کچھ مجاہدہ کر کے اس قوی اور قدیر اور علیم اور ہادی مطلق سے مدد چاہو اور دیکھو کہ اب میں نے یہ روحانی تبلیغ بھی کردی ہے۔ آئندہ تمہیں اختیار ہے۔
(صفحہ400-401)
شیخ بٹالوی صاحب کے فتویٰ تکفیرمیں خیانت
مولوی محمد حسین بٹالوی نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف فتویٰ کفر تیار کیا اور تمام ہندوستان کا دورہ کرکے بڑے بڑے علماء سے اس فتویٰ پر مہریں ثبت کروائیں ۔لیکن اس فتویٰ کی اہمیت بڑھانے کے لیے انہوں نے تین قسم کی واضح خیانت سے کام لیا۔اس سلسلہ میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:‘‘بٹالوی صاحب کو اس فتوے کے طیار کرنے میں یہودیوں کے فقیہوں سے بھی زیادہ خیانت کرنی پڑی اور وہ خیانت تین قسم کی ہے اول یہ کہ بعض لوگ جو مولویّت اور فتویٰ دینے کا منصب نہیں رکھتے وہ صرف مکفرین کی تعداد بڑھانے کے لیے مفتی قرار دیے گئے۔ دوسرے یہ کہ بعض ایسے لوگ جو علم سے خالی اور علانیہ فسق و فجور بلکہ نہایت بدکاریوں میں مبتلا تھے وہ بڑے عالم متشرع متصور ہو کر ان کی مہریں لگائی گئیں۔ تیسرے ایسے لوگ جو علم اور دیانت رکھتے تھے مگر واقعی طور پر اس فتوے پر انہوں نے مہر نہیںلگائی بلکہ بٹالوی صاحب نے سراسر چالاکی اور افتراء سے خودبخود ان کا نام اس میں جڑ دیا۔ ان تینوں قسم کے لوگوں کے بارے میں ہمارے پاس تحریری ثبوت ہیں۔
(صفحہ402-403)
اشاعت دین اسلام ۔ممالک ہند میں ہرجگہ ہماری طرف سے واعظ و مناظر مقرر ہوں
احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغا م دوسروں تک پہنچنے کے حوالے سے جماعتی مبلغین و مربیان کے نظام کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔اس رسالہ کی تصنیف کے وقت بھی جبکہ آپ علیہ السلام کے دعوی مسیحیت کو ابھی تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا،اور جماعت کے وسائل بھی نہایت محدود تھے ،حضور علیہ السلام نے جماعت کے واعظین و مناظر کی اہمیت کے متعلق فرمایا:
‘‘اس عاجز کا ارادہ ہے کہ اشاعتِ دین اسلام کے لیے ایسا احسن انتظام کیا جائے کہ ممالک ہند میں ہرجگہ ہماری طرف سے واعظ و مناظر مقرر ہوں اور بندگان خدا کو دعوت حق کریں تا حجت اسلام روئے زمین پر پوری ہو لیکن اس ضعف اور قلت جماعت کی حالت میں ابھی یہ ارادہ کامل طور پر انجام پذیر نہیں ہوسکتا۔ بالفعل یہ تجویز کیا ہے کہ اگر حضرت مولوی محمد احسن صاحب امروہی جو ایک فاضل جلیل اور امین اور متقی اور محبت اسلام میں بدل و جان فدا شدہ ہیں قبول کریں تو کسی قدر جہاں تک ممکن ہو یہ خدمت ان کے سپرد کی جائے۔ مولوی صاحب موصوف بچوں کی تعلیم اور درس قرآن و حدیث اور وعظ و نصیحت اور مباحثہ و مناظرہ میںیدِ طُولیٰ رکھتے ہیں نہایت خوشی کی بات ہے اگر وہ اس کام میں لگ جائیں۔
(صفحہ 410)
حضرت مولوی حکیم نور دین صاحب کا ذکر خیر
‘‘مولوی حکیم نور دین صاحب اپنے اخلاص اور محبت اور صفت ایثار اور للہ شجاعت اور سخاوت اور ہمدردی اسلام میں عجیب شان رکھتے ہیں۔ کثرت مال کے ساتھ کچھ قدر قلیل خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہوئے تو بہتوں کو دیکھا مگر خود بھوکے پیاسے رہ کر اپنا عزیز مال رضائے مولیٰ میں اٹھا دینا اور اپنے لیے دنیا میں سے کچھ نہ بنانا یہ صفت کامل طور پر مولوی صاحب موصوف میں ہی دیکھی یا ان میں جن کے دلوں پر ان کی صحبت کا اثر ہے۔ مولوی صاحب موصوف اب تک تین ہزار روپیہ کے قریب ِللہ اس عاجز کو دے چکے ہیں اور جس قدر ان کے مال سے مجھ کو مدد پہنچی ہے اس کی نظیر اب تک کوئی میرے پاس نہیں’’۔(صفحہ407)
(رپورٹ: ساجد محمود بُٹر۔استاد جامعہ احمدیہ گھانا)
٭…٭…٭