شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
کھانے میں مجاہدہ(حصہ دوم آخر)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اَے بیان کرتے ہیں :
“حافظ نور محمد صاحب فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ماہ رمضان میں سحری کے وقت کسی شخص نے اصل وقت سے پہلے اذان دے دی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں تشریف لے آئے اور فرمایا کہ میں نے دودھ کا گلاس منہ کے قریب کیا ہی تھاکہ اذان کی آواز آئی۔اس لیے وہ گلاس مَیں نے وہیں رکھ دیا۔کسی شخص نے عرض کی کہ حضور ابھی تو کھانے پینے کا وقت ہے۔آپؑ نے فرمایا کہ ہمارا دل نہیں چاہتا کہ بعد اذان کچھ کھایا جائے۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 507)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایم اَے بیان کرتے ہیں :
“مولوی غلام حسین صاحب ڈنگوی نے بواسطہ مولوی عبدالرحمٰن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم تاجر لاہور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت کی اور دعوت کا اہتمام خاکسار کے سپرد کیا۔پلاؤ نرم پکا۔غفلت باورچیوں کی تھی۔شیخ صاحب کھانا کھلانے کے وقت عذرخواہی کرنے لگے کہ بھائی غلام حسین کی غفلت سے پلاؤ خراب ہو گیا ہے۔آپؑ نے فرمایا۔کہ گوشت۔چاول۔مصالحہ اور گھی سب کچھ اس میں ہے۔اور میَں گلے ہوئے چاولوں کو پسند کرتا ہوں ۔یہ آپ کی ذرّہ نوازی کی دلیل ہےکہ غلطی پر بھی خوشی کا اظہار فرمایا۔ممکن ہے کہ حضورؑ دانے دار پلاؤ کو پسند فرماتے ہوں ۔لیکن خاکسار کو ملامت سے بچانے کے لیے ایسا فرمایاہو۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 635)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں :
“قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ … آپ کے کھانے میں لنگر کا شوربہ مع ترکاری ہوتا تھا۔اکثر اوقات دہی اور آم کا اچار بھی ہوتا تھا۔ان ایام میں آپ زیادہ تر دہی اور اچار کھایا کرتے تھے۔خاکسار اور مولوی عبداللہ جان صاحب پشاوری اکثر آپؑ کا پس خوردہ کھا لیا کرتے تھے۔”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 746)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے میاں نظام الدین صاحب ٹیلر ماسٹر جہلمی ثم افریقوی کی ایک روایت بیان کرتے ہیں :
“حضوؑر کرم دین کے مقدمہ کے تعلق میں شہر جہلم میں آئے۔برلبِ دریا جماعت جہلم نے ایک کوٹھی حضور کی رہائش کے لیے مقرر کر رکھی تھی۔شام کے وقت جب حضؑور کے سامنے کھانا رکھا گیا۔تو حضوؑر نے فرمایا۔مَیں گوشت ایک سال سے نہیں کھاتا۔پلاؤ کا ایک تھال بھرا پڑا تھا۔مگر حضؑور نے خمیری روٹی کے چند لقمے شوربہ میں تھوڑا سا پانی ڈال کر پتلا کرکے کھائے۔مگر پلاؤ کھانے سے انکار کیا۔اس پر ہم لوگوں نے عرض کیا کہ حضور تبرکاً ایک لقمہ ہی اٹھا لیں ۔اس پر آپ نے چند دانے چاولوں کے اٹھا کر منہ میں ڈالے۔باقی چاول ہم لوگوں نے تبرک کے طور پر تقسیم کر لیے۔
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 753)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں :
“ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام مدتوں دونوں وقت کا کھانا مہمانوں کے ہمراہ باہر کھایا کرتے تھے۔کبھی پلاؤ اور زردہ پکتا تو مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم ان دونوں چیزوں کو ملا لیا کرتے۔آپ یہ دیکھ کر فرماتے کہ ہم تو ان دونوں کو ملا کر نہیں کھا سکتے۔کبھی مولوی صاحب مرحوم کھانا کھاتے ہوئے کہتے کہ اس وقت اچار کو دل چاہتا ہے اور کسی ملازم کی طرف اشارہ کرتے تو حضور فوراً دسترخوان پر سے اٹھ کر بیت الفکر کی کھڑکی میں سے اندر چلے جاتے اور اچار لے آتے۔”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 799)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں :
“ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہندوؤں کے ہاں کا کھانا کھا پی لیتے تھے اور اہلِ ہنود کا تحفہ از قسم شیرینی وغیرہ بھی قبول فرما لیتے تھے اور کھاتے بھی تھے۔اسی طرح بازار سے ہندو حلوائی کی دُکان سے بھی اشیاء خوردنی منگواتے تھے۔ایسی اشیاء اکثر نقد کی بجائے ٹونبو کے ذریعہ سے آتی تھیں ۔یعنی ایسے رقعہ کے ذریعہ جس پر چیزکا نام اور وزن اور تاریخ اور دستخط ہوتے تھے۔مہینہ بعد دُکاندا ر وہ ٹونبو بھیج دیتا اور حساب کا پرچہ ساتھ بھیجتا۔اس کو چیک کرکے آپ حساب ادا کر دیا کرتے تھے۔”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 921)
خاکسارکوایک مرتبہ حضرت سیدمیرمحموداحمدناصرصاحب کی اہلیہ سیدہ امتہ المتین صاحبہ ؒبنت حضرت مصلح موعودؓ نے بتایاکہ ایک دفعہ غالباً گھر میں کریلے پکے تھے جو میں نہیں کھاتی تھی۔میں کھانا دیکھ کر روٹھ کر بیت الفکر میں آگئی ۔ اماں جان کوپتہ چلا کہ میں نے کھانا نہیں کھایا فوراً میرے پاس آئیں ۔مختلف چیزوں کے نام لیے لڑکی یہ کھالے وہ کھالے مگر میرا سرانکار میں ہلتا رہا۔آخر اماں جان نے جو ملازمہ وہاں موجود تھی اس کو کہا کہ روغنی ٹکیہ بنا کر لاؤ۔جب روغنی ٹکیہ بن کر آگئی تو بیت الفکر میں قبلہ رخ ایک راستہ اماں جان کے غسل خانہ سے مسجد مبارک میں جاتا ہے اس میں آم پڑے ہوئے تھے وہ نکالے اور اپنے ہاتھ سے آم نرم کیا اسکا منہ اتارا ایک نوالہ روغنی روٹی کا میرے منہ میں ڈالا اوپر سے آم کا رس ٹپکایا اور کہا یہ کھا تیرے دادا کو آم اور روغنی کھانا بہت پسند تھا۔
حضرت اقدسؑ نے فرمایا:
“ایک خوان میرے آگے پیش ہواہے۔اس میں فالودہ معلوم ہوتاہے اورکچھ فیرنی بھی رکابیوں میں ہے۔میں نے کہاکہ چمچہ لاؤ۔توکسی نے کہاکہ ہرایک کھاناعمدہ نہیں ہوتاسوائے فیرنی اورفالودہ کے۔”
(تذکرہ،صفحہ 401 ایڈیشن چہارم)
٭…٭…٭
آپؑ کے پھل کھانے کا بیان
حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ نے بیان کیا کہ
“ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان سے گورداسپور جاتے ہوئے بٹالہ ٹھہرے وہاں کو ئی مہمان جو آپؑ کی تلاش میں قادیان سے ہوتا ہو ا بٹالہ واپس آیا تھا آپؑ کے پاس کچھ پھل بطور تحفہ لایا۔پھلوں میں انگور بھی تھے۔آپؑ نے انگور کھائے اور فرمایا انگور میں ترشی ہوتی ہے مگر یہ ترشی نزلہ کے لیے مضر نہیں ہوتی۔پھر آپؑ نے فرمایا ابھی میرا دل انگو ر کو چاہتا تھا سو خدا نے بھیج دیے۔فرمایا کئی دفعہ میں نے تجربہ کیا ہے کہ جس چیز کو دل چاہتا ہے اللہ اسے مہیا کر دیتا ہے۔پھر ایک دفعہ سنایا کہ مَیں ایک سفر میں جارہا تھا کہ میرے دل میں پونڈے گنّے کی خواہش پید اہوئی مگر وہاں راستہ میں کو ئی گنامیسر نہیں تھا مگر اللہ کی قدرت کہ تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص ہم کو مل گیا جس کے پاس پونڈے تھے ،اس سے ہم کو پونڈے مل گئے۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 35)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ نے بیان کیا کہ
“حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب اپنا باغ ٹھیکہ پر دیتے تھے تو پھل کی کچھ جنس ضرور اپنے لیے مقرر فرمالیتے تھے۔بیدانہ شہتوت کے موسم میں دو تین دفعہ سب حاضر الوقت احباب کو لے کر ضرور باغ کی طرف سیرکے لیے جاتے تھے اور تازہ بیدانہ تڑوا کر سب کے ہمراہ نوش فرمایا کرتے تھے۔وہ چادر جس میں ٹھیکیدار بیدانے گرایا کرتا تھا۔اسی طرح لاکر سب کے سامنے رکھ دی جاتی تھی۔اور سب احباب اس چادر کے گرد حلقہ باندھ کر بیٹھ جاتے اور شریک دعوت ہوتے۔اور آپؑ بھی سب کے ساتھ مل کر بالکل بے تکلّفی کے رنگ میں نوش فرماتے۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 863)
حضرت منشی عبدالعزیز صاحبؓ اوجلوی نے بیان کیا کہ
“ایک مرتبہ صبح کے وقت میرے دل میں شہتوت کھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔مگر مَیں نے اس خواہش کا کسی کے سامنے اظہار نہ کیا۔اسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔کہ آج ہم باغ کی طرف سیر کے لیے جائیں گے۔چنانچہ اسی وقت چل پڑے۔باغ میں دو چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں ۔باغ کے رکھوالے دو بڑے ٹوکرے شہتوتوں سے بھرے ہوئے لائے اور حضور کے سامنے رکھ دیے۔سب دوست چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔بے تکلفی کا یہ عالم تھا۔کہ حضور پائینتی کی طرف بیٹھے ہوئے تھے اور دوست سرہانے کی طرف۔سب دوست شہتوت کھانے لگے۔حضور نے میر ناصر نواب صاحب مرحوم سے فرمایا۔کہ میر صاحب! شہتوت میاں عبدالعزیز کے آگے کریں ۔چنانچہ کئی مرتبہ حضور نے یہی فرمایا۔حالانکہ مَیں کھا رہا تھا۔پھر بھی حضور نے ٹوکرا میرے آگے کرنے کی بار بار تاکید فرمائی۔مَیں شرمندہ ہو گیا۔کہ شاید حضور کو میری خواہش کا علم ہو گیا ہے۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 606)
حضرت حافظ نبی بخش صاحبؓ ساکن فیض اللہ چک نے بیان کیا کہ
“حضرت صاحب ہر موسم کا پھل مثلاً خربوزہ اور آم کافی مقدار میں باہر سے منگواتے تھے۔خربوزہ علاقہ بیٹ سے اور آم دریا کے پار سے منگاتے تھے۔بعض اوقات جب مَیں بھی خدمت میں حاضر ہوتا تو حضور اپنے دستِ مبارک سے خربوزہ کاٹ کر مجھے دیتے اور فرماتے۔میاں نبی بخش یہ خربوزہ میٹھا ہو گا اس کو کھاؤ اور آپؑ بھی کھاتے۔اسی طرح آموں کے موسم میں حضرت صاحب نہایت محبت و شفقت سے مجھے آم بھی عنایت فرماتے اور بار بار فرماتے۔یہ آم تو ضرور میٹھا ہو گا۔اس کو ضرور کھاؤ۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 598)
حضرت ڈاکٹر سیّد عبد الستار شاہ صاحبؓ نے بیان کیا کہ
“جب میں 1900ء میں پہلی دفعہ قادیان میں آ یا تو حضور ان دنوں میں صبح اپنے باغ کی طرف سیر کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے۔چنانچہ جب حضرت صاحب باغ کی طرف تشریف لے گئے تو میں بھی ساتھ گیا اور حضور نے شہتوت منگوا کر درختوں کے سائے کے نیچے خدام کے ساتھ مل کر کھائے۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 389)
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ بیان فرماتے ہیں :۔
“میوہ جات آپ کو پسند تھے اور اکثر خدام بطور تحفہ کے لایا بھی کرتے تھے۔گاہے بگاہے خود بھی منگواتے تھے۔پسندیدہ میووں میں سے آپؑ کو انگور، بمبئی کا کیلا، ناگپوری سنگترے، سیب، سردے اور سردلی کے آم زیادہ پسند تھے۔باقی میوے بھی گاہے ماہے جو آتے رہتے تھے کھا لیا کرتے تھے۔گنا بھی آپ کو پسند تھا۔”
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ جلد اول صفحہ 53-52)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 11 مئی 1887ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الاول مولانا حکیم نور الدین صاحبؓ کو ایک خط لکھا۔اس مکتوب میں آپ فرماتے ہیں :
“… اس طرف اب بشدت گرمی پڑتی ہے۔امید ہے کشمیر میں خوب بہار ہوگی۔کشمیر کا تحفہ کشمیر کے بعض عمدہ میوے ہیں جیسے گوشہ بگو کی لوگ بہت تعریف کرتے ہیں مگر وہ میوہ ذخیرہ خور نہیں ہیں ۔امید رکھتا ہوں کہ جلد جلد حالات خیریت آیات سے مطلع فرماتے رہیں گے۔اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور خوشی خورمی سے لاوے اور آپ کے ساتھ رہے۔آمین۔”
(مکتوبات احمدجلد دوم صفحہ 35 مکتوب نمبر22بنام حضرت مولانا نور الدین صاحبؓ)
حضرت منشی رستم علی صاحبؓ کے نام اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں :
“… یہ خبر غلط ہے کہ یہ عاجز جالندھر آنے کاارادہ رکھتا ہے۔ابھی تک مجھ کو کچھ خبر نہیں کہ کب تک اس شہر میں رہوں اور کس راہ سے جاؤں ۔یہ سب باتیں جناب الٰہی کے اختیار میں ہیں۔اُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللّٰہِ ھُوَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ۔شائد منشی الٰہی بخش صاحب اکاؤنٹنٹ کچھ انگور اور کچھ پھلی کیلا اگر دستیاب ہو گیا لا ہور سے اس عاجز کے لیے آپ کے نام ریل میں بھیجیں ۔سو اگر آیا تو کسی یکّہ بان کے ہاتھ پہنچاویں ۔”
(مکتوبات احمدجلد دوم صفحہ 474مکتوب نمبر27بنام حضرت منشی رستم علی صاحبؓ)
حضرت منشی رستم علی صاحبؓ کے نام اپنے ایک اور مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں :
“… دو امر کا لحاظ رکھیں ۔ایک تو آم کسی قدر کچے ہوں دوسرے ایسے ہوں جن میں صوف نہ ہو اور جن کا شیرہ پتلا ہو…” (مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 508 مکتوب نمبر74بنام حضرت منشی رستم علی صاحبؓ)
……………………………(باقی آئندہ)