ارشاد ِنبوی ﷺ
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے جو ہدایت اور علم دے کر مبعوث فرمایا ہے اس کی مثال اس بارش کی سی ہے جو زمین پر برسی اس زمین کے اچھے حصّے نے اس بارش کا اثر قبول کیا۔ فصل اچھی ہوئی، چارہ اور گھاس خوب اُگا۔ زمین کی ایک قسم ایسی ہوتی ہے جو پانی روک لیتی ہے جس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے لوگ خود یہ پانی پیتے ہیں، اپنے جانوروں کو پلاتے ہیں اور اپنی کھیتیاں سیراب کرتے ہیں۔ زمین کی ایک تیسری قسم ہوتی ہے چٹیل، شور اور ویران۔ نہ پانی کو روک سکتی ہے، نہ فصل اور گھاس اُگا سکتی ہے۔ پس اسی مثال کے مطابق ایک شخص ایسا ہوتا ہے جو دین کو سمجھ کر حاصل کرتا ہے، اس سے فائدہ اٹھاتا ہے اور جو کچھ اللہ نے مجھے دے کر بھیجا ہے اسے خود بھی سیکھتا ہےاور دوسروں کو بھی سکھاتا ہے اور چٹیل زمین کی مثال اس شخص کی ہے جس نے اس ہدایت کو نہ سر اُٹھا کر دیکھا نہ اس پر توجّہ دی اور اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت دے کر مجھے بھیجا ہے اسے قبول نہ کیا۔
(مسلم کتاب الفضائل باب بیان مثل ما بعث بہ النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم من الھدی و العلم)