شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
آپؑ کے عصا کا بیان
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“…آپ عصا ضرور رکھتے تھے۔گھر میں یا جب مسجد مبارک میں روزانہ نماز کو جانا ہوتا۔تب تو نہیں ۔مگر مسجد اقصیٰ کو جانے کے وقت یا جب باہر سَیر وغیرہ کے لیے تشریف لاتے تو ضرور ہاتھ میں ہوا کرتا تھا اور موٹی اور مضبوط لکڑی کو پسند فرماتے۔مگر کبھی اس پر سہارا یا بوجھ دیکر نہ چلتے تھے۔جیسے اکثر ضعیف العمر آدمیوں کی عادت ہوتی ہے۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 447)
حضرت حافظ نبی بخش صاحب ساکن فیض اللہ چک بیان کرتے ہیں :
“ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام اپنے باغ میں سیر کے لیے تشریف لے گئے۔اس وقت حضور کے دستِ مبارک میں ایک بید کا عصا تھا۔ایک درخت پر پھل اتارنے کے لیے وہ عصا مارا مگر وہ عصا درخت میں ہی اٹک گیا اور ایسی طرح پھنسا کہ اُترنے میں ہی نہ آتا تھا۔اصحاب نے ہر چند سوٹا اتارنے کی کوشش کی۔مگر کامیابی نہ ہوئی۔مَیں نے عرض کیا کہ حضور مَیں درخت پر چڑھ کر اتار دیتا ہوں اور مَیں جھٹ چڑھا اور عصا مبارک اتار لایا۔حضور اس قدر خوش اور متعجب ہوئے کہ بار بار محبت بھرے الفاظ میں فرماتے تھے کہ‘‘میاں نبی بخش یہ تو آپ نے کمال کیا۔کہ درخت پر چڑھ کر فوراً سوٹا اُتار لیا۔کیسے درخت پر چڑھے اور کس طرح سے درخت پر چڑھنا سیکھا۔یہ سوٹا تو ہمارے والد صاحب کے وقت کا تھا۔جسے گویا آج آپ نے نیا دیا ہے” حضور راستہ میں بھی بار بار فرماتے تھے کہ میاں نبی بخش نے درخت پر چڑھ کر سوٹا اتارنے میں کمال کیا ہے۔نیز حضور کی عادت میں داخل تھا کہ خواہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا کسی کو تُو کے لفظ سے خطاب نہ کرتے تھے حالانکہ مَیں چھوٹا بچہ تھا۔مجھے کبھی حضور نے تُو سے مخاطب نہ کیا تھا۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 543)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان کرتے ہیں :
“سیر میں جب ایسا ہوتا کہ کسی شخص کا قدم بے احتیاطی سے حضور کے عصاپر پڑجاتا اور وہ آپ کے ہاتھ سے گر جاتا تو حضور کبھی منہ موڑ کر نہیں دیکھتے تھے کہ کس سے گر اہے اور بعض اوقات جب جلسوں وغیرہ کے موقعہ پر سیر میں کثرت کے ساتھ لوگ حضور کے ساتھ ہو جاتے تھے تو بعض خدام خود بخود ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر حضور کے تین طرف ایک چکر سابنا لیتے تھے تاکہ حضور کو تکلیف نہ ہو۔مگر آخری جلسہ میں جو حضور کی زندگی میں ہوا جب حضور بوٹر (شمال) کی طرف سیر کے لیے نکلے توا س کثرت کے ساتھ لوگ حضور کے ساتھ ہوگئے کہ چلنا مشکل ہو گیا لہٰذا حضور تھوڑی دور جاکر واپس آگئے۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 71)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان کرتے ہیں :
“حضرت مسیح موعودؑ بعض اوقات کمر پر پٹکا بھی استعمال فرماتے تھے اور جب کبھی گھر سے باہر تشریف لے جاتے تھے تو کوٹ ضرور پہن کر آتے تھے۔اور ہاتھ میں عصارکھنا بھی آپ کی سنت ہے۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 83)
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں :
“آپ ہاتھ میں چھڑی رکھا کرتے تھے اور عام طور پر یہ چھڑی دستہ والی ہوتی تھی۔مختلف دستہ والی چھڑیاں آپ کے ہاتھ میں دیکھی گئی ہیں ۔ایک چھڑی بھیرہ سے ایک دوست تیار کرکے لائے تھے جس پر سیپ کا کام کیا ہوا تھا اور اس پر حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود لکھا ہوا تھا۔
عصا کے متعلق یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آپ ہمیشہ چھڑی ہاتھ میں لے کر باہر نکلا کرتے تھے اور آپ کی عادت شریف میں یہ بات بھی داخل تھی کہ آپ ہر قسم کی چھڑکی استعمال کر لیتے لیکن یہ ضروری ہوتا تھا کہ وہ دستہ والی ہو۔انگریزی فیشن کی چھڑیاں جو نازک سی ہوتی ہیں کبھی آپ کے ہاتھ میں نہیں دیکھیں یعنی بہت سبک اور نازک نہیں بلکہ ہمیشہ کسی قدر موٹی اور مضبوط چھڑی جو عموماً بید کی ہوتی استعمال فرماتے تھے۔ڈانگ یا لٹھ کی صورت میں کبھی آپ نے استعمال نہیں فرمائی۔البتہ قبل بعثت بانس کے ڈھانگو کا استعمال کیا ہے کیونکہ اس وقت اس کا رواج تھا۔پھر جب مختلف قسم کی لکڑیوں کی چھڑیاں بن کر بازار میں آنے لگیں تو آپ نے استعمال فرمائیں ۔کؤ اور بید کی لکڑی کی چھڑی عموماً آپ نے استعمال کی ہے۔”
(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ 40-39)
حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ بیان کرتے ہیں :۔
“جب کبھی باہر سیر کو جاتے تو ہاتھ میں بھیرے کی بنی ہوئی بید کی سوٹی ہوتی جس کے قبضہ پر انگریزی حروف میں میرزا غلام احمدؐ مسیح موعود لکھا ہوا تھا۔”
(ظہور الحق یا ظہور احمد موعود از قاضی محمد یوسف صاحبؓ صفحہ 33)
محترمہ عائشہ صاحبہ بنت مستری قطب الدین صاحب بھیروی زوجہ خان صاحب ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب پنشنر نے بواسطہ مکرمہ محترمہ مراد خاتون صاحبہ والدہ خلیفہ صلاح الدین صاحب نے بذریعہ تحریر بیان کیا:
“میرے والد اکثر نئی لکڑی (عصا) بنا کر حضرت اقدسؑ کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے اور حضورؑکی مستعملہ لکڑی اس سے تبرکا ًبدلوا لیا کرتے تھے۔ایک دن ایک نئی لکڑی دے کر مجھے بدلوانے کے واسطے بھیجا۔حضورؑاس وقت اُمّ ناصر کے آنگن میں ٹہل رہے تھے۔حضورؑنے فرمایا کہ‘‘اندر سے میراسوٹا اٹھالا۔” میں اندر گئی اور ایک سوٹا اٹھا لائی۔حضورؑنے فرمایا کہ‘‘یہ تو حافظ مانا کا ہے۔” تب میں پھر جا کر دورسرا (دوسرا) اٹھا لائی تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ‘‘یہ ہمارا ہے اسے لے جاوٴ اور اپنے ابّا سے کہہ دینا کہ جس گھر میں یہ ہو گا اس گھر میں سانپ کبھی نہیں آویگا۔چنانچہ وہ سوٹا اب تک موجود ہے اور سانپ گھر میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔”
(سیرت المہدی جلد دوم روایت نمبر 1532)
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ :‘‘ہاتھ میں حضورکے چھڑی ضرور ہواکرتی تھی جوعموماً موٹے بیدکی اور کھونٹی دارہواکرتی تھی۔”(اصحاب احمدؑ جلد9 ص 158)
آپؑ کی سیر کا بیان
ایک مرتبہ آپؑ نے فرمایا:
“میں جو باہر بیٹھتا ہوں یا سیر کرنے جاتا ہوں اور لوگوں سے بات چیت کرتا ہوں یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے امر کی تعمیل کی بناء پر ہے۔”
(ملفوظات جلد 2 صفحہ7)
حضرت اقدس مسیحِ موعود ؑ فرماتے ہیں :
“میں کیوڑہ وغیرہ کا استعمال کرتا ہوں …جب دل میں تشنج ہوتا ہے۔ خدائے وحدہٗ لا شریک جانتا ہے کہ بجز اس کے مجھے ضرورت نہیں پڑتی۔ بیٹھے بیٹھے جب بہت محنت کرتا ہوں تو یکد فعہ ہی دورہ ہوتا ہے۔ بعض وقت ایسی حالت ہوتی ہے کہ قریب ہے کہ غش آجاوے اس وقت علاج کے طور پر استعمال کرنا پڑتا ہے اور اسی لیے ہر روز باہر سیر کو جاتا ہوں ۔”
(ملفوظات جلد3صفحہ 293)
آپؑ فرماتے ہیں :
“اب جب سے چالیس سال گزر گئے دیکھتا ہوں کہ وہ بات نہیں ۔ ورنہ اول میں بٹالہ تک کئی بار پیدل چلا جاتا تھا اور پیدل آتا اور کوئی کسل اور ضعف مجھے نہ ہوتا اور اب تو اگر 5-6 میل بھی جاؤں تو تکلیف ہوتی ہے۔ چالیس سال کے بعد حرارت غریزی کم ہونی شروع ہو جاتی ہے۔”
(ملفوظات جلد 4صفحہ257)
(ایک دفعہ) حضرت اقدس حسب معمول سیر کے لیے تشریف لائے اور مشرقی جانب آپ نے چلنے کا حکم دیا فرمایا کہ
“اس طرف جنگل ہے ادھر ہی چلئے۔جلد جنگل میں نکل جاتے ہیں ۔”(ملفوظات جلد 4 صفحہ 107)
“حضرت اقدسؑ آٹھ8بجے کے قریب سیر کے لیے تشریف لائے اور قادیان کی مشرقی طرف چلے۔اعجاز احمدی کا ذکر ہوتا رہا۔ کہ یہ مخالف اب اس کا کیا جواب دے سکتے ہیں ۔”
(ملفوظات جلد 4 صفحہ212)
ایڈیٹر الحکم لکھتے ہیں :
“حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام …آپؑ سیر کو نکلتے ہیں تو کوئی تمیز نہیں ہوتی کہ کوئی آگے نہ بڑھے بلکہ بسا اوقات جلیل القدر اصحاب کو خیال پیدا ہوتا ہے کہ خاک اڑتی ہے اور حضرت اقدس پیچھے ہیں مگر حضرت حجۃ اللہ نے کبھی اس قسم کا خیال بھی نہیں فرمایا۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پیچھے سے لوگ چلے آتے ہیں اور اعلیٰ حضرت کو ٹھوکر لگ گئی ہے یا جوتی نکل گئی ہے یا چھڑی گر گئی ہے مگر کبھی کسی نے نہیں دیکھا یا سنا ہو گا کہ آپؑ نے کوئی ملال ظاہر کیا ہو یا کسی خاص وضع کو پسند کیا ہو۔مسجد میں بہت مرتبہ ایسا ہوا کہ آپؑ صحابہ کے زمرہ میں بیٹھے ہیں اور کوئی اجنبی آیا ہے تو اس نے بڑھ کر مولانا مولوی عبد الکریم صاحب یا حضرت حکیم الامت سے اول مصافحہ کیا اور حضرت مسیح آپ کو سمجھا تو ان بزرگوں نے زبان سے بتایا کہ حضرت صاحب یہ ہیں ۔”
(ملفوظات جلد چہارم حاشیہ صفحہ 45، 46)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان کرتے ہیں :
“حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ایک عام عادت تھی کہ صبح کے وقت باہر سیر کو تشریف لیجا یا کرتے تھے۔اور خدّام آپکے ساتھ ہوتے تھے اور ایک ایک میل دو دو میل چلے جاتے تھے۔اور آپکی عادت تھی کہ بہت تیز چلتے تھے مگر بایں ہمہ آپ کی رفتا رمیں پورا پورا وقار ہوتا تھا …
حضرت مسیح موعودؑ عموماً سیر کے لیے بسراواں کے راستہ یا بوٹر کے راستہ پر جایا کرتے تھے۔بعض اوقات اپنے باغ کی طرف بھی چلے جاتے تھے اور شہتوت بیدانہ وغیرہ تُڑوا کر خدام کے سامنے رکھوا دیتے تھے۔اور خود بھی کھاتے تھے۔سیر میں جب ایسا ہوتا کہ کسی شخص کا قدم بے احتیاطی سے حضور کے عصاپر پڑجاتا اور وہ آپ کے ہاتھ سے گر جاتا تو حضور کبھی منہ موڑ کر نہیں دیکھتے تھے کہ کس سے گراہے اور بعض اوقات جب جلسوں وغیرہ کے موقعہ پر سیر میں کثرت کے ساتھ لوگ حضور کےساتھ ہو جاتے تھے تو بعض خدام خود بخود ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر حضور کے تین طرف ایک چکر سابنا لیتے تھے تاکہ حضور کو تکلیف نہ ہو …”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر71)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے بیان کیا کہ:۔
“آپؑ عصا ضرور رکھتے تھے۔ گھر میں یا جب مسجد مبارک میں روزانہ نماز کو جانا ہوتا تب تو نہیں مگر مسجد اقصیٰ کو جانے کے وقت یا جب باہر سیر وغیرہ کےلیے تشریف لاتے تو ضرور ہاتھ میں ہوا کرتا تھا۔ اور موٹی اور مضبوط لکڑی کو پسند فرماتے مگر کبھی اس پر سہارا یا بوجھ دے کر نہ چلتے تھے جیسے اکثر ضعیف العمر آدمیوں کی عادت ہوتی ہے۔”
نیز بیان کرتے ہیں :
“…شہتوت بیدانہ کے موسم میں آپ بیدانہ اکثر اپنے باغ کی جنس سے منگوا کر کھاتے تھے اور کبھی کبھی ان دنوں سیر کے وقت باغ کی جانب تشریف لے جاتے اور مع سب رفیقوں کے اسی جگہ بیدانہ تڑوا کر سب کے ہمراہ ایک ٹوکرے میں نوش جان فرماتے اور خشک میووں میں سے صرف بادام کو ترجیح دیتے تھے۔”(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 447)
حضرت منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی نے بیان کیا کہ
“ایک مرتبہ صبح کے وقت میرے دل میں شہتوت کھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ مگر مَیں نے اس خواہش کا کسی کے سامنے اظہار نہ کیا۔ اسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ کہ آج ہم باغ کی طرف سیر کے لیے جائیں گے۔ چنانچہ اسی وقت چل پڑے۔ باغ میں دو چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں ۔ باغ کے رکھوالے دو بڑے ٹوکرے شہتوتوں سے بھرے ہوئے لائے اور حضور کے سامنے رکھ دئیے۔ سب دوست چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔ بے تکلفی کا یہ عالم تھا۔ کہ حضور پائینتی کی طرف بیٹھے ہوئے تھے اور دوست سرہانے کی طرف۔ سب دوست شہتوت کھانے لگے۔ حضور نے میر ناصر نواب صاحب مرحوم سے فرمایا۔ کہ میر صاحب! شہتوت میاں عبدالعزیز کے آگے کریں ۔ چنانچہ کئی مرتبہ حضور نے یہی فرمایا۔ حالانکہ مَیں کھا رہا تھا۔ پھر بھی حضور نے ٹوکرا میرے آگے کرنے کی بار بار تاکید فرمائی۔ مَیں شرمندہ ہو گیا۔ کہ شاید حضور کو میری خواہش کا علم ہو گیا ہے۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 606)
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے نے بیان کیا کہ
“والد صاحب کا دستور تھا کہ …شام کو پہاڑی دروازے یعنی شمال کی طرف یا مشرق کی طرف سیر کرنے جایا کرتے تھے۔”
سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 193)
حضرت میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ بیان کرتے ہیں کہ
“ایک دفعہ حضرت صاحب قادیان کے شمالی جانب سیر کے لیے تشریف لے گئے۔میں اور شیخ حامد علی ساتھ تھے ۔راستہ کے اوپر ایک کھیت کے کنارے ایک چھوٹی سی بیری تھی اور اسے بیر لگے ہوئے تھے اور ایک بڑا عمدہ پکا ہوا لال بیر راستہ میں گرا ہوا تھا ۔ میں نے چلتے چلتے اسے اُٹھا لیا اور کھانے لگا۔ حضرت صاحب نے فرمایا نہ کھاؤ اور وہیں رکھ دو آخر یہ کسی کی ملکیت ہے ۔میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ اس دن سے آج تک میں نے کسی بیری کے بیر بغیر اجازت مالک اراضی کے نہیں کھائے کیونکہ جب میں کسی بیری کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے یہ بات یاد آجاتی ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس ملک میں بیریاں عموماً خود رو ہوتی ہیں اور ان کے پھل کے متعلق کوئی پروا نہیں کی جاتی۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 114)
حضرت مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ
“ایک دن حضرت صاحب شمال کی طرف سیر کو تشریف لے گئے۔ راستہ میں کسی نے حضرت صاحب کے سامنے پیش کیا کہ
ذٰلِکَ لِیَعْلَمَ اَنِّیْ لَمْ اَخُنْہُ بِالْغَیْبِ (یوسف:53)
والی آیت کے متعلق مولوی نورالدین صاحب نے بیان کیا ہے کہ یہ زلیخا کا قول ہے۔حضرت صاحب نے کہا کہ مجھے کوئی قرآن شریف دکھاؤ چنانچہ ماسٹر عبد الرؤف صاحب نے حمائل پیش کی آپ نے آیت کا مطالعہ کر کے فرمایا کہ یہ تو زلیخا کا کلام نہیں ہو سکتا ۔یہ یوسف علیہ السلام کا کلام ہے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے دوسرے طریق پر سنا ہے کہ اس وقت
وَمَا أُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوءِ (یوسف:54)
کے الفاظ کا ذکر تھا اور یہ کہ حضر ت صاحب نے اس وقت فرمایا تھا کہ یہ الفاظ ہی ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ زلیخا کا کلام نہیں بلکہ نبی کا کلام ہے کیونکہ ایسا پاکیزہ پر معنی کلام یوسف ہی کے شایان شان ہے۔زلیخا کے منہ سے نہیں نکل سکتا تھا۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 204)
……………………………………………………………(باقی آئندہ)