حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی طرف سے مقابلہ تفسیر نویسی کی دعوت اورپیر مہر علی شاہ صاحب کی اصل واقعاتی حقیقت (قسط 2 آخر)
پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی جھوٹی فتح کی حقیقت
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘لاہور میں جو ایک قابل شرم کارروائی پیر مہر علی شاہ صاحب سے ہوئی وہ یہ تھی کہ انہوں نے بذریعہ ایک پُرفریب حیلہ جوئی کے اُس مقابلہ سے انکار کر دیا جس کو وہ پہلے منظور کر چکے تھے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب میری طرف سے متواتر دنیا میں اشتہارات شائع ہوئے کہ خدا تعالیٰ کے تائیدی نشانوں میں سے ایک یہ نشان بھی مجھے دیا گیا ہے کہ مَیں فصیح بلیغ عربی میں قرآن شریف کی کسی سُورة کی تفسیر لکھ سکتا ہوں اور مجھے خدائے تعالیٰ کی طرف سے علم دیا گیا ہے کہ میرے بالمقابل اور بالمواجہ بیٹھ کر کوئی دُوسرا شخص خواہ وہ مولوی ہو یا کوئی فقیر گدی نشین ایسی تفسیر ہرگز لکھ نہیں سکے گا اور اس مقابلہ کے لیے پیر جی موصوف کو بھی بُلایا گیا تا وہ اگر حق پر ہیں تو ایسی تفسیر بالمقابل بیٹھ کر لکھنے سے اپنی کرامت دِکھلاویں یا ہمارے دعویٰ کو قبول کریں۔ تو اوّل تو پِیر جی نے دُور بیٹھے یہ لاف مار دی کہ اِس نشان کا مقابلہ مَیں کر وں گا۔ لیکن بعد اس کے اُن کو میری نسبت بکثرت روایتیں پہنچ گئیں کہ اس شخص کی قلم عربی نویسی میں دریاکی طرح چل رہی ہے اور پنجاب اور ہندوستان کے تمام مولوی ڈر کر مقابلہ سے کنارہ کش ہو گئے ہیں تب اُس وقت پیرجی کو سُوجھی کہ ہم بے موقعہ پھنس گئے۔ آخر حسب مثل مشہور کہ مرتاکیا نہ کرتا انکار کے لیے یہ منصوبہ تراشا کہ ایک اشتہار شائع کر دیا کہ ہم بالمقابل بیٹھ کر تفسیر لکھنے کے لیے تیار تو ہیں مگر ہماری طرف سے یہ شرط ضروری ہے کہ تفسیر لکھنے سے پہلے عقائد میں بحث ہو جائے کہ کس کے عقائد صحیح ہیں اور مسلّم اور مدلّل ہیں اور مولوی محمد حسین بٹالوی کہ جو نزول مسیح میں انہیں کے ہم عقیدہ ہیں اس تصفیہ کے لیے منصف مقرر کئے جائیں پھر اگر مولوی صاحب موصوف یہ کہہ دیں کہ پیر جی کے عقائد صحیح اور مسیح ابن مریم کے متعلق جو کچھ انہوں نے سمجھا ہے وُہی ٹھیک ہے تو فی الفور اُسی جلسہ میں یہ راقم ان کی بیعت کرے اور اُن کے خادموں اور مُریدوں میں داخل ہو جائے اور پھر تفسیر نویسی میں بھی مقابلہ کیا جائے۔ یہ اشتہار ایسا نہ تھا کہ اُس کا مکر اور فریب لوگوں پر کُھل نہ سکے آخر عقلمند لوگوں نے تاڑ لیا کہ اس شخص نے ایک قابلِ شرم منصوبہ کے ذریعہ سے انکار کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے بعد بہت سے لوگوں نے میری بیعت کی اور خود اُن کے بعض مُرید بھی اُن سے بیزار ہو کر بیعت میں داخل ہوئے۔ یہاں تک کہ ستّر ہزار کے قریب بیعت کرنے والوں کی تعداد پہنچ گئی اور مولویوں اور پیرزادوں اور گدی نشینوں کی حقیقت لوگوں پر کُھل گئی کہ وہ ایسی کارروائیوں سے حق کو ٹالنا چاہتے ہیں۔ ’’
(نزول المسیح۔روحانی خزائن جلد18حاشیہ صفحہ431تا432)
ایک دوسرے موقع پر آپؑ فرماتے ہیں:
‘‘چونکہ میں اپنی کتاب انجام آتھم کے آخیر میں وعدہ کر چکا ہوں کہ آئندہ کسی مولوی وغیرہ کے ساتھ زبانی بحث نہیں کروں گا اس لیے پیر مہر علی شاہ صاحب کی درخواست زبانی بحث کی جو میرے پاس پہنچی میں کسی طرح اس کو منظور نہیں کر سکتا افسوس کہ انہوں نے محض دھوکا دہی کے طور پر باوجود اس علم کے کہ میں ایسی زبانی بحثوں سے برکنار رہنے کے لیے جن کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا خدا تعالیٰ کے سامنے وعدہ کر چکا ہوں کہ میں ایسے مباحثات سے دوررہوں گا پھر بھی مجھ سے بحث کرنے کی درخواست کردی۔ میں یقینا ًجانتا ہوں کہ یہ ان کی درخواست محض اس ندامت سے بچنے کے لیے ہے کہ وہ اس اعجازی مقابلہ کے وقت جو عربی میں تفسیر لکھنے کا مقابلہ تھا اپنی نسبت یقین رکھتے تھے۔ گویا عوام کے خیالات کو اور طرف الٹا کر سُرخرو ہو گئے اور پردہ بنا رہا۔
ہر ایک دل خدا کے سامنے ہے اور ہر ایک سینہ اپنے گناہ کو محسوس کر لیتا ہے۔ لیکن میں حق کی حمایت کی وجہ سے ہر گز نہیں چاہتا کہ یہ جھوٹی سُرخروی بھی اُن کے پاس رہ سکے اس لیے مجھے خیال آیا کہ عوام جن میں سوچ کا مادہ طبعاًکم ہوتا ہے وہ اگرچہ یہ بات تو سمجھ لیں گے کہ پیر صاحب عربی فصیح میں تفسیر لکھنے پر قادر نہیں تھے اسی وجہ سے توٹال دیا لیکن ساتھ ہی انکو یہ خیال بھی گذریگا کہ منقولی مباحثات پر ضرور وہ قادر ہونگے تبھی تو درخواست پیش کر دی۔ اور اپنے دلوں میں گمان کریں گے کہ اُن کے پاس حضرت مسیح کی حیات اور میرے دلائل کے رد میں کچھ دلائل ہیں اور یہ تو معلوم نہیں ہوگا کہ یہ زبانی مباحثہ کی جرأت بھی میرے ہی اس عہد ترک بحث نے اُن کو دلائی ہے جو انجام آتھم میں طبع ہو کر لاکھوں انسانوں میں مشتہر ہو چکا ہے۔ لہٰذا میں یہ رسالہ لکھ کر اس وقت اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ اگر وہ اس کے مقابل پر کوئی رسالہ لکھ کر میرے ان تمام دلائل کو اوّل سے آخر تک توڑ دیں۔ اور پھر مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی ایک مجمع بٹالہ میں مقرر کرکے ہم دونوں کی حاضری میں میرے تمام دلائل ایک ایک کرکے حاضرین کے سامنے ذکر کریں اور پھر ہر ایک دلیل کے مقابل پر جس کو دہ بغیر کسی کمی بیشی اور تصرف کے حاضرین کو سُنا دیں گے۔ پیر صاحب کے جوابات سُنا دیں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہیں کہ یہ جوابات صحیح ہیں اور دلیل پیش کردہ کی قلع قمع کرتے ہیں تو میں مبلغ پچاس روپیہ انعام بطور فتحیابی پیر صاحب کو اسی مجلس میں دے دونگا۔اور اگر پیر صاحب تحر یر فر ما ویں تو میں یہ مبلغ پچاس روپیہ پہلے سے مولوی محمد حسین صا حب کے پا س جمع کر ا دوں گا مگر یہ پیر صاحب کا ذمہ ہوگا کہ وہ مولوی محمد حسین صاحب کو ہدایت کریں کہ تا وہ مبلغ پچاس روپیہ اپنے پاس بطور امانت جمع کرکے باضابطہ رسید دیدیں اور مندرجہ بالا طریق کی پابندی سے قسم کھا کران کو اختیار ہوگا کہ وہ بغیر میری اجازت کے پچاس روپیہ پیر صاحب کے حوالہ کر دیں۔ قسم کھانے کے بعد میری شکایت اُن پر کوئی نہیں ہوگی۔ صرف خدا پر نظر ہوگی جس کی وہ قسم کھائیں گے۔ پیر صاحب کا یہ اختیار نہیں ہوگا کہ یہ فضول عذرات پیش کریں کہ میں نے پہلے سے ردّ کرنے کے لیے کتاب لکھی ہے۔ کیونکہ اگر انعامی رسالہ کا انہوں نے جواب نہ دیا تو بلا شبہ لوگ سمجھ جائیں گے کہ وہ سیدھے طریق سے مباحثات پر بھی قادر نہیںہیں۔’’
(تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد 17صفحہ36)
القاء ربانی سے تفسیر نویسی کی ایک اَور تحریک
پیر صاحب کے لاہور میں مقابلہ تفسیر نویسی سے گریزکے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 15؍ دسمبر 1900ء کو اپنی کتاب اربعین نمبر4 میں پیر صاحب کو یہ چیلنج دیا کہ 70دن کے اندر اندر (یعنی 25؍ فروری 1901ء)فصیح و بلیغ عربی زبان میں چار جلدوں پر مشتمل سورۂ فاتحہ کی تفسیر میرے مقابل پر لکھیں اور اس سلسلہ میں عرب و عجم کے علماء سے بھی مدد لے لیں اور پھر دیکھیں گے کہ حق کس کے ساتھ ہے۔چنانچہ اس کی تفصیل حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے ایک اشتہار 15؍دسمبر 1900ء میں بالقاء ربانی تفسیر لکھنے کی ایک اَور تجویز کو اس طرح پیش فرما یا:
‘‘افسوس کہ علمی نشان کے مقابلہ میں نادان لوگوں نے پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی نسبت ناحق جھوٹی فتح کا نقارہ بجا دیا اور مجھے گندی گالیاں دیں اور مجھے اس کے مقابلہ پر جاہل اور نادان قرار دیا۔ گویا مَیں اس نابغہ وقت اور سحبان زمان(معنی:فصیح و بلیغ لوگ.ناقل)کے رعب کے نیچے آکر ڈر گیا ورنہ وہ حضرت تو سچے دل سے بالمقابل عربی تفسیر لکھنے کے لیے تیار ہو گئے تھے اور اسی نیت سے لاہور تشریف لائے تھے۔ پر مَیں آپ کی جلالتِ شان اور علمی شوکت کو دیکھ کر بھاگ گیا اے آسمان جھوٹوں پر لعنت کر ۔آمین۔ پیارے ناظرین کاذب کے رسوا کرنے کے لیے اسی وقت جو 7؍دسمبر1900ء روز جمعہ ہے خدا نے میرے دل میں ایک بات ڈالی ہے اور مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کا جہنم جھوٹوں کے لیے بھڑک رہا ہے کہ مَیں نے سخت تکذیب کو دیکھ کر خود اس فوق العادت مقابلہ کے لیے درخواست کی تھی۔ اور اگر پیر مہر علی شاہ صاحب مباحثہ منقولی اور اس کے ساتھ بیعت کی شرط پیش نہ کرتے جس سے میرا مدعا بکلّی کالعدم ہو گیا تھا تو اگر لاہور اور قادیان میں برف کے پہاڑ بھی ہوتے اور جاڑے کے دن ہوتے تو مَیں تب بھی لاہور پہنچتا اور ان کو دکھلاتا کہ آسمانی نشان اس کو کہتے ہیں۔ مگر انہوں نے مباحثہ منقولی اور پھر بیعت کی شرط لگا کر اپنی جان بچائی اور اس گندے مکر کے پیش کرنے سے اپنی عزت کی پروا نہ کی۔ لیکن اگر پیرجی صاحب حقیقت میں فصیح عربی تفسیر پر قادر ہیں اور کوئی فریب انہوں نے نہیں کیا تو اب بھی وہی قدرت اُن میں ضرور موجود ہوگی۔ لہٰذا مَیں اُن کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اسی میری درخواست کو اس رنگ پر پورا کر دیں کہ میرے دعاوی کی تکذیب کے متعلق فصیح بلیغ عربی میں سورة فاتحہ کی ایک تفسیر لکھیں جو چار 4جز سے کم نہ ہو اور مَیں اسی سورة کی تفسیر بفضل اللہ وقوتہٖ اپنے دعویٰ کے اثبات سے متعلق فصیح بلیغ عربی میں لکھوں گا۔ انہیں اجازت ہے کہ وہ اس تفسیرمیں تمام دنیا کے علماء سے مدد لے لیں۔ عرب کے بلغاء فصحاء بلالیں۔ لاہور اور دیگر بلاد کے عربی دان پروفیسروں کو بھی مدد کے لیے طلب کر لیں۔15؍دسمبر1900ء سے ستر(70)دن تک اس کام کے لیے ہم دونوں کو مہلت ہے ایک دن بھی زیادہ نہیں ہوگا۔ اگر بالمقابل تفسیر لکھنے کے بعد عرب کے تین نامی ادیب ان کی تفسیر کو جامع لوازم بلاغت و فصاحت قرار دیں اور معارف سے پُر خیال کریں تو مَیں پانسو (500)رو پیہ نقد ان کو دوں گا۔ اور تمام اپنی کتابیں جلا دوں گا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا۔ اور اگر قضیہ برعکس نکلا یا اس مدت تک یعنی ستر70روز تک وہ کچھ بھی لکھ نہ سکے تو مجھے ایسے لوگوں سے بیعت لینے کی بھی ضرورت نہیں اور نہ روپیہ کی خواہش صرف یہی دکھلاؤں گا کہ کیسے انہوں نے پیر کہلاکر قابل شرم جھوٹ بولا اور کیسے سراسر ظلم اور سفلہ پن اور خیانت سے بعض اخبار والوں نے ان کی اپنی اخباروں میں حمایت کی۔ مَیں اس کام کو انشاء اللہ تحفہ گولڑویہ کی تکمیل کے بعد شروع کر دوں گااور جو شخص ہم میں سے صادق ہے وہ ہر گز شرمندہ نہیں ہوگا۔ اب وقت ہے کہ اخباروں والے جنہوں نے بغیر دیکھے بھالے کے ان کی حمایت کی تھی ان کواس کام کیلئے اٹھاویں۔ ستر(70) دن میں یہ بات داخل ہے کہ فریقین کی کتابیں چھپ کر شائع ہو جائیں۔’’
(اربعین روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 448تا450)
اس اعلان کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معینہ مدّت کے اندر23؍فروری1901ءکو عربی زبان میں سورۃ الفاتحہ کی تفسیرپر مشتمل کتاب اعجاز المسیح شائع کر دی یہ ایک لاجواب کتاب ہے اس کتاب کے سرورق پر آپ نے بطور پیشگوئی لکھا‘‘فَاِنَّہٗ کِتَابٌ لَیْسَ لَہٗ جَوَابٌ۔ وَ مَنْ قَامَ لِلْجَوَابِ وَ تَنَمَّرَ۔ فَسَوْفَ یَرَی اَنَّہٗ تَنَدَّمَ وَ تَذَمَّرَ’’یعنی یہ ایک لاجواب کتاب ہے جو بھی اس کتاب کا جواب لکھنے کے لیے کھڑا ہوگا وہ نادم ہوگا اور حسرت کے ساتھ اس کا خاتمہ ہوگا۔
نیز اس تفسیر کے لکھنے کی غرض یہ بیان فرما ئی کہ تا پیر مہر علی شاہ صا حب کا جھوٹ ظاہر ہو کہ وہ قرآن کا علم رکھتا ہے۔لیکن پیر صا حب کو گھر بیٹھ کر بھی بالمقابل تفسیر لکھنے کی جرأت نہ ہوئی۔
اعجاز المسیح کا جواب لکھنے کی کوشش اورمولوی محمد حسن فیضی کا انجام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 23؍فروری 1901ء کو کتاب ‘‘اعجاز المسیح’’شائع کر دی جو پیر صاحب کو بھی پہنچائی گئی۔ اس کتاب میں پیر صاحب کے علاوہ علماء عرب و عجم کو بھی تفسیر نویسی کے لیے مقابلہ کی کھلی دعوت دی گئی تھی۔ اس دعوت مقابلہ کو قبول کرتے ہوئے ایک مولوی محمد حسن فیضی ساکن موضع بھیں تحصیل چکوال ضلع جہلم مدرس مدرسہ نعمانیہ واقع شاہی مسجد لاہور نے عوام میں شائع کیا کہ وہ اس کا جواب لکھے گا چنانچہ اس نے جواب کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اعجاز المسیح اور حضرت مولوی محمد احسن صاحب امروہوی کی کتاب شمس بازغہ پر نوٹ لکھنے شروع کیے۔ ان نوٹوں میں اس نے ایک جگہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین بھی لکھ دیا جس پر ابھی ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر خاص کے تحت وہ ہلاک ہو گیا۔
ادھر حضرت بانی جماعت احمدیہ اس انتظار میں تھے کہ پیر صاحب مقابلہ میں عربی زبان میں تفسیر لکھ کر شائع کرنے کی ضرور کوشش کریں گے لیکن افسوس کہ معینہ مدت گزرنے کے تقریباً ڈیڑھ دو سال بعد یکم جولائی 1902ء کو پیر صاحب موصوف کی طرف سے کتاب ‘‘سیف چشتیائی’’آپ کو ملی جو عربی کی بجائے اُردو زبان میں تھی اور سورۂ فاتحہ کی تفسیر کی بجائے ہر دو کتب اعجاز المسیح اور شمس بازغہ پر بے بنیاد اعتراضات اور بے سروپا نکتہ چینیوں پر مشتمل تھی۔حالانکہ بظاہر اتفاق تو یہ تھا کہ
‘‘آئندہ کوئی اہل اسلام مرزا قادیانی اَور اُس کے حواریوں کی کِسی تحریر کی پرواہ نہ کریں ۔اور نہ اِن سے مخاطب ہوں،اور نہ ہی کچھ جواب دیں ۔’’(مہر منیر صفحہ237)
اس طرح پیر صاحب کا تفسیر نویسی کے مقابلہ میں عجز اور عربی دانی میں نااہل ہونا دنیا پر واضح ہو گیا اور حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کا اپنی کتاب ‘‘اعجاز المسیح’’کے بارہ میں یہ الہام بڑی شان کے ساتھ پورا ہوا۔‘‘مَنَعَہٗ مَانِعٌ مِّنَ السَّمَآءِ’’کہ آسمان سے ایک روکنے والے نے اسے روک دیا۔ یعنی کوئی بھی مدِّمقابل اس کتاب کی نظیر پیش نہیں کر سکا۔پیر صاحب کے مقابلہ تفسیر نویسی سے مختلف حیلوں اور بہانوں سے گریز کی بنا پر ان کے بعض قریبی مریدوں نے احمدیت قبول کر لی اور بعض معتبر لوگوں نے پیر صاحب سے تفسیر لکھنے کا مطالبہ کیا۔ تو پیر صاحب نے اپنے عجز اور ناکامی کو چھپانے کے لیے فرمایا۔
‘‘میرے خیال تفسیر نویسی پرمیرے قلب پر معانی و مضامین کی اس قدر بارش شروع ہو گئی ہے جسے ضبط تحریر میں لانے کے لیے ایک عمر درکار ہوگی اور کوئی اَور کام نہ ہو سکے گا’’
(مہر منیر صفحہ245۔طبع ہشتم)
کاش پیر صاحب دوسرے کاموں کی بجائے تفسیر ہی لکھ دیتے تو انہیں ہزیمت اور شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور نہ یہ عذر پیش کرنے کی نوبت آتی۔
جبکہ اس کے برعکس بزعم خود پیر صاحب کا قلم ہی اس قابل تھا کہ وہ توجہ کرنے پر خود بخود لکھ سکتا تھا۔تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ قلم کو یہ حکم دے کر باقی زندگی اپنے دیگر کام کرتے رہتے۔چنانچہ پیر صاحب کی جب ابتدائی طور پرسیر ت وسوانح ‘‘مہر منیر ’’سے لکھی گئی تو اس وقت پیر صاحب کے قلم کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ
‘‘حضرت قبلہ عالم قدس سرّہ نے اِس موقعہ پر(یعنی تفسیر نویسی کے مقابلہ ۔ناقل)ایک اَور بات بھی فرمائی تھی جو بہت مشہور ہوئی اور مدّت تک اِس کا چرچا رہا۔آپ(یعنی پیر مہر علی شاہ۔ناقل)نے…فرمایا کہ علمائے اسلام کا اصل مقصود تحقیق حق اَور اعلاءکلمۃ اللہ ہوا کرتا ہے۔فخر و تعلّی مقصد نہیںہوتا ۔ورنہ جناب نبی کریمﷺ کی اُمت میں اِس وقت بھی ایسے خادم دین موجود ہیں کہ اگر قلم پر توجہ ڈالیں تو وہ خُود بخود کا غذ پر تفسیر قرآن لکھ جائے’’(مہر منیر صفحہ 234۔طبع ہشتم)
اب جبکہ موصوف کی طرف منسوب کتاب ‘‘سیف چشتیائی’’کا طبع ہفتم 2011ء میں شائع ہوا،تو پہلی روایت میں تبدیلی کردی گئی اورلکھا کہ اس وقت باقاعدہ دعوت دی گئی تھی کہ ‘‘اس معاملہ میں اختلاف کرنے والے بھی سفید کاغذ میدان میں رکھ دیں اَور میں بھی رکھ دیتا ہوں ۔جس کے کاغذ پر خودبخود غیبی تحریر ہوجائے وہی سچا سمجھا جائے گا۔دنیا جانتی ہے کہ آپ کے اس واضح چیلنج کو سن کر مخالفین دم بخود رہ گئے اور میدان ِمناظرہ میں آنے تک کی جرأت بھی نہ کرسکے۔’’
(سیف چشتیائی ۔بار ہفتم ۔مطبوعہ ایم ایم پرنٹرز لاہور۔ضیاء القرآن پبلی کیشنز ۔صفحہ IX)
سبحان اﷲ!وہ قلم تو اپنے پیر صاحب سے بھی زیادہ مستعد نکلا کہ جو کام پیر صاحب نہ کر سکے ان کے قلم نے کر دکھایا۔لیکن مثل مشہور ہے کہ ‘‘درگوہ حافظہ نہ باشند’’پس وہ قلم جس کے بارے شروع میں کہا گیا تھا کہ اگر ضرورت پڑتی تو لکھ بھی سکتا تھا، چند سال بعد اب یاد آیا کہ نہ صرف وہ بہت کچھ لکھ سکتا تھا۔بلکہ اس بابت تو باقاعدہ مرزا صاحب کو دعوت بھی دی گئی تھی۔اچھا ہوتا کہ کاش جو معارف پیر صاحب کو ملے تھے اور جس کے لیے ایک عمر چاہیے تھی وہ قلم کو حکم دے کر خود باقی کاموں میں مصروف رہتے ۔تاکہ دنیا ان معارف کو دیکھ سکتی ! لیکن افسوس صد افسوس ایسا نہ ہوسکا،باقی ہوتا بھی کیوں جب تھا ہی کچھ نہیںنیز یاد رہے کہ جس نبی کے اسوہ حسنہ کی پیروی کا اُمت کو حکم ہے اس کا توایک عظیم وصف یہ بھی بیان کیا گیا کہ
وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ
‘‘اور وہ غىب (کے بىان)پر بخىل نہىں ’’۔ (التكوير:25)
پس غور فرمائیں۔
سرقہ کا چرچہ اور اصل مجرم
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابھی پیر صاحب کی کتاب ‘‘سیف چشتیائی’’میں مذکور نکتہ چینیوں کا جواب اپنی کتاب نزول المسیح میں لکھ ہی رہے تھے کہ 20؍جولائی 1902ءکو موضع بھیں سے مولوی محمد حسن صاحب فیضی کے دوست میاں شہاب الدین کا خط آپ کو ملا جس سے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ کتاب ‘‘سیف چشتیائی’’پیر صاحب کی تصنیف نہیں بلکہ سرقہ ہے وہ لکھتے ہیں:
‘‘محمد حسن فیضی کا مسودہ علیحدہ خاکسار کو نہیں دکھایا گیا… البتہ شمس بازغہ اور اعجاز المسیح پر جو مذکور نے نوٹ کیے تھے وہ دیکھے ہیں۔ گولڑوی ظالم نے وہی نوٹ کتابیں منگوا کر درج کر دیے ہیں۔ اپنی لیاقت سے کچھ نہیں لکھا۔’’
اس طرح مولوی کرم دین صاحب آف بھیں چکوال نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں اپنے خط محررہ 21؍ جولائی1902ء میں لکھا:
‘‘مرحوم (مولوی محمدحسن فیضی)نے کتاب اعجاز المسیح اور شمس بازعہ کے حواشی پر اپنے خیالات لکھے تھے یہ دونوں کتابیں پیر صاحب نے مجھ سے منگوائی تھیں اور اب واپس آ گئی ہیں۔ مقابلہ کرنے سے وہ نوٹ باصلہٖ درج کتاب پائے گئے یہ نہایت سارقانہ کارروائی ہے’’۔
بعد میں مولوی محمد حسن فیضی متوفی کی دستخطی نوٹوں والی کتابیں اعجاز المسیح اور شمس بازغہ بھی حاصل کر لی گئیں اور سیف چشتیائی سے ان نوٹوں کا موازنہ کر کے پیر صاحب کا قطعی چور ہونا مشاہدہ کر لیا گیا اور پیر صاحب رنگے ہاتھوں پکڑے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی کتاب اعجاز المسیح کے بارہ میں یہ پیشگوئی بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی کہ جو شخص اس کتاب کا جواب لکھنے کے لیے کھڑا ہوگا وہ نادم ہوگا۔اس بابت تفصیل حضور علیہ السلام کی کتاب نزول المسیح میں موجود ہے۔خلاصہ کلام یہ کہ
1۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیر صاحب کو مباہلہ کی دعوت دی جسے پیر صاحب نے قبول نہ کیا۔
2۔ پیر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایک کتاب شمس الھدایہ لکھی جو بعد میں ان کے مرید مولوی محمد غازی صاحب کی تالیف کردہ ثابت ہوئی۔
3۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے پیر صاحب کو بالمقابل تفسیر لکھنے کا چیلنج دیا لیکن پیر صاحب کو تفسیر لکھنے کی جرأت نہ ہوئی۔
4۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیر صاحب کو عربی زبان میں سورہ فاتحہ کی چار جلدوں پر مشتمل تفسیر 70 دن میں لکھنے کا چیلنج دیا لیکن پیر صاحب کو اس مدت کے اندر تفسیر لکھنے کی جرأت نہ ہوئی۔
5۔ پیر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اعجاز المسیح اور مولوی محمداحسن صاحب امروہوی کی کتاب شمس بازغہ پر بے جا نکتہ چینیاں اور بے بنیاد اعتراضات کرتے ہوئے اردو زبان میں ایک کتاب ‘‘سیف چشتیائی’’ اپنی طرف منسوب کر کے شائع کروائی جو بعد میں سرقہ ثابت ہوئی۔
اب قارئین خود ہی فیصلہ فرمائیں کہ کامیابی کسے نصیب ہوئی اور ناکامیوں کا منہ کس کو دیکھنا پڑا۔
مقدمہ کرم دین کی مختصر تفصیل
جیسا کہ اُوپر تذکرہ کیا گیا ہے کہ جب پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی نے جو اپنی کتاب ‘‘سیف چشتیائی’’مولوی محمد حسن سکنہ بھیں کے نوٹوں کو نقل کرکے لکھی تھی ۔اور اس غریب کا نام تک بھی اپنی کتاب میں نہ لیا تھا ۔اس سلسلہ میں جو خط وکتابت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ، حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ؓ اور حضرت فضل دین بھیروی ؓصاحب کے ساتھ میاں شہاب الدین صاحب اور مولوی کرم الدین صاحب سکنہ بھیں نے کی تھی ۔اسے حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ ایڈیٹر الحکم نے شائع کردیا تھا ۔ اورچونکہ کرم الدین ایک کمزور طبیعت کا شخص تھا،وہ پیر مہر علی شاہ صاحب کے مریدوں کا سامنا نہ کرسکا۔اور اپنی ساخت کو بچانے کے لیے ‘‘سراج الاخبار’’جہلم میں پیر صاحب کے مُریدوں کو خوش کرنے کے لیے یہ شائع کروا دیا کہ مَیں نے ہرگز مرزا صاحب کو کوئی خط نہیں لکھا۔بلکہ کسی بچہ سے لکھواکر مَیں نے مرزا صاحب کے ملہم ہونے کا امتحان لیا تھا۔وغیرہ وغیرہ ۔اس مقدمہ کے حالات متفرق جماعتی کتب میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔(تفصیل کے لیے تاریخ احمدیت جلد دوم بعنوان متذکرہ۔حیات طیبہ۔سیر ت احمد وغیرہ۔)اس مقدمہ کو خلاصۃً حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے رضی اللہ عنہ نے سلسلہ احمدیہ حصہ اوّل میں درج کیا ہے۔چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں کہ
‘‘یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے دشمنوں کا ایک حربہ یہ بھی تھا کہ آپ پر جھوٹے مقدمات کھڑے کر کے نقصان پہنچایا جاوے۔ چنانچہ 1903ء کے شروع میں آپ کے خلاف پھر ایک فوجداری مقدمہ قائم کیا گیا۔ یہ مقدمہ ایک شخص مولوی کرم دین ساکن بھیں ضلع جہلم کی طرف سے تھا جس میں مولوی کرم دین نے یہ استغاثہ دائر کیا تھا کہ مرزا صاحب نے میرے متعلق اپنی کتاب ‘‘مواہب الرحمٰن’’میں جھوٹے اور کمینہ کے الفاظ لکھے ہیں جو میری ازالہ حیثیت عرفی کا موجب ہوئے ہیں۔ اس مقدمہ کی بنا یہ تھی کہ مولوی کرم دین نے حضرت مسیح موعودؑ کو ایک خط لکھا تھا جس میں یہ ظاہر کیا تھا کہ میں آپ کا ہمدرد ہوں اور اس میں یہ اطلاع دی تھی کہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی جو کتاب آپ کی کتاب ‘‘اعجاز المسیح’’کے مقابلہ پر لکھ رہے ہیں اس میں انہوں نے ایک دوسرے شخص کی کتاب کے مسودہ سے سرقہ کیا ہے۔ مولوی کرم دین کا یہ خط اخبار الحکم قادیان میں چھاپ دیاگیا تا کہ یہ ظاہر ہو کہ سلسلہ کے مخالفین کس اخلاق اور کس ذہنیت کے لوگ ہیں۔اس پر مولوی کرم دین نے بر افروختہ ہو کرایک مضمون شائع کیا کہ میں نے یونہی ہنسی اور امتحان کے خیال سے یہ ساری بات لکھی تھی ورنہ پیر مہر علی شاہ صاحب نے کوئی سرقہ نہیں کیا ۔ جب حضرت مسیح موعود ؑکو مولوی کرم دین کے اس مضمون کی اطلاع ہوئی تو آپ کو اپنے مخالف مولویوں کی حالت پر سخت افسوس ہوا اور آپ نے اپنی عربی کتاب ‘‘مواہب الرحمٰن’’ میں جو ان ایام میں زیر تصنیف تھی مولوی کرم دین کے متعلق لکھا کہ یہ شخص کذاب اور لئیم ہے یعنی جھوٹ بولنے والا اور کمینہ مزاج شخص ہے کہ ایسے سنجیدہ معاملات میں بھی اس نے جھوٹ اور کمینگی سے کام لیا ہے۔ اس پر مولوی کرم دین نے حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف ازالہ حیثیت کا دعویٰ دائر کر دیا جس کے جواب میں دفاع کے خیال سے ایک مقدمہ ایڈیٹر اخبار الحکم کی طرف سے مولوی کرم دین کے خلاف بھی دائر کر دیا گیا۔
حضرت مسیح موعود ؑ کے خلاف مقدمہ کی پہلی پیشی جنوری 1903ء میں جہلم میں ہوئی چنانچہ آپ وہاں تشریف لے گئے۔ اس سفر میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو ایسی قبولیت عطا فرمائی اور لوگوں کا ایسا رجوع ہوا کہ راستہ میں ہر سٹیشن پر زائرین کا اتنا ہجوم ہوتا تھا کہ پولیس اور محکمہ ریلوے کو انتظام کرنا مشکل ہو جاتا تھا اور جہلم میں تو لوگوں کی اتنی کثرت تھی کہ جہاں تک نظر جاتی تھی آدمی نظر آتے تھے اور حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کے لیے دور دراز سے لوگ اکٹھے ہو گئے تھے۔ ان میں ایک حصہ اشد مخالف اور دشمن بھی تھا لیکن اکثر لوگ عقیدت اور زیارت کے لیے آئے تھے۔ چنانچہ اس موقع پر جہلم میں قریباً ایک ہزار آدمیوں نے بیعت کی۔ اور لوگوں کی توجہ سے صاف نظر آتا تھا کہ جماعت کی ترقی میں ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔
اس کے بعد یہ مقدمہ جہلم میں ختم ہو کر گورداسپور میں جاری ہو گیا جو اس ضلع کا صدر مقام ہے جس میں قادیان واقع ہے اور پھر قریباً دو سال تک جاری رہا جس کے لیے حضرت مسیح موعودؑ کو بعض اوقات لمبے لمبے عرصہ کے لیے گورداسپور میں جا کر ٹھہرنا پڑا کیونکہ مجسٹریٹ صاحب عموماً اتنی اتنی قریب کی تاریخیں مقرر کرتے تھے کہ قادیان آنا جانا باعثِ تکلیف تھا۔ اس مقدمہ میں اوپر تلے دو مجسٹریٹ بدلے اور اتفاق سے دونوں ہندو تھے اور ان ایام میں یہ افواہ بہت گرم تھی کہ آریہ لوگ ان مجسٹریٹوں کے کان بھرتے رہتے ہیں کہ مرزا صاحب نعوذ باللہ لیکھرام کے قاتل ہیں اور اب اپنا قومی بدلہ اتارنے کا اچھا موقع ہے۔ اور مجسٹریٹوں کے تیور بھی بدلے ہوئے نظر آتے تھے ۔ انہی ایام میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑکو یہ اطلاع پہنچی کہ بعض آریوں نے مجسٹریٹ سے کہا ہے کہ اس وقت یہ شخص آپ کے ہاتھ میں ایک شکار ہے اسے اب بچ کر نہیں جانے دینا چاہیے۔ اس وقت حضرت مسیح موعود ؑچارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اور طبیعت کچھ خراب تھی مگر یہ بات سن کر آپؑ جوش کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور آپؑ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپؑ نے جوش کے ساتھ فرمایا ۔ ‘‘کیا یہ لوگ مجھے شکار سمجھتے ہیں؟ میں شکار نہیں ہوں۔ میں تو خدا کا شیر ہوں اور خدا کے شیر پر کوئی ہاتھ تو ڈال کر دیکھے!’’پھر تھوڑی دیر تک خاموش رہنے کے بعد فرمایا۔ ‘‘میں کیا کروں میں نے تو خدا سے کئی دفعہ عرض کیا ہے کہ میں تیرے دین کی خاطر اپنے ہاتھوں میں لوہے کے کڑے پہننے کے لیے تیار ہوں مگر وہ مجھے باربار یہی کہتا ہے کہ نہیں نہیں میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گا۔ میں تیری حفاظت میں کھڑا ہوں اور کوئی شخص تجھ پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔’’انہی دنوں میں حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ بھی کہا کہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ اس عدالت میں سزا ہو جائے گی مگر عدالتِ اپیل میں بریت ہو گی۔
الغرض یہ مقدمہ دو سال تک چلتا رہا ۔ اور اس عرصہ میں حضرت مسیح موعود ؑکا بہت سا قیمتی وقت ضائع ہوا اور بالآخر مجسٹریٹ نے 1904ء کے آخر میں آپ کو پانچ سو روپیہ جرمانہ کی سزا دے دی اور دوسرے مقدمہ میں جو ایڈیٹر الحکم کی طرف سے تھا مولوی کرم دین کوپچاس روپے جرمانہ کیا گیا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی طرف سے جرمانہ فوراً ادا کر دیا گیا اور سشن جج کے پاس اپیل کی گئی سشن جج نے جو ایک انگریز افسر تھا پہلی ہی پیشی میں جو جنوری 1905ء میں ہوئی اپیل کو منظور کر لیا بلکہ افسوس ظاہر کیا کہ ایسا معمولی سا مقدمہ اتنے لمبے عرصہ تک چلتا رہا ہے اور لکھا کہ کرم دین نے جن گرے ہوئے اخلاق کا اظہار کیا ہے اس کے پیش نظر جو الفاظ اس کے متعلق مرزا صاحب نے لکھے ہیں وہ بالکل جائز اور واجبی ہیں اور ان سے اس کی قطعاً کوئی ہتک نہیں ہوئی بلکہ صرف امر واقع کا اظہار ہوا ہے جو حالات کے ماتحت ضروری تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑخدائی وعدہ کے مطابق بری کیے گئے اور آپ کا جرمانہ واپس ہوا۔ مگر مولوی کرم دین کا جرمانہ قائم رہا اور اس کے جھوٹ اور کمینگی پر ہمیشہ کے لیے مہر تصدیق ثبت ہو گئی۔’’
(سلسلہ احمدیہ جلد اوّل ۔صفحہ 133تا 135)
٭…٭…٭