یادِ رفتگاں

میری والدہ محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ زوجہ سید محمدظفرصاحب مرحوم کا ذکر خیر

(محمد داؤد ظفر۔مربی سلسلہ)

میری والدہ محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ زوجہ سید محمد ظفر صاحب مرحوم کےآباؤ اجدادکشمیر میں راجوری شہر سے تقریباً تیس میل کے فاصلہ پر شمال مغرب میں چارکوٹ کے علاقہ میں آباد تھے جوبعد میں چارکوٹ سے24 میل کے فاصلہ پہ رہتال مقام پر منتقل ہوگئے۔تقسیم ملک کے وقت والدہ کے خاندان کےافراد ہجرت کر کے پاکستان آئےاوراس خاندان کو دوران ہجرت بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ کے والد دین محمد صاحب ریلوے میں ملازم تھے۔والدہ کی عمر پانچ سال کے قریب تھی تو آپ کے والد اللہ کو پیارے ہو گئے ۔آپ کی والدہ نےاکیلے ہی بڑی محنت و مشقت کر کےاپنے بچوں کو پالا۔ہجرت پاکستان کے بعد یہ خاندان عارضی طور پہ واہ کینٹ مقیم رہا اوربعد میں موضع بھون ضلع چکوال میں مستقل قیام پذیر ہوا۔والدہ کے خاندان میں احمدیت ان کےدادافتح محمد صاحب کے ذریعہ آئی جو پاکستان ہجرت کے دوران فوت ہوئے۔انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت قاضی محمد اکبر صاحب رضی اللہ عنہ کےذریعہ قبول احمدیت کی سعادت پائی۔حضرت قاضی محمد اکبر صاحب رضی للہ عنہ کے ساتھ آپ کے خاندانی مراسم اور رشتہ داری تھی۔چارکوٹ ایک وسیع سنگلاخ پہاڑی علاقہ تھا جہاں پر جماعت کی بنیاد رکھی گئی اوریہاں سے جماعت آس پاس کے مختلف علاقوں میں پھیلی۔ابتدا میں جماعت کے روح رواں حضرت قاضی محمد اکبر صاحب رضی اللہ عنہ تھے۔بعدہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دور میں حضرت مولوی محمد حسین صاحب رضی اللہ عنہ سبز پگڑی والےان علاقہ جات میں تبلیغی اور تربیتی دورہ جات کی غرض سےتشریف لے جاتےرہےاور بہت سے لوگ آپ کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہوئے۔راقم کے دادا بھی اس دَورمیں صحابی حضرت مسیح موعودؑحضرت مولوی محمد حسین صاحب رضی اللہ عنہ کے ذریعہ بیعت سے مشرف ہوئے۔

قاضی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حلقہ بگوش احمدیت ہونے سے قبل اہلحدیث تھے۔ حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمیؓ سے مراسم تھے۔ اپنے علاقے کے امام تھے۔ علاقے کے لوگوں کی دینی تعلیم اور تدریس میں مشغول تھے کہ کسوف خسوف کا نشان آسمان پر ظاہر ہوا۔ آپ اس امر سے پہلے ہی آگاہ تھے کہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا زمانہ قریب ہے۔ کسوف خسوف کے عظیم الشان نشان کے ظاہر ہونے پر اپنے طلباء اور حلقہ احباب میں تذکرہ ہونے لگا۔ قاضی صاحب نے فرمایا کہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا نشان تو ظاہر ہوگیا ہے ہمیں ان کی تلاش کرنی چاہیے۔ ان ایام میں چارکوٹ کے لوگ سودا سلف کے لیے جہلم جایا کرتے تھے۔ قاضی صاحب نے جہلم آنے والے احباب کے سپرد یہ کام کیا کہ حضرت مولوی برہان الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کریں۔ ان سے پوچھ کر آئیں کہ سورج چاند گرہن کا یہ نشان تو ظاہر ہو گیا آپ امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔ چنانچہ وہ لوگ حضرت مولوی صاحب سے ملے۔ حضرت مولوی صاحب نے چند کتب اور ایک خط حضرت قاضی صاحب کی طرف بھیجا۔ آپ کو تحقیقات کی مزید تحریک ہوئی۔ چنانچہ آپ نے تحقیقات کے لیے تین افراد پرمشتمل وفد قادیان بھجوایا اور ان تینوں نے قادیان پہنچ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی۔ اس کے بعد قاضی صاحب نے پہلے تحریری بیعت کی اور پھر قادیان پہنچ کر دستی بیعت کا شرف حاصل کیا۔
والدہ خدا کے فضل سے بڑی خوبیوں کی مالک تھیں۔والدہ محترمہ کے نمایاں اوصاف میں نمازوں کی باقاعدہ پابندی، ذکر الٰہی ، چندوں کی ادائیگی، خلافت سے محبت اور نظام جماعت کی اطاعت ،صلہ رحمی ،بیماروں کی تیمارداری ،ضرورت مندوں کی مدد،واقفین کی عزت و احترام اور ان کی خدمت ،بچوں کی تربیت و تعلیم پہ توجہ اور ان سے پیار وشفقت کاوصف تھا۔

بہادری و شجاعت

والدہ بڑی نڈر اور بہادر خاتون تھیں۔ 1974ء میں جب جماعت کے خلاف ملک گیر مہم شروع کی گئی اور سارے ملک میں احمدیوں کی املاک اورگھروں کو نقصان پہنچایا گیا۔شاذ ہی کوئی ایسا مقام تھا جہاں شریر طبع لوگوں نے احمدیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کی ہو۔ہمارے گاؤں گرمولہ ورکاں ضلع گوجرانوالہ میں بھی شریر طبع لوگوں نے فسادکی کوشش کی اور بار بارلوگوں کو احمدیوں کی املاک کو نقصان پہنچانے کے لیے اکسایا اور لوگ احمدیوں کے خلاف باہر نکلے۔اس زمانہ میں مولانا احمد علی شاہ صاحب سابق نائب ناظراصلاح و ارشادمرکزیہ کاغیراحمدیوں سےمناظرہ بھی ہوا اور دوران مناظرہ مخالفین نے شکست کے خوف سےفتنہ و فساد پیدا کردیااورحالات بے قابو ہو گئے۔غالباًاسی موقعہ پراحمدی مرد احباب کی عدم موجودگی میں شریر طبع لوگوں کا جلوس شرارت اور فساد کی غرض سےاحمدیہ محلہ کے اندر گھسنے کی کوشش میں تھا کہ چند احمدی خواتین نے بڑی دلیری کے ساتھ اس جلوس کو آگے بڑھنے سے روکااور ان کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔جس گلی سے جلوس محلہ کےاندرداخل ہونے کوتھااس سےمتصل گلی میں بالکل قریب ہی احمدیہ مسجد واقع تھی اور اس بات کا قوی امکان تھا کہ کہیں وہ جلوس محلہ میں داخل ہو کر کسی بہانہ کی آڑ میں جماعتی املاک اور گھروں کونقصان نہ پہنچادے۔ان چندبہادر خواتین میں راقم کی والدہ بھی شامل تھیں جنہوں نے اس جلوس کی قیادت کرنے والے شخص کوجلوس کومحلہ سےباہر لے جانے کے لیے کہا۔جس پر وہ جلوس باہر سے چلا گیا اور اللہ تعالیٰ نے جماعت کو مخالفین کی شرارت اور فتنہ سے محفوظ فرمایا۔

غریب پروری اور مہمان نوازی

غریب پروری اور مہمان نوازی والدہ محترمہ کےخاص شعار تھے۔وہ غریبوں اور محتاج لوگوں کی مدد کرتی تھیں اور ہر ایک کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ہر ایک کی چھوٹی سےچھوٹی تکلیف سے پریشان ہو جاتیں اوران کی تکلیف دور کرنے کی ہر ممکن کوشش بھی کرتیں ۔گاؤں میں بعض غیر احمدی عورتیں بھی اپنی حاجات لے کر حاضر ہوتیں تو ان کی ضروریات کو پورا کرتیں۔راقم نے اپنے بچپن میں کئی ایسی عورتوں کو دیکھا جو والدہ کے پاس اپنی حاجات لےکر آتی تھیں اور والدہ فی الفور ان کی ضرورت کو پورا کردیتیں۔ والدہ کی وفات پہ گاؤں کی بعض غیر از جماعت خواتین نے بھی بڑے دکھ کا اظہار کیا اور تعزیت کی۔والدہ کے گاؤں سے ربوہ شفٹ ہونے کے بعد بھی ضرورت مند عورتوں کی ضروریات پوری کرنے کاسلسلہ جاری رہا۔وہ اپنے پاس پیسوں کو جمع رکھتیں تاکہ جب کوئی ضرورت مند آئے تو اس کی مدد کر سکیں۔بعض دفعہ والدہ کو اس بات کا ملال ہوتا کہ فلاں عورت ضرورت مند آئی تھی اور وہ اس کی مدد کرنا چاہتی تھیں لیکن فی الفور مدد نہ کر سکیں۔

مہمان نوازی ان کا خاص وصف تھا۔محلہ سے کوئی گھر ملنے آتاچھوٹا ہو یا بڑا،احمدی ہو یا غیر احمدی اس کی تواضع کرتیں۔خاکسار کو گاؤں کاایک واقعہ یاد ہے کہ ایک غریب سادہ لوح شخص گاؤں کے نام کے مغالطہ سے ہمارے گاؤں چلا آیا۔دراصل ہمارے گاؤں کے نام کا ایک گاؤں شیخوپورہ میں واقع تھا۔شام کا وقت ہو چکا تھا۔اس دور میں رات کو گاؤں سے شیخوپورہ کے لیے ٹریفک نہیں چلتی تھی اورویسے بھی اس راستہ پر رات کو سفر کرنا خطرہ سے خالی نہ تھااورآئے دن کسی نہ کسی کےساتھ کوئی نہ کوئی سانحہ پیش آنےکی خبر سننے میں آتی۔اس مسافر کو سڑک پرپریشان حال دیکھاتوخاکسار کےپوچھنے پر اس نے سارا ماجرا سنایا ۔ خاکسار نے گھر آکر والدہ کو بتایا ۔ والدہ نے پہلےخیال کیاکہ کہیں کوئی بہانہ بازنہ ہو۔پھراس غریب اجنبی مسافر کی تکلیف کا احساس کر تے ہوئے خاکسار کو اسے گھر لا کر اس کے قیام کا بندو بست کرنے کا کہا۔خاکسار اسےتلاش کر کے گھر لے آیا۔اوراس کے قیام و طعام کا بندوبست کیا گیا۔

مرکزسےآنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی کرتیں۔ اکثرہم بھائیوں کے ہاتھ ان کے طعام کا اہتمام کرکے بھجواتیں۔ والدہ مربیان اور واقفین زندگی کا بہت زیادہ احترام کرتی تھیں اور ان کی خدمت کر کے دلی خوشی محسوس کرتی تھیں اور اکثران کی خیریت دریافت کرتی رہتی تھیں۔

جامعہ احمدیہ کے دور کی بات ہےکہ ایک ضعیف العمر بزرگ ناصر ہوسٹل میں خاکسار کو ملے۔خاکسار کوان کے بارے میں کوئی تعارف نہ تھا اور نہ ہی ان کو پہلے کبھی دیکھا تھا۔ انہوں نے اپنے تعارف میں فرمایا کہ وہ اوائل میں بطورمعلم سلسلہ خاکسار کے گاؤں میں تعینات تھے۔ان کانام سیّدعبدالسلام صاحب تھا۔انہوں نے بیان کیا کہ جب انہیں پتہ چلا کہ اس گاؤں سے جامعہ احمدیہ میں بعض طلباء زیر تعلیم ہیں تو ملنے چلاآیا۔اس وقت اپنے گاؤں سےہم دو بھائی جامعہ احمدیہ میں زیر تعلیم تھے۔دوران گفتگو میںانہوں نےگاؤں کے بزرگوں کے اعلیٰ اوصاف کا ذکر کیاکہ وہ نمازوں اور تہجد کے بڑے پاپند تھے۔اوائل میں گاؤں میں کچی اینٹوں کی مسجدتھی اوروہ بزرگ بڑی تضرع سے اس میں تہجد پڑھتے تھےاوران بزرگوں کےملنسار اور اعلیٰ اخلاق کے مالک ہونے کاذکر کیا۔والدین کے اعلیٰ اخلاق کاذکر کیا۔خاکسار کی والدہ کا بالخصوص بتایا کہ وہ بڑی ہی فہمیدہ ،سلیقہ منداورمہمان نواز خاتون ہیں اوروالدین کے اعلیٰ اخلاق کےبارے میں اور واقعات بھی سنائے۔انہوں نے والدین اور ان بزرگوں کے اعلیٰ اخلاق اپنانے کی طرف توجہ دلائی۔

والدہ کے اندر بیماروں کی تیمارداری کا وصف اس قدر تھا کہ جس کسی کی بیماری کاپتہ چلتاتو عیادت کے لیےاٹھ کھڑی ہوتیں۔باوجود نقاہت اور کمزوری اور صحت کی خرابی کے بیماروں کی عیادت کےلیے تشریف لے جاتیں۔بیمار رشتہ داروں کی تیمارداری کرنا اپنا فرض سمجھتیں اور اپنے بچوں کو بھی مریض کی عیادت کرنے کا کہتیں ۔ راقم نے بار بار ان سے یہ سنا کہ بیمار کی عیادت کرنا بڑے ثواب کا کام ہے۔

ایمان بہت مضبوط تھا۔گاؤں میں عورتیں جوتوہمات اور جادو ٹونا پر اعتقاد رکھتیں والدہ ایسی عورتوں کوسمجھاتیںکہ تعویذ گنڈے کسی کام کے نہیں اور اس طرح کی باتوں پر اعتقاد رکھناشرک ہے ۔

خلافت کے ساتھ بڑی محبت اور پیار کا تعلق تھا۔بڑی توجہ اورانہماک کے ساتھ حضور انور کے خطبات سنتی تھیں۔راقم نے اکثردیکھا کہ حضور انور کے خطبات اور تقاریر سننے اور دیکھنے کے دوران ان کی آنکھیں بھر آتیں۔چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ خاکسار کچھ روزوالدہ کا پتہ کرنے کےلیے نہ جا سکا وہ ان دنوں بڑی ہمشیرہ کے پاس رہتی تھیں۔اتفاق سےاس دوران حضور انور نے والدین کے حقوق کے بارے میں خطبہ جمعہ میں بیان فرمایا تو خاکسار خطبہ کے بعد والدہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو مسکرا کرکہنے لگیں کہ آج حضور انور نے اپنے خطبہ میں والدین کے حقوق کے بارے میں بیان فرمایا ہےاوراب آپ کو معلوم ہو گیاہےکہ کتنے حقوق ہیں والدین کے؟اسی طرح سےدوسرے بھائی بہن سے فون پر بات ہوتی تو حضور انور کے خطبات کے حوالہ سے ذکر کرتیں۔حضور انور کے خطبہ کے دوران گھر کے بچوں کو حضور انور کا خطبہ سننے کی طرف اشاروں سے بار بار توجہ کرواتی تھیں۔

میری والدہ کا دل نہایت ہی نرم اور شفیق تھا۔ان کا دل محبت اور شفقت کا جاری چشمہ تھا۔اپنے تمام متعلقین خصوصیت سےاپنی تمام اولاد سےمحبت کا گہرا تعلق تھا۔والدہ کی طبیعت بہت حساس تھی۔بچوں کی جدائی بہت شاق گزرتی تھی۔خاکسار کے ایک بھائی تعلیم کی غرض سے اور دوسرے معاش کی خاطربیرون ملک جانے لگے تو والدہ کوان کی جدائی گوارا نہ تھی۔ان کی رضامندی بادل ناخواستہ تھی۔ رقیق القلب ہونے کی وجہ سےانہیں یاد کرکے اکثر رو پڑتیں۔اپنےواقفین بیٹوں کے لیے جو بیرون ملک خدمت دین کے لیے گئےان کے لیےوالدہ کےگوشۂ دل میں جذبات اَور تھے ۔ وہ اپنے آپ کو یہ کہہ کرمطمئن کر لیتیں کہ وہ خدا کی راہ میں وقف ہیں اور خلیفۂ وقت کی اطاعت میں دین کی خاطرگھر سے دور ہیں۔خدا کی حفاظت میں ہیں اورخلیفہ ٔوقت کی دعائیں ان کے شامل حال ہیں۔ خاکسار جب بھی ان کا احوال پتہ کرنے جاتا تو بس ان کی یہی خواہش ہوتی کہ میری فلاں بیٹے سے بات کروا دو اور فلاں سے۔جب تک سب سے بات نہ کر لیتیں ان کے دل کو تسلی نہ ہوتی۔ اپنی اولاد سے گفتگو کرنا ان کا روزانہ کا معمول تھا۔ ان کے دل کی اس کیفیت کو خاکسار بیان نہیں کر سکتا کہ انہیں اپنی اولاد سے کس قدر محبت تھی کہ ان کی ذرا سی جدائی گوارا نہ تھی۔

چندوں کو بڑی باقاعدگی سے ادا کرتی تھیں اور اس بارہ میں بڑی فکر رہتی تھی اور پوچھتی رہتی تھیں کہ میرا چندہ ادا ہو گیا ہےاوراپنی اولاد کو بھی چندہ کی بر وقت ادائیگی کرنے پر زور دیتیں۔خاکسار کے چھوٹے بھائی محمد زکریا صاحب مبلغ سلسلہ لائبیریا 2017ء میں رخصت پر پاکستان آئے تو انہیں والدہ نے اس ماہ کا چندہ دے کر سیکرٹری مال صاحب کےپاس بھیجا اور کہا کہ ان سے جا کر میرے چندہ کا حساب کتاب بھی دیکھ کر آنا کہ کوئی بقایا تو نہیں ہے۔ وہ سیکرٹری مال صاحب کے پاس گئے اور ان کو چندہ کا ریکارڈ چیک کرنے کی درخواست کی تو انہوں نے بتایا کہ آپ کی والدہ ماشاء اللہ بڑی باقاعدگی اور فکر کے ساتھ چندہ دیتی ہیں ان کو تو یاد کروانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔

بچوں کی تربیت کے معاملہ میں بھی بڑی فکر تھی اور بہت توجہ دیتی تھیں۔بچوں کو غیر ضروری طور پرگھر سے نکلنے نہ دیتی تھیں تابچہ کو آوارگی کی عادت نہ پڑ جائے یا باہر سے کوئی خراب عادت نہ سیکھ لے۔راقم کے بھائی محمد احسن حاشر صاحب جوآج کل خدا تعالیٰ کے فضل سےٹورانٹو ویسٹ جماعت کینیڈا میں بطور جنرل سیکرٹری کےخدمت کی توفیق پا رہے ہیںیونیورسٹی میں تعلیم کے دوران ہوسٹل میں رہائش پذیر تھے تو والدہ نے انہیں نصیحت کی کہ مغرب کی نماز کے بعد غیر ضروری طور پر باہر نہیں جانا۔ والدہ کی نصیحت کا مقصد یہی تھا کہ وہ پوری دلجمعی کے ساتھ اپنی پڑھائی کی طرف توجہ دیں ۔ بچپن میں والدہ نے اس انداز سے تربیت کی تھی کہ انہیں والدہ کی اس نصیحت پر عمل پیرا ہونے میں کوئی دقت پیش نہ آئی ۔ والدہ کی اس نصیحت پرعمل کرنے سے ان کی یہ عادت بن گئی کہ انہیں غیر ضروری طور پر باہرنکلناقطعا ًپسند نہ تھا۔اس عادت سے فائدہ اٹھا کرانہیں اپنی تعلیم پر توجہ دینے کا موقع ملا اور بعد میں سکالر شپ کی بنیاد پر بیرون ملک جا کر ہائر سٹڈی کرنے کا موقع ملا ۔ یہ محض والدہ کی اس نصیحت پہ عمل اور والدین کی دعاؤں کاثمرہ تھا۔بچپن میں والد صاحب مرحوم ہم بھائیوں کو مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے کہتے اور خاص طور پر جب وہ نماز فجر کے لیے ہمیں جگاتے تھے تو والدہ محترمہ ہمیں مسجد بھیجنےمیں بڑا اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ جب تک ہم اٹھ کر مسجد نہ چلے جاتے اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتی تھیں۔ مغر ب اور عشاء کی نماز کے بعد اگر کسی وجہ سے گھر آنے میں تاخیر ہو جاتی تو تاخیر سے آنے کا دریافت کرتیں۔ مسجد کے بالکل قریب ہی ہمارا گھر ہوتا تھااور بعض دفعہ والدہ خود ہی مسجد جاکر پتا کر آتیں۔ گاؤں میں گھر کے صحن میں ہم بھائی بچپن میں کرکٹ کھیلتے تھے۔والدہ اپنے گھریلو کام کے ساتھ ساتھ ہم پرنظر رکھتیں اور سمجھاتی رہتیں۔وہ اپنے بچوں پر بھرپوراعتماد کرتی تھیں اوراگر کوئی کسی بات پر آپ کے کسی بیٹے کے بارے میں شکایت کرتا تو کہتیں کہ ممکن نہیں کہ کوئی ایسی غلط حرکت میرےبچےسےسرزد ہو۔ والدہ کو اپنی تربیت کی وجہ سے اپنے بچوں پر بھرپور اعتماد اورحسن ظن تھا۔اگر ہم بھائیوں میں سے کسی نے شرارت کی بھی ہوتی تو وہ اندر ہی اندر والدہ کے اس اعتماد کی وجہ سے شرمندہ ہوتا کہ والدہ تو ہم پر اتنا حسن ظن اور اعتماد کرتی ہیں۔بعض دفعہ بعدمیں علیحدگی میں پوچھ گچھ کرکےسمجھاتی تھیں۔بہرحال والدہ کے اس حسن ظن اور اعتماد نے بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔خاکسار کویادہے کہ چھوٹی عمر سےہی قاعدہ یسرنا القرآن پڑھانے کے لیے گاؤں کے ایک بزرگ ماسٹر بشیر احمد صاحب کے پاس بھجواتیں جو بچوں کو قرآن کریم پڑھاتے تھے۔وہ بزرگ حضرت قاضی محمد اکبر صاحبؓ کے بھتیجے تھے اور حضرت میاں عطاء اللہ صاحبؓ کے بیٹے تھے۔چھوٹےبچوں سے پیاراور محبت تھی اورہر ایک کا نام لے کر ان کا احوال پوچھتی تھیں اور یہ بات کہ انہوں نے بڑے ہو کر جماعت کی خدمت کیسے کرنی ہے ۔کینیڈا میں اپنے کم سن پوتے سے فون پر بات ہوئی تو والدہ کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس نےانجینئر بنناہے تو والدہ نے بتایا کہ مربی یا ڈاکٹر بن کر تمہیں زیادہ بہترخدمت دین کی توفیق مل سکتی ہے۔

خدا تعالیٰ کے فضل سے نمازوں کی ادائیگی بھی توجہ اورانہماک سے کرتی تھیں۔آخری عمر میں موسم کی شدت کے باوجودوضو کرکے باقاعدہ نماز وقت پر ادا کرتیں اورنوافل ادا کرتیں۔خاکسار کی بڑی ہمشیرہ بتاتی ہیں کہ طبیعت خراب ہونے سے کچھ دیر قبل باوجود تکلیف ہونے کے نماز مغرب کافی طویل ادا کی ۔ کسی قسم کی بےچینی کا اظہار نہ کیا جس سےیہ لگ رہا ہو کہ آپ کو تکلیف ہے،بڑے اطمینان سے نماز اداکی۔وہ کہتی ہیں کہ میں بار بار جا کر دیکھتی کہ امی نے نماز پڑھ لی ہے یا نہیں۔تو میں نے انہیں نماز کی حالت ہی میں مشغول دیکھا۔نماز پڑھنے کے بعد تکلیف مزید بڑھ گئی۔ ان کو ہسپتال لے جایا گیا تو 24؍ اگست2019ء کوحرکت قلب بندہونے کی وجہ سے اپنے حقیقی مولا سے جا ملیں۔اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

دنیا بھی اک سرا ہے، بچھڑے گا جو ملا ہے

گر سو برس رہا ہے ، آخر کو پھر جُدا ہے

والدہ خدا کے فضل سے1/8کی موصیہ تھیں۔ بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کی تدفین ہوئی ۔حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےازراہ شفقت 13؍ستمبر 2019ء کے خطبہ جمعہ میں والدہ کا ذکر خیر فرمایا اور نماز جنازہ غائب پڑھائی۔حضور کے اس خطبہ سے دو دن پہلے ہمشیرہ نے خواب میں دیکھا کہ والدہ ایک بلند جگہ پہ اطمینان سے تشریف فرما ہیں۔اللہ تعالیٰ میری والدہ کے درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔آمین

آخرپراپنے جذبات کی ترجمانی اور اظہار کے لیےاس مضمون کوحضرت چوہدری ظفراللہ خانصاحب رضی اللہ عنہ کے ان مبارک الفاظ پہ اختتام کرتا ہوں جوانہوں نےاپنی عظیم والدہ کے لیے بیان فرمائے۔

‘‘اب وہ محبوب وجود ہمارے درمیان موجود نہیں۔اس پیارے چہرہ کو آنکھیں تلاش کرتی ہیں لیکن پا نہیں سکتیں۔ہم ان مسلسل درد بھری دعاؤں سے محروم ہو گئے ہیں۔لیکن ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کوخوشی سےقبول کرتے ہیں اور اس خیال سے اطمینان حاصل کرتےہیں کہ ہماری والدہ نےاپنی زندگی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رضاجوئی میں گزاری۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ وافررحمت کا سلوک فرمائے گااور اپنے لیے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی رضا کے مطابق عمل کرنےکی توفیق بخشے اور امید رکھتے ہیں کہ ہمارا وقت آنے پروہ ہمیں بھی اپنی رحمت میں داخل فرمائے اور ہمارے والدین اورصادقین کی معیت ہمیں عطا فرمائے اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے قدموں میں ہمیں جگہ عطا فرمائے۔آمین
میرےلیےجب وہ وقت آئےگا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت پھریہ ممکن کردے گی کہ میری نظرپھراس پیارےچہرہ پر پڑے۔تو میری تمام محبت اورتمام حسرت اور تمام شوق اس ایک ہی لفظ میں ادا ہو جائیں گے۔‘‘بےبے’’ اور ان کی طرف سے‘‘جیو پتر’’پھرایک بارمیرےدل کو خوشی سے بھر دے گا۔

اے خدابرتربت او بارش رحمت ببار

داخلش کن از کمال فضل در بیت النعیم’’

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button