شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
آپؑ کی سیر کا بیان(حصہ چہارم۔ آخری)
حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ نے بیان کیا کہ
“حضرت صاحب ایک دفعہ غیر معمولی طور پر غرب کی طرف سیر کو گئے تو راستے سے ہٹ کر عید گاہ والے قبرستان میں تشریف لے گئے اور پھر آپ نے قبرستان کے جنوب کی طرف کھڑے ہو کر دیر تک دعا فرمائی۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 201)
حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک اپنی جوانی کے وقت کی ایک روایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
“ان دنوں میں حضرت صاحب بعد نماز عصر سیر کیلئے باہر تشریف لے جایا کرتے تھے۔اور کوس کوس دو دو کوس نکل جایا کرتے تھے۔”(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 347)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ نے بیان کیا کہ
“حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کے لئے زیادہ تر بسراواں یا بُٹّر کی طرف تشریف لے جاتے تھے۔کبھی کبھی ننگل یا بٹالہ کی سڑک پر بھی جاتے تھے۔اور شاذونادر کسی اور طرف بھی۔اورعام طور پر ڈیڑھ سے دو میل تک باہر نکل جاتے تھے۔اور جب حضرت صاحب سیر کو جاتے یا گھر میں ٹہلتے تو تیز قدم چلا کرتے تھے۔آپ کی چال مستعدجوانوں کی سی تھی۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 964)
حضرت مولوی رحیم بخش صاحبؓ ساکن تلونڈی جھنگلاں نے بیان کیا کہ
“ایک دفعہ میں قادیان میں حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا حضرت صاحب نے فرمایاکہ چلو ذرا سیر کر آئیں ۔چنانچہ حضرت صاحب بڑے بازار میں سے ہوتے ہوئے اس طرف تشریف لے گئے جہاں اب ہائی سکول ہے۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 453)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان کرتے ہیں کہ
“حضرت مسیح موعود علیہ السلام عموماً صبح کے وقت سیر کیلئے تشریف لے جایا کرتے تھے اور عموماً بہت سے اصحاب حضور کے ساتھ ہو جاتے تھے۔تعلیم الا سلام ہائی سکو ل قادیان کے بعض طالب علم بھی حضور کے ساتھ جانے کے شوق میں کسی بہانہ وغیرہ سے اپنے کلاس روم سے نکل کر حضور کے ساتھ ہو لیتے تھے۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 431)
حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ عرفانی بیان کرتے ہیں :
“ایک مرتبہ حضرت مسیح موعودؑ سیر کے لئے اس قبرستان کی طرف نکل گئے جو آپؑ کے خاندان کا پرانا قبرستان موسوم بہ شاہ عبدالله غازی مشہور ہے۔ راستہ سے ہٹ کر آپؑ ایک جوش کے ساتھ والدہ صاحبہ کی قبر پر آئے اور بہت دیر تک آپؑ نے اپنی جماعت کو لے کر جو اس وقت ساتھ تھی دعا کی۔اور کبھی حضرت مائی صاحبہ کا ذکر نہ کرتے کہ آپؑ چشم پُر آب نہ ہوجاتے۔
حضرت صاحبؑ کا عام معمول اس طرف سیر کو جانے کا نہ تھا مگر اس روز خصوصیت سے آپؑ کا ادھر جانا اور راستہ سے کترا کر قبرستان میں آ کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھاناکسی اندرونی آسمانی تحریک کے بدوں نہیں ہو سکتا۔”
(حیاتِ احمدؑ از شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ 221)
حضرت ماسٹر خلیل الرحمٰن صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام قریباً ہر روز صبح کے قریب آٹھ بجے کے سیر کے واسطے مع خدام تشریف لے جایا کرتے تھے اور حضورؑ اقدس اس قدر تیز چلتے تھے کہ جوان اور بچے بھی حضور کی رفتار میں مقابلہ نہیں کرسکتے تھے اور ہر ایک شخص قریباً دوڑتا ہوا نظر آتا تھا۔” (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 4صفحہ123 روایت ماسٹر خلیل الرحمٰن صاحبؓ)
حضرت نتھو راجپوت صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“آپ سیر کے لئے ایک طرف کو نہیں جایا کرتے تھے۔بلکہ تقریباً ہر روز کے روز نئے رستے جاتے یعنی کبھی ننگل کبھی بھینی کبھی بٹراں کبھی ڈلے۔شروع شروع میں آپ کے ساتھ تین چار کی تعداد میں آدمی ہوتے۔جب کہ سیر کو تشریف لے جایا کرتے تھے پھر آہستہ آہستہ سو سو دو دو سو کی تعداد میں ہوئے۔آپ اپنی پوری رفتار سے چلتے۔مگر جو لوگ آپ کے ہمراہ ہوتے وہ آپ کو دوڑ دوڑ کر ملا کرتے۔حالانکہ آپ کوئی اتنی تیز رفتار سے نہیں چلتے تھے۔کہ دیکھنے والوں کو یہ معلوم ہو کہ آپ دوڑ رہے ہیں ۔”
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد6صفحہ7روایت نتھو راجپوت صاحبؓ)
حضرت اقدسؑ کی آخری ایّام کی سَیر کا بیان
حضرت بھائی عبد الرحمٰن صاحبؓ قادیانی بیان کرتے ہیں :
“قیام لاہور کے زمانہ میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قریباً روزانہ سیر کے واسطے خاندان کی بیگمات اور بچوں سمیت تشریف لے جایا کرتے تھے۔بلکہ بعض روز تو صبح و شام دو وقتہ سیر فرمایا کرتے تھے۔ابتدا میں حضور بھی رتھ میں بیٹھ کر بیگمات کے ساتھ سیر کو تشریف لے جاتے تھے۔کھلی سڑکوں پر بھی اور شہر کے بازاروں مثلاً مال روڈ اور انار کلی میں بھی حضور سیر کے واسطے چلے جاتے تھے۔بازار میں سے گزرتے ہوئے کبھی سواری ٹھہرا کر ہندو حلوائیوں کے ہاں سے کھانے کی چیزیں بھی خرید فرما لیا کرتے تھے اور بیگمات اور بچوں کے علاوہ ہمرکاب خدام کو بھی شریک فرماتے تھے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ حضور انار کلی میں سے گزرتے ہوئے کیسری کی دکان پر اکثر ٹھہرا کرتے اور سب کو سوڈا پلوایا کرتے تھے۔عام اجازت ہوا کرتی تھی جو جس کا جی چاہتا پیتا یعنی لیمن ، روزاور آئس کریم یا مائینیل وغیرہ وغیرہ۔مگر سیدنا حضرت اقدس خود کھاری بوتل بتاشہ ڈال کر پِیا کرتے تھے اور یہ عمل کھلے بازار میں کیسری کی دکان کے سامنے سواریاں کھڑی کر کے ہوا کرتا تھا۔بیگمات بھی رتھ یا فٹن میں تشریف فرما ہوا کرتی تھیں ۔”
(تتمہ سیرت المہدی جلد دوم صفحہ 378، 379)
حضرت بھائی عبد الرحمٰن صاحبؓ قادیانی بیان کرتے ہیں :
“حضور پُر نور فٹن میں سوار ہوئے اور سیر کے واسطے تشریف لے گئے اور حضور کا یہ ادنیٰ ترین غلام بھی حسب معمول حضور کے ہمرکاب آخری دن کی سیر تک ہمرکابی کی عزت پاتا رہا۔فٹن یعنی گھوڑا گاڑی جو حضور کی سیر کے واسطے منگوائی جاتی تھی۔اس کے متعلق حضور کی تاکیدی ہدایت ہوا کرتی تھی کہ کوچوان حتی الوسع بھلا مانس تلاش کیا جاوے جو جھگڑالو اور بدزبان نہ ہو۔گھوڑے شوخ نہ ہوں بلکہ اچھے سدھے ہوئے اور گاڑی صاف ستھری ہو ،شکستہ نہ ہو۔تیز چلانے کو حضور کبھی پسند نہ فرماتے تھے۔کرایہ فٹن کا روزانہ واپسی پر ادا فرما دیا کرتے تھے۔کوئی بقایا نہ رہنے دیتے تھے۔گھوڑا گاڑی عموماً بدلتی رہتی تھی۔کسی خاص گاڑی یا گاڑی بان سے کوئی معاہدہ یا ٹھیکہ نہ تھا۔کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ کوئی گاڑی بان دو تین روز متواتر آجاتا۔
سیر کے واسطے حضورعموماً مکان سے سٹیشن کی طرف سے ہوتے ہوئے ایمپرس روڈ ، شملہ پہاڑی اور وہاں سے جانب شرق لاٹ صاحب کی کوٹھی کے مشرقی جانب سے ہوتے ہوئے لارنس گارڈن مال روڈ کو تشریف لے جاتے۔گاہے انار کلی میں سے ہوتے ہوئے سرکلر روڈ پر لوہاری ، شاہ عالمی ،موچی دروازہ کے باہر باہر مکان پر تشریف لاتے۔کبھی مال روڈ ہی سے واپسی کا حکم ہو جاتا۔تنگ بازاروں میں حضور جانا پسند نہ فرماتے تھے۔زیادہ تر کھلی اور آبادی سے باہر کی سڑکوں کی طرف حضور کو رغبت تھی۔انارکلی وغیرہ کی طرف کبھی ضرورتاً تشریف لے جاتے۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ حضور کوئی حکم نہ دیتے اور میں اپنی مرضی ہی سے حضور کے حسب پسند راہوں سے ہو کر واپس لے آتا۔سیدۃ النساء حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی کبھی بعض اوقات براہ راست ہمیں حکم دیتیں کہ فلاں جگہ کو لے چلو۔حضور پُرنور خاموش رہتے، انکارفرماتے نہ نا پسند فرماتے۔سیر کے اوقات میں گفتگو عموماً مسائل دینیہ کے بارہ میں یا نظام سلسلہ سے متعلق رہتی۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ حضور پرنور بالکل خاموش ہی نظر آتے مگر حضور کے لبوں کی حرکت سے ذکر الٰہی اور تسبیحات میں مصروفیت کا یقین ہوتا تھا۔
قیام لاہور کے زمانہ میں حضور پُر نور لاہور کے مضافات کی مشہور سیرگاہوں میں بھی تشریف لے جاتے رہے۔مثلاً شالا مار باغ متصل باغبانپورہ۔شالا مار باغ نیا جو کسی ہندو ساہوکار نے لاہور شہر کے جنوب کی طرف چند میل کے فاصلہ پر بنوایا۔مقبرہ جہانگیر وغیرہ مگر ان مقامات میں سے شالامار باغ متصل باغبانپورہ حضرت کو زیادہ پسند تھا۔اور حضور وہاں ایک سے زیادہ مرتبہ تشریف لے گئے۔زیادہ دیر تک وہاں قیام فرمایا اور زیادہ ہی دیر تک علیحدگی میں ٹہلتے اور دعائیں کرتے رہے۔مقبرہ جہانگیر کے غربی جانب علیحدہ ایک مزار ہے اس طرف حضور تشریف نہ لے گئے۔مگر بھول بھلیاں یا جو کچھ بھی اس جگہ کا نام ہے ریلوے لائن کے غربی جانب ایک عمارت ہے جس میں بہت سے دروازے ہی دروازے ڈاٹ دار ہیں وہاں حضور بیگمات اور بچوں کے ساتھ تشریف لے گئے۔شالامار باغ سے ایک مرتبہ واپسی پر بڑے زور کی آندھی آگئی جو بہت سخت تھی۔احباب جو مکان پر تھے ان کو بہت فکر ہوئی۔چنانچہ کئی دوست شالامار باغ کی طرف چل نکلے۔مگر اللہ تعالیٰ کی شان کہ آندھی کی شدت سے پہلے ہی پہلے حضور معہ تمام قافلہ مکان پر بخیریت پہنچ گئے۔حضور کا معمول تھا کہ سیر و تفریح کو جانے سے قبل حاجات سے فراغت پا کر تشریف لایا کرتے تھے… لاہور کے اسی سفر کا واقعہ ہے کہ حاجی محمد موسیٰ صاحب نے ایک دن ایک موٹر کار حضور کی سواری کے واسطے کہیں سے مہیا کی اور حضرت سے اس میں سوار ہونے کی درخواست کی نیز سیدۃ النساء حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی سوار ہونے کی خواہش کی۔چنانچہ حضور پر نور معہ سیدہ حضرت اُم المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا موٹر میں سوار ہونے کی غرض سے مکان سے اتر کر سڑک پر تشریف لائے مگر موقعہ پر پہنچ کر سیدہ نے سوار ہونے سے انکار کر دیااور فرمایا کہ مجھے خوف آتا ہے مگر حضرت اقدس بعض بچوں سمیت سوار ہوئے اور ایک قریبی سڑک کا چکر کاٹ کر واپس تشریف لے آئے۔موٹر اس زمانہ میں ابھی نئی نئی لاہور میں آئی تھی۔”
(تتمہ سیرت المہدی جلد دوم صفحہ 385 تا 388)
خداکے پیارے مسیح کی آخری سیر
حضرت بھائی عبد الرحمٰن صاحبؓ قادیانی بیان کرتے ہیں کہ آخری دن حضور نے سیر کے لئے تشریف لے جاتے ہوئے مجھ سے فرمایا۔
“گاڑی بان سے کہہ دو کہ اتنی دور لے جائے کہ جانے آنے میں ایک گھنٹہ سے زیادہ وقت نہ لگے۔کیونکہ آج ہمارے پاس اتنے ہی پیسے ہیں ۔”
(تتمہ سیرت المہدی جلد دوم صفحہ 397)
٭…٭…٭