شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
آپؑ کے سفر کے معمولات کا بیان
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ بیان کرتے ہیں :
“آپ کو سیر و سیاحت کا بطور تفریح کے کبھی شوق اور عادت نہ تھی اور کوئی سفر محض اس نیت اور خیال سے آپ نے نہیں کیا۔زمانہ بعثت سے پہلے آپ کو بعض مقدمات کی پیروی کے لیے اپنے والد صاحب مرحوم و مغفور کی اطاعت کے لیے جانا پڑتا تھا اور یہ سفر بٹالہ، گورداسپور، ڈلہوزی اور لاہور تک محدود تھے۔اسی زمانہ میں آپ نے سیالکوٹ اور جموں کے دو سفر بغرض ملازمت کیے۔ہاں اس حصہ عمر میں بعض صلحا ءکے پاس بھی آپ جایا کرتے تھے … بعثت کے بعد آپ کے سفروں کی غرض و غایت صرف اعلائے کلمۃ الاسلام اور تبلیغ دین قویم تھی۔اور اسی میں ان سفروں کو بھی میں شامل کرتا ہوں جو اس حصہ زندگی میں آپ کو ان مقدمات کی پیروی کے لیے کرنے پڑے جو اسلام کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں نے آپ پر یا آپ کی جماعت کے بعض افراد پر کیے۔یہ سفر گورداسپور، بٹالہ، دھاریوال، پٹھان کوٹ، جہلم، ملتان تک بغرض پیروی مقدمات اور امرتسر، جنڈیالہ، لاہور، جالندھر، کپورتھلہ، پٹیالہ، سنور، علی گڑھ، انبالہ، فیروز پور، لودہانہ، دہلی تک بغرض تبلیغ و دعوت حق کیے…ان سفروں میں جو آپ نے بعثت سے پہلے زمانہ میں حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب قبلہ مرحوم و مغفور کی اطاعت پیروی کا نمونہ دکھانے کے لیے کیے آپ کے معمولات بہت مختصر تھے۔کسی قسم کا سامان آپ ساتھ نہیں لیتے تھے۔صرف وہی لباس ہوتا تھا جو آپ پہنے ہوئے ہوتے تھے اور ایک مختصر سا بستر ایک لوٹا اور ایک گلاس بھی لیا کرتے تھے۔
بعثت کے بعد سفروں کی نوعیت بھی تبدیل ہو گئی اور سفروں میں ایک جماعت ساتھ ہوا کرتی تھی۔اس لیے آپ کا معمول تھا کہ بہت سی موم بتیاں ، مختلف قسم کی ضروری ادویات، دیا سلائی وغیرہ تک ساتھ رکھا کرتے تھے تاکہ جب جس چیز کی ضرورت ہو تلاش نہ کرنی پڑے چونکہ اس وقت تک انڈی پنڈنٹ (Independent) قلم نہ نکلے تھے۔قلم، کاغذ، دوات یہ چیزیں بھی ساتھ رکھا کرتے تھے۔لمبے سفروں میں جو تبلیغی سفر تھے عام طور پر حضرت ام المومنین اور بچوں کو ساتھ رکھتے تھے۔یکہ کی سواری میں آپ اندر بیٹھا کرتے تھے اور ریلوے کے سفر میں سیکنڈ کلاس میں ابتداء ًتھرڈ اور انٹر میں سفر کیا کرتے تھے۔مگر آپ تھرڈ، انٹر یا سیکنڈ کی کوئی تمیز یا خصوصیت نہ کرتے تھے بلکہ صرف بیت الخلا کی ضرورت کے لحاظ سےدرجہ کو پسند کرتے تھے… بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ تھوڑی دیر آرام کر کے پھر سفر کرنا چاہیے۔” (سیرت حضرت مسیح موعود از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ 78تا 80)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان کرتے ہیں :
“مرزا دین محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جن دنوں میری آمدو رفت حضرت صاحب کے پاس ہوئی۔ان ایام میں حضرت صاحب اپنے موروثیوں وغیرہ کے ساتھ مقدمات کی پَیروی کے لیے جایا کرتے تھے۔کیونکہ دادا صاحب نے یہ کام آپ کے سپرد کیا ہوا تھا۔تایا صاحب باہر ملازم تھے۔جب حضرت صاحب بٹالہ جاتے مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔جب گھر سے نکلتے تو گھوڑے پر مجھے سوار کر دیتے تھے۔خود آگے آگے پیدل چلے جاتے۔نوکر نے گھوڑا پکڑا ہوا ہوتا تھا۔کبھی آپ بٹالہ کے راستہ والے موڑ پر سوار ہو جاتے اور کبھی نہر پر۔مگر اس وقت مجھے اتارتے نہ تھے۔بلکہ فرماتے تھے کہ تم بیٹھے رہو۔مَیں آگے سوار ہو جاؤنگا۔اس طرح ہم بٹالہ پہنچتے …جب بٹالہ سے روانہ ہوتے تو پھر بھی مجھے سارا رستہ سوار رکھتے۔خود کبھی سوار ہوتے اور کبھی پیدل چلتے۔”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 680)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
“میں نے پنجاب اور ہندوستان کے بعض شہروں جیسے امرتسر، لاہور، جالندھر، سیالکوٹ اور دہلی اور لدھیانہ وغیرہ میں بڑے بڑے مجمعوں میں خود جاکر خدا تعالیٰ کے پیغام کو پہنچایا ہے اور ہزار ہا انسانوں کے رُوبرو اسلامی تعلیم کی خوبیاں پیش کی ہیں اور ستر کے قریب کتابیں عربی اور فارسی اوراُردو اور انگریزی میں حقانیت اسلام کے بارہ میں جن کی جلدیں ایک لاکھ کے قریب ہوں گی تالیف کرکے ممالک اسلام میں شائع کی ہیں اور اسی مقصد کے لیے کئی لاکھ اشتہار شائع کیا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل اور اُس کی ہدایت سے تین لاکھ سے زیادہ لوگ میرے ہاتھ پر اپنے گناہوں سے آج تک توبہ کر چکے ہیں اور اس قدر سرعت سے یہ کارروائی جاری ہے کہ ہر ایک ماہ میں صدہا آدمی بیعت میں داخل ہوتے جاتے ہیں ۔”
(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد22صفحہ172-171)
آپؑ کے سونے اور جاگنے کا بیان
ایک روز ظہر کے وقت حضور تشریف لائے اور احباب کو فرمایاکہ
“یہ وقت بھی ایک قسم کے جہاد کا ہے میں رات کے تین تین بجے تک جاگتا ہوں اس لیے ہر ایک کو چاہیے کہ اس میں حصّہ لے اور دینی ضرورتوں اور دینی کاموں میں دن رات ایک کردے۔” (ملفوظات جلد چہارم صفحہ196)
ایک روز فجر کے وقت فر مایا کہ
“میں کتاب تو ختم کرچکا ہوں ۔رات آدھی رات تک بیٹھا رہا۔نیت تو ساری رات کی تھی مگر کام جلدی ہی ہو گیا۔اس لیے سو رہا۔اس کانام مواہب الرحمٰن رکھا ہے۔”
(ملفوظات جلد 4 صفحہ 413)
فجر کے وقت فرمایا کہ
“رات تین بجے تک جاگتا رہا تو کاپیاں اور پروف صحیح ہوئے۔مولوی عبدالکریم صاحب کی طبیعت علیل تھی وہ بھی جاگتے رہے۔وہ اس وقت تشریف نہیں لاسکیں گے۔یہ بھی ایک جہاد ہی تھا۔رات کو انسان کو جاگنے کا اتفاق تو ہوا کرتا ہے مگر کیا خوش وہ وقت ہے جو خدا کے کام میں گذارے۔ایک صحابی کا ذکر ہے کہ وہ جب مرنے لگے تو روتے تھے۔ان سے پوچھا گیا کہ کیا موت کے خوف سے روتے ہو تو کہا موت کا کوئی خوف نہیں مگر یہ افسوس ہے کہ یہ وقت جہاد کا نہیں ہے۔جب میں جہاد کیا کرتا تھا۔اگر اس وقت یہ موقعہ ہوتا تو کیا خوب تھا۔”
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ414)
پھر ایک اور جگہ فرمایا:
“میں نہیں سمجھتا کہ رات اور دن میں فرق ہی کیا ہے۔صرف نور اور ظلمت کا فرق ہے سو وہ نور تو مصنوعی بھی بن سکتا ہے بلکہ رات میں تو یہ ایک برکت ہے۔خدا نے بھی اپنے فیضان عطا کرنے کا وقت رات ہی رکھا ہے چنانچہ تہجد کا حکم رات کو ہے۔رات میں دوسری طرفوں سے فراغت اور کش مکش سے بے فکری ہوتی ہے۔اچھی طرح دلجمعی سے کام ہو سکتا ہے رات کو مردہ کی طرح پڑے رہنا اور سونے سے کیا حاصل؟”
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ138)
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ فرماتی ہیں :
“آپؑ نے بچپن سے مجھ پر بےحد شفقت فرمائی حتّٰی کہ حضرت امّاں جان بھی مناسب تربیت کے لیے کچھ کہتی تھیں تو آپؑ ان کو بھی روکتے تھے کہ اس کو کچھ نہ کہو ہمارے گھر چند روزہ مہمان ہے۔یہ ہمیں کیا یاد کرے گی میں چھوٹی تھی تو رات کو اکثر ڈر کر آپؑ کے بستر میں جا گھستی۔جب ذرا بڑی ہونے لگی تو آپؑ نے فرمایا کہ جب بچے بڑے ہونے لگتے ہیں (اس وقت میری عمر کوئی پانچ سال کی تھی)تو پھر بستر میں اس طرح نہیں آگھسا کرتے۔میں تو اکثر جاگتا رہتا ہوں ۔تم چاہے سو دفعہ مجھے آواز دو میں جواب دوں گا اور پھر تم نہیں ڈرو گی۔اپنے بستر سے ہی مجھے پکار لیا کرو۔پھر میں نے بستر پر کود کرآپؑ کو تنگ کرنا چھوڑ دیا۔جب ڈر لگتا پکار لیتی۔آپؑ فورا ًجواب دیتے۔”
(تحریرات مبارکہ صفحہ 215تقریر بعنوان ذکر حبیبؑ بر موقع اجتماع 1967ءلجنہ اماء اللہ مرکزیہ)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان فرماتے ہیں :
“بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر صبح کی نماز کے بعد تھوڑی دیر کے لیے سو جاتے تھے کیونکہ رات کا زیادہ حصّہ آپ جاگ کر گزارتے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ اوّل تو آپ کو اکثر اوقات رات کے وقت بھی مضامین لکھنے پڑتے تھے جو آپ عموماًبہت دیر تک لکھتے تھے دوسرے آپ کو پیشاب کے لیے بھی کئی دفعہ اُٹھنا پڑتا تھا اس کے علاوہ نماز تہجد کے لیے بھی اُٹھتے تھے۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر4)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان فرماتے ہیں :
“بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں میر حامد شاہ صاحب کے مکان پر تھے اور سور ہے تھے میں نے آپؑ کی زبان پر ایک فقرہ جاری ہوتے سنا۔میں نے سمجھا کہ الہام ہوا ہے پھر آپؑ بیدار ہوگئے تو میں نے کہا کہ آپ کو یہ الہام ہو ا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں تم کو کیسے معلوم ہو ا؟ میں نے کہا مجھے آواز سنائی دی تھی۔خاکسار نے دریافت کیا کہ الہام کے وقت آپ کی کیا حالت ہو تی تھی ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا چہرہ سرخ ہو جاتا تھا اور ماتھے پر پسینہ آجاتا تھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ اپنے مکان کے چھوٹے صحن میں (یعنی جو والدہ صاحبہ کا موجود ہ صحن ہے)ایک لکڑی کے تخت پر تشریف رکھتے تھے غالباً صبح یا شام کا وقت تھا آپ کو کچھ غنودگی ہو ئی تو آپ لیٹ گئے پھر آپ کے ہونٹوں سے کچھ آواز سنی گئی جس کو ہم سمجھ نہیں سکے پھر آپ بیدار ہو ئے تو فرما یا مجھے اس وقت یہ الہام ہوا ہے۔مگر خاکسار کو وہ الہام یاد نہیں رہا۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ جب آپ کو الہام ہوتا تھا تو اس کے بعد آپ غنودگی سے فوراً بیدار ہو جاتے تھے اور اسے تحریر کر لیتے تھے۔اوائل میں اپنی کسی عام کتاب پر نوٹ کر لیا کرتے تھے۔پھر آپ نے ایک بڑے سائز کی کاپی بنوالی اس کے بعد ایک چھوٹی مگر ضخیم نوٹ بک بنوالی تھی۔خاکسار نے پوچھا کہ اب وہ نوٹ بک کہا ں ہے ؟والدہ صاحبہ نے فرمایا تمہارے بھائی (بھائی سے مراد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ ہیں )کے پاس ہے اور خاکسار کے ماموں ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب بھی بیان کر تے تھے کہ میں نے ایک دفعہ حضرت صاحب کو الہام ہوتے دیکھا تھا۔”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 22)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان فرماتے ہیں :
“بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ جن دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کرم دین سے گورداسپور میں مقدمہ تھا اور آپ گورداسپور گئے ہوئے تھے۔ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ سب لوگ کچہری میں چلے گئے یااِدھر اُدھرہو گئے اور حضرت صاحب کے پاس صرف مَیں اور مفتی صادق صاحب رہ گئے۔حضرت صاحب لیٹے ہوئے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سو رہے ہیں ۔اسی حالت میں آپ نے سر اُٹھایا او ر کہا کہ مجھے الہام ہوا ہے لکھ لو۔”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر29)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان فرماتے ہیں :
“بیان کیامجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عادت تھی کہ ہمیشہ رات کو سوتے ہوئے پاجامہ اتار کر تہ بند باندھ لیتے تھے اور عموماً کرتہ بھی اتار کر سوتے تھے۔”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر61)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان فرماتے ہیں :
“پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے مجھ سے بیان کیاکہ حضرت صاحب کے سونے کی کیفیت یہ تھی کہ تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد آپ جاگ اُٹھتے تھے اور منہ سے آہستہ آہستہ سبحان اللہ ،سبحان اللہ فرمانے لگ جاتے تھے اور پھر سو جاتے تھے۔”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر310)
………………………(باقی آئندہ)