ریاست مدینہ کے خد و خال
ریاست مدینہ کے بانی حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے ظلم، بربریت اور تعصبات کی دنیا میںمبعوث ہوکر عدل واحسان، مذہبی رواداری اور حریتِ ضمیر ومذہب کی بھی ایسی اعلیٰ تعلیم فرمائی جس کی نظیر نہیں ملتی۔
مذہبی آزادی اوراسلامی تعلیم
بانی ٔاسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مذہبی رواداری اور آزادیٔ ضمیر کی بے نظیرتعلیم دی اور اعلان کیاکہ‘‘دین میں کوئی جبر نہیں۔’’(سورۃالبقرۃ:257)
نیزفرمایا‘‘جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر اختیار کرے۔’’(سورۃالکہف:30)
اسلام کی امتیازی شان یہ ہے کہ اس نے دیگر مذاہب و اقوام کے ساتھ عدل و انصاف کی نہ صرف تعلیم دی بلکہ بانیٔ اسلام اور ان کے سچے پیروؤں نے اس پرعمل کرکے غیرمذاہب کے ساتھ رواداری اوراحسان کے بہترین نمونے پیش کیے۔ بےشک اسلامی تعلیم میں قیام عدل کی خاطرظلم کا بدلہ لینے کی اجازت دی گئی ہے لیکن عفوکوزیادہ پسند کیا گیا ہے اور فرمایا کہ اس کا اجر خدا نے خود اپنے ذمہ لیا ہے۔(سورۃالشوریٰ :41)
غیرمسلم دشمن سے حسن سلوک
غیرقوموں اور مذاہب کی مذہبی زیادتیوں کے جواب میں کسی قسم کی زیادتی کرنے سے منع کرتے ہوئے اسلام یہ تعلیم دیتا ہے:
‘‘تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تمہیں مسجدِ حرام سے روکا تھا اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم زیادتی کرو۔ اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو’’ (سورۃ المائدۃ:3)
دوسری جگہ فرمایا اور‘‘کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو کہ یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔’’(سورۃالمائدۃ:9)
اسلام نے صرف یہ اصولی تعلیم ہی نہیں دی بلکہ تفصیل میں جاکر مشرکین کے برابر کے حق قائم فرمائے۔ چنانچہ زمانۂ جنگ میں اگر مومن عورتیں دارالحرب سے دارالاسلام کی طرف ہجرت کرکے آجائیں تو انہیں واپس کرنے کی بجائے ان کی مشرک قوم میں ان عورتوں کے ولی کو وہ اخراجات ادا کرنے کا حکم ہے جو انہوں نے ان مومن عورتوں پر کیے۔ اور کافر عورتوں سے زبردستی نکاح کرنے اور انہیں اپنے پاس روک رکھنے سے منع فرمایا اور انہیں واپس مشرکین کے پاس لوٹاتے ہوئے مسلمانوں کو ان اخراجات کے مطالبہ کا حق دیا جس طرح کفار کو یہ حق حاصل ہے۔(سورۃالممتحنۃ:11)
اسلام نے دشمن قوم حتٰی کہ مشرکین کا امن کے ساتھ زندہ رہنے کا حق بھی تسلیم کیا ہے چنانچہ فرمایا:
‘‘اور مشرکوں میں سے اگر کوئی تجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے یہاں تک کہ وہ کلام الٰہی سن لے پھر اسے اس کی محفوظ جگہ تک پہنچادے یہ (رعایت)اس لیے ہے کہ وہ ایک ایسی قوم ہیں جو علم نہیں رکھتے۔’’(سورۃالتوبۃ:6)
رواداری اور غیر مذاہب کی خوبیوں کی تعریف
رسول کریمؐ کے ذریعہ رواداری کی یہ اعلیٰ تعلیم دی گئی کہ غیر مذہب یا قوم میں بھی جو خوبی یا نیکی پائی جاتی ہواس کی قدردانی کرنی چاہیے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:‘‘وہ سب ایک جیسے نہیں۔ اہل کتاب میں سے ایک جماعت (اپنے مسلک پر)قائم ہے۔ وہ رات کے اوقات میں اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور وہ سجدے کر رہے ہوتے ہیں۔’’(سورۃ آل عمران:114)
اسی طرح بعض یہودونصاریٰ کی دیانت کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا :‘‘اور اہلِ کتاب میں سے وہ بھی ہے کہ اگر تُو ڈھیروں ڈھیر امانت بھی اس کے پاس رکھوا دے تو وہ ضرور تجھے واپس کر دے گا۔ اور اُن میں ایسا بھی ہے کہ اگر تُو اس کو ایک دینار بھی دے تو وہ اسے تجھے واپس نہیں کرے گا ’’
(سورۃ آل عمران:76)
بعض نیک فطرت خداترس عیسائیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ ‘‘اور جب وہ اُسے سنتے ہیں جو اس رسول کی طرف اتارا گیا تو تُو دیکھےگا کہ ان کی آنکھیں آنسو بہانے لگتی ہیں اس کی وجہ سے جو انہوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے ربّ!ہم ایمان لائے پس ہمیں گواہی دینے والوں میں تحریر کرلے۔’’(سورۃ المائدہ:84)
بانیان مذاہب کا احترام
بانیٔ اسلام نے رواداری کی یہ تعلیم بھی دی ہے کہ مذہبی بحثوں کے دوران جوش میں آکر دوسرے مذہب کی قابل احترام ہستیوں کو برا بھلا نہ کہو۔قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ‘‘اور تم ان کو گالیاں نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ورنہ وہ دشمنی کرتے ہوئے بغیر علم کے اللہ کو گالیاں دیں گے۔’’(سورۃ الانعام:109)
رسول کریمؐ نے اس بنیادی حقیقت سے پردہ اُٹھاکربانیان مذاہب کے احترام کی تعلیم دی کہ ہر قوم میں نبی آئے اور آغاز میں ہر مذہب سچائی پر قائم تھا مگر بعد میں اپنے نبی کی تعلیم سے انحراف کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوا۔ تاہم اب بھی ہر مذہب میں کچھ حصہ ہدایت کا موجود ہے۔(سورۃ النحل:64)
آپؐ نے یہ تعلیم بھی دی کہ سب اقوام کے نبی مقدس اور برگزیدہ تھے،اس لیے وہ منافرت دور کرنی چاہیے جو دائرہ ہدایت کومحدود کرنے سے پیدا ہوتی ہے اور باوجود مذہبی اختلاف کے دیگر اقوام و مذاہب سے اتحاد رکھنا چاہیے اور انسانیت کے ناطے ان کے ساتھ محبت وپیار کا سلوک کرناچاہیے۔
بانیٔ اسلام کا نمونہ
اسلام دیگر مذاہب کے پیروؤں کے احساسات کا احترام سکھاتا ہے کہ خواہ وہ حق پر نہ ہوں۔مگرچونکہ وہ سچ سمجھ کر اس مذہب کو مان رہے ہیں انہیں اپنے مسلک پر قائم رہنے کا حق ہے۔ مدینہ میں ایک مسلمان اور یہودی کے مابین رسولؐ اللہ اور حضرت موسیٰؑ کی فضیلت کا تنازعہ کھڑا ہوا تو رسول کریم ؐنے فرمایا کہ مجھے موسیٰ ؑپر فضیلت مت دو۔
(بخاری کتاب التفسیر سورۃ الاعراف)
بانیٔ اسلام نے محض مذہبی اختلاف کی بنا پر دوسری قوم پر حملہ کرنے کی تعلیم نہیں دی۔صرف ان اقوام سے دفاعی جنگ کی اجازت دی ہے جو مسلمانوں پر حملہ کرنے میں پہل کریں۔چنانچہ فرمایا ‘‘اور اللہ کی راہ میں ان سے قتال کرو جو تم سے قتال کرتے ہیں اور زیادتی نہ کرو۔ یقیناً اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔’’(سورۃ البقرہ:191)
معاہدات کی پابندی
پھررسول کریمؐ نے غیرمذاہب اور اقوام سے معاہدات کو پورا کرنے کی تعلیم دی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:‘‘اور وہ لوگ جو ایمان لائے مگر انہوں نے ہجرت نہ کی تمہارے لیے اُن سے دوستی کا کچھ جواز نہیں یہاں تک کہ وہ ہجرت کر جائیں۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملہ میں تم سے مدد چاہیں تو مدد کرنا تم پر فرض ہے سوائے اس کے کہ کسی ایسی قوم کے خلاف (مدد کاسوال) ہو جس کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہو چکا ہو۔’’ (سورۃالانفال:73)
البتہ اگر وہ لوگ عہد شکنی کریں تومسلمانوں کوجوابی کارروائی کا حق ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ‘‘اور اگر کسی قوم سے تُو خیانت کا خوف کرے تو اُن سے ویسا ہی کر جیسا اُنہوں نے کیا ہو۔ اللہ خیانت کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔’’(سورۃ الانفال:59)
پھر اسلام نے محض عدل کی ہی تعلیم نہیں دی بلکہ اس سے آگے بڑھ کر احسان کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔(سورۃ النحل:91)اسلام غیرقوموںسے تمدنی تعلقات قائم کرنے، انصاف اور نیکی کا سلوک کرنے کی ہدایت فرماتا ہے۔ یہودی مذہب کی طرح یہ نہیں کہتاکہ صرف یہود سے سود نہ لو۔ (استثناء:23/19)بلکہ قرآن شریف نے سود کو حرام کر کے سب کے لیے منع کردیا اور یہ اعلیٰ درجہ کی تمدنی تعلیم دی:
‘‘اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں قتال نہیں کیا اور نہ تمہیں بے وطن کیا کہ تم اُن سے نیکی کرو اور اُن سے انصاف کے ساتھ پیش آؤ۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتاہے۔’’(الممتحنۃ:9)
حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ کی(مشرک)والدہ اداس ہوکرانہیں ملنے مدینہ آئیں۔ اسماءؓنے نبی کریمؐ سے پوچھا کہ کیا مجھے ان کی خدمت کرنے اور ان سے حسن سلوک کی اجازت ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں وہ تمہاری ماں ہے۔ ابن عیینہ کہتے ہیں اسی بارہ میں یہ آیت ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو ان لوگوں سے نہیں روکتا جنہوں نے تم سے دین کے بارہ میں جنگ نہیں کی۔
(بخاری کتاب الادب باب7)
اسلامی حکومت میں مسلمانوں پر ذمہ داریاں زیادہ اور غیرمسلموں پر نسبتاً کم ہیں۔ لڑائی کی صورت میں مسلمانوں پر جہاد فرض ہے اور بہر حال اس میں شامل ہونا ان کے لیے ضروری ہوتا ہے۔جبکہ غیرمسلموں کے لیے یہ لازم نہیں۔مسلمانوں پر پیداوار کا دسواں حصہ بطور عُشر حکومت کو دینا واجب ہے۔ غیرمسلموں پر یہ ذمہ داری نہیں۔اسی طرح مسلمانوں کوہر سال اپنی آمدنی کا اڑھائی فیصد زکوٰۃ اورعُشریعنی زرعی پیداوار کا دسواں حصہ دینا لازم ہے۔ جبکہ غیرمسلموں پر جزیہ کی صورت میں معمولی ٹیکس مقررہوتا ہے۔
غیرمسلموں کی آزادی میں بھی اسلام نے مسلم غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں رکھی بلکہ اصولی طور پر غلاموں کی آزادی کی تعلیم دی۔ نبی کریمؐ نے غزوۂ حنین کے موقع پر ہزاروں غیرمسلم غلاموں کو آزاد کر کے اس کا عملی نمونہ عطافرمایا۔
مشرکین مکہ سے حسن سلوک
مشرکین مکہ نے آنحضرتؐ کو مکہ سے جلاوطن کیا تھا اور مدینہ میں بھی چین کا سانس نہ لینے دیا مگر آنحضرتؐ نے موقع آنے پر ہمیشہ اُن سے احسان کا سلوک ہی روا رکھا۔اہل مکہ کوہجرت مدینہ کے بعد ایک شدید قحط نے آگھیرا۔ یہاں تک کہ ان کو ہڈیاں اور مردار کھانے کی نوبت آئی۔ تب مجبور ہو کر ابو سفیان آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ‘‘اے محمدؐ!آپؐ تو صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ آپؐ کی قوم اب ہلاک ہو رہی ہے آپؐ اللہ سے ہمارے حق میں دعا کریں (کہ قحط سالی دور فرما ئے )اور بارشیں نازل ہوں ورنہ آپؐ کی قوم تباہ ہو جائے گی۔’’
رسول اللہ ؐنے ابو سفیان کو احساس دلانے کے لیے صرف اتنا کہا کہ تم بڑے دلیر اور حوصلہ والے ہوجو قریش کی نافرمانی کے باوجود ان کے حق میں دعا چاہتے ہو۔مگر دعا کرنے سے انکار نہیں کیا کیونکہ اس رحمت مجسم کو اپنی قوم کی ہلاکت ہر گز منظور نہ تھی۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ اسی وقت آپؐ کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھ گئے اور اپنے مولیٰ سے قحط سالی دور ہونے اور باران رحمت کے نزول کی یہ دعا بھی خوب مقبول ہوئی۔ اس قدر بارش ہوئی کہ قریش کی فراخی اور آرام کے دن لوٹ آئے ۔مگر ساتھ ہی وہ انکار ومخالفت میں بھی تیز ہو گئے ۔(بخاری کتاب التفسیر سورۃ الروم وا لدخان)آنحضرتؐ نے اہل مکہ کی امداد کے لیے کچھ رقم کا بھی انتظام کیا اور وہ قحط زدگان کے لیے مکہ بھجوائی۔
(المبسوط للسرخسیجلد10صفحہ92)
مسلمانوں کے دشمن قبیلہ بنو حنیفہ کا سردار ثُمامہ بن اُثالگرفتارہوکر پیش ہوا تو رسول کریمؐ نے ازراہ احسان اسے آزاد کردیا۔رسول اللہ ؐکے حسن سلوک سے متاثر ہوکرانہوں نے اسلام قبول کرلیا۔اس کے بعدوہ حضورؐ کی اجازت سے عمرہ کرنے مکہ گئے تو مسلمانوں کے طریق پر لَبَّیْکْ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکْ کہنا شروع کیا۔قریش نے انہیں پکڑ لیا اور کہا کہ تمہاری یہ جرأت کہ مسلمان ہوکر عمرہ کرنے آئے ہو۔ثمامہ نے کہا خدا کی قسم تمہارے پاس میرے علاقہ یمامہ سے غلے کاایک دانہ بھی نہیں آئے گا۔جب تک رسولؐ اللہ اجازت نہ فرمائیں۔
قریش ثمامہکو قتل کرنے لگے مگربعض سرداروں کی سفارش پر کہ یمامہ سے تمہیں غلہ وغیرہ کی ضرورت ہےان سے دشمنی مول نہ لو انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ثمامہ نے یمامہ جاکر واقعی اہل مکّہ کا غلہ روک دیا۔یہاں تک کہ وہاں قحط پڑگیا۔تب قریش نے رسولؐ اللہ کی خدمت میں لکھا کہ آپؐ تو دعویٰ کرتے ہیں کہ رحمت بناکر بھیجے گئے ہیں اور صلہ رحمی کی تعلیم دیتے ہیں۔مگر ہمارا تو غلہ تک رکوادیا۔رسول کریمؐ نے ثمامہؓ کو لکھا کہ قریش کے غلہ کے قافلے مکہ جانے دیں۔ چنانچہ انہوں نے تعمیل ارشاد کی، اس طرح اپنی دشمن قوم قریش پریہ آپؐ نے ایک گراں قدراور عظیم احسان فرمایا۔
(السیرۃ الحلبیہجلد3صفحہ175بیروت)
دشمن قیدیوں کے ساتھ عدل
مشرکین مکہ کے جنگ بدر کے قیدیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس ؓ بھی تھے۔ قیدیوں کی نگرانی جب حضرت عمر ؓکے سپردہوئی تو انہوں نے حضرت عباس ؓسمیت تمام قیدیوں کی مشکیں اچھی طرح کس دیں جو مسجد نبویؐ کے احاطہ میں ہی تھے۔ حضرت عباس ؓتکلیف سے کراہنے لگے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباسؓ کے کراہنے کی آواز سنی تو آپؐ کو چچا کی تکلیف کی وجہ سے بے چینی سے نیند نہ آتی تھی۔ انصار کو کسی طرح اس کا علم ہوگیا انہوں نے عباسؓ کی مشکیں ڈھیلی کردیں۔حضورؐ کو پتہ چلا تو فرمایا کہ سب کی مشکیں ڈھیلی کردو۔
انصار نے رسولؐ اللہ کی حضرت عباس ؓسے محبت کو دیکھ کر حضورؐ کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر عرض کیا حضورؐ ہم عباسؓ کا فدیہ معاف کرتے ہیں۔ان کو قید سے آزاد کردیا جائے مگر رسول کریمؐ نے اُن کی یہ پیش کش قبول نہ فرمائی اور حضرت عباسؓ سے فرمایا کہ اپنا اور اپنے بھائی عقیل،نوفل نیز اپنے حلیف عتبہ کا بھی فدیہ دیں کیونکہ آپ مالدار ہیں۔ حضرت عباس ؓنے عرض کیا کہ حضورؐ میں تومسلمان تھامگر مشرک مجھے مجبور کر کے بدر میں لے آئے ۔حضور ؐنے فرمایا یہ تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اور اگر یہ درست ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی جزا دے گا۔لیکن چونکہ آپ بظاہر دیگر قیدیوں کی طرح ہمارے خلاف جنگ کےلیے آئے تھے اس لیے فدیہ دینا ہوگا۔چنانچہ انہوں نے چالیس اوقیہ فدیہ ادا کیا۔
(عمدۃ القاری شرح بخاری لعینی جلد18صفحہ116)
مشرکین کے بچوں کے قتل پر ناراضگی
مشرکین مکہ نے غزوۂ احد کے موقع پر مسلمان شہدا کی نعشوں کی بے حرمتی کی تھی اور اُن کے ناک ،کان وغیرہ کاٹے گئے تھے۔حضرت حمزہؓ کا کلیجہ تک چبایاگیا۔مگر آنحضرت ؐنے کبھی اس کا بدلہ لینے کا نہیں سوچابلکہ ہمیشہ اُن کے ساتھ حسن سلوک ہی کیا۔ حضرت حسن بن اسودؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک غزوہ کے موقع پر مقتولین میں کچھ بچوں کی نعشیں بھی پائی گئیں۔حضورؐ کو جب پتہ چلا تو آپؐ نے فرمایا یہ کون لوگ ہیںانہوں نے جنگجو مردوں کے ساتھ معصوم بچوں کو بھی قتل کرڈالا؟ایک شخص نے عرض کیا یارسولؐ اللہ وہ مشرکوں کے بچے ہی تو تھے۔نبی کریمؐ نے فرمایا، آج تم میں سے جو بہترین لوگ ہیں وہ بھی کل مشرکوں کے بچے ہی تو تھے۔یادرکھو کہ کوئی بھی بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو نیک فطرت پر پیدا ہوتاہے ۔ اس کی یہ کیفیت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک وہ بولنا سیکھتا ہے اس کے بعد اس کے ماں باپ اسے یہودی یا عیسائی بنادیتے ہیں۔
(مسند احمد بن حنبل جلد4صفحہ24بیروت)
رسول کریمؐ سے پوچھا گیا مشرکوں کے بچوں کا حساب کتاب کیسے ہوگا؟ فرمایاوہ اپنے والدین کے مذہب پر شمار ہوں گے۔عرض کیاگیا پھرتو وہ بغیر کسی عمل کے پکڑے گئے فرمایا اللہ بہتر جانتا ہے وہ کیا کرنے والے تھے۔
(ابوداؤد کتاب السنّہ باب 18)
تعاقب کرنےوالے دشمن کو انعام
ہجرت مدینہ کے وقت قریش مکہ نے آنحضرت ؐکو گرفتار کرکے لانے والے کے لیے سو اونٹ کا انعام مقرر کیا تھا۔جس کے لالچ میں سراقہ بن مالک نے اپنے تیز رفتار گھوڑے پر رسولؐ اللہ کا تعاقب کیا۔مگر جب آپؐ کے قریب پہنچا تو اس کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس گئے۔جب تین مرتبہ ایسا ہوا تو وہ توبہ کر کے معافی اور امان کا طالب ہوا۔رسول کریمؐ نے اسے امان عطا کرتے ہوئے بطور انعام کسریٰ کے کنگنوں کی بشارت دی۔فتح مکہ پر وہ مسلمان ہوا اور رسولؐ اللہ کے دامن رحمت سے حصہ پایا۔بعد میں حضرت عمرؓ کے زمانہ میں کسریٰ کے کنگن بھی اُسے عطا کیے گئے۔یوں آپؐ کا تعاقب کرنے والا بدخواہ بھی آپؐ کے انعام و اکرام کا ہی مورد ٹھہرا۔
(بخاری کتاب فضائل الصحابۃ باب 55)
بیت اللہ کی حرمت اور عدل و انصاف کا قیام
احکام الٰہی کی حرمت کے ساتھ نبی کریم ؐنے فتح مکہ کے موقع پر حرم کا احترام و تقدس بھی بحال کیا،جو آپؐ کی بعثت کا ایک اہم مقصد تھا۔فتح مکہ کے دوسرے دن بنو خزاعہ نے بنو ہذیل کے ایک شخص کو حرم میں قتل کردیا۔آپؐ اس پر سخت ناراض ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا :
‘‘اے لوگو!یاد رکھو اس حرم کی عزت کو کسی انسان نے نہیں خدا نے قائم کیا ہے۔اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ خدا نے اصحاب الفیل کے حملہ سے اپنے اس گھر کو بچایا تھا اور مسلمانوں کو اس پر مسلط کردیا ہے۔ کسی شخص کےلیے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے جائز نہیں کہ وہ اس میں خون ریزی وغیرہ کرے۔یہ حرم مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا۔میرے لیے صرف اسی وقت اور اسی لمحے لوگوں پر خدا کے غضب کے سبب حلال ہوا ہے اور اب پھر اس کی حرمت بدستور برقرار رہے گی۔تم میں سے جو لوگ حاضر ہیں وہ غیر حاضر لوگوں تک یہ بات پہنچادیں۔ جو شخص تم سے کہے کہ اللہ کے رسول نے مکہ میں جنگ کی ہے تو یاد رکھو اللہ نے اسے اپنے رسول کے لیے حلال کردیا تھا لیکن (اے بنی خزاعہ) تمہارے لیے حلال نہیں کیااور مجھے بھی صرف ایک گھڑی کےلیے یہ اجازت دی گئی تھی۔’’
(صحیح بخاری کتاب الدیات بَابُ مَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ)
مکہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد رسول کریمؐ نے عدل کی شاندار مثالیں قائم فرمائیں۔
ایک دفعہ ایک مسلمان سے ایک ذمّی قتل ہوگیا۔ نبی کریمؐ نے قصاص کے طور پر مسلمان کوقتل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں اس بات کا زیادہ حقدار ہوں جو اس غیرمسلم کا حق دلواؤں اور اس کا عہد پورا کرکے دکھاؤں۔(نصب الرایۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ جلد4صفحہ336)اس کے بعدآپؐ نے بنو خزاعہ کے قاتلوں کو قصاص دینے یا خون بہا قبول کرنے کا پابند کیا اور یوں عملاً عدل و انصاف کو قائم فرمایا۔
فتح مکہ کے اسی سفر کا واقعہ ہے کہ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت فاطمہ نامی نے کچھ زیور وغیرہ چرالیے۔اسلامی تعلیم کے مطابق چور کی سزااس کے ہاتھ کاٹنا ہے۔عورت چونکہ معزز قبیلہ سے تعلق رکھتی تھی اس لیے اس کے خاندان کو فکر ہوئی اور انہوں نے رسولؐ اللہ کے بہت پیارے اور عزیز ترین فرد اسامہ بن زیدؓ سے حضورؐ کی خدمت میں سفارش کروائی کہ اس عورت کو معاف کردیا جائے ۔اسامہؓ نے جب رسولؐ اللہ کی خدمت میں عرض کیا توآپؐ کے چہرہ کا رنگ سرخ ہوگیا اور فرمایا کیا تم اللہ کے حکموں میں سے ایک حکم کے بارہ میں مجھ سے سفارش کرتے ہو؟ اسامہؓ نے عرض کیا یارسولؐ اللہ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کریں۔ شام کو نبی کریم ؐ نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا‘‘تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوئے کہ جب ان میں سے کوئی معزز انسان چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تھا تو اس پر حدقائم کرتے تھے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔’’پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اس عورت کا ہاتھ کاٹا گیا۔
(بخاری کتاب المغازیباب49)
رسول کریمؐ فرماتے تھے کہ ایک شخص کی غلطی کے بدلے دوسرے کو سزادینا ناجائز ہے۔ایک دفعہ باپ بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک شخص پرکسی دوسرے شخص کی وجہ سے زیادتی نہ ہو اور پھر یہ آیت پڑھی لاَتَزِرُوَازِرَۃٌ وِزْرَاُخْرٰی کہ کوئی جان دوسری کا بوجھ نہیں اُٹھائے گی۔
(ابوداؤدکتاب الدیات باب 2)
مفتوح قوم کے مشرک سرداروں سے حسن سلوک
ابوجہل کا بیٹا عکرمہ اپنے باپ کی طرح عمر بھررسولؐ اللہ سے جنگیں کرتا رہا۔فتح مکہ کے موقع پر بھی رسول کریمؐ کے اعلان عفو اورامان کے باوجودایک دستے پر حملہ آور ہوکر حرم میں خون ریزی کا باعث بنا۔اپنے جنگی جرائم کی وجہ سے ہی وہ واجب القتل ٹھہراتھا۔ فتح مکہ کے بعد جان بچانے کے لیے وہ یمن کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔اس کی بیوی رسولؐ اللہ سے اس کے لیے معافی کی طالب ہوئی تو آپؐ نے کمال شفقت سے معاف فرمادیا۔وہ اپنے شوہر کو واپس لانے کے لیے گئی تو خود عکرمہ کو اس معافی پر یقین نہ آتا تھا۔چنانچہ اس نے دربار نبویؐ میں حاضرہوکر اس کی تصدیق چاہی۔اس کی آمد پررسولؐ اللہ نے اس سے احسان کا حیرت انگیز سلوک کیا۔ پہلے تو آپؐ دشمن قوم کے اس سردار کی عزت کی خاطر کھڑے ہوگئے پھر عکرمہ کے پوچھنے پر بتایا کہ واقعی میں نے تمہیں معاف کردیا ہے۔
(مؤطا امام مالک کتاب النکاح باب نکاح المشرک اذا اسلمت زوجتہ’)
عکرمہ نے پوچھا کہ کیا اپنے دین (حالت شرک)پر رہتے ہوئے آپؐ نے مجھے بخش دیا ہے آپؐ نے فرمایا ہاں۔اس پر مشرک عکرمہ کا سینہ اسلام کے لیے کھل گیا اور وہ بے اختیار کہہ اُٹھا اے محمدؐ ! آپؐ واقعی بے حد حلیم وکریم اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔رسولؐ اللہ کے حسن خلق اور احسان کا یہ معجزہ دیکھ کرعکرمہ مسلمان ہوگیا۔
(السیرۃ الحلبیہ جلد3صفحہ92داراحیاء التراث العربی بیروت)
مشرکین کا ایک اورسردار صفوان بن اُمیّہ تھا جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمانوں پرحملہ کرنے والوں میں شامل تھا ۔یہ بھی عمر بھر رسو ل اللہؐ سے جنگیں کرتا رہا۔اپنے جرائم سے نادم ہوکر فتح مکہ کے بعد بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ اس کے چچا عمیر بن وہبؓ نے رسولؐ اللہ سے اس کے لیے امان چاہی۔ آپؐ نے اپنا سیاہ عمامہ بطورعلامتِ امان اُسے عطافرمایا۔عمیرصفوان کو واپس مکہ لایا۔اس نے پہلے تو رسولؐ اللہ سے اپنی امان کی تصدیق چاہی پھراپنے دین پر رہتے ہوئے دو ماہ کے لیے مکہ میں رہنے کی مہلت چاہی آپؐ نے چار ماہ کی مہلت عطافرمائی۔
محاصرہ طائف سے واپسی پر رسولؐ اللہ نے تالیف قلب کی خاطر اسے پہلے سو اونٹ کا انعام دیا۔ پھر سو اونٹ اور پھر سو اونٹ گویا کل تین صد اونٹ عطافرمائے۔صفوان بے اختیار کہہ اُٹھا اتنی بڑی عطا ایسی خوش دلی سے سوائے نبی کے کوئی نہیں دے سکتا ۔چنانچہ وہ بھی مسلمان ہوگیا۔
(السیرہ لحلبیہ جلد3صفحہ109بیروت)
فتح مکہ کے بعد بنو ثقیف کا وفد طائف سے آیا،تو نبی کریمؐ نے ان کو مسجد نبویؐ میں ٹھہرایا اور ان کی خاطر تواضع کا اہتمام کروایا۔بعض لوگوں نے سوال اُٹھایا کہ یہ مشرک لوگ ہیں ان کو مسجد میں نہ ٹھہرایا جائے کیونکہ قرآن شریف میں مشرکین کونجس یعنی ناپاک قراردیا گیا ہے۔نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اس آیت میں دل کی ناپاکی کی طرف اشارہ ہے،جسموں کی ظاہری گندگی مرادنہیں۔
(احکام القرآن للجصاص جلد3صفحہ109)
وفد ثقیف کے بعض لوگ تو مدینہ میں اپنے حلیفوں کے پاس ٹھہرے۔ بنی مالک کے لیے نبی کریم ؐ نے خود خیمہ لگا کر انتظام کروایا اور آپؐ روزانہ نماز عشاء کے بعد جاکر ان سے مجلس فرماتے تھے۔
( ابوداؤد کتاب شہر رمضان باب 9)
حضرت مغیرہ ؓبن شعبہ نے رسول کریمؐ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ وہ وفد ثقیف کو اپنا مہمان رکھنا چاہتے ہیں رسول کریمؐ نے فرمایا کہ میں تمہیں ان کے اکرام وعزت سے نہیں روکتا، مگر ان کی رہائش وہیں ہونی چاہیے جہاں وہ قرآن سن سکیں۔چنانچہ حضورؐ نے سب کے لیے مسجد میں خیمے لگوادیے تاکہ لوگوں کو نماز پڑھتے دیکھیں اورقرآن سنیں۔
(دلائل النبوۃ للبیھقی 57)
رسول کریمؐ نے غیرحربی مشرکین سے ہمیشہ حسن معاملہ کا طریق اختیار فرمایا۔ ایک دفعہ مشرک مہمان کی خود مہمان نوازی کی اور اسے سات بکریوں کا دودھ پلایا۔
(ترمذی کتاب الاطعمہ)
ایک دفعہ ریشم کا لباس تحفہ آیا تورسول کریمؐ نے حضرت عمرؓ کو دیا انہوں نے عرض کیا کہ ریشم تومردوں کے لیے منع ہے وہ اسے کیا کریں گے؟ فرمایا کسی اور کو دے دیں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اپنے مشرک بھائی کو بطورتحفہ دے دیا۔
(بخاری کتاب اللباس باب25)
ایک شریف النفس مشرک سردار مطعم بن عدی(جو غزوۂ بدر کے زمانہ میں وفات پاچکے تھے)کے بارے میں نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اگرآج وہ زندہ ہوتے اور بدر کے قیدیوں کی آزادی کے لیے سفارش کرتے تو میں ان کی خاطر تمام قیدیوں کو (بلامعاوضہ) آزاد کردیتا۔(بخاری کتاب المغازی باب 19)
غیرمذاہب کے مُردوں کا احترام
حضرت یعلیٰ ؓ بن مرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریمؐ کے ساتھ کئی سفر کیے۔ کبھی ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ آپؐ نے کسی انسان کی نعش پڑی دیکھی ہو اور اسے دفن نہ کروایا ہو آپؐ نے کبھی یہ نہیں پوچھا کہ یہ مسلمان ہے یا کافر ہے۔(مستدرک حاکم جلد 1صفحہ371)چنانچہ بدر میں ہلاک ہونے والے24؍مشرک سرداروں کو بھی آپؐ نے خود میدان بدر میں ایک گڑھے میں دفن کروایا تھا۔جسے قلیب بدر کہتے ہیں۔
(بخاری کتاب المغازی باب 3)
الغرض نبی کریمؐ نے بحیثیت انسان غیرمسلموں کے حقوق قائم کرکے دکھلائے۔ ان کےمُردوں تک کا احترام کیا۔حالانکہ وہ مسلمانوں کی نعشوں کی بے حرمتی کرتے رہے مگر آپؐ نے انتقام لینا کبھی پسندنہ کیا۔
غزوہ احزاب میں مشرکین کا ایک سردار نوفل بن عبداللہ مخزومی میدان میں آیا اور نعرہ لگایا کہ کوئی ہے جو مقابلہ میں آئے؟ حضرت زبیرؓ بن العوام مقابلہ میں نکلے اور اسے زیر کرلیا۔ دریں اثناء حضرت علیؓ نے بھی نیزہ مارا اور وہ دشمن رسولؐ خندق میں گرکر ہلاک ہوگیا۔ مشرکین مکہ اُحد میں رسولؐ اللہ کے چچاحمزہ ؓ کے ناک کان کاٹ کر ان کی نعش کا مُثلہ کرچکے تھے۔ وہ طبعاً خائف تھے کہ ان کے سردار سے بھی ایسا بدلہ نہ لیاجائے۔انہوں نے رسولؐ اللہ کو پیغام بھجوایاکہ دس ہزاردرہم لے لیں اور نوفل کی نعش واپس کردیں،رسول کریمؐ نے فرمایا ہم مُردوں کی قیمت نہیں لیا کرتے۔ تم اپنی نعش واپس لے جاؤ۔
(دلائل النبوہ للبیہقیجلد3صفحہ437,438)
دوسری روایت میں ہے کہ نوفل خندق عبورکرنا چاہ رہاتھا کہ اس میں گر پڑا مسلمان اس پر پتھر برسانے لگے تو مشرکین نے کہا کہ مسلمانو!اس اذیت ناک طریقے سے مارنے سے بہتر ہے کہ اسے قتل کردو۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے خندق میں اتر کر اسے قتل کردیا۔ اب اس کی نعش مسلمانوں کے قبضہ میں تھی۔ مشرکین نے اسے باعزت دفن کرنے کے لیے نعش کی واپسی کا مطالبہ کیااور بارہ ہزاردرہم تک پیشکش کی۔ رسول کریمؐ نے فرمایا نہ تو ہمیں اس کے جسم کی ضرورت ہے نہ قیمت کی۔ ان کا مردہ انہیں واپس لوٹادو تاکہ وہ اسے حسب منشا دفن کرسکیں۔ مُردے کو فروخت کرنا کوئی قابل عزت بات نہیں پھر آپؐ نے کوئی رقم لیے بغیر وہ نعش دشمنوں کو واپس لوٹادی۔
(ابن ہشام جلد3صفحہ273،طبری جلد2صفحہ574)
منافقین مدینہ سے حسن سلوک
ہجرت مدینہ کے بعد جن مخالف گروہوں سے رسولؐ اللہ کا واسطہ پڑا ،ان میں منافقین کا گروہ بھی تھا۔ ان کی ریشہ دوانیوں کے سدّباب کےلیے حسب حکم الٰہی رسولؐ اللہ اقدام فرماتے تھے، مگر بالعموم ان سے نرمی اور احسان کا سلوک ہی رہا۔
عبداللہ بن ابی بن سلول منافقوں کاسردارتھا۔ہجرت مدینہ کے بعد وہ مسلسل نبی کریمؐ کے خلاف سازشیں کرتا رہا اورکبھی اہانت و گستاخی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا،حتّٰی کہ حضرت عائشہؓ پر جھوٹا الزام لگانے کی جسارت کی۔ رسول کریمؐ نے اس دشمن کے ساتھ بھی ہمیشہ عفو ورحم کا معاملہ فرمایا،اس کی وفات پر آپؐ اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت عمرؓ نے اس کی زیادتیاں یادکرواکر روکنا چاہا۔رسول کریمؐ نہ مانے تو حضرت عمرؓ نے عرض کیاکہ قرآن شریف میں ان منافقوں کے بارہ میں ذکر ہے کہ آپؐ ستّر مرتبہ بھی استغفار کریں تو وہ بخشے نہ جائیں گے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا عمرؓ پیچھے ہٹو مجھے اس میں اختیار ہے اورمیں ستر مرتبہ سے زائد اس کی بخشش کی دعاکرلوں گا۔(بخاری کتاب الجنائزباب83)
چنانچہ آپؐ نے عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ ادا کی اگرچہ بعد میں منافقوں کی نماز جنازہ پڑھانے کی ممانعت قرآن میں نازل ہوئی۔الغرض رسول کریمؐ ہی آزادیٔ ضمیرومذہب کے عظیم علمبردارتھے۔
غیروں کا اعتراف
اطالوی مستشرقہ پروفیسر ڈاکٹر وگلیری نے اسلامی رواداری کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:
‘‘قرآن شریف فرماتا ہے کہ اسلام میں جبر نہیں …محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ان خدائی احکام کی پیروی کرتے تھے اور سب مذاہب کے ساتھ عموماً اورتوحید پرست مذاہب کے ساتھ خصوصاً بہت رواداری برتتے تھے۔آپؐ کفار کے مقابلہ میں صبراختیار کرتے تھے …آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کے متعلق یہ ذمہ لیا کہ عیسائی ادارے محفوظ رکھے جائیں گے اور یمن کی مہم کے سپہ سالار کو حکم دیا کہ کسی یہودی کو اس کے مذہب کی وجہ سے دکھ نہ دیا جائے۔ آپؐ کے خلفاء بھی اپنے سپہ سالاروں کو یہ تلقین کرتے تھے کہ دوران جنگ میں ان کی افواج انہی ہدایات پر کاربندہوں۔ ان فتح مند سپہ سالاروں نے مفتوح اقوام کے ساتھ معاہدات کرنے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کی پیروی کی۔ انہی معاہدات کی وجہ سے مفتوحین کو اپنے اپنے مذہب پرچلنے کی آزادی ملی۔ صرف شرط یہ تھی کہ جو لوگ اسلام قبول نہ کریں ایک معمولی سا ٹیکس یعنی جزیہ اداکریں یہ ٹیکس ان ٹیکسوں سے بہت ہلکا تھا جو خود مسلمانوں پر حکومت اسلامی کی طرف سے عائد ہوتے تھے۔جزیے کے بدلے میں رعایا یعنی ذمّی لوگ ایسے ہی مامون و مصئون ہوجاتے تھے جیسا کہ خود مسلمان۔
پھر پیغمبراسلام اور خلفاء کے طریق کو قانون کا درجہ حاصل ہوگیا اور ہم حتماً بلا مبالغہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام نے مذہبی رواداری کی تلقین پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ رواداری کو مذہبی قانون کا لازمی حصہ بنادیا۔مفتوحین کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد مسلمانوں نے ان کی مذہبی آزادی میں دخل نہیں دیا اور نہ تبدیلی مذہب کے لیے کوئی سختی کی۔’’(اسلام پر نظرصفحہ14 ترجمہ An Interpretation of Islam مترجم شیخ محمداحمدمظہر)
ایڈیٹرست اُپدیشن لکھتے ہیں:
‘‘لوگ کہتے ہیں کہ اسلام شمشیر کے زور سے پھیلا مگرہم اُن کی اس رائے سے موافقت کا اظہار نہیں کرسکتے کیونکہ زبردستی سے جو چیز پھیلائی جاتی ہے وہ جلدی ظالم سے واپس لے لی جاتی ہے۔ اگر اسلام کی اشاعت ظلم کے ذریعہ ہوئی ہوتی تو آج اسلام کا نام و نشان بھی باقی نہ رہتا۔ لیکن نہیں۔ایسا نہیں ہے بلکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام دن بدن ترقی پر ہے۔کیوں؟ اس لیے کہ بانی اسلام(ﷺ)کے اندر روحانی شکتی تھی۔ منش ماتر(بنی نوع انسان)کے لیے پریم تھا۔ اُس کے اندرمحبت اور رحم کاپاک جذبہ کام کررہا تھا۔ نیک خیالات اُس کی رہنمائی کرتے تھے۔’’
(ازقلم ایڈیٹر‘‘ست اُپدیشن’’ لاہور7؍ جولائی 1915ء )
(جاری ہے)
٭…٭…٭
Alhamdulillah….Very informative and a great achievement. A great help and oppurtunity specially for people who cannot freely avail these resources