ہر شخص اپنی معرفت کے لحاظ سے پوچھا جائے گا
اسلام میں انسان کے تین طبقے رکھے ہیں۔
ظَالِم لِنَفْسِہٖ۔ مُقْتَصِد۔ سَابِق بِالْخَیْرَات۔ ظالم لنفسہٖ
تو وہ ہوتے ہیں جو نفس امّارہ کے پنجے میں گرفتار ہوں اور ابتدائی درجہ پر ہوتے ہیں۔ جہانتک ان سے ممکن ہوتا ہے وہ سعی کرتے ہیں کہ اس حالت سے نجات پائیں۔
مقتصد وہ ہوتے ہیں جن کو میانہ رو کہتے ہیں۔ ایک درجہ تک وہ نفس امّارہ سے نجات پا جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی کبھی کبھی اس کا حملہ ان پر ہوتا ہے اور وہ اس حملہ کے ساتھ ہی نادم بھی ہوتے ہیں۔ پورے طور پر ابھی نجات نہیں پائی ہوتی۔
مگر سابق بالخیرات وہ ہوتے ہیں کہ ان سے نیکیاں ہی سرزد ہوتی ہیں اور وہ سب سے بڑھ جاتے ہیں۔ ان کی حرکات و سکنات طبعی طور پر اس قسم کی ہو جاتی ہیں کہ ان سے افعالِ حسنہ ہی کا صدور ہوتا ہے۔ گویا اُن کے نفسِ امّارہ پر بالکل موت آجاتی ہے اور وہ مطمئنّہ حالات میں ہوتے ہیں۔ ان سے اس طرح پر نیکیاں عمل میں آتی ہیں گویا وہ ایک معمولی امر ہے۔ اس لیے ان کی نظر میں بعض اوقات وہ امر بھی گناہ ہوتا ہے جو اس حد تک دوسرے اس کو نیکی ہی سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی معرفت اور بصیرت بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے جو صوفی کہتے ہیں
حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْن۔
مثلاً چندہ کی حالت پر ہی لحاظ کرو۔ ایک آدمی غریب اور دو آنہ روز کا مزدور ہے اور ایک دوسرا آدمی دو لاکھ روپیہ حیثیت رکھتا ہے اور ہزاروں کی روزانہ آمدنی ہے۔ وہ دو آنہ کا مزدور بھی اس میں سے دو پیسہ دیتا ہے اور وہ لاکھ پتی ہزاروں کی آمدنی والا دو روپیہ دیتا ہے۔ تو اگرچہ اُس نے اس مزدور سے زیادہ دیا ہے مگر اصل یہ ہے کہ اس مزدور کو تو ثواب ملے گا مگر اس دولت مند لاکھ پتی کو ثواب نہیں بلکہ عذاب ہو گا۔ کیونکہ اس نے اپنی حیثیت اور طاقت کے موافق قدم نہیں بڑھا یا بلکہ گو نہ بخل کیا ہے۔
غرض یہ ہے کہ جس قسم کا انسان ہو اسے اپنی طاقت اور قدرت کے موافق قدم بڑھانا چاہیے۔ ہر شخص اپنی معرفت کے لحاظ سے پوچھا جائے گا۔ جس قدر کسی کی معرفت بڑھی ہوئی ہو گی اسی قدر وہ زیادہ جواب دہ ہو گا۔ اس لیے ذوالنون نے زکوٰۃ کا وہ نکتہ سنایا یہ خلاف شریعت نہیں ہے۔ اس کے نزدیک شریعت کا یہی اقتضاء تھا۔ وہ جانتا تھا کہ مال رکھنے کے لیے نہیں ہے بلکہ اُسے خدمتِ دین اور ہمدردی نوع انسان میں صرف کرنا چاہیے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں آخری وقت ایک مہر تھی۔ آپ نے اسے نکلوا دیا۔ اصل یہی ہے کہ ہر امر کے مراتب ہوتے ہیں۔ بعض آدمی شُبہ کریں گے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ غنی کہلاتے تھے۔ انہوں نے کیوں مال جمع کیا؟ یہ ایک بیہودہ شُبہ ہے۔ اس لیے کہ وہ مہاجن نہ تھے۔ خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس غنی کے کیا معنے ہیں۔ میں اتنا جانتا ہوں کہ جو مال خدمت دین کے لیے وقف ہو۔ وہ اس کا نہیں ہے۔ اس نیت اور غرض سے جوشخص رکھتا ہے وہ اپنے لیے جمع نہیں کرتا وہ خدا کا مال ہے لیکن جو اپنے اغراض نفسانی اور دنیاوی کو ملحوظ رکھ کر جمع کرتا جاتا ہے۔وہ مال داغ لگانے کے لیے ہے جس سے آخر اس کو داغ دیا جائے گا۔
(ملفوظات جلد 8 صفحہ 108-107۔ ایڈیشن 1984ء)
٭…٭…٭