اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
{2019ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب}
حکام کی طرف سے احمدیہ مسجد کا جزوی طور پر منہدم کیا جانا
چک 161 مراد، ضلع بہاولپور 25؍ اکتوبر 2019ء: 25؍اکتوبر 2019ء سہ پہر ساڑھے تین بجے احمدیہ مسجد جزوی طور پر پولیس اور دیگر حکام کی نگرانی میں منہدم کی گئی۔ اسسٹنٹ کمشنر پولیس عملے اور حاصل پور کی شہری انتظامیہ کے ہمراہ موقع پر آئے۔ ان کے پاس مشینری بھی موجود تھی۔ آتے ہی انہوں نے جائزہ لینے کی غرض سے ایک احمدی سے مسجد کی چابیوں کا مطالبہ کیا۔مسجد میں داخل ہوتے ہی انہوں نے بجلی کی فراہمی منقطع کر دی اور CCTVکیمروں اور ریکارڈنگ کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس کے بعدمشینری کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے مسجد کے محراب کو مسمار کردیا۔ مقامی حکام کے پاس محراب کو مسمار کرتے وقت کسی بھی قسم کا سرکاری اختیار نامہ؍ وارنٹ یا عدالتی حکم نامہ موجود نہیں تھا ۔ ایک احمدی وشال احمد نے اس واقعہ کی وڈیو بنانے کی کوشش کی جس پر ان کا موبائل ضبط کر کے انہیں حراست میں لے لیا گیا۔ ایک اَور احمدی محمد مصطفیٰ جوکہ مقامی عہدیدارہیں، ان کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ ان دونوں احمدی احباب کے خلاف186/506 PPC کے تحت ایک جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا۔ کھلے عام تصویر بنانا قابل گرفت جرم نہیں۔تاہم ان دونوں احمدی احباب کو 26؍ اکتوبر 2019ء کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
یہ مسجد احمدی احباب نے 1949ء میں اپنی ہی ملکیتی جگہ پر تعمیر کی تھی۔ لگ بھگ 17؍گھرانوں کے تقریبا ً150؍ احمدی احباب اس مسجد کے مضافات میں رہائش پذیر ہیں۔
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ یہ کارروائی ملّاکی طرف سے نہیں بلکہ حکومت کی طرف سے کی گئی ہے۔ ریاست کی ذمہ داری عبادت گاہوں کی حفاظت کرنا ہے نہ کہ ان پر حملہ کرنا۔
روزنامہDAWNکے مطابق اسسٹنٹ کمشنر طیب نے اس کارروائی کو تجاوزات کے خلاف آپریشن قرار دیا ہے جو کہ ضلعی امن کمیٹی کے حکم پر اور ڈپٹی کمشنر شاہزیب سعید کی سرپرستی میں کیا گیا۔ انہوں نے مزید یہ کہا کہ احمدیوں کو اپنا محراب گرانے اور اس کے گرد دیوار بنانے کا حکم دیا گیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ محراب جیسا نظر نہ آئے۔
کوئی ان صاحبان سے پوچھے کہ اسلامی دنیا میں کوئی ایسا محراب دکھائیں جس کے ارد گرد دیوار بنائی گئی ہو۔ایسی تعمیر کا خیال ہی بعید از عقل اور مضحکہ خیز ہے ۔
روزنامہDAWN ہی میں اسسٹنٹ کمشنر کا یہ بیان بھی شائع کیا گیا کہ کمیٹی نے ڈپٹی کمشنر کو تجاوزات کے خلا ف کارروائی کرنے کا کہا جو کہ گاؤں میں امن عامہ کی صورتحال پیدا کرنے کے لیے تھا تاکہ احمدی اپنی عبادت گاہ میں مذہبی طور پر آزاد رہ سکیں۔احمدیوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔
یوں معلوم پڑتا ہے کہ ضلعی انتظامیہ روزانہ اخبار کا بھی مطالعہ نہیں کرتی چند دن قبل 4؍ اکتوبر 2019ءکو سپریم کورٹ نے اپنے جون 2014ء کے فیصلہ پر اقلیتوں کے حقوق اور عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے ایک سپیشل بنچ بنانے کا حکم دیا ۔یہ امید کی جاتی ہے کہ سپریم کورٹ اس واقعہ کا نوٹس لے گی اور متعلقہ حکام کی گرفت کرے گی ۔
پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل پر جھوٹی اور متعصبانہ خبر
پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل نے بھارتی رہنما کا چھے سال پرانا تحریف شدہ اور متعصبانہ احمدیت مخالف بیان نشر کیا۔ قومی ناشر کے اس متعصبانہ تکلیف دہ اور غیر مصدقہ بیان کی جماعت احمدیہ کے پاکستان میں واقع مرکزی دفتر نے شدید مذمت کی تھی اور اس پر پریس ریلیز بھی دی تھی ۔
(یہ پریس ریلیز الفضل انٹرنیشنل کے شمارہ 11؍اکتوبر2019ء کے صفحہ24پر شائع ہو چکی ہے۔)
پاکستان تحریک انصاف کی خدمت میں
مولوی فضل الرحمان کے احتجاج اور PTI حکومت کے خلاف دھرنے کے اعلان نے مہینے کے آغاز میں زور پکڑ لیا۔ اور PTI نے اس دھرنے میں غیر جانبدار رہنے کی کوشش کی۔ مورخہ 28؍ستمبر 2019ء کے روزنامہ اوصاف کے مطابق قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے نمائندگان بشمول یاور عباس ،رخسانہ نوید، معاویہ اعظم ،عمر ڈار، نوشین حامد،شعوانہ بشیر، عثمان حمزہ کی طرف سے بیان جاری کیا گیا جس میں انہوں نے کہا کہ بظاہر ان دنوں ختم نبوت کے حوالے سے کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا پھر بھی اگر کوئی مسئلہ ہے تو مولانا کو ہمیں بتانا چاہیے ۔ ہم اسمبلی میں بیٹھے ہیں اور اس کو وہیں پیش کریں گے۔ اگر وہاں پر یہ حل نہ ہوا تو ہم بھی مولانا کے احتجاج میں شامل ہو جائیں گے۔
مذکورہ بالا بیان سےPTIکی سیاسی سوچ کی عکاسی ہوتی ہے جس پر مزید کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں۔
ایک مولوی کا احمدیوں کی قرآن سے وابستگی پر ایک سفاکانہ اعتراض
ربوہ اکتوبر 2018ء: ملا حسن معاویہ نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی کہ ، حکومتی پابندی کے با وجود ربوہ میں قرآن شائع ہو رہا ہے۔ اس نے کارروائی کا مطالبہ کیا جس پر کورٹ نے متعلقہ حکام کو فوری تحقیق اور رپورٹ کا حکم دیا۔ اسی طرح ڈی سی، ڈی پی او اور چیئرمین قرآن بورڈ پنجاب دیگر کئی ملاؤں کے ہمراہ 29؍ نومبر2018ءکو ربوہ آئے اور جماعتی پرنٹنگ پریس کا جائزہ لینا شروع کیا۔ اس ٹیم نے اطلاع دی کہ احمدی قرآن پرنٹ نہیں کر رہے۔ بعد ازاں جسٹس شجاعت علی خان نے 40صفحات پر مشتمل ایک فیصلہ اس سال مارچ میں جاری کیا اور انتظامیہ اور پولیس کو ہدایت دی کہ قرآن ایکٹ 2011ء پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ ملا معاویہ نے دوبارہ 25؍ستمبر 2019ء کو ایک اَور درخواست ڈی پی او چنیوٹ کو دی کہ عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد کروایا جائے۔ نیز احمدی ابھی تک قرآن کریم شائع کر رہے ہیں اور اس کی pdfکاپیاں استعمال بھی کررہے ہیں اور پھیلا بھی رہے ہیں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ قران کریم کی کاپیاں تقسیم انعامات میں بھی دی جا رہی ہیں۔ قرآن کی کلاس بھی احمدیہ سکولوں میں جاری ہے۔ بچوں کو احمدی شائع شدہ قرآن دیے جا رہے ہیں۔ اس نے مزید الزام لگایا کہ یہ تمام غیر قانونی کارروائیاں جماعت کے مرکزی دفاتر صدر انجمن، تحریک جدید اور وقف جدید کی طرف سے جاری ہیں۔ اس نے مزید کہا کہ جماعت کے اعلیٰ عہدیداران خالد شاہ، ملک خالد مسعود اور سلیم الدین ان سرگرمیوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ اس نے جماعت کے پرنٹنگ پریس اور تعلیمی ادارہ جات کا نام لیا جن میں قرآن پڑھایا جارہا ہے۔
ڈی پی اونےڈی ایس پی چناب نگر کو اس پر کارروائی کا حکم دیا جس پر کام جاری ہے۔ ملا معاویہ نے ایک اور درخواست اکتوبر میں ڈی پی او کو یہ الزام لگاتے ہوئے دی کہ احمدی قرآن ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور پولیس سے مطالبہ کیا کہ جماعت کے اعلیٰ عہدےداران پر زیر دفعات 295B,295C کے تحت کارروائی کی جائے۔ ان دفعات کی سزا بالترتیب عمر قید اور سزائے موت ہے۔ یہ مولوی کینہ اور بغض میں انتہا درجہ تک پہنچا ہوا ہے نیز یہ چیئرمین علما ءبورڈ پنجاب طاہر اشرفی کا بھائی ہے انھی مجرمانہ سرگرمیوں کی بنا پر اس کا نام فورتھ شیڈول میں شامل کیا گیا تھا۔
سعودی ملاؤں کا پنجاب میں جمع ہونا
ستمبر ،اکتوبر 2019ء :یہ امر قابل ذکر ہے کہ گذشتہ چند ہفتوں سے ایسے پاکستانی ملاں جو کہ اپنے آپ کو “مکی” کہلاتے ہیں اور سعودی عرب میں رہتے ہیں نے ملک کے کئی شہروں کےدورے کے دوران ختم نبوت کانفرنسوں میں شامل ہوکر جماعت مخالف فرقہ واریت کو ہوا دی ہے۔ان ملاؤں کے نام اخبارات میں اور کانفرنسوں کے اشتہارا ت میں شائع ہوتے رہے ہیں ۔
پاکستان میں ان ملاؤں کے آنے کا مقصد ملا احمد علی سراج کے اس بیان سے لگا یا جا سکتا ہے جو اس نے اسلام آباد میں ہونے والی سیرت کانفرنس میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی موجودگی میں دیا تھا کہ اگر وزیراعظم اپنے ریاست مدینہ والے نعرہ کے بارہ میں سنجیدہ ہیں تو پھر انہیں ریاست مدینہ کے پہلے اقدام کی پیروی کرنا ہو گی کہ جب ختم نبوت کے لیے 1200 اصحاب رسول اللہ ﷺنے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا تھا ۔ملا سراج کے عمران خان سےاس ظالمانہ مطالبہ کو ایک بڑے مجمع میں سنا گیا اور PTVکےذریعہ لاکھوں لوگوں تک یہ بات پہنچائی گئی ۔یقیناً ملا سراج کا یہ مطالبہ صحیح اسلامی تاریخ سے متصادم ہے اور ہر طور پر قابل مذمت ہے ۔
حکام جن کا مقصد ملک کو ہر طرح کی دہشت گردی سے پاک کرنا ہے ان کےلیے ایسے شدت پسند سعودی ملاؤں کے عزائم کے متعلق تحقیق کرنا ضروری ہے ۔
بچوں کے ذہنوں میں نفرت کے بیج
مجلس تحفظ ختم نبوت نے اپنے مذموم عزائم کو پورا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اس نے بچوں تک کو نہیں چھوڑا اور نوجوانوں کے لیےایک نفرت انگیز ناول کی اشاعت میں مالی معاونت کی۔ ایک مصنف ظفر جی نے ‘‘عشق کے قیدی’’کے عنوان سے ایک ناول لکھا اور اس کے دوسرے صفحہ پر ہی اس بات کا دعویٰ بھی کیا کہ یہ ناول تحریک ختم نبوت 1953ء کی یاد میں ایک تاریخی ناول ہے۔ یہ ناول جھوٹے الزامات اور غلط اعتراضات پیش کرتا ہے اور جماعت احمدیہ کی غیر حقیقی تصویر کی عکاسی کرتا ہے ۔ مصنف 1953ء کے فسادات کو ایک مقدس جنگ کی شکل دیتے ہوئے نظر آتا ہے۔ اور ان فسادیوں کو غازی قرار دیتا ہے۔ یہ تمام کہانی احمدیت اور حکومت کے خلاف نفرت انگیز ہے اور ایک ایسے مصنف کے گرد گھومتی ہے جو کہ اس بات کو ثابت کرنے میں لگا ہے کہ ریاست کسی بھی شخص کو کافر قرار دینے کا حق رکھتی ہے۔ ناول میں متعدد بار احمدیوں کو کافر قرار دیا گیا ہے اور اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ریاست پاکستان پر صرف مسلمانوں کا حق ہے۔ مصنف سر ظفر اللہ خان صاحب جیسی معزز ہستی کو بھی بدنام کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ جو کہ اس وقت ایک قابل وزیر خارجہ پاکستان کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ اور بعد ازاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر اور عالمی عدالت انصاف ہالینڈ کے صدر کی حیثیت سے بھی خدمات سر انجام دیتے رہے۔
آج کل یہ کہانی ہر ہفتہ روزنامہ اسلام میں شائع ہو رہی ہے۔ ذیل میں اس کا ایک اقتباس بطور نمونہ شامل ہے۔
“اس دن پولیس نے دل کھو ل کر گولیاں چلا ئیں۔پولیس کی درندگی کا شکار صرف اور صرف ختم نبوت کے پر امن رضا کار ہی بنے ۔جلاؤ گھیراؤ کرنے والوں کو کسی نے پوچھا تک نہیں ۔ سب سے زیادہ ظلم گوالمنڈی میں ہوا ۔عبدالکریم مرزائی اے ایس آئی اور خان بہادر سپرنٹنڈنٹ بارڈر پولیس یہاں تعینات تھے۔خان بہادر وہی شخص تھا ،جس نے 1935ء میں تحریک مسجد شہید گنج میں بھی مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے تھے۔ انگریز حکومت نے اس تحریک کو کچلنے کے انعام میں خان بہادر کو کئی تمغوں سے نوازا تھا ۔آج پھر وہ دو مربع زمین کے لالچ میں ایمان بیچنے آیا تھا۔ یہ دونوں آفیسرز رضا کاروں کوا بھار کر گولیاں چلاتے رہے۔ پولیس گاڑی پر لگے میگافون سے بار بار اعلان کیا جا تا:
“ہے کوئی ختم نبوت کا پروانہ؟…ہو کوئی شہادت کا تمنائی؟”اعلان سنتے ہی آٹھ دس دیوانے نعرہ تکبیر لگاتے ہوئے آگے بڑھتے اور بارڈر پولیس انہیں گو لیوں سے بھون دیتی۔”
“دن بھر نہ تو عاشقان مصطفیٰ ﷺ ایک قدم پیچھے ہٹے اور نہ پولیس کے دل میں لمحہ بھر کو انسانیت جاگی ۔صبح نو بجے سے لے کر دوپہر دو بجے تک یہ مقتل گاہ یو نہی سجی رہی ۔لوگ جوق در جوق لبیک یا رسول اللہ(ﷺ)کا نعرہ لگاتے ہوئے،ناموس رسالت پر قربان ہوتے رہے وقفے وقفے سے ایک فوجی گاڑی آتی اور اسلحہ دے کر چلی جاتی ۔ان شہداء کی تعداد کسی نے ایک ہزار لکھی تو کسی نے دس ہزار ۔رب سچا ہی جانتا ہے کہ کتنے لوگ شہید ہوئے ۔کہا جاتا ہے کہ ان گمنام مجاہدین کی لاشیں ٹرکوں میں ڈال کر چھانگا مانگا جنگل میں پہنچائی گئیں ۔ان کے جسد خاکی کئی طویل کھائیں کھود کر پھینکے گئے ۔پہلے تیل چھڑک کر آگ لگائی گئی ،پھر ان اجتماعی قبروں کی مٹی برابر کر دی گئی ۔”
(عشق کے قیدی سیریل 29/901 ۔29؍ستمبر 2019ءروزنامہ اسلام )
اس تاریخی کہانی میں ایک حرف بھی سچائی شامل نہیں ہے۔ یہ ایک جھوٹی اور من گھڑت کہانی ہے ۔اگر مصنف اور ناشر کو اس کے لیے ملزم ٹھہرایا جائے تو یقینا ًوہ یہی کہیں گے کہ یہ تو صرف ایک ناول ہے۔مگر اس بات کا اندازہ کریں کہ یہ ناول کچے ذہنوں پر کس قدر اثر انداز ہوگا۔ یقیناً ان کواپنے ہم وطن احمدیوں کے خلا ف نفرت اور غصہ کےلیے تیار کیا جا رہا ہے نیزوہ حکومت وقت کے بھی خلاف ہو جائیں گے کہ جس کا نہایت بھیانک نقشہ کھینچا گیا ہے ۔یہاں یہ امر بھی قابل افسوس ہے کہ حکومت اس طرح کی ظالمانہ مطبوعات کے خلاف تو کوئی ایکشن نہیں لیتی لیکن احمدیوں کو قرآن کریم شائع کرنے سے بزور بازو روکتی ہے ۔
ربوہ میں جماعت مخالف کانفرنس کا انعقاد
شدت پسند ملاؤں کو ایک بار پھر احمدیوں کے اپنے شہر ربوہ میں جماعت مخالف کانفرنس کے انعقاد کی اجازت دےدی گئی۔ احمدیوں نےامن عامہ کی صورت حال کے پیش نظر حکومتی حکام کو اس کانفرنس کے روکنے کی استدعا کی تھی مگر حکومتی حلقوں کی طرف سے اس استدعا کو در خور اعتناء نہ سمجھا گیا ۔اس کانفرنس سےاحمدیوں کے لیے ان کے اپنے ہی شہر میں کئی مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔کسی ناخوش گوار واقعہ سے بچنے کے لیے عورتیں اور بچے گھروں ہی میں محصور ہو کر رہ جاتے ہیں نیز اس دوران بازار بند رہتے ہیں گویا سارے شہر میں ایک محاصرہ کی سی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے ۔ان کانفرنسوں میں برملا طور پر احمدیوں کے خلاف نفرت اور فساد کے لیے اکسا یا جاتا ہے ۔
مجلس تحفظ ختم نبوت نے اڑتیسویں دو روزہ کانفرنس کا انعقاد 10؍ اور 11؍ اکتوبر 2019ءکو کیا ۔اس میں آخری سیشن تک کل حاضری 12000؍تھی ۔
پہلا سیشن صبح 10:30بجے شروع ہوا اور ایک بجے ختم ہوا۔مولوی عزیزالرحمٰن نے اس سیشن کی صدارت کی ۔2500 کے قریب لوگ اس میں شامل تھے ۔ملک بھر سے ملاؤں نے اس کانفرنس میں شرکت کی اور احمدیوں اور ان کے بزرگوں کے خلاف نہایت بدزبانی کی ۔مولوی فضل الرحمٰن آف سرگودھا نے تو یہاں تک کہا کہ قادیانیوں پر لعنت ہو کہ وہ مسلمانوں کو گمراہ کررہے ہیں،ہم جلد ہی انہیں دنیا سے نیست و نابود کر دیں گے ۔
دوسرا سیشن دوپہر اڑھائی بجے سے سوا چار بجے تک جاری رہا اس میں 5000؍کے قریب حاضری تھی ۔مولوی جمیل احمد آف سکھر ،عبدالغفور حیدری،محمد انیس آف نواب شاہ مبشر محمود آف فیصل آباد نے اس سیشن میں جماعت مخالف تقاریر کیں ۔عبدالغفور حیدری نے کہا ہم ان (احمدیوں )کو تباہ کر دیں گے ۔
تیسرا سیشن ساڑھے آٹھ بجے شروع ہوا جس کی صدارت ملا سعید سکندر نے کی اور حاضری تقریباً 9500؍تھی لاہور کے مولوی علیم الدین شاکر ، قاضی عبد الرشید آف راولپنڈی، قاری مشتاق الرحمٰن آف راولپنڈی ،مولوی رضوان عزیز آف مسلم کالونی ربوہ ۔نظام دین سیالوی،مدثر محمود آد تونسہ ،عزیز الرحمٰن ثانی آف لاہور سعید اسکندر ،محمد کفیل شاہ بخاری (نائب امیر احرار ملتان)،عبدالحمید آف چوک سرور شہید ،لیاقت بلوچ (نائب مرکزی امیر جماعت اسلامی)ضیاء اللہ بخاری،امجد خان آف لاہور اور نصیر الدین خاکوانی نے مجمع میں جماعت مخالف تقاریر کیں ۔
ان تقاریر میں جماعت کے خلاف گالم گلوچ اور دھمکیوں کے علاوہ کچھ نہ تھا قاضی عبد الرشید آف راولپنڈی نے کہا کہ ہم پاکستان کو قادیانیوں کا قبرستان بنا دیں گے ۔
چوتھا سیشن 11 اکتوبر کو صبح ساڑھے دس بجے شروع ہوا اور ایک بجے تک جاری رہا ۔مولوی اللہ وسایا نائب امیر تحفظ ختم نبوت ملتان نے صدارت کی ۔اس کی حاضری 8500؍ کے قریب تھی۔ مولوی راشد مدنی آف گوجرانولہ ،امیر احمد آف لاڑکانہ ،مفتی شہاب الدین پوپلزئی آف کے پی کے مفتی محمد حسن آف لاہور نے اس سیشن میں تقاریر کیں ۔
مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے کہا کہ قادیانی گستاخ رسول ہیں ان کو کوئی بھی ڈھیل نہیں دی جا سکتی پاکستان میں قادیانیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔
پانچواں اور آخری سیشن 11؍ اکتوبرسوا دوبجے شروع ہوا۔ صاحبزادہ عزیز احمد نے صدارت کی ۔حاضری 12000؍ کے قریب رہی ۔محمد اسلم کچھیلا(سابق ممبر قومی اسمبلی)محمد الیاس گھمن آف سرگودھا اور حافظ پیر ذوالفقار نقشبندی نے اس میں شرکت کی۔ اس سیشن میں اویس نورانی اور مولوی فضل الرحمٰن نے مجمع میں تقاریر کیں ۔
اویس نورانی نے احمدیوں کی مخالفت کو سیاسی رنگ دیتے ہوئےکہا کہ حکومت جس قدر آزادی مارچ کو دبانے کی کوشش کرے گی اس کا رد عمل اتنا سخت ہی ہو گا ہم اپنے مطالبات کے پورا ہونے تک اسلام آباد ہی میں رہیں گے۔
مولوی فضل الرحمٰن نے کہا کہ27؍اکتوبر کے آزادی مارچ کو لے کر قادیانیوں اور حکومت کے خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔یقیناً آزادی مارچ دونوں (احمدیوں اور حکومت )کو اڑا کر رکھ دے گا ۔
یہ کانفرنس حاضرین کی طرف سے احمدیوں کے خلاف نہایت نفرت آمیز نعروں کے ساتھ سوا چار بجے ختم ہوئی ۔
اس کانفرنس کے اختتام پر ربوہ کے ایک احمدی نے یوں اظہارخیال کیا کہ ‘‘یہ لوگ ہمارے ہی گھر میں آکر ہمیں گالیاں دیتے اور دھمکاتے ہیں !کیا یہ دہشت گردی کے زمرہ میں نہیں آتا؟یا کیا ہم پاکستان میں دوسرے درجےکےشہری ہیں ؟’’
لاہور میں ہونے والی ختم نبوت کانفرنس کے چندنکات
26؍ستمبر 2019ء لاہور:
روزنامہ اسلام میں عالمی مجلس تحفظ نبوت کی طرف سے لاہور میں ہونے والی سالانہ ختم نبوت کانفرنس کی خصوصی رپورٹ شائع ہوئی ۔اس میں مختلف مقررین کی طرف سے جماعت مخالف مطالبات کا ذکر ہے ۔اس رپورٹ میں سے چند اقتباسات درج کیے جاتے ہیں
“عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے ملک بھر میں قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی اسلام دشمن سرگرمیوں پر سخت تشویش و اضطراب کا اظہار اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے قادیانیوں کی قانون شکن سرگرمیوں کا نوٹس لیا جائے اور انہیں آئین پاکستان کا پابند کیا جائے ۔پاکستان کے اساسی نظریہ اور اس کے مکینوں کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کی اجازت نہ دی جائے ۔قادیانی اسلام اور پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں اور سازشی انداز میں حکومتی حلقوں میں اپنا اثر رسوخ بڑھا کر اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل کے لیے سر گرم ہیں ،ملک کے جغرافیائی اور نظریاتی دفاع کا تقاضا ہے کہ قایانیوں کی سر گرمیوں پر پابندی لگائی جائے ۔اور تمام کلیدی عہدوں سے انہیں برطرف کیا جائے قادیانی ٹی وی چینل ( ایم ٹی اے )مسلسل شر انگیزی اور گمراہی پھیلا رہا ہے اور مسلمانوں کے عقائد ونظریات کی توہین و تضحیک کی جارہی ہے ۔حکومت کی طرف سے فوری طور پر اس کی نشریات پر پابندی لگائی جائے اور سوشل میڈیا پر قادیانی ارتدا دپھیلا رہے ہیں ۔حکومت قادیانیوں کی سرگرمیوں کو روکے ۔”
“اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق مرتد کی شرعی سزا نافذ کی جائے۔تعلیمی نصاب میں عقیدہ ختم نبوت کے اسباق شامل کیے جائیں تا کہ آئندہ نسل میں تحفظ ختم نبوت اور ناموس رسالت کےسلسلہ میں شعور پیدا کیا جائے۔ملک کے تمام سول اور فوج کے محکموں سےکلیدی عہدوں سے الگ کیا جائے ۔
امتناع قادیانیت آرڈیننس پر مؤثر عمل درآمد کرایا جائے اور قادیانیوں کو اسلام کا ٹائٹل استعمال کرنے سے روکا جائے۔”
“اس نشست کے مہمان خصوصی جمعیت علماء اسلام و متحدہ مجلس عمل پاکستان کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمٰن …نے کہا کہ اگر ہم واقعتاً اپنے اکابر کے نام لیوا ہیں اور ان کے وارث ہیں تو اس کا تقاضاہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو اس(قادیانیت کے ) فتنہ کی سرکوبی کے لیے وقف کر دیں ۔”
جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر لیاقت بلوچ نے کہا کہ قادیانیت ایک مرتبہ پھر عالمی استعما رکی سر پرستی میں پھر متحرک ہے اورنہیں معلوم ہو نا چاہیے کہ پاکستان میں ختم نبوت اور مذہبی معاملات اور ناموس مصطفیٰﷺ کے قانو ن کو بدلنا ناممکن ہے اور تم نے اس کو بار بار آزما لیا ہے ۔ہم ناموس رسالت کے سپاہی ہیں عقیدہ ختم نبوت پر ایمان رکھنے والے ایک ہیں۔ حکمرانوں نے کشمیر کا سودا کر دیا ہے اور یہ جہاد سےمنہ موڑ چکے ہیں ۔ہم اپنے اس فرض منصبی کو پہچانتے ہیں ۔قادیانیوں کی بڑھتی سر گرمیاں تشویشناک ہیں ۔
“جمعیت علماء اسلام کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا محمد امجد خان نےکہا کہ قادیانی اور ان کے آلہ کار وں کا خطرناک کھیل ملکی سلامتی کے لیے زہر قاتل ہے ۔قادیانی،اسرائیل و بھارت کے ساتھ سیاسی گٹھ جوڑ پاکستان اور ملت اسلامیہ کے خلاف ایک بہت بڑی سازش ہے …”
“مبلغ ختم نبوت لاہور مولانا عبدالنعیم نے کہا کہ سول و ملٹری بیورو کریسی میں کلیدی پوسٹوں اور حساس اداروں پر قادیانیوں کا براجمان ہونا ملکی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے جن کا محاسبہ بہت ضروری ہے ۔قادیانیوں کو تمام کلیدی عہدوں سے الگ کیا جائے ۔”
“قادیانیوں کا تمام لٹریچر ضبط کیا جائے ۔تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت کے قانون کا ہر صورت تحفظ کریں گے۔قادیانی پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر جو سازشیں کر رہے ہیں اس کا نوٹس لیا جائے ۔حکومت قادیانیوں کے بارے میں 1974ءکے قانون پر عمل در آمد کو یقینی بنائے ۔”
بلاشبہ پاکستان کے قوانین اور پالیسیاں فرقہ وارانہ نفرت اور جھگڑوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں لیکن کیا پاکستان کے حکام کے علم میں ہے کہ باوجود اس کے کہ جرمن ایک مہذب قوم تھی مگر نسل پرست اور دھوکا باز نازیوں کے نفرت آمیز پروپیگنڈا نے اسے کہاں لا کر کھڑا کر دیا تھا!
حضرت گوتم بدھ نے بیان فرمایا تھا کہ خواہش کے دام میں آکر ،نفرت سے مغضوب ہو کر اور فریب پیہم میں اندھا ہوکر مغلوب اور مایوس ہوتے ہوئے انسان اپنے اور اپنے ساتھیوں کے مشترکہ زوال کا خود انتظام کرتا ہے ۔
ننکانہ کے احمدیوں کے لیے مسائل
ضلع ننکانہ کی ایک جماعت میں معلم ہاؤس کی تعمیر کے خلاف مقامی مولویوں نے حکام کو درخواست دی تھی کہ قادیانی اس معلم ہاؤس سے علاقہ کے نوجوانوں کو قادیانیت کی طرف مائل کرکے انہیں گمراہ کریں گے لہذا اس کی تعمیر کو روکا جائے اور قادیانی معلم گاؤں سے واپس نکال دیا جائے۔ چنانچہ اس پر اسسٹنٹ کمشنر نے مخالفین کو یہ کہا کہ احمدیوں کو معلم ہاؤس کی تعمیر کا حق حاصل ہے نیز یہ کہ وہ نفرت انگیزی پھیلانے سے باز آجائیں اور احمدیوں کو کہا کہ وہ ڈپٹی کمشنر سے تعمیر کی اجازت حاصل کر لیں ۔
احمدی احباب نے حکومت کے اس حکم نامہ کے مطابق ڈپٹی کمشنر کو نماز سنٹر اور معلم ہاؤس کی تعمیر کی اجازت کے لیے درخواست جمع کروا دی۔اس کے بعد حکومتی سیکورٹی آفیسر نے دورہ بھی کیا ہے جبکہ مولوی اور دیگر شر پسند عناصر اسسٹنٹ کمشنر پرجماعت کی طرفداری کا الزام لگا کر علاقہ میں مسلسل جماعت مخالف پروپیگنڈا کر رہے ہیں ۔
کراچی میں جماعت احمدیہ کی مساجد کو دھمکیاں
کراچی اکتوبر 2019ء:چند ماہ قبل خاتون صحافی باسمہ نورین نے جماعت احمدیہ کی مساجد کی ویڈیوز بنا کر انہیں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیا تھا اور علاقہ کے پولیس اسٹیشنز میں جا کر جماعت کے خلاف اندراج شدہ ایف آئی آر کے حصول کی کوشش کی تھی ۔
ماہ رواں میں یہی خاتون صحافی ایک مولوی کو اپنے ساتھ لے کر احمدیہ مسجد کے قریب آئی اور مسجد کی وڈیو بنانا شروع کر دی…خاتون صحافی نورین اور مذکورہ مولوی نے جماعت مخالف جملوں پر مشتمل کپڑے پہنے ہوئے تھے اسی طرح ان کے پاس جماعت مخالف نفرت انگیز پوسٹرز بھی تھے جو انہوں نے مسجد کی دیوار کے بیرونی حصہ پر لگانے شروع کر دیے اور واپسی پر یہ خاتون صحافی احمدیوں کے خلاف اندراج شدہ ایف آئی آر کے حصول کے لیے گئی لیکن پولیس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ۔
احباب جماعت نے جب پولیس اور متعلقہ حکام کو مطلع کیا تو پولیس نے آکر ان پوسٹرز کو مسجد کی دیوار سے اتارا بعدازاں رینجرز نے اس تمام واقعہ کی CCTVفوٹیج کی کاپی بھی حاصل کر لی۔
یہ خاتون صحافی جماعت مخالف مجلس تحفظ ختم نبوت کی تنظیم کی طرف سے ایسی سرگرمیوں کے لیے متعین ہے اسی طرح کچھ اخبارات مثلاً روزنامہ اوصاف بھی اسی تنظیم کے ایما پر جماعت مخالف مواد شائع کرتے رہتے ہیں۔
٭…٭…٭