کہ ایک شخص تھا دریا سا اور کنارے بغیر
میں صاف صاف یہ کہتا ہوں استعارے بغیر
مجھے بہشت بھی جانا نہیں تمہارے بغیر
مرا یہ فیصلہ ہے اور تم یہ جانتے ہو
میں فیصلے نہیں کرتا ہوں استخارے بغیر
تو اُس کو چاہیے جا کر دکان داری کرے
جو شخص چاہتا ہو عشق بھی خسارے بغیر
سنَد بھی چاہتے ہو اور امتحاں سے گریز
سحر کی آرزو رکھتے ہو شب گزارے بغیر
میں اس لیے بھی دعا پر یقین رکھتا ہوں
کہ تم بھی سنتے نہیں ہو مری، پکارے بغیر
وہ ماہ تاب ہے، ملنا تو با وضو ہو کر
وہ جاں نکال بھی لیتا ہے جاں سے مارے بغیر
میں چاہتا ہوں کہ دونوں ہی جیت جائیں ہم
میں چاہتا ہوں یہی ہو کسی کے ہارے بغیر
تو کیا یہ کم ہے کرامت،کہ جان لیتا ہوں
رضائے یار کو میں یار کے اشارے بغیر
پڑا جو دشت سے پالا تو پھر یہ یاد آیا
کہ ایک شخص تھا دریا سا اور کنارے بغیر
کھڑا ہوں پاؤں پہ جو میں تو تیری ستاری
میں مشت خاک ہوں مولا ترے سہارے بغیر
کمال یہ ہے مبارک کو بھی ملے خلعت
کسی بھی اَور کی دستار کو اتارے بغیر