متفرق مضامین

اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور قادیان میں ہونے والی تعمیرات (حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تا خلافت ثانیہ)

(لقمان انجم۔مربی سلسلہ ربوہ)

زمین قادیاں اب محترم ہے

ہجوم خلق سے ارض حرم ہے

یہ 1530ء کا سال تھاکہ جب سر زمین ہند پر خاندان مغلیہ کی بادشاہت قائم ہو چکی تھی اورمغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر ،(عظیم اور جابر بادشاہ امیر تیمور لنگ کا پوتا)کی طاقت کا ڈنکا مکمل طور پر پورے ہندوستان پر بج رہا تھا کہ اس دوران سمر قند سے تعلق رکھنے والے ،تیموری خاندان کے چشم و چراغ، ایک بزرگ حضرت مرزا ہادی بیگ سلطنت مغلیہ سے جا گیر پا کر عازم پنجاب ہوئے اور ایک مستقل اور خود مختار ریاست کی بنیاد ڈالی۔ آپ لاہور سے ستر میل دور دریائے بیاس کے قریب ماجھا کےعلاقہ میں ایک جنگل اور ویران جگہ پر فرو کش ہو گئے اور ایک نئی بستی بسائی جس کا نام ‘‘اسلام پور’’ رکھا جو کہ بعد میں اسلام پور قاضی ماجھی اور پھر بعد میں قاضی سے بدلتے بدلتے قادیان ہو گیا۔

قادیان کی اس ریاست کے مرکزی سلطنت مغلیہ کے ساتھ بڑے ا چھے مراسم رہے نیز اس ریاست کا انتظام نہایت احسن طریق پر چلتا رہا جس کی بدولت اس کی عملداری 60 میل دور تک پھیل گئی۔حضرت مرزا ہادی بیگ صاحب کی نویں پشت میں مرزا فیض محمد صاحب کو مغل بادشاہ محمد فرخ سیر نے ہفت ہزاری امراء میں شامل کر کے‘‘عضد اللہ’’کا عظیم الشان خطاب بھی دیا۔ اس منصب کے تحت مرزا فیض محمد صاحب اپنی ریاست میں سات ہزار افرادپر مشتمل ایک فوج رکھ سکتے تھے جو کہ اس زمانہ میں ایک بڑی جنگی طاقت تھی۔

ہندوستان کی مغلیہ سلطنت جب اپنی کسل اور نالیاقتی کی بدولت ضعف اور اضمحلال کا شکار ہو کر رو بہ زوال ہوئی تو اس کا اثر ریاست قادیان پر بھی پڑا ۔چنانچہ مرز افیض محمد صاحب کے بعد ان کے بیٹے مرزا گل محمد صاحب کے ہاتھ ریاست قادیان کا انتظام آیا تو اس وقت ریاست قادیان کی عملداری صرف پچاسی گاؤں تک تھی۔ مرزا گل محمد صاحب ایک ولی ،پارسا حکمران،اور اعلیٰ درجہ کے جرنیل تھے۔ ان میں اعلیٰ درجہ کی قابلیت اور اعلیٰ طور پر حکمرانہ اوصاف تھے۔ ان کی فیاضی اور سخاوت کا یہ عالم تھا کہ ‘‘ہمیشہ پانچ سو کے قریب آدمی ان کے دستر خوان سے کھانا کھاتے اور ایک سو کے قریب علماء اور صلحاء اور حافظ قرآن ان کے پاس رہتے تھے جن کے وظیفے مقرر تھے اسی طرح قال اللہ اور قال الرسول کا بہت ذکر ہوتا تھا اور پورے علاقہ میں اسلامی روایات کا دور دورہ تھا ۔اسی دوران سلطنت مغلیہ کا ایک وزیر غیاث الدولہ قادیان میں آیا اور قادیان کا اسلامی ماحول دیکھ کر چشم پر آب ہو گیا اور کہنے لگا ‘‘اگر مجھے پہلے خبر ہوتی کہ اس جنگل میں خاندان مغلیہ میں ایسا مرد موجود ہے جس میں صفات ضروریہ سلطنت کے پائے جاتے ہیں تو میں اسلامی سلطنت کے محفوظ رکھنے کے لیے کوشش کرتا کہ ایام کسل اور نالیاقتی اور بد وصفی ملوک چغتائیہ میں اسی کو تخت دہلی پر بٹھایا جائے۔’’

بلاشبہ مرزا گل محمد صاحب ایک اعلیٰ درجہ کے اسلامی حکمران تھے اور باوجود اس کے کہ ان کے وقت ریاست قادیان کی عملداری صرف پچاسی گاؤں پر تھی لیکن ان دیہات کی سالانہ آمدنی سات سے آٹھ لاکھ تھی جو کہ اس زمانہ میں ایک بہت بڑی رقم تھی ۔اس وقت ریاست قادیان کا دفاع بھی نا قابل تسخیر تھا اور اس زمانہ کے حساب سے بہت مضبوط تھا ۔چنانچہ قادیان ایک قلعہ کی صورت پر تھا ،اس کے چار برج تھے جہاں فوجوں کے آدمی رہتے تھے اور چند توپیں تھیں ۔اس کی فصیل بائیس فٹ کے قریب اونچی اور اس قدر چوڑی تھی کہ تین چھکڑے آسانی سے ایک دوسرے کے مقابل پر جا سکتے تھے۔ اس کے ارد گرد خندق بھی تھی۔اگر ظاہری طاقت کے ساتھ ساتھ قضاءوقدر کی موافقت بھی اس ریاست کو نصیب ہوتی تو ضرور تھا کہ ہندوستان کے شمال مشرق سے ایک اسلامی سلطنت کا احیاء ہوتا۔ اگر رنجیت سنگھ محض نو گاؤں کی پدری ملکیت سے پشاور سے لدھیانہ تک ایک عظیم سلطنت قائم کر سکتا تھا تو کیوں مرزا گل محمد صاحب سکھوں کی شورش کا مقابلہ نہ کر پاتے کہ جن کے پاس اس زمانہ کے لحاظ سے ہر چیز موجود تھی ،مگر خدا تعالیٰ کو کچھ اَور ہی منظور تھا۔

یہ 1802ء یا 1803ء کا سال تھا کہ مرزا گل محمد صاحب کی وفات کے بعد ان کے بیٹے مرزا عطا محمد صاحب کے زمانہ میں حکمت الٰہی کی بدولت ریاست قادیان کے مقابل پر سکھوں کی شورش کامیاب ہوئی اور انہیں غلبہ حاصل ہو گیا ۔اس غلبہ کے ساتھ ہی قادیان پر سقوط بغداد جیسی تباہی آئی ۔چنانچہ قادیان کا سب مال ومتاع لوٹ لیا گیا، مسجدیں مسمار کر دی گئیں اور بعض کا دھرم سالہ بنا دیا گیا اور رؤسا ئے ریاست کوبیگووال ریاست کپور تھلہ میں جلاوطن کر دیا گیا اور پھر کچھ عرصہ بعد مرزا عطا محمد صاحب کو زہر دے دیا گیا ۔

اس خاندان کے افراد تیس سال سے کچھ زائد عرصہ جلا وطن رہے آخر رنجیت سنگھ نے اس خاندان کی جلاوطنی ختم کی اور 1834ء یا 1835ء میں مرزا عطا محمد صاحب کے فرزند حضرت مرزا غلام مرتضی ٰ صاحب کو قادیان داخلہ کی اجازت دے دی اور ان کی عملداری میں 5گاؤں دے دیے او ر جب پنجاب پر انگریز کا تسلط ہوا تو اس وقت یہ پانچ گاؤں بھی ان سے واپس لے لیے گئے اور اس کی جگہ ان کو سات سو روپیہ کی پنشن مقرر کر دی گئی ۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام صفحہ 128تا 130،کتاب البریہ حاشیہ صفحہ 158 تا 177، حیات النبی صفحہ 22-21،تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 31تا 43)

قادیان کی ریاست 1530ء سے 1802ء تک کم و بیش پونے تین سو سال تک قائم رہی اور سکھوں کے پے در پے حملوں کے نتیجہ میں اس کی تباہی کے بعد قادیان کی گمنامی کا دَور شروع ہوا اور قادیان آہستہ آہستہ گوشۂ گمنامی میں مستور،دنیا سے دور ہوتا چلا گیا ۔

اس کے گلی بازار سنسان ہوگئے اور عمدہ مکانات کی جگہ کھنڈرات نے لے لی اور وہ خندق جو کہ قادیان کی حفاظت کے لیے کھودی گئی تھی اس کی جگہ ایک ڈھاب نے لے لی اور قادیان چونکہ نشیب پر تھا جب کبھی برسات ہوتی تو یہ ڈھاب لبا لب کئی کئی دن بھری رہتی اور اس جو ہڑ کی وجہ سے علاقہ مکینوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی اور ان حالات میں اس کا رابطہ بیرونی دنیا سے منقطع رہتا ۔ ایک وقت تو اس پر ایسا تھا کہ یہ ایک مستقل ریاست کا صدر مقام تھا پھر اس پر ایک وقت ایسا آیا کہ اس سے دُور رہنے والے تو درکنار اس کے آس پاس کے دیہات میں رہنے والوں میں سے بھی کوئی نہ جانتا تھا کہ قادیان نامی کوئی جگہ بھی اس روئے زمین پر ہے ۔دنیا سے اس دوری کی وجہ سے جہالت کا دور شروع ہو گیا اور جہاں کبھی علماء اور فضلاء کا ایک حلقہ بنا رہتا تھا وہاں لکھنا پڑھنا جاننے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی۔
قادیان پر یہ گمنامی کا دَور دورہ تھا کہ اس گمنام بستی سے دنیا نے ایک پکارسنی۔یہ پکار کیا تھی؟یہ ایسی پکار تھی کہ جس کی نوید حضرت مخبر صادق رسول کریم ﷺ نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی خبر دیتے ہو ئے سنائی تھی کہ

‘‘تمہاری حالت کیسی ہو گی جب ابن مریم (یعنی مثیل مسیحؑ)مبعوث ہو گا جو تمہارا امام ہو گا اور تم میں سے ہو گا’’

(بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ بن مریم)

چودھویں صدی کے آغاز میں قادیان سے آنے والی یہ پکار ایک ایسے منادی کی تھی کہ جو کہہ رہا تھا کہ خدا نے اسے کہا ہے کہ

‘‘اَلْرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ آبَآئُھُمْ وَ لِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ،قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُوْمِنِیْنَ۔

(روحانی خزائن جلد 1براہین احمدیہ حصہ سوم حاشیہ در حاشیہ صفحہ 265)

‘‘یعنی خدا نے تجھے قرآن سکھایا اور اس کے صحیح معنی تیرے پر کھول دیے ۔یہ اس لیے ہوا کہ تا ان لوگوں کو بد انجام سے ڈراوے کہ جو بباعث پشت در پشت کی غفلت اور متنبہ کیے جانے کے غلطیوں میں پڑ گئے اور تا ان مجرموں کی راہ کھل جائے کہ جو ہدایت پہنچنے کے بعد بھی راہ راست کو قبول کرنا نہیں چاہتے ان کو کہہ کہ میں مامور من اللہ اور اول المومنین ہوں ۔’’

(روحانی خزائن جلد 13کتاب البریہ صفحہ 201تا 202)

یہ پکار حضرت مسیح پاک و مہدی دوراں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تھی جن کا دعویٰ تھا کہ وہ حضرت خاتم الانبیاء ،حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کےعین مطابق اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے مامور ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ ان کے ذریعہ ایک نئی زمین اور ایک نیا آسمان بنانے والا ہے اور ان کے ذریعہ اسلام کو وہ غلبہ حاصل ہو گا جس کی پیشگوئی آنحضرت ﷺ نے فرمائی تھی۔

حضرت مسیح موعود ؑنے اپنے قائم کردہ سلسلہ کی ترقی کے ساتھ قادیان کی ظاہری ترقی کے متعلق بھی پیشگوئیاں فرمائیں۔ چنانچہ جب آپؑ نےماموریت کا دعویٰ فرمایا تو اس وقت قادیان کی حالت ناگفتہ بہ تھی ۔آپ ؑنے قادیان کے متعلق اپنا ایک کشف بیان فرمایا جو کہ پیشگوئی کا رنگ رکھتا تھا۔آپ ؑنے فرمایا:

‘‘ہم نے کشف میں دیکھا کہ قادیان ایک بڑا عظیم شہر بن گیا اور انتہائی نظر سے بھی پرے تک بازار نکل گئے اونچی اونچی دو منزلی یا چو منزلی یا اس سے بھی زیادہ اونچے اونچے چبوتروں والی دوکانیں عمدہ عمارات کی بنی ہوئی ہیں اور موٹے موٹے سیٹھ، بڑے بڑے پیٹ والے جن سے بازار کو رونق ہوتی ہے بیٹھے ہیں اور ان کے آگے جواہرات اور لعل اور موتیوں اور ہیروں، روپوں اور اشرفیوں کے ڈھیر لگ رہے ہیں اور قسما قسم کی دوکانیں خوبصورت اسباب سے جگمگا رہی ہیں یکے ،بگھیاں ٹمٹم ،فٹن ،پالکیاں ،گھوڑے ،شکر میں ،پیدل اس قدر بازار میں آتے جاتے ہیں کہ مونڈھے سے مونڈھا بھڑ کر چلتا ہے اور راستہ بمشکل ملتا ہے’’

(تذکرہ صفحہ 343۔ایڈیشن چہارم)

حضرت مسیح موعودؑ کا یہ کشف اس وقت کا ہے جب قادیان کی ظاہری ترقی کی کوئی دنیاوی راہ اور وجہ نظر نہ آ سکتی تھی مگر جس قدر واضح اور بیّن یہ کشف حضرت مسیح موعودؑ نے بیان کیا ہے اس کا اظہار آج ہر قادیان جانے والا دیکھ سکتا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کو ثابت کیا ۔مذکورہ بالا پیشگوئی کے مطابق آج قادیان میں لگنے والی ایک ایک اینٹ حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا ثبوت ہے اور قادیان میں ہونے والا ہر ترقیاتی منصوبہ حضرت مسیح موعودؑ کے کشفی الہام کو سچا ثابت کر رہا ہے۔

اشاعت اسلام کا جو سلسلہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے شروع ہوا ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں تیزی آتی گئی اور آپ ؑکے وجود سے ایک جماعت قائم ہوگئی اور جب جماعت بنتی ہے تو اس کے رستہ میں ہر قسم کی ضروریات پیش آتی ہیں جو اسے پورا کرنا پڑتی ہیں ۔زیر نظر مضمون میں اس بات کا ذکر ہو گا کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے حوالہ سے پیش آنے والی دینی مہمات کو پورا کرنے کے لیے قادیان دارالامان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک سے خلافت ثانیہ میں ہجرت ِقادیان تک کونسی تعمیرات ہوئیں جن کے ذریعہ سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا عظیم الشان کام جاری و ساری ہے۔

عہد حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام

دارالمسیح

دارالمسیح یعنی حضرت مسیح موعودؑ کا گھر کہ جہاں آپؑ کی ولادت باسعادت ہوئی ۔آپ ؑ کی پیدائش سے آپ کے خاندان کی مشکلات کم ہوئیں ۔چنانچہ آپ ؑ کی پیدائش کا جو سال ہے اسی سال آپ کے خاندان کی جلاوطنی ختم ہوئی اور آپ کی پیدائش سے کچھ عرصہ قبل آپؑ کے والد محترم حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کو قادیان آنے کی اجازت ملی تھی ۔دارالمسیح میں آپ کا بچپن گزرا اور اس کے درو دیوار انے آپ ؑکی پاکیزہ جوانی کا مشاہدہ کیانیز ماموریت کے بعد بھی آپؑ کا قیام دارالمسیح میں ہی رہا گویا آپؑ کے انفاس قدسیہ کی بدولت دارالمسیح قیامت تک کے لیے مھبط انوار الہٰیہ ٹھہرا۔

مسجد مبارک

دارالمسیح میں موجود بیت الفکر اور بیت الذکر یعنی مسجد مبارک کے متعلق خدا تعالیٰ نے الہاماً آپ کو فرمایا
‘‘اَلَمْ نَجْعَلْ لَّکَ سُھُوْلَۃً فِیْ کُلِّ اَمْرٍ۔ بَیْتُ الْفِکْرِ وَ بَیْتُ الذِّکْرِ۔وَ مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا۔یعنی کیا ہم نے ہر ایک بات میں تیرے لیے آسانی نہیں کی کہ تجھ کو بیت الفکر اور بیت الذکر عطا کیا ۔اورجو شخص بیت الذکر میں باخلاص و قصد تعبد، صحت نیت و حسن ایمان داخل ہو گا وہ سوئے خاتمہ سے امن میں آ جائےگا’’

فرمایا:‘‘بیت الفکر سے مراد اس جگہ وہ چوبارہ ہے جس میں یہ عاجز کتاب کی تالیف کے لیے مشغول رہا ہے اور رہتا ہے اور بیت الذکر سے مراد وہ مسجد ہے کہ جو اس چوبارہ کے پہلو میں بنائی گئی ہے اور آخری فقرہ مذکورہ بالا اسی مسجد کی صفت میں بیان فرمایا ہے جس کے حروف سے بنائے مسجد کی تاریخ بھی نکلتی ہے اور وہ یہ ہے کہ مُبَارِکٌ وَّمُبَارَکٌ وَّ کُلُّ اَمْرٍ مُّبَارَکٍ یُّجْعَلُ فِیْہِ یعنی یہ مسجد برکت دہندہ اور برکت یافتہ ہے اور ہر یک امر مبارک اس میں کیا جاے گا’’

(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ558۔559طبع اوّل)

مسجد مبارک کی تعمیر1883ء میں ہوئی جب آ پؑ کے تصنیف و تالیف کے کام میں تیزی آ چکی تھی ۔قادیان میں اس وقت آپ کی آبائی مسجد یعنی مسجد اقصیٰ موجود تھی جو کہ بیت الفکر سے کچھ فاصلہ پر تھی اس لیے تصنیف و تالیف کے کام میں ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارتوں کے ساتھ آپ کو مسجد مبارک کے قیام کی تحریک پیدا ہوئی ۔

مسجد مبارک کی بنیاد حضرت پیر سراج الحق صاحب ؓکی عینی شہادت کے مطابق 1882ء میں جبکہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب ؓکی تحقیق کے مطابق 1883ء میں رکھی گئی ۔مسجد مبارک کی تعمیر کے بعد حضرت مسیح موعودؑ مسجد اقصیٰ کی بجائے مسجد مبارک میں نماز ادا فرمانے لگے ۔ابتدا میں خود ہی اذان دیتے اور خود ہی امامت کے فرائض سر انجام دیتے تھے۔مسجد کی بالائی منزل پر چار چھوٹے چھوٹے مینار تھے اور جب جماعت کا قیام عمل میں آیا تو مسجد کی چھت کی غربی جانب شہ نشین بنا یا گیا جہاں نماز مغرب کے بعد ‘‘دربار شام ’’ کی روح پرور محافل سجا کرتیں اور حضرت مسیح موعودؑ اپنے خدام کے لیے علم و عرفان کے موتی بکھیرتے تھے۔

مسجد کی پہلی توسیع حضرت میر ناصر نواب صاحب ؓ کی نگرانی میں 1907ء میں ہوئی جبکہ اس کی دوسری توسیع خلافت ثانیہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ کی نگرانی میں ہوئی ۔

( تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 218تا 220)

حضرت سیدنا مصلح موعودؓ مسجد مبارک کے متعلق احباب جماعت کو تحریک کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

‘‘جو لوگ قادیان آتے ہیں ان کو روزانہ کوئی نہ کوئی نماز مسجد مبارک میں ادا کرنی چاہیے’’

فرمایا:‘‘یہ مسجد تو وہ ہے جسے خدا نے بار بار مبارک کہا اور نہ صرف یہ کہا کہ یہ مسجد مبارک دہندہ اور نزول برکات کا مقام ہے بلکہ یہ بھی فرمایا کہ ہر کام جو اس مسجد میں کیا جائے گا وہ مبارک ہو گا۔جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ نماز مبارک ہے جو اس مسجد میں ادا کی جائے،وہ سجدہ مبارک ہے جو اس مسجد میں کیا جائے ۔وہ قیام مبارک ہے جو اس مسجد میں کیا جائے وہ تشہد مبارک ہے جو اس مسجد میں کیا جائے ۔وہ سلام مبارک ہے جو اس مسجد میں کیا جائے وہ تکبیر مبارک ہے جو اس مسجد میں کی جائے وہ دعائیں مبارک ہیں جو اس مسجد میں کی جاتی ہیں ۔خدا تعالیٰ کی طرف سے اتنی برکتیں ،اتنی عظیم الشان برکتیں نازل ہوں اور پھر انسان ان برکات سے منہ پھیر کر چلا جائے …تو اس سےزیادہ محروم اور بد قسمت انسان اور کون ہو سکتا ہے ۔’’ (الفضل 6؍ اپریل 1944ء)

بیت الدعا

دارالمسیح میں موجود بیت الدعا کے متعلق 13؍ مارچ 1903ء کوبعد نماز جمعہ حضرت مسیح موعودؑ نے تحریک فرمائی کہ

‘‘چونکہ بیت الفکر میں اکثر مستورات وغیرہ اور بچے بھی آجاتے ہیں اور دعا کا موقعہ کم ملتا ہے اس لیے ایک ایسا حجرہ اس کے ساتھ تعمیر کیا جاوے جس میں صرف ایک آدمی کے نشست کی گنجائش ہو اور چارپائی بھی نہ بچھ سکے تا کہ اس میں کوئی اور نہ آسکے ۔اس طرح مجھے دعا کے لیے عمدہ وقت اور موقعہ مل سکے گا۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 155)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ارشاد مبارک کی فوری تعمیل میں ایک حجرہ کی تعمیر کا آ غاز کر دیا گیا۔یہ حجرہ بیت الدعا کے نام سے جانا جاتا ہے ۔یہ حجرہ بیت الفکر کی غربی جانب ہے اوراس کی لمبائی 6 فٹ اور 6 انچ اور چوڑائی 4 فٹ ہے ۔

اس کمرہ کے سب اخراجات حضرت مسیح موعودؑ کے مخلص مرید شیخ رحمت اللہ صاحب مالک بمبئی ہاؤس لاہور نے ادا کیے۔

(تاریخ احمدیت جلد 2صفحہ 302)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ بیت الدعا کے متعلق بیان فرماتے ہیں:

‘‘ہم نے سوچا کہ عمر کا اعتبار نہیں ہے۔سترسال کے قریب عمر سے گزر چکے ہیں موت کا وقت مقرر نہیں خدا جانے کس وقت آ جاوے اور کام ہمارا ابھی بہت باقی پڑا ہے ۔ادھر قلم کی طاقت کمزور ثابت ہوئی ہے رہی سیف اس کے واسطے خدا تعالیٰ کا اذن اور منشاء نہیں ہے۔لہٰذا ہم نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور اسی سے قوت پانے کے واسطے ایک الگ حجرہ بنایااور خدا سے دعا کی کہ اس مسجد البیت اور بیت الدعا کو امن اور سلامتی اور اعداء پر بذریعہ دلائل نیرہ اور براہین ساطعہ کے فتح کا گھر بنا۔’’

(ذکر حبیب صفحہ 109۔110)

مسجد اقصیٰ

احاطہ دارالمسیح میں موجود مسجد اقصیٰ کی تعمیر حضرت مسیح موعودؑ کے والد محترم حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے کروائی تھی اور وصیت کی تھی کہ ‘‘مسجد کے ایک گوشہ میں میری قبر ہو تا خدائے عز وجل کا نام میرے کان پر پڑتا رہے ’’۔حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے مسجد کے لیے زمین 700؍ روپے کے عوض نہایت مہنگے داموں خریدی تھی ۔آپ اپنی وصیت کے مطابق مسجد اقصیٰ کے پہلو میں مدفون ہیں ۔مسجد اقصیٰ قادیان کی مساجد میں سب سے بڑی تھی ۔اس کے خادم اور امام میاں جان محمد صاحب ؓمقرر ہوئے ۔حضرت مسیح موعود ؑاوائل زمانہ میں اکیلے ہی یہاں نماز پڑھتے یا اگر کبھی دو تین افراد آجاتے تو آپ باجماعت نماز ادا کرتے۔

مسجد اقصیٰ کی وسعت کے متعلق پیشگوئی

مسجد اقصیٰ کی ابتدائی عمارت میں دو صد کے قریب افراد نماز ادا کر سکتے تھے بعد میں جماعت کا جب قیام ہوا اوریَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍ عَمِیْقٍکا ظہو ر ہونے لگا تو مسجد اقصیٰ کی جگہ نمازیوں کے لیے کم پڑتی چلی گئی حضرت مسیح موعودؑ کی شدید خواہش تھی کہ اس جامع مسجد کی توسیع ہو جائے چونکہ ارد گرد ہندوؤں کے گھر تھے اس لیے ایسا ہونا ممکن نہ تھا ۔ اس حوالےسے حضرت ‘‘سیٹھی غلام نبی صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دن بڑی مسجد میں بیٹھے تھے ۔مسجد کے ساتھ جو گھر ہندوؤں کے ہیں ۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا کہ یہ جگہ اگر مسجد میں شامل ہو جائے تو مسجد فراخ ہوجاوے۔حضور کے چلے جانے کے بعد حضرت خلیفہ اولؓ نے فرمایاکہ آج مرزا نے یہ سارے مکان لے لیے۔ سو اب آکر حضور علیہ السلام کا وہ ارشاد پورا ہوا کہ یہ مکانات مسجد میں مل گئے ہیں ۔ہمارا تو اس وقت بھی ایمان تھا کہ حضرت صاحب کی سرسری باتیں بھی پوری ہو کر رہیں گی کیونکہ حضور بن بلائے بولتے نہ تھے۔’’

(سیرت المہدی جلد 1 صفحہ 823 روایت نمبر 970)

حضرت مسیح موعودؑ کے آخری ایام میں نماز جمعہ دو جگہ ہوتی تھی ایک مسجد مبارک اور دوسری مسجد اقصیٰ ۔مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعودؑ خود شریک ہوتے تھے کیونکہ بوجہ بیماری مسجد اقصیٰ نہ جاسکتے تھے ۔مسجد مبارک میں سار ے نمازی سما نہ سکتے تھے ۔

‘‘حضرت مولوی عبداللہ صاحب بوتالوی تحریر فرماتے ہیں:

‘‘خاکسار جب قادیان آیا تو میرے ایّام قیام میں ایک دن حضرت مسیح موعود ؑگھر سے مسجد مبارک میں تشریف لائے …حضور ؑ نے کھڑے کھڑے فرمایاکہ شاید کسی دوست کو یاد ہو ہم نے ایک دفعہ پہلے بھی بتایا تھا کہ ہمیں دکھلایا گیا ہے کہ اس چھوٹی مسجد (مبارک)سے بڑی مسجد (اقصٰی)تک مسجد ہی مسجد ہے …اس کے بعد حضور ؑنے فرمایا کہ اب مجھے پھر یہی دکھایا گیا ہے کہ اس چھوٹی مسجد سے لے کر بڑی مسجد تک مسجد ہی مسجد ہے’’۔

(تذکرہ صفحہ 694 ایڈیشن چہارم )

مسجد اقصیٰ کی پہلی توسیع حضرت مسیح موعودؑ کے دَور ہی میں 1900ء میں ہوئی۔ دوسری مرتبہ توسیع خلافت اولیٰ میں 1910ء میں اور پھر تیسری مرتبہ توسیع خلافت ثانیہ میں 1938ء میں ہوئی۔ خلافت خامسہ میں مسجد سے ملحق وسیع وعریض تین منزلہ عمارت تعمیر کی گئی جس کی بدولت اس مسجد میں ہزاروں آدمیوں کے نماز ادا کرنے کی گنجائش پیدا ہو گئی ہے۔آج قادیان جانے والا ہر کوئی حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی مذکورہ بالا پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھ سکتا ہے ۔چنانچہ دارالمسیح کے احاطہ میں داخل ہوتے ہی سامنے روشنی کی کرنیں بکھیرتی مسجد مبارک کی سفیدعمارت نظر آتی ہے اور آگے کچھ قدم ہی کے فاصلہ پر موجودہ مسجد اقصیٰ کا احاطہ شروع ہو جاتا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ جیسے مسجد مبارک سے لے کر مسجد اقصیٰ تک ‘‘مسجد ہی مسجد ہے’’۔

منارۃ المسیح

مسجد اقصیٰ کے صحن کی جگہ کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق منارۃ المسیح کی تعمیر کے لیے منتخب فرمایا۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے منارۃ المسیح کی غرض و غایت اور اس کے مقاصد بیان کرتے ہو ئے 28؍مئی 1900ء کے ایک اشتہار میں فرمایا

1۔تا مؤذن اس پر چڑھ کر پانچ وقت اذان دے اور لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ کی آواز ہر ایک کان تک پہنچے۔
2۔اس منارہ پر ایک لالٹین نصب کیا جائے گا تا لوگ معلوم کریں کہ آسمانی روشنی کا زمانہ آ گیا ہے۔
3۔اس منارہ پر ایک بڑا گھنٹہ نصب کیا جائے تا انسان اپنے وقت کو پہچانے اور انسانوں کو وقت شناسی کی طرف توجہ ہو ۔تا لوگ سمجھ لیں کہ آسمان کے دروازوں کے کھلنے کا وقت آ گیا ہے۔

نیز ایک دوسرے موقع پر حدیث مبارکہ میں مذکور منارہ کی پیشگوئی کے متعلق اشتہار یکم جولائی1900ء میں فرمایا:

“یاد رہے کہ اس منارہ کے بنانے سے اصل غرض یہ ہے کہ …پیشگوئی پوری ہو جائے یہ اسی قسم کی غرض ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک صحابی کو کسریٰ کے مال غنیمت میں سے سونے کے کڑے پہنائے تھے تاا یک پیشگوئی پوری ہو جائے اور وقت شنا سی کے لیے منارہ پر گھنٹہ رکھنا ثواب کی بات ہے نہ گناہ ’’

(مجموعہ اشتہارات جلد دوم حاشیہ صفحہ 423)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اذن الٰہی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق منارہ کا سنگ بنیاد 13؍ مارچ 1903ء بروز جمعۃ المبارک کو اپنے دست مبارک سے رکھا۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے منارۃ المسیح کی سنگ بنیاد والی اینٹ اپنی ران مبارک پر رکھ کر لمبی دعا کی اور پھر بعد میں اینٹ پر دم کر کے ارشاد فرمایا کہ اسے منارہ کے مغربی حصہ میں رکھ دیا جائے۔

منارۃالمسیح کی تکمیل حضرت مسیح موعودؑ کے عہد مبارک میں نہ ہو سکی ۔اس کی تکمیل خلافت ثانیہ میں ہو ئی جس کا ذکر آگے آئےگا۔

مدرسہ تعلیم الاسلام سے تعلیم الاسلام کالج تک

امام آخر الزماں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی شدید خواہش تھی کہ آپ علیہ السلام کی جماعت میں ایسےتعلیم یافتہ لوگ پیدا ہوں جو دنیاوی علوم میں کمال حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام اور احمدیت کی اعلیٰ اقدار سے آراستہ ہوں ۔قادیان میں بچوں کی تعلیم کے دو سکول تھے ااور یہ دونوں سکول ہی آریہ اثر کے نیچے تھے اور یہ دونوں مسلمان بچوں کو گمراہ کرنے کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرتے تھے ۔قادیان میں جب جماعت کی آبادی بڑھنے لگی اور احباب جماعت اپنے اپنے علاقہ جات سے ہجرت کر کے قادیان آنے لگے تو اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس ہونے لگی کہ قادیان میں بچو ں کی تعلیم کے حوالہ سے مناسب انتظام کیا جائے چنانچہ اس مقصد کے حصول کے لیے مدرسہ کے قیام اور اس کا انتظام و انصرام چلانے کے لیے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی ہدایت کے مطابق ایک کمیٹی قائم ہوئی ۔اس کے صدر حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ مقرر ہوئے۔قا دیان کی روح پرورفضا میں مدرسہ کا افتتاح 3؍جنوری 1898ء کو ہوا اورحضرت شیخ یعقوب علی تراب صا حب رضی اللہ عنہ اس کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے۔

شروع میں مدرسہ کی کوئی عمارت نہ تھی اس لیے اس کا آغاز مہمان خانہ میں ہی ہوا پھر بعد میں مہمان خانہ کے متصل دو کمرے تعمیر کیے گئے ۔1899ء1900-ءمیں اس کی مزید عمارت بنوائی گئی جسے بعد میں حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ نے مزید وسعت دی اور آپ نےمدرسہ کے لیے ضروری فرنیچر کا بھی انتظام کیا ۔

حضرت اقدس مسیح موعود ؑوقتاً فوقتاً احباب جماعت کو مدرسہ کے اخراجات پورا کرنے کے حوالےسے مالی قربانی کی طرف بھی توجہ دلاتے رہتے۔ جیسا کہ مدرسہ کی غرض وغایت بیان کرتے ہو ئے آپ ؑنےایک موقع پر فرمایا:

“میری دانست میں اگر یہ مدرسہ قادیان کا قائم رہ جائے تو بڑی برکات کا موجب ہو گا اور اس کے ذریعہ سے ایک فوج نئے تعلیم یافتوں کی ہماری طرف آسکتی ہے۔”

(تذکرۃ الشہادتین،روحانی خزائن جلد20صفحہ79)

حضرت اقدس علیہ السلام کی دعاؤں اور توجہ کی بدولت یہ سکول آپؑ کی زندگی ہی میں درجہ بدرجہ کالج تک پہنچ گیا ۔ کچھ ہی عرصہ بعد حکومت کے یونیورسٹی ایکٹ کے تحت جماعت کو یہ کالج بند کرنا پڑا۔ اس ایکٹ کے تحت آئندہ کالجوں کے الحاق کی منظوری کی مستحکم مالی حیثیت ،ٹرینڈ سٹاف،اور مستقل عمارت ہونے کے ساتھ مشروط کر دی گئی ۔ان شرائط کی موجودگی میں ایک غریب جماعت کے لیے کسی کالج کو جاری رکھنا ایک دشوار امر تھا لہذا کالج کو بند کرنا پڑا ۔تعلیم الاسلام کالج قادیان کا از سرنو احیاء نہایت شان کے ساتھ بعد میں خلافت ثانیہ میں 1944ء میں ہوا۔

(ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ 1تا 17)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی وفات کا وقت قریب آ یا تو اس کی اطلاع خدا تعالیٰ نے آپؑ کو متواتر الہامات سے کی چنانچہ ان الہامات سے آپ پر منشاء الٰہی ظاہر ہوا کہ آپ کی وفات کا وقت بالکل قریب آ گیا ہے۔چنانچہ اس پر آپ نے “الوصیت ’’نام کے تحت ایک وصیت لکھ کر شائع فرمائی ۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ‘‘الوصیت”کے ذریعہ جہاں اپنی محبوب جماعت کو ایک ہولناک گھڑی یعنی اپنی وفات کے سانحہ کے لیے تیارکیا وہاں انہیں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی مثال دے کر قدرت ثانیہ کی نوید بھی سنائی ۔ آپؑ نے جماعت کو نہایت دلنشیں انداز میں اپنے آنےکا مقصد بتا یا کہ آپ صرف تخم ریزی کے لیے آئے تھے آپ کے بعد اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا بیج پھلے گا اور پھولے گا اور قدرت ثانیہ کے ذریعہ چہار دانگ عالم میں اس کی شاخیں پھیلیں گی ۔

اس کے علاوہ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی وصیت میں خدا کے حکم سے جماعت کے لیے ایک خاص مقبرہ کی بھی تجویز فرمائی جس کانام آپ نے بہشتی مقبرہ تجویز فرمایا ۔چنانچہ اس مقبرہ کے لیے آپ نے اپنی ملکیتی آبائی باغ کی زمین دی جہاں آپ اپنے اصحاب کے ساتھ سیر کے لیے تشریف لے جاتے تھے اور علم و عرفان کی روح پرور محافل کا انعقاد ہو تا تھا۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍکے تحت 26؍مئی 1908ء کو لاہور میں وفات پائی ۔ آپ کے جسد اطہر کو قادیان لاکر بہشتی مقبرہ میں دفن کیا گیا ۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد الٰہی نوشتوں کے مطابق اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے قدرت ثانیہ یعنی خلافت احمدیہ کا ظہور ہوا ۔

خلافت اولیٰ میں ہونے والی تعمیرات

خلافت اولیٰ میںقادیان میں ہونے والی تعمیرات کے متعلق حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں:

“حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں قادیان میں متعدد پبلک عمارتوں کا اضافہ ہوا مثلاً حضرت خلیفہ اول کے عہد میں قادیان کی جامع مسجد اقصیٰ کی توسیع ہوئی جو پہلے سے قریباً دوگنی بڑھ گئی ۔اسی طرح آپ کے زمانہ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول اور اس کے بورڈنگ کی عظیم الشان عمارتیں تیار ہوئیں جن پر قریباً سوا لاکھ روپیہ خرچ ہوا …آپ کے زمانہ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کے وسیع ااحاطہ میں “مسجد نور”بھی تیار ہوئی اور سکول کے قریب ایک شفاخانہ بھی تیار ہوا جس کانام “نور ہسپتال” رکھا گیا ۔ہسپتال کی تیاری کلیۃً اور مسجد نور کی تیاری بڑی حد تک ہمارے بلندہمت نانا حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم کی کوشش کا نتیجہ تھی جنہوں نے باوجود پیرانہ سالی کے احمدی جماعتوں میں دورہ کر کے ان عمارات کے لیے ایک بھاری رقم فراہم کی۔”

(سلسلہ احمدیہ جلد اوّل صفحہ 311۔312)

خلافت ثانیہ

خلافت ثانیہ کے آغاز ہی میں منارۃ المسیح کی رُکی ہوئی تعمیر پر دوبارہ کام شروع ہوا ۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 27؍نومبر 1914ءکو منارۃ المسیح کی ناتمام عمارت پر اپنے دست مبارک سے اینٹ رکھی اور دسمبر 1915ء میں منارہ کی تعمیر مکمل ہوئی ۔حضرت مسیح موعودؑ کے فیصلہ کے مطابق اس مدمیں سوروپیہ سے زائد چندہ دینے والوں کے نام منارۃ المسیح پر بطور یاد کندہ ہیں جن کی تعداد دو سو گیارہ ہے ۔

(تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 162)

جون 1917ء میں نور ہسپتال کی بنیاد رکھی گئی اور اس کی تکمیل ستمبر 1917ء میں ہوئی ۔اس کے لیے حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ نے گراں قدر خدمات سر انجام دیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ارشاد پر حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب رضی اللہ عنہ کا تقرر عمل میں آیا۔1930ء میں اسے سیکنڈ گریڈ ہسپتال کی حیثیت حاصل ہو ئی۔

(تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 198)

جماعت کے غریب اور یتیم بچوں کی خصوصی نگہداشت کے لیے مرکز سلسلہ قادیان میں یکم مئی 1926ء کو “دارالشیوخ ’’کے نام سے ایک ادارہ قا ئم کیا گیا ۔اس ادارہ کے قیام میں حضرت میر محمد اسحٰق صاحب رضی اللہ عنہ نے قابل قدر خدمات سر انجام دیں ۔یہ ادارہ جہاں یتیموں کا سہار ابنا وہاں اس میں بے سہارا بوڑھے بھی کافی تعدا د میں رہتے تھے۔

(تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 555)

23؍مئی 1926ء کو قصرِخلافت قادیان کی بنیاد رکھی گئی اور اس کی تکمیل اکتوبر 1926ءکو ہوئی۔ قصر خلافت قادیان کی تعمیر سے حضرت خلیفۃ المسیح کی ڈاک اور ان سے ملاقات کا پہلے سے زیادہ عمدہ اور محفوظ انتظام ہو گیا ۔

(تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 557)

1947ء میں تقسیم ہند تک قادیان میں مساجد کی تعداد12؍ تھی ا ور تقسیم سے قبل ان ساری مساجد میں نماز ہوتی تھی۔

(قادیان داراالامان صفحہ 22 از مکرم عبد الرشید آرکیٹیکٹ صاحب)

خلافتِ ثانیہ میں جماعت کی عالمگیر تبلیغی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سلسلہ کے مبلغین تیار کرنے کے لیے مدرسہ احمدیہ میں مناسب تغیر و تبدل کے مختلف مراحل طے کرنے کے بعد جامعہ احمدیہ جیسا عظیم الشان ادارہ قائم کیا گیا۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ارشادات کی روشنی میں صدر انجمن احمدیہ نے 10؍ اپریل 1928ء کو جامعہ احمدیہ کے نام سے ایک مستقل ادارہ کاقیام کیا۔

جامعہ احمدیہ کے افتتاح کے موقع پر طلباء جامعہ کو نصیحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نےارشاد فرمایا:

“اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں ان کے سامنے عظیم الشان کام اور بہت بڑا مستقبل ہے وہ عظیم الشان عمارت کی پہلی اینٹیں ہیں اور پہلی اینٹوں پر ہی بہت انحصار ہوتا ہے’’

جامعہ احمدیہ قادیان سے سلسلہ کے ایسے عظیم الشان وجود پیدا ہوئے جنہوں نے خلافت کے دست و بازو بن کر حضرت مسیح موعودؑ کے مشن کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا ۔آج جامعہ احمدیہ مختلف ادوار سے ہوتا ہوا ایک تناور درخت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور اس کی شاخیں دنیا کے مختلف ممالک میں قائم ہو چکی ہیں ۔

تعلیم الاسلام کالج قادیان کا احیاء حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے عہد زریں کی سنہری یادگارو ں میں سے ہے ۔

جیسا کہ شروع میں ذکر ہوا تھا کہ تعلیم الاسلام کالج کا آغاز حضرت مسیح موعودؑ کے دور میں ہوا تھا مگر بوجوہ کالج زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا ۔تعلیم الاسلام کالج کے احیاء کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:

“خداتعالیٰ کی حکمت ہے ایک لمبے عرصہ تک میری اس طرف توجہ ہی نہیں ہوئی کہ قادیان میں ہمارا اپنا کالج ہونا چاہیے بلکہ ایسا ہوا کہ بعض لوگوں نے کالج کے قیام کے متعلق کوشش بھی کی تو میں نے انہیں کہا کہ ابھی اس کی ضرورت نہیں کالج پر بہت روپیہ خرچ ہو گا لیکن پچھلے سال مجلس شوریٰ کے موقع پر بجٹ کے بعد یک دم جب بعض دوسرے لوگوں نے تحریک کی تو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ تحریک پیدا کر دی کہ واقعہ میں قادیان میں جلد سے جلد ہمیں اپنا کالج کھول دینا چاہیے حالانکہ اس وقت تک نہ صرف اس تحریک کا میرے دل میں کوئی خیال نہیں تھا بلکہ جب بھی کسی نے ایسی تحریک کی میں نے اس کی مخالفت کی لیکن اس وقت یک دم خدا تعالیٰ نے میرے دل میں اس خیال کی تائید پیدا کر دی اور نہ صرف تحریک پیدا کی بلکہ بعد میں اس تحریک کے فوائد اور نتائج بھی سمجھا دیے۔”

(تاریخ احمدیت جلد 9 صفحہ18بحوالہ الفضل 31؍مئی 1944ء)

اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تحریک کو بابرکت کیا اور سن 1944ء میں تعلیم الاسلام کالج کا از سر نو قیام عمل میں آیا اور اس کے لیے ایک عالی شان خوبصورت عمارت تعمیر کی گئی اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل مقرر ہوئے۔کالج کے ساتھ ایک خطیر رقم خرچ کر کے فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ بھی قائم کیا گیا قادیان کے علم دوست ماحول اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خصوصی رہ نمائی کی بدولت قادیان کی اس درسگاہ نے غیر معمولی ترقی کی اور علم کی اعلیٰ بلندیوں کی طرف اس کا ارتقائی سفر حیرت انگیز حد تک تیزی کے ساتھ جاری رہا۔

حضرت مصلح موعود ر ضی اللہ عنہ کے قادیان سے ہجرت تک 33سالہ دور خلافت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بے شمار فضلوں سے جماعت کو نوازاچنانچہ اس دور میں جماعت کے انتظامی ڈھانچہ صدر انجمن احمدیہ کی تشکیل نو ، ذیلی تنظیموں اورتحریک جدید کےقیام سےخلافت کے زیر سایہ نظام جماعت کی مضبوط بنیادیں استوار ہوئیں اور وہ خطوط ظاہر ہوئے جن پر آگے چل کر جماعت نے حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے مشن کو لے کر آگے چلنا تھا ۔اسی دَور میں دنیا بھر میں جماعت کے نئے مشن ہاؤسز کے قیام سے سلسلہ احمدیہ کو عالمگیریت کی نئی جہات عطا ہوئیں اور حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا الہام ‘‘میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا”بڑی شان سے پورا ہوتا ہوا نظر آنے لگا۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زیر قیادت مرکز احمدیت قادیان سے ترقی کا سفر بڑی تیزی کے ساتھ جاری تھا کہ تقسیم برصغیر کا اعلان ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی خطہ میں ابتری پھیل گئی۔ ہر طرف خونی وارداتیں شروع ہوگئیں ۔ان مخدوش حالات میں حضرت خلیفۃ المسیح اور قادیان کی اکثر آبادی کو پاکستان ہجرت کرنا پڑی اور اس ہجرت سے احمدیت ایک نئے دور میں داخل ہوئی اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا ایک نیا باب شروع ہو گیا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button