مزار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام پر دعا اور اس کی حکمت
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
(تقریر فرمودہ9؍مارچ 1944ء بعد نماز عصر بمقام بہشتی مقبرہ قادیان )
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
کَل میں نے دوستوں کو بتایا تھا کہ یہاں آ کر جو دعا ہمیں مانگنی چاہیے وہ قرآن شریف کی ہی ایک دعا ہے اور رسول کریمﷺ ہمیشہ وہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ ہمارا اصل مقصد یہی ہے کہ وہ دعا یہاں آ کر بار بار مانگی جائے اور خدا تعالیٰ کے سامنے اُس کے وعدے پیش کر کے اور اپنی کمزوریوں کو سامنے رکھ کر عاجزی اور تضرع سے اُس کو پکارا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ کی غیرت بھڑکے اور اُس کا فضل ہم پر نازل ہو۔
بعض دوستوں نے توجہ دلائی ہے کہ ایسی باتوں سے بعض لوگ مشرکانہ رنگ اختیار کر لیتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ قبروں پر جانا اور وہاں دعا کرنا شاید اِس لیےہے کہ قبر والے سے دعا مانگی جاتی ہے۔ مَیں امید تو نہیں کرتا کہ کسی احمدی کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہو کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کے بندوں کو بندہ ہی سمجھتے ہیں خواہ وہ محمد رسول اللہﷺ ہی کیوں نہ ہوں اور ہم اُن سے بھی دعائیں نہیں مانگتے بلکہ کبھی ہمارے واہمہ اور خیال میں بھی یہ نہیں آیا کہ اگر ہم دعا مانگیں تو وہ اِسے قبول کر سکتے ہیں بلکہ حدیث میں جو آتا ہے کہ مُردے نعلین کی آواز سُن لیتے ہیں(بخاری کتاب الجنائز باب المیت یسمع خفق النعال)میں فطرتاً اِس حدیث کو بھی ظاہری معنوں میں نہیں لیتا بلکہ یہ سمجھتا ہوں کہ خداتعالیٰ مُردوں کو اگلے جہان میں اپنے عزیزوں کے پاؤں کی آہٹ سُنا دیتا ہے۔ ورنہ جو شخص مٹی کے نیچے دفن ہے وہ مٹی کا ایک ڈھیر ہے اِس سے زیادہ اُس کی کوئی حیثیت نہیں۔
میں اِس بات کا بھی قائل نہیں کہ انبیاء کے جسم محفوظ رہتے ہیں اور مٹی انہیں نہیں کھاتی۔ بائبل سے صاف ثابت ہے کہ حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہما السلام کی ہڈیاں مصر سے کنعان لائی گئیں (یشوع باب 24آیت 32 کے الفاظ یہ ہیں۔ ‘‘یوسف کی ہڈیوں کو جنہیں بنی اسرائیل مصر سے اُٹھا لائے تھے’’(برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ 1922ء)(بعض احادیث میں بھی اِس کا ذکر ہے)پس یہ ایک خیال ہے کہ انبیاء کا جسم ضرور محفوظ رہتا ہے۔ جو شخص مٹی کی قبر میں دفن ہے وہ مٹی ہے۔ جس طرح انبیاءکھانا کھاتے اور پاخانہ کرتے تھے یہ نہیں ہوتا تھا کہ پاخانہ کی بجائے مشک اِن کے جسم سے نکلے۔ اِسی طرح انسان کے مادی جسم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو قوانین بنائے ہیں وہ اِن کے جسم پر بھی عائد ہوتے ہیں۔ باقی رہا بعض لوگوں کے جسموں کا محفوظ رہنا اور ہمارے مشاہدہ میں اِس بات کا آنا سو اِس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ بعض زمینیں اِس قسم کی ہوتی ہیں کہ اُن میں جسم گلتے نہیں بلکہ سلامت اور محفوظ رہتے ہیں لیکن اِس میں نبی یا مومن کی کوئی شرط نہیں۔ ایک کافر بھی وہاں دفن کیا جائے تو اُس کا جسم محفوظ رہے گا۔ اِس کے مقابلہ میں بعض زمینوں میں اِس قسم کے کیمیائی مادے ہوتے ہیں کہ وہاں جو شخص دفن ہو اُس کا جسم تھوڑے دنوں میں ہی مٹی ہو جاتا ہے۔ وہاں کافر ،مومن، نبی اور غیر نبی جو بھی دفن ہو گا میرا یقین ہے کہ اُس کا جسم کچھ عرصہ کے بعد ضرورمتغیر ہو جائے گا۔ پس یہ خیالات جو مشرکانہ ہیں ہم ان کے قریب بھی نہیں جاتے۔ اگر کسی احمدی کے دل میں ایسا خیال ہو تو اُسے اپنے دل سے اِسے بالکل دور کردینا چاہیے۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار سے تبرک کے طور پر مٹی لے جاتے ہیں۔ بعض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر پھول چڑھا جاتے ہیں۔ یہ سب لغو باتیں ہیں اِن سے فائدہ کچھ نہیں ہوتا اور ایمان ضائع چلا جاتا ہے۔ بھلا قبر پر پھول چڑھانے سے مُردے کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ اُن کی روحیں تو اِس قبر میں نہیں ہوتیں وہ تو اور مقام پر ہوتی ہیں۔ ہاں اِس میں شبہ نہیں کہ روح کو اِس ظاہری قبر کے ساتھ ایک لگاؤ اور تعلق ضرور ہوتا ہے اور گو مرنے والوں کی روحیں کسی جہان میں ہوں اللہ تعالیٰ اِن ظاہری قبروں سے بھی ان کی ایک رنگ میں وابستگی پیدا کر دیتا ہے۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ ایک بزرگ کی قبر پر دعا کرنے کے لیے تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا جب مَیں دعا کر رہا تھا تو صاحبِ قبر اپنی قبر سے نکل کر میرے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔ مگر اِس سے مراد بھی یہ نہیں کہ اُن کی روح اِس مٹی کی قبر سے باہر نکلی بلکہ ظاہری تعلق کی وجہ سے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مٹی کی قبر پر کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اُس بزرگ کو اپنی اصلی قبر سے آپ تک آنے کی اجازت دے دی۔ وہی قبر جس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ(عبس:22)
اُسی قبر میں مرنے کے بعد انسان کی روح رکھی جاتی ہے۔ ورنہ یہ قبریں دنیا میں ہمیشہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد کھودی جاتی ہیں اور اِن کے اندر سے کچھ بھی نہیں نکلتا۔ بلکہ ایک قبر کا اوپر کا نشان جب مٹ جاتا ہے تو اُسی جگہ دوسرا شخص دفن کر دیا جاتا ہے۔ پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اُسی جگہ تیسرا شخص دفن کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک ایک قبر میں بعض دفعہ یکے بعد دیگرے سَو سَو آدمی دفن ہو جاتے ہیں اور وہ سب مٹی ہو جاتے ہیں۔ لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے اِس قبر کے ساتھ ایک رشتہ قائم کر دیا ہے اِس وجہ سے قبر پر آنے سے طبیعت میں جو رقت اور خشوع و خضوع پیدا ہوتا ہے وہ دوسرے مقام پر کم ہوتا ہے۔ پس ہماری غرض یہاں آ کر دعائیں کرنے سے سوائے اِس کے اور کچھ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کو دیکھ کر ہمارے اندررقت پیدا ہو اور ہم خداتعالیٰ سے یہ عرض کریں کہ اے خدا!یہ وہ شخص ہے جس نے اسلام کی خاطر اپنی تمام زندگی وقف کر دی، یہ وہ شخص ہے جس پر تو نے الہامات نازل کیے کہ اس کے ہاتھوں سے اسلام کا اِحیاء ہو گا اور دنیا ایک نئے رنگ میں پلٹا کھائے گی، اَب یہ شخص فوت ہو چکا ہے اور ہمارے سامنے زمین میں دفن ہے، ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اِس کے ساتھ محبت رکھتے اور اِس کے غلاموں میں شامل ہیں اِس لیے اَب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اِس ذمہ داری کو ادا کریں اور اُن وعدوں کو جو تو نے کیے پورا کرنے کے لیے اپنی جدوجہد اور کوشش کو کمال تک پہنچا دیں۔ مگر ہم کمزور ہیں ہمارے اندر کئی قسم کی کوتاہیاں پائی جاتی ہیں تو آپ اپنے فضل سے ہمارے کمزور کندھوں کو طاقت دے، ہمارے ناتوان ہاتھوں کو مضبوط بنا اور ہماری کوششوں میں ایسی برکت پیدا فرما کہ تیرے وعدے پورے ہوں اور تیرا دین دنیا پر غالب آ جائے۔ یہ وجہ ہے جس کی بناء پر ہم نے یہاں دعاؤں کا یہ سلسلہ شروع کیا ہے۔ پس اِس موقع پر ہمیں تضرع کے ساتھ دعائیں کرنی چاہئیں اور ہمیں یہ خیال آنا چاہیے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اِس وقت زندہ ہوتے تو وہ کس قسم کی قربانیاں اسلام کی فتح کے لیے کرتے۔ یہی غرض یہاں آ کر دعائیں کرنے میں ہے۔ اگر اِس غرض کےلیے ہم رسول کریم ﷺ کے مزار پر پہنچ سکتے تو وہاں بھی پہنچ کر ہم ضرور دعا کرتے۔
تو صرف اِن اُمور کی طرف توجہ پیدا کرنے اور زیادہ تضرع سے دعائیں مانگنے کے لیے یہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ بچوں کو دیکھ لو وہ سارا دن کھیلتے رہتے ہیں لیکن جب اپنی تازہ مری ہوئی ماں یا اپنے باپ کی قبر پر جاتے ہیں تو رونے لگ جاتے ہیں حالانکہ وہ پہلے سے مرے ہوئے ہوتے ہیں۔ اِسے انسانی کمزوری سمجھ لو یا انسانی فطرت کا ایک خاصہ قرار دے لو بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ جب انسان اپنے کسی بزرگ کی قبر پر دعا کرتا ہے تو اُس کے دل میں رقت زیادہ پیدا ہوتی ہے۔ پھر جب ہم دوسرے کے لیے دعا کرتے ہیں تو یہ دعا ایک رنگ میں ہمارے لیے بھی بلندیٔ درجات کا موجب بنتی ہے۔ چنانچہ ہم جب درود پڑھتے ہیں تو اِس کے نتیجہ میں جہاں رسول کریمﷺ کے درجات بلند ہوتے ہیں وہاں ہمارے درجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور اِن کو انعام مل کر پھر اِن کے واسطہ سے ہم تک پہنچتا ہے۔ اِس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے چھلنی میں کوئی چیز ڈالو تو وہ اِس میں سے نکل کر نیچے جو کپڑا پڑا ہو اُس میں بھی آ گرتی ہے۔ اِسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خداتعالیٰ نے اِس اُمّت کے لیے بطور چھلنی بنایا ہے پہلے خدا اِن کو اپنی برکات سے حصہ دیتا ہے اور پھر وہ برکات اِن کے توسط اور اِن کے طفیل سے ہمیں ملتی ہیں۔ جب ہم درود پڑھتے ہیں اور خداتعالیٰ اِ س کے بدلہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مدارج کو بلند فرماتا ہے تو لازماً خداتعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی بتاتا ہے کہ یہ تحفہ فلاں مومن کی طرف سے آیا ہے اِس پر اُن کے دل میں ہمارے متعلق دعا کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اُن کی دعا کی وجہ سے ہمیں اپنی برکات سے حصہ دے دیتا ہے۔
میں اپنے متعلق بتاتا ہوںکہ جب بھی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قبر پر دعا کرنے کے لیے آتا ہوں مَیں نے یہ طریق رکھا ہوا ہے کہ پہلے میں رسول کریمﷺ کے لیے دعا کیا کرتا ہوں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے دعا کرتا ہوں اور دعا یہ کیا کرتا ہوں کہ یا اللہ!میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جو مَیںاپنے اِن بزرگوں کی خدمت میں تحفہ کے طور پر پیش کر سکوں۔ میرے پاس جو چیزیں ہیں وہ انہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں۔ البتہ تیرے پاس سب کچھ ہے اس لیے مَیں تجھ سے دعا اور التجا کرتا ہوں کہ تو مجھ پر احسان فرما کر میری طرف سے انہیں جنت میں کوئی ایسا تحفہ عطا فرما جو اِس سے پہلے انہیں جنت میں نہ ملا ہوتو وہ ضرور پوچھتے ہیں کہ یا اللہ! یہ تحفہ کس کی طرف سے آیا ہے؟ اور جب خداانہیں بتاتا ہے تو وہ اُس کے لیے دعا کرتے ہیں اور اِس طرح دعا کرنے والے کے مدارج بھی بلند ہوتے ہیں اور یہ بات قرآن اور احادیث سے ثابت ہے۔ اسلام کا مسلمہ اصل ہے اور کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ دعائیں مرنے والے کو ضرور فائدہ پہنچاتی ہیں۔ قرآن کریم نے بھی
فَحَیُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡہَا(النساء: 87)
کہہ کر اِس طرف توجہ دلائی ہے کہ جب تمہیں کوئی شخص تحفہ پیش کرے تو تم اُس سے بہتر تحفہ اُسے دو ورنہ کم از کم اتنا تحفہ تو ضرور دو جتنا اُس نے دیا۔ قرآن کریم کی اِس آیت کے مطابق جب ہم رسول کریمﷺ یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے دعا کریں گے اور ان پر دُرود اور سلام بھیجیں گے تو خداتعالیٰ ہماری طرف سے اِس دعا کے نتیجہ میں اُنہیں کوئی تحفہ پیش کر دے گا۔ ہم نہیں جانتے کہ جنت میں کیا کیا نعمتیں ہیں مگراللہ تعالیٰ تو اُن نعمتوں کو خوب جانتا ہے اِس لیے جب ہم دعا کریں گے کہ الٰہی!تُو رسول کریم ﷺ کو کوئی ایسا تحفہ دے جو اِس سے پہلے اُنہیںنہ ملا ہو تو یہ لازمی بات ہے کہ جب وہ تحفہ اُنہیں دیا جاتا ہوگا تو ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بھی بتایا جاتا ہو گا کہ یہ فلاں شخص کی طرف سے تحفہ ہے۔ پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ اِس علم کے بعد وہ چپ کرکے بیٹھے رہیں اور تحفہ بھجوانے والے کے لیے دعا نہ کریں۔ ایسے موقع پر بے اختیار اُن کی روح اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر گر جائے گی اور کہے گی کہ اے خدا اَب تو ہماری طرف سے اِس کو بہتر جزاء عطا فرما ۔ اِس طرح
فَحَیُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡہَاۤ
کے مطابق وہ دعا پھر درود بھیجنے والے کی طرف لوٹ آئے گی اور اِس کے درجہ کی بلندی کا باعث ہو گی۔ پس یہ ذریعہ ہے جس سے بغیر اِس کے کہ کوئی مشرکانہ حرکت ہو ہم خود بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور قوم بھی فائدہ اُٹھا سکتی ہے۔ گویا قومی اور فردی دونوں فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ باقی یہ کہنا کہ اَے خدا کے مسیح موعود!تو مجھے فلاں چیز دے۔ یا یہ کہنا کہ یَا رَسُوۡلَ اللّٰہِ!میری فلاں خواہش پوری فرمائیں یہ پاگل پن کی بات ہے۔ کوئی مومن ایسی حرکات کو برداشت نہیں کر سکتا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہمارا جو تعلق ہے محض خدا کے واسطہ سے ہے۔ اگر یہ واسطہ نہ ہوتا تو پھر ہماری طرح وہ آدمی ہی تھے اِس سے بڑھ کر اُن میں کون سی بات تھی۔ پس جو شخص ایسا پاگل ہو کہ وہ خدا کی بجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا مانگے، سچی بات تو یہ ہے کہ وہ احمدی ہے ہی نہیں۔
پس دعا کے وقت اِس اَمر کو مدنظر رکھنا چاہیے تاکہ ہماری دعا کا کوئی پہلو ایسا نہ ہو جو مشرکانہ ہو۔ دعا کرنے سے پہلے درود پڑھا جائے اور اِس کے بعد وہی دعا مانگی جائے جو ہم روزانہ یہاں آ کر مانگتے ہیں اور جو اُمّت کے لیے بہترین دعا ہے۔ یعنی یہ دعا کہ
رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعۡنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیۡ لِلۡاِیۡمَانِ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ فَاٰمَنَّا(آل عمران:194)
اے ہمارے ربّ! ہم نے تیری طرف سے ایک منادی کو یہ پکارتے سنا کہ خدا پر ایمان لے آؤ سو ہم نے اِس کی آواز کو سنا اور تجھ پر ایمان لے آئے۔ ایمان کے بعد ہم پر بہت سے فرائض عائد ہوگئے ہیں مگر ہم کمزور اور ناتواں ہیں۔
رَبَّنَا فَاغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَ کَفِّرۡ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الۡاَبۡرَارِ(آل عمران:194)
اے ہمارے ربّ! ہم تجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ تو ہمارے گناہوں کو بخش۔ ہمیں ہمت اور توفیق عطا فرما اور اپنی بخشش ہم پر نازل فرما اور ہماری موت جب بھی آئے ہم نیک لوگوں میں شامل ہوں۔ اِس طرح جب ہم اِس سے اپنی کمزوریاں معاف کرالیں تو اِس کے بعد ہم کہتے ہیں
رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدۡتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَ لَا تُخۡزِنَا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِنَّکَ لَا تُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ(آل عمران:195)
جب آپ ہمارے قصور معاف فرما چکے ہیں تو اَب ہمارے ذریعہ سے وہ وعدے پورے فرمائیے جو نبی سے آپ نے کیے تھے۔ یہی ذریعہ ہے جس سے اُمتیں ترقی کرتی ہیں کہ پہلے نبیوں کو انعام ملتا ہے اور پھروہی انعام اُن کی اُمتوں کو مل جاتا ہے۔
(الفضل7؍ مئی 1944ء)
٭…٭…٭