جلسہ سالانہ قادیان 1919ء کی مختصر رپورٹ
(شائع شدہ الفضل قادیان دارالامان 8،5اور12جنوری 1920ء)
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ میں جلسہ سالانہ کی تاریخ 128؍سال پرانی ہے جب الٰہی منشا کے مطابق سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے جلسہ سالانہ کی بنیاد رکھی۔
آج سے ایک صدی قبل قادیان دار الامان میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جلسہ سالانہ قادیان مورخہ 26؍تا29؍دسمبر 1919ء کو منعقد ہوا۔
اس جلسہ کے حوالے سے رپورٹس اور تقاریر کے خلاصہ جات الفضل میں اس وقت طبع ہوئے جس کا کچھ حصہ ہدیہ قارئین کیا جا رہا ہے۔
جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ بابت 1919ء
26؍ دسمبر کی کارروائی
آج کے پہلے اجلاس کی کارروائی زیر صدارت جناب سیٹھ عبد اللہ الٰہ دین صاحب احمدی سکندر آباد دکن دس بجے کے بعد مسجد نور کے وسیع صحن میں شروع ہوئی۔ پہلے جناب حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی نے تلاوت فرمائی اور آپ کے بعد حکیم احمد حسین صاحب لائلپوری نے اپنی ایک نظم پڑھی۔ جس کا پہلا شعر یہ تھا:
جاں رہ دین محمدؐ پر فدا ہو جائے گی
یہ غرض جینے کی مرنے سے سوا ہو جائے گی
مولوی غلام رسول صاحب راجیکی کی تقریر کا خلاصہ
آپ کے بعد جناب مولانا غلام رسول صاحب راجیکی کی تقریر ‘‘پیشگوئی اور اس کی حقیقت’’پر شروع ہوئی۔ آپ نے لفظ پیشگوئی کے متعلق فرمایا یہ لفظ فارسی زبان کا ہے اور اس کے معنی ہیں کہ کسی امر کے متعلق پہلے سے بتا دینا کہ فلاں کام یوں ہو گا یا یوں کیا جائے گا۔ عربی زبان میں اس کے لیے لفظ نبوت کا ہے۔
پیشگوئیاں کئی قسم کے لوگ کرتے ہیں۔ مگر علم غیب کا سرچشمہ انبیاء اور اولیاء کی پیشگوئیاں ہوتی ہیں اور نبی کی پیشگوئی اس کی صداقت کا معیار ہوتی ہے۔ پیشگوئیوں کے اوصاف یہ ہوتے ہیں کہ
(1)ان سے خدا کی ہستی اور اس کے علم اور قدرت کا پتہ لگتا ہے۔
(2)نبی کی متحدیانہ پیشگوئیاں بتلا دیتی ہیں کہ یہ راست باز ہے۔
(3)نبی کی پیشگوئیاں معمولی پیشگوئیاں نہیں ہوتیں بلکہ اقوام کے متعلق ہوتی ہیں۔
(4)ان میں جو غیب بتلایا جاتا ہے وہ اٹکل کے طور پر نہیں ہوتا۔
(5)اپنی انذاری اور تبشیری شان میں وہ زہر اور تریاق کی خاصیت لیے ہوتی ہے۔
(6) نبی کی جماعت کے لیے زیادہ علم کا باعث ہوتی ہیں۔
(7)ان پیشگوئیوں سے خبیث و طیب میں فرق کر کے دکھایا جاتا ہے۔ مثلاً آتھم کی پیشگوئی کی میعاد جس دن ختم ہوئی۔ اس دن ایک شخص کا جماعت سے تعلق قطع ہوا اور ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب ساکن گوڑیانی اسی دن بیعت میں داخل ہوئے ۔ اس پیشگوئی سے دنیا میں ایک شور مچ جاتا ہے۔ اسی کے متعلق حضرت اقدس نے فرمایا ہے۔
از بندگان نفس رہ آں بگاں سپرس
ہر جا کہ گرد خاست سوارے درآں بجو
(8)نبی کی پیشگوئیوں کے مقابلہ میں اس کی نظیر نہیں پیش کی جا سکتی۔
(9)واقعات کے رنگ میں نئے علوم کا انکشاف ہوتا ہے۔
(10)نبی کی حیثیت کے مطابق پیشگوئیاں ہوتی ہیں یعنی اگر نبی مختص القوم و مختص الزمان ہو تو اس کی پیشگوئیاں بھی مختص القوم اور مختص الزمان ہوں گی۔ لیکن اگر نبی تمام دنیا کے لیے ہو تو اس کی پیشگوئیاں بھی تمام دنیا کے لیے ہوں گی۔
اب سوال ہوتا ہے کہ پیشگوئیوں کے مقاصد کیا ہیں:
(1)ہستی باری کے منکروں پر حجت۔ (2)شریعت حقہ کی تائید و تصدیق (3) انبیاء سابقین کی تبشیری و انذاری پیشگوئیوں کی تصدیق و تائید (4) نبوت پر شہادت دینے والی پیشگوئی ہوتی ہے۔ (5) خدا کے جمال و جلال کے اظہار کے لیے ہوتی ہے۔ (6)مومنوں کا علم و یقین بڑھتا ہے۔ (7)منکروں کا علم سلب کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد آپ نے نبی اور غیر نبی کی پیشگوئی میں فرق بتایا چونکہ بارہ بج چکے تھے۔ اور جمعہ کے لیے حاضرین نے تیاری کرنی تھی۔ اس لیے آپ کا مضمون ناتمام ہی رہا اور اجلاس برخاست کیا گیا۔
جمعہ کا خطبہ حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا۔ جس میں جماعت کو تاکید کی کہ وہ جس غرض کے لیے آئے ہیں۔ اس کو پورا کریں اور خدا کی ذات پر بھروسہ کریں اور اس کو ہر کام پر قادر سمجھیں۔
نماز جمعہ کے بعد دوسرا اجلاس زیر صدارت جناب چودہری نصر اللہ خان صاحب وکیل سیالکوٹ شروع ہوا۔ پہلے جناب منشی قاسم علی خان صاحب قادیانی رام پوری نے نظم پڑھی جس کا پہلا شعر یہ تھا۔
خدا کی رحمتیں نازل ہوں اے دار الاماں تجھ پر
رہے انوار کی بارش یونہی اے قادیاں تجھ پر
خان صاحب کی نظم کے بعد مولوی محفوظ الحق صاحب علمی نے اپنی ایک نظم ‘‘وہ اور ہم’’کے عنوان سے پڑھی۔ جس میں غیر احمدیوں اور احمدیوں کی مذہبی حالت کا مقابلہ کیا گیا تھا۔
اس کے بعد آپ نے ‘‘خلافت’’پر اپنی ایک فارسی نظم سنائی جو سعدی کے اس مشہور شعر پر کہی گئی تھی۔
ترسم کہ بکعبہ نہ رسی اے اعرابی
کیں رہ کہ تو سیروی بترکستان است
حافظ روشن علی صاحب کی تقریر کا خلاصہ
ان نظموں کے بعد جناب مولانا حافظ روشن علی صاحب کی تقریر صداقت مسیح موعودؑ پر شروع ہوئی۔ آپ نے آیت شریفہ
قُلْ اَرَئَیْتُمْ اِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ثُمَّ کَفَرْتُمْ بِہٖ…
پڑھ کر فرمایا کہ دنیا میں کسی شخص کی صداقت کے معلوم کرنے کے مختلف طریق اور مختلف اغراض ہوتے ہیں کبھی محض ایک وقتی آرام کے لیے ایک شخص کے متعلق دریافت کیا جاتا ہے۔ کبھی اس لیے کہ جان بچ جائے۔ جیسے بیمار کے لیے طبیب کی کبھی نہ آرام کے لیے نہ جان بچانے کے لیے بلکہ ملکوں کی نجات کے لیے ۔ اور دنیا و آخرت میں نجات و فلاح کے لیے معلوم کی جاتی ہے۔ اس وقت میں اس شخص کی صداقت پیش کرنے کے لیے کھڑا ہوا ہوں۔ جس کی صداقت کے معلوم ہونے پر کسی کا وقتی آرام منحصر نہیں نہ کسی کی جان کا بچ جانا مدنظر ہے بلکہ اس شخص کی صداقت کے معلوم ہونے پر دنیا کی نجات منحصر ہے اور دنیا اور عقبیٰ کی فلاح موقوف ہے۔ پس یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ اس آیت میں جو میں نے تلاوت کی ہے۔ دو امر بیان ہوئے ہیں۔ ایک تو اس نبی کی صداقت معلوم کرنے کے مسئلہ کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم غور تو کرو اگر یہ خدا کی طرف سے ہوا اور تم نے انکار کیا تو اس انکار کا نتیجہ کیسا خطرناک ہو گا۔ پس پہلے کسی مسئلہ کی اہمیت کا معلوم ہونا ضروری ہے اور اس میں اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور پہلا قدم ظن غالب کا ہے اور اس میں ظن غالب کی تعلیم پیش کی ہے اور ظن غالب وہ چیز ہے کہ اس پر دنیا کا کارخانہ چل رہا ہے۔ جہاں تک غور کرو گے۔ دنیا کے کارخانہ میں ظن غالب کو ہی کام کرتے پاؤ گے۔ اس بات میں کہ اگر یہ خدا کی طرف سے ہوا اور تم نے اس کا انکار کیا تو تمہارا کیا حشر ہو گا۔ اس میں یہ بتایا ہے کہ خدا کی طرف سے آنے والوں کا مقابلہ کیسا خطرناک امر ہوتا ہے۔ دیکھو آنحضرت ﷺ اور آپ کے اصحاب کو خیال تھا کہ ابن صیاد دجال تھا مگر جب اس نے اپنا دعویٰ رسالت پیش کیا۔ تو رسول کریمؐ نے انکار نہیں کر دیا۔ بلکہ فرمایا کہ میں تو تمام رسولوں پر ایمان لاتا ہوں۔
پھر خدا نے کسی کی صداقت اور مان لینے کو ظن غالب پر ہی نہیں رکھا بلکہ فرمایا کہ صادق کے لیے ‘‘آفاق’’اور ‘‘انفس’’ میں نشانات دکھائے جاتے ہیں۔
جب کوئی شخص واقعی خدا کی طرف سے اصلاح خلق کے لیے مامور ہو کر آیا ہو۔ تو اس کی صداقت کا ظاہر کر نا خدا کے لیے ضروری ہے۔ اس کے لیے وہ دو قسم کے نشانات ظاہر فرماتا ہے۔ اول ‘‘آفاق’’میں۔ دوم ‘‘انفس’’ہیں۔ آفاقی نشانات کیا ہوتے ہیں؟ سو یاد رہے کہ آفاق جمع ہے افق کی۔ اور افق کے معنی کنارہ کے ہیں۔ زمین کی اطراف کو افق کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص خدا کی طرف سے آئے تو اس کی صداقت کے اظہار کے لیے زمین و آسمان میں نشان ظاہر کیے جاتے ہیں۔ چونکہ خدا کی طرف سے آنے والوں کا تعلق محض فلاسفہ اور علماء سے ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ خدا کی بارش کی طرح تمام طبقے کے لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ان کی صداقت کے اظہار کے لیے نشانات بھی ایسے ظاہر کیے جاتے ہیں جو ہر قسم کے لوگوں کی سمجھ میں آ جائیں۔
اگر اس قسم کے نشانات نہ ہوں تو عوام محروم رہ جائیں۔ پس یہ آفاقی نشانات ایک ایک محلہ ایک ایک گھر میں اور ایک گھر کے ایک ایک فرد کے پاس جاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ فلاں شخص راست باز ہے۔ اس کو قبول کرو۔ ان آفاقی نشانوں میں سےقحطوں اور زلزلوں کا آنا اور سورج اور چاند کا نشان دکھانا ہے ۔کیونکہ بتایا گیا تھا کہ مہدی کے وقت میں سورج اور چاند میں کسوف و خسوف کا نشان ظاہر ہو گا۔ چنانچہ حضرت اقدس کے وقت میں ایسا ہوا۔
پھر نشانات کی دوسری قسم انفسی نشانات ہوتے ہیں اور ان کا ظہور دو طرح پر ہوتا ہے۔ اول ماننے والوں میں دوسرے نہ ماننے والوں میں۔ نہ ماننے والوں میں عام طور پر یہ باتیں پائی جاتی ہیں۔ اوّل منکرین استہزاء کا طریق اختیار کرتے ہیں۔ دوسرے ایک بڑی جماعت اور بڑے بڑے لوگ مقابلہ کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تیسرے ان بڑے لوگوں کے علاوہ شیاطین یعنی سردار اور چالاک لوگ بھی مقابلہ میں آ جاتے ہیں۔
(4)وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے قطع تعلق کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ بھی نبی کے مقابلہ میں زور لگاتے ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے گا تو یہ بات روشن ہو جائے گی کہ نبی کا مقابلہ کرنے والے لوگوں میں اعلیٰ اخلاق اور عمدہ چلن اور تقویٰ شعاری نہ ہو گی۔
یہ باتیں کیوں ہوتی ہیں؟ اسی لیے کہ تا کہ لوگوں کو پتہ لگ جائے کہ خدا ہی ہے جو ہدایت دیتا اور اپنے نبی کا ناصر اور مددگار ہے۔
دوسرا گروہ جس میں انفسی نشانات ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ لوگ ہوتے ہیں جو نبی کی جماعت والے اور اس کے پیرو ہوتے ہیں۔ ان میں عام طور پر یہ باتیں پائی جاتی ہیں۔ اوّل وہ لوگ ضعفاء الناس ہوتے ہیں ۔ہرقل نے ابو سفیان سے پوچھا تھا جس کا جواب اس نے یہی دیا تھا کہ محمد (ﷺ) کے ساتھ غرباء اور مساکین شامل ہوتے ہیں اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ خدا غربا اور مساکین کو عزتیں اور عظمتیں دے کر ثابت کرے کہ یہ لوگ خدا کی آواز پر لبیک کہنے والے ہیں۔ دوم ان لوگوں کا شرح صدر فرمانبرداری کے لیے کر دیا جاتا ہے۔ (3)جو نبی کی خدمت میں آتا ہے۔ اس کو ایک زندگی عطا کی جاتی ہے اور اس کو ایک نور دیا جاتا ہے۔ جس سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے اور ہر تاریکی میں وہ نور اس کی دستگیری کرتا ہے۔ لیکن مخالف شک و شبہ کی ظلمتوں میں ٹھوکروں پر ٹھوکریں کھاتا ہے۔ (4)انبیاء کے ساتھی ہر حال عسر و یسر میں اللہ تعالیٰ سے راضی رہتے ہیں اور کوئی ناشکری کا کلمہ منہ پر نہیں لاتے اور اگر تنگی میں ہوں تو بھی خدا کی راہ میں جوان کو خرچ کرتا ہوتا ہے وہ کرتے ہیں تنگی ان کو روک نہیں سکتی اور اگر مصیبتوں کے پہاڑ بھی ان پر ٹوٹ پڑیںتو بھی وہ ان کو برداشت کرتے اور صبر دکھلاتے ہیں۔ (5)وہ ہر حال میں خدا کی طرف جھکتے اور اسی کو پکارتے ہیں (6)نبی کے ساتھی کفار کے مقابلہ میں شدید ہوتے یعنی ان کی باتوں سے متاثر نہیں ہوتے۔ بلکہ ان پر اپنا ہی اثر ڈالتے ہیں۔ (7)وہ آپس میں رقیق ہوتے ہیں۔ یعنی آپس میں ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں اور سکھاتے ہیں۔ (8)ان کی دو حالتیں ہوتی ہیں۔ وہ ہر وقت جھکے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کیا معنی۔ دین کی خدمت کے لیے ان پر خواہ کتنا ہی بوجھ ڈالا جائے۔ وہ ان کو اٹھاتے ہیں۔ اور بوجھ اٹھانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اگرچہ وہ چلتے پھرتے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ہر وقت رکوع کی حالت میں مشاہدہ میں آتے ہیں۔ دوسری حالت سجدے کی ہے کہ اپنے سر کو اپنی پیشانی کو خدا کے آگے خاک میں رکھ دینا۔ اس سے انسان ظاہر کرتا ہے کہ خدایا میں مٹی تھا۔ تیری ربوبیت نے ہی مجھے سر بلند کیا۔ ورنہ میری حقیقت تو وہی مٹی ہے۔ پس اگر تیرے رستہ میں مجھے خاک میں بھی مل جانا پڑے تو میں تیار ہوں۔ اس صورت میں مومن تکبر سے بیزاری ظاہر کرتا ہے کیونکہ تکبر ہی وہ چیز ہے جو تمام گناہوں کی جڑ ہے۔ اور جس میں تکبر ہو اس میں ایمان نہیں ٹھہر سکتا۔
اور حالت سجدہ وہ حالت ہے جس کے متعلق نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ انسان سجدہ کی حالت میں خدا کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ سجدہ جو ہے وہ مقام دعا ہے۔
(9) جب ان لوگوں کو دکھ پہنچایا جاتا ہے تو وہ اس سے پریشان ہو کر ادھر ادھر بھاگنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بلکہ ان دکھوں میں لذت محسوس کرتے ہیں۔
(10) وہ لوگ اس فیض کو عام کرتے ہیں۔ جو نبی کے ذریعہ ان کو ملتا ہے۔ یعنی وہ دوسروں کو تبلیغ کرتے ہیں۔
اب دونوں قسم کے نشانات آپ کے سامنے ہیں۔ آپ غور کریں کہ آپ کے سامنے جو حضرت مسیح موعودؑ کا معاملہ در پیش ہے۔ آپ دیکھیں کہ آیا آپ کے مخالفین میں وہی باتیں پائی جاتی ہیں یا نہیں۔جو مخالفین انبیاء میں پائی جایا کرتی ہیں۔ پھر آپ کی جماعت میں وہ باتیں موجود ہیں کہ نہیں جو انبیاء کی جماعتوں میں ہوا کرتی ہیں۔
اس کے بعد جناب حافظ صاحب نے ان بعض اعتراضات کا مختصراً ذکر فرمایا۔ جو غیر مبائعین کی طرف سے یا غیر احمدیوں کی طرف سے عام طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ حضرت صاحب اپنے دعویٰ نبوت کو کیوں نہیں سمجھے سو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ یہ غلط ہے۔ حضرت اقدس اپنے دعویٰ کو خوب سمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ آپ خدا کی طرف سے مامور ہیں۔ لیکن آپ کو جو نام دیا جاتا تھاآپ اس کی تاویل کرتے رہے اور جب تک کہ آپ کو خدا کی متواتر وحی نے مجبور نہ کر دیا آپ ایسا ہی کرتے رہے یہ آپ کی حد درجہ کی دیانت ہے۔
دوسرے کہا جاتا ہے کہ چونکہ احمدیوں میں اختلاف ہے اس لیے یہ جھوٹے ہیں۔ میں کہتا ہوں یہ اختلاف تو حضرت اقدس کی صداقت کا ثبوت ہے کیونکہ حضرت اقدس نے اس کے متعلق پیشگوئیاں فرمائیں تھیں کہ ایسا ہو گا ۔اور پھر یاد رکھنا چاہیےکہ حضرت نبی کریمؐ نے حضرت امام حسن کے متعلق پیشگوئی فرمائی تھی کہ یہ میرا بیٹا سید ہے جو دو مسلمان گروہوں میں صلح کرائے گا۔ چنانچہ حضرت علیؓ اور معاویہ کی جنگ میں صلح کرانے والے حضرت حسن ہی تھے۔ اسی طرح حضرت محمود کا نام الہامات مسیح موعود میں اولو العزم رکھا گیا ہے۔ اگر آپ کی مخالفت میں یہ لوگ جو اپنے تئیں سلسلہ کا ستون خیال کرتے ہیں۔ کھڑے نہ ہوتے۔ تو کیسے ظاہر ہوتا کہ محمود اولو العزم ہے پس یہ باتیں حضرت اقدس کے صادق ہونے کا ثبوت ہیں۔ اس کے بعد حضرت حافظ صاحب نے اپنی تقریر ختم کی اور اس پر اس دن کے جلسہ کی کارروائی ختم ہوئی۔
(الفضل قادیان 5؍جنوری 1920ء صفحہ 3تا 5)
جلسہ کے دوسرے دن 27؍ دسمبر 1919ء کی کارروائی
پہلا اجلاس
27؍دسمبر چونکہ رات سے ہی بارش ہو رہی تھی اور جلسہ کی کارروائی جلسہ گاہ میں نہ ہو سکتی تھی۔ اس لیے ناچار مدرسہ تعلیم الاسلام کے وسیع ہال میں جلسہ کا انتظام کیا گیا۔ اگرچہ وہ ہال خدا کے فضل سے بہت وسیع ہے۔ مگر اس میں چھ سات ہزار کے مجمع کو اپنے اندر سما لینے کی کہاں گنجائش ہو سکتی تھی۔ تا ہم کمروں کے دروازے کھولے گئے۔ اوپر کی منزل میں لوگ بٹھائے گئے۔ اوپر کے دروازوں میں احباب کھڑے ہو گئے۔ پھر بھی مہمانوں کا وہی حصہ آ سکا جو مدرسہ اور بورڈنگ میں ٹھہرا ہوا تھا اور اندرون قصبہ کے مہمانوں میں سے بہت کم لوگ بوجہ بارش پہنچے اور اندر جگہ پا سکے۔ غرض اس حالت میں اس دن کے پہلے اجلاس کی کارروائی زیر صدارت جناب خان صاحب محمد ذوالفقار علی خان صاحب گوہر رام پوری شروع ہوئی ۔
جناب سید بشارت احمد صاحب حیدر آبادی نے تلاوت قرآن کریم فرمائی اور ان کے بعد جناب منشی قاسم علی خان صاحب قادیانی رام پوری نے اس تمہید کے ساتھ اپنی ایک پنجابی نظم پڑھی کہ حضرات!بہت سے احباب نے مجھے فرمایا ہے کہ تمہاری اردو نظم ہم نہیں سمجھ سکتے۔ اس لیے میں نے ان بھائیوں کی خاطر اور اس نسبت سے جو مجھے احمدی ہو کر اور قادیانی تخلص رکھ کر پنجاب سے ہو گئی ہے کوشش کی ہے کہ پنجابی میں نظم کہوں۔ چنانچہ یہ نظم جو میں اَب پڑھوں گا۔ پنجابی ہے۔ مگر آپ صاحبوں کو خیال رہے کہ اس میں پنجابی کے محاوروں اور لفظوں کی طرف نہ جایئے کیونکہ میں پنجابی نہیں جانتا یہ صرف آپ صاحبوں کی خواہش اور اپنے شوق کے لیے لکھی گئی ہے۔ اس کے بعد آپ نے نظم پڑھی۔ جس کا پہلا مصرعہ یہ تھا:
چِت لگیا ساڈا احمد نال
سانوں ہور کوئی درکار ناہیں
اس کے بعد آپ نے ایک اردو نظم پڑھی جس کا پہلا مصرعہ یہ تھا:
دوستو! احمد موعود کے گلشن تم ہو
شیخ عبد الرحمٰن صاحب کی تقریر کا خلاصہ
اس نظم کے پڑھے جانے کے بعد جناب مولانا شیخ عبدالرحمٰن صاحب مولوی فاضل و تعلیم یافتہ مصر (سابق لالہ شنکر داس لاہوری) نے اپنی تقریر ‘‘مبایعین میں محاکمہ’’شروع کی۔
چونکہ بارش کی وجہ سے شیخ صاحب کا وقت کا کچھ حصہ یونہی گذر چکا تھا۔ اس لیے قریباً گیارہ بجے آپ کی تقریر شروع ہوئی۔ اس تقریر میں چونکہ حوالوں کا بہت سا حصہ تھا۔ اس لیے اس خلاصہ میں وہ تمام حوالے نہیں دیے جا سکتے۔ بلکہ ایک مفہوم کو ادا کیا جاتا ہے۔
آپ نے فرمایا:
اصل بات یہ ہے کہ ابتدا میں حضرت اقدس کے نزدیک نبی کی تعریف یہ تھی کہ نبی وہ ہوتا ہے جو جدید شریعت لائے یا شریعت سابقہ کے بعض احکام کو منسوخ کرے یا نبی سابق کی اتباع سے علیحدہ ہوکر دعویٰ نبوت کرے۔ پس چونکہ حضرت اقدس اپنے اندر کوئی بات ان تینوں باتوں میں سے نہ پاتے تھے۔ اس لیے باوجود وحی الٰہی میں نبی و رسول کے نام سے خطاب کیے جانے کے اپنے آپ کو نبی نہ کہتے تھے لیکن جب آپ کو خدا تعالیٰ کی متواتر وحی نے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا۔ تو آپ نے اس پہلی تعریف کو چھوڑ کر اپنے تئیں نبی کہا۔ جیسا کہ آپ کو وحی الٰہی میں کہا جاتا تھا۔ یہ جو ہمارے متعلق کہا جاتا ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ حضرت اقدس 1901ء تک اپنے دعویٰ کو نہیں سمجھے اور اس سن میں آپ نے اپنے دعویٰ کو بدل لیا۔ یہ غلط ہے ہم ہرگز نہیں کہتے کہ آپ اتنے عرصہ تک اپنے دعویٰ کو نہیں سمجھے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ اپنے دعویٰ کو ابتدا سے ہی خوب سمجھتے تھے۔ جو یہ تھا کہ آپ اصلاح خلق کے لیے خدا کی طرف سے مامور اور ملہم اور مورد وحی الٰہی ہیں۔ ہاں پہلے بوجہ احتیاط کے آپ نے اس عہدہ کا نام کچھ اور رکھا۔ جو آپ کو خدا کی طرف سے نبی اور رسول کے نام سے دیا گیا تھا۔ مگر متواتر وحی نے بتلایا کہ اس میں تاویل کی ضرورت نہیں تم ایسے نبی ہو کہ ایک پہلو سے امتی اور ایک پہلو سے نبی۔ پس خلاصہ یہ ہوا کہ پہلے چونکہ آپ عام مسلمانوں کی طرح نبی کی اور تعریف سمجھتے تھے اور اس تعریف کو اپنے اوپر صادق نہ پاتے تھے۔ اس لیے تاویل کرتے تھے مگر بعد میں آپ نے اس تعریف کو بدل دیا جیسا کہ براہین احمدیہ حصہ پنجم میں آپ نے اس کی تصریح فرما دی پھر مواہب الرحمان صفحہ 66کا حوالہ پیش کیا جاتا ہے مگر پورا نہیں ادھورا۔ یعنی یہ حوالہ لکھتے یا پیش کرتے وقت غیر مبایعین کے مناظر اور امیر اس حصہ کو چھوڑ جاتے ہیں۔ ‘‘الَّا الَّذِیْ رَبّی مِنْ فَیْضِہٖ وَ اَظْہَرَہٗ وَعْدہٗ’’پھر کہتے ہیں کہ سلسلہ کے مصنفین حضرت کے وقت میں نبوت کے قائل نہ تھے۔ حالانکہ ان کی تحریرات موجود ہیں اور ان میں حضرت اقدس کو نبی کے نام سے پکارا گیا ہے۔……
دوسرے دن 27؍دسمبر کا دوسرا اجلاس
نماز ظہر و عصر مسجد نور میں مولانا حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی نے پڑھائیں۔ نماز کے بعد سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ تشریف لے آئے اور چونکہ بادل بالکل گھرے ہوئے تھے اس لیے ہال میں تشریف لے گئے۔ لیکن آخر مسجد میں تقریر کرنے کی تجویز ہوئی۔
جب حضور سٹیج پر تشریف لے آئے تو حضور کی ایک نظم منشی قاسم علی خان صاحب قادیانی رام پوری نے پڑھی۔ جو گذشتہ پرچہ میں شائع ہو چکی ہے۔ تقریر سے قبل حضور نے چند نکاحوں کا اعلان فرمایا اور تین بجے تقریر شروع ہوئی۔
حضرت خلیفۃ المسیح کی تقریر کا خلاصہ
حضور نے آیات ذیل تلاوت کیں:
وَّ ذَکِّرۡ فَاِنَّ الذِّکۡرٰی تَنۡفَعُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ۔وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ۔(الذاریات:57-56)
اور فرمایا پیشتر اصل تقریر شروع کرنے کے میں ان سب احباب سے جو بیرون جات سے آئے ہیں۔ ایک معذرت کرتا ہوں کہ مجھے آج صبح ایک افسوسناک خبر معلوم ہوئی ہے کہ منتظموں نے ناجائز تکلیف آپ کو دی۔ اسلام نے علاوہ اخوت کے اکرام ضیف کا فرض بھی ایک مسلم کے لیے مقرر کیا ہے۔ میرے نزدیک چونکہ یہ خدا کی طرف سے حکم ہے۔ اس لیے مہمان کی ہتک مہمان کی ہتک نہیں۔ اپنی ہی ہتک ہوتی ہے اور چونکہ مہمان نوازی میرا فرض ہے کیونکہ مسیح موعود کا جانشین میں ہوں اور مسیح موعود کے مہمان میرے مہمان ہیں اور ان کی خدمت کرنا میرا کام ہے اس لیے میں معذرت کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کو معاف کرے۔ جن سے آپ کو نادانستہ یا دانستہ تکلیف پہنچی ہے۔ اس کے بعد میں اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ہم لوگ پھر اس جگہ جمع ہوئے ہیں۔ جو مسیح موعود کا مقام نزول ہے اور اس کے بعد میں سلسلہ کے انتظام کے متعلق چند باتیں بیان کرتا ہوں۔ میں نے سلسلہ کے کام کو باقاعدہ کرنے کے لیے چھ حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ (1) محکمہ تالیف و اشاعت (2) تعلیم و تربیت (3) بیت المال (4) امور عامہ(5) قضاء (6) افتاء۔
اس سال میں کیا کام ہوا۔ اس کے متعلق تو ہر ایک صیغہ کا افسر آپ کو اپنی رپورٹ سنائے گا۔ مگر بعض باتیں میں آپ لوگوں کو سنانا چاہتا ہوں۔ چونکہ کام ابتدائی تھا اس لیے بعض لوگ جن کو افسر بنایا گیا وہ پورے طور پر اس کو نہیں سمجھ سکے۔ نہ باہر والوں نے اس کو پورے طور پر سمجھا ہے۔ مگر باوجود اس کے جس رنگ میں کام ہوا ہے خدا کا عین فضل و احسان ہے۔ میں اس لیے بھی سناتا ہوں تا کہ آپ سمجھ لیں کہ آپ سے کہاں تک ان کاموں کا تعلق ہے اور کہاں تک آپ کو اس کو بجا لانا چاہیے اب تک جو کام ہوا سو ہوا۔ مگر آئندہ بہت ہونے کی امید ہے۔ یہ سال گورنمنٹ کے متعلق ایک عجیب سال گزارا ہے۔ سیاسی حالت میں ایسی موجیں پیدا ہوئیں کہ الامان!یہ خدا کا فضل ہے کہ امور عامہ کا صیغہ قائم ہو گیا تھا۔ اس نے جس طریق پر کام کیا اور جس طرح گورنمنٹ کی خدمات انجام دیں۔ یہ ایک لمبی بات ہے اور اس طرح گورنمنٹ کی خدمات ادا کیں کہ گورنمنٹ پنجاب کا ہر ایک حاکم ہماری جماعت سے واقف و آگاہ ہو گیا۔ہم کسی فائدہ اٹھانے کے لیے گورنمنٹ کے اطاعت گزار نہیں بلکہ ہمارا مذہبی فرض ہے کہ جو بھی حاکم وقت ہو۔ ہم اس کی اطاعت کریں۔ نادان ہیں جو ہمیں خوشامدی کہتے ہیں کیونکہ ہم خوشامد نہیں کرتے۔ بلکہ ہم اس فرض کو ادا کرتے ہیں جو خدا کی طرف سے ہم پر عائد ہے۔ ہم گورنمنٹ سے ان خدمات کے صلہ میں کوئی خطاب اور کوئی مربعے نہیں لینا چاہتے بلکہ میرے نزدیک اگر گورنمنٹ مجھے کوئی خطاب دے یا زمین دے تو وہ میری ہتک کرے گی کیونکہ ہم بحیثیت جماعت ان صلوں کے لیے گورنمنٹ کی خدمت نہیں کرتے۔ اگر ہماری جماعت کے افراد کو ان کی ذاتی خدمات کے صلہ میں خطاب یا انعام ملیں تو وہ علیحدہ بات ہے۔ غرض ہم نے جو کچھ کیا وہ خدا کے لیے کیا اور یہ اس لیے ہوا کہ مسیح موعود کی وہ پیشگوئی پوری ہو۔ جس میں حضور نے فرمایا کہ ایک وقت آئے گا کہ میری ہی جماعت وفادار رہے گی۔
اس کے بعد بیت المال کا ذکر فرمایا اور ناظر صاحب کے کام کی تعریف فرمائی اور ان کے لیے دعا کی فرمایا کہ یا تو مجھے ہر وقت فکر رہتی تھی کہ فلاں خرچ کس طرح پورا ہو یا اب مجھ کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کون سا خرچ کہاں سے ہوتا ہے۔ میں ان کے کام کے عمدہ ہونے سے رسم کے طور پر نہیں بلکہ حقیقی طور پر جو اسلام نے سکھایا ہے دعا کرتا ہوں کہ ان کے دل پر ان باتوں سے تکبر نہ آ جائے اور اللہ تعالیٰ ان کو اور زیادہ کام کرنے کی توفیق دے۔
پھر اخبارات سلسلہ کے متعلق فرمایا کہ قادیان کے اخبارات کے ایڈیٹروں کی خدمات خاص طور پر قابل ذکر ہیں ان کی مالی حالت کمزور ہے۔ احباب کو چاہیے کہ اس طرف توجہ کریں یہ زمانہ اشاعت کا زمانہ ہے اور اخبارات اشاعت کا بڑا ذریعہ ہیں۔ حضرت اقدس نے بدر و الحکم کو اپنے دو بازوؤں کا خطاب دیا ہے۔ پس جو لوگ ذی استطاعت ہیں وہ اخبارات کو خریدیں۔ جو لوگ پڑھ نہیں سکتے۔ وہ بھی ضرور خریدیں اور دوسرے سے پڑھوا کر سنیں۔ الفضل تو جماعت کا آرگن ہے اس کی طرف احباب توجہ کریں ہی گے۔ ریویو کی اشاعت کے متعلق حضرت مسیح موعوؑد تحریک کر چکے ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور کیا تحریک ہو گی۔ نور و فاروق ہیں۔ تشحیذ اور الحکم ہیں یہ چاروں عمدہ کام کرتے ہیں۔ الحکم کی حالت ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی سی ہے۔ مگر میں ان کی ہمت کی تعریف کرتا ہوں۔ فاقہ ہیں۔ روٹی کھانے کو نہ ہو۔ سردیوں میں پہننے کو کپڑا نہ ہو۔ مگر الحکم کا ایک آدھ یا چند پرچے ضرور نکلتے ہیں۔ جب بعض نے کہا کہ اس کو بند کر دو۔ تو شیخ صاحب لڑنے کو تیار ہو گئے۔ انہیں مسیح موعود کے ان لفظوں کا پاس ہے۔ کہ الحکم و بدر میرے بازو ہیں اور یہ بات نہیں ہو سکتی۔ جب تک خاص عرفان نہ ہو۔ اسی طرح نور ہے۔ وہ ایک خاص کام کر رہا ہے۔ جو حضرت مسیح موعود ؑنے شروع کیا کہ حضرت بابا نانک صاحب مسلمان ہیں۔ اس کی حالت معلوم کر کے افسوس ہوا کہ دو سو کے قریب اس کی اشاعت ہے نور بھی مستحق اعانت ہے اور شیخ محمد یوسف صاحب نے جو کتاب بابا نانک کا مذہب لکھی ہے وہ اس قابل ہے کہ اس کی بکثرت اشاعت کی جائے۔
اس کے بعد فاروق ہے اس معاملہ میں جہاں شیخ یعقوب علی صاحب مستحق تعریف ہیں۔ وہاں میر صاحب نہیں۔ فاروق نے (جس کا پہلا نام الحق تھا) ابتدا میں وہ کام کیا جو تاریخی ہے۔ لیکن اب میر صاحب ہمت ہار گئے۔ الحکم کی حالت تو یہ ہے کہ گرتا ہے مگر کہتا ہے کہ میں نہیں گرا۔ میر صاحب جس شخص کی اولاد ہیں۔ وہ بڑا صاحب ہمت تھا اور وہ جس کے سلسلہ میں ہیں وہ بھی بڑا باہمت تھا۔ پس انہوں نے جو ہمت ہار دی کہ لوگ قدر نہیں کرتے یہ غلطی کی۔ اگر وہ کام کرتے رہیں تو ضرور انہیں کامیابی ہو گی۔
پھر تشحیذ ہے اس کا میں نے پیچھے نام اس لیے لیا ہے کہ اس سے میرا تعلق تھا ورنہ وہ خدمت کے لحاظ سے پیچھے نہیں۔ اس نے پچھلے دنوں اچھے علمی مضامین شائع کیے ہیں۔ خصوصاً شیعوں کے متعلق منشی خادم حسین صاحب کے مضامین قابل قدر ہوتے ہیں۔ مجھ میں بھی تنقید کا مادہ ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ منشی صاحب کے مضامین میں ایک خاص بات ہوتی ہے۔ ان کی مثال ایسی ہی ہے۔ جیسے کوئی مخالف کے گھر میں جائے اور نہایت اطمینان سے چارپائی پر بیٹھ کر گھر والوں کو کہے کہ آپ کب مکان خالی کریں گے۔ ہمارے جو نوجوان مضامین لکھتے ہیں۔ انہیں منشی صاحب کی طرز تحریر سیکھنی چاہیے۔
آج کل یہ طرز نہایت عمدہ ہے کیونکہ آج کل عزت و بے عزتی کا بہت سوال پیدا ہو گیا ہے۔ اس لیے ایسے ہی طریق پر مضامین لکھے جانے چاہئیں۔ غرض اس کی طرف بھی احباب کو توجہ کرنی چاہیے۔ میرا ارادہ ہے کہ تمام اخباروں کا کام تقسیم کر دیا جائے۔ اَب تو یہ حال ہے کہ جو مضمون جس کو ملتا ہے وہی شائع کر دیتا ہے۔ (اس موقع پر شیخ مستاں علی صاحب وکیل پٹیالہ نے کھڑے ہو کر کہا کہ میں سالانہ تبلیغی کاموں کے لیے مالی مدد دوں گا۔ اور تمام اخبارات کی خریداری کروں گا۔)
ہندوستان سے باہر کی جماعتیں دعا کی مستحق ہیں وہ بڑا کام کر رہی ہیں سیلون کی جماعت خاص طور پر دعا کی مستحق ہے ان لوگوں نے ایک پریس جاری کیا ہے اور ایک انگریزی ہفتہ وار اخبار نکالا ہوا ہے۔ ہم مرکز میں آج تک انگریزی مطبع نہیں نکال سکے۔ وہاں ایسے قحط پڑا ہے۔ جس کی انتہا نہیں۔ مگر وہ لوگ دن کو اپنا کام کرتے ہیں اور جب فارغ ہوتے ہیں۔ تو دین کی خدمت میں مصروف ہوتے ہیں ان میں سے کوئی پریس مین بنتا ہے۔ کوئی کچھ ۔اور اخبار شائع کرتے ہیں۔
بیرونی ممالک کی جماعتوں کے اخلاص اور مضبوطی کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب نے ایک سپلٹ نام انگریزی رسالہ شائع کیا ہے۔ جس میں ان لوگوں سے جنہوں نے حضرت مسیح موعود کو دیکھا ہے اپیل کیا ہے کہ وہ آپس کے اختلاف کا فیصلہ کریں۔ لیکن قابل غور یہ بات ہے کہ فیصلہ تو ان لوگوں سے چاہا گیا۔ لیکن کتاب انگریزی میں لکھی ہے۔ میں پوچھتا ہوں اگر ان کی نیت بخیر تھی تو کیا وجہ ہے کہ انہوں نے انگریزی میں یہ کتاب شائع کی۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت صاحب کی صحبت اٹھانے والے زیادہ تر اردو دان، فارسی اور عربی جاننے والے ہیں جو پرانی پرانی جماعتیں ہیں۔ ان میں کتنے انگریزی خوان ہیں۔ علماء سلسلہ میں سے کتنے انگریزی پڑھے ہوئے ہیں۔ پس صاف ظاہر ہے کہ خطاب تو ان سے ہے۔ لیکن ان کو سمجھانے اور ان سے فیصلہ لینے کے لیے نہیں۔ بلکہ ان لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے ہے جو دوسرے ممالک کے ہیں اور اردو نہیں جانتے۔ مگر ان لوگوں نے جو جواب مولوی محمد علی کو دیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ مولوی محمد علی کو کہہ دو کہ اس کی دجالانہ چالیں ہمیں گمراہ نہیں کر سکتیں۔
خدا کے فضل سے سیلون سے پانچ آدمی یہاں دین سیکھنے کے لیے آئے ہیں۔ افریقہ سے آٹھ ہزار میل کا سفر طے کر کے یہاں ایک شخص دین کی تعلیم سیکھنے کے لیے آیا ہے۔ ماریشس سے جلسہ کے لیے لوگ آئے ہیں۔ یہ بات بغیر یقین کے نہیں ہو سکتی۔ غیر مبایعین نے ایک پنجابی کو بلال وو کنگ بلال وو کنگ کہنا شروع کیا تھا مگر دیکھو ہمیںیہ بلال جو بلال کی قوم سے ہے خدا نے دیا ہے۔ (اس موقعہ پر حضور نے مسٹر عبد الرحیم سمتھ کو جو نائیجیریا سے آئے ہیں۔ لوگوں کے دکھلانے کے لیے کھڑا کیا)کیا بلال کی قوم ختم ہو گئی تھی۔ کیا خدا اس قوم کو مسلمان نہیں بنا سکتا تھا۔ کہ کسی پنجابی کو بلال کہا جائے خدا نے بنایا ۔اور ہمارے لیے بنایا۔ پس یہ لوگ دعاؤں کے مستحق ہیں۔ اور ان کا اخلاص قابلِ رشک ہے۔
اس کے بعد میں دو خوشخبریاں سنانا چاہتا ہوں۔ اول تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذریعہ ایک بڑا کام کرنا چاہا ہے۔ افریقہ میں کئی لاکھ لوگ عیسائی مذہب میں داخل ہو گئے ہیں اور پادریوں نے وہاں کے شہزادوں کو ورغلا کر نکالا اور ولایت میں لے گئے ہیں کہ ان کے ذریعہ عیسائیت کو پھیلائیں مگر جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ یہ زمانہ شیطان کو شکست دینے کا ہے اب ان شہزادوں میں سے بعض ہمارے مبلغوں کے ذریعے مسلمان ہوئے ہیں اور وہ اپنے وطن میں جا کر تبلیغ اسلام کریں گے۔
دوسری بات اگرچہ معمولی ہے۔ مگر اپنے نتائج کے لحاظ سے انشاء اللہ اعلیٰ ثابت ہو گی جیسا کہ جب ایران پر مسلمانوں نے حملہ کیا اور بادشاہ ایران خاطر میں نہ لایا مسلمانوں کے سفیر اس کے دربار میں گئے۔ تو بادشاہ نے ان کی ذلت کے لیے ایک بورا مٹی کا ان کو دیا جس کو انہوں نے اٹھایا اور اللہ اکبر کے نعرے مارتے ہوئے واپس آ گئےکہ شاہ نے خود ہمیں ملک ایران دے دیا۔ اسی طرح وہ عہد ابراہیمی جس کو حضرت مسیح کے شاگرد کہلانے والوں میں سے ایک نے توڑ دیا تھا اب پھر ہمارے ذریعہ جاری ہوا ہے۔ خبر آئی ہے کہ ولایت میں ایک نو مسلمہ نے اپنے بچہ کا ختنہ کرایا ہے۔ اور اسلام کے لیے کرایا ہے۔ پس اگر پہلے مسیح کے بعد ایک نے اس عہد کو توڑا تو اس مسیح کے حواریوں کے ذریعہ یہ عہد قائم کیا گیا ہے جو امید ہے کہ اپنے نتائج کے لحاظ سے ان شاءاللہ موجب برکات ہو گا۔
اس کے بعد آپ نے اختلاف کا ذکر فرمایا اور اس پر افسوس کرتے ہوئے بتایا کہ خدا تعالیٰ غیر مبایعین کو ان ہی کے مسلمات سے پکڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خلیفہ کا خلیفہ نہیں ہو سکتا۔ اور غیر مامور خلیفہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن جب ولایت میں ایک جلسہ خلافت عثمانی کی تائید میں ہوا۔ اس کے لیے مولوی صدر الدین نے جو دعوتی اعلان کیا اس میں لکھا کہ ہندوستان میں ‘‘ہمارے خلیفہ’’کے لیے جلسہ ہائے دعا کیے جائیں گے اسی کی تقلید یہاں کی جائے گی۔’’
پھر ایک اور جلسہ ٹرکی کے متعلق ہوا۔ ہمارے چودہری فتح محمد صاحب بھی اس میں مدعو تھے۔ اتفاق سے جلسہ کے پریزیڈنٹ مسٹر لیون باہر چلے گئے اور سوال و جواب کا وقت آ گیا۔ مولوی صدر الدین صاحب کی موجودگی میں چودہری صاحب نے پوچھا۔ کیا خلافت مذہبی سوال ہے۔ تقریر کرنے والے ڈاکٹر عبد المجید تھے۔ انہوں نے کہا ہاں مذہبی سوال ہے۔ پھر چودہری صاحب نے پوچھاکہ خلیفہ کی اطاعت لازمی اور ضروری ہے۔ ڈاکٹر عبدالمجید نے مولوی صدر الدین سے پوچھ کر کہا۔ ہاں ضروری ہے۔ دیکھو اب ان کے نزدیک مسیح موعود کے متبعین میں سے تو خلیفہ ہونا ناجائز تھا۔ مگر مسیح موعود کے منکروں کو خلیفہ تسلیم کر رہے ہیں۔ اور ان کی اطاعت لازمی قرار دیتے ہیں۔
اس کے بعد خواجہ صاحب کے ان اعتراضات کا ذکر فرمایا۔ جو وہ اب کر رہے ہیں۔ نیز بتایا کہ وہ جس رنگ میں چاہیں۔ ہمارے ساتھ مقابلہ کر لیں۔ علم عربی کے متعلق تو وہ مقابلہ پر نہیں آئیں گے۔ کیونکہ وہ اپنی حقیقت جانتے ہیں۔ انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی ایک کتاب لے کر اور دوسروں سے مدد لے کر عربی کے متعلق ایک کتاب لکھ دی ہے اور سمجھتے ہیں کہ وہ بھی عربی جانتے ہیں۔ لیکن اس کا فیصلہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب کو جج بنایا جائے اور میں ایک رکوع خواجہ صاحب کے سامنے پیش کروں وہ اس کا لفظی ترجمہ کر دیں اور مولوی محمد علی صاحب قسم کھا کر لکھ دیں کہ یہ صحیح ہے۔
غیر مبایعین کے ذکر کے بعد آپ نے فرمایا۔ اَب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں۔ گذشتہ سالوں میں میرا قاعدہ رہا ہے کہ پہلے دن عام وعظ و نصیحت کی باتیں اور دوسرے دن کوئی خاص علمی مضمون بیان کرتا ہوں۔ گو گذشتہ سال اس کے برعکس ہوا۔ مگر اب کی دفعہ پہلے طریق سے تقریر کروں گا۔ یعنی آج عام موعظۃ کی باتیں بیان کی جائیں گی اور کل اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ایک خاص مسئلہ کے متعلق تقریر ہو گی۔
اس دفعہ میں نے دوسرے دن کے سنانے کے لیے جو مضمون منتخب کیا ہے۔ وہ ایمانیات کے متعلق ہے پہلے عام طور پر اعمال کے متعلق ہوتے تھے۔ اس کے لیے میں بہت ڈرا۔ اور میں نے اس کے لیے اتنی دعا کی کہ پہلے کسی مضمون کے لیے اتنی دعا نہ کی تھی۔ یہ مضمون بہت مشکل ہے اور اس کو سننے کے لیے بہت غور کی ضرورت ہے۔ آج میں عام مضمون سناؤں گا۔ اور وہ بھی وہ ہے جو انبیاء کی غرض بعث کوپورا کرنے والا ہے۔ ان آیات میں جو میں نے تلاوت کی ہیں اللہ تعالیٰ ایک خاص بات کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ فرماتا ہے انسان کی غرض پیدائش کیا ہے صرف یہ کہ وہ اللہ کے عبد بن جائیں۔ یہ اللہ کی غلامی انعام ہے۔ انسان کا فرض ہے کہ اس غرض کو پورا کرے۔ جب وہ اس غرض کو پورا کرے گا۔ تو انعامات الٰہیہ پائے گا۔ خدا تعالیٰ نے آپ کو نور دیا۔ اور ہدایت بخشی ہے۔ پس آپ لوگوں کا فرض ہے کہ اس کام کو احسن طور پر انجام دیں۔ اگر کوئی شخص زبان سے عبودیت کا اقرار کرے مگر اعمال سے ثبوت نہ دے۔ تو ہم اس کو عبد نہیں کہہ سکتے جب انسان عبد ہو جائے۔ تو اس پر فنا نہیں آ سکتی۔ وہ ایک ایسے مقام پر جاتا ہے جو جنت ہے اور جنت پر فنا نہیں کیونکہ وہ صفات الٰہیہ کا مقام ہے۔ پس جنت میں انسان تب ہی داخل ہو سکتا ہے۔ جب وہ عباد اللہ میں داخل ہو جائے۔ ورنہ جنت میں جانے کا اور کوئی ذریعہ نہیں۔ عبودیت یہ ہے کہ انسان ان فرائض کو بجا لائے۔ جو اس کے ذمے خدا کی طرف سے عائد کیے گئے ہوں اور یہ فرائض دو قسم کے ہیں۔ (1) اعمال مخفیہ (2) وہ اعمال جو ظاہر میں بجا لائے جاتے ہیں۔ اسلام نے عبادت میں دونوں طریق کو رکھا ہے۔
اول۔ مخفی فرائض میں عقائد کی درستی ہے۔ اس کے بعد عبادات کو بجا لائے۔ پہلے وہ یقین رکھے کہ خدا ہے جو مع اپنی جمیع صفات حسنہ کے ہے۔ یہ مخفی فرض ہے۔ جس کے بغیر کوئی عبد نہیں ہو سکتا۔ اور یہ جڑھ ہے۔ باقی اس کی شاخیں ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان باتوں کو اپنی زبان سے ظاہر کرے۔ تیسرے اپنے عمل سے ثبوت دے ۔ظاہری اعمال میں عبادات ہیں مثلاً نماز ہوتی ہے۔ خدا اس کو پسند نہیں کرتا کہ مخفی اعمال ہوں۔ بلکہ ضروری ہے کہ ظاہر میں بھی عبودیت کا اقرار کرے۔ جو شخص ظاہر میں عبادت نہیں کرتا۔ اس میں عُجب ہے۔ پس نماز باجماعت کی طرف بالخصوص توجہ کرو۔ دوسرا رکن عبودیت کا معاملات ہیں جب تک معاملات میں درستی نہ ہو۔ انسان عبد نہیں بن سکتا۔ آپس میں معاملات کی درستی، دوستوں سے تعلقات دشمنوں سے معاملات، باپ کا بیٹے سے تعلق، بیٹے کا باپ سے معاملہ، حکومت کا رعایا سے تعلق، رعایا کا حکومت سے تعلق ان سب باتوں میں عبودیت کا اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ انسان راستی کو نہ چھوڑے۔
پس شریعت کی دو ٹانگیں ہیں۔ (1)عبادت۔(2) معاملات جب انسان ان باتوں کو عمل میں لا کر خدا کا بن جاتا ہے تو وہ کسی کے توڑے نہیں ٹوٹ سکتا۔ بلکہ اس کو توڑنے والا توڑ دیا جاتا ہے۔ معاملات کے بھی دو حصہ ہیں۔ اول وہ معاملات جن کا شریعت میں حکم ہے۔ مگر دوسرے مذاہب میں بھی وہ احکام ہیں۔ گو ادنیٰ درجہ پر ہوں۔ دوسرے وہ جو محض شریعت اسلام کے خاص احکام ہیں۔ اور بالخصوص وہ جن کو دوسرے مذاہب بُرا خیال کرتے ہیں۔ اگر ان میں کسی میں نقص ہو تو عبودیت میں نقص ہو گا۔ آخری خاص بات تعدد ازدواج ہے۔ جس پر احمدی جماعت میں سے سب سے زیادہ زور دینے والا شخص میں ہوں۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شہوت رانی ہے۔ مگر میں کہتا ہوں اور تجربہ سے کہتا ہوں کہ یہ بڑی قربانی ہے۔ پس ہمارے احباب کو چاہیے کہ وہ لوگ جو اس ذریعہ سے اسلام پر حملہ کرتے ہیں۔ انہیں ثابت کر دیں کہ اس طرح اس حکم کی پابندی کی جا سکتی۔
دوسرا مسئلہ سود کا ہے۔ لوگوں نے اس کی مختلف سورتیں بیان کی ہیں۔ مگر قرآن شریف نے بتلایا ہے کہ سود لینا یا دینا خدا سے جنگ کرنا ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ تجارت چل نہیں سکتی۔ مگر یہ غلطی ہے اگر دنیا سے سود کا رواج ہٹا دیا جائے۔ تو جنگوں کا خاتمہ ہو جائے اگر جرمن کو سود نہ مل سکتا تو وہ پانچ سال کیا۔ پانچ مہینہ بھی نہ لڑ سکتا۔ پس سود سے پرہیز کرنا چاہیے۔
پھر پہلا فرض تو یہ تھا کہ اپنے فرائض ادا کیے جائیں دوسرا فرض یہ ہے کہ غیروں سے ان کے فرض ادا کرائے جائیں۔ خدا نے جو مسلمانوں کو خیر امت کہا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ تبلیغ تو بہت قومیں کرتی تھیں۔ بلکہ تمہیں ساری دنیا کے لیے مبلغ بنایا گیا۔ اس فرض تبلیغ کے بھی دو حصہ ہیں۔ اول اپنے مذہب والوں کو امر بالمعروف کرنا۔ دوسرے غیروں میں تبلیغ کرنا، غیروں میں تبلیغ کی دو شقیں ہیں۔ اول ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ تبلیغ کرے۔ اس بات کی ہرگز پرواہ نہیں ہونی چاہیے کہ ہماری حیثیت کیا ہے۔ خدا کا وعدہ ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے۔ اگرچہ ہم بہت کمزور ہیں مگر وہ خدا طاقتور ہے۔ ہم نے افغانستان میں، ایران میں مشن قائم کرنے ہیں۔ امریکہ کے متعلق ایک رویاء میں نے پہلے سنائی تھی۔ اب ایک اور ہوئی ہے۔ مفتی صاحب عنقریب ان شاء اللہ امریکہ چلے جائیں گے آج خبر آئی ہے۔ امریکہ کا ایک بڑا شاعر اور مصور جو ولایت آیا تھا۔ ہمارے مبلغ کے ذریعہ مسلمان ہو گیا۔ فالحمد للہ۔
یہ اللہ کی طرف سے ذرائع ہیں مکہ میں مشن کی تجویز ہے۔ ایک دوست نے وعدہ کیا ہے کہ اگر مکہ میں مکان لیا جائے تو وہ پچیس ہزار روپیہ مکان کے لیے دیں گے۔پس شیطان کے مقابلہ میں پوری طاقت سے کام لیں اور میری اس نصیحت کو خوب یاد رکھیں۔
حضور کی تقریر سات بجے شام کے بعد ختم ہوئی اور اس پر جلسہ برخاست ہوا۔
(الفضل قادیان 8؍ جنوری 1920ء صفحہ 3تا 7)
تیسرے دن 28؍ دسمبر 1919ء کی کارروائی
آج کے پہلے اجلاس کے صدر جناب چوہدری ابو الہاشم خان صاحب ایم اے بنگال تھے۔ تلاوت قرآن کریم محمد اعظم صاحب مکی کی خورد سالہ لڑکی نے عربی لہجہ میں کی۔ اور منشی قاسم علی خان صاحب نے اپنی نظم پڑھی۔
اس کے بعد صیغہ جات نظارت و صدر انجمن احمدیہ کی رپورٹوں کے سنانے کا وقت تھا اور ہر ایک رپورٹ کے لیے بیس بیس منٹ وقت رکھا گیا تھا۔ جو بہت تھوڑا تھا۔(اس سیشن میں صیغہ تالیف و اشاعت، صیغہ تعلیم و تربیت، صیغہ امور عامہ اور صدر انجمن احمدیہ کی رپورٹس پیش کی گئیں۔ بعد ازاں خان صاحب محمد ذوالفقار علی خان صاحب رام پوری نے نہایت پر درد الفاظ میں جماعت کے سامنے تبلیغ اسلام کے لیے چندے کی تحریک کی ۔ چنانچہ اس موقع پر ہی بارہ ہزار چندہ ہو گیا۔)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تقریر کا خلاصہ
اتنے میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح تشریف لے آئے اور حضور نے ظہر و عصر کی نماز یںجمع کر کے پڑھائیں۔
دو بج کر 55 منٹ پر حضور تقریر کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ پہلے آپ نے چند نکاحوں کا اعلان فرمایا اس کے بعد حضور نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت فرمائی اور یہ آیت پڑھ کر وَقَالَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْالَوْ شَاءَ اللّٰہُ مَا عَبَدْنَامِنْ دُوْنِہٖ…الایۃ۔ فرمایا کل مَیں نے تبلیغ اسلام کرنے کی تحریک کی تھی۔ میں اس کے متعلق تفصیل سے بیان نہیں کر سکا تھا۔ اس کے عملی حصہ کے متعلق آج آپ رپورٹیں سن چکے ہیں۔ آج ولایت سے تار آیا ہے۔ وہاں کے تمام انگریز مسلمان آپ صاحبوں کو السلام علیکم کہتے ہیں۔ نیز تار میں یہ بھی ذکر ہے کہ ولایت کی آخری رپورٹوں کے بعد سولہ آدمی اَور اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔ فالحمد للہ۔
پھر فرمایا کہ کل میں نے کہا تھا کہ ایک اہم مسئلہ کے متعلق جو ایمانیات سے تعلق رکھتا ہے میں آپ کو کچھ سنانا چاہتا ہوں۔ اور وہ تقدیر کا مسئلہ ہے۔ یہ اتنا اہم اور نازک مسئلہ ہے کہ رسول کریمؐ نے ایک دفعہ بعض لوگوں کو اس مسئلہ میں بحث کرتے دیکھ کر سخت غصہ کا اظہار کیا اور فرمایا کہ تم اس میں تنازع نہ کرو۔ کیونکہ پہلی امتیں اس میں تنازع کر کے ہلاک ہوئی ہیں۔ لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ یہ مسئلہ ایسا ضروری ہے کہ جب تک انسان اس پر ایمان نہ لائے وہ مومن نہیں ہو سکتا۔
میں نے ایک دفعہ قرآن کریم کو صرف اسی مسئلہ کے حل کرنے کے لیے از ابتداء تا انتہاء پڑھا۔ میرے نزدیک یہ مسئلہ ایمان کو بڑھانے والا ہے۔ اور ایسا ہے کہ جب تک اس پر ایمان نہ ہو۔ ایمان میں کمال نہیں حاصل ہو سکتا۔ چونکہ یہ مسئلہ اپنی نزاکت کے لحاظ سے خطرناک بھی ہے۔ اس لیے میں نے بہت دعاؤں کے بعد اس پر بولنے کی جرأت کی ہے لوگوں نے اس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے اس کی اصل حقیقت کو مدنظر نہیں رکھا ان میں سے ایک حصہ نے تو خدا تعالیٰ کو بالکل لا شئی کی طرح قرار دے دیا اور دوسرے نے کہا کہ جو کچھ انسان کرتا ہے وہ خدا ہی کراتا ہے۔ ان بے فائدہ باتوں میں پڑے رہے اور یہ نہ دیکھا کہ اس مسئلہ کو جو ایمانیات میں داخل کیا گیا ہے تو کیوں داخل کیا گیا ہے۔
حضور نے اس مسئلہ کے متعلق جو لوگ افراط و تفریط میں گئے ہیں۔ ان کی باتوں کو رد کیا۔ پھر تقدیر کے اصل معنی بیان فرمائے۔ اور پھر تقدیر کے اقسام بتلائے کہ تقدیر چار قسم کی ہوتی ہے۔ اول تقدیر عام طبعی۔ (2) تقدیر خاص طبعی۔ (3) تقدیر عام شرعی۔ (4) تقدیر خاص شرعی۔ اس کے بعد حضور نے ہر ایک تقدیر کی تفصیل بیان کی۔ اور ہر ایک کے متعلق نبی کریمؐ اور صحابہ اور حضرت مسیح موعودؑ کے واقعات اور دنیا کے حالات بطور مثال پیش فرمائے۔
باوجود حضور کے مسلسل ساڑھے چار گھنٹے بولنے کے ابھی چونکہ تقریر کا ایک حصہ باقی تھا۔ جس میں یہ بتانا تھا کہ اس کے فوائد کیا ہیں۔ مگر ساڑھے سات بج چکے تھے اور سخت سردی شروع ہو گئی تھی۔ اس لیے حضور نے لوگوں سے دریافت کیا کہ ابھی یہ مضمون بیان کیا جائے یا کل پر رکھا جائے۔ اکثر کی مرضی تھی کہ حضور ابھی بیان فرمائیں لیکن حضور نے احباب کی تکلیف کے خیال سے یہی پسند فرمایا کہ بقیہ مضمون کل بیان کیا جائے اور اعلان کر دیا گیا کہ کل صبح 29؍تاریخ کے پہلے اجلاس میں بقیہ تقریر ہو اس پر 28؍تاریخ کا جلسہ اختتام پذیر ہوا۔
چوتھے دن 29؍ دسمبر 1919ء کی کارروائی
چوتھے دن مسجد نور میں پہلا اجلاس شروع ہوا پہلے اسی عرب لڑکی نے تلاوت قرآن کریم کی۔ پھر خانصاحب ذوالفقار علی خان صاحب کی نظم پڑھی گئی جو غالب کی ایک مشہور غزل پر کہی گئی تھی۔ اس کا پہلا مصرعہ یہ تھا۔
مسلم شاکر خدا کوئے ہوس میں جائے کیوں
حضرت خلیفۃ المسیح کی (بقیہ)تقریر کا خلاصہ
اس کے بعد حضور نے چند نکاحوں کا اعلاج فرمایا اور نکاح سے پہلے ایک مختصر تقریر فرمائی جس میںبتایا کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے ان بدرسوم سے نجات دی ہے۔جو لوگوں کو تباہ کرنے والی تھیں اور ہمارے نکاح بہت آسانی سے ہو جاتے ہیں لیکن جلسہ کے موقعہ پر نکاح کا سلسلہ اتنا لمبا ہوتا ہے کہ باوجود اس کے کہ صرف اعلان ہی ہوتے ہیں پھر بھی بڑا وقت خرچ ہوتا ہے۔ جس سے خیال پڑتا ہے کہ شاید آئندہ ایک تقریر نکاح کے لیے رکھنی پڑے۔ یہ ان لوگوں کا اخلاص ہے کہ جلسہ کے موقعہ پر نکاح کراتے ہیں۔مگر میں کہتا ہوں کہ وہ دوسرے وقتوں میں آیا کریں تا کہ ان کو وہ نصائح بھی بتا دیے جایا کریں جو قران و حدیث میں درج ہیں اور جو ہم اس وقت بوجہ وقت کی تنگی کے بیان نہیں کر سکتے۔ نکاحوں کے بعد حضور نے بیعت کرنے والوں کو مخاطب کر کے مختصر تقریر فرمائی۔ جس میں بتایا کہ چند لوگ پگڑیاں ڈال دیں جن کا ایک سرا میرے ہاتھ میں ہو۔ اور باقی ان کو اپنے ہاتھ میں لیے رہیں اور فرمایا کہ یہ ایک روحانی طریق فیض پہنچانے کا ہے اور یہ خاص وقت ہوتا ہے۔ اس لیے اس وقت توجہ کرنی چاہیے۔
چنانچہ حضور نے پنجابی میں الفاظ بیعت کہنے شروع فرمائے۔ جن کو خاکسار نائب ایڈیٹر الفضل پنجابی میں بآواز بلند دوہراتا گیا اور لوگ ان کے مطابق کہتے گئے۔ بیعت کے بعد حضور نے دعا فرمائی۔ اور پھر فرمایا کہ یہ زمانہ ہمارے لیے مشکلات کا زمانہ ہے۔ غیر احمدیوں پر عذاب آ رہے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم کیوں ان کے ساتھ عذاب میں شامل نہیں ہوتے۔ انہوں نے ہمارے آقا کو اذیتیں دیں اور اس کو جھٹلایا۔ اور خدا کے مامور کی ہتک کی اور اس کی تکذیب میں مصروف رہے خدا کا مامور آیا۔ مگر انہوں نے کہا کہ ہم اس کو اس وقت تک نہیں مان سکتے۔جب تک کہ ترکوں کی سلطنت باقی ہے۔ اب جبکہ خدا نے اپنے مامور کی صداقت کے لیے اس کو توڑنا شروع کیا ہے۔ تو چیختے ہیں ہمیں ترکوں کی سلطنت کے مٹنے کا رنج ہے کیونکہ اس سے اسلام کی ظاہری شوکت کو صدمہ پہنچا ہے اور وہ لوگ نام میں ہمارے ساتھ شامل ہیں۔ لیکن خدا تعالیٰ کے نشانات ظاہر ہونے سے ہم خوش بھی ہیں۔ غیر احمدی خفیہ طور پر ہمیں بائیکاٹ کر دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ان کی تمام مخالفتیں ہمارا انشاء اللہ کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتیں۔
اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح کے ارشاد کے ماتحت جناب مولانا حافظ روشن علی صاحب نے پنجابی میں اعلان کیا کہ حضور بقیہ تقریر کرنے سے قبل کل کی تقریر کا پنجابی میں خلاصہ بیان فرمائیں گے۔ اس کے بعد حضور نے چند منٹ تک پنجابی میں کل کی تقریر کا خلاصہ بیان فرمایا۔ پھر بقیہ تقریر شروع کی۔
چونکہ یہ مسئلہ بہت نازک اور بہت اہم ہے اس لیے احباب اس وقت کا انتظار کریں جبکہ عنقریب یہ تقریر کتابی صورت میں شائع ہو گی۔ یہ ایسی تقریر ہے کہ جس سے لوگوں کے علم اور معرفت اور ایمان میں انشاء اللہ بہت ترقی ہو گی۔ دو بجے یہ تقریر ختم ہو گئی۔
(یہ تقریر قسط وار الفضل انٹر نیشنل کی زینت بن رہی ہے۔ مدیر)
مسٹر ساگر چند کی تقریر
حضور کی تقریر کے بعد دو تین منٹ کے لیے مسٹر ساگر چند بیرسٹر ایٹ لاء نے تقریر کی اجازت حضرت خلیفۃ المسیح سے چاہی اور انہوں نے سٹیج پر آ کر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنے کے بعد کہا کہ
قادیان کی مقدس زمین میں مجھے اتنے بھائیوں کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ کہ میں آپ صاحبوں کے سامنے کھڑا ہوں۔ مجھے ابتداء سے ہی مذاہب کے مطالعہ کا شوق تھا۔ اور میں نے سب مذاہب کا مطالعہ کیا ہے۔ میں یہ مانتا ہوں کہ تمام مذاہب میں کچھ نہ کچھ صداقتیں ہیں اور جو شخص اس بات کا انکار کرے وہ متعصب ہے۔ لیکن ایک بات ہے جو اس وقت احمدیہ سلسلہ کے سوا اور کسی مذہب میں مجھے نظر نہیں آئی۔ اور وہ وحی خدا کے سلسلہ کا جاری ہونا ہے۔ لوگوں نے کہا اور اب بھی کہتے ہیں کہ خدا پہلے بولتا تھا۔ اور اب وہ نہیں بولتا اب وہ اپنے کسی بندے کو اپنے قرب کی راہیں نہیں بتاتا۔ لیکن احمدیہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے۔ جو بتاتا اور دکھاتا ہے کہ خدا جیسا پہلے بولتا تھا۔ ویسا ہی اب بھی اپنے پیاروں بندوں سے بولتا ہے اور انہیں اپنے قرب کی راہیں آپ بتاتا۔ دعائیں قبول کرتا اور اپنے نشانات ظاہر کرتا ہے یہ ایسی بات ہے جو کسی اور مذہب میں مجھے نظر نہیں آتی میں نے یہ خود دعائیں کیں اور ان کو قبول ہوتے دیکھا اس لیے میں احمدی ہو گیا۔……
ایک انگریز عورت جو وہاں سے تعلق رکھتی تھی۔ مجھے ملی اس کا نام امینہ تھا۔ میں اسے مسٹر محمد صادق کے پاس لے آیا انہوں نے اسے سمجھایا وہ فوراً احمدی ہو گئی۔ اور خواجہ وغیرہ سے سخت ناراض ہوئی کہ انہوں نے مجھے کیوں حضرت احمدؑ کے حالات نہیں بتائے۔ اور مصر ہوئی کہ اس کا نام جو امینہ خواجہ صاحب نے رکھا ہے۔ اسے بدل کر اور رکھا جائے۔ چنانچہ اس کی خواہش کے مطابق اس کا نام بدل کر ‘‘احمدی بیگم’’رکھا گیا۔ وہاں خدا کے فضل سے ہمارے مبلغ کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔……
آپ لوگ یہ سن کر خوش ہوں گے کہ انگلستان میں اسلام ترقی پر ہے اور ان لوگوں میں اکثر وہ باتیں پائی جاتی ہیں جو اسلام کی تعلیم ہیں لیکن ایک وقت آئے گا کہ وہ ظاہر میں بھی مسلمان ہوں گے۔ امریکہ کے مشن کا ولایت پر بہت عمدہ اثر پڑے گا۔ کیونکہ انگریز دوسرے لوگوں کی تقلید کرتے ہیں ابتدا نہیں کیا کرتے۔ جب امریکہ کے لوگ اسلام میں داخل ہوں گے تو یہ لوگ بھی اسلام کو جلد جلد قبول کریں گے۔ کیونکہ یہ پہل کرنے میں اس لیے ڈرتے ہیں کہ ممکن ہے اس میں غلطی ہو۔
میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ آپ امریکہ اور انگلستان میں اسلام پھیلنے کے لیے دعا کریں۔ ایک دفعہ میں اور مسٹر فتح محمد سیال ایک پادری کو ملنے گئے۔ پادری نے مسٹر سیال کو کہا کہ میں نے آپ کی تقریر سنی ہے۔ ان تقریروں سے آپ انگلستان کو مسلمان نہیں بنا سکتے۔ مسٹر سیال نے کہا کہ بے شک میری تقریروں میں یہ بات نہیں لیکن میں آدھی آدھی رات کو اٹھ کر خدا سے جو دعائیں کرتا ہوں وہ یہاں کے لوگوں کو مسلمان بنائیں گی۔ پس آپ لوگ دعا کریں اور میرے کامیاب ہونے کے لیے بھی دعا کریں۔ کیونکہ میرا دو تین سال یہاں کام کرنے کے بعد ارادہ ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح کی اجازت سے امریکہ میں جا کر تبلیغ کروں۔
اس کے بعد جلسہ برخاست ہوا اور نماز ظہر و عصر جمع ہوئیں۔ اگرچہ جلسہ حضرت کی تقریر کے بعد ختم ہو گیا تھا اور اکثر حصہ مہمانوں کا روانہ ہو گیا تھا۔ مگر اعلان کیا گیا کہ جو احباب رہیں گے۔ ان کے لیے تقریروں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
چوتھے دن۔ 29 دسمبر کا دوسرا اجلاس
چنانچہ دوسرے اجلاس کی کارروائی زیر صدارت خان صاحب منشی فرزند علی صاحب فیروز پور شروع ہوئی۔ مولوی ظل الرحمٰن صاحب بنگالی نے تلاوت قرآن کریم کی۔
بعد ازاں اجلاس میں جناب قاضی محمد عبداللہ صاحب اور حکیم خلیل احمد صاحب نے تقاریر کیں جبکہ مفتی محمد صادق صاحب کا ایک مضمون جناب خان صاحب منشی فرزند علی صاحب نے جلسہ میں پڑھ کر سنایا۔
(الفضل قادیان 12؍جنوری 1920ء )
٭…الفضل قادیان کی اشاعت مورخہ5؍جنوری میں زیر عنوان ‘‘جلسہ سالانہ بابت1919ء کی مختصر کیفیت’’ تحریر کیا گیا:
‘‘اس دفعہ جلسہ سے کئی روز پیشتر بارش کا تھوڑا بہت سلسلہ شروع ہو جانے سے اندیشہ تھا۔ کہ کہیں خدا نخواستہ بلحاظ حاضرین کے ہمارے جلسہ میں کمی واقع ہو مگر باوجود اس روک کے اور باوجود امرتسر میں کانگرس اور مسلم لیگ وغیرہ کے جلسے ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کی سخت تکالیف کے احباب گذشتہ سالوں کی نسبت اب کے زیادہ تعداد میں دار الامان آئے جو اس بات کا ثبوت تھا کہ یہاں کا آنا اس لحاظ سے نہیں ہوتا۔ کہ کوئی موسم کی شگفتگی ہوئی ہے کہ لوگ ادھر چل پڑتے ہیں بلکہ یہاں لانے والی کوئی اور ہی کشش اور اَور ہی جذبہ ہے۔ ورنہ اگر ظاہری مہمانوں سے کوئی بات یہاں آمد کا موجب ہوتی۔ تو یہ بارش، یہ شدید سردی کا موسم اور یہ گاڑیوں کی مشکلات سخت روک ثابت ہوئیں پس یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کا احسان ہے۔ اور حضرت مسیح موعود کی صداقت کا معجزہ اور حضور کے خلیفہ ثانی کی خلافت حقہ کا نشان کہ ہماری جماعت کے لوگ تمام موانعات کو پائمال کرتے ہوئے گذشتہ سالوں کی نسبت زیادہ تعداد میں آئے۔
چونکہ بارش جلسہ کے ابتدائی دنوں میں بھی رہی اس لیے منتظمین کو بٹالہ سٹیشن پر مہمانوں کے لیے سواریوں کا انتظام کرنے، یہاںپہنچانے اور کھانا تیار کرنے میں بھی دقت ہوئی اور احباب کو بھی تکلیف اٹھانی پڑی۔جس کا ہمیں بہت افسوس ہے لیکن حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ نے منتظمین کی طرف سے جو معذرت کر دی تھی۔ امید ہے وہ پیش آمدہ تکالیف کے کافی طور پر تلافی کر دے گی۔ اس دفعہ جلسہ کے منتظم اعلیٰ مولوی سید سرور شاہ صاحب تھے جنہوں نے انتظام میں حتی الوسع کوشش کی۔ ’’
(الفضل قادیان 5؍جنوری1920ء صفحہ 1تا2)
٭…الفضل قادیان کی اشاعت مورخہ 5؍جنوری 1920ء میں جلسہ سالانہ کی مصروفیات کے حوالے مدینۃ المسیح کے عنوان سے تحریر کیا گیا:
‘‘خدا کے فضل و رحم کے ماتحت 25 دسمبر 1919ء سے لے کر 2 جنوری 1920ء تک جلسہ کی وجہ سے خوب چہل پہل رہی۔ ہزارہا احباب مختلف علاقہ جات کے تشریف لائے اور
زمین قادیان اب محترم ہے
ہجوم خلق سے ارض حرم ہے
کا نظارہ دکھا گئے۔ تا حال کسی قدر اصحاب باقی ہیں۔ اس دفعہ بارش کی وجہ سے مستورات کو اپنا جلسہ منعقد کرنے میں بہت رکاوٹ رہی۔ سالانہ جلسہ پر تشریف لانے والے اصحاب کا سرسری اندازہ چھے اور سات ہزار کے درمیان ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے 4 جنوری کے خطبہ جمعہ میں احباب کو وہ باتیں یاد رکھنے اور ان پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی۔ جو انہیں سالانہ جلسہ پر سنائی گئی ہیں۔
(الفضل5؍جنوری1920ءصفحہ1)
(مرسلہ : حبیب الرحمان زیروی ۔ ربوہ)