’’ابن سلطان القلم‘‘
نام کتاب: ‘‘ابن سلطان القلم’’
تالیف : میرانجم پرویز (مربی سلسلہ)
سن اشاعت: 2019ء
تعداد : ایک ہزار
ضخامت:280صفحات
سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سب سے بڑے فرزند ارجمندحضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کی سیرت و سوانح پر مشتمل حال ہی میں شائع ہونے والی ایک بہت ہی جامع، مفید اور پُرلطف کتاب احمدیہ لٹریچر میں بلاشبہ ایک خوبصورت اضافہ ہے۔
یہ کتاب ایک ایسے وجود کی داستانِ حیات ہے جو سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذریّت مبارکہ میں شامل تھا۔ ان کی زندگی کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آپ نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے اور اللہ اور اُس کے رسولؐ سے محبت، اُمّت مسلمہ کا درد اور خدمتِ انسانیت کا جذبہ آپ نے ورثے میں پایا تھا ۔ آپ کی سیرت وسوانح کو جمع کرنے کی فی الواقع بہت ضرورت تھی اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ آپ کا وجود کئی زاویوں سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر مُہرِ توثیق ثبت کرنے والا اور حضور علیہ السلام کی پاکیزہ سیرت کے کئی گوشوں کو بے نقاب کرنے والا تھا۔ علاوہ ازیں آپ کی سیرت کو بیان کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کیونکہ آپ اپنی ذاتی زندگی میں ایک انتہائی کامیاب اور باصلاحیت انسان تھے اور جہاں آپ اپنے عدل، حکمت عملی اور انتظامی صلاحیتوں کی بدولت دنیاوی میدان میں شاندار ترقیات کا سفر طَے کرتے ہوئے اعلیٰ مناصب پر فائز ہوئے وہاں آپ نے اپنے اخلاق، حُسنِ معاملہ اور اعلیٰ اقدار سے عوام و خواص کو اپنا گرویدہ کیے رکھا۔
پھر آپ کی سیرت اور ذکرخیر کو زندہ کرنے اور رکھنے کی ضرورت اس لیے بھی تھی کہ آپ اردو زبان و ادب کے میدان کے ایسے شہ سوار تھے جن کی گراں قدر تحریرات سے اُس دَور کے تمام معروف رسائل و اخبارات مستفید ہوتے رہے اور قارئین بھی آپ کے سلیس اور اچھوتے اندازِ بیان اور منفرد قوّتِ استدلال کے منتظر رہتے۔آپ کی تحریرات جہاں آپ کی غیرمعمولی ذہنی استعداد کی عکاسی کرتی ہیں وہاں سلطان القلم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شاندار اندازِ تحریر کا پرتَو بھی ہیں۔ آپ نصف صدی سے زائد عرصے تک اُفقِ ادب پر چھائے رہے لیکن قبولِ احمدیت کے بعد دنیا نے آپ کو یکسر فراموش کردیا۔ اس لیے ضروری تھا کہ آپ کی سیرت کے اس پہلو کو بھی طشت از بام کیا جاتا کیونکہ آج بھی ا کثر لوگ آپ کی سیرت کے اس پہلو سے ناواقف ہیں۔
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی پرورش مامور زمانہ کے زیرسایہ ہوئی اور آپ نے حضرت اقدسؑ سے چند کتب سبقا ًبھی پڑھیں۔ اسی قوّت قدسیہ کا اثر تھا کہ آپ کی زندگی نہایت بلند اخلاق سے مزیّن اور روحانی لذّات سے آشنا تھی۔ احمدیت کو باقاعدہ قبول کرنے سے پہلے بھی آپ حضور علیہ السلام کی صداقت اور احمدیت کی حقّانیت کے قائل ہوچکے تھے اور حضورؑ کے لیے بے مثال غیرت کا اظہار بھی کرتے تھے اگرچہ آپ کی زندگی کا خوبصورت ترین لمحہ وہ تھا جب آپ نے اپنے برادر خورد (سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ) کے دست مبارک پر بیعت کرتے ہوئے اپنے عظیم المرتبت والد محترم (سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام) کی صداقت کا باقاعدہ اقرار کیا اور اس طرح پیشگوئی مصلح موعود میں بیان فرمودہ خبر کہ ‘‘وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا’’کو بھی پورا کرنے والے بنے۔ پس یہ کتاب سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کا ایسا روشن باب ہے جسے مکرم میر انجم پرویز صاحب نےلمبے عرصے کی محنت شاقہ سے مستند حوالوں کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔ اس کتاب میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی زندگی کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ کی دل نواز شخصیت اور مدبّرانہ فکرو نظر کی نہایت عمدہ تصویر کشی کی گئی ہے۔ آئیے اس کتاب کے مضامین پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابھی پندرہ سولہ سال کی عمر کے ہی تھے جب آپؑ کی شادی اپنے ماموں مرزا جمعیت بیگ صاحب کی صاحبزادی حرمت بی بی صاحبہ سے ہو گئی۔ اُن سے آپؑ کے فرزند حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب 1853ء میں اور صاحبزادہ مرزا فضل احمد صاحب 1855ء میں پیدا ہوئے۔ مرزا فضل احمد صاحب کا عین جوانی میں انتقال ہوگیا۔ اُن کی کوئی اولاد نہیں تھی۔
صاحبزادہ مرزا سلطان احمدصاحب نے اگرچہ باقاعدہ طور پر تو تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن اردو کے علاوہ فارسی میں بھی آپ کی ادیبانہ شان تھی اور عربی کی اَدبیات پر بھی عبور حاصل تھا۔ انگریزی زبان سے بھی ضروریات زمانہ کے لحاظ سے بہت واقف تھے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ بچپن میں آپ نے حضرت مسیح موعودؑ سے بھی چند کتب سبقا ًپڑھی تھیں۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ مَیں کتابیں سرھانے رکھ کر سو جایا کرتا تھا، بہت محنتی نہ تھا لیکن سبق سمجھ لیا اور کچھ یاد بھی رکھا۔ حضرت مسیح موعودؑ میرا آموختہ سنا بھی کرتے تھے اور مَیں بھول بھی جاتا تھا مگر پڑھنے کے متعلق مجھ پر کبھی ناراض نہیں ہوئے اور نہ کبھی مارا۔
پھر آپ کے دادا محترم مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے آپ کو حضور علیہ السلام سے پڑھنے سے روک دیا کہ کہیں آپ بھی حضورؑ کے رنگ میں رنگین ہوکر صرف دین کے ہوکر نہ رہ جائیں۔ چنانچہ پھر آپ اپنے دادا سے پڑھتے رہے۔
مارچ 1884ء میں صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب نے تحصیل داری کا امتحان دینا چاہا اور اس موقعے پر آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں دعا کے لیے ایک رقعہ لکھ کر بھیجا۔ آپؑ نے وہ رقعہ پھینک دیا اور فرمایا ‘‘ہمیشہ دنیاداری ہی کے طالب ہوتے ہیں’’۔ اُسی وقت یہ الہام ہوا: ‘‘پاس ہو جاوے گا’’۔ جس شخص کے ہاتھ یہ رقعہ بھیجا گیا تھا اُس نے واپس آکر سارا واقعہ محترم صاحبزادہ صاحب کو بتایا۔ چنانچہ اسی طرح ہوا اور آپ امتحان میں پاس ہوگئے۔
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب جب ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کا امتحان دینے کے لیے لاہور تشریف لے گئے تو دوسرے امیدواروں نے آپ کا خوب مذاق اڑایا کیونکہ اُن کے نزدیک صاحبزادہ صاحب کسی ایسے امتحان میں بیٹھنے کے بھی لائق نہیں تھے۔ یہ باتیں سن کر آپ دل ہی دل میں کہنے لگے کہ میں حضرت والد صاحب کی خدمت میں دعا کی درخواست کرکے آیا ہوں اور آپ نے دعا کا وعدہ بھی کیا ہے، خدا کرے کہ میں کامیاب ہو جاؤں۔ انہی خیالات کے ہجوم میں آپ سو گئے تو خواب دیکھا کہ حضرت صاحب تشریف لائے ہیں اور آپ کا ہاتھ پکڑ کرایک کرسی پر بٹھا دیا ہے۔ اس خواب کی آپ نے یہ تعبیر فرمائی کہ میں ضرور کامیاب ہو جاؤں گا اور یہی بات آپ نے صبح امتحان سے قبل ہی تحدّی کے ساتھ مذاق اڑانے والوں سے بھی کہہ ڈالی۔ چنانچہ آپ بفضلہ تعالیٰ کامیاب ہوگئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی اولاد کو علم طب پڑھنے کی بطور خاص تاکید فرمایا کرتے تھے۔ حضرت مرزا سلطان احمدصاحب نے طب بھی پڑھی تھی لیکن اسے بطور پیشہ اختیار نہیں فرمایا۔ آپ دیوبند میں بھی پڑھتے رہے تھے اور وہیں سے نکل کر سرکاری نوکری بھی کرلی تھی۔ دہلی میں بھی سلسلۂ حصول تعلیم کے حوالے سے آپ کا قیام رہا۔ایک موقعے پر آپ نے کہا تھا کہ آپ نے شاہی طریقہ سے تعلیم نہیں پائی بلکہ طالب علمی کی ہے۔ کیونکہ وہ وقت بھی آیا کہ آپ دہلی کی کسی مسجد میں رہتے تھے اور تعلیم پاتے تھے۔ تاہم آپ کو بچپن ہی سے مطالعے اور کتب بینی کا بے حد شوق تھا اور یہ شوق آپ اپنے والد صاحب اور دادا صاحب کے کتابوں کے ذخیرے سے پورا کیا کرتے تھے۔
حضرت مسیح موعودؑ کو چونکہ دنیاوی اموال اور جائیدادوں سے کوئی غرض نہ تھی اور کاروبار اور جائیداد کے سب انتظامات آپؑ کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کے ہاتھ میں تھے۔ چنانچہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب اپنی ضروریات کے لیے اپنے تایا کی طرف ہی رجوع کرتے تھے اور اپنے والد صاحب سے بھی زیادہ تعلق اپنے تایا سے رکھتے تھے۔ وہ بھی آپ کو بیٹوں کی طرح عزیز رکھتے تھے۔ چنانچہ 9؍جولائی 1883ء کو جب وہ لاولد فوت ہوگئے تو اُن کی اہلیہ حرمت بی بی صاحبہ نے حضورؑ سے التجا کی کہ مرزا غلام قادر کے حصّے کی جائیداد مرزا سلطان احمد کے نام بطور متبنّٰی کرا دیں۔ حضورؑ نے اپنی بھاوج کی دل داری کی خاطر نصف جائیداد مرزا سلطان احمد صاحب کے نام کرادی اور اپنے نام نہیں کرائی۔ حالانکہ قانون کے مطابق وہ ساری جائیدار آپؑ کے نام منتقل ہوجانی تھی۔
حضرت مرزا سلطان احمدصاحب کی پہلی شادی نومبر 1884ء میں اُسی دن ہوئی تھی جس دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی دوسری اہلیہ یعنی حضرت امّ المومنین سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کو دلّی سے بیاہ کر قادیان لائے تھے۔ صاحبزادہ صاحب کی پہلی بیوی ایمہ ضلع ہوشیارپور کی رہنے والی تھیں۔ اُن سے حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحبؓ پیدا ہوئے۔ پھر پہلی بیوی کی زندگی میں ہی صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب نے مرزا امام الدین کی لڑکی خورشید بیگم سے نکاح ثانی کرلیا تھا۔ اس کے بعد اہلیہ اوّل جلد ہی فوت ہوگئیں۔
حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب 3؍ اکتوبر 1890ء کو پیدا ہوئے۔ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں ابتدائی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ تشریف لے گئے۔ اپنے دادا حضور یعنی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کرکے ‘صحابہ سے ملا گر مجھ کو پایا’ کے درجے پر فائز ہوئے۔ عملی زندگی میں آپؓ نے ایک لمبا عرصہ ایک محنتی، فرض شناس اور دیانت دار افسر کی حیثیت سے سرکاری ملازمت میں گزارا۔ 1945ء میں ADM کے اعلیٰ عہدہ سے ریٹائرہوکر آپؓ نے زندگی وقف کردی۔ قیام پاکستان کے بعد 16جولائی 1949ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے آپؓ کو صدر انجمن احمدیہ پاکستان کا ناظراعلیٰ مقرر فرمایا۔ اس عہدہ پر آپؓ 1971ء تک فائز رہے۔ اپنی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد مارچ 1930ء میں آپؓ کی شادی حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کی صاحبزادی محترمہ نصیرہ بیگم صاحبہ سے ہوئی جن کے بطن سے پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے پیدا ہوئے۔ آپؓ کے دونوں صاحبزادوں یعنی محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب اور محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کو خدمت دین کی غیرمعمولی توفیق عطا ہوئی اور دونوں ناظراعلیٰ صدرانجمن احمدیہ پاکستان رہے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحبؓ کا وجود باجود اپنے نہایت اعلیٰ اوصاف اور اہم دینی خدمات کے علاوہ اس لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کا ایک نشان تھا کہ حضورؑ کو بذریعہ خواب 1899ء میں آپ کے قبول احمدیت کا نظارہ یوں دکھایا گیا تھا کہ فرمایا: ‘‘ایک لڑکا ہے جس کا نام عزیز احمد ہے اور اس کے باپ کے نام کے سر پر سلطان کا لفظ ہے۔ وہ لڑکا پکڑ کر میرے پاس لایا گیا اور میرے سامنے بٹھایا گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ ایک پتلاسا لڑکا گورے رنگ کا ہے۔’’ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا عزیز احمد صاحبؓ کو 1906ء میں حضورؑ کے دست مبارک پر ہی بیعت کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ جب تائی صاحبہ نے آپؓ کی بیعت کا شکایت کے رنگ میں ذکر مرزا سلطان احمد صاحب سے کیا تو انہوں نے جواباً کہا کہ ہم سے تو اچھا ہی رہے گا، نمازیں تو پڑھے گا۔
حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کو بالطبع روحانیت سے بھی تعلق تھا۔ آپ خود بیان کرتے ہیں کہ مَیں جالندھر کے نواحی دیہات کے دورے پر تھا اور گھوڑے پر سوار ہوکر جا رہا تھا کہ اچانک مجھے زور سے آواز سنائی دی: ‘‘ماتم پرسی’’ اور اس کے ساتھ ہی مجھ پر شدید ہم و غم کی کیفیت طاری ہو گئی۔ چونکہ میرا زیادہ تعلق تائی صاحبہ سے تھا اس لیے میرا ذہن سب سے پہلے اُنھی کی طرف منتقل ہوا کہ شاید ان کی وفات ہو گئی ہو۔ لیکن معاً بعد مجھے خیال پیدا ہوا کہ تائی صاحبہ کا مقام اللہ تعالیٰ کے حضور اتنا بلند نہیں کہ اللہ تعالیٰ خود ان کے لیے ماتم پرسی کرے، چنانچہ مجھے یقین ہوگیا کہ حضرت والد ماجد وفات پا گئے ہیں اور وہی علو مرتبت کے اعتبار سے یہ مقام رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے اظہار تعزیت فرمائے۔ اس یقین کے پختہ ہونے پر گھوڑا تیز کرکے مَیں جالندھر شہر پہنچا اور سیدھا کچہری میں انگریز ڈپٹی کمشنر کے پاس جاکر درخواست دی کہ میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے اس لیے مجھے پانچ دن کی رخصت دی جائے۔ وہ میری درخواست پڑھ کر کہنے لگے کہ آپ کے والد صاحب مشہور خلائق شخصیت تھے، ان کی علالت کی کوئی خبر یا اطلاع شائع نہیں ہوئی۔ کیا آپ کو تار ملا ہے کہ ان کی وفات اچانک ہو گئی ہے۔ میں نے جواباً کہا کہ مجھے الہام ‘‘ماتم پرسی’’ ہوا ہے جس سے میں یقین کرتا ہوں کہ میرے والد صاحب وفات پاگئے ہیں۔ میری یہ بات سن کر وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ الہام وِلہام کوئی چیز نہیں، یہ محض آپ کا وہم ہے۔ پھر کہا میں رخصت دینے میں روک نہیں ڈالتا۔ اگر آپ چاہیں تو پانچ دن سے زیادہ رخصت لے لیں لیکن اطمینان رکھیں کہ آپ کے والد صاحب خیریت سے ہیں۔ پھر جب مَیں سفر کی تیاری کررہا تھا تو حضورؑ کی لاہور میں وفات اور جنازہ قادیان لے جانے کا تار بھی آگیا جس میں قادیان پہنچنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اس پر مَیں تار لے کر حجّت تمام کرنے دوبارہ کچہری گیا تو ڈپٹی کمشنر صاحب تار دیکھ کر حیرت زدہ ہو گئے اور منہ میں انگلی ڈال کرکہنے لگے کہ ‘‘یہ بات میری سمجھ سے بالا ہے۔’’
اس سے کئی سال قبل بھی جب حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کے برادر خورد صاحبزادہ مرزا فضل احمد صاحب کی وفات ہوئی تب بھی صاحبزادہ صاحب کو کشف میںایک پوسٹ کارڈ دکھایا گیا جس پر درج تھا: أَخُوْکَ ڈائیڈ (Died) یعنی تیرا بھائی فوت ہو گیا ہے۔
حضرت مرزا سلطان ا حمد صاحب نے 1913ء یا 1914ء میں سفر ولایت بھی کیا اور حج بیت اللہ اور زیارت روضۂ نبی کریمؐ سے بھی مشرف ہوئے۔
اگرچہ صاحبزادہ صاحب کو ‘‘خان بہادر’’ کا خطاب ملا ہوا تھا لیکن آپ اس خطاب کو اپنے لیے باعث شرف نہ سمجھتے تھے اور نہ ہی عام طور پر اپنے نام کے ساتھ یہ لکھا کرتے۔ ایک دفعہ کسی انگریز افسر نے پوچھا کہ آپ اپنے دستخطوں کے ساتھ ‘‘خان بہادر’’ کیوں نہیں لکھتے تو آپ نے جواباً کہا کہ یہ خطاب سرکار سے مجھے اب ملا ہے اور مرزا کا لقب مجھے اَبًا عَنْ جَدٍّ حاصل ہے۔ پھر ‘‘خان بہادر’’ کا خطاب مشروط ہے اور مرزا کا خطاب غیرمشروط۔ اس لیے میں وہی خطاب اپنے نام کے ساتھ لکھتا ہوں جو ہر حال میں میر ے نام کے ساتھ رہا ہے اور رہے گا۔
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے اپنی زندگی نہایت شرافت اور دیانت داری کے ساتھ بسر کی۔ آپ نے سرکاری ملازمت پٹواری کے عہدہ سے شروع کی اور درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کے عہدے تک پہنچے۔ اور قائم مقام حاکم ضلع یا ڈپٹی کمشنر کے فرائض بھی آپ نے انجام دیے۔ پنجاب کے اکثر اضلاع میں بحیثیت افسر محکمہ بندوبست فرائض بھی سرانجام دیے۔ گورنمنٹ کی طرف سے ریاست بہاولپور میں مشیر مال بنا کر بھی بھیجے گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کو افغانستان کی سفارت کی پیشکش بھی ہوئی لیکن آپ نے اسے قبول نہ کیا۔
آپ نے ہمیشہ اپنے فرائض بڑی محنت، ذہانت اور انتہائی دیانت داری سے سرانجام دیے اور جس جگہ بھی رہے نیک نام رہے۔ سادہ لباس، سادہ طبیعت، انکسار اور مروت آپ کے مزاج کا خاصہ تھا۔ جب ریاست بہاولپور کے وزیر بنا کر بھیجے گئے تو وہاں پہنچتے ہی نہایت اعلیٰ قسم کا سارا فرنیچر اور دیگر سازو سامان ایک کمرے میں مقفل کروا دیا اور اپنے رہنے کے لیے صرف ایک سادہ کمرہ منتخب کیا۔ لباس اور رہائش کی طرح آپ کھانا بھی سادہ کھاتے تھے۔ فرائض کی سرانجام دہی میں دیانت داری کا یہ عالم تھا کہ جب آپ بہاولپور میں وزیرمالیات اور ایک بااختیار حاکم تھے تو آپ کو نواب صاحب کی دادی صاحبہ کے ایک پروردہ خادم کی بدعنوانیوں کی شکایات ملنے لگیں۔ آپ نے تحقیق کرنے پر شکایات کو درست پایا تو بے دھڑک اس کو پکڑ کر حوالات میں بھجوا دیا۔ اِس پر اُس خادم کے ورثاء نے بیگم صاحبہ کے حضور دہائی دی۔ چنانچہ بیگم صاحبہ نے آپ کو اپنی ڈیوڑھی پر طلب کرکے پوچھا کہ تم نے ہمارے آدمی کو جیل کیوں بھیجا؟ آپ نے جواب دیا: حضور کے ہی حکم سے۔ انہوں نے پوچھا: وہ کیسے؟ آپ نے کہا کہ مجھے حضور کی ریاست کی طرف سے رعایا کے حقوق اور اُن کی جان و مال و عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ جب مجھ پر ثابت ہو گیا کہ وہ شخص رعایا کے لیے سبب زحمت ہے تو میں نے حضور کے ہی دیے ہوئے اختیارات سے کام لے کر اس کو سزا دے دی۔ اگر میں ایسا نہ کرتا تو اُس فرض کی بجا آوری میں کوتاہی ہوتی جس کے بجا لانے کے لیے مجھے مقرر کیا گیا ہے۔ بیگم صاحبہ اس جواب سے بہت خوش ہوئیں اور منہ چڑھے خادم نے اپنے کیے کی سزاپائی۔
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا دامن ہر موقعے پر ترغیب و تحریص کی آلائشوں سے پاک رہا۔ کئی بدنام علاقوں میں بھی آپ نے قانون کی عمل داری قائم کی اور اپنی ذات کو ہر قسم کی تہمت سے بچائے رکھا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جب برطانوی حکومت کے خلاف تحریکِ ترکِ موالات شروع ہوئی تو اُن دنوں حضرت صاحبزادہ صاحب گوجرانوالہ میں ڈپٹی کمشنر تھے۔ جب لاہور کے بعد گوجرانوالہ بھی ہنگاموں کی لپیٹ میں آگیا تو شدید بدامنی کے حالات پیدا ہوگئے۔ نہ صرف عوام نے آئینی حدود کو توڑدیا اور بعض سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچایا بلکہ ریلوے سٹیشن تو پورا جلا دیا۔ ایسے وقت میں آپ سے امن بحال کرنے کے لیے ہجوم پر گولی چلانے کو کہا گیا لیکن آپ نے کہا کہ میں ان معصوم بچوں اور ان بے خبر لوگوں پر گولی چلانے کا حکم نہیں دے سکتا۔ کیونکہ میرے نزدیک شورش کے ذمہ دار یہ نہیں کوئی اَور ہیں جو اِس مجمعے میں موجود نہیں۔ پھر آپ نے پُرجوش ہجوم کے سامنے ایسی سلجھی ہوئی تقریر کی کہ نفرت و غصہ کی آگ ٹھنڈی ہو گئی اور وہی جلوس مرزا سلطان احمد کی سرکردگی میں شہر کو واپس ہوا۔ جن کی زبانوں پر ‘‘انگریزمردہ باد’’ کے نعرے تھے، وہ اب ‘‘مرزا سلطان احمد زندہ باد’’ کے نعرے لگانے لگے۔ بعد میں گورنر پنجاب نے ایک ملاقات کے دوران صاحبزادہ صاحب سے شکوہ کیا کہ آپ گوجرانوالہ کا انتظام ٹھیک طور پر نہیں کرسکے۔ اس پر آپ نے جواب دیا کہ لاہور میں تو ‘یور ایکسی لینسی’ بہ نفس نفیس موجود تھے لیکن پھر بھی یہاں کے ہنگاموں کو نہیں روک سکے۔ اگر آپ یہاں پر ہی روک دیتے تو یہ ہنگامے گوجرانوالہ نہ پہنچتے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کو صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب سے انتہا درجے کی محبت و الفت تھی اور وہ اکثر حضرت مسیح موعودؑ کے سامنے آپ کی بعض کتب کی تعریف کیا کرتے تھے اور منشا یہ ہوتا تھا کہ حضورؑ کی نظرکرم صاحبزادہ صاحب کی طرف ہو جائے اور ان کے لیے دعا کریں۔ ایک دفعہ آپؓ نے اپنے معمول کے مطابق جب ذکر کیا تو حضورؑ نے فرمایا :‘‘مرزا سلطان احمد سے کہو کہ خدا سے صلح کرلے۔’’
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کو شروع ہی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بے حد عقیدت و شیفتگی تھی۔ آپ حضورؑ کی سچے دل سے عزت کرتے تھے اور شروع سے ہی اُن کی سچائی ا ور بزرگی کے قائل تھے۔ اگرچہ آپ کی روح تحریک احمدیت کو قبول کرچکی تھی مگر آپ کو اس کے اظہار و اعلان میں بہت تأمل تھا اور اس بات کا علم حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو بھی تھا۔ چنانچہ جون 1924ء میں حضورؓ نے آپ کے فرزند محترم مرزا رشید احمدصاحب کے خطبۂ نکاح میں ارشاد فرمایا کہ ‘‘ان کے خاندان میں اب ایک ہی وجود ایسا ہے جس نے ابھی تک اس ہدایت کو قبول نہیں کیا جو حضرت مسیح موعودؑ لائے۔ … جب سے میں نے ہوش سنبھالی ہے میں برابر ان کے لیے دعا کرتا رہتا ہوں کہ خداتعالیٰ ان کو ہدایت دے۔ مَیں سنتا رہتا ہوں کہ وہ احمدیت کو ہدایت کی راہ ہی خیال کرتے ہیں مگر کوئی روک ہے جس کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ خداتعالیٰ اس روک کو ہٹا دے۔ آمین’’
آخر یہ دعائیں مقبول ہوئیں اور اکتوبر 1928ء کے پہلے ہفتے میں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے احمدیت قبول کرنے کا اعلان شائع کروادیا۔ اور دوسال بعد یعنی 25؍دسمبر 1930ء کو حضرت مصلح موعودؓ کی دستی بیعت کی توفیق پائی۔ حضورؓ ازراہ شفقت خود اپنے بڑے بھائی کے گھر تشریف لے گئے۔ آپ کی بیعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پیشگوئی جو موعود فرزند کے بارہ میں تھی کہ ‘‘وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا’’ پوری ہوئی۔
مرزا سلطان احمد صاحب کو بھی مدتوں قبل بذریعہ رؤیا یہ دکھایا گیا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کھڑے ہیں اور وہاں ایک جگہ پر چار کرسیاں بچھی ہیں۔ حضورؑ نے آپ سے کہا کہ ایک کرسی پر تم بیٹھ جاؤ۔
حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کی وفات کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍جولائی1931ء میں فرمایا:
‘‘حضرت مسیح موعودؑ کا ایک الہام یعنی ہم تیرے متعلق ایسی تمام باتوں کو جو تیرے لیے شرمندگی یا رسوائی کا موجب ہوسکیں مٹا دیں گے۔ اس الہام کو میں دیکھتا ہوں کہ ان عظیم الشان کلماتِ الٰہیہ میں سے ہے جو متواتر پورے ہوتے رہتے ہیں اور جن کے ظہور کا ایک لمبا سلسلہ چلا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق جو اعتراض کیے جاتے تھے ان میں سے ایک اہم اعتراض یہ بھی تھا کہ آپؑ کے رشتہ دار آپؑ کا انکار کرتے ہیں اور پھر خصوصیت سے یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ آپؑ کا ایک لڑکا آپؑ کی بیعت میں شامل نہیں۔ یہ اعتراض اس کثرت کے ساتھ کیا جاتا تھا کہ جن لوگوں کے دلوں میں سلسلہ کا درد تھا وہ اس کی تکلیف محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ میں دوسروں کو تو نہیں کہہ سکتا لیکن اپنی نسبت میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے متواتر اور اس کثرت سے اس امر میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں کہ میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ہزار ہا دفعہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہوگی اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں، بغیر ذرّہ بھر مبالغہ کے، بیسیوں دفعہ میری سجدہ گاہ آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ اس وجہ سے نہیں کہ جس شخص کے متعلق اعتراض کیا جاتا تھا وہ میرا بھائی تھا۔ بلکہ اس وجہ سے کہ جس شخص کے متعلق اعتراض کیا جاتا تھا وہ حضرت مسیح موعودؑ کا بیٹا تھا اور اس وجہ سے کہ یہ اعتراض حضرت مسیح موعودؑ پر پڑتا تھا۔ میں نے ہزاروں دفعہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور آخر کار اللہ تعالیٰ نے اس کا نتیجہ یہ دکھایا کہ مرزا سلطان احمد صاحب جو ہماری دوسری والدہ سے بڑے بھائی تھے اور جن کے متعلق حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی وفات کے بعد عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ان کے لیے اب احمدیت میں داخل ہونا ناممکن ہے، احمدی ہوگئے ۔’’
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اردو کلاس میں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ‘‘حضرت مسیح موعودؑ کی دعائیہ نظموں میں ان کا نام نہیں آتا اس کی کیا وجہ ہے؟ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام الہام میں چھپا دیا تھا۔ مصلح موعود کے متعلق الہام یہ ہوا تھا کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا۔ تین بھائی تھے اور یہ چوتھے ہو گئے۔ پیشگوئی اس میں یہ تھی کہ جب تک حضرت مصلح موعودؓ خلیفہ نہیں ہوں گے اس وقت تک یہ بیعت نہیں کریں گے ۔ حضرت مصلح موعودؓ تین کو چار کرنے والے بنے۔ مرزاسلطان احمد صاحب بیعت نہیں کرتے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ان کے دل میں بہت احترام تھا۔ سچا کہتے تھے مگر بیعت نہیں کرتے تھے۔ لوگوں کو بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ بیعت کیوں نہیں کرتے اور ان کو بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بیعت کیوں نہیں کررہا۔ یہ کہا کرتے تھے کہ میرے اعمال اتنے اچھے نہیں ہیں کہ میں اس باپ کی طرف منسوب ہوں۔ اس لیے کہ ان کی طبیعت میں ایک انکسار تھا۔ ہمیشہ اپنے آپ کو چھوٹا کہتے تھے۔ بہت سادہ مزاج، بہت کثرت سے لوگوں پر احسان کیے ہوئے ہیں۔’’
قبول احمدیت سے قبل بھی حضرت صاحبزادہ صاحب حضرت مصلح موعودؓ کا بے حد احترام کرتے تھے۔ ایک بار چند متعصب لوگوں نے آپ کو غصہ دلانے کے لیے بتایا کہ آپ کی زمین کے دو چھوٹے ٹکڑے میاں محمود آپ کی اجازت کے بغیر زیر کاشت لے آئے ہیں تو آپ اُن لوگوں پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا: ‘‘فوراً یہاں سے چلے جاؤ۔ میاں محمود میرے بھائی ہیں۔ اگر وہ میرے مکان کی چھت پر بھی ہل چلوادیں تو بھی میں ان سے اختلاف نہیں کروں گا۔’’
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد مخالفین نے یہ کوشش شروع کی کہ کسی طرح صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کو حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کی اولاد کی مخالفت پر آمادہ کیا جائے۔ اُن دنوں میں آپ نے ایک دوست کے نام خط تحریر کرتے ہوئے اپنے جن جذبات کا اظہار فرمایا وہ آپ کی قلبی کیفیات کے آئینہ دار ہیں۔ آپ کا یہ خط پیسہ اخبار میں بھی شائع ہو گیا تھا۔ آپ نے لکھا کہ‘‘… میری رائے میں جو دین یہ سکھاتا ہے کہ باپ کی بے عزتی اور بے توقیری کی جائے اور باپ کے پس ماندگان کے ساتھ فساد کیا جائے وہ کفر اور ارتداد سے بھی بدتر ہے۔ اگر ایسے شرم ناک دین کی وجہ سے بہشت بھی مل سکے تو میری رائے میں وہ دوزخ سے بھی بدتر ہے۔ لعنتی ہے وہ بیٹا اور کم بخت ہے وہ لڑکا جو باپ کی میت کو خراب کرے اور چھوٹے بھائیوں سے ناحق الجھے۔ … قادیان کی جماعت خدا کے فضل و کرم سے بمقابلہ میرے ہزاروں درجہ نیک، متقی، عامل شریعت، شب بیدار اور پرستار خدائے لایزل ہے اور میرے اعمال آپ خوب جانتے ہیں کیا ہیں۔ کیا باوجود ان اعمال کے ایسی جماعت کی مخالفت کر سکتا ہوں۔ لوگ انہیں کافر سمجھیں اور قابلِ دار۔ وہ مجھ سے حد درجہ نیک اور قابل عزت ہیں…’’۔
حضرت صاحبزادہ صاحب جب میانوالی میں مال افسر تھے تو آپ کے پاس قادیان کے دو احمدی دوست بطور خدمت گار رہتے تھے۔ یہ آپ کو مجبور کرتے تھے کہ بیعت کرلی جائے۔ بعض اوقات صاحبزادہ صاحب اُن کے اصرار پر چِڑ بھی جاتے تھے مگر یہ باز نہیں آتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ان کے علاوہ اَور بھی بہت سے دوست مجھے بیعت کرنے کے لیے کہتے رہتے تھے مگر میرا ان سب کو یہی جواب تھا کہ میں حضرت والد صاحب کو خوب جانتا ہوں وہ بے شک اللہ تعالیٰ کے مُرسل ہیں مگر میری حالت ایسی نہیں کہ بیعت کو نبھا سکوں۔
حضرت صاحبزادہ صاحب حضرت مسیح موعودؑ کی شان میں ذرا سی گستاخی بھی پسند نہ فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ لاہور میں پنجاب کے سینئر افسران کی دعوت تھی جس میں بشپ آف لاہور نے غالباً اس خیال سے کہ آپ بھی حضورؑ کے مخالفین میں شامل ہیں، حضورؑ کے خلاف زبان درازی کرنی چاہی۔ آپ نے اُنہیں دو ایک بار ایسا کرنے سے روکا لیکن وہ باز نہ آئے۔ جس پر آپ نے کھانے سے بھری ہوئی پلیٹ اُنہیں دے ماری۔
جب حضرت مرزاعزیز احمد صاحبؓ علی گڑھ کالج میں زیر تعلیم تھے تو کالج میں طلبہ نے سٹرائیک کی۔ کسی نے حضورؑ کو بتایا کہ آپؓ بھی سٹرائیک میں شریک تھے۔ چونکہ یہ امر سلسلہ کی تعلیم کے خلاف تھا اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپؓ کو خارج از بیعت کر دیا۔ اس پر آپؓ نے ایک معافی نامہ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں ارسال کیا جو دراصل حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر اپنے بیٹے کو دیا تھا اور کہا تھا کہ اس کی نقل کرکے اپنے دستخط کے ساتھ حضرت اقدسؑ کی خدمت میں بھجوادو۔ چنانچہ آپؓ نے ایسا ہی کیا۔ اس معافی نامہ کے جواب میں حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ ‘‘ہم وہ قصور معاف کرتے ہیں۔ آئندہ اب تم پرہیزگار اورسچے مسلمان کی طرح زندگی بسر کرو اور بُری صحبتوں سے پرہیز کرو۔ بُری صحبتوں کا انجام آخر بُرا ہی ہوا کرتا ہے۔’’
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی شکل و شباہت بہت کچھ حضرت مسیح موعودؑ کے مشابہ تھی اور کچھ لکھا ہوا پڑھتے وقت گنگنانے کی آواز حضرت مسیح موعودؑ کی آواز سے بالکل ملتی تھی۔ آپ نہایت متواضع اور وسیع الاخلاق انسان تھے۔ قوتِ تحریر اور زور ِقلم آپ نے ورثے میں پایا تھا۔
اگرچہ مرزا سلطان احمد صاحب خلافت اولیٰ میں بیعت سے محروم رہے تھے تاہم حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے بلند روحانی مقام سے آپ پوری طرح آگاہ تھے۔ چنانچہ حضرت مرزا عزیز احمد صاحبؓ کی شادی ہوئی اور بارات دلہن لے کر واپس قادیان پہنچی تو صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ دلہن کو پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے پاس سلام اور دعا کے لیے لے جاؤ پھر گھر لانا۔
جب خواجہ کمال الدین صاحب نومبر 1914ء میں لندن سے واپس ہندوستان آئے تو اتفاقاً حضرت مرزا سلطان احمد صاحب سے بھی اُن کی ملاقات ہوگئی۔ خلافتِ ثانیہ کا دَور شروع ہوچکا تھا۔ خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ درحقیقت حضرت مسیح موعودؑ کی جانشینی اور خلافت کے حق دار تو آپ ہیں۔ آپ لاہور چلیں اور خلافت کا اعلان فرمائیں اور ہم سب آپ کی بیعت کریں گے۔آپ نے ہنس کر جواب دیا کہ میں تو ابھی احمدی بھی نہیں، میرا خلافت کا کیا حق ہے؟
جب حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحبؓ نے اپنی ملازمت شروع کی تو حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب نے چند باتیں انہیں بطور نصیحت بیان فرمائیں۔ مثلاً آپ نے فرمایا کہ وہ بات جس کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ تم کبھی اس کے مرتکب نہ ہوگے یعنی رشوت نہیں لوگے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ اگر کوئی شخص تمہارے پاس آئے تو اسے انتظار نہ کروانا۔
حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب میں دینی غیرت اس قدر تھی کہ ایک دفعہ ایک انگریز افسر نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے خلاف کوئی بیہودہ گوئی کی۔ حضرت مرزا صاحب نے اسے کہا: دوعورتیں ہیں جن پر الزام تراشی کی جاتی ہے ایک وہ تھی جو کنواری ہوتے ہوئے حاملہ ہوگئی اور ایک شادی شدہ ہوکر بھی حاملہ نہ ہوئی۔ اس جواب پر وہ انگریز افسر شرمندہ ہوگیا۔
زیرنظر کتاب کے ایک باب میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی بیان فرمودہ روایات کو بھی جمع کردیا گیا ہے جن سے سیرت حضرت مسیح موعودؑ کے کئی پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔
حضرت صاحبزادہ صاحب کی زبان و ادب کے لیے خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ محسنینِ اردو میں آپ کا نام نمایاں طور پر سامنے آتا ہے۔ اردو زبان کو فروغ دینے کے لیے آپ نے تقریباً ان تمام ذرائع کو استعمال کیا جو اُس وقت موجود تھے۔ قلمی خدمات کے علاوہ اشاعت و ترویج کے لیے قلمی جواہر پاروں کو اپنی جیب سے روپیہ خرچ کرکے شائع کیا اور ملک کے مختلف طبقوں تک اس کی رسائی کا سامان بہم پہنچایا۔
آپ کو ذوقِ شعر و سخن وراثت میں ملا تھا۔آپ خود بھی شعر کہتے تھے۔ آپ کی منظومات و غزلیات پر مشتمل ایک کتاب ‘‘چند نثری نظمیں’’ کے عنوان سے شائع شدہ ہے۔ آپ کے شعری ذوق کی وسعت و عظمت اور گہرائی کا اندازہ آپ کے ان سینکڑوں مضامین سے بخوبی ہوسکتا ہے جو آپ نے زبان و ادب اور شعر کے متعلق تحریر کیے ہیں۔ علاوہ ازیں آپ نے ‘‘فن شاعری’’ کے عنوان سے ایک انتہائی شاندار کتاب تحریر کی جس میں فن شعر پر فلسفیانہ تنقید و تبصرہ کیا ہے۔
حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنی شاندار ذاتی لائبریری جماعت کو پیش کردی تھی جو بعدازاں خلافت لائبریری میں شامل کردی گئی۔ آپ نے قریباً 60کتب اور سینکڑوں مضامین تحریر فرمائے۔آپ کی چند کتب کا مختصر تعارف بھی کتاب ‘‘ابن سلطانُ القلم’’ کی زینت ہے۔
آپ کی نگارشات پر اپنوں اور غیروں نے دل کھول کر دادتحسین کے کلمات کہے ہیں۔ مثلاً محترم نسیم سیفی صاحب مدیر الفضل ربوہ لکھتے ہیں کہ اگرچہ یہ بھی علمی تبحر کی دلیل ہے کہ کسی مصنف نے ایک ہی موضوع پر متعدد کتب تصنیف کی ہوں۔ لیکن یہ کہ کوئی مصنف ایک سے زیادہ موضوعات پر ایک ہی جیسی قدرت اور روانی و سلاست کے ساتھ قلم اٹھا سکے، بہت ہی کم دیکھنے میں آتی ہے اور جس مصنف میں یہ بات پائی جاتی ہو اس کے تبحر علمی کا تو پھر کیا ہی کہنا۔ مرزا سلطان احمد صاحب نے مذہبیات پر قلم اٹھایا تو نہایت بیش قیمت جواہرپارے یادگار چھوڑے۔ اخلاقیات پر لکھا تو یوں محسوس ہوا کہ گویا اخلاقیات آپ کا خاص موضوع ہے۔ فلسفہ کے متعلق گوہرفشانی کی تو فلاسفروں کو دنگ کردیا۔ ان سب باتوں سے مختلف لیکن وہ نہایت ہی اہم مضمون جن کے ساتھ مسلمانوں کی بہبود وابستہ تھی ان پر بھی لکھا مثلاً زمیندارہ اور بنکاری وغیرہ۔
٭…… رسالہ ‘‘ادبی دنیا’’ کے ایڈیٹر، شمس العلماء احسان اللہ خاں تاجور نجیب آبادی نے اپنے رسالے میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی تصویر دے کر لکھا کہ ‘‘دنیائے ادب اس ماہ اردو کے نامور، بلند نظر اور فاضل ادیب خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب سے بھی محروم ہوگئی۔ آپ نہایت قابل انشاء پرداز تھے۔ اردو کا کوئی حصہ ان کی رشحات قلم سے محروم نہ رہا ہو گا۔ … اردو زبان کے بہت سے مضمون نگاروں نے ان کی طرزانشاء کو سامنے رکھ کر لکھنا سیکھا۔ افسوس کہ ایسا ہمہ گیر و ہمہ رس انشاء پرداز موت کے ہاتھوں نے ہم سے چھین لیا۔ … اردو میں بیش قیمت لٹریچر آپ نے اپنی یادگار کے طور پر چھوڑا ہے۔ علم اخلاق پرآپ کی کتابیں اردو زبان کی قابل قدر تصانیف میں سے ہیں۔’’
٭……انجمن حمایت اسلام لاہور کے ترجمان ‘‘حمایت اسلام’’ نے اپنی 9جولائی 1931ء کی اشاعت میں لکھا: ‘‘خان بہادر صاحب مرحوم نے علم و ادب پر جو احسانات کیے ہیں وہ کبھی آسانی سے فرمواش نہیں کیے جا سکتے۔ ان کے شغفِ علمی کا اس امر سے پتہ چل سکتا ہے کہ وہ ملازمت کی انتہائی مصروفیتوں کے باوجود گراں بہا مضامین کے سلسلے میں پیہم جگرکاری کرتے رہے۔ ’’
٭…… محمد عالم صاحب ایڈیٹر ‘‘العالم’’ لکھتے ہیں: ‘‘العالم کے عنوان کی تحت میں جو مضمون آپ کے پیش نظرہے، یہ ہمارے محترم کرم فرما جناب مرزا سلطان احمد خاں صاحب اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کا نتیجہ فکر ہے جو ایک کہنہ مشق اور شہرہ آفاق نثرنگار ہیں۔ آپ کی وسعت نظر اور تحقیق ادبیات مسلم ہے اور اس دعویٰ کے ثبوت کے لیے ان کا مندرجہ ذیل محققانہ مضمون کافی ہے۔ ہندوستان کا کوئی ایسا رسالہ نہیں جس کو آپ کی قلمی اعانت کا فخر حاصل نہ ہو… آپ کے فلسفیانہ مضامین کی شہرت، عالمانہ قابلیت اور قوت استدلال جس قدر مسلّم ہے وہ کسی تشریح مزید کی محتاج نہیں۔ فنِ زراعت سے آپ کو خاص دلچسپی ہے جس میں آپ نے کئی ایک کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔ کارکنان تعلیم کے لیے آپ کا یہ وصف قابل تقلید ہے کہ باوجود سرکاری فرائض کی بوجہ احسن ادائیگی کے، آپ کئی ایک اخبار و رسائل میں متواتر اور مسلسل بیش قیمت علمی مضامین لکھتے اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ مزیدبرآں رکھتے ہیں۔ مدینہؔ کانفرنس ، فنونؔ لطیفہ وغیرہ آپ کی عالی قدر علمی یادگاریں اردو لٹریچر میں بیش قرار اضافہ کررہی ہیں۔’’
٭……حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے پیدا کردہ شاندار لٹریچر سے تاریخ ادب میںجو بیش بہا اضافہ ہوا اُس حوالے سے جناب ڈاکٹر حافظ قاری فیوض الرحمٰن (Ph.D) اپنی کتاب ‘‘معاصرین اقبال’’ (مطبوعہ 1993ء) میں لکھتے ہیں کہ مولانا ابوالکلام آزاد، خواجہ حسن نظامی، مفتی کفایت اللہ اور اکبرالٰہ آبادی ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ مزید تحریر کرتے ہیں کہ‘‘مرزا سلطان احمد کو مسلمانوں کے رفاہی کاموں سے بڑی دلچسپی تھی۔ وہ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیتے تھے۔ اقبال سے ان کی پہلی ملاقات انجمن ہی کے جلسوں میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد علامہ اقبال اور ان میں دوستانہ تعلقات قائم ہوگئے۔ 1916ء میں انجمن کے ایک اجلاس کی دوسری نشست کی صدارت انہوں نے کی جس میں علامہ اقبال نے شمع و شاعردو نشستوں میں پڑھی۔’’
٭……لسان العصرجناب اکبر حسین اکبر الٰہ آبادی آپ کے کس درجہ مداح تھے؟ اس کا اندازہ اُن مکتوبات سے ہو سکتا ہے جو انہوں نے حضرت صاحبزادہ صاحب کے نام رقم فرمائے اور جنہیں آپ نے قادیان سے ‘‘مکتوبات اکبر’’ کے نام سے شائع کردیا۔ ایک مراسلہ میں اکبر الٰہ آبادی نے لکھا:‘‘آپ کی کثرت معلومات اور زوردار قلم اور بلند خیالی اور عارفانہ طبیعت آپ کے لیے بڑی نعمتیں ہیں۔’’
ایک دوسرے مکتوب میں تحریر کیا:‘‘میں آپ کو نیاز نامہ لکھنا چاہتا تھا۔ ایک مضمون تصوّف کی نسبت بہت اچھا تھا اور حال میں کسی اخبار میں آپ کا ایک عمدہ مضمون دیکھ کر آپ کے ثبات قدم اور صحیح الخیالی پر خوش ہوا تھا۔ اس کی داد دینی تھی اگرچہ آپ کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ جس طرح ایک تندرست جوان اپنی تندرستی کا احساس راحت کے ساتھ کرتا ہے اسی طرح آپ ایسا ایک صحیح الخیال فلاسفر اپنے خیالات کی لذّات سے متمتع ہوتا ہے مدح ہو یا نہ ہو۔ آپ کی تصنیفات حال میں کتاب ‘النساء فی الاسلام’ نہایت عمدہ کتاب ہے۔ قومی اور مذہبی لٹریچر میں نہایت قیمتی اضافہ ہے۔ اس لائق ہے کہ انگریزی میں ترجمہ ہو۔’’
ایک گرامی نامہ کا آغاز ہی ان الفاظ سے کیا:‘‘آپ کی تصانیف کا کیا پوچھنا نہایت واضح، قرآن کے موافق، مذاق اسلامیہ کے مطابق۔ اللہ جزاءِ خیر دے۔’’
٭……رسالہ ‘‘سیاست جدید’’ کانپور لکھتا ہے: ‘‘بیسویں صدی کے شروع کے بیس سالوں میں اردو کے کسی بھی قابل ذکر رسالے کو اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ اس کے مضمون نگاروں میں ایک نام مرزا سلطان احمد کا ضرور نظر آئے گا۔ عمومی، علمی و فلسفیانہ موضوعوں پر قلم اٹھاتے تھے۔ ان کے مضامین عام اور عوامی سطح سے بلند اور سنجیدہ مذاق والوں کے کام کے ہوتے تھے۔ رسالہ الناظرؔ مشہور زمانہ کانپور۔ ادیبؔ الہ آباد۔ مخزن لاہور۔ پنجاب۔ لاہور وغیرہ میں ان کی گلکاریاں نظر آتی تھیں۔ رفتہ رفتہ اردو والوں نے انہیں بالکل ہی بھلادیا۔ ان کے قلم سے چھوٹی بڑی بہت سی کتابیں نکلی تھیں۔ جن کی میزان چالیس درجن سے کم نہ ہوگی۔ کسی کتاب کو ان کے خصوصی طرز تحریر کے باعث قبولیت عام نصیب نہ ہوئی اور اب جبکہ پاکستان کے قیام کے بعد اس سرزمین میں اردو کی خدمت ہورہی ہے اور بہت پرانے مصنفوں اور مؤلفوں کی کتابیں جوگمنام اور مثل گمنام کے ہوچکی تھیں وہاں بڑے آب و تاب سے چھاپی جا رہی ہیں۔ ان کے ذخیرہ تصانیف کی طرف کسی کو بھی تاحال توجہ کی توفیق نہیں ہوئی۔’’
٭…… رسالہ ‘‘نیرنگ خیال’’(مئی جون 1934ء)لکھتا ہے: ‘‘اردو زبان کا وہ زبردست فلسفی، مضمون نگار اور بلند پایہ مصنف جو قریباً نصف صدی تک اردو کی ادبی دنیا پر چھایا رہا اور جس کے زمانہ میں اردو کا کوئی ادبی اور علمی رسالہ اپنی ابتدا نہیں کیا کرتا تھا اور نہ کر سکتا تھا جب تک اپنے قلمی معاونین کی فہرست میں بکمال امتیاز واختصاص و افتخار مرزا سلطان احمد مرحوم کا نام سرِلوح درج نہ کرلیتا ہو۔’’
قارئین کرام! اگرچہ کوشش کی گئی ہے کہ زیرنظر کتاب ‘‘ابن سلطانُ القلم’’ کے تمام تر پہلو ؤںکا احاطہ کیا جاسکے تاہم اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرتے ہوئے عرض ہے کہ یہ کتاب ہماری ایمان افروز تاریخ اور صداقتِ احمدیت کا ایسا باب ہے جس کا مطالعہ ہمارے ایمان، ایقان اور علم میں ترقی کا باعث بنے گا ۔ نیز اس مضمون سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دنیاوی لحاظ سے بلند مراتب حاصل کرنے والے بھی اگر اپنے ضمیر کی آواز پر لبّیک کہیں تو اُن کے لیے بھی مامور زمانہ کے سامنے سرتسلیم خم کیے بِنا کوئی چارہ نہیں رہتا۔
………٭٭………٭٭٭٭………٭٭………