معجزات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا مختصر تذکرہ (قسط اوّل)
اللہ تعاليٰ کي يہ قديم سے سنت رہي ہے کہ اپنے مقرب بندوں خصوصاً انبياء کي صداقت اور تائيد کے ليے بعض ايسے نشانات کا اظہار فرماتا ہے جوکہ معجزات اپنے اندر رکھتے ہيں اور ايسے طور پر ظاہر ہوتے ہيں جن ميں انساني عمل دخل کا ہونا بعيد ہوتا ہے ليکن يہ بات بھي ياد رہے کہ معجزات خدا تعاليٰ کي سنت سے باہر نہيں ہوتے ۔مثلاً حضرت عيسيٰ ؑکي طرف مردوں کو زندہ کرنا يا رجوع بعد الموت کے معجزات منسوب کيے جاتے ہيں جو کہ سراسر جھوٹ اور قصے کہانياں ہيں۔يہ بات بھي سچ ہے کہ حضرت عيسيٰ ؑ باقي انبياء کي طرح روحاني طور پر مردہ لوگوں کو زندہ کيا کرتے تھے۔ يہ بات بھي قابل غور ہے کہ انساني عقل قصے کہانيوں اور افسانوں کي طرف جلدي راغب ہوتي ہے جس ميں زبان کو مسالحہ دار کرکے قصہ گوئي کي گئي ہو ليکن اگر اس قسم کے معجزات کي کوئي حقيقت ہوتي تو ہمارے پيارے آقامحمد رسول اللہ ﷺ نے سب سے زيادہ مردے زندہ کيے ہوتے جو کہ سالہا سال سے قبروں ميں ہوتے يا جن کي ہڈياں تک خاک ميں مل گئي ہوتيں۔ اس قسم کا معجزہ تو دُور رہا جب کفار مکہ نے آپ ﷺ کے آسمان پر جا کر کتاب کے ساتھ نازل ہونے کا استفسار کيا تو خدا تعاليٰ نے فوراً کلام کيا کہ تو ان سے کہہ دے ميں صرف ايک رسول ہوں جو خدا تعاليٰ کي سنت کے بر خلاف کوئي کارنامہ دکھا نہيں سکتا۔
جيسا کہ اللہ تعاليٰ قرآن کريم ميں فرماتا ہے :
وَقَالُواْ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعًا أَوْ تَكُونَ لَكَ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْأَنْهَارَ خِلاَلَهَا تَفْجِيرًا أَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا أَوْ تَأْتِيَ بِاللّٰهِ وَالْمَلَآئِكَةِ قَبِيلاً أَوْ يَكُونَ لَكَ بَيْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقٰى فِي السَّمَاءِ وَلَن نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتَّى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتَابًا نَّقْرَؤُهُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلاَّ بَشَرًا رَّسُولاً۔
ترجمہ: اور وہ (کفّارِ مکّہ)کہتے ہيں کہ ہم آپ پر ہرگز ايمان نہيں لائيں گے يہاں تک کہ آپ ہمارے ليے زمين سے کوئي چشمہ جاري کر ديں يا آپ کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا کوئي باغ ہو تو آپ اس کے اندر بہتي ہوئي نہريں جاري کرديں يا جيسا کہ آپ کا خيال ہے ہم پر (ابھي)آسمان کے چند ٹکڑے گرا ديں يا آپ اﷲ کو اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لے آئيں يا آپ کا کوئي سونے کا گھر ہو (جس ميں آپ خوب عيش سے رہيں)يا آپ آسمان پر چڑھ جائيں، پھر بھي ہم آپ کے (آسمان ميں)چڑھ جانے پر ہرگز ايمان نہيں لائيں گے يہاں تک کہ آپ (وہاں سے)ہمارے اوپر کوئي کتاب اتار لائيں جسے ہم (خود) پڑھ سکيں۔تو کہہ دے کہ ميرا رب پاک ہے ميں تو ايک انسان (اور) اﷲ کا بھيجا ہوارسول ہوں (بني اسرائيل:94-91)
معجزہ کے لُغوي معني
لفظِ معجزہ کا مادّۂ اِشتقاق :عَجِزَ، يَعْجَزُ عجْزًاہے، جس کے معني :‘‘کسي چيز پر قادرنہ ہونا’’، ‘‘کسي کام کي طاقت نہ رکھنا’’يا ‘‘کسي اَمر سے عاجز آ جانا’’يا کسي کام کي حقيقت کا پردہ ميں ہونا يا اصل حصہ پوشيدہ ہوناوغيرہ ہيں۔ محاورۂ عرب ميں کہتے ہيں :عَجِزَ فُلَانٌ عَنِ الْعَمَلِ ’فلاں آدمي وہ کام کرنے سے عاجز آ گيا‘۔
عربي زبان کي مشہور لُغت منجد ميں اس کي مثال يوں دي گئي ہے کہ
’’اي کبر و صار لا يستطيعہ فھو عاجز‘‘
يعني اُس کام کا بجا لانا مشکل بھي ہے اور وہ اُس کام کو کرنے کي اِستعداد بھي نہيں رکھتا …اُسے رُو بہ عمل لانے کي بنيادي صلاحيت اُس ميں موجود نہيں، اِس ليے وہ يہ کام کرنے سے عاجز ہے۔
امر خارق العادة يعجز البشر عن أن يأتوا بمثله.
معجزہ اُس خارق العادت چيز کو کہتے ہيں جس کي مِثل لانے سے فردِ بشر عاجز آ جائے۔ (المنجد :488)
معجزہ کے متعلق حضرت صاحبزادہ مرزا بشير احمد صاحبؓ فرماتے ہيں:
‘‘…(واقعہ)کے وقوع کے متعلق اصول شہادت کے لحاظ سے کوئي معقول شبہ نہ کيا جا سکے…يہ کہ اس ميں کوئي ايسي بات نہيں ہوني چاہيے جو خدا تعاليٰ کي کسي بيان کردہ سنت يا اس کے کسي غير مشروط وعدے يا کسي مسلمہ صفت کے خلاف ہو…اس کي نوعيت ايسي ہوني چاہيے کہ اس ميں کسي نہ کسي جہت سے انساني علم اور انساني قدرت سے کوئي بالا چيز پائي جاتي ہو…اس ميں ايک حد تک اخفاء کا رنگ بھي پايا جاتا ہو…خلاصہ کلام يہ کہ …معجزات کا معاملہ صرف خدا کي مرضي اور مصلحت پر موقوف ہوتا ہے وہ جب اور جس طرح چاہتا ہے اپنے کسي رسول کے ذريعہ سے معجزات کا اظہار فرماتا ہے اور گو رسول کي توجہ اور دعا معجزات کي جاذب اور محرک ضرور ہوتي ہے مگر حکم خدا کي طرف سے آتا ہے اور اس کي مخفي قدرت رسول کے اندر سے ہوکر اپنا کام کرتي ہے اور جب تک خدا کا حکم نہ ہو تو رسول کي ذاتي طاقت کوئي معجزہ پيدا نہيں کر سکتااور ظاہر ہے کہ خدا کا حکم تبھي ہوتا ہے جب کوئي حقيقي ضرورت اور حقيقي مصلحت اس کي متقاضي ہوتي ہے۔
(سيرت خاتم النبيين صفحہ 653 اور 657)
حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام معجزہ کي حقيقت بيان کرتے ہوئے فرماتے ہيں:
‘‘معجزات کي مثال ايسي ہے جيسے چاندني رات کي روشني جس کے کسي حصہ ميں کچھ بادل بھي ہو مگر وہ شخص جو شب کو ر ہو جو رات کو کچھ ديکھ نہيں سکتا اُس کےليے يہ چاندني کچھ مفيد نہيں۔ ايسا تو ہرگز نہيں ہوسکتا اور نہ کبھي ہوا کہ اِس دنيا کے معجزات اُسي رنگ سے ظاہر ہوں جس رنگ سے قيامت ميں ظہور ہوگا۔ مثلاً دو تين سو مُردے زندہ ہو جائيں اور بہشتي پھل اُن کے پاس ہوں اور دوزخ کي آگ کي چنگارياں بھي پاس رکھتے ہوں اور شہر بشہر دورہ کريں اور ايک نبي کي سچائي پر جو قوم کے درميان ہو گواہي ديں اور لوگ اُن کو شناخت کرليں کہ درحقيقت يہ لوگ مرچکے تھے اور اب زندہ ہوگئے ہيں اور وعظوں اور ليکچروں سے شور مچا ديں کہ درحقيقت يہ شخص جو نبوت کا دعويٰ کرتا ہے سچا ہے۔ سو ياد رہے کہ ايسے معجزات کبھي ظاہر نہيں ہوئے اور نہ آئندہ قيامت سے پہلے کبھي ظاہر ہوں گے۔ اور جو شخص دعويٰ کرتا ہے کہ ايسے معجزات کبھي ظاہر ہوچکے ہيں وہ محض بے بنياد قصوں سے فريب خوردہ ہے اور اُس کو سنت اللہ کا علم نہيں اگر ايسے معجزات ظاہر ہوتے تو دنيا دنيا نہ رہتي اور تمام پردے کھل جاتے اور ايمان لانے کا ايک ذرّہ بھي ثواب باقي نہ رہتا۔’’
(براہين احمديہ حصہ پنجم،روحاني خزائن جلد 21صفحہ 44،43)
حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام کے معجزات کا تذکرہ کرنا يہ ايسا عنوان ہے کہ جس کو کسي ايک مضمون ميں سميٹ لينا ناممکن فعل ہو گا کيونکہ خدا تعاليٰ نے حضرت اقدس مسيح موعودؑ کو اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفيٰ صلي اللہ عليہ وسلم کے فيض کے طفيل ہزاروں نشانات ديے جو کہ آپ کے دعويٰ کي صداقت کے ثبوت ہيں۔باوجود ان نشانات کے ايمان لانے والوں ميں صرف وہي لوگ شامل ہيں جن پر خدا تعاليٰ نے اپنا خاص فضل نازل کيا اور اس قابل سمجھا کہ وہ الٰہي سلسلہ ميں شامل ہوں۔خاکسار اپنے اس مضمون ميں حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام کےبعض ايسے ہي معجزات کا ذکر کرے گا جو کہ قارئين کے ليے باعث لطف و اضافہ ايمان ہوں۔آمين
اللہ تعاليٰ نے اپنے پيارے رسول محمد مصطفيٰ ﷺ کو يہ خبر دي تھي کہ آپ ﷺ کو ايسا روحاني فرزند ديا جائے گا جو آپ کي قوت قدسيہ سے نبي کے مقام تک رسائي حاصل کرےگا اور روحاني مردوں کو زندہ کرے اور موعود مسيح ہوگا جس کي دنيا ہزاروں سال سے منتظرہے۔چنانچہ الٰہي پيشگوئياں کب غلط ہوئيں جو اب ہوتيں اور خدا کي بات کوکون روک سکا ہے جو اب رکتيں۔ لہٰذا قاديان کي گمنام بستي اس تاريخي واقعہ کا نشان بني جس نے اسلام کے ڈوبتے ہوئے سفينہ کو تھام ليا اور اسلام کي صداقت ميں ايسے معجزات رونما ہوئے جو کہ انساني عقل کو خدا کے آستانہ پر گرا دينے کے ليے کافي تھے ليکن حسب فرمانِ الٰہي جو دلوں کے اندھے گونگے بہرے تھے وہ باوجود اس آسماني تجلي کے محروم ہي رہے اور پياسے ہي مرے ۔
حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کي بعثت ثانيہ کے متعلق اللہ تعاليٰ قرآن کريم ميں فرماتا ہے :
ہُوَالَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْہِمْ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَوَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۔وَّاٰخَرِيْنَ مِنْہُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِہِمْ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۔ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰہِ يُؤْتِيْہِ مَنْ يَّشَآءُ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِيْمِ(الجمعہ:2تا5)
ترجمہ: وہي ہے جس نے اُمّي لوگوں ميںاُنہيں ميںسے ايک عظيم رسول مبعوث کيا ۔ وہ ان پر اس کي آيات کي تلاوت کرتا ہے اور اُنہيںپاک کرتا ہے اور اُنہيں کتاب کي اور حکمت کي تعليم ديتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ يقيناً کھلي کھلي گمراہي ميںتھے۔ اور انہي ميں سے دوسروں کي طرف بھي (اُسےمبعوث کيا ہے) جو ابھي اُن سے نہيں ملے۔ وہ کامل غلبہ والا (اور) صاحبِ حکمت ہے۔ يہ اللہ کا فضل ہے وہ اُس کو جسےچاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔
ہمارے پيارے آقا محمد رسول اللہ ﷺ فرماتے ہيں:
يُوْشِکُ مَنْ عَاشَ مِنْکُمْ اَنْ يَّلْقٰي عِيْسَي بْنَ مَرْيَمَ اِمَامًا مَھْدِيًّا حَکَمًا عَدْلًا يَکْسِرُ الصَّلِيْبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيْرَ۔
(مسند احمد ،جلد2، صفحہ156)
ترجمہ:تم ميں سے جو زندہ رہے گا وہ عيسيٰ بن مريم کا زمانہ پائے گا وہ امام مہدي اور حکم و عدل ہوگا جو صليب کو توڑے گا اور خنزير کو قتل کرے گا۔
حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام فرماتے ہيں :
‘‘ميں اپني طرف سے کچھ نہيں کہتا بلکہ قرآن اور حديث کے مطابق اور اس الہام کے مطابق کہتا ہوں جو خد اتعاليٰ نے مجھے کہا۔ جو آنے والا تھا وہ مَيں ہي ہوں۔’’
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 492)
اب خاکسار اصل مضمون کي طرف رجوع کرتا ہے جوکہ حضرت اقدس مسيح موعودعليہ السلام کے بعض معجزات کا ذکر ہے۔
اللہ تعاليٰ نے حضور ؑکو معجزات عطا کيے قبوليت دعا کے معجزات ہوں يا نصرت الٰہي کے معجزات ہوں يا دشمنوں کي ناکامي کے معجزات ہوں يا بيماروں کي شفا کے معجزات ہو ں ۔ايسے معجزات و نشانات کے متعلق حضور اقدس عليہ السلام بيان فرماتے ہيں:
‘‘اگر خدا تعاليٰ کے نشانون کو جو ميري تائيد ميں ظہور ميں آ چکے ہيں آج کے دن تک شمار کيے جائيں تو وہ تين لاکھ سے بھي زيادہ ہوں گے ۔’’
(روحاني خزائن جلد 22صفحہ 70)
خطبہ الہاميہ کا معجزہ
11؍اپريل 1900ءعيد الاضحي کابا برکت دن تھا ۔حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام کو اللہ تعاليٰ نے الہاماً فرمايا کہ آج کا خطبہ عربي زبان ميں دينا ہے۔ ‘‘آج تم عربي ميں تقرير کرو، تمہيں قوت دي گئي’’۔ نيز الہام ہوا
’’کَلَامٌ اُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبٍّ کَرِيْمٍ‘‘
يعني کلام ميں ربّ کريم کي طرف سے فصاحت بخشي گئي۔ يہ بشارت پاتے ہي آپؑ نے بہت سے خدام کو اس کي اطلاع کردي۔نيز حضرت حکيم مولوي نورالدين صاحبؓ اور حضرت مولوي عبدالکريم صاحبؓ کو ہدايت فرمائي کہ قلم ، دوات اور کاغذ لے کر آئيں تاکہ خطبہ قلمبند کرسکيں۔
اس حکم ملنےکے بعد حضرت اقدس کچھ پريشان ہوئے کيونکہ اس سے قبل آپ ؑنے عربي زبان ميں کبھي کوئي خطاب نہيں فرمايا تھا۔ ليکن تھوڑي ہي دير ميں آپ کي بے قراري اور اضطراب سکون ميں بدلنے لگا اور آپ اس يقين سے بھر گئے کہ خدا تعاليٰ کا حکم ہے اور تائيد و نصرت بھي اسي کي ہوگي۔ آپؑ مسجد اقصيٰ ميں تشريف لائے اور قديم حصہ کے در ميں کھڑے ہو گئے ۔ اس وقت ايک عجيب حالت آپ پر طاري تھي اور آپ کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور چہرہ سے نور ٹپکتا تھا اور نہايت ہي با رعب حالت تھي اور ايسا معلوم ہوتاتھاکہ جيسے آپ پر حالت کشف طاري ہے جو کہ ايک قسم کي غنودگي اپنے اندر رکھتي تھي ۔
چونکہ عيد کا موقعہ تھا اس ليے قاديان ميں سينکڑوں مہمان حضور ؑکي اقتدا ميں نماز عيد ادا کرنے قاديان تشريف لائے ہوئے تھے صبح 7بجے سے مسجد اقصيٰ ميں احباب کا مجمع لگ گيا جن کي تعداد تين صد سے تجاوز کر رہي تھي۔ ساڑھے آٹھ بجے حضرت مسيح موعود عليہ السلام تشريف لائےاور آپ عليہ السلام کے دست مبارک ميں کسي قسم کا کوئي رقعہ يا نوٹ يا کوئي تحرير نہ تھي اور آپ ؑ الٰہي القاء کے منتظر تھے۔ آپ ؑ پہلي صف ميں حکيم مولوي نور الدين صاحبؓ کے دائيں جانب تشريف فرما ہوئے اور تکبيرات کا ورد کرنے لگے۔ تقريباً 9بجے حضرت مولوي عبدالکريم صاحب سيالکوٹي ؓنے عيد کي نماز پڑھائي اوراس کے بعد بالہام الٰہي و حکم الٰہي حضرت اقدس مسيح موعود ؑ خطبہ ارشاد فرمانے کے ليے کھڑے ہوئے اور آپؑ نے ايک لطيف اور پُرمعارف خطبہ اردو ميںشروع کرنے کے بعد
’’يَا عِبَادَاللّٰہِ فَکِّرُوْا فِيْ يَوْمِکُمْ ھَذَا…‘‘
کے لفظ سے في البديہہ عربي خطبہ دينا شروع کيا۔ ابھي چند فقرے ہي آپؑ نے کہے تھے کہ حاضرين پر وجد کي کيفيت طاري ہوگئي۔ حضورؑ کي شکل و صورت، زبان اور لب و لہجہ سے معلوم ہوتا تھا کہ يہ آسماني شخص ايک دوسري دنيا کا انسان ہے۔ آپؑ کي حالت اور آواز ميں ايک تغيّر محسوس ہوتا تھا اور ہر فقرہ کے آخر ميں آواز بہت دھيمي اور باريک ہو جاتي تھي۔
خطبہ کے دوران ہي حضورؑ نے خطبہ لکھنے والوں سے فرمايا کہ اگر کوئي لفظ سمجھ ميں نہ آئے تو اِسي وقت پوچھ ليں، ممکن ہے کہ بعد ميں خود بھي بتا نہ سکوں۔ پھر اس قدر تيزي سے آپؑ کلمات بيان فرماتے تھے کہ زبان کے ساتھ قلم کا چلنا مشکل ہو جاتا تھا چنانچہ بعض دفعہ الفاظ پوچھنا پڑتے تھے۔بعد ازاں حضورؑ نے بتايا کہ آپؑ يہ امتياز نہيں کر سکتے تھے کہ ميں بول رہا ہوں يا ميري زبان سے فرشتہ کلام کر رہا ہے کيونکہ برجستہ فقرے زبان پر جاري ہوتے تھے اور بعض اوقات الفاظ لکھے ہوئے بھي نظر آجاتے تھے اور ہر ايک فقرہ ايک نشان تھا۔
جب يہ کيفيت ختم ہوگئي تو حضورؑ نے خطبہ ختم کرديا اور کرسي پر تشريف فرما ہوگئے۔گويا کہ يہ ايسي ہي بات تھي کہ کسي نا ممکن فعل کو عملي جامہ پہنايا جائے ۔
يہ تقرير ايسي لطيف اور اِس کي زبان ايسي بے مثل ہے کہ بڑے بڑے عربي دان اِس کي نظير لانے سے قاصر ہيں اور اس کے اندر ايسے ايسے حقائق و معارف بيان ہوئے ہيں کہ عقلِ انساني دنگ رہ جاتي ہے۔ يہ تقرير خطبہ الہاميہ کے نام سے چھپ کر شائع ہو چکي ہے اور روحاني خزائن کي جلد نمبر16ميں موجود ہے۔
(ماخوذ از روزنامہ الفضل ربوہ 27؍نومبر 1998ء )
اس عظيم الشان نشان کا تذکرہ کرتے ہوئے سيدنا حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز فرماتے ہيں:
‘‘پس يہ وہ عظيم الشان نشان ہے، يہ عظيم الشان الفاظ ہيں، يہ دعوت ہے جو اللہ تعاليٰ کے حکم سے آپ نے دي۔ اللہ تعاليٰ کے الہام سے آپ نے دنيا کو دي اور يہ نشان …آج تک اپني چمک دکھلا رہا ہے اور آج تک کوئي ماہر سے ماہر زبان دان اور بڑے سے بڑا عالم اور اديب بھي چاہے وہ عرب کا رہنے والا ہے اس کا مقابلہ نہيں کر سکا۔ اور کس طرح يہ مقابلہ ہو سکتا ہے۔ يہ تو خدا تعاليٰ کا کلام تھا جو آپ عليہ السلام کي زبان سے ادا ہوا۔ اللہ تعاليٰ دنيا کو اور خاص طور پر عرب مسلمانوں کو عقل اور جرأت دے کہ وہ خدا تعاليٰ کے فرستادے کے پيغام کو سمجھيں اور امت مسلمہ کو آج پھر امت واحدہ بنانے ميں آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کے اس غلام صادق کے مددگار بنيں۔ اللہ تعاليٰ ہميں بھي اپني ذمہ دارياں نبھانے کي توفيق عطا فرمائے۔’’
(خطبہ جمعہ فرمودہ11؍اپريل2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنيشنل02؍مئي2014ءصفحہ09)
دشمنان کا معجزانہ قلع قمع
قرآن کريم ميں اللہ تعاليٰ نےاپنايہ دائمي اصول بيان فرمايا ہے کہ
کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِيۡ اِنَّ اللّٰہَ قَوِيٌّ عَزِيۡزٌ
(المجادلة:22)
ترجمہ: ‘‘اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ ضرور مَيں اور ميرے رسول غالب آئيں گے۔ يقيناً اللہ بہت طاقتور (اور)کامل غلبہ والا ہے۔’’
جماعت احمديہ کي مخالفت ميں مخالفين نے ابتدا سے ہي ايڑي چوٹي کازور لگايا جس ميں زمانے کے بڑے بڑے علماء بھي شامل رہے۔ ان ميں سے ايک مولوي محمدحسين بٹالوي صاحب بھي تھے۔ان کے فتنہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسيح موعود ؑ فرماتے ہيں:
‘‘اس ظالم نے بھي وہ فتنہ برپا کيا کہ جس کي اسلامي تاريخ ميں گزشتہ علماء کي زندگي ميں کوئي نظير ملني مشکل ہے۔مخبط الحواس نذير حسين کي کفرنامہ پر مہر لگوائي۔ صدہا مسلمانوں کو کافراور جہنمي قرار ديااور بڑے زورسے گواہياں ثبت کرائيں کہ يہ لوگ نصاريٰ سے بھي کفر ميں بدتر ہيں۔تمام رشتے ناطے ٹوٹ گئے۔ بھائيوں نے بھائيوںکو اور باپوں نے بيٹوں کو اور بيٹوں نے باپوں کو چھوڑديا۔اورايساطوفان فتنہ کا اٹھاکہ گوياايک زلزلہ آيا جس سے آج تک ہزاروں خدا کے نيک بندے اور دين اسلام کے عالم اور فاضل اور متقي ،کافراورجہنم ابدي کے سزاوار سمجھےجاتے ہيں!!!’’
(استفتاء اردو،روحاني خزائن، جلد12،صفحہ128)
ليکن ان تمام فتنوں اور مخالفتوں کے باوجود خدا تعاليٰ کے فرستادے کي جماعت اور اس کے ہاتھ کا لگايا ہوا پودا بڑي شان کے ساتھ ہر مخالفت ميں سے گزرتا رہا اور نئي کاميابيوں کي طرف رواں دواں رہا۔يہ دراصل حضرت مسيح موعود ؑکا معجزہ ہےکہ يہ مخالفتيںآپ کا کچھ بگاڑ نہ سکيں۔
ڈاکٹر مارٹن کلارک کي طرف سے قتل کا مقدمہ
يکم اگست 1897ء کو حضرت مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام کے خلاف ايک پادري ڈاکٹر ہنري مارٹن کلارک نے امرتسرکے ڈپٹي کمشنر جو ڈسٹرکٹ مجسٹريٹ بھي کہلاتا تھا ،کي عدالت ميں ايک فوج داري مقدمہ دائر کيا کہ آپؑ نے ايک شخص عبدالحميد کو ا س کے قتل کرنے کے ليے قاديان سے امرتسر بھيجا۔ ڈاکٹر ہنري مارٹن کلارک عيسائيت کے Anglicanفرقہ کي چرچ مشنري سوسائٹي کي طرف سے ضلع امرتسر کے ايک گاؤں جنڈيالہ ميں ميڈيکل مشن کے انچارج تھے۔ وہ ايک پٹھان عورت کے بيٹے تھے جس نے ان کو پشاور کے مشن ہسپتال ميں جنا تھا۔ انہو ں نے عدالت کو بتايا کہ ان کو اپنے باپ کے نام کا علم نہيں۔ايک بڑے پادري رابرٹ مارٹن کلارک نے لے پالک بنا کر ان کي پرورش کي اور ان کو اپنے نام مارٹن کلارک کے ساتھ ہنري ديا۔ انگريز بچوں کي طرح پرورش کي اور اعليٰ تعليم دلائي اور وہ ڈاکٹر ہو کر مشن کے ہسپتال کے انچارج بنا ديے گئے۔ مقدمہ انتہائي سنگين نوعيت کا تھا کيونکہ اقدام قتل کا کيس تھا جس کي انتہائي سزا پھانسي بھي ہو سکتي تھي۔ ايک عيسائي پادري نے الزام لگا يا ، انگريز پادري کا لے پالک ہونے کي وجہ سے انگريزي حکومت ميں اعليٰ حلقوں ميں رسوخ حاصل تھا اس ليے ان کو زعم تھا کہ حکومت بھي ان کا ساتھ دے گي اور ايسے شواہد بھي موجود تھے جو آگے بيان کيے جائيں گے کہ واقعي حکومت کے ذمہ دار لوگ ذاتي حيثيت ميں مقدمہ ميں دلچسپي لے رہے تھے ۔
ايک طرف دشمنان اسلام کے حوصلے بلند تھے اور ان کو اپني کاميابي اور حضرت اقدس مسيح موعود ؑ کي شکست اور سزا کي سو فيصد اميد تھي تو دوسري طرف آسمان کا خدا گويا کہ اپنے نبي کي تائيد و نصرت کے ليے آسمان سے زمين پر نزول فرماتا ہے اور اپنے محبوب بندہ کو يہ خبر ديتا ہے کہ ‘‘اِنِّي مُہِيْنٌ مَنْ اَرَادَ اِہَانَتَکَ’’يعني ميں ہر اس شخص کو ذليل و خوار کروں گا جو تيري عزت پر ہاتھ ڈالنے کي کوشش کرےگا اور ساتھ ہي اللہ تعاليٰ نے آپؑ کو يہ خبر دي کہ يہ مقدمہ آپ کے حق ميں ہوگا نيز دشمنان اسلام ذليل ہوں گے۔
حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام فرماتے ہيں:
‘‘ہمارے ساتھ خدا ہے جو ان کے ساتھ نہيںاللہ تعاليٰ نے اپنے فيصلہ سے ہم کو واقف کر ديا ہے اور ہم اس پر يقين رکھتے ہيں کہ وہي ہو گا اگر ساري دنيا بھي اس مقدمہ ميں ہمارے خلاف ہوتو مجھے ايک ذرّہ برابر پرواہ نہيں اور اللہ تعاليٰ کي بشارت کے بعد اس کا وہم کر نا بھي گناہ سمجھتا ہوں۔’’
(حيات احمد، جلد چہارم، صفحہ 557)
حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام فرماتے ہيں:
‘‘29؍ جولائي 1897ء کو ميں نے خواب ميں ديکھا کہ ايک صاعقہ مغرب کي طرف سےميرے مکان کي طرف چلي آتي ہے اور نہ اس کے ساتھ کوئي آواز ہے اور نہ اس نے کچھ نقصان کيا ہے بلکہ وہ ايک ستارہ روشن کي طرح آہستہ حرکت سے ميرے مکان کي طرف متوجہ ہوئي ہے اور ميں اُس کودُور سےديکھ رہا ہوں۔ اور جبکہ وہ قريب پہنچي توميرے دل ميں تو يہي ہے کہ يہ صاعقہ ہے مگر ميري آنکھوں نے صرف ايک چھوٹا سا ستارہ ديکھا جس کو ميرا دل صاعقہ سمجھتا ہے پھر بعد اس کے ميرادل اس کشف سے الہام کي طرف منتقل کيا گيا۔ اور مجھے الہام ہوا کہ ما ھذا الا تھديد الحکّام يعني يہ جو ديکھا اس کا بجز اس کے کچھ اثر نہيں کہ حکام کي طرف سے کچھ ڈرانے کي کارروائي ہوگي اس سے زيادہ کچھ نہيں ہوگا۔ پھر بعد اس کے الہام ہوا قد ابتلي المومنون ۔ترجمہ۔يعني مومنوں پر ايک ابتلا آيا يعني بوجہ اس مقدمہ کےتمہاري جماعت ايک امتحان ميں پڑے گي۔…پھر بعد اس کے يہ الہام ہوا کہ مخالفوں ميں پھوٹ اور ايک شخص متنافس کي ذلت اور اہانت اور ملامت خلق (اور پھر اخير حکم ابراء) يعني بے قصور ٹھہرانا۔ پھر بعد اس کے الہام ہوا و فيہ شي ء…پھر ساتھ اس کے يہ بھي الہام ہوا کہ بلجت آياتيکہ ميرے نشان روشن ہوںگے’’
(ترياق القلوب روحاني خزائن جلد 15صفحہ 341تا342)
مکمل واقعہ (خلاصةً)
عبد الحميد کے راضي ہونے پر ڈاکٹر ہنري مارٹن کلارک نے فوراً مارٹينو ڈپٹي کمشنر ضلع امرتسر کو جو ڈسٹرکٹ مجسٹريٹ بھي تھے درخواست دي جنہوں نے عبدالحميد اور ڈاکٹر ہنري مارٹن کلارک کے بيانات لے کر دفعہ 114ضابطہ فوجداري کے تحت حضرت مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام کي گرفتاري کے ليے وارنٹ جاري کر ديا اور ساتھ حفظ امن کے ليے ايک سال کے واسطے20 ہزار روپے کا مچلکہ اور بيس بيس ہزار کي دو ضمانتيں بھي طلب کيں۔ چونکہ حضرت مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام کا ضلع گورداسپورتھا اس ليے ڈپٹي کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹريٹ گورداسپور کو جو کيپٹن مانٹيگو ڈگلس تھے يہ وارنٹ وغيرہ بھجوا ديے کہ وہ اپني ضلعي پوليس سے اس پر عمل کرا کے ملزم کو امرتسر بھجوا ديں۔ ادھر پادريوں نے اس خبر کو شہر ميں پھيلا ديا اور ہر روز مخالفين نے امرتسر کے ريلوے سٹيشن پر جانا شروع کر ديا کہ وہ وارنٹ پر عمل درآمد خود اپني آنکھوں سے ديکھيں۔ ليکن ايسا نہ ہوا بلکہ مارٹينو ڈپٹي کمشنر امرتسر کو اپني غلطي کا احساس ہوا کہ ملزم نے جہاں اقدام قتل کا ارادہ کيا اور اپنے ايجنٹ کوقتل پر آمادہ کر کے روانہ کيا اسي ضلع ميں مقدمہ درج ہونا چاہيے اور کارروائي وہيں ہوني چاہيے نہ کہ کسي اور ضلع ميں۔ اس ليے اس نے تار بھيجا کہ جو وارنٹ گرفتاري گورداسپور بھجوايا گيا ہے اس کو منسوخ سمجھا جائے اور کارروائي کے ليے کيس گورداسپور بھيجا جا رہا ہے۔ تارملنے پر کيپٹن ڈگلس حيران ہوا کہ يہ کون سا وارنٹ ہے کہ ضلع گورداسپور کے دفتر ميں پہنچا ہي نہيں۔ اور پھر بعد ميں اس وارنٹ کا پتہ ہي نہيں چلا کہ وہ گيا کہاں۔کيس تفصيل کے ساتھ گورداسپور کے ڈپٹي کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹريٹ کے سامنے آيا ۔ اس اثنا ميں ڈاکٹر ہنري مارٹن کلارک بھي گورداسپور پہنچ گئے تا کہ کيپٹن ڈگلس پر بھي اپنا اثر و رسوخ اور اپنے چرچ کا اثر ڈاليں اور اپني من پسند کارروائي کروائيں۔ ليکن کيپٹن ڈگلس ايک انصاف پسند حاکم تھے ۔ کيس کو ديکھتے ہي فيصلہ کيا کہ ساري کارروائي غلط ہوئي ہے۔ عبدالحميد جب اپنے ارادہ ميں ناکام ہوا اور پادريوں نے اسے پکڑ ليا تو کيس پوليس کو جانا چاہيے تھا ۔ پھر مجسٹريٹ سے عبدالحميد کا ريمانڈ ليا جاتا۔ اور تفتيش پوري ہو کر کيس سيشن کورٹ کے سپرد کيا جاتا ۔ نہ پوليس ميں رپورٹ، نہ اقبالي ملزم کا ريمانڈ ، محض شبہ کي بنياد پر ايک تيسرے شخص کي گرفتاري اور بيس ہزار کا مچلکہ اور بيس بيس ہزار کي د و ضمانتيں کيا نامعقول کارروائي ہے۔ انہوں نے کہا ميں يہ کيس پوليس کو ديتا ہوں وہ تفتيش کي کارروائي کرے۔لہٰذا پوليس نے اپني کارروائي کرني شروع کي اور جيسے جيسے اس مقدمے کے تار کھلتے گئے ويسے ويسے مارٹن کلارک کے جھوٹ کي قلعي کھلتي گئي ۔آخر کيپٹن ڈگلس نے پوليس کے عہدے داران کو يہ حکم ديا کہ وہ عبد الحميد کے بيان کي تہ تک جائيں اور عہدے داران نے جب عبد الحميد پر زور بازو کي آزمائش کي تو اس کے ہاتھوں کے طوطے پرواز کر گئے اور اس نے اپنے تمام جھوٹے الزامات اور گواہيوں کا اعتراف کيا اور دوران مقدمہ عبدالحميد کي اصل شہادت ہو جانے کے معاً بعد جس ميں اس نے تسليم کيا کہ حضرت اقدس مسيح موعود عليہ السلام نے اس کو ڈاکٹر کلارک کے قتل کرنے کے ليے نہيں بھيجا تھا بلکہ وہ محض عيسائي ہونے کے ليے ڈاکٹر کلارک کے پاس امريکن مشن کے پادري نورالدين کے کہنے پر آيا تھا مگر يہاں پادري عبدالرحيم ، پادري وارث دين اور پادري پريم داس نے اس کو ورغلا کر يہ بيان دلوايا کہ ا س کو ڈاکٹر کلارک کو مارنے کے ليے قاديان سے بھيجا گيا ہے تو ڈاکٹر کلارک کي تمام اميدوں پر پاني پھر گيا۔اب کيپٹن ڈگلس ڈپٹي کمشنر اور دسٹرکٹ مجسٹريٹ کے ليے کسي نتيجہ پر پہنچنا آسان ہوگيا۔ چنانچہ23؍ اگست 1897ء کو فيصلہ لکھا :‘‘جہاں تک ڈاکٹر کلارک کے مقدمہ سے تعلق ہے ہم کوئي وجہ نہيں ديکھتے کہ غلام احمد سے حفظ امن کے ليے ضمانت لي جائے يا يہ کہ مقدمہ پوليس کے سپرد کيا جائے ۔ لہذا وہ بري کيے جاتے ہيں’’۔ اور23؍اگست1897ء کو حضرت مسيح موعود عليہ السلام کو باعزت طور پر بري کر ديا۔اور زباني فرمايا کہ اگر آپ چاہيں تو اب ان لوگوں کے خلاف عدالتي کارروائي کر سکتے ہيں۔ حضرت اقدس عليہ السلام نے فرمايا ‘‘ميرا مقدمہ زمين پر نہيں آسمان ميں اللہ تعاليٰ کي عدالت ميں ہے’’(ماخوذ ازکتاب البريہ روحاني خزائنء جلد13حيات احمدتصنيف حضرت يعقوب علي صاحب عرفانيؓ)
مولوي محمد حسين بٹالوي
مولوي محمد حسين بٹالوي جو کہ حضور اقدس عليہ السلام کا خاص دوست تھا اور يہ وہي بٹالوي ہے جس نے حضرت اقدس عليہ السلام کي زبردست تصنيف ‘‘براہين احمديہ ’’کي اشاعت کے بعد حضور اقدس عليہ السلام کي شان مبارک ميں تعريفي کلمات لکھےاور آپ عليہ السلام کو اس زمانہ ميں اسلام کے ڈوبتے ہوئے سفينہ کو بچانے والا قرار ديا ۔ليکن باوجود ان باتوں کے آپ عليہ السلام کے دعويٰ کے ساتھ ہي ان کي طرف سے مخالفت کا آغاز ہوا اور مخالفت کا يہ عالم تھا کہ کوئي دن ايسا نہ جاتا تھا جب وہ اپنے رسالے اشاعة السنہ ميںحضرت اقدس عليہ السلام کوکذاب مفتري اوردجال نہ لکھتا(نعوذ باللہ)اوراسي پر اس نے اکتفا نہ کي بلکہ آپ کو نقصان پہنچانے کے تمام راستے اور ہتھ کنڈے استعمال کرتا رہا ۔چنانچہ کچھ عرصہ بعد جب ايک عيسائي پادري ڈاکٹري ہنري مارٹن کلارک نے آپ پرقتل کا جھوٹا مقدمہ دائر کياتوآپ کے خلاف گواہي دينے کےليے وہ عدالت پہنچ گيا اور ايسا بيان دياجس سےعيسائيوں کے جھوٹے دعويٰ کي تصديق ہوتي تھي(جس کا تفصيلي بيان گزر چکا ہے)۔ليکن عدالت نے ان کي گواہي کوحضرت باني سلسلہ کے ساتھ ان کےذاتي عناد پر محمول کرتے ہوئے درخور اعتنا نہ سمجھااور ردي کي طرح ٹوکري ميں پھينک ديا۔
مولوي محمد حسين بٹالوي کي حالت کے متعلق حضرت خليفة المسيح الثانيؓ فرماتے ہيں:
‘‘ابھي بہت عرصہ اس فتوے کو شائع ہوئے نہيں گزرا تھا کہ ان مولوي صاحب کي عزت لوگوں کےدلوں سے اللہ تعاليٰ نے مٹاني شروع کي۔اس فتوےکي اشاعت سے پہلے اُن کو يہ عزت حاصل تھي کہ لاہور دارالخلافہ پنجاب جيسے شہر ميں جوآزادطبع لوگوں کاشہر ہے بازاروں ميں سے جب وہ گذرتےتھےتو جہاں تک نظر جاتي تھي لوگ اُن کے ادب اوراحترام کي وجہ سے کھڑے ہوجاتےاور ہندو وغيرہ غير مذاہب کے لوگ بھي مسلمانوں کا ادب ديکھ کراُن کا ادب کرتے تھےاور جس جگہ جاتے لوگ اُن کوآنکھوں پربٹھاتے اورحکام اعليٰ جيسے گورنرو گورنر جنرل اُن سےعزت سے ملتے تھے۔ مگراس فتوے کے شائع کرنے کے بعد بغير کسي ظاہري سامان کے پيداہونے کےاُن کي عزت کم ہوني شروع ہوئي اورآخر يہاں تک نوبت پہنچي کہ خوداس فرقے کے لوگوں نےبھي اُن کو چھوڑ دياجس کے وہ ليڈر کہلاتے تھےاور ميں نے اُن کو اپني آنکھوں سے ديکھا ہےکہ اسٹيشن پر اکيلے اپنا اسباب جو وہ بھي تھوڑا نہ تھا،اپني بغل اورپيٹھ پراُٹھائے ہوئے اور اپنے ہاتھوں ميں پکڑےہوئے چلے جارہے ہيں اورچاروں طرف سے دھکے مل رہے ہيں۔ کوئي پوچھتا نہيں۔ لوگوں ميں بےاعتباري اس قدر بڑھ گئي کہ بازاروالوں نےسودا تک دينا بند کرديا۔ دوسرے لوگوں کي معرفت سودا منگواتے اور گھر والوں نے قطع تعلق کر ليا،بعض لڑکوں نے اور بيويوں نے ملنا جُلناچھوڑ ديا، ايک لڑکااسلام سے مرتد ہوگيا،غرض تمام قسم کي عزتوں سے ہاتھ دھو کراورعبرت کانمونہ دکھاکر اس دنيا سے رخصت ہوئےاوراپني زندگي کے آخري ايام کي ايک ايک گھڑي سے اس آيت کي صداقت کا ثبوت ديتے چلے گئےکہ
قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ۔
(دعوةالامير،صفحہ 233تا 234)
………………………………………(جاري ہے)