مذہب وہي سچا ہے جو يقينِ کامل کے ذريعہ سے خدا کو دکھلا سکتا ہے
جس دل ميں يہ خواہش اور يہ طلب نہيں کہ خدا کا مکالمہ اور مخاطبہ يقيني طور پر اُس کو نصيب ہو وہ ايک مردہ دل ہے اور جس دين ميں يہ قوت نہيں کہ اس کمال تک پہنچاوے اور اپنے سچے پيروؤں کو خدا کا ہمکلام بنادے وہ دين منجانب اللہ نہيں اور اس ميں راستي کي رُوح نہيں۔ ايسا ہي جس کسي نبي نے اس راہ کي طرف لوگوں کو نہيں چلايا کہ خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ کے طالب ہوں اور کامل معرفت کے خواہاں ہوں وہ نبي بھي خدا کي طرف سے نہيں ہے۔ اور وہ خدا پر افترا کرتا ہےکيونکہ انسان کا عظيم الشان مقصود جس سے وہ گناہوں سے نجات پا سکتا ہے يہي ہے کہ خدا کي ہستي اور اس کي سزا جزا پر اس کوپورا يقين آوے۔ مگر اس غيب الغيب خدا پرکيونکر يقين حاصل ہوجب تک اُس کي طرف سے اَنَا الْمَوْجُوْد کي آواز نہ سني جاوے اور جب تک کہ انسان اُس کي طرف سے کھلے کھلے نشان مشاہدہ نہ کرے ۔کيونکر اس کي ہستي پر يقين کامل آوے۔عقلي دلائل سے خدا کے وجود کا پتہ لگانا صرف اس حد تک ہے کہ عقل سليم زمين و آسمان اور ان کي ترتيب اَبْلغ اورمُحکم کو ديکھ کر يہ تجويز کرتي ہے کہ ان مصنوعات پُرحکمت کا کوئي صانع ہونا چاہيے مگر يہ دکھلا نہيں سکتے کہ في الحقيقت صانع ہے بھي ۔اور ظاہر ہے کہ ہونا چاہيے صرف ايک خيال ہے اور ہے ايک امر واقعہ کا ثبوت ہے۔ اور دونوں ميں فرق کھلا کھلا ہے۔ يعني پہلي صورت ميں صرف ضرورت صانع بتلائي گئي ہے۔ اور دوسري صورت ميں اُس کے في الواقعہ موجود ہونے کي شہادت دي جاتي ہے۔ غرض اس زمانہ ميں کہ مذاہب کي باہمي کشاکش کا ايک تُندو تيز سيلاب چل رہا ہے طالب حق کو اس اصل مقصود کو فراموش نہيں کرنا چاہيے کہ مذہب وہي سچّا ہے جو يقين کامل کے ذريعہ سے خدا کو دکھلا سکتا ہے۔اور درجہ مکالمہ مخاطبہ الٰہيہ تک پہنچا سکتا ہے اور خدا کي ہمکلامي کا شرف بخش سکتا ہے اور اس طرح اپني رُوحاني قوت اور رُوح پرور خاصيت سے دلوں کوگناہ کي تاريکي سے چھڑا سکتا ہے۔ اور اس کے سوا سب دھوکہ دينے والے ہيں۔
اب ہم اس ملک کے چند مذاہب پر نظر کرتے ہيں کہ کيا وہ خدا تعاليٰ کي معرفت کے بارے ميں يقينِ کامل تک پہنچا سکتے ہيں اور کيا اُن کي کتابوں ميںيہ وعدہ موجود ہے کہ وہ خدا کے يقيني مکالمہ سے شرف حاصل کرا سکتے ہيں؟ اور اگر موجود ہے تو کيا اس زمانہ ميں اُن ميں سے کوئي اس کا مصداق پايا بھي جاتا ہے ؟ يا نہيں۔ سو سب سے پہلے قابل ذکر وہ مذہب ہے جو مسيحي مذہب کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ پس واضح ہو کہ اس مذہب کے بارے ميں ہميں زيادہ لکھنے کي ضرورت نہيں کيونکہ مسيحي صاحبوں کا اِس پر اتفاق ہو چکا ہے کہ مسيح کے زمانہ کے بعد الہام اور وحي پر مُہر لگ گئي ہے۔ اور اب يہ نعمت آگے نہيںبلکہ پيچھے رہ گئي ہے۔ اور اب اِس کے پانے کي کوئي بھي راہ نہيں اور قيامت تک نوميدي ہے۔ اور فيض کا دروازہ بند ہے۔ اور شايد يہي وجہ ہوگي کہ نجات پانے کے ليے ايک نئي تجويز نکالي گئي ہے اور ايک نيا نسخہ تجويز کيا گيا ہے۔ جو تمام جہان کے اصول سے نرالا اور سراسر عقل اور انصاف اور رحم سے مخالف ہے۔ اور وہ يہ ہے کہ بيان کيا جاتا ہے کہ حضرت مسيح عليہ السلام نے تمام جہان کے گناہ اپنے ذمہ لے کر صليب پرمرنامنظور کيا تا اُن کي اس موت سے دوسروں کي رہائي ہو ۔ اورخدا نے اپنے بے گناہ بيٹے کومارا تا گنہگاروں کو بچاوے۔ ليکن ہميں کچھ سمجھ ميں نہيں آتا کہ اس قسم کي مظلومانہ موت سے دوسروں کے دل گناہ کي پليد خصلت سے کيونکر صاف اور پاک ہو سکتے ہيں۔ اور کيونکر ايک بے گناہ کے قتل ہونے سے دوسروں کو گذشتہ گناہوں کي معافي کي سند مل سکتي ہے۔ بلکہ اس طريق ميں انصاف اور رحم دونوں کا خون ہے کيونکہ گنہگار کے عوض ميں بے گناہ کو پکڑنا خلاف انصاف ہے اور نيز بيٹے کو اس طرح ناحق سخت دلي سے قتل کرنا خلاف رحم ہے۔ اور اس حرکت سے فائدہ خاک نہيں۔ اور ابھي ہم لکھ چکے ہيں کہ اصل سبب گناہ کے سيلاب کا قلّت معرفت ہے۔پس جب تک ايک علّت موجود ہے تب تک معلول کي نفي کيونکر ہو سکتي ہے۔ ہميشہ علّت کا وجود معلول کے وجود کو چاہتا ہے۔ اب جائے حيرت ہے کہ يہ کيسا فلسفہ ہے کہ گناہ کرنے کي عِلّت جو قلبِ معرفت باري تعاليٰ ہے وہ تو سرپر موجود کھڑي ہے مگر معلول اس کا جو ارتکاب گناہ کي حالت ہے وہ معدوم ہوگئي ہے۔ تجربہ ہزاروں گواہ پيش کرتا ہے کہ بجز معرفت کامل کے نہ کسي چيز کي محبت پيدا ہو سکتي ہے اور نہ کسي چيز کا خوف پيدا ہوتا ہے اور نہ اس کي قدرداني ہوتي ہے۔ اور يہ تو ظاہر ہے کہ انسان کسي فعل يا ترک فعل کو يا تو خوف کي وجہ سے کرتا ہے اور يا محبت کي وجہ سے۔ اور خوف اور محبت دونوں معرفت سے پيدا ہوتي ہيں۔ پس جب معرفت نہيں تو نہ خوف ہے اور نہ محبت ہے۔
اے عزيزو اور پيارو! اس جگہ راستي کي حمايت اِس بيان کے ليے ہميں مجبور کرتي ہے کہ خدا تعاليٰ کي معرفت کے بارہ ميں حضرات مسيحيوں کے ہاتھ ميں کوئي امر صاف نہيں ہے۔ وحي کے سلسلہ پر تو پہلے سے مہر لگ چکي ہے اور مسيح اور حواريوں کے بعد معجزات بھي بند ہوگئے ہيں۔ رہا عقلي طريق، سو آدم زاد کو خدا بنانے ميں وہ طريق بھي ہاتھ سے گيا۔ اور اگر گزشتہ معجزات جواَب محض قصّوں کے رنگ ميں ہيں پيش کئے جائيں تو اوّل تو ہر ايک منکر کہہ سکتا ہے کہ خدا جانے ان کي اصل حقيقت کيا ہے اور کس قدر مبالغہ ہے کيونکہ کچھ شک نہيں کہ مبالغہ کرنا انجيل نويسوں کي عادت ميں داخل تھا۔ چنانچہ ايک انجيل ميں يہ فقرہ موجود ہے کہ مسيح نے اتنے کام کئے کہ اگر وہ لکھے جاتے تو دنيا ميں سما نہ سکتے اب ديکھو کہ وہ کام بغير لکھنے کے تو دنيا ميں سما گئے ۔ليکن لکھنے کي حالت ميں وہ دنيا ميں نہيں سمائيں گےيہ کس قسم کا فلسفہ اور کس قسم کي منطق ہے۔ کيا کوئي سمجھ سکتا ہے؟
ماسوا اس کے حضرت مسيح عليہ السلام کے معجزات موسيٰ نبي کے معجزات سے کچھ بڑھ کر نہيں ہيں۔ اور ايليا نبي کے نشانوں کا جب مسيح کے نشانوں سے مقابلہ کريں تو ايليا کے معجزات کا پلّہ بھاري معلوم ہوتا ہے۔ پس اگر معجزات سے کوئي خدا بن سکتا ہے تو يہ سب بزرگ خدائي کے مستحق ہيں۔ اور يہ بات کہ مسيح نے اپنے تئيں خدا کا بيٹا کہا ہے يا کسي اَور کتاب ميں اُس کو بيٹا کہا گيا ہے ايسي تحريروں سے اُس کي خدائي نکالنا درست نہيں۔
بائيبل ميں بہت سے لوگوں کو خدا کے بيٹے کہا گيا ہے بلکہ بعض کو خدا بھي۔پھر مسيح کي تخصيص بے وجہ ہے۔ اور اگر ايسا ہوتا بھي کہ کسي دوسرے کواُن کتابوں ميں بجز مسيح کے خدا يا خدا کے بيٹے کا لقب نہ ديا جاتا تب بھي ايسي تحريروں کو حقيقت پر حمل کرنا ناداني تھا۔ کيونکہ خدا کے کلام ميں ايسے استعارات بکثرت پائے جاتے ہيں۔ مگر جس حالت ميں بائيبل کے رو سے خدا کا بيٹا کہلانے ميں اَور بھي مسيح کے شريک ہيں تو دوسرے شرکاءکو کيوں اس فضيلت سے محروم رکھا جاتا ہے‘‘۔
(ليکچرلاہور۔ روحاني خزائن جلد 20صفحہ 162تا165)