کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

آخر مرنا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دیناہے

افسوس کہ اس بات کا خیال تک بھی نہیں کیا جاتا کہ آخر مرنا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے

‘‘ياد رکھناچاہيے کہ قرآ ن مجيد ميں نفس کي تين قسميں بيان کي گئي ہيں ۔نفسِ امّارہ ، نفسِ لوّامہ ، نفسِ مطمئنّہ۔

نفسِ امّارہ اس کو کہتے ہيں کہ سوائے بدي کے اَور کچھ چاہتا ہي نہيں جيسے فرمايا اللہ تعاليٰ نے اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوۡٓءِ(يوسف:54)۔يعني نفس امّارہ ميں يہ خاصيت ہے کہ وہ انسان کو بدي کي طرف جھکاتاہے اور ناپسنديدہ اور بدراہوں پر چلانا چاہتا ہے۔ جتنے بدکار ،چور،ڈاکو دُنيا ميں پائے جاتے ہيں وہ سب اسي نفس کے ماتحت کام کرتے ہيں۔ايسا شخص جو نفس امّارہ کے ماتحت ہو ہر ايک طرح کے بدکام کرليتاہے۔ ہم نے ايک شخص کو ديکھا تھاجس نے صرف بارہ آنہ کي خاطر ايک لڑکے کو جان سے مار ديا تھا ۔ کسي نے خوب کہا ہے کہ   ؎

حضرتِ انساں کہ حد مشترک را جامع است

مے تواند شد مسيحا مے تواند شد خرے

غرض جو انسان نفس امارہ کے تابع ہوتاہے وہ ہر ايک بدي کو شِير مادر کي طرح سمجھتاہے اور جب تک کہ وہ اسي حالت ميں رہتاہے بدياں اُس سے دور نہيں ہوسکتيں۔

پھر دوسري قسم نفس کي نفس لوّامہ ہے جيسے کہ قرآن شريف ميں خدا تعاليٰ فرماتا ہے وَلَآاُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ(القيامة:3)يعني مَيںاس نفس کي قسم کھاتاہوںجو بدي کے کاموں اور نيز ہر ايک طرح کي بے اعتدالي پر اپنے تئيں ملامت کرتاہے۔ ايسے شخص سے اگر کوئي بدي ظہور ميں آ جاتي ہے توپھر وہ جلدي سے متنبّہ ہو جاتاہے اور اپنے آپ کواس بُري حرکت پر ملامت کرتاہے اور اسي ليے اس کا نام نفسِ لوّامہ رکھاہے يعني بہت ملامت کرنے والا ۔جوشخص اس نفس کے تابع ہوتاہے وہ نيکيوں کے بجا لانے پر پور ے طورپر قادر نہيں ہوتااورطبعي جذبات اس پر کبھي کبھي غالب آ جاتے ہيں ليکن وہ ا س حالت سے نکلنا چاہتاہے اور اپني کمزوري پر نادم ہوتا رہتاہے ۔

اس کے بعد تيسري قسم نفس کي نفسِ مطمئنّہ ہے جيسے فرمايا اللہ تعاليٰ نے يٰٓاَيَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ۔ارْجِعِيٓ اِلٰي رَبِّکِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً۔ فَادْخُلِيْ فِيْ عِبَادِيْ۔ وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ(الفجر:31تا 28)۔يعني اے وہ نفس جو خدا سے آرام پاگياہے اپنے ربّ کي طرف واپس چلا آ۔ تُو خدا سے راضي ہے اور خدا تجھ پر راضي ہے ۔پس ميرے بندوں ميں مل جا اور ميرے بہشت کے اندر داخل ہوجا۔غرض يہ وہ حالت ہوتي ہے کہ جب انسان خُدا سے پوري تسلّي پا ليتاہے اور اس کو کسي قسم کا اضطراب باقي نہيں رہتا اور خدا تعاليٰ سے ايسا پيوند کر ليتاہے کہ بغير اس کے جي ہي نہيں سکتا۔نفس لوّامہ والا تو ابھي بہت خطرے کي حالت ميں ہوتاہے کيونکہ انديشہ ہوتاہے کہ لوٹ کر وہ کہيں پھر نفس امّارہ نہ بن جاوے ۔ليکن نفس مطمئنّہ کا وہ مرتبہ ہے کہ جس ميں نفس تمام کمزوريوں سے نجات پا کر رُوحاني قوتوں سے بھرجاتاہے۔

غرض ياد رکھنا چاہيے کہ جب تک انسان اس مقام تک نہيں پہنچتااس وقت تک و ہ خطرہ کي حالت ميں ہوتاہے ۔اس ليے چاہيے کہ جب تک انسان اس مرتبہ کو حاصل نہ کرلے مجاہدات اور رياضات ميں لگا رہے ۔

سوچنا چاہيے کہ انسان کے بدن پر جذام کا داغ نکل آتاہے توپھر کيسے کيسے خيالات اس کے دل ميں اٹھتے ہيں اور کيسے دُور دراز کے نتيجوں پر وہ پہنچتاہے اور اپني آنے والي حالت کاخيال کرکے وہ کيسا غمگين ہوتاہے۔کبھي خيال کرتاہے کہ شايد اب لو گ مجھ سے نفرت کرنے لگ جائيں گے اور ميرے ساتھ بدسلوکي سے پيش آئيں گے۔ اورکبھي سوچتا ہے کہ خدا جانے اب مَيں کيسي اَبتر حالت ميں ہو جائوں گا اور کِن کِن دُکھوں ميں مبتلا ہوںگا۔ ليکن افسوس کہ اس بات کا خيال تک بھي نہيں کيا جاتا کہ آخر مرنا ہے اور اپنے اعمال کا حساب ديناہے اس وقت کيا حالت ہوگي۔

يہ جذام تو ايسا ہے کہ مرنے کے بعد ہي اس سے خلاصي ہوجاتي ہے مگر وہ کوڑھ جو رُوح کو لگ جاتاہے وہ تو ابد تک رہتاہے کيا کبھي اس کا بھي فکر کياہے؟’’

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 411-410۔ ايڈيشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)            

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button