’جہاد‘ کیا چیز ہے
جہاد کے مسئلہ کي فلاسفي اور اس کي اصل حقيقت ايسا ايک پيچيدہ امر اور دقيق نکتہ ہے کہ جس کے نہ سمجھنے کے باعث سے اس زمانہ اور ايسا ہي درمياني زمانہ کے لوگوں نے بڑي بڑي غلطياں کھائي ہيں اور ہميں نہايت شرم زدہ ہو کر قبول کرنا پڑتا ہے کہ ان خطرناک غلطيوں کي وجہ سے اسلام کے مخالفوں کو موقع ملا کہ وہ اسلام جيسے پاک اور مقدس مذہب کو جو سراسر قانون قدرت کا آئينہ اور زندہ خدا کا جلال ظاہر کرنے والا ہے مورد اعتراض ٹھہراتے ہيں۔
جاننا چاہيے کہ جہاد کا لفظ جُہد کے لفظ سے مشتق ہے جس کے معنے ہيں کوشش کرنا اور پھر مجاز کے طور پر ديني لڑائيوں کے ليے بولا گيا۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ ہندوؤں ميں جو لڑائي کويُدّھ کہتے ہيں۔ دراصل يہ لفظ بھي جہاد کے لفظ کا ہي بگڑا ہوا ہے۔ چونکہ عربي زبان تمام زبانوں کي ماں ہے۔ اور تمام زبانيں اسي ميں سے نکلي ہيں اس ليے يُدّھ کا لفظ جو سنسکرت کي زبان ميں لڑائي پر بولا جاتا ہے دراصل جُہد يا جہاد ہے اور پھرجيم کوياء کے ساتھ بدل ديا گيا اور کچھ تصرف کرکے تشديد کے ساتھ بولا گيا۔
اب ہم اس سوال کا جواب لکھنا چاہتے ہيں کہ اسلام کو جہاد کي کيوں ضرورت پڑي اور جہاد کيا چيز ہے۔ سو واضح ہو کہ اسلام کو پيدا ہوتے ہي بڑي بڑي مشکلات کا سامنا پڑا تھا اور تمام قوميں اس کي دشمن ہو گئي تھيں جيسا کہ يہ ايک معمولي بات ہے کہ جب ايک نبي يا رسول خدا کي طرف سے مبعوث ہوتا ہے اور اس کا فرقہ لوگوں کو ايک گروہ ہونہار اور راستباز اور با ہمت اور ترقي کرنے والا دکھائي ديتا ہے تو اس کي نسبت موجودہ قوموں اور فرقوں کے دلوں ميں ضرور ايک قسم کا بغض اور حسد پيدا ہو جايا کرتا ہے۔ بالخصوص ہر ايک مذہب کے علماء اور گدي نشين تو بہت ہي بغض ظاہر کرتے ہيں۔ کيونکہ اُس مرد خدا کے ظہور سے ان کي آمدنيوں اوروجاہتوں ميں فرق آتا ہے۔ اُن کے شاگرد اور مريد اُن کے دام سے باہر نکلنا شروع کرتے ہيں کيونکہ تمام ايماني اور اخلاقي اور علمي خوبياں اس شخص ميں پاتے ہيں جو خدا کي طرف سے پيدا ہوتا ہے۔ لہٰذا اہلِ عقل اور تميز سمجھنے لگتے ہيں کہ جو عزت بخيال علمي شرف اور تقويٰ اور پرہيزگاري کے اُن عالموںکو دي گئي تھي اب وہ اس کے مستحق نہيں رہے۔ اور جو معزز خطاب اُن کو ديئے گئے تھے جيسے نجم الاُمّة اور شمس الاُمّة اور شَيخ المَشَائخ وغيرہ اب وہ ان کے ليے موزوں نہيں رہے۔ سو ان وجوہ سے اہل عقل اُن سے مُنہ پھير ليتے ہيں۔ کيونکہ وہ اپنے ايمانوں کو ضائع کرنا نہيں چاہتے۔ ناچار ان نقصانوں کي وجہ سے علماء او رمشائخ کا فرقہ ہميشہ نبيوں اور رسولوں سے حسد کرتا چلا آيا ہے۔ وجہ يہ کہ خدا کے نبيوں اور ماموروں کے وقت ان لوگوںکي سخت پردہ دري ہوتي ہے۔ کيونکہ دراصل وہ ناقص ہوتے ہيں اور بہت ہي کم حصہ نور سے رکھتے ہيں اور ان کي دشمني خدا کے نبيوں اور راستبازوں سے محض نفساني ہوتي ہے۔ اور سراسر نفس کے تابع ہو کر ضرر رساني کے منصوبے سوچتے ہيں۔ بلکہ بسااوقات وہ اپنے دلوں ميں محسوس بھي کرتے ہيں کہ وہ خدا کے ايک پاک دل بندہ کو ناحق ايذا پہنچا کر خدا کے غضب کے نيچے آگئے ہيں اور ان کے اعمال بھي جو مخالف کارستانيوں کے ليے ہر وقت اُن سے سرزد ہوتے رہتے ہيں ان کے دل کي قصور وار حالت کو اُن پر ظاہرکرتے رہتے ہيں مگر پھر بھي حسد کي آگ کا تيز انجن عداوت کے گڑھوں کي طرف ان کو کھينچے ليے جاتا ہے۔ يہي اسباب تھے جنہوں نے آنحضرت صلي اللہ عليہ وسلم کے وقت ميں مشرکوں اور يہوديوں اور عيسائيوں کے عالموں کو نہ محض حق کے قبول کرنے سے محروم رکھابلکہ سخت عداوت پر آمادہ کر ديا۔ لہٰذا وہ اس فکر ميں لگ گئے کہ کسي طرح اسلام کو صفحۂ دنيا سے مٹا ديں۔ اور چونکہ مسلمان اسلام کے ابتدائي زمانہ ميں تھوڑے تھے اس ليے اُن کے مخالفوں نے بباعث اس تکبّر کے جو فطرتاً ايسے فرقوں کے دل اور دماغ ميں جاگزيں ہوتا ہے جو اپنے تئيں دولت ميں ،مال ميں،کثرت جماعت ميں ،عزت ميں، مرتبت ميں دوسرے فرقہ سے برتر خيال کرتے ہيں اُس وقت کے مسلمانوں يعني صحابہ سے سخت دشمني کا برتائو کيا اور وہ نہيں چاہتے تھے کہ يہ آسماني پودہ زمين پر قائم ہو بلکہ وہ ان راستبازوں کے ہلاک کرنے کے ليے اپنے ناخنوں تک زور لگا رہے تھے اور کوئي دقيقہ آزار رساني کا اُٹھا نہيں رکھا تھا اور اُن کو خوف يہ تھا کہ ايسا نہ ہو کہ اس مذہب کے پَير جم جائيں اور پھر اس کي ترقي ہمارے مذہب اور قوم کي بربادي کا موجب ہو جائے۔ سو اسي خوف سے جو اُن کے دلوں ميں ايک رُعبناک صورت ميں بيٹھ گيا تھا نہايت جابرانہ اور ظالمانہ کارروائياں اُن سے ظہور ميں آئيں اور انہوں نے دردناک طريقوں سے اکثر مسلمانوں کو ہلاک کيا اور ايک زمانہ دراز تک جو تيرہ برس کي مدت تھي اُن کي طرف سے يہي کارروائي رہي اور نہايت بے رحمي کي طرز سے خدا کے وفادار بندے اور نوع انسان کے فخر اُن شرير درندوں کي تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کيے گئے اور يتيم بچے اور عاجز اور مسکين عورتيں کو چوں اور گليوں ميں ذبح کيے گئے اس پر بھي خدا تعاليٰ کي طرف سے قطعي طور پر يہ تاکيد تھي کہ شر کا ہر گز مقابلہ نہ کرو چنانچہ اُن برگزيدہ راستبازوں نے ايسا ہي کيا۔ اُن کے خونوں سے کوچے سُرخ ہو گئے پر انہوں نے دم نہ مارا۔ وہ قربانيوں کي طرح ذبح کيے گئے پر انہوں نے آہ نہ کي۔ خدا کے پاک اور مقدس رسول کو جس پر زمين اور آسمان سے بے شمار سلام ہيں بار ہا پتھر مار مار کر خون سے آلودہ کيا گيا مگر اُس صدق اور استقامت کے پہاڑ نے ان تمام آزاروں کي دلي انشراح اور محبت سے برداشت کي اور ان صابرانہ اور عاجزانہ روشوں سے مخالفوں کي شوخي دن بدن بڑھتي گئي اور اُنہوں نے اس مقدس جماعت کو اپنا ايک شکار سمجھ ليا۔ تب اُس خدا نے جو نہيں چاہتا کہ زمين پرظلم اور بے رحمي حد سے گذر جائے اپنے مظلوم بندوں کو ياد کيا اور اُس کا غضب شريروں پر بھڑکا اور اُس نے اپني پاک کلام قرآن شريف کے ذريعہ سے اپنے مظلوم بندوں کو اطلاع دي کہ جو کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے مَيں سب کچھ ديکھ رہا ہوں۔ مَيں تمہيں آج سے مقابلہ کي اجازت ديتا ہوں۔ اور ميں خدائے قادر ہوں ظالموں کو بے سزا نہيں چھوڑوں گا۔ يہ حکم تھا جس کا دوسرے لفظوں ميں جہاد نام رکھا گيا۔ اور اس حکم کي اصل عبارت جو قرآن شريف ميں اب تک موجود ہے يہ ہے: اُذِنَ لِلَّذِيۡنَ يُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰي نَصۡرِہِمۡ لَقَدِيۡرٌ الَّذِيۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِيَارِہِمۡ بِغَيۡرِ حَقّ(الحج:41،40)يعني خدا نے اُن مظلوم لوگوںکي جو قتل کيے جاتے ہيں اور ناحق اپنے وطن سے نکالے گئے فرياد سُن لي اور ان کو مقابلہ کي اجازت دي گئي۔ اور خدا قادر ہے جو مظلوم کي مدد کرے۔ الجزو نمبر۱۷ سورة الحج۔ مگر يہ حکم مختص الزمان والوقت تھا ہميشہ کے ليے نہيں تھا بلکہ اس زمانہ کے متعلق تھا جبکہ اسلام ميں داخل ہونے والے بکريوں اور بھيڑوں کي طرح ذبح کيےجاتے تھے۔ ليکن افسوس کہ نبوت اور خلافت کے زمانہ کے بعد اس مسئلہ جہاد کے سمجھنے ميں جس کي اصل جڑ آيت کريمہ مذکورہ بالا ہے لوگوں نے بڑي بڑي غلطياں کھائيں۔ اور ناحق مخلوق خدا کو تلوار کے ساتھ ذبح کرنا دينداري کا شعار سمجھا گيااور عجيب اتفاق يہ ہے کہ عيسائيوں کو تو خالق کے حقوق کي نسبت غلطياں پڑيں۔ اور مسلمانوں کو مخلوق کے حقوق کي نسبت۔ يعني عيسائي دين ميں تو ايک عاجز انسان کو خدا بنا کر اس قادر قيوم کي حق تلفي کي گئي جس کي مانند نہ زمين ميں کوئي چيز ہے اورنہ آسمان ميں اور مسلمانوں نے انسانوں پر ناحق تلوار چلانے سے بني نوع کي حق تلفي کي اور اس کا نام جہاد رکھا غرض حق تلفي کي ايک راہ عيسائيوں نے اختيار کي اور دوسري راہ حق تلفي کي مسلمانوں نے اختيار کرلي۔ اور اس زمانہ کي بدقسمتي سے يہ دونوں گروہ ان دونوںقسم کي حق تلفيوں کو ايسا پسنديدہ طريق خيال کرتے ہيں کہ ہر ايک گروہ جو اپنے عقيدہ کے موافق ان دونوں قسموں ميں سے کسي قسم کي حق تلفي پر زور دے رہا ہے۔ وہ يہ سمجھ رہا ہے کہ گويا وہ اس سے سيدھا بہشت کو جائے گا اور اس سے بڑھ کر کوئي بھي ذريعہ بہشت کا نہيں ۔
(گورنمنٹ انگريزي اور جہاد، روحاني خزائن جلد 17 صفحہ 3تا7)