حکومتِ وقت کی خیرخواہی اور حبّ الوطنی
تائیوان میں منعقد ہونے والی سوشل ویلیوز کانفرنس میں اسلام کی نمائندگی حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تصنیف‘‘عالمی بحران اور امن کی راہ’’کی روشنی میں حکومتِ وقت کی خیرخواہی اور حبّ الوطنی
مورخہ 5,4دسمبر 2019ء کو تائيوان کے دارالحکومت تائي پے ميں سوشل ويليوز انٹرنيشنل کانفرنس کا انعقاد ہوا ۔اس کانفرنس ميں تيس ممالک کے نمائندگان کے علاوہ 50کے قريب مقامي تائيواني باشندوں نے شرکت کي ۔ اس کانفرنس کا مقصدہر ملک و قوم کي مقامي روايات اور ثقافت کا احترام نيز اس کي اہميت اُجاگر کرنا تھا ۔ خاکسار ان ايام ميں تائيوان ميں تبليغي دورہ پر موجود تھا ۔ کانفرنس کے تائيواني ميزبان سے رابطے اورملاقات کي درخواست کے بعد اللہ تعاليٰ کے خاص فضل سے معجزانہ رنگ ميں نہ صرف يہ کہ کانفرنس ميں شرکت کي اجازت مل گئي بلکہ اس کے ايک سيشن ميں اسلام احمديت کا تعارف کروانے‘‘حب الوطني’’کے بارہ ميں اسلامي تعليم پيش کرنے اور حضور انور ايدہ اللہ بنصرہ العزيز کي تصنيف ‘‘عالمي بحران اور امن کي راہ’’کا تعارف کروانے کا بھي موقع پيدا ہو گيا ۔ فالحمد للہ عليٰ ذالک۔
کانفرنس کے ميزبان پروفيسر Chien-Wen Mark Shenسے ملاقات ميں حضور انور ايدہ اللہ بنصرہ العزيز کي تصنيف ‘‘عالمي بحران اور امن کي راہ ’’کا چيني ترجمہ پيش کيا گيا ۔ کانفرنس ميں شرکت کي اجازت ملنے کے بعد خاکسار نے درخواست کي کہ ميرے پاس اس کتاب کي دس کاپياں موجود ہيں ، اگر اجازت ہو تو يہ حاضرين ميں تقسيم کر دي جائيں ۔ پروفيسر صاحب کہنے لگے کہ يہ بہت ہي مفيد کتاب ہے ليکن شايد ہماري کانفرنس کے Themeسے تعلق نہيں رکھتي۔ خاکسار نے ان کو حضور انور کے جرمني کے شہر کوبلنز کے ملٹري ہيڈ کوارٹرز ميں فرمودہ خطاب کي طرف متوجہ کيا کہ يہ خطاب بالکل اس کانفرنس کے مقاصد سے ہم آہنگ ہے اور حضرت خليفة المسيح ايدہ اللہ بنصرہ العزيز نے دنيا بھر ميں بسنے والے احمدي مسلمانوں کو خصوصا ًاور ہر مسلمان کو عموماً اسلامي تعليم کے مطابق حکومت وقت کي خيرخواہي، وطن سے محبت اور مقامي روايات اور آداب کا خيال رکھنے کي تلقين فرمائي ہے ۔ موصوف نے وہيں بيٹھے ہوئے اس خطاب کے بعض حصے پڑھے اور خاکسار کو اجازت دےدي کہ کانفرنس کے ايک سيشن ميں نہ صرف يہ کہ اس کتاب کا تعارف کروا سکتا ہوں بلکہ ‘‘وطن سے محبت ’’کے بارے ميں خطاب کے کچھ حصے پيش بھي کردوں ۔ فالحمد للہ عليٰ ذالک
حضور انور ايدہ اللہ بنصرہ العزيز کے خطاب ميں سے جو چنيدہ اقتباس خاکسار نے پيش کيے انہيں پڑھيں اور غور کريں تو يہ محسوس ہوتا ہے کہ دنيا کے ملک ملک اور ہر خطہ ميں موجود اضطراب اور بے چيني کا حل اس پاکيزہ تعليم ميں موجود ہے ۔ اہل سياست ، حکمرانوں ، عوام حتي کہ اپوزيشن تک کے ليے رہ نما اصول بيان کر ديے گئے ہيں ۔
حب الوطني کا جذبہ ايک خوبصورت فطري تعليم
‘‘حضرت محمد رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے خود يہ تعليم دي ہے کہ ‘‘وطن سے محبت ايمان کا حصہ ہے’’لہذا اسلام اپنے پيرو کار سے مخلصانہ حب الوطني کا تقاضا کرتا ہے ۔ خدا اور اسلام سے سچي محبت کرنے کے ليے کسي بھي شخص کے ليے لازمي ہے کہ وہ اپنے وطن سے محبت کرے ۔ لہٰذا يہ بالکل واضح ہے کہ کسي شخص کي خدا سے محبت اور وطن سے محبت کے درميان کوئي ٹکراؤ نہيں ہوسکتا ۔چونکہ وطن سے محبت کو اسلام کا ايک رُکن بنا ديا گيا ہے اس ليے يہ واضح ہے کہ ايک مسلمان کو اپنے وطن سے وفاداري کے اعليٰ معيار حاصل کرنے کي کوشش کرني چاہيے ۔کيونکہ يہ خدا سے ملنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ايک ذريعہ ہے۔ اس ليے يہ ناممکن ہے کہ ايک حقيقي مسلمان کي خدا سے محبت ، اس کي وطن سے سچي محبت اور وفاداري کي راہ ميں کبھي رکاوٹ کا با عث بنے’’(عالمي بحران اور امن کي راہ ۔صفحہ27)
حکومتِ وقت سے اختلاف کي صورت ميں رہ نما اصول
‘‘دورِ جديد ميں اکثر حکومتيں جمہوري طرز پر ہيں اس ليے اگر کوئي فرد واحد يا گروہ حکومت کو بدلنا چاہے تو انہيں يہ کام مناسب جمہوري طريق کے مطا بق ہي کرنا چاہيے اور اپني آواز پہنچانے کے ليے حق رائے دہي کا سہارا لينا چاہيے ۔ ’’
( عالمي بحران اور امن کي راہ۔صفحہ 30)
ہر ملک کے شہري ووٹ ڈالتے وقت کن باتوں کا خيال رکھيں؟
‘‘ووٹ ذاتي ترجيحات يا ذاتي مفادات کي وجہ سے نہيں ڈالنے چاہئيں بلکہ اس بارہ ميں اسلامي تعليم يہ ہے کہ کسي کو اپنے ووٹ کے استعمال کا حق وطن سے وفاداري اور محبت کي روح اور قومي بھلائي کو ذہن ميں رکھتے ہوئے استعمال کرنا چاہيے ۔ چنانچہ حق رائے دہي استعمال کرتے وقت ذاتي ترجيحات ،اميدوار اور پارٹي کو نہيں بلکہ انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھنا چاہيے ’’
(عالمي بحران اور امن کي راہ۔صفحہ 30)
ہڑتاليں،ا حتجاج اور دھرنے کے بارہ ميں رہ نمائي
‘‘دنيا ميں کئي جگہ عوام حکومتي پاليسيوں کے خلاف ہڑتال اور احتجاج ميں حصہ ليتے ہيں ۔ نيز تيسري دنيا کے بعض ممالک ميں احتجاج کرنے والے سرکاري يا شہريوں کي املاک اور جائيداديں لوٹتے اور انہيں نقصان پہنچاتے ہيں ۔ حالانکہ ان کا دعويٰ يہ ہوتا ہے کہ وہ يہ سب کچھ وطن کي محبت کي وجہ سے کر رہے ہيں جبکہ حقيقت يہ ہے کہ ايسے افعال کا وطن سے وفاداري اور محبت سے کوئي تعلق نہيں ۔ياد رکھنا چاہيے کہ غير مجرمانہ اور پُرامن احتجاج يا ہڑتال بھي معاشرہ پر منفي اثرات مرتب کرتي ہے کيونکہ پُر امن احتجاج بھي اکثر قومي معيشت کو لاکھوں کا نقصان پہنچاتا ہے ۔’’
(عالمي بحران اور امن کي راہ۔ صفحہ 30)
وطن سے غداري اور بے وفائي سے اجتناب
‘‘اسلامي تعليم کے مطابق خدا تعاليٰ نے ہر قسم کي دھوکا دہي، بغاوت اور غداري سے سختي کے ساتھ منع فرماديا ہے ۔خواہ وہ اپنے وطن کے ساتھ ہو يا حکومت کے ساتھ ! کيونکہ بغاوت يا حکومت کے خلاف کام کرنا ملکي امن وامان کے ليے خطرہ ہوتا ہے ۔’’
(عالمي بحران اور امن کي راہ صفحہ 29)
حکومت وقت کي ہر حال ميں اطاعت قرآني حکم ہے
‘‘ايک سنہرا اصول جو باني جماعت احمديہ مسلمہ نے ديا ہے يہ ہے کہ ہر طرح کے حالات ميں ہميشہ اللہ تعاليٰ ، انبياء اور حکامِ وقت کا مطيع ہو کر رہنا چاہيے ۔ يہ بعينہٖ وہ تعليم ہے جو قرآن کريم نے دي ہے ۔’’
( عالمي بحران اور امن کي راہ۔صفحہ 30)
گلوبل وليج ميں ہر ملک و قوم او ر مذہب کے جذبات کا احترام کرنا چاہيے
‘‘آج دنيا ايک گلوبل وليج بن گئي ہے ۔ انسانوں کے ليے ايک دوسرے سے روابط بہت گہرے ہوگئے ہيں ۔ ہر قوم، مذہب اور معاشرہ کے لوگ دنيا کے ہر ملک ميں سکونت پذير ہيں اس ليے ہر قوم کے ليڈر تمام لوگوں کے جذبات اور احساسات کو سمجھيں اور ان کا احترام کريں ۔رہ نماؤں اور ان کي حکومتوں کو ايسے قوانين بنانے چاہئيں جن سے سچائي اور انصاف کي روح اور ماحول پروان چڑھے نہ کہ ايسے قوانين بنائے جائيں جو لوگوں ميں مايوسي اور بے چيني پيدا کريں ۔ ناانصافياں اور زيادتياں ختم ہوني چاہئيں اور اس کے بدلہ ميں حقيقي انصاف کے ليے کوشش کرني چاہيے جس کے حصول کا بہترين طريق يہ ہے کہ دنيا اپنے خالق کو پہچانے۔پس ہر طرح کي وفاداري خدا سے وفاداري کي بنياد پر ہوني چاہيے ۔ اگر ايسا ہوجائے تو بہت جلد تمام ممالک کے عوام ميں وفاداري کے بہترين معيار قائم ہو جائيں گے اور ساري دنيا ميں امن و امان کي نئي راہيں کھل جائيں گي۔’’
( عالمي بحران اور امن کي راہ۔صفحہ 32)
https://svic2019.socialvalue.org.tw/?lang=en
٭…٭…٭