الفضل ڈائجسٹ
اس کالم ميں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامين کا خلاصہ پيش کيا جاتا ہے جو دنيا کے کسي بھي حصہ ميں جماعت احمديہ يا ذيلي تنظيموں کے زيرانتظام شائع کيےجاتے ہيں۔
چند شہدائے احمديت
ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ کے مختلف شماروں ميں چند شہدائے احمديت کا تذکرہ حضرت خليفةالمسيح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
محترمہ رشيدہ بيگم صاحبہ شہيد
مکرم قاري عاشق حسين صاحب کي بيگم رشيدہ بيگم صاحبہ سانگلہ ہل شہر کي رہنے والي تھيں۔ ان کے والدين چادر چک ضلع شيخوپورہ ميں زميندارہ پيشہ کرتے تھے۔ اچھا کھاتا پيتا گھرانہ تھا۔ آپ دنياوي تعليم تو حاصل نہ کرسکيں البتہ قرآن کريم ناظرہ اچھي طرح پڑھا ہوا تھا اور بہت سارے بچوں اور بچيوں کو بھي پڑھايا کرتي تھيں۔ 1976ء ميں جب قاري صاحب نے احمديت قبول کرنے کي توفيق پائي تو رشيدہ بيگم صاحبہ کو کہا کہ اگر آپ بھي احمديت کو قبول کرليں تو بہت اچھا ہو، ورنہ مذہب ميں جبر نہيں ہے۔ اس پر وہ خاموش ہوگئيں اور کہنے لگيں کہ پھر بتاؤں گي۔
ايک دن رشيدہ بيگم صاحبہ کے والد، چچا اور کچھ اَور لوگ آئے اور ان پر زور ديا کہ حافظ تو کافر ہوگيا ہے تم بچے لے کر ہمارے ساتھ چلو۔ آپ نے کہا کہ اگر حافظ صاحب کافر ہوگئے ہيں تو ميں بھي ان کے ساتھ کافر ہي ہوں۔ اگر يہ دوزخ ميں جائيں گے تو ميں بھي دوزخ ميں جاؤں گي۔ چنانچہ وہ مايوس واپس لَوٹ گئے۔ 1976ء کے جلسہ سالانہ پر ربوہ آکر مستورات ميں غيرمعمولي اخوّت اور محبت کا نمونہ ديکھا تو کہنے لگيں يہ خدائي تصرف ہے ورنہ عورتوں ميں اس قسم کي تربيت ہرگز نہيں ہوسکتي۔ چنانچہ گھر جاکر باقاعدہ بيعت کرلي اور آخر دم تک نہايت اخلاص اور وفاداري سے اس عہدِ بيعت کو نبھايا۔ ہر روز گھر ميں کئي غيرازجماعت وفود کي صورت ميں آتے، بحث مباحثہ کرتے اور روحاني اذيّت پہنچاتے مگر باوجود ان کے سخت رويہ کے مرحومہ ان کي بڑے اخلاص اور محبت سے خدمت کرتي تھيں۔مرحومہ پہلے بھي نماز، روزہ اور تہجد کي پابند تھيں ليکن قبول احمديت نے تو اس صفت کو چارچاند لگاديے۔ بہت سي سچي خوابيں ديکھنے لگيں۔ غريبوں کي بہت مدد کرنے والي تھيں۔ چندہ جات باقاعدگي سے ادا کرتيں اور اپني خداداد صلاحيتوں سے عورتوں ميں خوب تبليغ کرتي تھيں۔
8؍ اگست 1978ء کو رمضان المبارک کي3؍ تاريخ تھي۔ رات گئے حافظ صاحب نے آپ سے نيند نہ آنے کي وجہ پوچھي تو کہنے لگيں کہ کل رات خدا نے مجھے بتايا ہے کہ جس لڑکے کو تُو نے خود پالا ہے وہ تيرا قاتل ہے۔ يہ لڑکا قاري صاحب کا بھتيجا عبداللہ تھا جسے تقريباً نو ماہ کي عمر سے بيس سال کي عمر تک مرحومہ نے پالا تھا۔ اس کا کوئي والي وارث نہ تھا۔ اب اپنوں اور غيروں نے اسے ورغلا کر اپني مربّيہ ماں کا مخالف بنا ديا تھا۔کہنے لگيں کہ ميرا خيال ہے اب سانگلہ ہل چھوڑ کر ہميں ربوہ چلے جانا چاہيے۔ مبادا اس لڑکے سے ہميں کوئي نقصان پہنچ جائے۔ حافظ صاحب نے کہا صدقہ وغيرہ دو، وہ تو آپ کا بيٹا ہے ايسا نہيں کرے گا۔
ليکن خدا کي بات بہرحال پوري ہوني تھي ۔علي الصبح حافظ صاحب کسي کي تعزيت کے ليے فيصل آباد چلے گئے تو وہ لڑکا عبداللہ جو ايک سال قبل شيخوپورہ چلا گيا تھا گھر ميں داخل ہوا۔ پہلے ايک چھوٹي بچي پر حملہ کيا۔ ليکن جب وار خالي گياتو پھر دوسرے بچوں پر جھپٹا۔ محترمہ رشيدہ بيگم صاحبہ بچوں کو بچانے کے ليے آگے بڑھيں تو خود اس کي گرفت ميں آگئيں۔ وہ ظالم چھاتي پر بيٹھ گيا اور چاقو کے وار کرتا رہا۔ آپ بے بسي کي حالت ميں اسے روکتي رہيں اور کہتي رہيں کہ عبداللہ بتا تو دو کہ ہميں کس وجہ سے مار رہے ہو۔ کہنے لگا تم کافر ہو گئي ہو اس ليے مارتا ہوں۔بہرحال جب اس نے سمجھا کہ اب فوت ہوگئي ہيں تو انہيں چھوڑ کر پھر دوسرے بچوں کي طرف لپکا مگر وہ اِدھر اُدھر بھاگ چکے تھے۔ قريب ہي سول ہسپتال تھا۔ مرحومہ کو اور زخمي بچي کو لوگوں نے وہاں پہنچايا۔
تقريباً آدھ گھنٹہ بعد حافظ صاحب بھي واپس پہنچے تو پھر جماعت نے زخميوں کو فيصل آباد سول ہسپتال ميں منتقل کيا جہاں ڈاکٹر ولي محمد صاحب نے بڑے ہي اخلاص، محبت اور توجہ سے آپريشن کيا ليکن رشيدہ بيگم صاحبہ جانبر نہ ہوسکيں۔ مرحومہ کے تين بيٹے اور تين بيٹياں ہيں۔
ملک محمد انور صاحب شہيد
ملک محمد انور صاحب ابن ملک محمد شفيع صاحب 1945ء ميں قاديان ميں پيدا ہوئے۔ آپ اپنے والدين کے اکلوتے بيٹے تھے۔ آپ حضرت ملک محمد بوٹا صاحبؓ کے پوتے تھے۔ تقسيم ہند کے بعد آپ کے والد صاحب تلاشِ معاش کے سلسلہ ميں مختلف جگہوں پر مقيم رہے۔ شہادت کے وقت آپ کا خاندان سانگلہ ہل ضلع شيخوپورہ کے قريبي گاؤں چک نمبر 45مرڑ ميں مقيم تھا۔آپ کو دعوت الي اللہ کا بہت شوق تھا۔ وہاں کے سکول ٹيچر مکرم رانا محمد لطيف صاحب جب آپ کي کوششوں کے نتيجہ ميں احمدي ہوئے تو گاؤں کے لوگ کھلے عام آپ کي مخالفت کرنے لگے۔22؍ اگست 1978ء کي صبح آپ نے گلي ميں شور سنا تو اپنے والد کے ہمراہ گھر سے باہر نکلے۔ اس پرلاٹھيوں اور برچھيوں سے مسلح افراد نے ان دونوں پر حملہ کرديا۔ جب آپ شديد زخمي ہوکر گر پڑے تو مخالفين نعرے لگاتے ہوئے اور بھنگڑا ڈالتے ہوئے بھاگ گئے کہ ‘‘ايک مرزائي کو ہم نے لے ليا مگر دوسرابچ گيا’’۔
ملک محمد انور صاحب کو انتہائي زخمي حالت ميں فوري طورپر فيصل آبادہسپتال پہنچايا گيا جہاں پر مکرم ڈاکٹر ولي محمد صاحب نے آپ کا آپريشن کيا مگر زخموں کي تاب نہ لاتے ہوئے اُسي رات آپ شہيد ہوگئے۔ بوقت شہادت آپ کي عمر چونتيس سال تھي۔ آپ نے بيوہ صديقہ بيگم صاحبہ کے علاوہ ايک بيٹا اور والد پسماندگان ميں چھوڑے۔ شہيد مرحوم کے والد ملک محمدشفيع صاحب بھي اپنے بيٹے کو بچاتے ہوئے شديد زخمي ہوئے تھے۔
محترم مولوي نور احمد ولد غلام محمد جُو صاحب
محترم مولوي نور احمد صاحب پيدائشي احمدي تھے۔ پرائمري کے بعد قاديان گئے اور مدرسہ احمديہ ميں داخل ہوئے۔ 1937ء ميں مولوي فاضل پاس کرنے کے بعد رياست کشمير کے محکمہ تعليم ميں ملازم ہوئے اور مختلف علاقوں ميں طويل عرصہ بطور استاد کام کرنے کے بعد ريٹائرڈہوکر اپني زمينوں وغيرہ کو سنبھالنے لگے۔
5؍ اپريل 1979ء کو ہزاروں لوگوں پر مشتمل ہجوم آپ کے گاؤں کوريل ميں داخل ہوا اور احمديوں کے پندرہ گھروں کو آگ لگانے اور لُوٹنے کے بعد مولوي نور احمد صاحب کے گھر کا رُخ کيا۔ آپ نے اپنے مکان کي تيسري منزل پر اپنے دو بيٹوں کے ساتھ مل کر ہوائي فائرنگ کي تو ہجوم فائرنگ کي آواز سن کر پيچھے ہٹ جاتا اور پھر حملہ آور ہوتا۔ اس طرح ساڑھے چار بج گئے جب غالباً آپ کے پاس کارتوس ختم ہوگئے تھے۔ چنانچہ حملہ آور گھر ميں داخل ہوگئے۔ آپ کے دونوں بيٹے تو بچ نکلنے ميں کامياب ہو گئے مگر مولوي نور احمد صاحب حملہ آوروں کے قابو ميں آگئے۔ دشمن آپ کو گھسيٹ کر صحن ميں لے آيا اور پتھروں سے کُوٹ کُوٹ کر آپ کو شہيد کرديا۔ ان حملہ آوروں ميں بہت سے نوجوان آپ کے شاگرد بھي تھے۔ شہيد نے اپنے پيچھے اپني اہليہ آمنہ بيگم صاحبہ، دو بيٹے اور ايک بيٹي چھوڑے ہيں۔
4؍ اور5؍ اپريل1979ء کے اس سانحہ ميں وادئ کشمير کے مختلف ديہات ميں احمديوں کے چار سو گھر لُوٹے اور جلائے گئے تھے اور کئي مساجد شہيد کردي گئي تھيں۔
مکرم بشير احمد رشيد احمد صاحب شہيد
مکرم بشير احمد رشيد احمد صاحب ابن مکرم جے رشيد احمد صاحب (آف نيگومبو سري لنکا) کے دادا مکرم محمد جمال الدين صاحب نے احمديت قبول کي تھي اور نيگومبو کے ابتدائي احمديوں ميں شمار ہوتے ہيں۔
1978ء ميں جماعت احمديہ سري لنکا کي تبليغي سرگرميوں کے نتيجہ ميں ملاّؤں نے شديد مخالفت کرتے ہوئے احمديوں کے گھروں پر حملے شروع کرديے۔ بہت سے گھر جلائے گئے اور احمديہ مسجد کو بھي آگ لگائي گئي۔ يہ صورت حال تقريباً ايک سال تک جاري رہي۔
27؍جون 1979ء کو مکرم بشير احمد صاحب دو خدام کے ہمراہ نماز عشاء کے بعد مسجد سے گھر آ رہے تھے کہ چار غنڈوں نے چاقوؤں اور خنجروں سے آپ پر حملہ کرديا۔ آپ کے جسم پر چاقوؤں کے اٹھارہ زخم آئے جن کے نتيجہ ميں آپ موقع پر ہي شہيد ہو گئے۔ شہادت کے وقت آپ کي عمر 22سال تھي اور غيرشادي شدہ تھے۔
حملہ آور گرفتار ہوئے ليکن حکومت ميں اثر و رسوخ کي وجہ سے عدالت نے اُن کو بري کر ديا البتہ خدا کي عدالت سے يہ لوگ بچ نہ سکے۔ ان ميں سے ايک شخص چلتي گاڑي کي زد ميں آگيا اور اس کے جسم کے ٹکڑے اُڑگئے۔ دوسرے کو اپنے ہي ساتھيوں نے چاقوؤں سے حملہ کرکے ہلاک کرکے ريلوے لائن پر پھينک ديا۔ باقي دونوں دماغي توازن کھو بيٹھے اور لمبے عرصہ تک پاگل خانے رہے۔
………٭………٭………٭………
گندھارا آرٹ
قديم رياست گندھارا (Gandhara) پاکستان کے شمالي علاقہ ميں واقع تھي اور پشاور، ٹيکسلا، سوات اور چارسدہ اس کے اہم مراکز تھے۔ يہ رياست چھٹي صدي قبل مسيح سے گيارہويں صدي عيسوي تک قائم رہي۔ اس کا ذکر بدھ روايات ميں موجود ہے۔ چيني سياح ‘ہيوں سانگ’ نے بھي اس کا ذکر کيا ہے۔ يہ رياست ايران کا ايک صوبہ بھي رہي اور سکندراعظم بھي يہاں آيا تھا۔ کشان بادشاہوں کا دَور گندھارا کي تاريخ کا سنہري دَور تھا۔ کشان بادشاہ کنشکؔ کے عہد ميں گندھارا تہذيب اپنے عروج پر تھي۔ لوگ يہاں بدھ مت کي تعليم حاصل کرنے آتے۔ پھر مختلف حملہ آوروں نے تسلسل کے ساتھ بدھ مت کي تہذيب کو زوال پذير کرديا۔ ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ مئي 2011ء ميں مکرم رانا محمد سليمان صاحب کا گندھارا آرٹ کے بارے ميں ايک معلوماتي مضمون شائع ہوا ہے۔
گندھارا آرٹ بنيادي طور پر ايک مذہبي آرٹ تھا جس ميں بدھا کي زندگي کي مختلف داستانوں اور تعليمات کے مناظر کو آرٹ کا مضمون بنايا گيا۔ 1902ء سے 1920ء تک ہندوستان ميں آثارقديمہ پر کام کے حوالے سے معروف Sir John Hubert Marshall کا کہنا ہے کہ گندھارا آرٹ دراصل آرين، يوناني، ساکا، پارتھي اور کشن تہذيبوں کا نچوڑ ہے۔اس آرٹ کو تين ادوار ميں تقسيم کيا جاتا ہے۔ پہلے دَور ميں يوناني آرٹ نے نئي شکل اختيار کي۔ يوناني ديوتاؤں کي جگہ گوتم بدھ کے مجسمے بننے لگے۔ جگہ جگہ اسٹوپے (بدھ کي يادگاريں) تعمير ہوئے۔ يہ پشاور سے موہنجوداڑو تک دکھائي ديتے ہيں۔
دوسرے دَور ميں وہ اسٹوپے ہيں جو ٹيکسلا کے نواح ميں چاروں طرف پھيلے ہوئے ہيں۔ اس دَور ميں فنکاروں نے پتھروں پر سنگ تراشي کي۔ تيسرا دَور ہوتوں کے قبيلہ کي ہُن کي يلغار کا تھا جس نے شہروں اور بستيوں کو مسمار کرديا اور يادگاروں کو آگ لگادي۔ اس کے بعد يہ فن معدوم ہوگيا۔ ہُن چونکہ سورج کي پوجا کرتے تھے اس ليے انہيں ہندو ديوتا شيومہاراج کو اپنانے ميں دشواري نہ ہوئي۔ بہرحال اس کے بعد گندھارا آرٹ اور بدھ مت دونوں ہي اپنے عروج کے سورج کو دوبارہ نہيں طلوع کرسکے۔ گندھارا کي تکنيکي خصوصيات اسے دوسرے علاقوں کي مجسمہ سازي سے ممتاز کرتي ہيں۔ يہاں انساني جسم کو اتني مہارت سے ڈھالا جاتا تھا کہ جسم کے مختلف اعضاء، پٹھے اور مونچھيں تک واضح ہيں۔
………٭………٭………٭………
ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ اگست 2012ء ميں شامل اشاعت مکرم بشارت احمد صاحب کي ايک نظم ميں سے انتخاب پيش ہے:
سنگ باري ميں مرا جسم چھپانے والو
دعوتِ حق تمہيں ديتا ہوں زمانے والو
اس ميں کيا مَيں نے خوشي پائي ہے دونوں جگ کي
تم نہ سمجھو گے مرا خون بہانے والو
لذّتيں عشق کي ہوتي ہيں عجب ہي دل ميں
زخم اس جسم پر بے کار لگانے والو
کاش تم جان سکو لذّتِ گريہ کا مزہ
آبگينوں کا جگر چير کے جانے والو
اس مسيحائي پر حيران ہے عالم سارا
تيرگي لائے ہو سورج کوئي لانے والو