تقدیر الٰہی (قسط نمبر 19۔آخر)
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
تقدیر پر ایمان لانے سے روحانیت کے سات درجے طے ہوتے ہیں (حصہ سوم ۔آخر)
………………………………………………………………
درجہ ششم
تقدیر پر ایمان جب اور زیادہ ترقی کرتا ہے تو انسان اس درجہ سے بھی اوپر ترقی کرتا ہے اور دعاؤں کی قبولیت کا نظارہ دیکھ کر خدا کے اور قریب ہونا چاہتا ہے اور اس کے لیے کوشش کرتا ہے آخر یہ ہوتا ہے کہ اس کی کوشش ہو یا نہ ہو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی تقدیر جاری رہتی ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ سے ایک رنگ وحدت کا پیدا ہوجاتا ہے۔ اسی مقام کے متعلق رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ بندہ نوافل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے ایسا قریب ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کے ہاتھ ، کان، آنکھ ، پاؤں بن جاتا ہوں ۔ (بخاری کتاب الرقاق باب التواضح)یعنی اس مقام پر جو کام بھی یہ بندہ کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا ہی کام ہوتا ہے اور یہ کلی طورپر پاک ہو جاتا ہے اس مقام کا اعلان سوائے اللہ تعالیٰ کے حکم کے کوئی انسان نہیں کر سکتا۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہیےکہ مقام اور ہوتے ہیں اور حال اور ہوتا ہے۔ ہر مومن خدا تعالیٰ کا عبد ہوتا ہے ۔ وہ توکل بھی کرتا ہے۔ دعا بھی کرتا ہے مگر ہر مومن پر ان باتوں کی ایک ایک آن آتی ہے اور وہ حال کہلاتاہے۔ اور مقام یہ ہوتا ہے کہ اکثر اوقات میں انسان اس پر قائم رہتا ہے اور آنی طور پر تھوڑی دیر کے لیے وہ حالت نہیں آتی ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص تو کسی گھر میں ٹھہرا ہوا ہو اور دوسراشخص بطور ملاقات تھوڑی دیر کے لیے وہاں آجائے ان دونوں کا درجہ ایک نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا شوق بڑھانے کےلیے کبھی کبھی اعلیٰ سے اعلیٰ مقام کی سیر اپنے بندوں کو کرا دیتا ہے۔گو بعض نادان اس حالت سے دھوکا کھا کر عُجب اور تکبر کی مرض میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جس پر صحابہ ؓ پہنچے تھے جن کے متعلق رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اِعْمَلُوْا مَاشِئْتُمْ (بخاری کتاب التفسیر سورۃ الممتحنۃ باب ل اتتخدوا عدوی وعدوکم اولیاء) کہ تم اب جو چاہو کرو۔ نادان اعتراض کرتے ہیں کہ کیا اگر وہ چوری بھی کرتے تو ان کے لیے جائز تھا ؟ مگر وہ نہیں جانتے کہ خدا جس کے ہاتھ ہو جائے وہ چوری کر ہی کس طرح سکتا ہے۔ دیکھو ٹائپ کی مشق کرنے والے اتنی مشق کر لیتے ہیں کہ آنکھیں بند کر کے چلاتے جاتے ہیںاور غلطی نہیں کرتے ۔ اسی طرح ایک زمیندارخاص طریق سے زمین میں دانہ ڈالتا ہے اور جس کی مشق نہ ہو وہ اس طرح دانہ نہیں ڈال سکتا۔ اسی طرح ایک جلد ساز کو مشق ہو تی ہے اور وہ سُوا ایک خاص طرز سے مارتا ہے۔ پس جس طرح ان کاموں میں مشق کرنے والے غلطی نہیں کر سکتے۔اس طرح تقویٰ کی راہوں پر چلنے کی مشق کرتے کرتے جب انسان اس حد تک ترقی کر جاتا ہے کہ خدا ان کی آنکھ،کان، ہاتھ اور پاؤں ہو جاتا ہے وہ غلطی نہیں کر سکتے۔ اندھے بھی اپنے گھروں میں دوڑتے پھرتے ہیں۔ہمارے ہاں ایک اندھی عورت رہتی تھی اس کی جہاں چیزیں ہوتیں سیدھی وہیں جاتی اور جا کر ان کو اٹھا لیتی۔ ناواقف لوگ بعض دفعہ ایسے اندھوں کو دیکھ کر خیال کر لیتے ہیں کہ یہ فریب کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کو مشق سے یہ درجہ حاصل ہوا ہوتا ہے ۔ ورنہ وہ فی الحقیقت اندھے ہوتے ہیں ۔ پس جب اندھا بھی مشق سے اس درجہ کو حاصل کر سکتا ہے تو کیا عقل کا سوجاکھا ترقی کرتے کرتے اس مقام پر نہیں پہنچ سکتا کہ اس کا ہاتھ ہمیشہ صحیح جگہ پر ہی پڑے اور وہ غلطی سے محفوظ ہو جائے۔ اور خصوصاً جب کہ اللہ تعالیٰ کسی کے ہاتھ پاؤں ہو جائے تو پھر تو اس امر میں کوئی تعجب کی بات ہی نہیں رہتی۔ یہ درجہ بھی تقدیر پر ایمان کا نتیجہ ہے ورنہ اگر تقدیر ہی نہ ہوتی تو وہ تقدیر خاص سے کس طرح مدد لیتے؟ پس تقدیر خاص جاری کرنے کی ایک یہ بھی وجہ ہے کہ انسان عبودیت کے اس مقام پر پہنچ جائے کہ خدا تعالیٰ میں اور اس میں وحدت پیدا ہو جائے اور وہ گو عبد ہی رہے مگر اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہو جائے۔ مگر یہی مقام نہیں بلکہ اس سے آگے ایک ایسا مقام ہے کہ جس کو دیکھ کر انسان کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں اور وہ نبوت کا مقام ہے۔ کہتے ہیں جب خدا تعالیٰ انسان کے ہاتھ پاؤں اور کان ہو گیا تو پھر اَور کیا درجہ ہو سکتا ہے۔ مگر یہ غلط ہے اس سے اوپر اور درجہ ہے اور وہ یہ کہ پہلے تو خدا بندے کا ہاتھ پاؤں اور کان ہوا تھا ۔ اس درجہ پر پہنچنے پر اس کے ہاتھ پاؤں آنکھ اور کان خدا تعالیٰ کے ہوجاتے ہیں اور یہی مقام ہے جہاں درحقیقت انسان تقدیرکی پوری حقیقت سے آگاہ ہو سکتا ہےکیونکہ اس مقام پر یہ مجسم تقدیر ہو جاتا ہے اور تقدیر کو اگر پانی فرض کیا جائے تو یہ اس کو چلانے کے لیے بمنزلہ نہر کے ہوتا ہے اور اس مقام پر پہنچ کر خدا تعالیٰ کے راز میں شامل ہو جاتا ہے اور بندہ ہوتے ہوئے خدا کے نشان اس سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے نادان اسے خدا سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ پہلے تو یہ تھا کہ کبھی خدا سے مانگنے جاتا تھا مگر اب اس پر تقدیر ہی تقدیر جاری ہو جاتی ہے اور یہ وہ مقام ہےکہ اس پر پہنچنے والے انسان جو کچھ کرتے ہیں وہ ان سے خدا ہی کراتا ہے۔ اسی لیے خدا نے رسول کریم ﷺ کے متعلق فرمایا ہے۔
وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی۔ اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی (النجم:4تا5)
کہ یہ جو کچھ کہتا ہے الہام ہے ۔
اسی طرح حضرت صاحبؑ نے رؤیا میں دیکھا کہ آپ فرماتے ہیں کہ آؤ ہم نئی زمین اور نیا آسمان بنائیں۔ نادان کہتے ہیں کہ یہ شرک کا کلمہ ہے مگرنہیں یہ مقام نبوت کی طرف اشارہ ہے ۔ حضرت صاحبؑ نے پہلے مقام کا نام قمر اور دوسرے کا شمس رکھا ہے ۔ یعنی پہلا مقام تو یہ ہے کہ خدا کے ذریعہ انسان کا نور ظاہر ہو تا ہے۔ اور دوسرا مقام یہ ہے کہ انسان کے ذریعہ خدا کا نور ظاہر ہوتا ہے ۔ یہی معنی آپ نے الہام یَا شَمْسُ وَ یَا قَمَرُ کے کیے ہیں۔ تو یہ مقام نبوت ہے اور اس مقام سے کوئی آگاہی نہیں دیا جاتا مگر بطور حال کے ۔ سوائے ان لوگوں کے کہ جن کو اللہ تعالیٰ مقام نبوت پر کھڑ اکرے۔ خدا تعالیٰ کا جلال انہی لوگوں کے ذریعہ ظاہر ہوتا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کو دیکھنےکی کھڑکی ہوتے ہیں۔ جو ان میں سے ہو کر خد اکو دیکھنا نہ چاہے وہ خد اکو نہیں دیکھ سکتا۔
درجہ ہفتم
چھٹا مقام تو یہ تھا کہ جو خدا کو نہ دیکھے وہ اس شخص کو نہیں دیکھ سکتا اور ساتواں یہ ہے کہ جو اس مقام پر کھڑے ہونے والے انسان کو نہ دیکھے وہ خدا کو نہیں دیکھ سکتا۔ یعنی چھٹے مقام کےمتعلق تو ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اس مقام پر کھڑا ہونے والے شخص کو شناخت نہ کرے مگر خد اکو کرے۔لیکن ساتواں مقام ایسا ہے کہ جو شخص ا س پر کھڑے ہونے والے شخص کو شناخت نہیں سکتا وہ خد اکو بھی شناخت نہیں کر سکتا اور اسی کانام کفر ہے ۔ کیونکہ جب یہ خد اکےہاتھ اور پاؤں بن جاتے ہیں تو جہاں یہ جائیں گے وہیں خدا جائے گا۔ اور جو ان کو نہیں دیکھتا یقینی ہے کہ وہ خدا کو بھی نہ دیکھ سکے اور جو خد اتعالیٰ کو نہیں دیکھتا وہ کافر ہے۔
یہ مقام حال کے طور پر تو اور لوگوں پر بھی آتا ہے مگرمقام کے طورپر کسی نبی کے بغیر اور کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا ۔ یہ سب سے اعلیٰ مرتبہ ہے اور اس میں تقدیر ایسے رنگ میں ظاہر ہوتی ہے کہ اس کو سمجھنا ہر انسان کا کام نہیں ہے۔ ہاں اہل علم لوگ شناخت کر لیتے ہیں۔ اس مقام پر پہنچے ہوئے انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ خدا ہی کا رنگ اس میں آجاتا ہے او ر یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جب تقدیر حقیقی طورپر ظاہر ہوتی ہے ۔ محمد رسول اللہ ﷺ کا وجود خدا تعالیٰ کے وجود میں مخفی ہو گیا تھا۔ پس آپ کا ہر ایک فعل در حقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا ۔ لیکن تم جو کچھ کرتے ہو یہ خد ا تم سے نہیں کراتا کیونکہ تم خدا کے ہاتھ نہیں ہو ۔ اگر کوئی بدنظری کرتا ہے تو خود کرتا ہے اور چوری کرتا ہے تو خود کرتا ہے ۔ خدا تعالیٰ اس سے ایسا نہیں کراتا ۔ خدا تعالیٰ تو ان سے کام کروایا کرتا ہے جو اس کی صفات کے مظہر ہوجاتے ہیں اور وہ جن کا ہاتھ ہو جاتایا پاؤں ہو جاتاہے یا آنکھ ہو جاتا ہے یا کان ہو جاتاہے یا جو اس کےہاتھ ہو جاتے ہیں یا پاؤں ہو جاتے ہیں یا آنکھ ہو جاتے ہیں یا کان ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بشریت کی غلطی پر بھی اگر کوئی معترض ہو تو سزا پاتا ہے اور یہ تقدیر الٰہی کی وہ حد ہے جس سے انسان کو تعلق ہے۔
اب میں تقدیر پر ایمان لانے کے فوائد بھی بیان کر چکا ہوں اور ان سے معلوم ہو سکتاہے کہ یہ مسئلہ روحانیت کو کامل کرنے کے لیے کس قدر ضروری ہے اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کے ماننے کو ایمان کی شرط قرار دیا ہے ۔
یہ ہے وہ مسئلہ تقدیر جس سے عام لوگ ٹھوکر کھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ توفیق عنایت فرمائے کہ ہم اس کو صحیح طورپر سمجھیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔ آمین ۔
…………………………………………………………………
1۔ ایک صاحب سوال کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی حیثیت ممتحن ہی کی نہیں بلکہ رحیم و کریم کی ہے ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ٹھیک ہے۔ مگر اس حیثیت کا ظہور امتحان لینے کے بعد نمبر دیتے وقت ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ پرچہ لکھتے وقت بتاتا جائے کہ اس سوال کا جواب یہ لکھو اور اس کا یہ۔
2۔ اس موقع پر کسی صاحب نے سوال کیا کہ قدر خیرہ و شرہ پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟ حضور نے فرمایا: اس کا یہ مطلب ہے کہ خیر کی جزاء بھی اللہ کی طرف سے ملتی ہے اور بدی کی سزا بھی خدا کی طرف سے۔ اس پر ایمان لانے کا یہ مقصد ہے کہ انسان ‘‘گندم از گندم بروید جو زجو’’ کے مسئلہ پر ایمان رکھے اور خدا پر ظلم کا الزام نہ لگاوے۔ (منہ)
٭…٭…٭