شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
آپؑ کے ہنسنے مسکرانےاورمزاح کا بیان (حصہ چہارم۔آخر)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں :
“مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ (صاحبزادہ مبارک احمد مرحوم کی وفات کے بعد) حضور مسیح موعود علیہ السلام فِدَاہُ اُمِّی وَاَبِیْ اس جگہ جہاں ام ناصراحمد سلمہا کا آنگن ہے چارپائی پر بیٹھے یا لیٹے ہوئے تھے۔حضرت ام المومنین پاس ہوتی تھیں ۔حضرتؑ اس طرح خوشی ہنسی باتیں کرتے تھے گویا کوئی واقعہ رنج اور افسوس کا ہوا ہی نہیں ۔عورتیں تعزیت کے واسطے آتیں تو حضور علیہ السلام کو اس حال میں راضی دیکھ کر کسی کو رونے کی جرأت نہ ہوتی اور حیران رہ جاتیں ۔”
(سیرت المہدی جلد دوم روایت نمبر1361)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں :
“مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم ومغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ اصغری کی والدہ کھانا پکایا کرتی تھی۔ایک دن کریلے گوشت کا سالن پکایا۔حضور کو یہ سالن پھیکا معلوم ہوا تو کھانا لانے والی خادمہ کو فرمایا کہ اصغری کی اماں سے پوچھو کہ ‘‘کیانمک ڈالنا بھول گئی ہو” اس نے جا کر پوچھا تو اس کو اصغری کی اماں نے کہا کہ میں نے تو کئی مرتبہ نمک ڈالا تھا مگر میں نے خیال کیا کہ شاید میرے منہ کا مزہ اس وقت درست نہیں ہے اس لیے میں نے اور ڈالنا بند کر دیا تھا۔پھر حضور ؑنے اس کو خود طلب کر کے پوچھا تو اس نے یہی کہا کہ میں نے تو نمک کئی بار ڈالا ہے۔میں چکھتی رہی ہوں مگر سالن پھیکا ہی معلوم ہوتا رہا۔حضرت اُمّ المومنین نے فرمایا کہ اصغری کی اماں ! باورچی خانہ کے طاق میں جو پھٹکڑی پڑی تھی کہیں وہی تو نہیں ڈال دی؟ مگر اس نے انکار کیا بعدہ جب ایک عورت کو بھیجا کہ جا کر دیکھو کہ طاق میں پھٹکڑی ہے یا نہیں ؟ اور اس نے جاکر دیکھا تو معلوم ہو اکہ پھٹکڑی وہاں نہیں ہے اس طرح یقین ہوگیا کہ سالن میں غلطی سے نمک کی بجائے پھٹکڑی پڑ گئی ہے۔حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ‘‘نماز کا وقت ہوچلا ہے کوئی اور چیز روٹی کے ساتھ کھانے کو منگا لو۔”اس وقت اور کچھ انتظام جلدی سے کر لیا گیا تھا۔
دوسرے دن جب کھانا آیا تو میں بھی وہاں موجود تھی۔ حضور ؑنے اصغری کی اماں سے دریافت کیا کہ‘‘سچ سچ بتاوٴ کہ سالن میں کل نمک ڈالا تھا یا پھٹکڑی ؟ تو اس نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کہ حضور غلطی سے پھٹکڑی پڑ گئی تھی۔حضور ؑنے ہنس کر فرمایا کہ “کل تم نے کیوں نہیں مانا تھا کہ پھٹکڑی ڈالی ہے۔”اس نے کہا کہ حضور میں ڈرتی تھی کہ شاید حضور خفا ہوں گے۔حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ “کیاآج ہم خفا نہیں ہوسکتے ہمیں تو کل ہی پتہ لگ گیا تھا”۔
(سیرت المہدی جلد دوم روایت نمبر1420)
حضرت سید فضل شاہ صاحب ؓ فرماتے ہیں :
“جب میں حضور کے پاس ہو تا تھا۔میں نے دیکھا کہ اکثر حضرت میاں شریف احمد ؓ حضرت صاحب کے پاس آجاتے۔یا تو کچھ مانگنے لگتے۔یا کاغذوں چیزوں کو اِدھر اُدھر کرنے لگ جاتے۔آخر … حضرت صاحب فرماتے ہم تم کو ابھی پکڑ کر استاد کے پاس بھیج دیتے ہیں ۔تو فی الفور میاں بھاگ جاتے۔حضرت صاحب دیکھ کر مسکراتے اور دروازہ بند کرلیتے۔”
(سیرت احمد ؑ از حضرت منشی قدرت اللہ سنوری صاحب صفحہ176)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے فرماتے ہیں :
“ڈاکٹر میر محمداسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی کبھی اپنے بچوں کو پیا ر سے چھیڑا بھی کرتے تھے اور وہ اس طرح سے کہ کبھی کسی بچہ کا پہنچہ پکڑ لیا۔اور کوئی بات نہ کی خاموش ہو رہے یا بچہ لیٹا ہوا ہو تو اس کا پاؤں پکڑ کر اس کے تلوے کو سہلانے لگے۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میر صاحب کی اس روایت نے میرے دل میں ایک عجیب درد آمیز مسرت و امتنان کی یاد تازہ کی ہے کیونکہ یہ پہنچہ پکڑ کر خاموش ہو جانے کا واقعہ میرے ساتھ بھی (ہاں اس خاکسار عاصی کے ساتھ جو خدا کے مقدس مسیح کی جوتیوں کی خاک جھاڑنے کی بھی قابلیت نہیں رکھتا)کئی دفعہ گذراہے۔وَذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ ”ورنہ ہم کہاں بزم شہر یار کہاں ۔”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر332)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
“حافظ نور محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب میں اور حافظ نبی بخش صاحب حضرت صا حب کی ملاقات کے لیے گئے تو آپ نے عشاء کے بعدحافظ نبی بخش صاحب سے مخاطب ہو کر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ “میاں نبی بخش آپ کہاں لیٹیں گے؟میاں نور محمد تو لحد کی مشق کر رہے ہیں “بات یہ تھی کہ اس وقت میں جہاں لیٹا ہوا تھا میرے نیچے ایک ٹکڑا سر کنڈے کا پڑا تھا جو قد آدم لمبا تھا۔اسے دیکھ کر آپ نے بطورمزاح ایسا فرمایا۔کیونکہ دستور ہے کہ مردہ کو کسی سر کنڈہ سے ناپ کر لحد کو اس کے مطابق درست کیا کرتے ہیں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی طبیعت نہایت بامذاق واقع ہوئی تھی اور بعض اوقات آپ اپنے خدام کے ساتھ بطریق مزاح بھی گفتگو فرمالیتے تھے۔”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 349)
“آپ کا رنگ گندمی اور نہایت اعلیٰ درجہ کا گندمی تھا یعنی اس میں ایک نورانیت اور سُرخی جھلک مارتی تھی۔اور یہ چمک جو آپ کے چہرہ کے ساتھ وابستہ تھی عارضی نہ تھی بلکہ دائمی۔کبھی کسی صدمہ ،رنج ، ابتلا، مقدمات اور مصائب کے وقت آپ کا رنگ زرد ہو تے نہیں دیکھا گیا اور ہمیشہ چہرہ مبارک کندن کی طرح دمکتا رہتا تھا۔کسی مصیبت اور تکلیف نے اس چمک کو دور نہیں کیا۔علاوہ اس چمک اور نور کے آپ کے چہرہ پر ایک بشاشت اور تبسم ہمیشہ رہتا تھا اور دیکھنے والے کہتے تھے کہ اگر یہ شخص مفتری ہے اور دل میں اپنے تئیں جھوٹا جانتا ہے تو اسکے چہرہ پر یہ بشاشت اور خوشی اور فتح اور طمانیت قلب کے آثار کیونکر ہو سکتے ہیں ۔یہ نیک ظاہر کسی بد باطن کے ساتھ وابستہ نہیں رہ سکتا۔اور ایمان کا نور بد کا ر کے چہرہ پر درخشندہ نہیں ہوسکتا۔آتھم کی پیشگوئی کا آخری دن آگیا اور جماعت میں لوگوں کے چہرے پژ مردہ ہیں اور دل سخت منقبض ہیں ۔بعض لوگ ناواقفی کے باعث مخالفین سے اس کی موت پر شرطیں لگا چکے ہیں ۔ہر طرف سے اُداسی کے آثار ظاہر ہیں ۔لوگ نمازوں میں چیخ چیخ کر رو رہے ہیں کہ اے خداوند ہمیں رسوا مت کریو۔غرض ایسا کہرام مچ رہا ہے کہ غیروں کے رنگ بھی فق ہو رہے ہیں مگر یہ خدا کا شیر گھر سے نکلتا ہے ہنستا ہوا اور جماعت کے سربر آوردوں کو مسجد میں بلاتا ہے مسکراتا ہوا۔ادھر حاضرین کے دل بیٹھے جاتے ہیں ۔ادھر وہ کہہ رہا ہے کہ لو پیش گوئی پوری ہوگئی۔اِطَّلَعَ اللّٰہُ عَلٰی ھَمِّہ وَغَمِّہ۔ مجھے الہام ہوا اس نے حق کی طرف رجوع کیا حق نے اس کی طرف رجوع کیا۔کسی نے اس کی بات مانی نہ مانی اس نے اپنی سُنا دی اور سننے والوں نے اس کے چہرہ کو دیکھ کر یقین کیا کہ یہ سچا ہے۔ہم کو غم کھا رہا ہے اور یہ بے فکر اور بے غم مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہا ہے۔اس طرح کہ گویا حق تعالیٰ نے آتھم کے معاملہ کا فیصلہ اسی کے اپنے ہاتھ میں دید یا۔اور پھر اس نے آتھم کا رجوع اور بیقراری دیکھ کر خود اپنی طرف سے مہلت دیدی اور اب اس طرح خوش ہے جس طرح ایک دشمن کو مغلوب کر کے ایک پہلوان پھر محض اپنی دریا دلی سے خودہی اسے چھوڑدیتا ہے کہ جاؤ ہم تم پر رحم کرتے ہیں ۔ہم مرے کو مارنا اپنی ہتک سمجھتے ہیں ۔”
(سیرت المہدی جلداوّل روایت نمبر447)
حضرت سید شاہ عالم صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“حضور کام میں اتنا مشغول رہتے تھے حضور کے مکان میں جو اوپر کا صحن ہے اس میں گرمیوں میں پلنگ کے اوپر چادر تانی جاتی تھی۔عصر کے بعد حضور ٹہل ٹہل کر لکھتے جاتے تھے تین دوات مٹی کی اور کانے کی قلمیں ایک دوات قصر خلافت کی طرف سے جو سیڑھیاں اوپر کو چڑھتی ہیں وہاں دیوار کے ایک طاق میں رکھتے۔دوسری درمیان کے بڑے سٹول پر۔تیسری پاخانہ کے ساتھ والے طاق میں۔ٹہلتے جاتے اور لکھتے جاتے۔مجھے کئی دفعہ حضور نے فرمایا کہ ان دواتوں میں پانی ڈال دو۔ایک دفعہ میں نے ایک دوات میں پانی ڈال کر بھر دیا کہ جلد ختم نہ ہو جاوے حضور بہت ہنسے اور میرا ہاتھ پکڑ کر ہنستے جاتے فرمانے لگے کہ آخر سید کے بیٹے ہیں فراخدلی سے کام لیا۔”
(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد8صفحہ87روایت سید شاہ عالم صاحب ؓ)
٭…٭…٭