پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

{2019ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب}

احمدیہ مسجد کی تعمیر میں مداخلت

جلال پور جٹاں ضلع گجرات :نومبر2019ء ایک احمدی مکرم اشفاق احمد صاحب نے زمین کا ایک ٹکڑا مسجد کی تعمیر کےلیے وقف کیا۔ اس کو پاکستان میں جماعت احمدیہ کے نام پر رجسٹر کروایا گیا۔ حکام سے منظوری کے بعد تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ جب چھت ڈالی جا رہی تھی تو پولیس آئی اور احمدیوں کو کہا کہ تعمیر جاری رکھنے سے قبل ضلعی انتظامیہ سے NOCحاصل کریں ۔ چنانچہ احمدیوں نے ڈپٹی کمشنر کو NOCکے حصول کی درخواست دی۔

اس جگہ جماعت کی مخالفت کی وجہ گاؤں میںایک مخالف شخص تھا جس کے پو لیس سے تعلقات بتائے جاتے ہیں۔ اس نے گاؤ ں میں احمدیہ مسجد کی تعمیر روکنے کےلیے ایک تحریک بھی چلائی نیز 12؍نومبر کو تقریباً 50؍افراد پر مشتمل ایک جلسہ کا انعقاد کیا ہائی وے کو ٹریفک کےلیے بلاک کر کے اشتعال انگیز تقاریر کیں۔ مقامی مدرسہ کے طلباء اور ملا ںبھی اس مظاہرےمیں شامل ہوگئے۔ ان حالات میں تعمیرات کے کام کو روکنا پڑ گیا۔

احمدی عبادت گاہ کی تعمیر: ‘معاملہ حساس ، شکایت خارج کرتے ہیں’

مردان:independenturdu.comنے11؍نومبر 2019ءکودرج ذیل عنوان سےاپنے ہوم پیچ پر خبر شائع کی ‘‘احمدی عبادت گاہ کی تعمیر:معاملہ حساس، شکایت خارج کرتے ہیں’’۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں احمدیوں کی ایک عبادت گاہ کی از سر نوتعمیر کے حوالے سے پاکستان سٹیزن پورٹل پر درج ایک شکایت کا سکرین شاٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد علاقے میں کشیدگی پھیل گئی اور مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔

یہ شکایت 3؍اکتوبر کو مردان کے ایک رہائشی نے درج کرائی جس میں کہا گیا کہ بازار بکٹ گنج میں احمدیوں کی 1988ء میں مسمار کی جانے والی عبادت گاہ دوبارہ تعمیر کی جائے۔

شکایت درج کرانے والے رہائشی کا کہنا تھا “وزیر اعظم عمران خان پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور اگر ملک میں اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں تو مردان میں احمدیوں کی عبادت گاہ ابھی تک کیوں دوبارہ تعمیر نہیں کی گئی؟”

4؍اکتوبر کو شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے ڈائریکٹر ہیومن رائٹس نے سیکرٹری اوقاف و مذہبی امور کو لکھا کہ اس مسئلےکو دیکھا جائے تاکہ شکایت کنندہ کی شکایت دور ہو سکے۔

سٹیزن پورٹل کے مطابق 18؍اکتوبر کو سیکرٹری اوقاف نے ڈپٹی کمشنر مردان کو لکھا کہ ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ مرتب کر کے محکمہ مذہبی امور کو ارسال کی جائے۔

اس کے بعد 21؍اکتوبر کو ڈپٹی کمشنر نے اسسٹنٹ کمشنر مردان کو لکھا کہ تین دن کے اندر اندر اس معاملے پر رپورٹ مرتب کر کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں جمع کرائی جائے تاکہ شکایت دور کرنے کے لیے اسے متعلقہ محکمے کو بھیجا جائے۔

یکم نومبر کو شکایت کنندہ کو مخاطب کرتے ہوئے سیٹیزن پورٹل پر لکھا گیا کہ آپ کی شکایت دور کرنے کے لیے اسے تحصیل دار مردان کو بھیجا گیا ہے تاکہ وہ مزید جانچ پڑتال کریں۔

تاہم جب یہ معاملہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو مردان میں اس کے خلاف مظاہرہ کیا گیا، جس کے بعد 10؍نومبر کو سٹیزن پورٹل پر شکایت کنندہ کو لکھا گیا، ‘‘یہ حساس نوعیت کا مذہبی مسئلہ ہے لہٰذا یہ پورٹل کے دائرہ اختیار میں نہیں، اس لیے آپ کی شکایت خارج کی جاتی ہے۔’’

اس سارے معاملے کے متعلق مردان میں مذہبی تنظیموںاور شہریوں نے مظاہرہ کیا، جس کی قیادت پاکستان تحریک انصاف کے مقامی رہنما اور سابق نیبر ہڈ (Neighbourhood)کونسل ناظم ساجد اقبال مہمند کر رہے تھے۔

ساجد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا “ہمیں بتایا گیا تھا کہ حکومت شکایت دور کرنے کے لیے احمدیوں کی عبادت گاہ کو دوبارہ تعمیر کرانا چاہتی ہے جس کو ہم کبھی نہیں ہونے دیں گے۔”

انہوں نے دعویٰ کیا کہ مردان میں احمدی برادری کے اب چند ہی لوگ رہ گئے ہیں جو اس قسم کے ہتھکنڈے استعما ل کر کے اشتعال پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

اگر مردان میں احمدی لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں تو ان کے لیے عبادت گاہ تعمیر کرنے کی کیا منطق ہے؟ احمدی پاکستانی آئین کے مطابق غیر مسلم ہیں اور وہ اپنی عبادت گاہ کو مسجد کا نام نہیں دے سکتے اور نہ ہی مسجد کی طرز پر وہ اپنی عبادت گاہ تعمیر کر سکتے ہیں۔

انہوں نے اس سلسلے میں بتایا کہ دیگر علماءسمیت ایک وفد نے ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کی جس میں ڈپٹی کمشنر نے یقین دہانی کرائی کہ حکومت کا علاقے میں عبادت گاہ بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں۔ وہ ناموس رسالت پر یقین رکھتے ہیں اور ایسا کام نہیں کریں گے۔

اس سلسلے میں گذشہ روز ڈپٹی کمشنر مردان عابد وزیر نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ یہ شکایت سٹیزن پورٹل پر درج ہوئی تھی اور اس پر کوئی کام نہ ہوا اورنہ ہو گا۔

انہوں نے ملاقات کے لیے آنے والے وفد سے گفتگو میں کہا:‘ناموس رسالت کے معاملے میں آپ آگے ہوں گے اور ہم آپ کے پیچھے۔ یہ صرف ایک شکایت تھی جو سٹیزن پورٹل پر درج ہوئی ۔ یہ ساری افواہیں ہیں جن پر کان دھرنے کی ضرورت نہیں۔’

مقامی صحافی عبدالستار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا یہ عبادت گاہ 1988ء میں ایک ہجوم نے مسمار کر دی تھی، جس کے بعد زمین کو متنازع قرار دے کر حکومت کی تحویل میں دے دیا گیا ۔

انہوں نے بتایا کہ مردان میں کئی دہائیوں پہلے احمدیوں کے چند بڑے کاروباری خاندان آباد تھے لیکن اب وہ یہاں سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔

عبد الستار کے مطابق جس شخص نے سٹیزن پورٹل پر شکایت کی وہ اس متنازع زمین کی ملکیت کا دعویٰ بھی کرتا ہے لیکن ضلعی انتظامیہ نے یہ شکایت خارج کر دی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مقامی لوگوں نے ڈپٹی کمشنر کو کہا تھا کہ اگر ضلعی انتظامیہ چاہے تو وہ یہ زمین خرید کر اس پر مسجد تعمیر کر سکتے ہیں، جس پر ڈپٹی کمشنر نے کہا چونکہ یہ زمین متنازع ہے لہٰذا ایسا کرنا ممکن نہیں۔

مذکورہ رپور ٹ پر تبصرہ

٭…معاشرے اور ریاست کا ایک اقلیت کی عبادت گاہ کے ساتھ ایسا رویہ قابلِ فکر ہے۔

٭…درخواست کے خلاف اشتعال ایک PTI رکن اور مقامی لیڈر کی طرف سے کیا گیا ۔ تو پھر PTIاور(JUIF) کی قیادت میں کیا فرق رہ گیا؟

٭…ڈی سی صاحب نے رضاکارانہ طور پر خود کو تعمیر نَو کے تناظر میں ہونے والےمعاملے میں حرمت رسول کے حوالے سے متشددانہ سوچ والے لوگوں کی پیروی کےلیے پیش کر دیا۔

٭…کس قدر تیزی سے شعبہ مذہبی امور نے ایک احمدی کی جائز درخواست پر عمل کرنے سے ہاتھ پیچھے کھینچ لیے۔

٭…اپنے گھر میں اس قسم کے رویہ کے ساتھ پاکستان کی مسلمان اکثریت کس طرح انڈیا میں بابری مسجد کے متعلق انڈین سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر شکایت کر سکتی ہے کہ بابری مسجد کی جگہ مسلمان اقلیت کو نہ دی جائے؟

پنجاب کے وبائی دارالحکومت لاہور میں احمدیت مخالف بینر ز

دہلی گیٹ لاہور نومبر2019ء : دو ماہ قبل اطلاع دی گئی کہ ایک نامعلوم شخص تین احمدیت مخالف بینرز لاہور کے علاقے دہلی گیٹ میں لگا گیا۔ جن پر تحریر تھا کہ میں بغیردلیل کے قادیانیوں کو کافر مانتا ہوں اورقادیانی واجب القتل ہیں۔

پولیس کو ان بینرز کے بارے میں اطلاع دی گئی توانہوں نے ان بینرز کو ہٹایا اور سی سی ٹی وی فوٹیج کو اپنے ساتھ لے گئے تاکہ اس شخص کی شناخت کرسکیں ۔

یہ بینرز اب لاہور کی کئی اَور مختلف جگہوں پر بھی سامنے آنے لگے ہیں جہاں سے یہ ہٹا دیے گئے۔تاہم بعض دکانوں پر ابھی بھی نفرت آمیزسٹکر چسپاں ہیں۔

ایک جانےمانے صحافی علی عثمان قاسمی نے اس معاملے پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ
احمدیوں کو واجب القتل قرار دینا اور ربوہ کی سرزمین کو خون سے رنگنے کی دھمکیاں دینا کھلم کھلا فساد پر انگیخت کرنا ہے۔ یہ کوئی دوردراز علاقہ کی تصویر نہیں۔ یہ دہلی گیٹ لاہور میں موجود پولیس اسٹیشن کےبالکل سامنے کی ہے۔

ربوہ میں ایک اَور اینٹی احمدیہ کانفرنس

ربوہ 22؍نومبر 2019ء:مسلم کا لونی میں واقع مدرسہ عثمانیہ ختم نبوت میں “آفتاب ختم نبوت کانفرنس ’’کا انعقاد کیا گیا۔ قاری شبیر عثمانی نے اس کانفرنس کی صدارت کی۔ یہ کانفرنس 12:50سے 4:20تک جاری رہی۔ اس میں150؍سے 157؍ افراد نے شرکت کی ۔سید اسماعیل شاہ کاظمی جس کا تعلق لاہور سے ہے، قاری شبیر عثمانی ،مفتی محمد یعقوب، محمد حنیف مغل، احسن رضوان عثمانی ،سید محمد سیف اللہ شاہ فاروقی، خلیل احمد اشرفی ، قاری محمد یوسف کاظمی ، محمد سلیمان عثمانی او ر غلام شبیر عثمانی سمیت بہت سے عثمانی پیروکاروں نے مذہبی منافرت کو ہوا دینے والی تقاریر کیں اور اس کانفرنس کے انعقاد میں اہم کردار ادا کیا ۔

اس کانفرنس میں جماعت احمدیہ کے خلاف تقاریر کی گئیں اور بے بنیاد الزامات لگا ئے گئے جن میں سے بعض یہ ہیں کہ ملک میں دہشت گردی کے ذمہ دار احمدی ہیں ،قادیانی نہ صرف غیر مسلم ہیں بلکہ ملک اور آئین کے غدار بھی ہیں ۔اسی طرح قادیانی ختم نبوت کے انکاری اور مرتد ہیں وغیرہ ۔
کانفرنس میں حکومت کو متنبہ کیا گیاکہ ختم نبوت قوانین میں ترمیم کرنے کے سنگین نتائج پیدا ہوںگے ۔ کہا گیا کہ ناموس رسالت کی خاطر ہم گردنیں کاٹ دیں گے اور اس کے قوانین میں ہر گز ترمیم کی اجازت نہیں دیں گے اس بات کا بھی اظہار کیا گیا کہ کرتارپور بارڈر احمدیوں اور سکھوں کو سہولت دینے کے لیے کھولی گئی ہےاور ایسے اقدامات ناقابل برداشت ہیں ۔

اس کانفرنس کے شاملین نے بہت سی قرار دادیں پاس کیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

٭…ارتداد کی شرعی سزا کے متعلق قانون سازی ہو۔

٭…دیگر اقلیتوں کی طرح قادیانی اوقاف بھی حکومتی زیر انتظام ہونی چاہیے ۔

٭…شناختی کارڈ پر مذہب درج ہونا چاہیے تا کہ قادیانیوں اور مسلمانوں کے درمیان فرق واضح ہو اور قادیانی مسلمانوں کے حاصل کردہ حقوق سے افادہ نہ کر سکیں۔

٭…ختم نبوت سرکاری اور نجی سکولوں کے نصاب کا حصہ ہوناچاہیے ۔

٭…سعودی عرب کو چاہیے کہ وہ اپنے ویزٹ ویزہ کے فارم کے ساتھ ختم نبوت کا اقرار نامہ بھی شامل کرے تاکہ قادیانی اس مقدس سر زمین میں داخل نہ ہوسکیں ۔

٭…سامعین نے شدت سے اس بات کی مذمت کی کہ سکھوں کے لیے کرتارپور بارڈرکھولنے کی آڑ میں در اصل قادیانیوں کو سہولت مہیا کی گئی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ قادیانیوں کو ہرگز اس سے فائدہ نہ اٹھانے دیا جائے۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button