ایک مخلص کے لیے خارق عادت جوش کے ساتھ دعا اور اس کی قبولیت
میرے ایک صادق دوست اور نہایت مخلص جن کا نام ہے سیٹھ عبد الرحمٰن تاجر مدراس اُن کی طرف سے ایک تار آیا کہ وہ کاربنکل یعنی سرطان کی بیماری سے جو ایک مہلک پھوڑا ہوتا ہے بیمار ہیں چونکہ سیٹھ صاحب موصوف اوّل درجہ کے مخلصین میں سے ہیں اِس لیے انکی بیماری کی وجہ سے بڑا فکر اور بڑا تر دّد ہوا ۔قریباً نو بجے دن کا وقت تھا کہ میں غم اور فکر میں بیٹھا ہوا تھا کہ یک دفعہ غنودگی ہو کر میرا سر نیچے کی طرف جُھک گیا اور معاً خدائے عزّوجلّ کی طرف سے وحی ہوئی کہ آثارِ زندگی۔ بعد اس کے ایک اَور تار مدراس سے آیا کہ حالت اچھی ہے کوئی گھبراہٹ نہیں۔ لیکن پھر ایک اَور خط آیا کہ جو اُن کے بھائی صالح محمد مرحوم کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھاجس کا یہ مضمون تھا کہ سیٹھ صاحب کو پہلے اِس سے ذیابیطس کی بھی شکایت تھی۔ چونکہ ذیابیطس کا کاربنکل اچھا ہونا قریباً محال ہے اِس لیے دوبارہ غم اور فکر نے استیلا کیا اور غم انتہا ءتک پہنچ گیا اور یہ غم اس لیے ہوا کہ میں نے سیٹھ عبد الرحمٰن کو بہت ہی مخلص پایا تھا اور انہوں نے عملی طور پر اپنے اخلاص کا اوّل درجہ پر ثبوت دیا تھا اور محض دلی خلوص سے ہمارے لنگر خانہ کے لیے کئی ہزار روپیہ سے مدد کرتے رہے تھے جس میں بجز خوشنودیٔ خدا کے اَور کوئی مطلب نہ تھا اور وہ ہمیشہ صدق اور اخلاص کے تقاضا سے ماہواری ایک رقم کثیر ہمارے لنگر خانہ کے لیے بھیجا کرتے تھے اور اس قدر محبت سے بھرا ہوا اعتقاد رکھتے تھے کہ گویا محبت اور اخلاص میں محو تھے اور اُن کا حق تھا کہ اُن کے لیے بہت دعا کی جائے ۔ آخر دل نے اُن کے لیے نہایت درجہ جوش مارا جو خارق عادت تھا اور کیارات اور کیا دن میں نہایت توجہ سے دعا میں لگا رہا۔ تب خدا تعالیٰ نے بھی خارق عادت نتیجہ دکھلایا اور ایسی مہلک مرض سے سیٹھ عبد الرحمٰن صاحب کو نجات بخشی گو یا اُن کو نئے سرے سے زندہ کیا ۔ چنانچہ وہ اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کی دُعا سے ایک بڑا معجزہ دکھلایا ورنہ زندگی کی کچھ بھی اُمید نہ تھی اپریشن کے بعد زخم مندمل ہونا شروع ہو گیا اور اس کے قریب ایک نیا پھوڑا نکل آیا تھا جس نے پھر خوف اورتہلکہ میں ڈال دیا تھا مگر بعد میں معلوم ہواکہ وہ کاربنکل نہیں ۔ آخر چند ماہ کے بعد بکلّی شفا ہو گئی۔ میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہی مُردہ کا زندہ ہونا ہے۔ کاربنکل اور پھر اس کے ساتھ ذیابیطس اور عمر پیرانہ سالی اِس خوفناک صورت کو ڈاکٹر لوگ خوب جانتے ہیں کہ کس قدر اس کا اچھا ہونا غیر ممکن ہے۔ ہمارا خدا بڑا کریم و رحیم ہے اور اس کی صفات میں سے ایک احیاء کی صفت بھی ہے۔ سال گذشتہ میں یعنی ۱۱؍اکتوبر ۱۹۰۵ء کو ہمارے ایک مخلص دوست یعنی مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اِسی بیماری کار بنکل یعنی سرطان سے فوت ہو گئے تھے اُن کے لیے بھی میں نے بہت دعا کی تھی مگر ایک بھی الہام اُن کے لیے تسلّی بخش نہ تھا بلکہ بار بار یہ الہام ہوتے رہے کہ کفن میں لپیٹا گیا۔ 47 برس کی عمر۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان المنایا لا تطیش سھامھا یعنی موتوں کے تیر خطا نہیں جاتے۔ جب اس پر بھی دعا کی گئی تب الہام ہوا۔یا ایھا الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم۔ تؤثرون الحیٰوۃ الدُّنیا۔ یعنی اے لوگو! تم اُس خدا کی پرستش کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے یعنی اُسی کو اپنے کاموں کا کارساز سمجھو اور اس پر توکل رکھو۔ کیا تم دنیا کی زندگی کو اختیار کرتے ہو۔ اِس میں یہ اشارہ تھا کہ اسی کے وجود کو ایسا ضروری سمجھنا کہ اس کے مرنے سے نہایت درجہ حرج ہوگا ایک شرک ہے اور اس کی زندگی پر نہایت درجہ زور لگا دینا ایک قسم کی پرستش ہے اس کے بعد میںخاموش ہو گیا اور سمجھ لیا کہ اس کی موت قطعی ہے چنانچہ وہ گیارہ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو بروز چار شنبہ بوقت عصر اس فانی دنیا سے گذر گئے۔ وہ درد جو اُن کے لیے دُعا کرنے میں میرے دل پر وارد ہوا تھا خدا نے اس کو فراموش نہ کیا ۔اور چاہا کہ اس ناکامی کا ایک اور کامیابی کے ساتھ تدارک کرے۔ اس لیے اِس نشان کے لیے سیٹھ عبد الرحمٰن کو منتخب کر لیا اگرچہ خدا نے عبد الکریم کو ہم سے لے لیا تو عبد الرحمٰن کو دوبارہ ہمیں دے دیا۔ وہی مرض اُن کے دامنگیرہو گئی آخر وہ اسی بندہ کی دعائوں سے شفایاب ہو گئے۔ فالحمدللّٰہ علٰی ذالک۔ میرا صدہا مرتبہ کا تجربہ ہے کہ خدا ایساکریم و رحیم ہے کہ جب اپنی مصلحت سے ایک دُعا کو منظور نہیں کرتا تو اس کے عوض میں کوئی اور دُعا منظور کر لیتا ہے جو اُس کے مثل ہوتی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔
مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ اَوۡ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنۡہَاۤ اَوۡ مِثۡلِہَا ؕ اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ(البقرۃ:107)
(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد 22صفحہ 338تا340)
٭…٭…٭